(Last Updated On: فروری 16, 2023)
آپ زویا مجیب ہیں ۔۔۔
وہ کیفے میں بیٹھی سموسہ کھانے میں مصروف تھی کے ۔۔پیچھے سے کسی نے ۔۔۔اس کو پکارا
جی میں زویا مجیب ہوں
زویا نے اس آدمی کی طرف دیکھتے ہوے کہا
آپ کو سر نے بلایا ہے آفس ۔۔
سر نے بلایا ۔۔ہے ؟ وہ چونک گئی جی سر مطلب پرنسپل صاحب نے بلایا ہے اس آدمی نے زویا کو وضاحت دی جیسے ہی زویا نے یہ بات سنی اس نے بے ساختہ کہا پرنسپل صاحب نے؟ کیوں؟ کس لیے بلایا ہے؟ زویا نے آگے سوالوں کے پہاڑ اس آدمی کے سامنے رکھ دیے
جی اس کا تو مجھے پتا نہیں ہے کے انہوں نے آپ کو کیوں بلایا ہے لیکن ان سب سوالوں کے جواب وہی جاکر پتا چل سکتے ہیں نا؟ اس آدمی نے اکھڑتے ہوے انداز سے کہا زویا نے سر ہلایا اور جلدی سے اپنی چیزیئں پکڑی اور اس آدمی کے شانہ بشانہ چلنے لگی
سر پرنسپل نے بلایا ہے لیکن کیوں کس وجہ سے؟
کیی سوال زویا کے دماغ میں پیدا ہو رہے تھے
کہیں اس کھڑوس ٹیچر نے ۔۔۔میری شکایت تو نہیں لگادی اف میرے خدایا ۔۔۔یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ ۔میں نے کبھی نہیں ۔سوچا تھا ۔۔کہ میرا یونیوڑسٹی میں پہلا دن اس قدر برا گزرے گا ۔۔۔یہ میری زندگی کا نہ کبھی بولنے والے واقعیوں میں سے ایک واقع تھا ۔۔۔۔وہ انہی سوچوں میں گم تھی ۔۔۔۔
کہ اس آدمی نے زویا کی طرف مڑ کر کہا ۔۔۔آپ یہان ویٹ کریں جیسے ہی آپ کو سر بلائیں گے آپ کو بتا دئیں گے جی ٹھیک ہے زویا نے سر ہلاتے ہوے کہا
زویا نے جیسا ہی اگلا قدم ۔کمرے میں رکھا ۔۔۔۔۔۔
اس کی آنکھیں ۔۔کھلی کی کھلی رہ گئی ۔۔۔۔جس چیز کا اسے ڈر تھا وہی ہوا ۔کوئی انسان ۔۔اس قدر اکڑ و غرور والا ہو سکتا ہے ۔۔مطلب ؟ حد ہوتی ہے کسی چیز کی ۔۔۔کیا کہہ دیا تھا میں نے انھیں جو یہ اب سر تک میری شکایت لے کر جائیں گے یہ اپنی انسلٹ کا ایسے بدلہ لیں گے میں نے کبھی نہیں سوچا تھا ایسا لگ رہا تھا زویا کو کسی چیز نے اپنی پوری طاقت سے روک دیا ہوا اس کی سیاہ گول گول آنکھیں بلکل ٹھر گئی تھیں ۔۔۔۔
اس سے پہلے یہ بات کو اور بڑھائیں مجھے ان سے معافی مانگ لینی چاہیے ۔۔۔
یہ سوچتے ہوے زویا ان کی طرف بڑھی جو اپنی نظریں جھکائیں نیچے دیکھ رہے تھے ۔۔۔ایسا لگ رہا تھا وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبے تھے ۔۔۔۔
سر غلطی تو انسان سے ہوتی ہے انسان تو غلطیوں کا پتلا ہے ۔۔۔۔۔۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں کے اسے اپنی غلطی سدارنے کا موقع دینے کی بجاے ۔۔۔۔۔ اسے اس طرح ذلیل کیا جاے
انہوں نے اچانک زویا کی طرف دیکھا ۔۔جو بڑی معصومانہ انداز میں ۔۔اپنا دلائل پیش کر رہی تھی
مطلب سر میں جانتی ہوں میری غلطی تھی مجھے اس طرح آپ سے نہیں بولنا چاہیے تھا ۔۔لیکن اس وقت میں کونسا جانتی تھی کہ آپ میرے سر ہیں ۔۔۔قسم سے سر اگر مجھے پتا ہوتا کے آپ میرے سر ہیں ۔۔۔۔
تو میں ؟
زویا نے آنکھیں بند کی ہوئی تھی اور مسلسل بولتی جارہی تھی
تو میں
انہوں نے آگے سوال کیا
تو میں ۔۔۔۔۔وہ رکی ۔۔۔تو میں کبھی بھی آپ کو باتیں نہ کرتی ۔۔۔۔
زویا نے یقین دلاتے ہوے کہا
اچھا ۔۔۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ دوسرے لوگوں سے ایسی ہی باتیں کرتی ہوں گی انہوں نے زویا کی طرف دیکھتے ہوے کہا ۔۔۔۔
بلکل بھی نہیں سر آپ غلط سمجھ رہے ہیں ۔۔۔
میں نے آج تک کیسی کو کچھ نہیں کہا ۔۔۔۔
بلکے الٹا میں معاف کر دیتی ہوں
وہ زویا کی یہ بات سن کے دل ہی دل میں مسکراے
کیونکہ معاف کرنا اچھا کام ہے اسلیے سر جانے دے اس معاملے کو رفہ دفع کریں ۔۔۔ویسے بھی ۔۔۔۔
سر میری کیا امیج بنے گی پرنسپل کے سامنے ۔۔کیا سوچے گے وہ ؟ کیسی لڑکی ہوں میں ۔۔۔۔
اس لیے سر پلیز آپ پرنسپل کو شکایت مت لگائیں آپ کا کیا ہے آپ کو تو کوئی کچھ نہیں کہے گا ساری یونی میں میرا ہی مذاق بناے گی ۔۔۔۔
سر پلیز ۔۔کچھ تو خیال کرئیں وہ لگا تار ۔۔۔۔بولی جارہی ۔۔۔تھی ۔۔
بس ۔۔۔۔۔۔۔
اب ایک اور لفظ نہیں ۔۔۔۔۔
آپ کتنا کم بولتی ہیں نا
اور ہاں میں آپ کی کوئی complainکرنے نہیں آیا ۔۔
سمجھی آپ
وہ ۔۔بہت غصے سےیہ کہتے ہوے باہر کی طرف روانہ ہو گئے
جیسے ہی وہ روانہ ہوے زویا ۔کو پرنسپل صاحب نے اندر آنے کا پیغام بیجھا
***************
اسلام و علیکم خالہ
جیسے ہی وہ گھر کے اندر داخل ہوئی اس نے خالہ کو سلام کیا اور ان کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی
ثمرین جو کتاب پڑنے میں مصروف تھی اس دیکھ کے بے ساختہ مسکرائی
و علیکم اسلام کیسا گزرا یونیوڑسٹی کاپہلا دن
جیسے ہی ثمرین نے سوال کیا زویا ۔۔۔۔بلکل خاموش ہو گئی اسے ۔۔۔سارا واقعہ پھر سے یاد آیا کیا ہوا ہے زویا ۔۔۔کوئی بات ہوئی ہے ثمرین نے پریشانی سے پوچھا
نہیں نہیں خالہ ایسی کوئی بات نہیں ہے یونیوڑسٹی کا پہلا دن بہت اچھا گزرا ۔۔۔اتنا اچھا کے میں بیان نہیں کر سکتی
زویا نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن وہ مسکرا نہ سکی ۔۔۔۔
چلو یہ تو اچھا ہے ۔۔۔
اچھا تم تھک گئی ہو گی ۔۔روکو میں تمھارے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں ۔
ثمرین نے مسکرا کر زویا کی طرف دیکھا اور کچن کی طرف روانہ ہو گئی
شکریہ خالہ زویا مسکرائی
***************
آگئی یاد سہلی کی ۔۔۔کہاں تھا میں نے تمھیں کہ تم نے بھول جانا ہے مجھے ۔۔۔۔۔
جیسے زویا نے ۔۔۔تانیہ کو کال کی اس سے پہلے وہ بولتی اس نے ۔۔اپنا ۔۔۔دکھ و درد بیان کرنا شروع کردیا
ارے ۔۔بس کر ۔میری ماں کتنی دفعہ کہا ہے میں تمھیں کیسے بھول سکتی ہوں ۔زویا نے اکھڑتے ہوے کہا
کیا ہوا ہے بڑی اکھڑی اکھڑی سی لگ رہی ہو
تانیہ پریشان ہوئی
ہونا کیا ہے ۔۔یار میری قسمت ہی خراب ہے ۔
زویا نے مایوسی سے کہا
کیوں ۔کیا ۔سارم ۔۔۔۔بہت بد صورت نکلا ۔۔۔۔وہ طنزا مسکرا دی
ایک تم ہمیشہ ۔۔سارم کو کیوں ہر بات میں لے کر آتی ہو ۔۔۔۔
تانیہ میں ۔۔تمھیں بتا رہی ہوں ۔۔اسے کچھ نہ کہا کرو
زویا نے دھمکی دی
ہاہاہاہا ۔۔۔۔اچھا ۔۔کچھ نہیں کہتی زویا کے سارم کو
تانیہ پھر مسکرائی ۔۔اچھا بتاو اب ہوا کیا ہے
یار تمھیں پتا ہے آج میرے ساتھ ۔۔۔کیا ہوا
زویا نے تانیہ کو سارے دن کا واقعہ سنایا
ہاے ۔۔میرے اللہ زویا اتنا کھڑوس ۔۔۔ٹیچر ہے وہ ۔۔۔طوبا طوبا ۔۔۔۔۔
تانیہ نے کانوں پر ہاتھ لاگاتے بولا
زویا بیٹا ۔۔۔کھانا لگ گیا ہے ۔۔نیچے ۔۔آکر کھا لو
اس کی خالہ نے زویا کو آواز لگائی
اچھا تانیہ میں کل تمھیں کال کروں گئ
ٹھیک ہے اللہ حافظ زویا نے یہ کہتے ہوے کال بند کی اور فورا نیچے چلی گئی
آو بیٹا بیٹھو ۔۔۔ثمرین اور شہریار سامنے چیرز پہ بیٹھے تھے ۔۔۔زویا بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئی
**************
زویا اور شہریار ۔۔۔آپس میں باتوں میں مصروف تھے ۔۔۔۔
کے کوئی اندر داخل ہو ا
اسلام و علیکم امی جان ۔۔۔۔۔ زویا نے مڑ کر پیچھے دیکھا ۔۔
سب ۔۔۔کچھ تھم گیا ۔۔۔
دھک دھک ۔۔۔۔دھک۔۔۔دھک ۔۔۔۔۔اس کا دل زور سے دھڑک ۔۔رہا ۔۔۔تھا ۔۔۔یہ ۔۔۔کوئی خواب تھا ۔۔یا واقعی میرے سامنے کھڑا تھا ۔۔۔
اتنے سالوں ۔۔میں ۔۔اور اس سالوں کے گزرے دنوں میں کوئی ایسا۔دن نہ تھا ۔۔ جس میں
میں نے اس سے ملنے ۔۔کی دعائیں نہ کیں ہوں ۔۔
جس نام سنتے ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ۔۔۔تھی
آج زویا مجیب ۔۔۔کا سارم حسن اس کے سامنے تھا ۔۔جس کو وہ بن دیکھے ۔۔ہی اپنی ساری زندگی ۔۔۔اس کے نام کر بیٹھی تھی ۔۔۔۔آج ۔۔وہ اس کے سامنے تھا ۔۔بہت قریب ۔۔۔۔ جس کے لیے ۔اس کا دل دھڑکتا تھا ۔۔۔جس کے ساتھ وہ ۔اپنی ساری زندگی ۔۔۔گزارنا ۔۔چاہتی تھی ۔۔۔۔
زویا بلکل خاموش تھی ۔۔۔
اس کی آنکھیں ۔۔کھلی ۔۔کی کھلی ۔۔رہ ۔گئی ۔۔۔۔
وہ وہی مقبول ۔۔صورت نوجوان تھا ۔۔۔آج ۔بھی وہ ۔۔ویسا ہی لگ رہا تھا ۔۔ٹی شرٹ جس کی آستینں کہنیوں چڑی ہوئی ۔۔۔۔ اور آنکھیں۔۔ایسے ۔۔جیسے دیکھ کر ہر کوئی مدہوش ہو جاتا ۔۔۔
وعلیکم اسلام سارم بیٹا ۔۔آو ۔۔۔تم بھی کھانا کھا لو
ثمرین نے مسکراتے ہوے ۔۔۔سارم کو کھانے کی دعوت دی
جی ضرور ۔۔سارم ہلکا سا مسکرایا ۔۔۔اور چیر پر بیٹھ گیا
ثمرین ۔۔سارم کو کھانا پڑوستے ہوے کہا ۔۔
اچھا بیٹا اس سے ملوں ۔۔یہ تمھاری کزن تمھاری خالہ کی بیٹی زویا ۔۔۔۔جیسے ہی ثمرین نے کہا زویا کا نوالہ حلق میں اٹک گیا ۔۔
وہ کھانسنا شروع ہو گئی
کیا ہوا ہے بیٹا ۔۔۔تم ٹیھک تو ہو
ثمرین نے زویا کی طرف دیکھتے ہوے کہا
جی ۔۔۔ج۔۔ج۔۔میں ٹھیک ہوں۔
زویا نے گھبراتے ہوے کہا
جی جی امی میں مل چکا ۔۔ہوں ان سے ۔۔بلکے ۔ہماری تو اچھی جان پہچان ہو چکی ہے ۔۔۔۔
سارم نے ایک طنزا مسکراہٹ سے زویا کی طرف دیکھتے ہوے کہا
واقعی ۔۔۔زویا
ثمرین نے زویا کی طرف دیکھا ۔۔
جی خالہ ۔۔۔میری تو ان سے بڑی گہری پہچان ہو چکی ہے ۔
اف میرے خدایا ۔۔کیا ۔میری زندگی میں ۔۔۔۔نہ کبھی بولنے والے واقعات کم تھے
۔جو یہ ایک اور۔۔دیکھا دیا یا میرے اللہ یہ کیسا کھیل ہے مطلب کیا واقعی جو میں دیکھ رہی ہوں وہ سچ ہے ۔۔۔نہین نہیں یہ سارم نہیں ہوسکتے میں نے تو ان کی اتنی انسلٹ کی تھی مجھے کیوں نہیں پتا چلا ۔۔ہاے زویا مجیب تمھارا فرسٹ ایمپریشن سارم کے سامنے ایک چلاک اور زبان دراز لڑکی کا پڑا ہے ۔۔ ۔ اس وقت زویا کا دل کررہا تھا کے اللہ کوئی ایسا معجزہ کر دے یا تو میں زمین میں گڑ جاوں یا مجھے اٹھا لے
میرا ٹیچر ہی سارم نکے ۔۔۔۔ گا میں نے کھبی نہیں سوچا تھا زویا بلکل خاموش بیٹھی کھانا کھانے کی ۔۔۔کوشش کر رہی تھی ۔۔لیکن اس وقت اسے سواے ۔۔سارم کے علاوہ کچھ نہیں سوجھ رہا تھا
اچھا خالہ میں چلتی ہوں
زویا کے پاس اور ہمت نہیں تھی کے وہ فقط اور بیٹھ سکے
کھانا تو کھا لو ۔۔ثمرین نے زویا سے کہا جی خالہ میں نے کھا لیا
وہ ایک منٹ بھی اور نہیں رک سکتی تھی۔۔۔
***********
یہ کیسی محبت ہے اے میرے خدا ۔جس شخص کو دیکنے کے لیے میں ترس گئی تھی ۔۔۔۔جس سے ملنے کے لیے ۔۔۔میں نے ۔۔۔کیا کیا نہیں کیا ۔۔لیکن ۔۔۔آج وہ میرے سامنے ہونے کے باوجود ۔میں کچھ نہیں کہہ سکی
وہ میرے اتنے قریب تھا ۔۔۔۔لیکن ۔پھر یہ فاصلہ کیوں ۔۔آگیا ۔میرے خدایا ۔۔۔
کیوں سارم ۔۔۔کو مجھ سے اس وقت ملایا ۔۔۔۔جب میں اسے ۔۔۔جانتی بھی نہیں تھی ۔۔۔۔پہلے میں ان سے ٹکرائی
وہ میرے سر نکلے
اور اب ان سے ٹکرائی
تو
میری ۔۔
اندھی محبت ۔۔۔۔۔۔۔
زویا ۔۔۔۔۔اپنے کمرے ۔۔میں بے چینی سے بیٹھ اسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کے اس کا سر ہی ۔۔۔
اس کا کزن نکلے گا ۔۔۔۔
اس نے
( کتنے کھڑوس ہیں یہ ۔۔۔۔۔ کیسے اکڑ کے چلتے ہیں )
زویا کو بار بار ۔۔۔وہی یاد ۔۔آرہا تھا
ہاے ۔۔۔۔۔۔اللہ یہ کیا ہو گیا
اس نے تانیہ کو کال ملائی کیونکہ وہ ہمیشہ ہر بات پہلے ۔۔۔تانیہ کو بتاتی تھی ۔۔۔۔۔
ہیلو تانیہ ۔۔۔زویا نے ۔افسردگی سے کہا
کچھ نہیں ہوتا زویا ۔۔۔ نہ افسردہ ۔۔ہو ۔۔دکبھی نہ کبھی تم سارم کو دیکھ لو گی
تانیہ نے فورا کہا
میں نے سارم کو دیکھ لیا ہے تانیہ ۔۔۔
زویا نے روتے ہوے کہا
ہاے ۔میری قسمت ۔۔کہا تھا میں نے زویا اندھی محبت نہ کرو ۔۔
نہ تم نے اسے دیکھا اور اس سے محبت کر بیٹھی ۔۔مجھے ۔۔پہلے ۔۔ہی لگ رہا تھا وہ بد صورت ہی ہوگا ۔۔۔۔۔کیا کر سکتے ہیں ۔۔اب زویا حوصلہ رکھو ۔۔تانیہ نے
مایوسی سے کہا
کیا بکواس کر رہی ہو ۔۔۔۔۔
پہلے پوری بات ۔۔تو ۔۔سنوں ۔۔۔
تمھیں ۔۔پتا ہے ۔۔
وہ سر جن سے میں ٹکرائی ۔۔تھی جن کی میں نے انسلٹ کی تھی ۔۔تمھیں پتا ہے وہ کون تھا
زویا نے بے چینی سے کہا
کون ؟ زویا
تانیہ گھبرائی
وہ سارم حسن تھا ۔۔۔۔تانیہ ۔
جس کو میں پہچان ہی نہیں پائی ۔۔
کیا سوچا ہو گا سارم نے میرے بارے میں ۔۔کے میں کیسی ۔۔لڑکی ہوں ۔۔۔
زویا نے روتے ہوے کہا
او واہ ۔۔زویا ۔۔کیا ۔کیمسٹری ہے تم لوگوں کی؟
تانیہ نے اچھلتے ہوے کہا ۔
کیا مطلب ؟
زویا حیران ہوئی
مطلب یہ کے کتنا اچھا ہوا ہے ۔۔پہلے تم لوگ ۔ٹکراے انجانے لوگوں کی طرح ۔۔۔
پھر ۔۔۔۔وہ تمھارے ۔۔۔ٹیچر ۔۔
اور ۔۔
پھر ۔۔۔۔
تمھاری ۔۔۔۔۔۔
بن دیکھے ۔۔۔۔۔کی ہوئی ۔۔محبت او واو ۔۔۔کیا ۔رومنٹک ۔۔ مووی ۔کی طرح ہے ۔۔۔کتنا مزہ اے گا نا
تانیہ نے اچھلتے ہوے کہا
واہ واہ ۔۔کیسی دوست ہو ۔۔تم میری ۔۔یہاں میری جان ۔پر بنی ہے ۔۔۔اور تم بجاے مجھے حوصلہ دینے کے
تمھیں یہ سب رومنٹک لگ رہا ہے
تم میرے زخموں پر مرہم لگا رہی ہو یا ۔۔مزید اسے ۔۔۔گہرا کر رہی ہوں ۔۔۔
زویا نے غصے سے کہا ۔۔۔۔۔
او ۔۔۔۔میری ۔۔جان پریشان مت ہو ۔۔ابھی تو یہ محبت کی شورو و ات ہے ۔آگے آگے دیکھو ۔۔ہوتا ہے ۔۔کیا
اور زویا ۔۔تم پریشان مت ہو ۔۔ہاں وہ زرا کھڑوس ہے غصے والا ہے تو کیا ہوا ۔۔۔
وہ محبت ہی تو تم سے ہی کرے گا نا
تانیہ نے تسلی دی
تم کیسے اتنے یقین سے کہہ سکتی ہو کہ سارم مجھ سے ہی محبت کرے گا
زویا نے سوال کیا ۔۔۔۔
جب ۔اسے ہوگی ۔۔نا تو تمھیں ۔۔۔۔۔۔اس سے زیادہ ہوگی ۔۔۔۔
اور ویسے بھی میری اتنی پیاری دوست ہے کیسے اسے تم سے محبت نہیں ہوگی ۔
تانیہ نے مسکراتے ہوے کہا ۔۔
ہاہاہاہاہا ۔۔۔تم اور تمھارے سہانے ۔۔۔خواب مجھے تو ایسے کوئی آثار نظر نہیں آے ۔۔وہ میری ۔۔طرف دیکھتے نہیں ۔۔۔اور تم محبت کی بات کر رہی ہو ۔۔۔اچھا ۔۔۔
میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں زویا نے یہ کہتے ہوے ۔۔۔فون بند کیا ۔۔۔۔
وہ ابھی بھی بے چین تھی ۔۔۔۔
یہ
محبت ۔۔۔۔اسے کس مقام تک پہنچاے گی
وہ بیچنی سے بیٹھی تھی ۔۔۔تانیہ سے بات کرنے کے باوجود وہ بے چین تھی اسے یقین نہں ہورہا تھا وہ سارم ہے ۔۔اس یوں محسوس ہورہا تھا کے وہ کوئی عارضی خواب دیکھ رہی ہے جس سے کبھی بھی اس کی آنکھ کھل جاے اور سب کچھ ٹیھک ہو لیکن ایسا نہیں ۔۔ حقیقت میں وہ سارم حسن ۔جس سے وہ پہلے مل چکی تھی ۔۔کاش میرے پاس کوئی ایسی مشین ہوتی جس سے میں وہ سارا وقت جس وقت میں نے سارم کو باتیں کی تھیں ۔سب کچھ مٹا دیتی ۔۔۔اس کے دماغ سے بھی ۔۔۔۔زویا مسلسل بیڈ پہ بیٹھے اپنے ہاتھوں کو مسل رہی تھی ۔۔
پھر وہ اپنے بیگ کے جانب بڑی اور بیگ سے ڈائری نکاکی ۔۔۔اور چیر پر بیٹھ کر اس نے لکھنا شروع کیا وہ اکثر بے چینی اور پریشانی کے حالت میں تانیہ سے بات کرنے کے علاوہ اپنے دل کی ہر بات وہ ڈائری میں لکھتی تھی ۔۔۔۔
زویا کی زندگی میں دو ایسے شخص تھے جو اس کے ہر راز سے واقف تھے
پہلی اس کی دوست اور دوسری اس کی ڈائری ۔۔۔۔
اور آج اسے اس قدر جھٹکا لگا تھا وہ شائد ڈائری کے کاغذوں میں سہنےکی ہمت تھی
* ہم جس کو بن دیکھے ہی اپنا بنا بیٹھے تھے ۔۔۔۔
جس سے ملن کے آنکھوں میں خواب سجا بیٹھے تھے ۔۔۔۔
جس کی تصویر ہم نے آنکھوں میں اپنے بسائی تھی ۔۔۔۔
جس کی حفاظت کے لیے ۔۔۔۔۔ہم رات دن دعائیں کرتے تھے ۔۔۔۔۔
آج وہ ۔۔ہمیں یو ملے ۔۔۔۔گےاس ۔۔۔کا اندازہ ۔ہم نہ لگاے بیٹھے تھے ۔۔۔
آج وہ میرے نزدیک تھا ۔۔۔۔لیکن پھر ۔۔۔فاصلہ ۔۔۔پھر ۔۔ایک ۔۔انتظار کی گھڑی ہمارے درمیان پیدا ہو گئی ۔۔۔۔کیوں؟
آخر اتنے سالوں کا انتظار کم نہیں تھا جو میں اور انتظار کرتی ۔۔۔
آخر میں نے ان سے محبت کی ۔۔اب اس محبت کا یقین دلانے ۔۔۔۔میں ۔۔مجھ میں ۔ہمت ۔۔۔کیوں نہیں پیدا ہو رہی ۔۔۔
چاہے ۔۔وہ کھڑوس ہیں غصے والے ۔ہیں ۔لیکن وہ میرے ہیں ۔۔زویا مجیب کے ہیں ۔۔
میں ۔۔اپنی زندگی کا سفر ان کے علاوہ اور کسی کے ساتھ تہہ نہیں کروں گئ
*************