راحب اندھا دھند گاڑیب بگھاتا اب ایک ہسپتال کے باہر پہنچا ۔جہاں ہر طرف ہو اور نفسانفسی کا عالم تھا۔یہ منظر دیکھ کر سلویٰ کا دل برا ہوا اسے قیٰ محسوس ہونے لگی۔وہاں ہر طرف خون ہی خون تھا لوگ پاگلوں کی طرح ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔پولیس موبائیلز ایمبولس کی آوازیں ماحول کو اور پراسرار بنانے لگیں۔آرمی کا بھی بہت بڑا گروہ شامل تھا۔
سلویٰ میری بات سنو!۔
راحب گاڑی سے اتر کر اسکی طرف آکر جھکا۔
کچھ بھی ہو تم نے باہر نہیں آنا۔سن رہی ہونا؟
سلویٰ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
اسکا اس ماحول میں خود دم گھٹ رہا تھا۔
سلویٰ نے آنکھیں میچ کر اس ماحول کو بھلانے کی کوشش کی مگر دھیان باہر ہی جاتا۔
اس نے گردن گھمائی سب کچھ باریک بینی سے دیکھنے لگی۔
جہاں ایک عورت بغیر دوپٹے زخمی حالت ایک کونے میں پڑی “بچہ بچہ چلا رہی تھی۔اسکی حالت سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کچھ دیر قبل ہی ماں بنی ہے ۔
سلویٰ کے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا۔
گویا ایک ماں بچے کے بغیر؟؟اور وہ بچہ جسے دنیا میں آئے چند لمحے ہوئے وہ ماں کے بغیر؟؟؟یہ ظلم کبیرہ نہیں تو کیا ہے۔
اور چند لمحے بعد وہ عورت وہیں دم توڑ گئی۔۔
یا اللہ!!۔
سلویٰ نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔آنسو اسکی آنکھوں سے رواں تھے۔
دوسری طرف ہی ایک ضعیف بوڑھی اپنے جوان بیٹے کی لاش پر بیٹھی بین کر رہی تھی۔
جوان اولاد کا آنکھوں کے سامنے دم توڑنا چالیس اموات کے برابر ہے۔
کیا پتا یہ بیٹا اس بوڑھی ماں کا آخری سہارا ہو اور ناجانے اس نے کن وختوں سے اسے پالا ہو۔
وہ دل ہی دل میں سوچے گئی۔
تو کہیں نو بیہاتا جوڑا اپنے پھولوں بھری زندگی میں کانٹے امڈتا دیکھ رہا تھا۔سلویٰ واضح دیکھ سکتی تھی کہ اس کے ہاتھوں کی مہندی ہنوز تازی تھی جو اپنے شوہر کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگ رہی تھی۔
کیا باقی کا وہ سفر تنہا کاٹ لے گی۔کیا اتنی سی عمر میں بیوہ ہونا اذیت کی آکری حد نہیں۔
کیا میں راحب کے بغیر ؟؟؟
اسکے دل میں اچانک خیال نمودار ہوا۔
یہ خیال ہی جان لیوا تھا اس سے مزید کچھ آگے سوچا ہی نہ گیا۔
راحب کا گاڑی میں پڑا موبائیل مسلسل بج رہا تھا سلویٰ میں تو ہمت نہیں تھی کہ اٹھاتی اور وہ سلویٰ کی نظر اس تک گئی جو کسی کو سہارا دیتا پانی پلا رہا تھا۔
اسے احساس ہوا راحب ٹھیک کہہ رہا تھا مجھے یہاں نہیں آنا چاہئے۔ناجانے کیوں میں ہر بات پر جزباتی ہو جاتی ہوں۔
شائد یہی فرق ہے مجھ میں اور راحب میں۔میں جزبات سے کام لیتی ہوں اور وہ ہوش سے۔ ٹھیک کہتی ہیں اماں اگر ہم لڑکیا جزبات کے دائروں سے تھوڑا سا باہر آکر دیکھیں تو شائد ہم سا عقلمند کوئی نہ ہو۔
اسے قے محسوس ہونے کے با وجود آ نہیں رہی تھی ۔
وہ چند لمحے آنکھیں موندھے سیٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﺭﻭﮒ ﻟﮕﺎ ﺑﯿﭩﮭﯽ ….
ﺍﭘﻨﺎ ﺁﭖ ﮔﻨﻮﺍﮦ ﺑﯿﭩﮭﯽ ….
ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﺲ ﻧﺲ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﺍﭨﮭﯽ …
ﮐﮧ ﺗﻢ ﺑﻦ ﻋﺸﻖ ” ﺩﺭﺩ ” ﭘﯿﺎ ….
ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﻧﺴﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻮﮞ ﺭﭺ ﮔﯿﺎ ﮐﺴﯽ ﺯﮨﺮ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ۔ ﺑﺲ ﮔﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﻦ …
ﮐﮧ ﺗﻢ ﺑﻦ ﻋﺸﻖ ” ﺩﺭﺩ ” ﭘﯿﺎ …
ﻣﺠﮭﮯ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﺎ ﺁﺋﮯ ﺭﺍﺕ ﺩﻥ …
ﻣﯿﮟ ﭼﯿﻦ ﻧﮧ ﭘﺎﺅﮞ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﻦ …
ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ، ﺭﻭ ﺭﻭ ﮐﺮ ﺍﺏ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ،
ﺗﻢ ﺑﻦ ﻋﺸﻖ ” ﺩﺭﺩ ” ﭘﯿﺎ …
ﺗﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩﯾﮟ ﻧﻮﭺ ﻧﻮﭺ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ …
ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﺏ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ …
ﻧﮩﯿﮟ ﺟﯿﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﻦ ….
ﮐﮧ ﺗﻢ ﺑﻦ ﻋﺸﻖ ” ﺩﺭﺩ “پیا
کچھ دیر سے وہ کسی سے رونے بلبلانے کی آواز سن رہی تھی۔اس نے ان آوازوں کو بھی سب کی طرح ان سنا کر دیا۔راحب نے باہر آنے سے سختی سے منع کر رکھا تھا۔
وہ آواز کسی نومولود بچے کی تھی۔
سلویٰ نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا مگر کچھ نظر نہ آیا۔
پر بچے کی چیخ و پکار جاری تھی۔
اب اسکی بس ہوئی اور وہ فورا باہر نکلی اور بچے کو ڈھونڈنے لگی۔
ہسپتال کا ملبہ گر کر جگہ جگہ بکھرا تھا وہیں چند قدم دور کچھ دن کا بچہ کسی ڈھیر تلے دبا تھا۔
سلویٰ کا سانس ایک دم اٹکا۔
اس نے ادھر ادھر دیکھا کہ کسی کو مدد کیلئے بلائےمگر وہاں ہوش کسے تھا۔وہ بچہ دوسری جانب پڑا تھا شائد اسیلئے کسی کو آواز نہیں گئی۔
وہ فورا آگے بڑھی اور اس الٹ پڑے بچے کو اٹھایا جسکی ایک آنکھ کافی زخمی تھی۔یہ بھی کوئی خدائی معجزہ تھا کہ وہ اتنی مٹی تلے زندہ تھا۔سلویٰ نے اسے اپنی چادر تلے ڈھانپا اور گاڑی تک لے آئی۔بچہ چیخ چیخ کر رو رہا تھا۔سلویٰ کو کچھ سمجھ نہ آئی وہ کیا کرے اتنے چھوٹے بچے کے ساتھ۔
اس نے بوتل کے ڈھکن سے دو گونٹ پانی اسکے منھ میں ڈالا تو وہ کھانسنے لگا۔اور اسکے آواز بند ہو گئی۔
سلویٰ ڈر گئی اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔چند لمحوں بعد اس بچے کی حرکت بند ہو گئی۔سلویٰ کا سانس رکا مگر اس نے اسے اپنے سینے سے دور نہیں کیا۔
نیلگوں روشنی میں نہاتے اس کمرے میں بڑی ایل ای ڈی سکرین چسپاں تھیں ۔جس میں کسی ہسپتال کے بلاسٹ کا منظر رونما تھا۔گول دائرے میں بیٹھے سنگ دل اسے جوس سنیکس کے ساتھ مسکراتے انجوائے کر رہے تھے گویا کوئی کامیڈی شو چل رہا ہوں۔چہرے سے وہ کوئی غیر ملکی معلوم ہوتے تھے مگر چند ایک پاکستانی بھی تھے۔
آئی تھینک ثمرین یو شڈ کم اینڈ جوائن اس یو ول انجوائے۔۔۔
انگیریزی لب لہجے میں ایک فرنگی نے اسے مخاطب کیا تو وہ گھور کر نظریں پھیر گئی۔
وہ ان سب سے الگ تھلگ رخ پھیر کر بیٹھی تھی۔
آووو آئی تھنک شی بئیر آآ چک ہاڑٹ۔۔۔دوسرے نے
اس پر طنز کیا تو وہ سب ہنس پڑے۔
یاہ رائٹ پیکستانی پیپل آر ڈیم فئیری۔۔۔تیسرے نے انگریزی لب و لہجے میں اسے طیش دلایا۔
او جسٹ شٹ اپپپپپپ!!!!!!!۔
اس نے پاس پڑا میز زور سے نیچے پھینکا تو وہ سب چونک گئے۔
اور اپنی گن اٹھا کر ایک کی کنپٹی پر رکھی۔
پاکستانی ڈرپوک ہوتے ہیں تو گن دیکھ
کر تم کیوں حواس باساختہ ہو رہے ہو ایک سیکنڈ لگے گا مجھے تم سب کو موت کے گھاٹ اتارنے میں یہ جو سب دیکھ رہے ہو نا۔اس نے سکرین کی طرف اشارہ کیا۔میری وجہ سے ہی ورنہ ابھی جیل بھیج دوں کسی کو خبر بھی نہ ہو۔میں اگر تم لوگوں کے معاملات سے دور ہوں تو یہ تم لوگوں کا ہی فائدہ ہے ورنہ وہ حال ہوگا تم لوگوں کا”دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا”۔
نہ اپنے ملک کے رہو گے نہ میرے۔
ثمرین سکندر شاہ نام ہے میرا یاد رکھنا۔
ایک لمحے کو اس حال میں خاموشی چھا گئی۔
گورے کی کنپٹی پر گہرا سرخ نشان بن گیا تھا۔
وہ غصے سے دندناتی وہاں سے چلی گئی۔
سلیمانی صاحب۔۔
ججی میڈم۔۔
آپکو کچھ کہا تھا میں نے۔؟؟
اب وہ بلکل تحمل میں آ چکی تھی گویا اسے کبھی غصہ آیا ہی نہ ہو۔
میڈم وہ لڑکاب فون نہیں اٹھا رہا ۔
جواز کچھ خاص پسند نہیں آیا مجھے۔
ثمرین نے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔
آپ جانتے ہیں نا سلیمانی صاحب میرے ساتھ کیوں ہیں؟
وہ چپ کر کے سر جھکا گئے۔
کیونکہ آپ نے ہمیشہ وہ کیا ہے جو کہا گیا مجھے جواز بلکل پسند نہیں کام کہا ہے تو اسکا ہونا فرض ہے۔
جی آپ بےفکر رہیں ہو جائے گا ۔
کب؟؟
جلد۔۔
گڈ ہو جا نا چاہئے۔۔۔
لگاتار چھ گھنٹے گزر چکے تھے انھیں بلاسٹ سمبھالتے ہسپتال تقریبا خالی ہو چکا تھا۔سارے عملے مریضوں کو ہسپتال اور وفات شدگان کو قبرستان پہنچا دیا گیا تھا۔۔
شام کے سائے گہرے ہونے کو تھے گویا رات کا استقبال تھا۔
راحب ایک کونے میں تھکن سے چور بیٹھا پانی کی بوتل خود پر گرائی اور آنکھں زور سے بند کر کے کھولیں۔
اور اچانک اسے یاد کہ
“میرے ساتھ تو سلویٰ بھی تھی۔”
وہ اسی رو میں دوڑتا گاڑی تک آیا مگر باہر سے گاڑی خالی نظر آ رہی تھی۔
راحب کا دل زور سے دھڑکا۔
“سلوی؟؟؟؟”
پر جب اندر آیا تو وہ گاڑی کے ڈیش بوڑڈ پر سر ٹکائے سو رہی تھی۔
“اوہ لٹل گرل تم نے مجھے ڈرا دیا”
یہ کیا ہے؟ اسے سلویٰ کی گود میں کچھ محسوس ہوا تو آگے ہو کر دیکھنے لگا۔
سلویٰ کی گرفت بہت سخت تھی۔وہ دیکھ نہ سکا۔
سلویٰ؟؟؟
سلویٰ اٹھو؟؟
تم ٹھیک ہو نا؟؟؟؟
ہمممم۔۔سلویٰ ہلکی ہلکی آنکھیں کھولتی نیند سے بیدار ہوئی۔
یقین نہیں آرہا تم اس موقع پر بھی اتنی گہری سو سکتی ہو؟؟
راحب کو افسوس ہو رہا تھا رشک یہ وہ خود بھی نہیں سمجھ پایا۔
وہ پتا نہیں آنکھ لگ گئی۔۔
سلویٰ نے آنکھیں ملیں۔
ویری گڈ۔اور یہ چادر میں کیا چھپایا ہے؟
ہیں ہاں یہ۔۔۔۔سلویٰ کے ذہن میں ہونے والا واقع سرایت کرنے لگا۔اس کا چہرہ زرد ہوا اور ہونٹ خشک۔اگر راحب کو اسکے اس عمل کے بارے میں پتا چل گیا تو وہ کیا کرے گا اس کے ساتھ۔۔
سلویٰ نے جھرجھری لی۔
دکھاو مجھے وہ آگے ہوا تو سلویٰ پیچھے ہو گئی۔
دکھاو مجھے ادھر راحب نے غصے سے اسکی چادر ہٹائی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
یہ کس کا بچہ ہے؟؟؟؟؟اور تمہارے پاس کیوں ہے ؟؟؟کہاں سے آیا؟؟؟
وہ غصے سے نیلا ہو رہا تھا۔
سلویٰ کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے۔
دکھاو مجھے۔راحب نے بچہ سلویٰ سے کھینچ لیا۔
وہ بری طرح زخمی تھا ایک آنکھ تو نظر ہی نہیں آرہی تھی ۔
راحب نے سلویٰ کو دیکھا جو اہنے خون َآلود ہاتھوں کو گھور رہی تھی جو بچے کا تھا۔
اسکے دل کی دھڑکن شائد بند ہو گئی ہے اور نہ بھی ہوئی تو ہو جائے گی۔
سلویٰ نے وہ بچہ راحب سے واپس کھینچ لیا۔
ززززندہ ہے یہ مممیں نےےے اٹھایا تھااا جبب آاآپ جھوٹ نہ بولیں مجھ سے۔
اس نے واپس اسے سینے میں بھینچ لیا۔
سلویٰ یہ کیا بچپنہ ہے مجھے دو میں اسے باقی وکٹمز کے ساتھ پہنچاوں ۔۔
نہیں اسے میں لیکر جاوں گی۔
واٹ؟؟؟؟؟؟؟
راحب ایک دم دھاڑا۔۔
دماغ تو نہیں خراب تمہارا ایسے ہی کسی کو بھی لے جاو گی۔پتا نہیں کہاں سے کس کا بچہ اٹھا لیا ہے اب ساتھ لیکر جانا ہے۔
منع کیا تھا نکلنے کو؟
سلویٰ اسکی سب باتیں سن کر ان سنی کر رہی تھی۔
تم سے بات کر رہا ہوں۔۔
راحب نے اسے بازو سے جھنجھوڑا۔
اسکی ماں مر گئی ہے راحب۔وہ کسی ٹرانس میں بولی۔
راحب نے گہرا سانس لیا وہ سمجھ گیا کہ سلویٰ کے دماغ پر اس حآدثے کا گہرا اثر ہوا ہے
وہ گاڑی سے اتر کر سلویٰ کی طرف آیا۔
سلویٰ دیکھو میری بات سنو مجھے پتا ہے تم یہ سب برداشت نہیں کر سکتی پر ہم ایسے ہی کوئی بچہ اٹھا کر نہیں لے جا سکتے یہ غیر قانونی حرکت ہے ۔اور بہت بھاری سزا ہوتی ہے اسکی۔
وہ جھک کر پیار سے سمجھانے لگا۔
پر سلویٰ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
تمہیں سنائی دیا میں نے کیا کہا دو مجھے ادھر؟
سلویٰ نے گرفت اور سخت کر لی۔
وہ مر جائے گا ایسے تمہیں سمجھ کیوں نہیں آ رہی؟
میں بھی تو یہی کہہ رہی ہوں راحب یہ مر جائے گا پلیز اسے میرے پاس رہنے دیں۔اسکی ماں میری آنکھوں کے سامنے سسک کر مری ہے۔سلویٰ اب زار و قطار رونے لگی تھی۔
راحب کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر آکر گاڑی چلانے لگا۔
اچھا میری بات سنو ہم اسے ہسپتال لیکر جائیں گے ٹھیک ہے اب ایسے تو وہ مر جائے گا نا۔
وہ اسے پیار سے پچکارنے لگا۔
سلویٰ نے اثبات میں سر ہلا دیا پر میں کسی کو دونگی نہیں۔
اچھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ کسی ہسپتال میں جہاں کافی رش تھا۔وہ وہی ہسپتال تھا جہاں تھا سب بومب بلاسٹ والے وکٹم لائے گئے تھے۔
تم یہیں بیٹھو اور مجھے دو اسے میں ڈاکٹر کو دوں۔
راحب آگے کو ہوا۔
نہیں میں خود جاوں گی آپ مجھے پتا ہے واپس نہیں لائیں گے۔
سلویٰ ضد نہ کرو دو مجھے۔
نہیں۔
سلویٰ؟؟؟
وہ چیخا۔
پر وہ جانتا تھا سلویٰ ۰اس پر کوئی اثر نہیں ہونے والا ۔
تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے میں نے کہا ہے تو ضرور واپس لاوں گا۔
ورنہ اسکا علاج نہیں ہوا تو یہ مر جائے گا تم اسے مارنا چاہتی ہو؟
سلویٰ نے نہ میں گردن ہلائی۔
پھر دو مجھے ۔اسکی گرفت ہلکی پا کر راحب نے بچہ اس سے لے لیا ۔
راحب؟
وہ جانے لگا تو سلویٰ نے اسے کلائی سے پکڑ لیا۔
راحب اسے چھوڑ کر نہ آنا آپکو میری قسم۔۔
اسے سلویٰ کی حالت پر رحم آ رہا تھا مگر وہ بھی مجبور تھا اور بچہ لئے اندر چلا گیا۔
چلتے ہوئے راحب نے اس بچے کو غور سے دیکھا کمزور جان چند گھنٹوں کا بچہ جو سلویٰ کے آنچل تلے اب تک زندہ تھا پر کیسے کیوں سلویٰ کو اس سے اتنی انسیت ہو رہی ہے۔
وہ بس سوچتا ہی رہ گیا۔
اور سلویٰ کو یوں لگا گویا اسکے جسم کا حصہ الگ کر دیا گیا ہے۔
انتظار کی گھڑیاں آخر کار ختم ہوئیں ۔سلویٰ کو دور سے راحب آتا دکھائی دیا۔
مگرررر
خالی ہاتھ سلویٰ کی تو جیسے جان پر بن آئی۔
وہ فورا گاڑی سے اتری باہر کو لپکی۔
وہ بچہ کہاں ہے سڑک کے بیچ و بیچ کھڑے وہ راحب سے بچے کا ہوچھ رہی تھی۔راحب کو سلویٰ کی ذہنی حالت پر شک ہوا۔
کہاں ہے۔وعدہ کیا تھا آپ نے مجھ سے بچہ کہاں کیا پھر۔
سلویٰ میری بات سنو۔وہ پہلے ہی مر چکا تھا۔ہم کیا کر سکتے ہیں۔
“جھوٹ”
مجھے پتا ہے وہ نہیں مرا آپ جھوٹ بول رہے ہیں آپ پلاننگ کر کے آئے تھے۔میں جا رہی ہوں اسے لینے۔
سلویٰ وہ ہمارا نہیں ہے ایسے کیسے دے دیں گے وہ تمہیں اسے علاج کی ضرورت ہے۔چلو۔
آپ نے پھر جھوٹ بولا وہ زندہ ہے آپ ہمیشہ مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں مجھے نہیں جانا آپکے ساتھ چھوڑیں مجھے۔
چھوڑیں۔
راحب سے جب وہ سنبھلی نہ گئی تو اسے ایک زوردار تھپڑ جڑ دیا۔
“تراخ”
پل بھر میں سلویٰ کا جسم ساکت ہوا۔
اور اگلے ہی لمحے وہ بیہوش ہوتی راحب کے بازووں میں ہی گر گئی۔
سلویٰ؟
راحب کو اس ہر اور غصہ آنے لگا تھا۔
اور اسی غصے میں وہ اسے ہسپتال لے جانے کے بجائے گھر لے آیا تھا۔
وہ واپس آئے تو نگہت جہاں انہی کے انتظار میں تھی۔
سلویٰ کو راحب نے اٹھا رکھا تھا۔
کیا ہوا سلویٰ کو راحب؟
نگہت جاں فورا اسکے پاس لپکی۔
دماغ خراب ہو گیا ہے اسکا۔
راحب نے سلویٰ کو وہیں صوفے پر لٹا دیا۔
یہ کیا طریقہ ہے راحب ہوا کیا۔
کسی کا بھی بچہ اٹھا لیا ہے اس نے اور کہتی ہے وہی چاہئے جیسے وہ کوئی کھلونا ہے اور یہ دو سالہ بچی۔
اسی لئے کہتا تھا مجھے شادی نہیں کرنی اور آپ نے بھی ڈھونڈی تو یہ ایک اممیچور بےوقوف لڑکی۔
وہ غصے سے پنپتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
نگہت جہاں حیرت سے اسے دیکھتی رہیں۔کل تک تو سب ٹھیک تھا یہ آج کیا ہو گیا۔
سلویٰ میری بچی اٹھو۔
وہ اسے پانی پلانے لگی ۔مگر سلویٰ تو کسی اور ہی دنیا میں تھی۔
راحب غصے سے کمرے میں آیا اور زور سے اپنا فون بیڈ پر پٹخا اور اپنی کنپٹیاں سہلانے لگا۔
پھر وہ اٹھا فریش ہوا ۔اسکا موبائیل پھر بجنے لگا۔صبح کے ایک ازیت ناک دن کے بعد وہ اب اپنا موبائیل دیکھ رہا تھا۔
اسکی انآفیشل سم پر کال تھی۔
ہیلو؟؟
راحب نے فورا اپنا لب و لہجہ انگریزی کیا۔
ہیلو؟
از اٹ ڈینی؟
یس۔
آپ کا
S.S.S3
انڈسٹریز کے ساتھ اپاونٹمنٹ ہے کل صبح آٹھ بجے آجائیے گا۔
اپاونٹمنٹ؟
راحب نے جان کر خود کو انجان ظاہر کیا۔
آپکو ہماری کمپنی نے ایز آ بلوگر ہائیر کر لیا کل آپ آ جائے۔
اوکے۔
نام پتا معلوم کر کے راحب نے فون بند کیا۔
یسسسس!!۔
اس نے ہاتھ کا مکہ بنا کر ہوا میں اچھالا۔وہ اب کافی ریلیف محسوس کر رہا تھا۔
منزل کی طرف قدم رکھ دیا میں نے کل ملتے ہیں آپ سے بھی ثمرین سکندر شاہ۔
راحب سونے کیلئے آیا تو خالی بیڈ دیکھ کر سلویٰ کی طرف متوجہ ہوا۔وہ گہری سانس لیتا واپس نیچے آیا جہاں وہ ابھی بھی صوفے پر پڑی تھی اور کمبل کے باوجود کپکپا رہی تھی۔
نگہت جہاں بھی اسکے پاس بیٹھی اونگھ رہی تھیں۔
ان دونوں ساس بہو کا کچھ نہیں ہو سکتا۔
امی!۔
امی اٹھیں۔۔
ہمم
آئیں اندر چلے ۔وہ نگہت جہاں کو سہارا دیتا کمرے تک لایا۔انھیں بیڈ پر لٹایا کمبل ڈال کر لائٹ آف کر دی۔
راحب؟
سو جائیں امی صبح بات کریں گے۔وہ انکا ماتھا چومتا آگیا
باہر آیا تو سلویٰ کو اٹھانے لگا۔مگر وہ نہ اٹھی۔اسنے سلویٰ کو اٹھایا اور کمرے میں آکر بیڈ لیٹ گیا خود بھی وہیں نیم دراز ہو گیا
تم مجھے کیوں اتنا تنگ کرتی ہو لٹل گرل اتنی جزباتیت کے ساتھ کیسے جی لیتی یو۔اس نے سلویٰ کا ہاتھ تھاما تو وہ سردی سے برف ہو رہی تھی۔
راحب نے سلویٰ کو اپنے ساتھ لگا لیا۔اور آہستہ آہستہ اسکے کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگا۔
سلویٰ میں چاہ کر بھی اس بچے کو واہپس نہیں لا سکا ۔اسکی حالت بہت نازک ہے کبھی بھی بری خبر مل سکتی ہے۔
وہ اب اسکا گال سہلانے لگا جہاں تھپڑ کا نشان اب بھی تھا۔میں تمہیں مارنا نہیں چاہتا تھا پر میں سارے کام چھوڑ کر تمہارے لئے آیا تھا اور تم مجھ سے ہی الجھنے لگی۔میں کیا کرتا۔
بچہ۔۔۔
سلویٰ کی ہلکی ہلکی منمنانے کی آواز آئی۔
راحب نے گہرا سانس لیا جسے اور اس پر گرفت اور سخت کر لی جسے بیہوشی میں بھی بچے کی پڑی تھی۔
لے آونگا میں بچہ۔ وہ نہ سہی تو چلو اپنے سہی ۔وہ شرارت سے مسکرایا۔
قطرہ قطرہ کرب
پھیلی روش روش پہ
عذابات کی پکار،
بے ربط ہیں یقین کے موسم کی دھڑکنیں،
اجڑی ہوئی تمام ستاروں کی روشنی،
پتوں کے چیتھڑوں پہ لکھا
نوحہء بہار،
پھولوں کی کترنوں پہ
مجسم پرندگی،
عریاں لباسیوں سے لدے زرد شاخچے،
صحنِ چمن میں روندی ہوئی،
کونپلوں کی دھول،
بے برگ و بار نخل جلو میں لیے ہوئے ،
شاید خزاں بھی میری تمنا کی شکل ہے !!!