مسيحا ہو….؟؟
تبھی جذبات کی دھڑکن کو
فوراً جان لیتے ہو
کبھی الفاظ کی نبضوں کو
اپنی نرم سانسوں سے
چھو کے بھول جاتے ہو
کہ ان لفظوں کے سینے میں بھی
آخر دل دھڑکتے ھیں
سنو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
یہ بات کرتے ھیں
رکو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
آواز دیتے ھیں
یہ جذبے سانس لیتے ھیں
تو جب تم دور جاتے ہو
جب ان کو بھول جاتے ہو
تو دھڑکن روٹھ جاتی ھے
تو نبضيں ڈوب جاتی ھیں
یہ سانسيں ٹوٹ جاتی ھیں
مسيحا ہو…؟
تو پھر ان کو
تم شفا کیوں نہیں دیتے؟
فجر کی روشنی ہر سو پھیل چکی تھی۔راحب کا الارم تیسری دفعہ بجا تو وہ بلآخر بستر سے نکل ہی آیا۔
پر اسکے دائیں جانب سلویٰ نہیں تھی۔کیونکہ وہ جائے نماز پر بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
راحب گہرا سانس لیتا اٹھا اور نماز کو چل دیا۔اس نے سلویٰ اور رب کے بہائے گئے آنسووں کے درمیان آنا مناسب نہ سمجھا۔
سلویٰ تو ساری رات نہیں سوئی راحب کے سوتے ہی اٹھ گئ اور تب سے اب تک جائے نماز پر ہی تھی۔۔
تقریبا آدھے گھنٹے بعد راحب واپس آیا صبح کی روشنی ہر سو عیاں تھی اسے آج ثمرین سکندر والا باب بھی شروع کرنا تھا۔
پر سلویٰ کو یوں حال بے حال دیکھ کر اس کا دل برا ہونے لگا۔جو خوشی رات تک تھی وہ ہوا ہوئی۔
وہ سلویٰ کے ساتھ ہی زمین پر آکر بیٹھ گیا جہاں وہ جائے نماز بچھائے بیٹھی تھی۔
سلویٰ کیا ہو گیا ہے کیوں ایسا کر رہی ہو؟
راحب تھکے لہجے میں گویا ہوا۔
مجھے وہ سب نہیں بھول رہا۔
سلویٰ منمناتی بولی۔
پھر تو تمہیں میری ہمت کو سلام کرنا چاہئے جو آئے روز یہ سب دیھکتا ہوں مجھے تو پھر مر ہی جانا چاہئے۔
سلویٰ نے اسکی بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔
میں نے کتنی جانوں کو اپنے سامنے دم توڑتے دیکھا ہے مگر سب سے اذیت ناک موت اس ماں کی تھی۔جس نے موت کے منھ میں جا کر اپنا بچہ پیدا کیا اور اسی سے بچھڑ کر مر گئی۔
سلویٰ کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
سلویٰ وہاں اس جیسی ہزاروں مائیں تھی۔
راحب مجھے وہ بچہ لا دیں نا پلیززز۔
سلویٰ نے راحب کے سامنے ہاتھ جوڑ دئے۔
سلویٰ وہاں اور بھی بچے تھے پھر تو ہمیں انھیں بھی لےآنا چاہئیے ہےنا؟
آپکو نہیں پتا وہ منو مٹی کے ملبے تلے دبا بھی زندہ تھا۔وہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے مگر وہ صرف میرے حصے آیا آپ کیوں نہیں سمجھ رہے یہ قدرت کا اشارا ہے۔
کیا کہنا چاہتی ہو کھل کے کہو؟
ہہہم اسے اڈاپٹ کر لیتے ہیں۔
واٹ؟؟؟؟
راحب ایک دم چیخا۔
سلویٰ تم واقعی پاگل ہو گئی ہو۔تم ابھی خود بہت چوٹی ہو ایک بچے کی زمہ داری کہاں سمبھالو گی۔
میں سب کر لوں گی راحب۔وہ فورا اپنے آنسو صاف کرتی بولی۔
نہیں مائے لٹل گرل کچھ دن تک تمہارے کالج شروع ہو جائیں گے میں بھی ہونگا پھر گھر کالج بچہ کیسے مینج کرو گی
راحب نے اپنے دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنا کر اس کے چہرے پر رکھے۔
اور مزید کوئی بحث نہیں۔
اسکے لہجے میں عجیب سختی تھی کہ سلویٰ کچھ بول نہ پائی تو ٹھیک ہے مجھے آخری دفعہ اسکے پاس لے جائیں پھر ضد نہیں کرونگی میں۔
سلویٰ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
پانچ منٹ میں نیچے آجاو۔
راحب نے گھڑی دیکھی جہاں پونے چھ ہو رہے تھے اور اسکے ہاس صرف ایک ہی گھنٹہ تھا اس کے پاس۔
سلویٰ پانچ منٹ میں چادر اوڑھتی گاڑی میں موجود تھی۔راحب اس سے ہلکی پھلکی باتیں کرتا رہا مگر سلویٰ منھ موڑے باہر دیکھتی رہی اور کوئی جواب نہ دیا۔
راحب کو شدید غصہ آیا پر وہ مصلحتا چپ رہا۔
کچھ ہی دیر بعد وہ ہسپتال میں پہنچے۔سلویٰ راحب سے پہلے ہی نکل گئی گویا ایک ایک راستہ حفظ ہو۔
ہسپتال کے اندرونی مناظر ابھی تک خاصے پر اسرار تھے جگہ جگہ کل والے وکٹم تھے ہر طرف سے چھوٹے چوٹے بچوں کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
سلویٰ نے راحب کا بازو سختی سے پکڑ لیا۔
ابھی تو کوئی بہت تیز تیز بھاگ رہا تھا۔
راحب نے اسے گھورا ۔
دیکھ لو سلویٰ یہاں کتنے بچے ہیں تم پہچان سکتی ہو اسے یا ان سب کا درد بانٹ سکتی ہو؟
اپنی طاقت کے مطابق جتنے زخم آپ بھر سکیں بھر دینے چاہئے۔اگر ا دنیا میں کسی ایک کا مسیحا ہی بن سکوں تو میرے لئے یہی خدائی عطیہ ہوگا۔آپکی طرح پتھر نہیں ہو سکتی میں
سلویٰ انگارے چبا رہی تھی۔
وہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ ٹھیک تھے اگر غلط تھا وہ حالات تھے
وہ لگ چائیلڈ روم میں کھڑے تھے جہاں پیدا ہونے سے لیکر دو سال تک کے بچے تھے جن میں بلاسٹ وکٹم بھی موجود تھے۔کسی کے پاس تو انکے گھر والے تھے تو کوئی یونہی بے آسرا ہسپتال کے سہارے تھے۔
کیا پتا اس کے گھر والے مل گئے ہوں اور اسکا علاج کروا کر لے جا چکے ہوں اسلئے تمہیں جو کرنا ہے جلدی کرو مجھے دیر ہو رہی ہے۔سلویٰ راحب کا یہ سوکھا لہجہ سمجھ رہی تھی پر دل کیا کرتی جسے کل سے سکون نہیں آیا تھا۔
سلویٰ آہستہ آہستہ چلتی ایک ایک کے بچے کو دیھنے دیکھنے لگی جو بری طرح زخمی تھے۔اور پھر ہزاروں کی تعداد میں وہ اسے پہچان ہی گئی جو کل سے اپنا حصہ محسوس ہو رہا تھا۔وہ کل ہی کی طرح گلہ پھاڑ پھاڑ کر رو رہا تھا۔
سلویٰ ایک سیکنڈ کی دیر کئے بغیر اس تک پہنچی اور اسے اٹھا کر زور سے سینے میں بھینچ لیا۔
صد حیرت کے وہ بچہ بھی سلویٰ کا لمس پا کر چپ ہو گیا۔
“شکر ہیں آپ آگئیں ورنہ آپکے بیٹے نے تو رو رو کر برا حال کر رکھا تھا”
نرس گردن نفی میں ہلاتی بولی۔راحب ہاتھ باندھے دلچسپی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔
“ماں کی گود کا نعملبدل سونے کا بستر بھی نہیں ہوتا آپکا بیٹا بھی آپکا لمس پچان گیا ہے حالانکہ یہ خود صرف دو دن کا ہے۔
وہ نرس بولے جا ہی تھی سلویٰ نے بھی اسکی غلطفہمی دور نہ کی۔
سلویٰ پیچھے مڑی اور جتاتی نظروں سے راحب کو دیکھا جس نے ہلکی مسکراہٹ سے سر خم کر کرکے اپنی شکست قبول کی۔
نرس سے بچے کی ساری دوائیاں علاج پوچھتے وہ راحب کی طرف مڑی جو اب تک وہیں کھڑا تھا۔
میجر راحب احمد اب یہ میرا بچہ ہے۔سلویٰ کے کےلفظوں میں بہت اعتماد اور سنجیدگی تھی۔راحب کو وہ ایک ہی دن میں بڑی بڑی لگنے لگی تھی۔
نہیں!!۔
راحب کی بات پر سلویٰ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
یہ تمہارا بچہ نہیں ہے سلویٰ
راحب نے اس بچے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔تو وہ پیچھے ہو گئی۔
یار تمہارا نہیں ہمارا بچہ ہے۔راحب نے لفظوں پر زور دیا ۔سلویٰ کے اعصاب ڈھیلے پڑے۔
راحب نے اس چھوٹی سی جان کو گود میں لیا جو اتنا پرسکون تھا گویا سلویٰ اسکی سگی ماں ہو۔
راحب نے اسکے سر پر پیار دیا۔
اور اگر اس اسکے گھر والے کبھی آگئے تو۔
دنیا کی نظر میں جو چیز وجود ہی نہ رکھے اسے کون ڈھونڈے گا۔
وہ لوگ باہر گاڑی میں آئے تو راحب یکدم رکا۔
سلویٰ میرے جانے کا وقت ہو گیا ہے۔راحب سنجیدہ انداز میں ہویا۔
اور سلویٰ کو یوں لگا جیسے اسکا دل بند ہوگیا۔
اسکی گویائی صلب ہو گئی۔
میرے ساتھی اس وطن کے جیالے قید میں ہیں انھیں آزاد کروانا ہے کل میرے ملک میں جو قبرستان بھروائے گئے مجھے اس ایک ایک موت کا حساب اتارنا ہے سلویٰ ۔
تم میرا ساتھ دو گی نا؟
میں کیسے؟؟
سلویٰ پست و ھیمی آواز سے بولی۔
سلویٰ یہ مشن میری زندگی کا سب سے خطرناک اور اہم مشن ہے۔کچھ بھی ہو سکتا ہے مجھے شائد کسی بھی حد تک جانا پڑے ۔تم مجھ پر اعتبار کرنا اور میرا انتظار۔۔۔۔۔
وہ مسکرا کر سر جھکا گیا۔
اور انتظار؟سلویٰ نے بھی اپنا سر نیچے کر کے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔
وہ نہ کرنا کیا پتا اس بار اتنی مہلت نہ ملے۔
اور اگر مل گئی تو ؟
سلویٰ نے خود کو مضبوط ظاہر کیا۔
تو میں صرف تمہارا بن کہ آوں گا۔
بس مجھے یقین ہے آپ ضرور آئیں گے۔
راحب آگے بڑھا اور اسکی پیشانی پر اپنا لمس تحریر کر کردیا اور بچے کو بھی محبت کی مہر میں ڈھانپا۔
اب جو زمہ داریاں میں نے تمہیں دی ہیں اور جو تم نے قبول کی ہیں ان سے منھ مت موڑنا خواہشات اور شوق رہ جائیں تو ہمارے پاس پچھتاوا ہوتا ہے پر اگر زمہ داریاں اور فرض رہ جائیں تو ہمارے پاس زندگی کی کوئی رمق بھی نہیں رہتی۔
تو پھر سلویٰ راحب احمد کہو قبول ہے تمہیں ؟
مجھے ہر فرض ہر زمہ داری قبول ہے۔
راحب ہلکا سا مسکرایا۔
ڈیٹس لائیک مائے لٹل گرل۔
راحب نے ایک کیب روکی اور اسے اس میں بٹھا دیا۔
راحب آپ خالہ سے تو ملے نہیں۔
انھیں اس سب کی عادت ہے سلویٰ وہ میری ماں ہیں مجھ سے سےزیادہ مضبوط اور ہمت والی انکا بھی خیال رکھنا۔
اسنے کیب کا دروازہ بند کر ونڈو سے کہا۔
سلویٰ نے راحب کا ہاتھ ابھی تک پکڑ رکھا تھا ۔کیب سٹارٹ ہوئی تو ہاتھوں کی گرفت میں لغزش طاری ہونے لگی۔
اور دیکھتے دیکھتے ہاتھ چھوٹ گئے راحب کسی ماضی کی طرح اسکی نظروں سے ہٹتا جا رہا تھا۔
وہ پوری گردن موڑ کر یچھے دیکھن لگی راحب ابھی بھی وہیں کھڑا تھا۔
سلویٰ کی آنکھوں سے گرم پانی اترنے لگا۔
جُدائی دینے والے ۔۔۔۔۔۔۔
جُدائی دینے والے تُم سے اُمیدِ وفا کیسی ؟
تعلق ٹوٹ جاۓ جب، محبت رُوٹھ جاۓ جب ،
تو پھر رسمِ دُعا کیسی، مِلن کی اِلتجا
کیسی ۔؟؟
بھنور میں ڈولتی کشتی پہ ساحل کی تمنا کیا ؟؟؟
اُکھڑتے سانس ھوں تو زندگی کی آرزو بھی کیا ؟
جو منزل کھو چکی ھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُسکی پھر سے جُستجو بھی کیا ۔۔۔۔۔؟؟
رضاۓ یار پر اچھا سرِ تسلیمِ خم کرنا !
سسکنے سے یہی بہترھے، نا اُمید ھی مرنا !
مگر دل نے تمہیں کس واسطے سے یاد رکھا ھے ؟
تمہیں کیوں شاعری میں آج تک آباد رکھا ھے ؟؟
ابھی تک میں نے کیوں خود کو بہت برباد رکھا ھے ؟
ھوا کے دوش پر کیوں نغمہء فریاد رکھا ھے
جُدائی دینے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جُدائی دینے والےآشنائی کی قسم تُمکو
تمہاری بیوفائی، کج ادائی کی قسم تُمکو !
مُجھے اتنا بتا دینا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفا کی چاہتوں کی مشعلیں کیسے بُجھاتے ھیں؟؟؟
نشاں کیسے مٹاتے ھیں ؟؟؟
بُھلانا ھو جِنہیں اُنکو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھلا کیسے بُھلاتے ھیں ؟؟؟
S.S.S 3 industries
ایک بلند وبالا اور عالیشان عمارت کے سامنے وہ اترا اسکا حلیہ بلکل بدل چکا تھا۔یہ کہنا بہت مشکل تھا یہ میجر راحب احمد ہے بلکہ یہ کہنا آسنا تھا کہ وہ ایک انگریز ہے۔
باریک تار نما ائیر پیس جوکسی ناخن برابر تھا اسکے کانوں میں پیوست تھا۔
غور سے دیکھنے پر بھی کسی نظر نہ آتا مگر فریکونسی اتنی زیادہ کہ میلوں دور بیٹھا کسی کی سانسیں بھی سن سکے۔
آئی ایم آل ہئیر سر۔۔۔
وہ ہلکا سا بھنبھنایا۔
ہیڈ کوارٹر میں موجود پانچ افراد اس وقت ایک لیپ ٹاپ پر جھکے ایس ایس ایس تھری کے مناظر دیکھ رہے تھے۔
کو راحب احمد کی سینے میں لگے پین میں کیپچر ہو رہے تھے۔
راحب بی کئیر فل اینڈ الڑٹ ثمرین شاہ نہایت شاطر اور چالاک عورت ہے اس کیلئے یہ سب پکڑنا بہت آسان کام ہے۔
اسکے ائیر پیس میں زایان کی آواز گونجی۔
راحب اب اندر آیا اور کاونٹر پر بیٹھی لڑکی سے محو گفگتو ہوا۔لڑکی نہایت چست لباس اور فل میکپ میں مسکراتے ہوئے بات کر رہی تھی۔
اسی بلڈنگ کی تیسری منزل کے سب سے روم میں وہ بڑی سرعت سے اسے آتا ہوا دیکھ رہی تھی۔اسکی چال ڈھال بات کرنے کے انداز ہر چیز پر باریکبینی سے معائینہ کرنے لگی۔
سلیمانی صاحب دو گھنٹے تک میرے روم میں کوئی نہ آئے۔
وہ انٹر کام آن کرتی بولی۔
میڈم وہ لڑکا؟؟
کوئی بھی نہیں کا مطلب کوئی بھی نہیں ۔۔
سمجھ گئے آپ؟
جی میڈم۔
وہ اندر آیا تو اسے ویٹنگ ائیریا میں بٹھا گیا۔
وہ یہ سب اچھے سے سمجھ چکا تھا اور جان کر ہولے سے بڑبڑایا۔
دو گھنٹے ویٹ اوکے فائین۔راحب نے اپنا لہجہ بلکل انگریزوں والا کر رکھا تھا۔
دوسری طرف ہیڈکواڑٹڑز والے بھی جان گئے۔راحب کسی بھی بہانے سے آفس کا جائزہ لو۔۔۔
زایان نے راحب کو مشورہ دیا۔
جبکہ ثمرین سکندر ابھی بھی غور سے دیکھ رہی تھی اب وہ کیا کرے گا۔
تبھی سلیمانی صاحب ناک کرتے ہوئے آئے۔
بیٹھیں سلیمانی صاحب۔۔
میڈم آپ نے منع کیا۔۔۔
او کم آن سلیمانی صاحب آپ جانتے ہیں نا آپ میرا رائٹ ہینڈ ہیں کم اینڈ سٹ۔
میڈم آپ اس شخص کو میرا مطلب ہے اس پر اتنا وقت کیوں لگا رہی ہیں۔
آپ کو پتا ہے سلیمانی صاحب پیتل پر سونے کا پانی چڑھا دیا جائے تو لوگ اسے سونا ہی سمجھتے ہیں سوائے سنار کے۔
ایک سونار دوسرے دوسرے سونار کا ملمع میں لپٹا پیتل خوب پہچانتا ہے مگر کچھ بولتا نہیں بتائیں کیوں؟
اس نے لیپ ٹاپ سلیمانی صاحب کی طرف گھمایا۔
کیونکہ سونار کا اس میں اپنا فائدہ ہوتا ہے۔
بلکل۔
پر سونار اور یہ آدمی؟؟
یہ آدمی ایک ملمع ہے۔۔
ثمرین کے ہونٹوں پر جاندار مسکراہٹ دوڑ گئی۔
وہ اپنی کرسی سے اٹھتی کافی میکر تک گئی اور کافی بنانے لگی۔
اگر آپ کو اس پر شک ہے تو اس طرح ہائیر کرنے کا مقصد؟
سلیمانی صاحب نے بڑے غور سے پوچھا۔
میں نے کب کہا مجھے اس پر شک ہے۔
سلیمانی صاحب نے اس بار سوال نہ کرنا ہی مناسب سمجھا۔
یہ شخص وہ نہیں ہے جو نظر آتا ہے۔بلکل میری طرح اس نے دل کھول کر قہقہ لگایا۔
بس اسی لئے دلچسپ لگتا ہے مجھے۔
اس دن کالج میں میں نے اسے بہت اچھے سے نوٹ کر لیا تھا۔
ثمرین سکندر شاہ کی نظروں سے بچنا ناممکن ہے۔
سلیمانی صاحب بہت اچھے سے جانتے تھے کہ ثمرین کی یہ نرمی کسی قیامت کا سندیسہ دے رہی ہے۔جو بہت جلد کسی بھی پہر کسی بھی معصوم پر ٹوٹ جائے گی۔
کیب سے اتر کر سلویٰ نے احمد ہاوس کے در و دیوار کو غور سے دیکھا۔
اس کے دل میں سفر سے لیکر ایک ہی خیال بار بار آرہا تھا۔
کہ خالہ کیا رد عمل دیں گی۔ان سے ہوچھے بغیر کچھ بتائے بغیر اس نے اتنا بڑا قدم اٹھا لیا۔
وہ آہستہ آہستہ سے چلتی لاونج میں پہنچی۔وہ سہمی سہمی اور اڑے رنگ کے ساتھ گھر کے اندر داخل ہوئی۔
نگہت بیگم سر پکڑے بیٹھی تھیں جبکہ چندہ انھیں دوائی دے رہی تھی۔
خالہ کیا ہوا آپکو۔سلویٰ تیز تیز چلتی ان کے پاس آئی
بی پی ہائی ہو گیا ہے انکا۔
چندہ نے اسے بتایا۔
ررراحب؟؟
نگہت جہاں نے اس سے پوچھا۔
وہ خالہ وہ چلے گئے۔
سلویٰ نے ایک دم بول کر چپ ہو گئی جبکہ نگہت جہاں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
بھابھی آپ نے کیا اٹھا رکھا ہے۔
چندہ جو کب سے غور کر رہی تھی آخر بول ہی پڑی۔
سلویٰ نے بچے سے چادر ہٹائی اور اسے ان دونوں کے سامنے کر دیا۔
یہ کس کا بچہ ہے بھابھی اور یہ اتنا زخمی کیوں ہے اور آپکے پاس۔
چندہ نے ایک دم ہی سوالوں کے تیر چلا دئیے۔
سلویٰ نے نگہت جہاں کو دیکھا تو وہ بھی اسی بچے کو غور سے دیکھ رہی تھیں۔
وہ یہ بچہ ہم نے لے لیا۔سلویٰ اٹکتی بولی تو نگہت جہاں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
کیا کہہ رہی ہو کس کا بچہ لے آئی۔
خالہ وہ یہ کل وہ جو۔
کیا وہ کل وہ کل لگائی ہے سلویٰ۔
سلویٰ کو انکا رویہ عجیب سا محسوس ہوا اور بنتا بھی تھا۔
بھاھی آپ جائیں اپنے کمر میں میں خالہ کو بھی لے جاتی ہوں انکی طبیعت نہیں ٹھیک نہیں۔چندہ نے سمجھداری سے بات سمبھال لی۔
چندہ مجھے بات کرنے دو۔
خالہ ابھی آپ نے آرام کرنا ہے باتیں بعد میں۔
راحب بھی چلا گیا اور یہ بچہ ؟؟
آپ چلیں چلیں نا۔
چندہ انھیں کھینچتے ہوئے ساتھ لے گئی۔
سلویٰ مرے مرے قدم اٹھاتی کمرے میں آئی بےبی کو بیڈ پر لٹا کر خود بھی آنکھیں موندھ کر لیٹ گئی۔
چند لمحے بعد ہی اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔وہ جب بھی اپنے دل کی سنتی تھی یونہی تنہا ہوجاتی۔
تو کیا مجھے دل مار دینا چاہئے۔
میں بھی ایک پتھر ہو جاوں۔
اس نے کروٹ لی اور نھنی جان کو دیکھا جو اب تک ایک بار بھی نہیں رویا تھا۔
اسکے دل میں تھوڑا سکون اترا اسے اب مضبوط ہونا تھا راحب کیلئے اپنے بچے کیلئے اپنے لئے
ریہا تانگھ تصور نظراں ءچ کہیں دور دراز بدل وانگوں
ریہا بلدا سینا ہجر دے ءچ کہیں دھپ دے سڑدے تھل وانگوں
ہنجوں اکھیاں دی درسال ءچوں رہے لڑدے ہاڑ دی چھل وانگوں
ایویں شاکؔــر نہ شالا کل گزرے جیویں اج گزری اے کل وانگوں
دو گھنٹوں سے بھی زیادہ وقت گزر چکا تھا۔مگر وہ صرف ایک بار اٹھا تھا “بس یہ پوچھنے کیلئے کہ کتنا وقت ہے”۔
اس نے ایک عام امپلائے جیسا بیہیوئر کیا کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ اتنا بےصبری سے بلوا کر اس طرح انتظار کروانے کے پیچھے ضرور کوئی وجہ ہے اور وجہ بھی وہ جانتا تھا۔
کچھ دیر بعد اسے ایک بندہ بلانے آیا تو وہ اس کے پیچھے چل دیا۔
اور اسے ایک کیبن کے باہر چھوڑ کر چلا گیا۔
جہاں بڑے بڑے حروف میں ایس ایس شاہ آویزاں تھا۔
وہ ناک کرتا اندر گیا۔
کم ان مسٹر؟؟؟
مسٹر ڈینی جھان۔
یپ!!۔
ہیو آ۔سیٹ؟
ثمرین سکندر کارویہ بلکل پروفیشنل تھا۔
کون ہو؟
جی؟؟
ثمرین اردو گویا ہوئی۔
کم آن ڈینی تمہیں اردو آتی ہے فارمل نہیں ہوجسٹ بی ایزی۔
جی مجھے اردو آتی ہے پر آپکا سوال سمجھ نہیں آیا۔
سامنے والا بھی راحب احمد تھا ۔اتنی جلدی وہ بھی رعب میں آنے والا نہیں تھا۔
چلیں جانے دیں یہ بتائیں آپکے کیا انٹرسٹ ہیں کام کو لیکر۔
یاہ آپکے بزنس کا چرچہ محض پاکستان میں نہیں پاکستان سے باہر بھی زیادہ ہے۔۔۔
وہ بتائیں جو مجھے پتا نہ ہو۔
ثمرین اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے بول پڑی۔
وہ پچھلے ایک آدھے گھنٹے سے اس کے ساتھ ایسا ہی کر رہی تھی کوئی سوال کرتی تو جواب سے پہلے ہی دوسرا سوال ہوچھ لیتی کام کی بات میں ہرسنل سوال شروع کر دیتی۔
وہ شائد اسکا پینک لیول چیک کر رہی تھی اسکے غصے کی آخری حد کو آزما رہی تھی ۔وہ بھی ایک فوجی کی۔راحب دل ہی دل میں مسکرایا۔
دلچسپ۔
مگر وہ وہاں فوجی نہیں ایک عام آدمی تھا بغیر ٹرینڈ آدمی اسے غصہ کرنا تھا ثمرین سکندر کی نظروں کو دھوکا دینا تھا۔
جسٹ انفففف۔۔۔۔
وہ ایک دم غصے سے چلایا۔
وومن آر یو آ سائیکو۔۔۔
مجھے نہیں کرنی جاب گو ٹو ہل۔۔۔
جبکہ ثمرین نظریں چھوٹی کر کے اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔
ہہے لسن مسٹر ڈینی؟؟
نیکسٹ ٹائم جب مجھ سے ملو رئیل بن کہ آنا ثمرین سکندر کو نہ آرٹیفیشل چیزین ہسند ہیں نا لوگ۔اسکا اشارا یقینا راحب کے لینز کی طرف تھا۔
مجھے بھی آڑٹیفیشل کچھ نہیں پسند۔
راحب بھی اسی طرح اسکی آنکھوں میں جھانک کر اسکے لینز پر چوٹ کر گیا۔
اور کمرے سے نکل گیا۔
اور ثمرین سکندر شاہ نے فلق شگاف قہقہ لگایا۔