(Last Updated On: )
بات سے جب بھی بات ملتی ہے
عشق کی واردات ملتی ہے
پوچھتا ہوں میں اہلِ بینش سے
دکھ سے کیسے نجات ملتی ہے
ہر قدم پر یہ دل دھڑکتا ہے
ہر قدم پر ممات ملتی ہے
کتنی صدیاں سفر گزرتا ہے
تب کہیں یہ حیات ملتی ہے
جب بھی میں کام سے پلٹتا ہوں
راستے میں ہی رات ملتی ہے