درِفشاں کا کل ٹیسٹ تھا لیکن کوشش کرنے کے باوجود بھی اس کا دھیان کتاب پر نہیں تھا جا رہا،سوچیں بار بار بھٹک کر یشب کی طرف چلی جاتیں تھیں۔
یشب ایسا تو نہیں تھا لگ رہا جسے وہ بچپن میں جانتی تھی۔
“ہیلو کزن!!!!”درِفشاں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ارصم چلتا ہوا آرہا تھا اور آکر اس کی سامنے والی کرسی میں بیٹھ گیا۔
“کیا سوچا جا رہا ہے”۔
“کچھ بھی نہیں بس ٹیسٹ کی تیاری کر رہی تھی”،درِفشاں نے کتاب اٹھاتے ہوئے کہا۔
“لیکن مجھے تو تمہارا دھیان کہیں اور ہی لگ رہا تھا”،ارصم نے غور سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
“نہیں تو”،درِفشاں نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
“تم خوش ہو”،ارصم کے سال پر اس نے ساولیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
“یشب کے ساتھ منگنی پر”۔
وہ اب بھی خاموش تھی لیکن نظریں جھکی ہوئی تھی۔
“تم کچھ نہ بھی بولو لیکن میں جانتا ہوں تم خوش نہیں ہو،یشب کے ساتھ کوئی خوش رہ بھ نہیں سکتا یہ بات مجھ سے بہتر اور کون جان سکتا ہے دنیا کی ہربرائی اس میں موجود ہے بچپن سے ہی لڑکیوں میں اس کی دلچسپی ضرورت سے زیادہ رہی ہے ان کے ساتھ دوستی کرنا ان کو ڈیٹ پر لے کر جانا اس بات کا گواہ میں ہوں اور امریکہ جو روک ٹوک اس پر تھی وہ بھی ختم ہو گئی،میں نے سنا ہے کہ امریکہ میں بھی اس کی ایک گرل فرینڈ تھی چلو یہاں تو بات ملنے کی حد تک محدود تھی باہر کے ممالک کا ماحول کتنا کھلا ہوتا ہے، تم سمجھ رہی ہو نہ میں کیا کہہ رہا ہوں”۔
درِفشاں نے بے ساختہ اپنا نیچلا ہونٹ کچلا تا کہ اس کے آنسو باہر نہ آسکے۔
“میں جانتا ہوں تمہیں یہ سب سن کر بہت تکلیف ہوگی لیکن میں تمہیں دکھ میں نہیں دیکھ سکتا ہم کزن ہیں بچپن کے ساتھی ہیں،میں جانتاچہوں تم کیسی ہو اور چاہتا ہوں تمہیں تمہارے جیسا ہی کوئ نیک لڑکا ملے یشب جیسا عیاش لڑکا تمہارے قابل نہیں”۔
اب بھی اتنے کنٹرول کے باوجود درِفشاں کے آنسو گالوں پر بہہ نکلے اس کی نظریں اب بھی جھکی ہوئی تھی وہ دیکھ ہی نہ سکی کہ سامنے والے کی آنکھوں میں اپنے مقصد کو پا لینے کی کامیابی پھیلی ہے۔
“مجھے تمہارے آنسو تکلیف دے رہے ہیں درِفشاں”،ارصم نے ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسو صاف کرنے کی کوشش کی لیکن وہ جھجک کر پیچھے ہٹ گئی اور ارصم نے شرمندہ ہو کر ہاتھ کھینچ لیا۔
“امی ابو اپی اجالا کے ساتھ تمہارا بھی ہاتھ مانگنے والے تھے لیکن پھر چاچو کی بات ہر سب خاموش ہوگے لیکن مجھے لگا تم منع کر دوگی اس لیے بولا نہیں لیکن اب سب کچھ دیکھ کر میں خود کو روک نہ سکا”۔
“کچھ بولو درِفشاں”،اپنی مسلسل بکواس پر ارصم نے کوفت زدہ ہو ہو کر کہا۔
“ارصم بھائی ابو کو تو آپ جانتے ہیں کہ میرے کہنے سے ان کی ہقں نا میں نہیں بدلے گی”،درِفشاں نے بے بسی سے کہا۔
“اگر تم میری بات مانو تو میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں”،ارصم کسک کر آگے ہوتے ہوئے بولا۔
“تم یشب سے جا کر کہو کہ تم اسے پسند نہیں کرتی اور نہ اس سے شادی کر نا چاہتی ہو”۔
“میں!!!!ایسا کیسے کر سکتی ہوں”،درِفشاں گھبرا کر بولی۔
“دیکھو درِفشاں اگر تم یہ سب نہیں کرو گی تو میں کیا کوئی بھی تمہاری مدد نہیں کر سکتا پھر شادی کے کے بعد دیکھنا اسے کسی اور لڑکی کے ساتھ”،ارصم اٹھتا ہوا بولا۔
“اگر تم شادی سے انکار کر دو گی تو میں تمہارے ساتھ شادی کروں گا”،ارصم نے آخر میں مسکراتے ہوئے کہا۔
درِفشاں اسے کتنی دیر تک دیکھتی رہی یہاں تک کہ وہ چلا گیا لیکن اسے فیصلے کے سولی پر لٹکا گیا۔
_____________________
اجالا کچھ دیر تک تو دروازے کے باہر کھڑی الفاظ کو ترتیب دیتی رہی کہ اسے بات کرنی ہے اور پھر ہمت کرکے دروازہ کھول دیا۔
دروازہ کھلنے پر خالد صاحب نے اسے دیکھا۔
“ابو مجھے آپ سے بات کرنی ہے”۔
ہاں آوْ! ،خالد صاحب صاحب نے کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
“ابو کل آفس میں میٹنگ ہے جس کے کیے کچھ لوگوں کو کراچی جانا پڑے گا اور اس میں میرا نام بھی شامل ہے اگر آپ اجازت دے تو میں چلی جاوْں”۔
ہوں!!!،انہوں نے ہنکار بھرا،” کل فائق بھی میرے پاس آیا تھا”۔
اجالا نے بے ساختہ گہرا سانس لیا اور وہ جانتی تھی کہ آگے کیا ہوگا۔
“وہ کہہ رہا تھا کہ اسے تمہارا جاب کرنا نہیں پسند اور اس نے تم سے بات کی تو تم نے آگے سے کافی بدتمیزی کی”۔
اجالا نے افسوس سے سر ہلایا۔
“ابو آج تک میں نے آپ کو کوئی شکایت کا موقع دیا یا پھر آپ کو ایسا لگتا ہے کہ میں بدتمیزی کر سکتی ہوں”،اجالا کہ سوالیہ انداز پر خالد صاحب خاموش رہے۔
“ابو میں یہ نہیں کہہ رہی کہ آپ نے جو فیصلہ میرے لیے کیا ہے وہ غلط ہے یقیناً میرے لیے آپ سے اچھا کوئی نہیں سوچ سکتا، پر ابو فائق کا بے ہیویر میرے ساتھ بہت عجیب ہے وہ اس دن میرے آفس آیا اور میں کولیگ کے ساتھ میٹنگ پر تھی تب بھی اس نے بہت برے الفاظ استعمال کیے وہ مجھ پر شک کرتا ہے فضول کا روعب جماتا ہے،جب ایک آدمی کو میرے پر یقین ہی نہیں وہ کیسے میرے ساتھ ساری زندگی گزار سکتا ہے یا پھر یوں قدم قدم پر مجھ زلیل کرے گا”،آخر میں اجاکا رو پڑی وہ تھک گئی تھی اکیلے لڑتے لڑتے۔
خالد صاحب نے بے ساختہ پہلو بدلا کیونکہ اجالا نے آج پہلی بار ان کے سامنے بات کی تھی۔
“نہیں بیٹا وہ تمہیں زلیل کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا”،ان کی بات پر اجالا اپنی ہتھیلیاں دیکھنے لگی۔
“تم فکر نہیں کرو میں فائق سے بات کروں گا اور تم پریشان نہ ہو تم ضرور جاوْ میٹنگ پر”،خالد صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
اجالا تو خوشی کے مارے کچھ بول ہی نہ سکی۔
“تھینک یو ابو!!!”،اجالا نے ان کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔
خالد صاحب پہلے تو اس کی حرکت پر حیران ہوئے لیکن پھر بعد میں کھل کر مسکرائے۔
_______________________
جب اجالا باہر آئی تو مبشرہ بیگم کے ساتھ یشب کھڑا تھاوہ اسے دیکھ کر خوش ہوگئی۔
“آپی جلدی سے تیار ہوجائے میرا آئس کریم کھانے کا موڈ ہو رہا ہے”،یشب اجالا کو دیکھتے ہوئے بولا۔
“موڈ تمہارا ہورہا ہے اور ساتھ مجھے لے کر جا رہے ہو,کہیں تم میری آڑ میں کسی اور کو تو لے کر جانا نہیں چاہتے”،اجالا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
یشب نے مسکراتے ہوئے درزیدہ نظروں سے مبشرہ بیگم کی طرف دیکھا اور چابی سے سر کجھانے لگا۔
“چلیں نہ آپی!!!”
“ٹھہرو میں درِفشاں کو بھی بلا کر لاتی ہوں”،اجالا مسکراتے ہوئے اس کے کمرے کی طرف بڑگئی۔
“چچی آپ بھی چلیں نہ”۔
“نہیں بیٹا مجھے معاف کرو تم لوگ ہی جاوْ میں تمہارے لیے چاچو کے لیے روٹیاں بنا لوں”۔
جی!!!،یشب مسکرا کر سیٹی کے انداز میں گانا گنگنانے لگا۔
کچھ دیر کے بعد یشب نے کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی جہاں دس منٹ سے زیادہ ٹائم ہو گیا تھا اور وہ دبے پاوْں مسکراتے ہوئے درِفشاں اور اجالا کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
____________________
اجالا جب کمرے میں داخل ہوئی تو درِفشاں منہ پر تکیہ رکھے لیٹی تھی۔
“درِفشاں جلدی سے تیار ہوجاوْ یشب ہمیں لینے آیا ہے آئس کریم کھانے جائیں گے”،اجالا جلدی سے بولتی ہوئی وارڈراب سے اپنے اور درِفشاں کے کپڑے نکالنے لگی۔
“کون سا پہنو گی”، اجالا نے دونوں ہینگر اس کے آگے کیے لیکن وہ ہنوز اسی پوزیشن میں تھی۔
“درِفشاں!!!”،اب کی بار اجالا نے تکیہ اس کے منہ سے ہٹایا تو دھک رہ گئی کہ اس کا چہرہ آنسو سے تر تھا۔
“کیا ہوا!!”اجالا ایک دم گھبرا کر بولی اور درِفشاں روتے ہوئے اس کے ساتھ لگ گئی۔
“آپی مجھے یہ شادی نہیں کرنی”۔
کیا مطلب!!!،اجالا نے اس کے بال سہلاتے ہوئے کہا۔
“آپی مجھے یشب بھائی سے شادی نہیں کرنی”۔
“کیا کہا تم نے”،اجالا نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔
آپی آپ جانتی ہیں کہ یشب بھائی مجھے اچھے نہیں لگتے اور آپ کو یاد ہے کہ وہ بچپن میں مجھے کتنا تنگ کرتے تھے ان کا بی ہیویر میرے ساتھ بہت برا روڈ تھا۔
“پاگل وہ بچپن کی بات ہے اب بات اور ہے”،اجالا نے اسے پچکارا۔
“لیکن آپی کریکٹر کے حساب سے وہ کیسے ہیں سب جانتے ہیں اسی لیے چاچو نے انہیں امریکہ بھیجا تھا جانتی ہیں آپ یہاں کسی لڑکی کے سات افیئرتھا ان کا اور امریکہ جا کر وہ یہی کچھ کرتے رہے ہیں اب میرا قصور کیا ہے جو مجھے یشب بھائی کی صورت میں سزا دی جا رہی ہے”،درِفشاں نے روتے ہوئے کہا تھا۔
“کس نے بتایا تمہیں یہ سب”،اجالا کا انداز بہت سنجیدہ تھا۔
“مجھے ارصم بھائی نے بتایا ہے کہ وہ یہاں لڑکیوں کے ساتھ فلڑت کرتے تھے اور امریکہ میں بھی ان کی گرل فرینڈ ہے جس کے تعلقات گرل فرینڈ سے بھی زیادہ ہیں”،درِفشاں ہاتھوں میں چہرہ دیئے رونے لگی۔
“بکواس کرتا ہے ارصم وہ خود ایسا ہے اور جو الزام اس نے یشب پرلگایا تھا اپنی غلطی چھپانے کے لیے لگایا تھا یشب نے امریکہ جانے سے پہلے مجھے سب کچھ بتایا تھا اور یشب صاف کردار کا مالک ہے اگر ایسی ویسی کوئی بات ہوتی تو میں سب سے پہلے انکار کرتی،تم تو لکی ہو جو یشب جیسا لائف پارٹنر ملا ہے”اجالا نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
درِفشاں نے جیسے ہی کچھ کہنے کےلیے نظریں اٹھائیں تو دروازے پر جم گئیں اور درِفشاں کے تاثرات پر اجالا نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یشب واپس پلٹ رہا تھا اور یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ اجالا کچھ لمحوں کے لیے ہل ہی نہ سکی اور جب ہوش آیا تو اس کے پیچھے بھاگی لیکن تب تک یشب گاڑی لے کر جا چکا تھا اور واپس کمرے میں آکر اس کا نمبر ڈائل کرنے لگی پہلے تو بیل جاتی رہی لیکن کچھ دیر بعد موبائل پاور آف ہو گیا، اجالا نے بے ساختہ اپنا نیچلا ہونٹ کچلا۔
“بہت برا ہوا درِفشاں بہت برا،تم نے خود اپنے پاوْں پر کلہاڑی ماری ہے اب اگر یشب نے شدید ریکشن دیا تو جانتی ہو کیا ہو گا کیا کہو گی اب ابو کو”،اجالا نے کہتے ہوئے سر اپنادونوں ہاتھ تھام لیا۔
درِفشاں اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی وہ چاہتی تھی کہ اس کی شادی یشب سے نہ ہو اور اگر اس نے یہ سب کچھ سن لیا تھا تو اچھا ہوا تھا لیکن پتا نہیں اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔
رات دیر تک اجالا یشب کے نمبر پر ٹرائی کرتی رہی تھی لیکن وہ مسلسل بند جا رہا تھا تھک ہار کر سو گئی ،کل نے میٹنگ کے لئے کراچی جانا تھا اس نے یشب اور درِفشاں کا مسئلہ میٹنگ سے آکر حل کرنے کا سوچا۔
اس بات سے بے خبر کل اس کی زندگی میں خود ایک بڑا مسئلہ آنے والا ہے۔
______________________
روہتاس کے سرکٹے بزرگ حضرت سخی خواص شاہ آف خواص پور
برِّ صغیر، جی ہاں ہمارے والے برِّصغیر میں سن سینتالیس میں کھنچی سرحد کے اِس پار یعنی ہماری طرف کچھ...