“آپ کو کس سے ملنا ہے”،ریسیپشن پہ کھڑی لڑکی نےمصروف انداز میں پوچھا۔
“مجھے مس اجالا خالد سے ملنا ہے”،
اب کے لڑکی نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا۔”آپ کون”
“میں ان کا منگیتر”،فائق نے منگیتر پر زور دے کے کہا۔
لڑکی نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر ایک نمبر ڈائل کر کے اجالا کا پوچھنے لگی۔
“سر ایکچولی مس اجالا کسی میٹنگ کے سلسلے میں باہر گئی ہیں”۔
“کب تک آئے گی”،فائق نے ماتھے پر بل ڈال کر کہا۔
“کوئی آئیڈیا نہیں سر”،وہ گھڑی دیکھتے ہوئے بولی۔
“ٹھیک ہے میں انتظار کر لیتا ہوں”،اور فائق اپنے اشتعال کو دبانے کے لیے ٹہلنے لگا۔
آدھا گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد جب اس کی ٹانگیں اور ہمت جواب دے گئیں تو فائق نے جانے کا سوچا، اس سے پہلے وہ باہر نکلتا اسے اجالا گلاس ڈور سے ایک ہینڈ سم لڑکے کے ساتھ ہنستی ہوئی دکھائی دی اور جب اجالا کی نظر سامنے کھڑے فائق پر پڑی تو اس کے چلتے قدم رک گے بلکہ زبان بھی،وہ چہرے پہ حیرت لیے اس کی طرف بڑھی۔
“تم یہاں خیریت ہے”،اجالا حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی کیونکہ کہ آج سے پہلے اس کے گھر میں سے یہاں کوئی آیا جو نہ تھا۔
“ہاں خیریت ہی ہے تمہیں لینے آہا تھا مگر تم تو کہیں اور ہی نکلی ہوئی تھی”،فائق نے طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے اجالا کے ساتھ کھڑے لڑکے ہر کٹیلی نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
“آزر یہ میرے کزن فائق اور یہ میرے کولیگ آزر ہیں”۔
“تم نے پورا تعارف تو نہیں کروایا میرا،میں اجالا کا منگیتر بھی ہوں”،فائق نے جتاتے ہوئے اور طنزیہ انداز میں کہا۔
اور فائق کے اس انداز پر آزر نے ساتھ کھڑی اجالا کو دیکھا جو اسے دیکھنے سے گریز کر رہی تھی۔
بہت مبارک ہو آپ کو، آزر نے فائق سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
“اوکے اجالا اجالا آپ بات کرے تب تک میں یہ فائل سر کو دے دیتا ہوں، آزر یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
“گھر میں تو تم سے بات ہوتی نہیں تو میں نے سوچا یہاں آکر مل لوں”،فائق نے ہنستے ہوئے کہا۔
“یہ میرا آفس ہے فائق”،اجالا نے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے بولا۔
“جانتا ہوں، میں بھی یہی سمجھا تھا مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور لگ رہا ہے”،
“کیا مطلب!!!!”اجالا نے فائق کے طنزیہ انداز پر غصہ کرتے ہوئے کہا۔
“کچھ نہیں چلو لنچ اکٹھا کرتے ہیں”۔
“ابھی مشکل ہے پھر کبھی”،اجالا نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“کیوں منگیتر کے ساتھ جاتے ہوئے تمہیں مشکل ہو رہی ہے اور اپنے کولیگ کے ساتھ تو بڑی خوش نظر آرہی تھی”۔
اجالا سخت بات کرنا نہیں تھی چاہتی کیونکہ جہاں وہ کغڑی تھی وہاں اس کی بہت عزت تھی اور وہ تماشا نہیں تھی چاہتی اس لئے چپ چاپ کووُنٹر کی طرف بڑھ گئی اور اس لڑکی سے کچھ کہا اور قریب آکر بولی “چلو”۔
وہ دونوں خاموشی سے کھانا کھارہے تھے،جب فائق نے اس خاموشی کو توڑا۔
“مجھے امید نہیں تھی کہ تم میرے ساتھ آوُں گی”۔
اجالا نے کچھ نہیں کہا بس خاموشی سے چمچہ پلیٹ میں گھماتی رہی۔
“تم اس منگنی سے خوش نہیں ہو”،فائق کے سوال پر اجالا نے نظریں اُٹھا کر اِسے دیکھا۔
“تم یہ پوچھنے کے لیے یہاں لائے ہو مجھے”۔
“یہ میرے سوال کا جواب نہیں”۔
“اِس سوال کا جواب بنتا بھی نہیں”۔
“تمہارا رویہ تو یہی کہتا ہے کہ تم خوش نہیں ہو”۔
“تمہاری غلط فہمی ہے”،اجالا کہہ کر دائیں طرف دیکھنے لگی۔
“تو پھر تم اتنی بےذار اور خاموش کیوں ہو”۔
“میں تو ہمیشہ سے ہی ایسی ہوں ہاں یہ الگ بات ہے تم نے نوٹ اب کیا ہے”،اجالا نے پلیٹ میں چمچہ رکھ کر پلیٹ پیچھے کسکا دی۔
فائق پر سوچ انداز میں اس کا چہرہ دیکھنے میں مصروف تھا۔
“یہ جو تمہارے ساتھ کولیگ تھا یہ وہی تھا نہ جو پہلے بھی تمہیں گھر چھوڑنے آیا تھا”۔
اجالا نے دل ہی دل میں فائق کی یاداشت کو داددی، “”ہاں””
“کافی کلوز لگتے ہو تم لوگ”،فائق نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
“مجھے تمہارا یہ لڑکوں کے ساتھ پھرنا اور پھر ان کا تمہیں گھر چھوڑنا اچھا نہیں لگتا،تم یہ جاب چھوڑ دو”۔
“”کیوں!!!!””اجالا کو تو جیسے جھٹکا لگا تھا۔
“کیوں کہ میں تمہارا ہونے والا شوہر ہوں اور میں یہ کہہ رہا ہوں”۔
“ہونے والا ابھی ہوئے تو نہیں نہ”۔
“تو تم یہ جاب نہیں چھوڑوں گی”،فائق نے دھمکی دینے والے انداز میں پوچھا۔
“نہیں اگر تمہیں نہیں پسند تو تم یہ منگنی توڑ سکتے ہو”،اجالا نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
اور فائق تو کئی لمحے تک ہل بھی نہ سکا اور جب ہوش آہا تو پھر لمبے لمبے ڈھنگ بھرتا ہوا چلا گیا۔
بطور کزن اجالا کو فائق کبھی پسند نہیں تھا اس کو تایا جی کے علاوہ اس گھر کا کوئی بھی فرد پسند نہیں تھا،لیکن وہ باپ کے آگے سر جھکا گئی تھی اسے لگا شاید یہی اس کے حق میں بہتر ہے لیکن جس طرح کا فائق نے اپنی سوچ کا مظاہرہ کیا تھا وہ اپنا مستقبل دیکھ سکتی تھی،تاریک اور گھٹن زدہ۔
________________________
یشب نے اچانک آکر سب کو سرپرائز دیا تھا۔اور اسے سامنے دیکھ کرسرفراز اورزرینہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
یشب نے ڈٹ کر ناشتہ کیا تھا اور اب لمبی نیند لینے کے بعد شاور لے کر فریش ہو گیا تھا۔
“امی آپ نے کسی کو بتایا تو نہیں کہ میں آیا ہوا ہوں”۔
“نہیں بیٹا مجھے پتہ ہے تم نے ان کو بھی سرپرائز دینا ہے”،زرینہ نے مسکرا کر کہا۔
“اچھا میں زرا اجالا آپی سے مل آوُں”۔
یشب کی بات پر زرینہ بیگم شرارت سے کھانسی تھیں”اجالا سے یا پھر درِفشاں سے”
“امی پلییز!!!!”یشب ان کے شرارتی انداز پر جھنجھلا کے بولا اور باہر نکل گیا۔
اور پیچھے سے زرینہ بیگم اس کے جھنجھلانے کے انداز پر مسکرا دی۔
_____________________
تینوں پورشن کے درمیان دروازے تھے جو تینوں پورشن کو آپس میں ملاتے تھے،یشب دروازہ کھول کر خالد صاحب کے گھر کی بیک سائڈ پر داخل ہوا جہاں کچن کا دروازہ کھلتا تھا وہ چپکے سے آگے بڑھا اور کچن کا جالی والا دروازہ کھلا تھا اور وہاں سے گلابی آنچل بھی نظر آیا۔
وہ جانتا تھا کہ اجالا اس وقت کچن میں ہو گی یشب اسے ڈرانے کے ارادے سے آگے بڑھااور” ہاوْوو “کیا۔
ہاوْ کی آواز سے کچن میں کھڑا وجود اچھلا اور ہلکی سی چیخ کے ساتھ ہاتھ میں پکڑا کپ زمین بوس ہو چکا تھا۔
یشب نے دیکھا کہ دونوں ہاتھ ہونٹوں پہ رکھے اور سہمی ہوئی آنکھیں اسے دیکھنے میں مصروف تھی یہ آنکھیں اجالا کی تو نہ تھی،اب ہاتھ ہونٹوں سے ہٹ چکے تھے اور اس کی جگہ حیرت نے لے لی تھی،ہاں وہ درِفشاں تھی وہ پہلے بھی اتنی خوب صورت تھی یا اسے آج لگ رہی تھی۔
درِفشاں یشب کے یوں ٹکڑ ٹکڑدیکھنے پر ہوش میں آئی اس کی نظریں جھک گئی تھی اور الفاظ جیسے گم ہو گئے تھے وہ اتنی ہواس باختہ ہو گئی کہ اسے سامنے دیکھ کر اس کی پلکیں لرزنے لگیں۔
اور یشب کو تو خود پہ حیرت ہو رہی تھی کہ وہ درِفشاں کو یوں کیوں دیکھ رہا ہے جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہو۔
“درِفشاں!!!”اتنے میں اجالا اس کو آوازیں دیتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی۔
اور کچن میں دونوں کھڑے وجود جیسے حرکت میں آئے۔
“یشب!!!!”اجالا کی آواز میں حیرت نما خوشی تھی اور اس کے گلے ملنے لگی۔
“تم کب آئے اور آنے کا بتایا بھی نہیں”۔
“میں صبح ہی آیا ہوں اور ناشتہ کرکے فریش ہو کر سب سے پہلے آپ سے ہی ملنے آیا ہوں”۔
“ہاں بھئی!!!یہاں آنے کی وجہ بھی سمجھ آتی ہے”،اجالا نے شرارت سے درِفشاں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اور یشب اجالا کی شرارت سمجھ کر پہلی بار جھنجھلایا نہیں تھا بلکہ مسکرایا تھا۔
“اورآپ کی بہن کو مجھے یہاں دیکھ کر اتنی خوشی ہوئی ہے کہ بےچاری کو سکتہ ہو گیا ہے”
یشب کے شرارتی انداز پر درِفشاں اپنے تاثرات چُھپا نے کے لئے نیچے بیٹھ کر کرچیاں سمیٹنے لگی۔
“تم نے کی ہو گی کوئی شرارت”۔
“میں سمجھا آپ ہیں”،یشب کھل کر مسکرایا۔
“درِفشاں تم یشب کے لیے اچھی سی چائے بنا کر لاوْ اور ساتھ میں جو کل پاستہ بنایا تھا وہ بھی لے آنا اور تم چلو امی ابو سے ملواتی ہوں بہت دیکھ لیا اپنے منگیتر کو”،یشب کو درِفشاں کی طرف دیکھتے پا کر اجالا یشب ہاتھ پکڑ کر باہر لے گئی۔
اور پیچھے سے درِفشاں نے کب کی رکی ہوئی سانس خارج کی وہ اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی ایک طرف نا پسندیدگی تھی تو دوسری طرف یشب کو دیکھ کر دھڑکن معمول سے ہٹ کر چلنے لگی تھی۔
_______________________
آج زرینہ بیگم نے یشب کے آنے کی خوشی میں گھر میں دعوت رکھی تھی اب وہ سب لوگ کھانا کھا نے کے بعد لاونج میں جمع تھے۔
افراء بیگم نےیشب کو دیکھ کر جیسے کسی نقصان کا احساس ہوا تھا کتنا شاندار لگ رہا تھا اور حقیقتاً اسے درِفشاں کے بجائے ان کی بیٹی جائشہ کا نصیب بننا چاہئے تھا،پر “واری قسمت “،وہ افسوس کے علاوہ کیا کر سکتیں تھیں۔
یشب سب کے ساتھ خوش گپیوں مصروف تھا سوائے ارصم کے،یشب نے ارصم سے سلام کے علاوہ کوئی دوسری بات نہ کی تھی کیونکہ یشب ابھی تک بھولا نہیں تھا جو ارصم نے اس کے ساتھ کیا تھا اور نہ ارصم۔
بچپن سے ہی ارصم کو یشب سے جو حسد تھا وہ وقت کے ساتھ بڑھتا گیا،یہ جو پانچ سال گزرے تھے ارصم کو لگا سب ختم ہو گیا ہے لیکن نہیں آج اسے سامنے دیکھ کر اس کی نفرت اور حسد مزید بڑھ گیا کیو نکہ آج یشب پہلے سےزیادہ کامیاب اور شاندار ہو گیا تھا۔
جب ارصم کو پتا چلا کہ درِفشاں کی منگنی اس کے ساتھ ہونے کے بجائے یشب سے ہو گئی ہے تو اسے کوئی فرق نہ پڑا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ یشب درِفشاں کو نہیں پسند کرتا تو وہ انکار کر دے گا اور اگر نہ بھی کیا تو مجبوری کے بندھے بندھن میں کبھی خوش نہیں رہ سکے گا اور یہی تو وہ چاہتا تھا کہ یشب کبھی خوش نہ رہے ،لیکن یہاں تو الٹ لگ رہا تھا یشب کی نظریں بار بار بھٹک کر درِفشاں پر ٹھہر رہی تھیں۔
درِفشاں ٹرالی گسیٹتی ہوئی آئی اور سب کو چائے کپوں میں ڈال کر سرو کرنے لگی، درِفشاں کو اپنے اوپر کسی کی آنکھوں کا مسلسل احساس بہت ڈسٹرب کر رہا تھا اس نے بے چین ہو کر نظریں اُٹھائیں تو بے ساختہ یشب کی طرف اُٹھیں جواُسے بڑے غور سے دیکھنے میں مصروف تھا اور اس کے دیکھنے کے انداز پر وہ اس طرح مسکرایا کہ درِفشاں کے ہاتھوں میں کپ کانپ کر رہ گیا۔
درِفشاں اپنے چائے کا کپ لے کر سائیڈ والے صوفے میں بیٹھ گئی تا کہ یشب کی نظر اس پہ نہ پڑ سکے۔
یشب کی مسکراہٹ دیکھ کر ارصم کو اپنے چاروں طرف آگ دہکتی ہوئ محسوس ہوئی “حسد کی آگ” جو دوسروں کے ساتھ خود کو بھی جلا کر خاکسترکر دیتی ہے۔
ارصم نے درِفشاں کا کترایا ہوا انداز بھی نوٹ کیا اور یشب کی پر شوق نظریں بھی، اور وہی سے اس نے ایک پلین بنایا۔
_____________________
جب اجالا کچن میں برتن رکھنے آئی تب فائق بھی اس کے پیچھے اٹھ کر چلا آیا اورجب اجالا نے آہٹ پر پیچھے اہٹ پر پیچھے مڑ کر دیکھا اور فائق کو کھڑے دیکھ کر اسے کوئی حیرت نہ ہوئی۔
“کچھ چاہئے تمہیں”،اجالا نے پوچھا۔
“تم مجھے اگنور کر رہی ہو”،فائق یوں بولا جیسے بڑا ضبط کر رہا ہو۔
“ایسی کوئی بات نہیں “اجالا کہتے ہوئے کاوْنٹر کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی۔
“تم جاب چھوڑ دو”،فائق نے سیدھی سیدھی بات کہی جو وہ کرنے آیا تھا۔
“پر کیوں”
“کیوں کہ مجھے تمہارا غیر مردوں کے سات جانا پسند نہیں اور میں تمہارا منگیتر ہوں اور تمہیں وہی کرنا چاہئے جو مجھے پسند ہو”۔
اجالا تو کئ لمحوں تک اس کی بات پر بول ہی نہ سکی۔
“میں یہ جاب نہیں چھوڑوں گی اور رہی بات تمہارے ماننے کی تو میں ابھی تک اپنے باپ کے گھر میں ہوں اور ان کے حکم کے پابند ہوں اور ویسے بھی تم میرے منگیتر ہو شوہر نہیں جو تمہاری ہر بات مانوں”،اجالابڑے ضبط سے کہہ کر باہر جانے لگی لیکن فائق کی دھمکی پر رک گئی۔
“تو پھر مجھے چاچو سے بات کرنی پڑے گی ان کی زبان تو تمہیں صیحح سمج آتی ہیں نہ”۔
“جو تمہیں ٹھیک لگے”،اجالا نے اس کی بات پر دکھ سے کہا۔
اجالا کہہ کر چلی گئی اور پیچھے سے فائق غصے سے مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔
______________________
اچھا مطلع کیسے لکھیں؟
(پہلا حصہ) میں پہلے ہی اس موضوع پر لکھنے کا سوچ رہا تھا اب "بزمِ شاذ" میں بھی ایک دوست...