عثمان کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا جب وہ گھر کے اندر داخل ہوا تو سامنے والا منظر دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔
“عثمان تم اس قدر بغیرت ہوجاو گے میں نے سوچا بھی نہیں تھا شرم”…
عثمان کے ابو نے عثمان کو دیکھتے ہی یہ الفاظ بولے۔
یہ سن کر عثمان کی حالت پتلی پڑگئی جب عثمان نے اپنے سامنے کی طرف دیکھا تو آزر غصے سے اس کی طرف بڑھ رہا تھا غصے میں آکر آزر نے عثمان کا گریبان پکڑ لیا اور کہا: شرم نا آئ تمہیں اپنے ہی بھائ کا گھر برباد کرتے ہوئے بولو۔۔
عثمان نے ایک پل کے لئے آزر کی لال سرخ آنکھوں کی طرف دیکھا اور پھر اچانک ہی اپنی آنکھیں نیچے کرلی۔
پھر عثمان کی والدہ نے چیختے ہوئے کہا: مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا کہ عثمان تم ایسا بھی کرسکتے ہو۔
آزر نے عثمان بکو ایک طرف دھکیلا اور کہا: میں تمہیں چین سے نہیں بیٹھنے دو گا میں تمہیں بھی اور اسی وقت پولیس کے حوالے کردو گا۔۔۔۔
آزر کا غصہ تھا جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
عثمان نے کانپتے ہوئے کہا: مممم میں نے کیا کیا ہے؟؟؟؟
بس ابھی عثمان نے اتنا ہی کہا تھا کہ آزر غصے میں آکر عثمان پر ٹوٹ پڑا اور کہا: اتنا کچھ کرنے کی بعد تم کہہ رہے ہو کہ تم نے کیا کیا ہے بغیرت انسان۔۔۔
آزر کے والد نے انہیں چھڑایا اور کہا: رکو آزر رک جاو۔
آزر نے روتے ہوئے اور چیخ کر اپنے باپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ارے کیسے رک جاؤ میں کیسے رکو میرا سب کچھ چھین لیا اس نے کیسے رکو میں نہیں میں نہیں رک سکتا میں اسے چھوڑو گا نہیں اس نے میری زندگی برباد کردی۔
عثمان نے پھر سے روتے ہوئے کہا: مممم میں نے کچھ نہیں کیا پلیز ایسا مت کرو می۔میں بے قصور ہو
یہ سن کر علی جو وہاں پر ہی بیٹھا ہوا تھا اس نے کہا: اوووو تو تم بے قصور ہو اگر تم بے قصور ہو تو پھر یہ ریکارڈنگ جو میں نے ابھی تمہارے گھر والو کو سنائی تھی کیا وہ جھوٹ ہے بولو۔
عثمان نے علی کی طرف دیکھا اور غصے سے اسے کہا: تم تم نے انہیں میرے خلاف بھڑکایا ہے نا۔
یہ سن کر آزر نے کہا: نہیں اس نے مجھے نہیں بھڑکایا تم نے مجھے دھوکا دیا ایک بھائی ہوکر اپنے ہی بھائی کی خوشیوں کا گلہ گھونٹ دیا ہے تم نے۔
آزر کی والدہ نے کہا: ہم نے تمہاری ساری ریکارڈنگ سن لی ہے جس میں تم نے بہت سی بکواس شرمندگی سے بھرپور بکواس کی ہے ارے یہ سب سننے سے پہلے میں مر کیوں نہیں گئ۔
اس کی ماں رونے لگ پڑی۔
شور کی آواز سن کر آئمہ بھی اپنے کمرے سے باہر نکل آئ جب اس نے نیچے اکر سامنے والا منظر دیکھا تو حیرت سے اسے ایک زور دار جھٹکا لگا اس کی آنکھیں کہی دھوکا تو نہیں کھا رہی تھی؟؟؟؟
مگر نہیں وہ جو بھی دیکھ رہی تھی وہ اس کی آنکھوں کا دھوکا نہیں تھا۔
علی نے سب سے کہا: آزر میں تمہارا دشمن نہیں ہوں تمہیں گولی مارنے کا بھی مجھے اسی نے ہی کہا تھا ورنہ میں تو تمہیں گولی مارنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس نے مجھے فورس کیا تھا کہ اگر میں تمہیں مار دونگا تو اس کا راستہ صاف ہو جائے گا۔۔۔
عثمان نے جو کچھ نہیں بھی کیا تھا وہ بھی الزام علی اس کے اوپر لگا رہا تھا۔
یہ سن کر آئمہ آگے بڑھی اور جاکر آزر سے کہا: آزر یہ سب کیا ہورہا ہے؟؟؟
آزر نے اپنی لال سرخ آنکھوں سے آئمہ کو دیکھا
آزر کا یہ حال دیکھ کر تو آئمہ بھی ڈر گئی۔
آزر نے آئمہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے باہر کی جانب لے کر گیا اور آزر نے آئمہ کو گاڑی کے اندر بٹھایا۔
آئمہ نے روتے ہوئے کہا: آزر آزر یہ کیا کرہے ہو تم آزر؟؟؟
جب کے آزر غصے میں کچھ بھی سن نہیں پارہا تھا۔
آزر خود بھی گاڑی میں بیٹھا اور سیدھا آئمہ کو ہسپتال لے کر گیا۔
راستے میں آئمہ رو رو کر آزر سے کہہ رہی تھی کہ وہ اسے کہا لے جارہا ہے لیکن آزر نے اسے کچھ نہیں بتایا۔
ہسپتال پہنچ کر آزر آئمہ کو ڈاکٹر کے پاس لے کرگیا اور ڈاکٹر کو کہا: مجھے اپنی بیوی کی ڈی این اے رپورٹ چاہئے۔۔
ڈاکٹر نے کہا: جی ضرور آپ اپنی بیوی کو اندر کمرے میں چھوڑ دے اور خود باہر جائے کچھ دیر تک آپکو رپورٹ مل جائے گی۔
یہ سن کر آئمہ نے اپنی پھٹی آنکھوں سے آزر کی طرف دیکھا اور کہا: اااازر یہ کیا کرہے ہو تم بولو۔۔۔
آزر آئمہ کو کمرے میں لے کر گیا اور آئمہ کی طرف نہایت غصے سے دیکھتے ہوئے کہا: چیخوں مت مجھے ڈی این اے رپورٹ چاہئے۔۔۔
آئمہ نے کہا: مگر کیووووں؟؟؟
آزر نے بھڑک کر کہا: کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ تمہارے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ میرا ہے۔۔۔۔
بس آزر کہ یہ الفاظ آئمہ کے دل پر تیر کی طرح بجے۔
آئمہ اپنی پھٹی آنکھوں سے آزر کی طرف دیکھی جارہی تھی۔
وہ بولنا تو چاہتی تھی مگر اس کے منہ سے الفاظ نکل ہی نہیں پارہے تھے۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر کمرے میں داخل ہوئی ڈاکٹر کو دیکھ کر آزر باہر چلا گیا۔
ڈاکٹر نے آزر کا خون بھی ٹیسٹ کے لئے لیا تھا۔
کچھ دیر بعد ڈی این اے رپورٹ تیار ہوگئ۔
جب رپورٹ آزر نے دیکھی تو رپورٹ دیکھ کر آزر کا سر چکرا گیا وہ وہاں پر کھڑے گرنے ہی لگا تھا کہ ایک دیوار نے اسے گرنے سے بچالیا آزر پر تو جیسے پہاڑ ٹوٹ گیا ہو۔
“رپورٹ کے مطابق آئمہ کے پیٹ میں جو بچہ تھا وہ آزر کا نہیں تھا”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رپورٹ دیکھ کر آزر کا دل پھٹنے کو آرہا تھا آزر وہی بت بنا اپنی پھٹی آنکھوں سے رپورٹ دیکھ رہا تھا۔
آزر کا یہ حال دیکھ کر ڈاکٹر نے کہا: جی آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے؟؟؟
آزر نے اپنی لال سرخ آنکھوں سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور کہا: کککک کیا یہ ررررپورٹ ٹھیک ہے۔۔۔؟؟؟
ڈاکٹر نے پہلے تو آزر کی آنکھوں میں دیکھا اور پھر اس نے کہا: ججج جی رپورٹ بالکل ٹھیک ہے آپ خود بھی دیکھ سکتے ہے۔
یہ سن کر آزر یکدم اٹھا آزر کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے ہوں۔
آزر نے رپورٹ پکڑی اور وہاں سے سیدھا گاڑی میں بیٹھا اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
وہاں دوسری طرف آئمہ کی بھی آنکھ کھل گئی اصل میں ٹیسٹ کے دوران ڈاکٹر نے آئمہ کو نشے کا ٹیکہ لگایا تھا جس کی وجہ سے آئمہ کو نشہ چڑا اور وہ بیہوش ہوگئ۔
جب آئمہ نے اپنی آنکھیں کھولیں تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کے جسم میں جان ہی نا ہو وہ بڑی مشکلوں سے اٹھ کر بیٹھ گئ۔
تھوڑی دیر بعد کمرے میں ایک ڈاکٹر آئ ڈاکٹر کو دیکھ کر آئمہ نے فوراً کہا: جی ڈاکٹر ککک کیا ہوا رپورٹ میں؟؟؟؟؟
ڈاکٹر نے ایک نظر آئمہ کی طرف دوڑائ اور کہا: جی رپورٹ کے مطابق آپکے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ اس شخص کا نہیں ہے جو آپکو یہاں لے کر آئے تھے کیونکہ ان کی اور اس بچے کی ڈی این اے رپورٹ آپس میں میچ نہیں ہوئ۔
یہ سن کر آئمہ کو ایک زوردار جھٹکا لگا اس نے ڈاکٹر کی طرف نہایت حیرت سے دیکھا اور کہا: یییہ یہ کیا بکواس کررہی ہو تم ہوش میں تو ہو۔
یہ سن کر ڈاکٹر نے کہا: دیکھئے جو سچ ہے میں نے آپکو بتادیا براہ مہربانی یہ ہسپتال ہے یہاں شور مت مچائے پلیز۔
آئمہ نے چیختے ہوئے کہا: آزر آزر آزر کہاں ہے؟؟؟؟
یہ سن کر ڈاکٹر نے جلدی سے کہا: دیکھئے وہ یہاں سے چلے گئے ہے پلیز شور مت کیجئے۔
آئمہ نے ایک بار پھر ڈاکٹر کی طرف حیرت بھری نگاہوں سے دیکھا اب کی بار آئمہ کی آنکھوں سے آنسوں نکلنا شروع ہوگئے تھے۔
آئمہ نے کہا: کککک کیا مطلب اازر چلا گیا ممم مجھے یہاں اکیلے چھوڑ کر وہ کیسے جاسکتا ہے؟؟؟
ڈاکٹر نے کہا: مجھے نہیں معلوم پلیز آپ خود کو سنبھالے۔۔۔
آئمہ سے اب اور برداشت نا ہوا وہ جلدی سے بیڈ پر سے اتری اور باہر کی جانب بھاگنے لگ پڑی ڈاکٹر نے آئمہ کو بہت روکا مگر آئمہ تو جیسے پاگل ہوگئ ہو۔
آئمہ بھاگتی ہوئی باہر گئ باہر آزر کی گاڑی نہیں کھڑی تھی وہ اپنی پھٹی آنکھوں سے اپنے اردگرد دیکھ رہی تھی اور چیخ چیخ کر آزر کو پکار رہی تھی مگر آزر وہاں پر موجود نہیں تھا۔
آئمہ کی حالت بری ہونے لگ پڑی تھی وہ مسلسل رو رو کر آزر کو پکار رہی تھی ہسپتال سے باہر کھڑے لوگ آئمہ کو انتہائی حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
“آزر آزر کہاں چلے گئے تم مجھے چھوڑ کر ااااااازر کہاں ہو تم؟؟؟؟؟”
آئمہ کے منہ سے آزر کے علاوہ کوئی الفاظ نکل ہی نہیں رہا تھا اس کی حالت پھر سے خراب ہونے لگ پڑی تھی اس سے پہلے کہ وہ سر کے بھار زمین پر گرتی کہ اچانک وہاں پر آئمہ کے ماں باپ آن پہنچے اپنی بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر آئمہ کا والد جلدی سے گاڑی سے باہر نکلا اور بھاگتا ہوا آئمہ کے پاس گیا اور آئمہ کو جلدی سے پکڑ لیا اور آئمہ کو گرنے سے بچالیا۔
اپنی بیٹی کا یہ حال دیکھ کر انکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئ آئمہ کی ماں بھی گاڑی سے باہر نکل کر آئمہ کی طرف بھاگی۔
“آئمہ! آئمہ یہ کیا ہوا تمہیں ائمہ؟؟؟
آئمہ بے ہوشی کی حالت میں آزر آزر ہی کہی جارہی تھی۔
آئمہ کی والدہ نے کہا: ہائے میرا بچہ کیا ہوا تمہیں؟؟؟
آئمہ کا یہ حال دیکھ کر اسکی ماں رو پڑی تھی۔
آئمہ نے اپنی آنکھیں کھولیں جب آئمہ نے اپنی آنکھیں کھولیں تو وہ اپنے ماں باپ کے گھر پر موجود تھی۔
آئمہ نے حیرانگی سے اپنے آس پاس دیکھا آئمہ نے دیکھا کہ اسکی ماں اور اسکا والد آئمہ کے پاس ہی صوفے پر بیٹھے ہیں۔
آئمہ کو ہوش میں آتے دیکھ کر آئمہ کی ماں آگے بڑھی اور آئمہ کے پاس جاکر آئمہ کے بالوں میں ہاتھ پھرتے ہوئے کہنے لگی: آئمہ شکر ہے خدا کا تم ہوش میں تو آئی۔
آئمہ کی ماں نے آئمہ کا روتے ہوئے ماتھا چوما۔
آئمہ کا والد بھی آئمہ کے پاس آکر بیٹھا اور آئمہ سے کہنے لگا: آئمہ بیٹا اب کیسی طبیعت ہے تمہاری؟؟؟
آئمہ ابھی بھی دونوں کو حیرانگی سے دیکھ رہی تھی۔
آئمہ کو آہستہ آہستہ پھر سے سب کچھ یاد آنے لگ پڑا۔
آزر!
آئمہ کے منہ سے آزر کا نام پھر سے نکلا۔
آئمہ کی والدہ نے کہا: ہاں ہاں بیٹا کیا ہوا آزر کو اپنی ماں سے کہو اپنی ماں کو بتاؤ بیٹا کیا کہا ہے اس نے تم سے بولو میری جان!
آئمہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور اپنی ماں کو گلے سے لگا لیا اور چیخ چیخ کر رونے لگ پڑی۔
آئمہ کو اس طرح سے روتے دیکھ کر اس کے ماں باپ کی تو جیسے جان نکل گئ ہو۔
آئمہ کی والدہ نے آئمہ کو بڑی مشکلوں سے چپ کرایا اور کہا: بولو بیٹا کیا ہوا ہمیں بتاؤ۔
آئمہ نے روتے ہوئے چیخ چیخ کر اپنی ساری کہانی اپنے ماں باپ کو سنا دی اس کے ساتھ عثمان نے جو کیا وہ بھی بتا دیا علی کے بارے میں بھی سب کچھ بتا دیا اور آج جو اس کیساتھ ہوا وہ بھی آئمہ نے اپنی ماں کو سب کچھ بتادیا کہ ڈی این اے رپورٹ کے مطابق جو آئمہ کے پیٹ میں بچہ ہے وہ آزر کا نہیں ہے بلکہ عثمان کا ہے۔
یہ سن کر تو جیسے آئمہ کے ماں باپ پر پہاڑ ٹوٹ گیا ہو آئمہ کے ماں باپ بھی رونے لگ پڑے تھے آئمہ نے روتے ہوئے کہا: امی ابو آزر کو کہے کہ وہ مجھے نا چھوڑے میری کوئ غلطی نہیں ہے اگر اس نے کچھ کیا تو میں مر جاؤ گی امی میں مر جاؤ گی۔۔۔
یہ کہہ کر وہ بے اختیار رو پڑی۔
آئمہ کے ماں باپ کا تو برا حال تھا آئمہ کے والد نے کہا: میں اس حرام زادے عثمان کو زندہ گاڑ دو گا اس کی ہمت کیسے ہوئی یہ سب کککک کرنے کی۔
آئمہ کی والدہ نے کہا: آئمہ یہ سب کچھ تم نے ہمیں کیوں نہیں بتایا؟؟؟؟
آئمہ نے روتے ہوئے کہا: مممم میں ڈر گئ تھی امی میں ڈر گئ تھی اس اس درندے نے مجھے بہت دھمکایا تھا میں کیا کرتی میں آزر کے بغیر نہیں رہ سکتی تھی اسی لئے میں چپ رہی لیکن!
یہ کہہ کر وہ پھر سے رونے لگ پڑی آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
دوسری طرف آزر اپنی آنکھوں میں غصے کی آگ بھرے گھر پہنچا گھر پہنچ کر آزر دوڑتا ہوا گھر کے اندر داخل ہوا آنکھوں میں اتنا غصہ تھا کہ جیسے لاوا پھٹ گیا ہو۔
“عثمان کہاں ہو تم بغیرت میری عزت کا جنازہ نکال کر کہاں چھپے بیٹھے ہو باہر نکل آج میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑو گا۔۔۔۔۔
گھر پہنچ کر ہی آزر زور زور سے چیخا عثمان پہلے سے ہی اپنے کمرے میں چھپا بیٹھا تھا آزر کی شور کی آواز سن کر اس کے پسینے چھوٹ رہے تھے اس نے اپنے کمرے کو لوک لگایا ہوا تھا۔
شور کی آواز سن کر آزر کے ماں باپ آزر کی طرف دوڑتے چلے آئے۔
آزر کی ماں نے حیرانگی سے آزر کی طرف دیکھا اور کہا: ککک کیا ہوا آزر سب ٹھیک ہے نا کہاں لے گئے تھے تم آئمہ کو کہاں ہے وہ۔
آزر نے اپنی ماں کی طرف دیکھا تو اس کی ماں ڈر گئ کیونکہ آزر کی آنکھوں میں اتنا غصہ تھا کہ اس سے دیکھا ہی نہیں گیا۔
آزر نے چیختے ہوئے کہا؛ میں گیا تھا ایک آخری امید لے کر کہ شاید شاید میری عزت بچ جائے لیکن نہیں میرے اپنے ہی سگے بھائ نے مجھے ایسا ڈسا کہ میں سر اٹھا کر جینے کے کابل ہی نہیں رہا۔
عثمان اپنے دروازے سے کان لگا کر یہ ساری باتیں سن رہا تھا۔
آزر کے والد نے کہا: بیٹا آخر ہوا کیا ہے؟؟؟؟
آزر نے رپورٹ نکالی اور اپنے باپ کو پکڑتے ہوئے کہا: یہ دیکھے دیکھے نا کیا ہوا ہے کیا ابھی بھی کچھ ہونا باقی ہے۔
جب آزر کے والدین نے رپورٹ دیکھی تو وہ بھی حیران اور پریشان ہوگئے۔
آزر کو اور زیادہ غصہ آیا وہ سیدھا عثمان کے کمرے کی جانب بڑھا اور دروازے کو زور زور سے لات مارنا شروع کردیا دروازے کو اتنی زور زور سے لات ماری کے تیسری بار لات مارنے سے دروازہ ہی ٹوٹ گیا آزر نے دیکھا کہ سامنے عثمان کھڑا ہے عثمان کو دیکھ کر اس کا خون کھولنے لگ پڑا وہ چیخا اور جاکر زور دار مکا عثمان کہ منہ پر مارا جس کی وجہ سے عثمان نیچے گر گیا آزر نے اس کے اوپر چڑھ کر پاگلوں کی طرح اسے مکے لاتے مارنا شروع کردی یہ دیکھ کر آزر کا باپ بھاگتا ہوا آیا اور آزر کو چھڑایا۔
عثمان پھر سے اٹھ کھڑا ہوا۔
عثمان کے ہونٹوں سے خون نکل رہا تھا۔
آزر نے چیخ کر کہا: چھوڑ دو ابو مجھے ممم میں اسکا خون پی جاؤ گا نہیں چھوڑو کا میں اس درندے کو مار ڈالو گا میں اسے۔۔۔۔
عثمان نے کہا: ہاں مار ڈالنا لیکن اس سے پہلے میری ایک بات سن لو۔
آزر نے چیخ کر کہا: اب سننے کو اور کیا باقی رہ گیا ہے بول۔
عثمان نے کہا: حقیقت جو ہے وہ تم نہیں جانتے۔
کیسی حقیقت آزر کی والدہ نے کہا؟
عثمان نے کہا: مانا کہ میں آزر کا گنہگار ہو لیکن یہ جو سب کچھ ہوا اس میں میری کوئ غلطی نہیں ہے پلیز میری بات دھیان سے سنے۔
یہ سن کر آزر عثمان کے قریب گیا اور عثمان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا؛ بول بول کیا کہنا چاہتے ہو تم بول۔
عثمان نے آزر کی طرف دیکھا اور کہا: آزر میرے بھائ میری کوئ غلطی نہیں ہے تو تو جانتا ہے کہ میں نے تمہیں آج تک کوئی دکھ نہیں دیا تو پھر اتنا بڑا دکھ میں تمہیں کیسے دے سکتا ہو بولو۔
کہنا کیا چاہتے ہو تم بولو۔
آزر کے والد نے کہا: ابو میں یہی کہنا چاہتا ہو کہ میں نے آئمہ کو فورس نہیں کیا بلکہ اس نے مجھے اپنی طرف مائل کیا تھا۔
یہ سن کر آزر نے پھر سے عثمان کا گریبان غصے سے پکڑ لیا اور کہا: آئمہ مجھے دھوکا نہیں دے سکتی۔
عثمان نے کہا: وہ تمہیں دھوکا دے رہی تھی میرے بھائ جب تم کام پر جاتے تھے تو وہ مجھے پیچھے سے کافی حد تک چھیڑتی تھی اور کہتی تھی کہ آزر سے زیادہ خوبصورت اور ہینڈسم تم ہو میں نے اسے بہت بار سمجھایا لیکن وہ باز نا آئی۔
آزر نے کہا: بکواس کررہے ہو تم کیا ثبوت ہے تمہارے پاس؟؟؟
عثمان نے کہا: “علی” علی ہے ثبوت اور گواہ وہ صرف میرے ساتھ ہی نہیں تھی بلکہ تمہارے جانے کے بعد وہ علی سے بھی فون پر بات کرتی تھی اصل میں علی میرے آفس میں کام کرتا تھا میں نے علی کو بہت سمجھایا لیکن وہ بھی باز نا آیا اسی لئے میں نے علی کو نوکری سے نکال دیا اور اسی چیز کا بدلہ لینے کے لئے علی نے میرے ساتھ یہ سب کچھ کیا اور یہ بات تو تم بھی جانتے تھے کہ علی آئمہ سے کتنی محبت کرتا ہے۔
یہ سن کر آزر کی گرفت کمزور پڑتی گئ کیونکہ عثمان کی اس بات میں کافی حد تک سچائی تھی۔
آزر نے کہا: پھر وہ جو ریکارڈنگ تھی وہ کیا تھی۔
عثمان نے کہا: وہ سب کچھ تو میں نے آئمہ کو ڈرانے کے لئے کیا تھا تاکہ علی آئمہ کو میرے ساتھ مل کر اغوا کروائے اور اس کام کے لئے میں نے علی کو پیسے دینے کے لئے بھی کہا تھا تاکہ آئمہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں اور علی بھی راستے سے ہٹ جائے مگر ویسا نہیں ہوا جیسا میں نے سوچا تھا میں نے یہ سب کچھ تمہیں بھی بتانا تھا لیکن میں ڈر گیا تھا کہ تم غصے میں آکر کچھ کر ہی نا لو اسی لئے میں چپ رہا پھر ایک دن جب گھر پر کوئی نہیں تب آئمہ نے مجھے چائے میں نشے کی گولیاں ملاکر ایک نوکرانی کے ہاتھوں بھجوائی تھی مجھے لگا کہ چائے نوکرانی نے ہی بنائ ہے اسی لئے میں وہ چائے پی گیا جب میں نے وہ چائے پی تو مجھے کافی چکر آنے لگ پڑے تھے لیکن مجھے اتنا یاد تھا کہ تب وہاں آئمہ بھی موجود تھی اور پھر اس رات مجھ سے یہ گناہ ہوگیا پھر میں تمہاری اور اپنی عزت کے لئے چپ رہا علی کو پیسے نا دینے کی وجہ سے اس نے یہاں آکر وہ ریکارڈنگ سب کو سنادی۔
یہ سن کر آزر کے ماں باپ نے آزر سے کہا: ہاں بیٹا یہی سچ ہے تمہارا بھائ بھلا ایسا کیسے کرسکتا ہے تمہارے ساتھ بولو۔
آزر کافی پریشان ہوگیا اور وہ وہاں سے چلا گیا۔
آزر کے ماں باپ نے بھی عثمان سے معافی مانگی اور پھر وہ بھی وہاں سے چلے گئے۔
اور عثمان وہی پر ہی اپنے چہرے پر ایک زہریلی سی مسکراہٹ لئے کہکہا لگا رہا تھا اور دل ہی دل میں خود کی تعریف ہی کئے جارہا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا مطلع کیسے لکھیں؟
(پہلا حصہ) میں پہلے ہی اس موضوع پر لکھنے کا سوچ رہا تھا اب "بزمِ شاذ" میں بھی ایک دوست...