لٹکتی سانس کے پردے پہ برسوں کے پرانے، ملگجے جالے کشیدہ ہیں
ہوا کی آب گوں ململ میں ننگا جسم لپٹا ہے
پھٹی آنکھوں میں ناخن اگ رہے ہیں، آؤ۔۔ ۔۔ جالی دار دیوار پہ
کوئی پوسٹر چسپاں کرو، اعلان کر دو۔۔ ۔۔ آج اس کے استخوانی ہاتھ
اس کی موت کی تاریخ لکھیں گے
کسی اخبار کے چالیسویں کالم میں اس کا نام کل مذکور ہو گا
بے درخت و سنگ میدانوں میں اس کی
بے صدا آواز اپنا عکس ڈھونڈے گی
تو کوئی سر کٹا بے نام ہیرو خاک سے اٹھ کر
دھوئیں کے دائرے سے ایک کالا لفظ پھونکے گا
اسے پتھر بنا دے گا
اسے کہہ دو کہ ہم بھی جالیوں والی عمارت کے مکیں ہیں
جس کے سوراخوں پہ
سرجن نے مکینک کی جراحت سے نئی آنکھیں لگائی ہیں
کہ شاید اندرونی حادثوں کو جذب کر لیں اور سارے حرف
اپنے حاشیوں کی قید سے آزاد ہو جائیں
اسے کہہ دو کہ ہم، ہم بھی نہیں ہیں، شام کے انبوہ سینماؤں سے
جب باہر نکلتے ہیں تو ہم اپنی شباہت
ہر کس و ناکس کے چہرے میں نمایاں دیکھتے ہیں،
رات کے بھاری کواڑوں پر
ہمارے ہاتھ شب بھر دوسروں کی دستکیں دیتے ہیں
جیسے اجنبی گھر ہو
جسے برسوں سے ہم اپنا سمجھتے ہیں
اسے کہہ کو کہ وہ، بھی نہیں ہے، زرد معیاروں کی دنیا میں
ہزاروں دھوپ چھاؤں کے بنے پیکر
خلا میں اپنی ویژن ڈھونڈتے رہتے ہیں، بچوں کی طرح
بھیگی ہتھیلی سے
کسی دیوار پر اپنے ہی سائے کو مٹاتے ہیں
مگر کچھ بھی نہیں ہوتا
اسے کہہ دو کہ ہم سو سرسری کردار ہیں
جو روز کی جنگوں میں مرتے ہیں
مگر کچھ بھی نہیں ہوتا
٭٭٭
بنگال کا لہو جو پنجاب کے دفاع میں گرا بیدیاں کے شہید
بہت لوگ نہیں جانتے کہ لاہور چھاوٴنی میں جو گنجِ شہیداں ہے، اس کی لہو پلا کر سینچی زمینوں میں...