میں تخیل کے تشدد کا شکار
دیکھتا ہوں آسماں سے سایہ سایہ چیتھڑے گرتے ہوئے
سن رہا ہوں
پھڑ پھڑاتی دھوپ کی پیلی صدا
درد کی بوڑھی چڑیلیں
آنکھ کے صحرا میں اپنی ریتلی آواز میں سب کو پکاریں
آؤ آؤ
میں اکیلا اپنے سناٹے میں، گرد و پیش کے آشوب میں کھویا ہوا
چل رہا ہوں
راستے کے سنگریزے آنکھ سے چنتے ہوئے
تاکہ پتھرائی ہوئی صر صر کی سڑکیں، رفتہ رفتہ میرے پاؤں چاٹ لیں
چل رہا ہوں
جانے کس جانب مجھے جانا ہے، کیوں جانا ہے
شاید فاصلوں کی انتہا افتادگی ہے
اور شاید
منزلیں اس واہمے کی موت کا منظر ہیں
جو تازہ لہو کے آئینے کا عکس ہیں
جو تازہ لہو کے آئینے کا عکس ہے
اور کیا معلوم۔۔ ۔۔ یہ بھی واہمہ ہے
کاش کوئی لفظ اپنی بند مٹھی کھول دے
اور کاغذ پہ بجھی سطروں کا جال
مجھ پہ چاروں سمت سے آ کر گرے
کیا خبر آزاد ہو جاؤں لق و دق ریت کے کہرام سے
چیختی چیلیں زمیں سے سایہ سایہ چیتھڑوں کو لے اڑیں
اور میں مٹی کی ننگی گود میں لیٹے ہوئے
آسماں کو اپنے اوپرا اوڑھ لوں
٭٭٭
تنوع کے فقدان کا عذاب
لاہور ایئرپورٹ سے فلائی کرنے والا ہوموپاکیئن دو تین گھنٹے بعد دوبئی یا دوحہ میں اترتا ہے تو ایک مختلف...