وہ مزے کی نیند سو رہی تھی جب فون کی گڑگڑاہٹ سے اُسکی آنکھ کھلی ۔ پہلے پہل تو اُسے سمجھ نہیں آئی کہ آنکھ کھلی کیوں ہے۔ جب ذرا دماغ بیدار ہوا تو بیڈ کے بائیں طرف پڑے سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مارا مگر فون ندارد تھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ آنکھیں ابھی بھی مکمل کھلی نہیں تھیں ۔ اُسنے اپنے بال باندھے جو اِس وقت کسی گھونسلے کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔ پھر اپنے دائیں طرف موجود سائیڈ ٹیبل پر دیکھا۔ وہ وہاں بھی موجود نہیں تھا۔
اب تو یقیناً بیڈ کے نیچے ہی موجو د ہوگا۔ وہ ذرا سا جھکی اور ہاتھ لمبا کر کے بیڈ کے نیچے مارا۔وہ یہیں تھا۔ گہری سانس لی اور اوپر کو اُٹھی ۔ اب تک آنے والی کال خاموش ہو چُکی تھی۔ سیل آن کیا ا ور آنے والی کال جو کہ اب مِسڈ کالز کے خانے میں موجود تھی اُس پر بائیں ہاتھ کی انگلی سے ٹیپ کیا تو ایک دم تو اچھل ہی پڑی۔
کال وہاں سے آئی تھی جہا ں سے کال آنے کی آخری امید بھی رات کو ختم کر چُکی تھی وہ۔
وہ غصے سے اُٹھی ااور فریش ہونے چل دی۔ “اب کال کر ہی لی ہے تو بچو ناراضگی بھی برداشت کرو ۔ میں نہیں کروں گی کال بیک ہنہ!” اُسنے واش روم کی طرف جاتے ہوئے یوں منہ بنایا جیسے کال کرنے والی شخصیت سامنے ہی موجود ہو۔
ایک آدھ گھنٹہ واش روم میں لگا کر وہ واپس آئی تو دوبارہ سے سیل چیک کیا ۔ کئی کالز آ چُکی تھیں ۔
اب کی بار وہ حیران ہوئی۔ جانے کیا مسئلہ ہے جو یوں۔۔۔
اِتنا ہی سوچ سکی تھی اور اب کال بیک کر رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ کمرے میں کھڑی سارے کمرے جائزہ لے رہی ۔ وہ اِس کمرے میں دو سالوں سے تھی۔
شروع میں جب وہ اس شہر میں اپنے اسکالر شپ کے تحت آئی تھی تو کافی سہولت تھی کیونکہ تب ایک ہاسٹل میں مقیم تھی۔ اُسکے ساتھ کچھ پاکستانی لڑکیاں بھی آئی تھیں۔ بعد میں وہ اپنی اسکالرشپ کی مدت ختم ہوتے ہی پاکستان چلی گئی تھیں ۔ ہاسٹل کے ڈیوز اُس کے لیے بہت زیادہ تھے تبھی اُس نے جاب شروع کر دی مگر اب مسئلہ یہ آتا تھا کہ وہ جگہ اُسکے ہاسٹل سے بہت دور تھی ۔اس مسئلے کے حل کے لیے وہ اپنی ایک جاننے والی لڑکی کے توسط سے اس اپارٹمنٹ میں شفٹ ہو گئی تھی جہاں کاتفہ پہلے سے رہائش اختیار کیے ہوئے تھی۔ یہاں آکر اُسکی مشقت میں اضافہ ہو گیا تھا۔
مگر اب اُسے اس اپارٹمنٹ سے بھی جانا تھا کیونکہ کاتفہ نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اپنا انتظام کہیں اور کر لے کہ اب کاتفہ اپنا خرچ اُٹھانے کے قابل ہو چکی تھی اور مزید اُسے یہاں برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ وہ کافی دن سے امتحانات میں مصروف تھی اور ساتھ میں جاب کو بھی پورا وقت دیتی تھی یہی وجہ تھی کہ اسکی کافی دن سے پرِیا سے بھی بات نہیں ہو پائی تھی نہ ہی وہ اُسکو اپنے غائب ہونے کی وجہ بتا پائی تھی۔
اب کافی دیر سے وہ اُسکے نمبر پر ٹرائی کر رہی تھی مگر وہ کال اُٹھا ہی نہیں رہی تھی۔ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب اُسے کہاں جانا چاہیے۔ اُس نے یہاں موجود اپنے سب روابط استعمال کر دیکھے۔ مگر نتیجہ کچھ نہ تھا۔ وہ مسلسل پریشان تھی ۔
ابھی وہ اِنہی سوچوں میں تھی جب اُسکے ہاتھ میں پکڑا سیل فون تھر ا اُٹھا ۔ اسنے پرِیا کا نام پڑھا تو گہری سانس لی ۔ اس وقت اسی کی ضرورت تھی۔ کال اوکے کی اور کان سے لگا لی۔
“فرمائیں” پرِیا کی روٹھی ہوئی آواز اُبھری تھی۔
” کیسی ہو پری؟” اس نے بےساختہ آنے والی مسکراہٹ کو ضبط کیا۔
“آپ سے مطلب؟” وہ ابھی بھی روٹھی ہوئی تھی۔
“پیپرز تھے میرے پری”
” تو ؟”
” پری پلیز” عُنیزہ روہانسی ہوئی۔”اچھا اچھا مر ہی نہ جانا۔ بتاؤ کیسےیاد آگئی اس ناچیز کی؟” وہ فوراً لائن پر آئی تھی۔
” کام تھا ” وہ بھی فوراً بولی۔
” حاضر جناب ۔ فرمائیں ہم آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں؟” پرِیانے کھینکار کر آواز بھاری بنائی اور بولی۔
” پری پلیز یار سیریس ہوں میں”
“اوکے۔ کیا ہوا ہے اتنی پتلی حالت کیوں ہوئی لگ رہی ہے تمہاری؟”
” میں اپارٹمنٹ سے شفٹ کرنے والی ہوں ۔ اور کوئی جگہ نہیں ہے جہاں جاؤں۔ میں نے ایک دو جگہ پتہ کیا ہے مگر جواب نہ میں ملا ہے۔ اگر تمہاری نظر میں کوئی جگہ ہو جہاں میں آرام سے ایڈجسٹ ہو سکوں تو پلیز گائیڈ کر دو” وہ ایک سانس میں ساری بات بتا گئی۔
” جگہ تو ہے مگر تمہارا معلوم نہیں رہو بھی کہ نہیں اور تمہیں پسند آئے بھی کہ نہیں ” وہ مبہم سا بولی۔
” میں کوشش کر و ں گی کہ میں کوئی مسئلہ نہیں کروں ” وہ جلدی سے بولی تھی۔
” ارے تمہارے مسئلہ کرنے کی بات نہیں ہے۔ بات تو جگہ کے مسئلہ کرنے کی ہے”
” کیا مطلب؟” وہ سمجھ نہیں پائی تھی ۔
“مطلب تم اگر چاہو تو میرے ساتھ میرے اپارٹمنٹ میں شفٹ ہو سکتی ہو” وہ بولی تو عُنیزہ خاموش ہو گئی۔ وہ اِس معاملے میں اپنے والدین سے بات کیے بناء کچھ نہیں بول سکتی تھی۔
” کیا ہوا نیمو؟ گم گئیں کیا پھر سے؟” پرِیا بولی۔
“بات یہ ہے پرِیا ۔۔۔کہ ۔۔میں مما بابا سے پوچھ کر ہی بتا سکتی ہوں ۔۔ابھی تو نہیں” وہ اٹک اٹک کر بات مکمل کر پائی تھی۔
” ہاں ہاں کیوں نہیں یار۔ تم مشورہ کرلو اور بتاؤ۔ میں انتظار کر رہی ہوں ” پرِیا نے رسان سے کہا تھا۔
” میں بتاؤں گی ” اس نے آہستہ اواز میں کہا۔
” ٹھیک ہے میں اب اپنا ورک کمپلیٹ کروں گی نینی ناشتے پہ انتظار کر رہی ہونگی اور تم ٹائم پہ کال کر لینا اوکے اب بائے” اُس نے کہا اور عُنیزہ کی اگلی بات سُنے بغیر فون رکھ دیا۔
عُنیزہ جو پہلے پریشان کھڑی تھی اب ریلیکس سی بیٹھ گئی تھی۔ اُسے اب اپنے والدین سے اجازت لینی تھی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“دیکھ لیں بیٹا ۔ آپ اپنی سہولت دیکھیں جہاں آپ آرام سے رہ سکیں اور میری بات یاد ہے ناں؟ ” وہ اس وقت اپنے بابا سے بات کر رہی تھی ۔توقع کے عین مطابق اجازت فوراً مل گئی تھی۔
“بابا آپ کی دعا ہے ناں۔تو میرے لئے فکر والی بات وجود ہی نہیں رکھتی۔ میں اپنی اقدار کو بھولی نہیں ہوں بابا۔ میری طرف سے مکمل مطمئن رہیں” وہ مسکراتے ہوئے انکی بات کا جواب دے رہی تھی جبکہ اُنکی آنکھیں بھیگنے کو تھیں جب وہ بولے۔
“عنُیزہ ! بیٹا مجھے کچھ کام نپٹانے ہیں میری گڑیا آپ جب شفٹ ہو جاؤ تو خیریت سے آگاہ لازمی کرنا میں انتظار کرونگا” اُنہوں نے بات سمیٹی تھی۔
“بابا ۔۔۔” بیٹی تھی آخر۔ اور بیٹی ماں باپ کے لہجے اور انداز کو نہ سمجھ پائے تو بیٹی کیوں کہلائے۔بیٹیوں کاخمیر ہی محبت سے اٹھایا جاتا ہے۔ یوں لہجوں سے پہچانتی ہیں کہ ان کے غم سمجھ پائے کوئی یہ ہو نہیں سکتا۔ اور وہ کسی کا غم سمجھ نہ پائیں یہ ممکن ہی نہیں ہے۔
“جی بیٹا ” وہ بہت دھیمے سے انداز میں بولے۔
” میں اس سال آؤ ں گی ناں۔ آپ بھی مما کی طرح اب اپنا دل چھوٹا کر رہے ہیں اور میں کونسا بہت دور بیٹھی ہوں” وہ ہلکے پھُلکے سے انداز میں ان کو سمجھا رہی تھی۔
” بیٹا دل چھوٹا نہیں کیا ۔ بس اداس ہو گئے ہیں ہم تو بہت” وہ بھی لہجہ مضبوط رکھتے ہوئے گویا ہوئے ۔ آخر کو دل کا ٹکڑا تھی اُن کی بیٹی۔
“چلیں اب پھر کام کریں کیونکہ اب آپ اداس نہیں ہیں اور ہونگے بھی نہیں میں اس دفعہ کرسمس کی چھٹیوں پہ آرہی ہوں لیکن اگر آپ ذرا بھی اداس ہوئے تو ارادہ کینسل”
” ہاں ہاں معلوم ہے بہت پکی ہو تم بھی ضد کی” وہ ہنستے ہوئے بولے۔
” آپ پر ہی گئی ہوں” وہ مسکرائی تو گلا کھنکھارنے کی آواز سے فوراً بوکھلا کر وضاحت کرنے لگی ” میں نہیں کہتی مما کہتی ہیں” دوسری طرف سے بابا کا قہقہہ سُنائی دیا تو اُس نے سکون کا سانس لیا۔
“اب میں سامان پیک کر لوں بابا”
“ہاں بیٹا ۔ اپنی ماں کو بھی بتا دینا جانے کا” وہ بولے اور خدا حافظ کہہ کر رابطہ منقطع کر دیا۔
جہاں باپ سے بات کرنے پر اس کا ایک مسئلہ حل ہو اتھا وہیں دل نے الگ ہی بے چینی پکڑ لی تھی۔ جانے کیا بات تھی کہ اب دل مضبوطی کے خول سے باہر نکلنا چاہتا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ؟” آج بھی اُسے اُسکی مخصوص جگہ پر بیٹھے دیکھ کر وہ اُسکی طرف چلی آئی تھی۔ وہ اچانک سے سوال کر دینے پر چونکا اور دایاں ابرو اُچکا کر اُسے دیکھنے لگا۔
” تم سے ہی مخاطب ہوں اور کون ہے میرے اردگرد؟” وہ بھی گھورتے ہوئے بولی اور اس کے ساتھ جم گئی۔ جبکہ اُسکے ماتھے پر شکنیں پڑ چُکی تھیں ۔
” ایکسکیوز می؟” وہ اسکی طرف ماتھے پر تیوری چڑھائے چہرہ موڑ کر بولا۔ اسے اپنا مخل کیا جانا بُر الگا تھا۔
” ایکسکیوزڈ! مائی سیلف پرِیا رتیش اینڈ یو؟” وہ کمالِ بے نیازی سے ہاتھ بڑھا کر بولی جبکہ مخاطب کے چہرے کے نقوش مزید بگڑ گئے۔ جس پر پرِیا کو بہت ہنسی آئی مگر ضبط کرتی ہوئی بولی
“جتنا تم چڑو گے اُتنا ہی میں تمہیں تنگ کروں گی اسلیئے ڈئیر اپالو! صبر اور تحمل سے مجھے برداشت کرو”
“وِل یو پلیز سٹاپ دِس؟” وہ غصے میں بولتا ہوا اچانک کھڑا ہوا تو پرِیا بھی ساتھ ہی کھڑی ہو گئی تھی۔’عجیب ہی منہ پھاڑ بندہ ہے’
“اب کیا کر دیا میں نے؟” وہ معصومیت سے مگر شستہ انگلش میں دوبدو بولی جس پر سامنے والے کو مزید غصہ آیا تھا ۔ وہ تیز تیز قدم بڑھاتا آگے کو چل دیا تھا ۔پرِیا بھی اُسکے پیچھے دوڑی تھی۔
“بھاگ کیوں رہے ہو میں کھاتی نہیں ہوں” وہ پھولے سانس کے ساتھ بولی تو وہ اچانک مڑا جس پر پرِیا نے بھی بریک پرپاؤں رکھا۔
“مسئلہ کیا ہے؟ تم کیوں ہر روز ہی مجھے تنگ کرنےآ پہنچتی ہو؟ اور کوئی کام نہیں تمہیں؟ تم۔۔۔” وہ اتنا ہی بولا تھا جب پرِیا نے اُسکا ہاتھ پکڑا اور آگے کو چل دی۔ وہ اُس سے ہاتھ چھڑوانے لگا تھا ۔لیکن مجال ہے جو پریا رتیش نے ہاتھ چھوڑا ہو۔ لڑکی تھی مگر اس وقت زور آور ہوئی تھی۔پارک میں موجود لوگوں کو ان سے کوئی سروکار نہ تھا ۔ مگر وہ جو ہاتھ چھڑوا رہا تھا اب سرخ منہ لیے اس کے پیچھے چلنے لگا تھا کہ اب اسے سیٹ کر ہی دے گا۔
” میں صرف کافی پلوانے والی ہوں بھگا نہیں رہی کہیں بھی تمہیں۔”پونی کو جھلاتے وہ ہنستے ہوئے بولی۔ ہاتھ اب بھی نہ چھوڑا تھا۔ جبکہ مخاطب دانتوں پے دانت جمائے ساتھ چلتا جا رہا تھا۔ اپنے پسندیدہ ‘دیسی ڈھابہ’ جو کہ پارک کے نزدیک ہی تھا،پر پہنچ کر اُس نےکافی کا آرڈر دیا تھا اور ایک تقریباً خاموش کونے میں اُسے لیے بیٹھ گئی تھی۔
وہ ایک پررونق جگہ تھی۔ کسی جگہ کچھ لوگ بیٹھے مذاکرات کرتے دکھ رہے تھے اور کہیں کچھ جوڑے بیٹھے آپس کے مسئلے حل کر رہے تھے۔ کسی طرف کوئی ماں اپنی بیٹی کو جوس پلوانے کو بیٹھی تھی تو کوئی میز کسی بے گھر کو کھانا کھلاتے آدمی سے پُر تھی۔
وہ جو رش سے پہلے ہی اکتایا رہتا تھا اب بھی منہ بنائے ناک چڑھائے یہاں وہاں دیکھ رہا تھا۔ وہ ہنوز خاموش تھا۔ مگر پرِیا کی زُبان پر کھجلی ہوئی۔
” ہمارے ایشیاء میں ، خصوصاً پاکستان اور اِنڈیا میں کافی میں دودھ تو ڈالا جاتا ہےمگر چینی بھی عام ہے۔ تمہیں چپچپا ہٹ محسوس ہوگی ذرا سی۔ مگر اگنور کرنا”
مخاطب بے نیاز سا اردگرد کا جائزہ لے رہا تھا۔ اُسے پرِیا کی کسی بھی بات سے دلچسپی نہیں تھی۔
“ویسے تم بھی حد ہی کرتے ہو۔ بولتے ہو تو بولتے چلے جاتے ہو۔ اور نہیں بولتے تو بالکل ہی نہیں۔” وہاں ہنوز خاموشی تھی مگر گُھوری کا اضافہ ہو چکا تھا۔
“ارے بھئی اپالو۔۔۔” ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائی تھی جب اسکی بات کاٹ دی گئی ۔
” ایک منٹ! پہلے یہ کلئیر کر لو کہ میں اپالو نہیں ہوں”
پرِیا کھلکھلا کر ہنس دی جس پر اپالو صاحب کے ماتھے کے بلوں میں مزید اضافہ ہوا تھا۔
” اپالو جانتے ہو کون تھا؟” وہ جواباً چُپ رہا۔ اسکا فوکس اپنے کافی کپ تھا جو کہ کچھ دیر پہلے ویٹرس انہیں سرو کر گئی تھی۔
” اپالو روم کے لوگوں کا دیوتا ہے۔ محبت کا دیوتا۔ حُسن کا دیوتا۔مجھے پہلی نظر میں تم پر اپالو کا گمان ہوا تھا اس لیے یہی نام رکھ دیا۔” وہ مسکراتے ہوئے بتا رہی تھی۔
” تم چُپ نہیں رہ سکتیں کیا؟” وہ چِڑ کے بولا۔
ہاتھوں کوآپس میں رگڑتی سردی کی شدت کو کم کرنےکی کوشش کرتی پریا نے اپناکپ دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھا اور یہاں وہاں دیکھنے لگی۔ ٹھنڈی ہوا نے ماحول کو خنک سا بنا رکھاتھا۔ مغرب کا وقت تھا مگر لوگ یوں تھے گویا شہد ک مکھیوں کو چھتے سے آزاد کیا ہو۔
وہ اپنی سوچ پر خود ہی مسکرا دی تھی۔
“یوں غصہ کر لینے سے یا چُپ رہ لینے سے کچھ نہیں بنتا ۔ میں نے بس اس لیے تمہارے قریب ہونا چاہا کہ تم مجھ سے اپنی خاموشی بانٹ سکو۔ باقی تمہاری اپنی مرضی ہے” پرِیا نے اپنا خالی مگ میز پہ رکھا۔ اپنے ٹراؤزر سے پیسے نکالے اایک کارڈ اُٹھایا اُس پر اپنا نمبر لکھا اور میز پر پڑے گُلدان کے پاس رکھ کے مزید کچھ بولے بغیر ہُڈی سر پر چڑھائی اور آگے بڑھ گئی جبکہ وہ بس سوچتی نظروں سے اُسے دیکھتا رہ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چاند کی مٹی سے ہوا؟
چاند کی زمین کی طرح کوئی فضا نہیں۔ زمین کی فضا میں کئی گیسیں ہیں جن میں سے ایک آکسیجن...