مما آپ نے بات کی بابا سے؟” پرِیا کے جانے کے بعد وہ کمرے میں آئی تھی۔ کاتفہ کمرے میں نہیں تھی۔ اُسنے موقع غنیمت جان کر اپنا لیپ ٹاپ نکالا اور پاکستان کال ملا لی تھی۔ اب وہ اپنی ماں سے بات کر رہی تھی۔
” کہاں آپی! آپ کی یہ لیڈی ڈیانا بہت مصروف ہوتی ہیں اصل بات ہی بھول جایا کرتی ہیں باقی تو سب ہی باتیں بابا تک پہنچ جاتی ہیں” جواب ماں کی بجائے بہن نے دیا تھا۔ وہ ہنس دی۔
” مما یہ کیا بات ہوئی۔ میں نے کہا تھا ناں کہ ایک ہفتے کے اندر اندر بابا سے بات کر لیجیےگا تا کہ میں کوئی جواب دے پاؤں آگے” وہ نروٹھے پن سے بولی۔
“وہ آج کل دکان کا ما ل آیا ہوا تھا تمہارے بابا اُسے سیٹ کرنے میں مصروف تھے ۔تھکے ہوئے آتے تھے کیا بات کرتی” وہ بہانہ بناتے ہوئے بولیں ۔
“میں خود بات کرتی ہوں اُن سے پھر” وہ بولی۔
” میں نے کہا ناں بات کروں گی۔ کیوں فالتو کی ضد کرتی ہو؟” وہ غصے سے گویا ہوئیں
“ضرور کریں اور جلدی کریں ۔ ویسے بھی وہ مان جائیں گے ۔ اور نہیں مانتے تو بھی آپ زور دیجیئے گا مان جائیں گے”
” آپی ! وہا ں جانے سے زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟” اُسکی بہن ماں کے کندھے سے کیمرے کے سامنے آئی۔
” وہاں اگر بابا شراکت داری کر لیں جو کہ ضرور ہی کریں گے اِنشاءاللہ ، تو دکان والے کاموں سے جو تھک جاتے ہیں تو وہ بچت ہو گی دوسرا بابا کا ایکسپیر ینس ہے سامان کی شِپنگ کا۔ وہ سب اچھے سے ہینڈل کر لیں گے اور سر، جن سے میں نے بات کی ہے اُن کا ہاتھ بھی بٹ جائیگا ” وہ تفصیل سے بتانے لگی۔
“پھر میں بابا سے بات کرتی ہوں آج۔ مما سے نہیں ہونایہ ۔۔۔” وہ ماں کو طنز لگا کے فوراً سے ہٹ گئی مُبادہ کان ہی نہ کھینچ لیں۔
” تم بہنیں مار کھاؤ گی کسی دن مجھ سے دیکھ لینا پھر میں کرتی کیا ہوں بیٹا جی ” وہ رعب سے بولیں تو ضرور مگر چہرے پر پیاری سی مُسکان تھی کہ اُن کے بیٹے نہیں تھے مگر بیٹیوں کو ماں باپ کا بہت دھیان تھا اللہ نے بے شک اچھا نہیں ، بہترین عطا کیا تھا ۔
“کرتی کیا ہو تم آج کل” وہ مزید گویا ہوئیں ۔
” ہاہ بس مما آج کل افغانستان کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں چل رہے” وہ گہرا سانس لے کر بولی تو اُسکی بہن اور ماں دونوں ہنس پڑیں۔
” کبھی بھی اِتنے اچھے حالات نہیں رہے وہ تو مصالحت سے کام لیا جاتا رہا ہے تبھی اچھی گُزر رہی تھی ” اُسکی بہن نے ہانک لگائی تھی جس پر وہ ہنس دی تھی۔
“بے شک بہن! سب مصالحت سے ہی چلتا ہے۔ خیر آج وہ تمہاری پسندیدہ آرٹسٹ مجھے ملنے آئی تھی پِریا ” عنیزہ نے بہن کو اطلاع دی۔
” سچی؟؟” وہ خوش ہو کر آگے آئی تھی جبکہ اُنکی ماں باہر چلی گئی تھیں کہ اب بہنیں اپنی باتیں لے کر بیٹھ چُکی تھیں۔
“ہاں۔ مجھے کافی دن سے ڈھونڈ رہی تھی۔ اور اُسنے میرا نام جانتی ہو کیا رکھا ہے؟” وہ جو ش سے بہن کو ساری کتھا سُنانے لگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
” کبیر صاحب !” سعدیہ نے کھانے کی میز پر شوہر سے بات کا آغاز کیا تھا۔
“جی؟” اُنہوں نے ذرا کی ذرا نظر اُٹھا کر بیوی کو دیکھا تھا ۔ یہ ایک نظر بھی تنبیہہ کی تھی کہ ‘خلافِ طبع بات کرنامنع ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے بات کا آغاز کیا جائے۔’ سعدیہ سے بات کرنا دُشوار ہوا۔
“آپا کا فون آیا تھا” وہ بالآخر ہمت سے بول ہی پڑیں ۔”اچھا” روکھا سا جواب دیا گیا تھا۔ مگر وہ اگلی بات بہم پہنچانے لگیں۔
“وہ فہمیدہ بھابی کی طرف جانا تھا تو آپا نے سوچا ہم مل کر ہو آتے ہیں”
“تو اب پھر کس کا انتظار ہے؟” وہ بولے تو لہجے میں دبا دبا غصہ تھا۔” میں نے کہا آپ سے پوچھ کر بتاؤں گی ” وہ ڈرتے ڈرتے بولیں۔
” تو آپ چلی جائیے” اب کی بار پھر سے لہجہ روکھا ہوا۔
“اور آپ؟ میں اکیلی جاؤں گی؟” اس بات کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا گیا تھا۔” اکیلی تو میں نہیں جا سکتی ناں اب” وہ پھر بولیں۔
” او رسعدیہ بیگم آپکا اپنی بیٹی کے بارے میں کیاخیال ہے؟” وہ تیز لہجے میں بولے تو پاس بیٹھی خاموشی سے کھانا کھاتی نور باپ کے غصے سے خائف ہو کر اُٹھی اور کچن میں چلی گئی مُبادہ کسی بات میں اُسے مُخاطب نہ کر لیا جائے۔
“عائشہ آپکی بہن ہیں تبھی منع نہیں کرتا میں ۔ ورنہ اُن کے بیٹے کی حرکتیں نظر انداز کیے جانے والی نہیں ہیں ۔ میں صرف اور صرف آپا اور بھائی صاحب کی وجہ سے خاموش ہو جاتا ہوں ورنہ دِل کرتا ہے طوفان اُٹھا دوں اور کچھ مجھے اپنی بیٹی کی عزت کا بھی پاس ہے سعدیہ!” وہ غصے میں بولنا شروع ہوئے تو بولتے چلے گئے اور بات کے آخر میں اُن کے لہجے میں تھکن در آئی تھی۔
“کبیر! آپا نے بات کی تھی عُنید سے۔۔۔”
“اور کتنے سال سے یہ دلاسہ دیا جا رہا ہے کچھ یاد ہے آپ کو؟ میری بیٹی بوجھ نہیں ہے مجھ پر ۔ آپ اس دفعہ جائیں تو یہ بات اُن کے کان میں ڈال آئیے گا کہ کوئی فیصلہ کر لیں تو بہتر ہے اور فیصلہ جلدی ہو جائے تو مزید بہترہو گا” کبیر صاحب نے غصے سے کہا اور اُٹھ کر کمرے میں چلے گئے جبکہ سعدیہ آنسو ضبط کرنے میں لگ گئیں ۔
اندر کھڑی نُور فوراً باہر آئی تھی کہ ماں کو دلاسہ دے سکے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ یونیورسٹی سے واپس آ رہی تھی ۔ اُس نے سوچا آج پہلے اپارٹمنٹ جائے گی تاکہ تھکن اُتار سکے پھر جاب پر جائے گی۔وہ تیز تیز چلتی جا رہی تھی ۔ اُسنے نیوی بلیو کلر کا گاؤن پہن رکھا تھا جبکہ چہرہ گرے کلر کے اسکارف میں لپیٹا گیا تھا۔ بائیں کندھے پر بیک پیک ڈالے اور بائیں ہاتھ میں کتابیں پکڑے وہ سوچوں میں گم چلتی جا رہی تھی۔
“ہائے دل بہار کیسی ہو؟” اچانک اُسے اپنے دائیں طرف سے پرِیا کی آواز سُنائی دی تھی ۔
” ہیں؟” عُنیزہ نے نا سمجھی میں منہ اُٹھایا ۔
“تمہیں ہی کہا ہے یار کیونکہ ایک تو میرے جاننے والے بہت کم ہیں اور اگر ہیں بھی تو اُن میں دل بہار کوئی نہیں ہے” وہ ساتھ ساتھ چل رہی تھیں البتہ عُنیزہ کی سپیڈ پہلے سے کم ہو چُکی تھی ۔” تم ادھر کیسے؟” عُنیزہ نے اِستفسار کیا۔
” میں کافی پینے آئی ہوئی تھی۔ا بھی بیٹھی بھی نہیں تھی کہ تم نظر آگئیں میں نے سوچا اب کافی بعد میں سہی اور بس وہیں سے بھاگ آئی” وہ ہنستے ہوئے بتا رہی تھی عُنیزہ بھی ہنس دی۔” تُم کہاں جا رہی تھیں اتنی جلدی میں” اُس نے پُوچھا۔سرک پر آتی جاتی گاڑیاں بھی ماحول کے سکوت و سکون کو پاش نہیں کر ہی تھیں۔ یہی تو ایک واضح فرق ہے پاکستان اور ترقی یافتہ ممالک کا۔ تیزی ۔۔ پھرتی۔۔ مگر سکون۔۔
“اپارٹمنٹ۔ سوچ رہی تھی آج جاب پر ذرا لیٹ چلی جاؤں گی”
” گُڈ دین۔ لیٹ جانا ہے تو آؤ آج تمہیں اپنی فیورٹ کافی پلاتی ہوں۔ بلکہ بھوکی ہو گی ابھی تم۔ کچھ کھاتے ہیں۔” پرِیا نے کہا ۔” نہیں پرِیا پھر کسی دن چلو نگی۔ ابھی نہیں ”
” کیا یار تم بھی ناں ۔اپنا موڈ کیوں غارت کرنا ہے وہ افغانی چُڑیل کو دیکھ کر۔ آؤ بس تم ” پرِیاسُننے کو تیار ہی نہ تھی تو وہ بھی اپارٹمنٹ جانے کا اِرادہ ترک کر کے اُسکے ساتھ ہو لی۔ پرِیا اُسکا ہاتھ پکڑے فُٹ پاتھ سےاتر کر ایک موڑ مڑی اور کیلی فورنیا سٹریٹ کیفے میں چلی آئی۔ وہاں ہر طرف لوگوں کا رش تھا۔ یوں تھا جیسے سبھی بھوکے یہیں اکٹھے ہوئے ہوں۔ ایک گلی سی بنی تھی جہاں کچھ میز لگائے گئے تھے۔ انہی میں سے ایک میز کے قریب پہنچ کراس نے کرسی کھینچی اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی بیٹھ گئی۔
” ویسے مجھے تم پری کہہ سکتی ہو” بیٹھ جانے کے بعد پرِیا بولی ۔ جواب میں وہ صرف مسکرائی تھی۔
“تم اُس چڑیل کے ساتھ کیوں رہتی ہو؟ اپارٹمنٹ کیوں نہیں چینج کر لیتیں؟”
” مجبوری کا نام شُکریہ” عُنیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
” ارے ایسی بھی کیا مجبوری یار۔ اور وہ اپارٹمنٹ چار والا ہے ہی نہیں ۔ ابھی تک کوئی چیکنگ نہیں ہوئی وہاں؟” پرِیا نے پوچھا۔
امریکہ اور اکثر ممالک میں ایک رہائش گاہ یا ادارہ میں مخصوص تعداد میں افراد ٹھہرائے جا سکتے ہیں ۔ جیسا کہ پاکستان میں جس کمرے میں چالیس کی تعداد میں لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے( اکژ کالجز یا سکولز میں) وہاں مخصوص تعداد سے زیادہ افراد کے ہونے پر باقاعدہ ادارہ ،گھر اور سامان کی چیکنگ کی جاتی ہے اور ہر گھر میں رہنے والے افراد کا ایک ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ ریکارڈ میں ایک بھی فرد کے بڑھنے پر پورے گھر کا سروے کیا جاتا ہے اور فوراً جگہ کو ریکارڈ کے مُطابق کرنے کا حُکم جاری کر دیا جاتا ہے۔
پرِیا بھی اُسی چیکنگ کے متعلق پُوچھ رہی تھی۔
” ابھی تک تو اُن تک کوئی اِطلاع نہیں گئی ۔ ہماری ایک میٹ ہے چا ئینز ،اُسکا کوئی دوست ہے اُس ڈیپاٹمنٹ میں سو بچت ہو جاتی ہے”
“اوہ ۔۔اچھا وہ ہ ہ ہ ہ لڑکی۔ ایک دن آئی تھی میں تمہاری طرف۔ وہی نمونی ملی تھی مجھے” پرِیا نے منہ بنا کر کہا تو عُنیزہ ہنس دی تھی۔
” تمہیں ایک بات بتاؤں؟” پرِیا بولی عُنیزہ نے سر ہلانے پر اِکتفا کیا۔پریا نے کافی کے ساتھ کپ کیکس آرڈر کیے اور واپس اسی کی طرف متوجہ ہوئی۔
“یہاں نینی کے بعد تم واحد بندی ہو جس سے بات کرتے ہوئے مجھے بننا نہیں پڑتا اور واحد لڑکی ہو جس سے میں اپنی زبان میں بات کرتی ہوں خالص اپنا ماحول یو نو۔ جب پہلی بار تمہیں دیکھا تھا وہاں ایگزیبشن ہال میں، تب مجھے میرے دل نے کہا تھا کہ یہ بندی اپنی مٹی کی لگتی ہے۔ دیکھ لو تم پاکستان سے ہو ۔ چاہے ہمارے ملک ایک دوسرے کے دشمن ہوئے پھر تے ہیں پھر بھی نیمو! میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں” پرِیا بہت نرمی سے بات کر رہی تھی جبکہ عُنیزہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا بولے۔
” میں نے کبھی کسی کو دوست نہیں بنایا نیمو۔ میری ممی مجھے تب چھوڑ کر گئی تھیں جب مجھے اُنکی عادت نشے کی طرح ہو چُکی تھی۔ مجھے بچپن سے ہی ایک کھنچاؤ محسوس ہوتا ہے لوگوں سے۔ میں جب ڈیڈی کے ساتھ یہاں آئی تھی تب بہت ڈری ہوئی رہتی تھی ۔ پھر نینی آئیں تو انہوں نے مجھے بہت حد تک نارمل کیا۔ میں اُنکے ساتھ روم گئی” ویٹرس نے جھاگ سی بنہ کافی لا کر ان کے سامنے رکھی۔ کپ کیکس یوں سجا کر رکھے گئے تھے کہ دیکھنے والے کے منہ میں فوراً پانی آتا۔
“میں نے تب پینٹنگ شروع کی اور آہستہ آہستہ مجھ میں کانفیڈینس آنے لگا۔ میں ملنے جُلنے لگی سب سے۔ میرا حلقہ کافی وسیع ہوا مگر دوست کسی کو نہیں بنایا۔ میری ممی کے بعد تم میری واحد دوست ہو نیمو اور میں یہ باتیں بھی پہلی دفعہ کسی سے کر رہی ہوں ” وہ بہت سنجیدہ تھی ،آنکھیں چھلکنے کو تھیں ۔
” مجھے اچھا لگا سُن کر اور اگر میری بہن ہوتی ناں یہاں تو بھنگڑے ڈال رہی ہوتی۔ اُسے تمہارا ورک اتنا پسند ہے کہ ہر وہ کلرسکیم اور شیڈز جو تم یوز کرتی ہو اُسکی کوشش ہوتی کہ وہ خود بھی لازمی یوزکرے” عُنیزہ نے پرِیا کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو فوراً سے بات بدل دی۔وہ اپنی کافی تقریباً مکمل کر چکی تھی۔
” میں اُس سے ملنا چاہوں گی” وہ مسکرائی تھی۔
” ضرور۔ لیکن ابھی بس کافی ختم کرو مجھے جاب پر جانا ہے اب۔ آخر کو ڈیوٹی اِز ڈیوٹی ”
” ہاں اور مجھے ابھی نینی کو بھی پِک کرنا ہے وہ اپنی نواسی سے ملنے گئی تھیں”پرِیا نے جلدی سے کپ میں بچا آخری گھونٹ بھی ختم کیا اور اُٹھ گئی۔” چلو تمہیں پہلے ڈراپ کرتی ہوں ”
” نہیں یار میں چلی جاؤں گی”
“اوئے پلیز اب تو تکلف نہیں کرو۔ چلو وہ تھوڑا سا آگے ہی پارکنگ میں گاڑی ہے”
پرِیا نے اُسکا ہاتھ پکڑا اور آگے کو چل دی۔اور عنیزہ کو پہلی بار اسے پرائے ملک میں خلوص کا ہاتھ ملا تھا۔ سو وہ کیوں نہ تھامتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کھانے سے فراغت کے بعد جمال صاحب لاؤنج میں بیٹھے ٹی وی پراونچی آواز میں خبریں لگائے دیکھ رہے تھے جب عائشہ اُن کے پاس چلی آئیں ۔ جمال صاحب سب سمجھتے تھے کہ وہ اتنی بے چین کیوں ہیں۔اُنہوں نے ٹی وی کا والیوم کم کر دیا تاکہ عائشہ کو تمہید نہ باندھنی پڑے ۔ عائشہ اُن کو اپنی طرف متوجہ پا کر بولیں
” آپکی بیٹے سے بات ہوئی؟” وہ بہت آس سے پوچھ رہی تھیں حالانکہ جواب تو وہ خود بھی جانتی تھیں ۔”وہ مصروف تھھا عائشہ! میں نے تنگ کرنا مُناسب نہیں جانا” جمال صاحب نےآنکھیں چُراتے ہوئے کہا۔
” کب تک ہمیں ستائے گا وہ” عائشہ سسک دیں۔” سعدیہ سے بات ہوئی ہے کیا؟”
“جی”
“کیا کہہ رہی تھی؟”
“کہنا کیا ہے اُس نے ۔ میری بہن ہے میں اُس کے سانس لینے کے انداز سے بھی جان لیتی ہوں جمال”
” میرا خیال ہے عائشہ فیصلہ ہمیں کرنا چاہیےاور عُنید کو بتا دینا چاہیے بس” اُنہوں نے ‘ہمیں’ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
” مگر میں ۔۔ سعدیہ تک اِنکار کیسے پہنچاؤں گی جمال۔ میری ہی تو لاڈلی تھی وہ۔ جس کو عنید نے راکھ میں ملانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی صرف اپنی ضد میں ” وہ پھر سے سسکی تھیں ۔” مگر اب کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ اب اپنا بھرم رکھنا ہی پڑے گا۔ اور پھر وہ بچی۔ عاشی ذرا سی بھی تاخیر اُسکا مستقبل خراب کر دے گی ۔ لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع چاہیے ہوتا ہے۔ کبیر کوبھی میں جانتا ہوں صبر والا نہیں ہے۔ وہ لوگ بھی کب تک ہماری آس میں بیٹھے رہیں گے ۔” وہ پیار سے اُنکو سمجھا رہے تھے۔
” جمال اُس بچی نے تو بہت کچھ سوچ رکھا ہو گا۔ اُسکے خواب جمال۔۔۔” بات مکمل بھی نہ کر پائیں تھیں اور رونےلگیں۔ دل چاہتا تھا عُنید کو’ اُس’ کے پاس لے جائیں اور کہیں لو جو بھی سزا دو تمہارے حوالے ہے ہم اب اِس کو مُڑ کے نہ دیکھیں گے۔
“عائشہ صبر کریں۔ اُس بچی کے نصیب میں عُنید سے اچھا ہی لکھا گیا ہو گا بس اِمتحان مقصود تھااُس پاک ذات کو ” وہ عائشہ بیگم کے ہاتھ پر مطمئن سی تھپکی دے رہے تھے کہ فیصلہ کر تو چُکے ہی تھے اب بس عُنید کو بتانا باقی تھا۔ اب چاہے اُن کو اپنے دِل پر بھاری سِل محسوس ہو رہی تھی مگر اب خاندان کی عزت کا معاملہ بن رہا تھا اُنہیں سعدیہ اور کبیر کو مزید امتحان میں نہیں ڈالنا تھا کہ آخر کو وہ دونوں بھی انکے چھوٹے تھےاور بے حد قریب تھے۔ لیکن جب سےعنید باہر گیا تھا وہ دونوں ہی جمال صاحب سے بات کرنے سے احتراز برتتے تھے۔ اب اُن کو مصلحت سے چلنا تھا۔
عائشہ بھی اپنی جگہ سوچوں میں گم تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چاند کی مٹی سے ہوا؟
چاند کی زمین کی طرح کوئی فضا نہیں۔ زمین کی فضا میں کئی گیسیں ہیں جن میں سے ایک آکسیجن...