ساٹھ اور ستر کی دہائی وہ وقت تھا جب ریڈیکل سیاست نے لاطینی امریکہ، جنوبی امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ریڈیکل اصلاح پسند یہ یقین رکھنا چاہتے تھے کہ انسانی فطرت ایک خالی تختی ہے جس پر کچھ بھی کنندہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کے تخیل کی یوٹوپین دنیا بھی سچ ہو سکتی ہے۔ اور اگر nativism وہ وجہ ہے جس کے باعث دنیا میں صنفی امتیاز ہے۔ یا پھر جس کی وجہ سے پاور سٹرکچز ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ nativism غلط ہے۔ (یہاں پر یہ نشاندہی کہ فلاں چیز اس لئے غلط ہے کہ اس کے نتائج مجھے پسند نہیں، یہ ایک منطقی مغالطہ ہے جس کو ترک کرنا ذہن کے لئے ہمیشہ آسان نہیں ہوتا)۔
سٹیون پنکر نے اس دور اس اس میں ہونے والی بحثوں پر کتاب Modern Denial of Human Nature لکھی ہے جس میں وہ مثالوں کے ساتھ واضح کرتے ہیں کہ اس وقت کے دانشوروں نے پروگریسو تحریک سے وفادار رہنے کے لئے کس طرح لیکچر ہال میں سائنس کی اقدار مسخ کیں۔ اپنے سائنسدان دوستوں کو تحقیر کا نشانہ بنایا اور طلباء کو ترغیب دی کہ سچ کی تلاش نہ کریں بلکہ پروگریسو آئیڈیل کی حمایت کے لئے جواز بنائے جائیں جو نسلی اور صنفی برابری کی تحریک میں مدد کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا ایک افسوس ناک واقعہ ایڈورڈ ولسن پر حملہ تھا جو چیونٹیوں اور ایکوسسٹم کے ماہر تھے۔ ان کی کتاب سوشیوبائیولوجی یہ دکھاتی تھی کہ ارتقا میں نیچرل سلیکشن نہ صرف جانوروں کے جسموں کو شکل دیتی ہے بلکہ ان کے رویوں کو بھی۔ ولسن نے اپنی کتاب کے آخر میں لکھا کہ نیچرل سلیکشن انسانی فطرت پر بھی اثرانداز ہوتی ہے اور انسانی فطرت نامی شے موجود ہے جو اس بات پر حد لگاتی ہے کہ بچوں کو کیا سکھایا جا سکتا ہے اور کیا نہیں۔ یا نئے سوشل ادارے کیسے ڈیزائن نہیں کئے جا سکتے۔
ولسن نے ایتھکس کو اپنے نکتے کی وضاحت کے لئے استعمال کیا۔ ولسن کو یہ واضح تھا کہ ریشنلسٹ جو کام کر رہے تھے، وہ صرف اپنے خیالات کے حق میں بنائی گئی چالاک وضاحتیں تھیں جبکہ ارتقائی بائیولوجی ان کی حمایت نہیں کرتی تھی۔
کیا لوگ انسانی حقوق پر اس لئے یقین کرتے ہیں کہ یہ حقوق ریاضیاتی سچ کے طرح واقعی کہیں پر پائے جاتے ہیں؟ جس طرح فیثاغورث کاسموس کی شیلف پر تھیورم تلاش کر لیتے ہیں، ویسے ہی افلاطونی منطق سے ان کو بھی تلاش کر لیا جائے گا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تشدد کے واقعات پڑھتے ہوئے ہمدردی، پرواہ اور ناگواری جیسے جذبات کے تحت انسانی حقوق کی کہانی بناتے ہیں تا کہ اپنے جذبات کو جواز فراہم کیا جا سکے؟ یعنی اخلاقیات انسان کے بائیولوجیکل ڈیزائن میں فِٹ ہے۔ انسان کا لازم حصہ ہے؟
ولسن اس میں ہیوم کے “جذباتی انسان” کے طرفدار تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اخلاقی فلسفی جو کام کر رہے ہیں، وہ اپنے ذہن کے جذباتی مراکز سے جواز بنا رہے تھے۔ ان کی پیشگوئی یہ تھی کہ ایتھکس کے مطالعے کے لئے انسانی فطرت کی نئی سائنس سے مدد لینا ہو گی۔ زیادہ عرصہ تک، بائیولوجی اور ایولیوشن کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئی سوچ سٹیٹس کو چیلنج کرتی ہے اور ساتھ ہی مزاحمت لے کر آتی ہے۔ ولسن کو فاشسٹ کہا گیا۔ نسل پرست کہا گیا۔ ان کے بولنے کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ ان پر لیکچر ہال میں پانی کی بالٹی انڈیلی گئی۔ ان کے خلاف احتجاج ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس خیال کی قبولیت میں وقت لگا کہ “ہمیں کیسا ہونا چاہیے؟” کا کوئی بھی utopian ideal اس بات کی وضاحت نہیں کر سکتا کہ “ہم ایسے کیوں ہیں؟”۔
روہتاس کے سرکٹے بزرگ حضرت سخی خواص شاہ آف خواص پور
برِّ صغیر، جی ہاں ہمارے والے برِّصغیر میں سن سینتالیس میں کھنچی سرحد کے اِس پار یعنی ہماری طرف کچھ...