(Last Updated On: )
جب ترے عشق میں مشغول نہیں ہوتا تھا
اس قدر درد کا معمول نہیں ہوتا تھا
جبر کے چرچے تو ہوتے تھے نگر میں لیکن
ہر گلی کوچے میں مقتول نہیں ہوتا تھا
دل کے پردے پہ منقش ہیں ہزاروں چہرے
پہلے کچھ بھی یہاں منقول نہیں ہوتا تھا
جس قدر اب کے وہ اترا ہے دل و جاں میں مرے
اس طرح پہلے تو مبذول نہیں ہوتا تھا
کھینچ لاتی تھی سدھارتھ کو محل سے الفت
خود کوئی تخت سے معزول نہیں ہوتا تھا
وہ بھی دن تھے کہ چمکتا تھا ستاروں جیسا
ان دنوں پاؤں کی میں دھول نہیں ہوتا تھا
اس کے پیغام مجھے دل سے ملا کرتے تھے
اس کا مکتوب تو موصول نہیں ہوتا تھا
بات کرتے ہوئے تعزیر کی شق لگتی تھی
شعر لکھتا تھا جو مقبول نہیں ہوتا ٹھا
جن کی راہوں میں بچھا ڈالی تھیں آنکھیں ہم نے
ان کے ہاتھوں میں کبھی پھول نہیں ہوتا تھا