زندگی اپنی تمام تر ہولناکی کے ساتھ اس کے سامنے تھی چوبیس سال کی عمر میں بیوگی کو نبھانا اس کے کاندھے ابھی سے آنے والے وقت کے بوجھ سے جھکنے لگے تھے، آ نے والا وقت اسے کیا کیا رنگ دکھانے والا تھا ابھی وہ اس بات سے بےخبر تھی۔۔۔۔
ایسا نہیں کہ
غم نے بڑھالی ہو
اپنی عمر
بس
موسم خوشی کا
وقت سے پہلے
گزر گیا۔۔۔۔
آسمان کا سر پہ گر جانا یا پیروں تلے زمین کا نکل جانا اس احساس سے بیک وقت جمال اور حسینہ دونوں ہی گزر رہے تھے ۔۔
حسینہ کے سر کا سائباں نا رہا تھا پہاڑ جیسی زندگی کسی اکیلے گزارنا ،مسائل کا انبار اور سامنے صرف اندھیرا۔۔۔
جمال کی نظروں سے دل میں اتر جانے والے چہرے کو پہلے کسی اور سے منسلک اور اپنے ہاتھ اس کی خوشیوں کے خون سے رنگے ہونے کا احساس اسے تل تل مار رہا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمال کا ذہن کسی بھی طور سے حقیقت کو تسلیم کرنے سے نالاں تھا قسمت کے اس سنگین مذاق کے لیے وہ قطعی تیار نا تھا۔۔
شدید ترین ذہنی دباؤ اور کاروباری مصروفیات ایک ساتھ جھیلنا اس کے لیے سوہان روح تھا۔۔
دوستوں کو اس موٹر سائیکل والے مقابلے میں ہوئے حادثے کے بعد وہ چھوڑ چکا تھا ۔۔
اس کا دل اس ہی محلے میں جانے پہ اسے اکساتا رہتا جہاں وہ پرسوز آنکھوں والی رہتی تھی لیکن وہ خود پہ جبر کیے وہاں جانے سے خود کو باز رکھتا رہا اور آخر ایک دن وہ خود پہ قابو نا رکھ سکا اور وہاں پہنچ گیا۔۔۔
شہر یار کی فضا دل و جاں کا سکوں ہوا کرتی ہے وہ بھی خود کو وہاں بے حد ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا ۔۔
آنکھیں اس ہی چہرے کی متلاشی تھی لیکن اس کے دروازے کی چوکھٹ بلا جواز عبور کرنا بھی تو آساں نا تھا ۔۔
اپنی گاڑی وہ دور سڑک پہ ہی چھوڑ آیا تھا ورنہ وہ لگژری اور نئے ماڈل کی گاڑی کی وجہ سے ہر کسی کی توجہ کا مرکز بن جاتا ۔۔
وہ اس کے گھر سے تھوڑے فاصلے پہ بنے چائے کے ہوٹل پہ جا بیٹھا اور اس کے بند دروازے کو تکنے لگا جیسے اس کے علاوہ اس کا کوئی کام ہی نا ہو۔۔
ایک آنچ تھی جو اسے جلا رہی تھی کئی سوال تھے جو اس کے اندر سر اٹھا رہے تھے
وہ کیوں تھا یہاں ؟؟
اسے ایک نظر دیکھ کے کیا مل جانا تھا اسے ؟؟
ان سوالوں کے جوابات اس کے پاس نا ہونے کے باوجود وہ مطمئن تھا شاداں تھا۔۔
اپنی سوچوں میں وہ گم تھا کہ حسینہ کا دروازہ آہستہ آہستہ کھلنے لگا اور کالی چادر میں سر سے پیر تک خود کو ڈھانکے وہ گھر سے باہر نکلی ۔۔
اس منظر میں وہ ایسا منہمک تھا کہ اس نے یہ محسوس ہی نا کیا کہ اس کے علاوہ بھی گلی کے تھڑے پہ کچھ آوارہ اوباش قسم کے لڑکے ایک ٹولی کی صورت میں حسینہ کے منتظر تھے ۔۔
اس کے اٹھنے سے پہلے ہی وہ اس کے پیچھے ہولیے اور اس پہ آوازیں کسنے لگے ۔۔
حسینہ تیز تیز قدم اٹھائے وہاں سے نکل جانا چاہتی تھی جب ایک لڑکے نے جو کہ شاید اس ٹولی کا سربراہ تھا اسکی خاموشی سے شیر ہوکے اس کی چادر پہ ہاتھ لگا بیٹھا ۔۔
حسینہ کے سر سے چادر اترتے دیکھ کر تو جیسے جمال کی آنکھوں میں خون ہی اتر آیا وہ تیزی سے آگے آیا اور اس لڑکے کی ناک پہ مکا مارا وہ اس اچانک افتاد پہ گھبرا کر منہ پہ ہاتھ رکھ کر نیچے کی طرف درد سے دہرا ہوا ۔
اپنے سربراہ کی یہ درگت دیکھ کر باقی کی ساری ٹولی بھاگ گئی ۔
حسینہ کے حواس بحال ہوئے تو اس نے اب جمال پہ غور کیا تو اس کے ذہن پہ اس کے شناسائی کے لمحات ابھرے جوکہ کسی طور پہ خوش کن نہیں تھے لیکن ابھی اس کی آمد مدد خداوندی کے سوا کچھ نا تھی۔۔
” آپ کا مدد کے لیے شکریہ” وہ لڑکھڑائے ہوئے انداز میں بولی ۔۔
“آپ آجائیں میں چھوڑ دیتا ہوں ایسا نا ہو کہ وہ لوگ پھر سے آپ کو پریشان کریں” جمال نے اپنی گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔
وہ حراساں نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے جمال کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔
جمال نے خاموشی سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی وہاں سے اگے لے گیا۔۔
الفاظ اس کے اندر طوفان برپا کر رہے تھے لیکن وہ زبان سے ایک بھی لفظ کہنے کی جرات نا کرسکا۔۔
“آپ کو کہاں جانا ہے؟ وہ بمشکل بولا
“آگے موڑ پہ جو اسکول ہے آپ وہاں گاڑی روک دیں ” حسینہ نے اسے رخ موڑے جواب دیا
جمال نے مزید کوئی بھی سوال کیے اسے وہاں اتار دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھلے آسماں تلے آجانا کیا ہوتا ہے حسینہ اس بات سے بخوبی واقف ہوچکی تھی گھر میں رکھی ہر قسم کی بچت اب ختم ہو چکی تھی اور تو اور اب تو کریانے والے شکیل نے بھی مزید ادھار کے لیے منع کردیا تھا ۔۔۔
آج کے واقعے نے اسے حقیقتاً لرزا دیا تھا کسی کی وساطت سے اسے اسکول کی اس نوکری کے بارے میں علم ہوا تھا ۔۔
اب وہ ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں بیٹھی تھی جو اس کی تعلیمی اسناد پہ سرسری سی نظر ڈالنے کے بعد چشمے کے پیچھے سے اس کا ہی معائنہ کر رہے تھے ۔۔۔
“اسکول میں تو جو نوکری ہے اس سے آپ کے مالی مسائل حل نہیں ہوں گے ” وہ اس کے سراپے کو گھورتے ہوئے بولے
وہ نظریں جھکائے اپنی انگلیاں مروڑتی رہی وہ اس بت سے بخوبی واقف تھی کہ اس کا بے تحاشا حسن ہی اس کا دشمن تھا۔۔
“گھر میں بیوی کے بعد بڑی ابتری ہے ، تم چاہو تو آج سے ہی کام پہ آجاؤ ” وہ یہ کہتے ہوئے اس کی کرسی کی پشت پہ جا پہنچے ۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اپنے دماغ میں پلنے والے کسی شیطانی خیال کو عمل میں لاتے ،حسینہ ان سے معذرت کرتے ہوئے وہاں سے چل دی ۔۔
باہر سورج آگ برسا رہا تھا اپنی ہیئت کذائی پہ اس کا سارا وجود ہی آنسو بن کے بہہ رہا تھا ، بے بسی اور ذلت کا ایسا چہرہ سہیل کی زندگی میں اس نے نہیں دیکھا تھا۔۔
گھر پہچنے پہ ساس باورچی خانے میں خالی ڈبوں میں جھانک رہی تھیں پکانے کے لیے ایک دانہ بھی گھر میں موجود نا تھا ۔۔
“آپ نے ابا کو دکان بھیج کےکچھ منگوایا کیوں نہیں؟؟ وہ پسینے سے نہائی ہوئی چادر اتارتے ہوئے بولی۔۔
“گئے تھے وہ پر موئے شکیل نے ایک رتی کی چیز بھی نا دی” وہ بڑبڑاتے ہوئے بولیں۔۔
ابھی تک تو ادھار پہ ہی پیٹ کا جہنم بھرا جارہا تھا پر “اب کیا ہوگا ” یہ سوال عفریت بن کے سامنے آیا تھا ۔۔
ابھی وہ اس صورتحال سے نپٹنے کے لیے ذہن میں توڑ جوڑ کر ہی رہی تھی کہ دروازے پہ دستک ہوئی ۔۔۔
“یہ بے وقت کون اگیا, کھلا ہے دروازہ آجاؤ ” اس کی ساس نے بیزارگی سے اونچی آواز میں کہا۔۔
اندر آنے والی ہستی کو دیکھ کر وہ دونوں ہی چونک پڑے ۔۔۔
وہ گھر گھر گھوم کے رشتے کروانے والی خالہ زلیخاں تھی جسے دیکھ کے حسینہ کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی سی بجی ۔۔
پہلے تو وہ ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی پھر آخر وہ مدعے پہ آ ہی گئی۔۔
“اب تو بڑی مشکل ہوگئی ہوگی تم لوگوں کو کمانے والا ہی نا رہا کوئی بھی” وہ تھوڑی کے نیچے ہاتھ جمائے مصنوعی ہمدردی سے بولی
“خالہ نوکری تلاش کر رہی ہوں امید ہے جلد مل جائیگی” وہ تحمل سے بولی۔۔
“ارے رہنے دو اتنے قابل قابل لڑکے رل رہے نوکری کے لیے اور تم بارہ جماعت کو کونسی لاکھوں کی نوکری مل جانی ہے ” وہ جلے پہ نمک چھڑکتے ہوئے بولی۔۔
حسینہ اس بات پہ صرف پہلو ہی بدل کے رہ گئی اس کے سامنے منہ کھولنے کا مطلب سارے جہاں میں ذلیل ہونا تھا۔۔
“ارے بٹیا !! چھوڑ یہ نوکری وکری کا خبط اور عقد کر دوبارہ ، یہ ہی تیرے مسائل کا حل ہے” وہ اسے چمکارتے ہوئے بولی ۔۔
حسینہ سے مزید یہاں بیٹھنا دشوار ہونے لگا وہ کپڑے بدلنے کا کہہ کر اندر کمرے میں اگئی
سارے دن کے گزرے معاملات ایک ایک کر کے اس کے سامنے آنے لگے ۔۔۔
جمال کی اچانک اس کے گرد موجودگی اپنی ذات میں خود بہت بڑا سوال تھا ۔۔
“اب اگر دوبارہ دکھا تو صاف منع کردوں گی کہ یہاں نہ ائے” وہ خود کلامی کرتے ہوئے بولی ۔۔
تھوڑی دیر میں وہ کمرے سے باہر آئی تو ساس کو گہری سوچ میں ڈوبا دیکھا
“گئی خالہ زلیخاں ؟؟ وہ چوکی پہ بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگی
” ہاں چلی تو گئی لیکن سوچنے کو بہت کچھ دے گئی ” وہ پرسوچ انداز میں بولیں ۔۔
“کیا ہوا اماں؟؟ اس نے پوچھا
” اس موئے بنئیے کا رشتہ دے کے گئی ہے کہہ گئی ہے کہ سارے دلددر دور کر دے گا وہ , بس بچے ہمارے پاس رہیں گے” وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولیں۔۔
حسینہ کے خون میں یک دم ایک ابال سا اٹھا پاس پڑی چادر اٹھائی اور تیزی سے دروازہ کھول کے لمبے لمبے قدم اٹھاتی دکان پہ پہنچی ۔۔
ارادہ تو اس موٹے ،توند والے بنئیے کی عزت افزائی کا تھا جس کی بیوی کو مرے دس دن بھی نا ہوئے تھے اور وہ اس سے بیاہ رچانے کے ارمان سجائے بیٹھا تھا ۔۔
شکیل گاہکوں سے فارغ ہوکر اسکی طرف آیا تو اس کی حسین آنکھیں آگ اگل رہی تھی اس نے کچھ کہنے کو منہ کھولا ہی تھا کہ نظر اس سے ہٹ کے پیچھے شیلفوں پہ لگے سامان پہ جا ٹکی۔۔۔
اس کی ضروریات انبار بنی اس کے سا منے آگئیں اور وہ خاموشی سے وہیں کھڑی رہ گئی ۔۔۔
” زلیخاں خالہ آئی تھی نا ” اس نے اپنے پیلے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے پوچھا
وہ خالی خالی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتی رہی
” رانی بنا کے رکھوں گا ایک ساتھ دو مہینوں کا سامان گھر بھیجوں گا بس تو ہاں کہہ دے ” وہ بڑی آس سے بولا
آنسوؤں کا گولہ اس کے حلق میں پھنسنے لگا اس نے اثبات میں سر ہلایا اور وہاں سے چل دی ۔۔۔
” جمعے کو بارات لا رہا ہوں تو تیار رہنا بس” اسکی اونچی آواز کانوں میں پڑی ۔۔۔
زندگی کے ابھی نا جانے کون کون سے رنگ اس کو دیکھنے باقی تھے ابھی تک تو ہر رنگ ہی اس پہ اپنی ہولناکی لیے اس پہ آشکار ہوا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمال اپنے بستر پہ لیٹا آج کی ساری روداد پہ غور کرتا رہا ۔۔
میں کیسے اس تک رسائی کروں ؟؟
کیسے اس کے ہر درد کا درماں کروں ؟؟
کسی بھی سوال کا جواب اس کو فی الحال سامنے نظر نہیں آرہا تھا اپنے خیالوں سے الجھتے الجھتے کب وہ نیند کی وادی میں اتر بھی گیا اسکو پتا بھی نا چلا۔۔۔
صبح ناشتے کی میز پہ اس کے ڈیدی مرزا حسنات اس کے ساتھ اپنے نئے بزنس پروجیکٹ پہ بات کرتے رہے۔۔
“اب زیادہ وقت دیا کرو کاروبار کو اور برخوردار!! اب سارے فضول شوق کو چھوڑنے کاوقت آگیا ہے ” وہ اس کی طرف بغور دیکھتے ہوئے بولے
“ابھی جس ادھیڑ بن میں الجھا ہوا ہوں اس کی بھنک بھی پڑی تو جوتے مار کے اپنے گھر سے نکال دیں گے” ان کی بات پہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے وہ اپنے ذہن میں یہ سب سوچ رہا تھا ۔۔۔
پورا ہفتہ وہ نہایت مصروف رہا ذہن کے پردے پہ بار بار وہ روئی ہوئی انکھیں دستک دیتی رہیں لیکن وہ چاہ کے بھی وقت نہیں نکال پایا ۔۔
جمعے تک اس کی بے چینی حد سے ہی بڑھ گئی اور وہ سارے کام چھوڑ چھاڑ کر دل کے راستے پہ چل پڑا۔۔
وہاں پہنچنے پہ تو اس کے اوسان ہی خطا ہو گئے اس کے گھر کے دروازے چوپٹ کھلے ہوئے تھے اور لوگوں کی گہما گہمی تھی۔۔۔
جمال نے ایک بچے کو روک کے پوچھا تو ملنے والے جواب نے اس کی حالت ہی خراب کردی۔۔۔
وہ وہاں کھڑا پریشانی سے اپنا ماتھا مسلنے لگا ۔۔
” ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے اس کا بھی ہوگا” وہ خود کو تسلی دے رہا تھا۔۔
اس نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اپنے دوست بنٹی کو فون کیا اور ساری صورتحال اس کے گوش گزار کی ۔۔
تھوڑی ہی دیر میں ہیوی بائیکس کا قافلہ اس گلی میں موجود تھا۔۔
جمال کے اندر غصے کا لاوا پک رہا تھا وہ دو دوستوں کے ساتھ گھر کے اندر داخل ہوا ۔۔
دلہے کے روپ میں شکیل کو دیکھ کر تو اس کے تلووں سے لگی تو سر پہ جا کے بجھی ۔۔
وہ کالا بھجنگ ، گنجہ اور موٹا شخص منہ پہ رومال رکھے شرما رہا تھا اور مولوی صاحب نکاح شروع کرنے کے لیے اٹھنے لگے ۔۔۔
سب لوگ جمال کی آمد پہ چونک پڑے وہ وہاں موجود لوگوں سے قطعی میل نا کھاتا تھا۔۔۔
اس نے اندر آتے ہی پہلے تو ہاتھ مار کے جمال کے سر پہ رکھا کلا گرایا اور بنٹی نے اسکے گنجے سر پہ اپنی پستول رکھی ۔۔۔
زاہد سرفراز زاہد ۔۔۔ فن نعت گوئی کا خوبصورت نگینہ
محمد زاہد سرفراز کا ادبی نام زاہد سرفراز زاہد ہے۔ آپ کا شمار عہدِ حاضر کے نوجوان شعرا میں نعت...