ڈاکٹر طاہرہ کاظمی صاحبہ! آپ کی جرات کو سلام۔۔۔۔۔۔آپ نے خواتین کے حوالے سے مشتاق احمد یوسفی پر جو گرفت کی ہے بالکل درست کی ہے۔ بعض دیگر ادباء اور شعراء بھی جو مزاح کے نام پر خواتین کی تضحیک کرتے رہے ہیں وہ سب قابلِ مذمت ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ کسی کو موضوعات کا پابند نہیں کیا جانا چاہئے۔لیکن عورت کی تذلیل کیسا موضوع ہے کہ ہر تھرڈ کلاس مزاحیہ شاعر سے لے کر یوسفی صاحب جیسے قلم کار تک سب ایک ہی چورن بیچ رہے ہیں۔ ان سب کی دیکھا دیکھی اب سوشل میڈیا پر بھی عورت کی تضحیک کو بہترین لطیفہ سمجھ لیا گیا ہے۔
ادب کا یہ عہد ہرگز “عہدِ یوسفی” نہیں ہے۔ مشتاق یوسفی اوسط درجے کے اچھا لکھنے والے ہیں۔باقی جو کچھ بھی ہے وہ ان کی پی آر کا کمال ہے۔یہ پی آر دوسرے ادیبوں کی طرح عام فہم نہیں ہے،تھوڑی پیچیدہ تو ہے لیکن اس کے پیچ کھولنا کچھ اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ صرف طنزومزاح کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان سے مشفق خواجہ اور انڈیا سے دلیپ سنگھ دونوں رائٹرز زیادہ بہتر لکھنے والے ہیں۔کم از کم پاکستان میں موازنہء مشفق و یوسفی جیسا تقابلی مطالعہ کر ہی لیا جائے تو اچھا ہے۔
یوسفی صاحب نے لیچڑ قسم کے شاعروں کو بھی اپنی تحریروں میں بیان کیا ہے اور ان کی اچھی خبر لی ہے۔لیکن میں ایک لائیو تقریب میں یوسفی صاحب کا نثری لیچڑپن دیکھ کر حیران رہ گیا۔وہ بہ نفیسِ نفیس سارے لیچڑ شاعروں کو مات دے رہے تھے۔فیض صدی کے حوالے سے یہ تقریب آصف علی زرداری کے دورِ صدارت میں ایوانِ صدر میں ہوئی تھی۔یوسفی صاحب کاخطاب شروع ہوا تو طویل ہوتا گیا۔انہیں بار بار میسج بھیجے گئے کہ وقت کم ہے،تقریر ختم کریں۔یہ سب کچھ لائیو دکھائی دے رہا تھا مگر مشتاق یوسفی صاحب ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے۔پھر ایسے ہی ہوا کہ جیسے انھیں گھسیٹ کر ڈائس سے ہٹایا گیا ہو۔یہ منظر کسی بڑے سے بڑے لیچڑ شاعر کے انجام سے زیادہ عبرتناک تھا۔
فیض صدی کی تقریب کی بات ہوئی ہے تو یہاں یہ بھی بتادوں کہ فیض صاحب کے بارے میں یوسفی صاحب کی تقریر کسی علمی، فکری یا اردگرد کے حالات کے تناظر میں نہیں تھی۔کسی اختلاف رائے کی بات بھی نہ تھی۔”لذیذ حکایت ” اتنی تھی کہ لندن میں فیض صاحب کے ساتھ ہائیڈ پارک جانے لگے تھے۔اس دوران کوئی خوبصورت خاتون فیض صاحب سے ملنے آ گئیں تو فیض صاحب خود رْک گئے اور یوسفی صاحب کو اکیلے ہی ہائیڈ پارک بھیج دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فیض صدی کی تقریب میں ایسی باتیں بیان کرنا ہی نا مناسب تھیں۔پھر انہیں دراز تر کرتے جانا۔۔۔۔۔۔ تو پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔خواتین سے یوسفی صاحب کے رویے پر ان کے نفسیاتی مطالعہ پرایک تحقیقی مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی صاحبہ! میں بے نام سا رایٹر ایک عرصہ سے اپنی والدہ،ہمشیرہ،بیٹیوں اوربیوی کے بارے میں لکھتا آ رہا ہوں۔ اہلیہ کی وفات کے بعد ان پر اپنی دو کتابیں شائع کر چکا ہوں۔ ابھی نومبر میں انڈیا کی کرناٹک یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے سات روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا تھا۔اس میں 15 نومبر کے سیشن کا موضوع تھا “حیدرقریشی کا تخلیقی سفر”……میں نے پورا پروگرام فیمنزم کے حوالے سے اپنی اہلیہ کے نام کردیا۔والدہ،بہن اور بیٹیوں کا ذکر بھی ہوا لیکن سوا دو گھنٹے کے پروگرام کا موضوع مبارکہ حیدر رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سو مجھ کو خواتین کے معاملے میں قبیلہء یوسفی سے الگ رکھیں۔
جاتے جاتے یاد آیا کہ اگر مشتاق یوسفی صاحب کے نفسیاتی مطالعہ کا ارادہ کیا جائے تو اردو ادب کے ایک اور بڑے نام کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔وہ ہیں ممتاز مفتی صاحب۔
ان کا ڈیل ڈول مشتاق یوسفی صاحب جیسا ہی تھا۔خوش مزاج بھی بہت زیادہ تھے۔ان کی تحریروں میں پھکڑ پن کی بجائے شگفتگی تھی۔ان کے ہاں خواتین کے لئے محبت آمیز رویہ ملتا ہے جبکہ مشتاق یوسفی صاحب کے طنز کے سارے تیر نفرت آمیز ہوتے ہیں۔اس فرق کو تلاش کر لیا جائے تو مشتاق یوسفی صاحب کا نفسیاتی مطالعہ بہتر طورپر ہو سکے گا۔
طاہرہ کاظمی صاحبہ! ایک بار پھر آپ کا شکریہ۔۔۔۔آپ کی تحریر سے تحریک ہوئی تومیں نے بھی متعلقہ موضوع پر چند باتیں کر لی ہیں۔ کسی نے گفتگو کو آگے بڑھایا تو پھر مزید گفتگو ہوگی۔(ح۔ق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد عارف کشمیری۔۔۔ ایک تعارف
خطہ کشمیر میں بہت سے ایسی قابل قدر شخصیات ہیں جنھوں نے کم وقت میں اپنی محنت اور خداداد صلاحیت...