(Last Updated On: جنوری 16, 2023)
حوریہ بھی آج ریحان کی طرح تہجّد پڑھنے کے لیے چار بجے اٹھی تھی ۔ شاید وہ ٹوٹ گئی تھی اس لیے جڑنا چاہتی تھی ۔ اس نے دعائیں لبوں سے نہیں کی تھی بس وہ روۓ جارہی تھی ۔ آنسوں اس کے دل سے کسی موتی کی طرح گر رہے تھے۔ آج ریحان کے کمرے کے ساتھ ساتھ حوریہ کے بھی
کمرے کی لائٹ ان تھی ۔ حوریہ اس اذیت سے نکلنا چاہ رہی تھی جیسے فاران نے اس کو بلا دیا تھا وہ بھی اس کو بھلانا چاہ رہی تھی ۔
۔۔۔۔۔
مجھے اپکا فیصلہ قبول ہے دادا ۔حوریہ نے ذولفقار صاحب کی دی ہوئی تاریخ پر ہاں کی تھی ۔ ریحان کمرے میں پہلے سے موجود تھا ۔ وہ ان کے قدموں تلے بیٹھ کر پیر دبا رہا تھا کے حوریہ نے سلام کے بعد یہ جملہ کہا ۔
اور ریحان تم بتاؤ بیٹا ۔ ذولفقار صاحب حوریہ کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر ریحان کی طرف دیکھ کر کہا تھا ۔
ریحان نے حیرانگی سے حوریہ کی طرف دیکھا تھا ۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کے حوریہ ہاں بول سکتی تھی ۔ ریحان کی تہجّد کی دعائیں قبول ہوئی تھیں ۔ وہ خوشی میں پاگل ہورہا تھا لیکن بظاہر وہ خاموش تھا ۔
تمہیں کوئی اعترض ہے تو بتاؤ ریحان بیٹے ، ذولفقار صاحب نے پریشانی میں پوچھا تھا ۔
ن ن نہیں دادا مجھے کوئی اعترض نہیں ہے ۔ اس کی نگاہیں اب بھی حوریہ کی طرف حیران کن تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں کی ہے مجھے کال ؟
حوریہ تلخ لہجے میں بولی تھی
مبارک بعد دینے کے لیے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ فاران نے طنزیہ لہجے میں کہا
کس بات کی ؟ حوریہ نے تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد کہا تھا ۔
جنگ میں ہار جانے کی ۔ فاران نے پھر تلخ لہجے میں کہا
حوریہ نے بے اختیارن قہقہ لگایا ۔
فاران !!!! جن کو جنگ میں ہار ملتی ہے نہ دراصل ان کو ہار نہیں جیت ملتی ہے ۔ کیوں کے جو ہار جاتا ہے ان کو موقع ملتا ہے پھر سے جیت جانے کا ۔ کیوں کے جیتے ہوئے انسان جنگ کے میدان میں دوبارہ نہیں آتے ۔
فاران نے غصے میں فون کاٹا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا بھی تھا آپ سے ۔ میں خود ہی دادا جان کو اس رشتے سے منع کردوں گا ۔ آج وہ عصر کی نماز پڑھ کر سیدھا لان میں ہی ائ تھی ۔ اس نے بغیر چپل کے لان میں ٹہلنا شروع کیا تھا ۔
آسمانی رنگ کا پرنٹڈ پلازو اور ساتھ میں گلابی رنگ کی شرٹ میں ملبوث وہ کسی ہیروئن سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔ سر پر شیفون دوپٹہ اوڑھے ہوئے ساتھ میں آگے کی طرف بال رکھے ہوئے تھے ۔
حوریہ ریحان کی آواز سن کر پیچھے مڑی تھی ۔ یہ بات طے ہمارے انکار کرنے پر ہوئی تھی ، لیکن میں نے تو اقرار کیا ہے یہاں ۔ حوریہ نرمی سے بولی تھی ۔
لیکن آپ تو اس رشتے سے راضی نہیں تھیں محترمہ ۔ ریحان نے حیرانگی سے سوال کیا ۔
میری قسمت جہاں مجھے لے کر جارہی ہے وہیں جارہی ہوں میں ۔ جیسا ہورہا ہے ویسے چلنے لگی ہوں ۔ حوریہ مسکرا کر بولی تھی ۔
ہواؤں کا رخ بہت زیادہ تھا ، اُس کا دوپٹہ سر پر نہیں ٹِک رہا تھا ، وہ بار بار سر پر دوپٹہ اوڑھنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی ۔
اتفاق سے فاران بھی رائل بلو رنگ کا کرتا پہنے ہوئے تھا ۔
آج ریحان کو حوریہ کا لہجہ ، رویہ پہلے سے الگ لگا تھا ۔
وہ لڑکی جو کبھی تلخی میں بات کرتی تھی آج وہ نرم مزاج تھی ۔ شاید اُس کو ٹھوکر لگی تھی ۔ وقت اور حالات ٹیڑھے انسان کو بھی سیدھا کردیتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔
جی قبول ہے ، حوریہ نے تیسری بار کہا تھا مگر سر پے ہاتھ رکھنے والا باپ بہت یاد آیا تھا اسے ۔ آنکھوں سے موتی بہت رفتار سے گرنے لگے تھے ۔ ایک دم ایسا لگا جیسے باپ کا سایہ ملا ہو ۔ بہت مشکلوں سے اُس نے سر اٹھانے کی ہمت کی تھی ۔ ایک شخص نے باپ کی حیثیت سے ہاتھ رکھا تھا ۔
دادا ۔۔۔ وہ روتے ہوئے بولی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما پلیز آپ دادا سے کہہ دیں کے رخصتی کی تاریخ ملتوی کردیں ۔ نہیں بیٹا کیسی باتیں کر رہی ہو ۔ سارے کارڈ چھپ چکے ہیں ۔ وہ بیٹی کے سر پر انگلیاں پھیرتے ہوئے بولی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کے چار بج رہے تھے ۔ عموماًن سارے گھر والے اس وقت آٙرام فرمارہے تھے ۔ ریحان آج ہسپتال سے جلدی آیا تھا ۔ وہ اسی کے انتظار میں کھڑی سوچ رہی تھی بات کیسے شروع کی جاۓ ۔ گراس ٹھنڈی تھی ، ہلکی ہلکی دھوپ ہورہی تھی ۔
ریحان تیزی سے سلام کر کے گھر کے لان میں داخل ہوا تھا
اسلام و علیکم ۔
وعلیکم السلام ، حوریہ نے فوراً جواب دیا ۔
میں شرمندہ ہوں ریحان ۔ حوریہ نے دھیمی سی آواز میں کہا تھا ۔
لیکن کیوں ؟ ریحان نے پلٹ کر پوچھا تھا ۔
کیوں کے آپ میرے ماضی کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں ۔ حوریہ کی اواز اب بھی دھیمی تھی ۔
وہ دو قدم قریب اٙیا تھا ۔ مجھے آپ کے ماضی سے کوئی غرض نہیں ہے ، البتہ میں آپ کے حال کا ضرور تابعدار ہوں ۔ وہ یہ بول کر مسکرایا تھا ۔
ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی لبوں سے خاموش رہی ، مگر دل ہلچل کرنے لگا تھا ۔ یہ انسان اتنا اچھا ہے یا بنتا ہے ۔ وہ بڑبڑائ تھی۔
محبت کا پہلا رنگ ہمیشہ سرخ رنگ کا دکھائی دیتا ہے ۔ اور جب محبت کی ابتدا ہونے لگے تو وہ انسان خود کو خود سے چھپانے لگتا ہے کیوں کے وہ فنا ہونے لگتا ہے ، اس کی ذات میں جس سے محبت ہوجاۓ ۔ وہ اپنے آپ کو ایک ایسا مجرم ٹھہراتا ہے جس کا کوئی جرم نہ ہو ۔ وہ بھی اپنے آپ کو ایسا سمجھ رہی تھی ۔ بے نام مجرم بے گناہ مجرم ۔
ماما بس دعا کریں آج آخری پیپر بھی اچھا گزر جائے یہ اکاؤنٹینٹ میرے پلّے نہیں پڑتی بالکل بھی ۔ وہ نیند سے بیدار ہوتے ہی بیٹھ کر بالوں کو دونوں ہاتھوں سے جوڑا کرتے ہوئے بولی
حوریہ بیٹی ۔ میری تو ہر دعا میں تمہارا ہی نام ہوتا ہے ۔ وہ بیڈ کی چادر کو ٹھیک کرتے ہوئے بولیں ۔
ماما ! ہاتھ دیں ؟ وہ بیڈ سے سہارا لے کر اٹھنا چاہ رہی تھی ۔
آپ کو تو بہت تیز بخار ہے ۔ آپ یہ چھوڑیں اور پلیز لیٹ جائیں ۔ اس نے ماں کا ہاتھ پکڑتے ہی محسوس کرلیا تھا ۔
نہیں حوریہ ۔ میں ٹھیک ہوں میری جان ۔
نہیں آپ آرام کریں گی بس ۔ ناشتہ بھی آپ رہنے دیں میں خودی بناتی ہوں آملیٹ اور پراٹھا ۔ حوریہ یہ کہتے ہوئے کمرے سے نکلی .
کیا کھائیں گے آپ ؟ وہ کچن میں داخل ہوتے ہوئے ہی ریحان کو دیکھ کر بولی ۔
میں اپنا ناشتہ خود بنانے کا عادی ہوں ۔ اس نے ٹیڑھی نگاہوں سے حوریہ کی طرف دیکھا ۔
میں اپنا ناشتہ بنانے ائ تھی تو سوچا آپ کے لیے بھی بنادوں ۔
بہت شکریہ ۔ ریحان یہ کہہ کر مسکرایا تھا ۔
یہ دوسرا آملیٹ علی کے لیے بنا رہے ہیں ؟ حوریہ نے حیرانگی سے پوچھا ۔
ریحان کو اس وقت ہنسی آرہی تھی اس نے اپنی ہنسی کو دبائ اور پیچھے مڑا ۔۔۔۔ نہیں یہ آملیٹ میں اپنی نخریلی بیگم کے لیے بنا رہا ہوں ۔
حوریہ شرمندہ ہوئی تھی ۔
ریحان کے کچن سے جاتے ہی حوریہ بڑبڑائ ۔ آیا بڑا ۔۔۔
وہ اس کی آواز سے پیچھے مڑا تھا ۔ آپ نے کچھ فرمایا؟ نہیں مجھے کیا فرمانا ہے معصوم شوہر کے سامنے ۔ حوریہ بھی یہ کہہ کر مسکرائی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔
کیسا ہوا پیپر تمہارا حوریہ ؟
حوریہ فریش ہو کر کمرے میں داخل ہوئی تھی کے ثمینہ نے حوریہ سے سوال کیا۔
ماما ، آپ پیپر کو چھوڑیں اور یہ بتائیں کے آپ کی طبعیت کیسی ہے اب ؟ حوریہ نے ماں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا ۔
ارے مجھے تمہارے شوہر نے دوائی دے دی تھی ، اب تو میں کافی بہتر ہوں میری جان ۔
حوریہ مسکرائی تھی کیوں کے اسکے پاس الفاظ ختم ہوچکے تھے کچھ کہنے کے لیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھئ ریحان کی خواہش ہے کے شادی سادگی سے کی جائے ۔
دردانہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی ۔
حوریہ بھی چاۓ کے کپ سب کے اگے رکھنے لگی تھی ۔
سادے لوگ سادگی ہی پسند کرتے ہیں دردانہ ! یہ بات تو سچ ہے ۔ ثمینہ حوریہ سے چاۓ کا کپ لیتے ہوئے بولی ۔
لیکن پھر بھی گھر کی پہلی شادی ہے ۔ کچھ تو ایونٹ رکھنے چائیے ، اس بہانے گھر پر تھوڑا شادی کا سما تو لگےگا ۔
کونسے ایونٹ ماما ، ریحان سیڑھیاں اترتے ہوئے بولا تھا ۔
اب پوچھنے کا کیا فائدہ ۔ کارڈ تو چھپ چکے ہیں بیٹا ۔ دردانہ منہ بناتے ہوئے بولی
خیر آپ تو اب بھی دعوت دے سکتی ہیں فون پر ۔ ریحان سنگل صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا تھا ۔
ہاں یہ بھی اچھا آئیڈیا ہے ، زیادہ لوگ نہیں تو کم سے کم ثمینہ کے بڑے بھائی اور میرے چھوٹے بھائی بہن ہی اجائینگے ۔
جیسے بہتر لگے آپ کو ۔ جس میں آپ کی خوشی ماما ۔ ریحان نے مسکراتے ہوئے کہا
ویسے عجیب بات ہے ماما ، بیوی میری ہے اور چاۓ مجھے ہی نہیں ملی؟ اُس نے ٹیڑھی نگاہیں کر کے حوریہ کی طرف دیکھا تھا ۔
سوری میرے ذہن سے نکل گئی بات ۔ حوریہ شرمندہ ہوتے ہوئے بولی ۔
ارے بھئی کیوں کرتے ہو میری بچی کو تنگ ۔ دردانہ ہنستے ہوئے بولی تھی ۔
اور جو حوریہ نے مجھے تنگ کیا ہے ، ریحان بڑ بڑایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ حوریہ یہ سنتے ہی چونکی تھی ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کے اس کے ماضی کو دہرایا جاۓ اور وہ بھی اسکی ہونے والی ساس کے سامنے ۔
کیا مطلب ؟ دردانہ بھی حیران ہوئی یہ بات سن کر ۔
ہاہاہا آپ لوگ تو سیریس ہوگئے ۔ اِٹ واس جوک ۔ ماما ریلیکس ۔۔۔۔۔
حوریہ کی تو جان میں جان ائ تھی یہ سن کر ۔ ورنہ وہ سمجھی تھی کے آج ریحان سب کو سچ بتادے گا ، وہ بہت سہم گئی تھی ۔۔۔۔ اُسے فخر ہوا تھا ریحان پر ۔ حوریہ کو لگ رہا تھا کے وہ دنیا کی واحد خوش قسمت لڑکی ہے جسے ریحان جیسا انسان ملا ہو ۔
۔۔۔۔۔۔
آج رخصتی سے ایک دن پہلے سب کی دعوت رکھی تھی ۔ دردانہ چاہتی کے گھر پر بھی شادی کا سما لگے ۔
بہت بہت مبارک ہو ۔۔
فاران نے لان میں داخل ہوتے ہی کہا تھا ۔ اس وقت کوئی نہیں تھا سب اندر لاؤنج میں باتیں کر رہے تھے ۔
حوریہ ، فاران کا یہ جملہ سنتے ہوئے پیچھے مڑی ۔
تمہاری اگر اصلیت کا پتا چل جائے نہ تو تم کہیں کی نہیں رہو گی حوریہ ۔
شٹ اپ ۔ فاران ۔۔۔۔۔۔۔! حوریہ چلائی
کیوں حقیقت سننا برا لگ رہا ہے ؟ یا پھر ڈر لگ رہا ہے کے کہیں ریحان نہ سن لے
آنف از انف ۔۔ بہت ہوگیا اب بس کردو فاران ، وہ پھر سے چلائی
کیسے بس کردوں ۔ کہاں ہے تمہارا شوہر ، بلاؤ اسے ۔۔۔فاران ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولا
حوریہ اب کی بار پریشانی میں فاران کی طرف بے بس ہو کر دیکھ رہی تھی ۔
میں سن چکا ہوں سب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریحان، حوریہ اور فاران کے قریب آتے ہوئے بولا
کتنے گھٹیا انسان ہو پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تمہیں ؟ فاران طنزیہ مسکرایا ۔
پڑتا ہے فرق مجھے ان باتوں سے ۔ حوریہ تم نے مجھ سے اتنی بڑی بات چھپائی ؟ تمہیں کیا لگتا ہے میں تمہیں معاف کردوں گا اتنی آسانی سے ؟
علی بھی پہنچ گیا تھا اس دوران ۔
بھائی آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ علی یہ سب دیکھ کر بہت حیران ہوا تھا ۔
تم جانا چاہتی ہو فاران کے ساتھ تو چلی جاؤ ۔ مجھے کوئی اعترض نہیں ۔ ریحان نظریں چراتے ہوئے بولا
ریحان یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں ، میں کہیں نہیں جاؤں گی یہاں سے ۔
ہاں تو تمہیں کس نے کہا کے تم خود جاؤ گی یہاں سے ۔ علی چھوڑ ائے گا تمہیں ۔
فاران کو اک عجیب سی تسکین ملی تھی جو اس کے چہرے پر واضع ہورہی تھی ۔
کہا تھا نہ میں نے حوریہ تم سے ۔۔۔۔۔ اب کی بار فاران نے قہقہ مارا تھا
علی گھر کا دروازہ کھلواؤ ۔ ریحان نے علی کو حکم دیا ، لیکن وہ مستقل حوریہ کی طرف دیکھ رہا تھا جو مسلسل روۓ جارہی تھی ۔
جی بھائی ۔۔۔۔
چلو نکلو یہاں سے اب فاران ۔۔۔۔ بہت کھیل لیا تم نے ۔ ریحان کڑک آواز میں بولا ۔
واٹ ؟ میں کیوں نکلوں فاران نے حیرانگی سے پوچھا تھا
تمہیں کیا لگتا ہے میں اپنی بیوی کو تمہارے کہنے پر چھوڑ دوں گا ۔ ہرگز نہیں ۔۔۔۔۔ مجھے اپنی بیوی پر پورا بھروسہ ہے ۔ میں تم جیسے مردوں کی طرح نہیں ہوں جو شک کرنے کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ہوں ۔ اور اب دفع ہوجاؤ میرے گھر سے ۔ آئندہ کے بعد اپنی شکل مت دکھانا مجھے ۔ ریحان چلاتے ہوئے بولا ۔
حوریہ کی امید پھر سے جاگ اٹھی تھی ۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کس طرح ریحان کا شکریہ ادا کرے ۔
لاؤنج میں اتنا شور تھا کے سب باہر کے شور سے بے خبر تھے ۔
حوریہ تم اپنے کمرے میں جاؤ ۔ ریحان نے حوریہ کو رستہ دیتے ہوئے کہا ۔
فاران شرمندگی چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا وہ اب کی بار گیٹ کی طرف بھاگا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رخصتی کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بات پوچھوں آپ سے ریحان ؟
شام کا وقت تھا ، ہوائیں ٹھنڈی چل رہی تھیں رخصتی کو ایک ہفتہ ہو چکا تھا ۔ حوریہ نے ابھی دو چاۓ کے کپ میز پر رکھے تھے ۔
جی بیگم پوچھیں ؟ ریحان نے اپنا موبائل میز پر رکھتے ہوئے کہا ۔
آپ نے جب اُس دن علی سے دروازہ کھولنے کو کہا تھا تو واقعی علی چاہتا تھا میں چلی جاؤں اس گھر کو چھوڑ کر ؟
ریحان نے قہقہ مارا ۔ تم واقعی بہت معصوم ہو حوریہ ۔۔۔ جب فاران نے تم سے بات شروع کی تھی تو میں اور علی ساتھ کھڑے تھے اور ہم پلان بنا کر ائے تھے ۔ تاکہ تمہارے دل کی بات سامنے ائے کے تم کیا چاہتی ہو ۔
ویسے اچھا نہیں کیا آپ نے مجھے رلا کر ۔ حوریہ نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔
چلیں ہم آپ سے معذرت کرتے ہیں محترمہ ۔ ریحان نے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
کوئی بات نہیں ریحان ۔۔۔۔ میں نے بھی آپ کو بہت تنگ کیا ہے ۔ حوریہ دھیمی سی آواز میں بولی
ہاہاہاہا بس کردو حوریہ ۔ اس بات کو جانے بھی دو ریحان نے یہ کہتے ہوئے چاۓ کا کپ پکڑا ۔
ایک اور بات پوچھوں ؟ حوریہ نے تجسس میں کہا ۔
جی بالکل حوریہ ۔
آپ تہجد میں کیا مانگتے تھے ؟ وہ بھی اتنی شدت سے۔۔۔
حوریہ ! کچھ راز محض راز ہوتے ہیں جو صرف دو دلوں کے درمیان ہوتے ہیں اور اگر کسی تیسرے کو بتادئے جائیں تو وہ راز نہیں امانت میں خیانت ہوجاتے ہیں ۔
آپ نے ابھی تک نہیں پایا اسے ؟ بس اتنا بتادیں ریحان ۔ حوریہ مسکرا کر بولی۔
پالیا ہے میں نے اسے ۔ وہ مسکرایا ۔
تو پھر کیوں تہجد پڑتے ہیں اب آپ ؟ حوریہ نے پھر سوال کیا ۔
میں چاہتا ہوں میرا اور میرے رب کا رشتہ ہمیشہ مضبوط رہے ۔ مجھے سکون ملتا ہے ، میں جب نہیں پڑھتا تو ایسا لگتا ہے جیسے میرا دل خالی ہوگیا ہو ۔ ریحان نے دھیمی آواز میں کہا تھا ۔
میں بھی آپ کی طرح بننا چاہتی ہوں ریحان ۔ حوریہ نے خوش دلی سے کہا تھا ۔ میں بھی چاہتی ہوں میرے چہرے پر نور ائے ، میرے اندر صبر آجاۓ بالکل آپ کی طرح۔
اب تم شرمندہ کر رہی ہو مجھے ۔ ریحان نے ہنستے ہوئے کہا
حوریہ بھی یہ سن کر ہنسی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔