اس کی بے نور آنکھوں کی اندھی گپھا
اک جہاں در جہاں
تھے اندھیرے وہاں بے کراں
بام ودر پر تھا تاریکیوں کا تصرف جہاں
سارے ارض وسما؍ماہ و انجم،پرندے،شجر،ندیاں
راستے،بند گلیاں،مکاں
سب اندھیروں کی چادر میں لپٹے ہوئیء تھے مگر
ذہن کے بند کمرے کی دیوار پر
اس نے کھولا دریچہ تودیکھا نیا اک سماں!
رات ہاتھوں میں مہتاب کا جام تھامے ہویء
چاندنی کی فضا ئوں میں مدہوش ہوتی ہوئی
اس نے دیکھا،عروس سحر
نرم رنگین ریشم کا آنچل بدن پر سجائے ہوئے
اپنی کرنوں کی افشاںچھڑکتی ہوئی
جھومتی ڈالیاں،ندیاں اپنی دھن میں رواں
تتلیاں ،پھول،قوس و قزح
رنگ ہی رنگ تھے تا بہ حد نظر
ابر کی نرم چادر میںچھپتے،نمودار ہوتے
پرندوں کی کلکار یاں؍سرخوشی،راحتیں
پرسکوں تھے نظارے
وہ بے نور آنکھوں پہ مرہم لگاتے گئے
کیا خبر تھی معالج کو
تاریکیوں کے بھنور سے نکل کر اسے
مل گئی ہے نئی روشنی اور
بصارت عطا کرنے والا معالج تھا خود
بے بصر۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روہتاس کے سرکٹے بزرگ حضرت سخی خواص شاہ آف خواص پور
برِّ صغیر، جی ہاں ہمارے والے برِّصغیر میں سن سینتالیس میں کھنچی سرحد کے اِس پار یعنی ہماری طرف کچھ...