حسینہ دلہن کے روپ میں جمال کے ساتھ وہاں کھڑی سب کے چہرے دیکھ کر کپکپا رہی تھی۔۔۔
سب اس کا سر سے لے کر پیر تک جائزہ لے رہے تھے۔۔
جمال کے ڈیڈ کی آواز سے کمرے میں چھائی خاموشی ٹوٹی۔۔
” تمھاری ہمت کیسے ہوئی کسی بھی راہ چلتی لڑکی کو اس گھر کی بہو بناننے کی ” وہ دہاڑے
“یہ تو ہماری کھلی بے عزتی ہے یہاں ہم رشتہ جوڑنے کو بیٹھے ہیں اور صاحبزادے چاند چڑھائے بیٹھے ہیں” جمال کی پھپھو اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے لگیں ۔۔
” آپا آپ بات تو سنیں” جمال کی ماما اپنی نند کو روکنے کی کوشش کرنے لگیں ۔۔
“ارے ہٹو بی بی!! تم کب دل سے خوش تھیں اس رشتے کے لیے تمھاری تو مراد بر آئی اور کیا پتا تم ہی ہو اس شادی کے پیچھے ” وہ تیل میں جلتی تیلی ڈال کے وہاں سے چلتی بنیں ۔۔
” جس طرح آئے ہو ویسے ہی لوٹ جاؤ یہاں تمھاری کوئی جگہ نہیں” جمال کے ڈیڈ دہاڑے
” کیا کرتے ہیں اندر تو آنے دیں بچوں کو” جمال کی ماما بولیں ۔۔
“تم بھی ان کے ساتھ ہی چلی جاؤ اور اپنے لاڈلے سے کہو کہ گاڑی کی چابی دیتا جائے ” ان کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے اور جمال وہیں سے چابی میز پہ رکھ کے حسینہ کو لیے الٹے قدموں لوٹ گیا۔۔۔
زندگی کو ہمیشہ آسان لینے والے جمال کے لیے یہ زندگی کا بلکل نیا روپ تھا۔۔
اکلوتا ہونے کے سبب اس نے آج تک کسی بھی محرومی کا منہ نا دیکھا تھا اور اب یہ صورتحال اس کو اپنی ہمت سے ہی سنبھالنی تھی ۔۔۔
باہر نکل کے دونوں بس اسٹاپ کی طرف چلنے لگے ۔۔
“میری نحوست نے تم کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا نا” حسینہ نے بھیگی ہوئی آواز میں کہا
“میں اس طرح کے واہموں کو نہیں مانتا ” جمال کے دل کو اس جملے سے بےطرح تکلیف ہوئی ۔۔۔
“ہونے دیتے جو ہو رہا تھا میرے ساتھ کیا ضرورت تھی یہ سب کرنے کی” وہ آزردگی سے بولی
“اس موٹے شکیل کا تو پیٹ پھاڑنے کا ارادہ تھا پر بچ گیا وہ اور تم کہہ رہی ہو کہ ہونے دیتے جو ہورہا تھا ” جمال چڑتے ہوئے بولا
اس کے انداز پہ حسینہ ہنس پڑی ۔۔
” یہ ہوئی نا بات !! سب ٹھیک ہوجائے گا ہم دونوں کو ایک ہونا تھا یہ طے تھا تم نہیں سمجھو گی” اس نے ہاتھ بڑھا کے ٹیکسی روکی اور بنٹی کے فلیٹ کی طرف چل پڑے ۔۔
وہاں پہنچ کے اس نے سارے دوستوں کو کال کر کے وہاں بلا لیا۔۔
تھوڑی دیر میں سب دوست وہاں موجود تھے جمال نے ان کو ساری صورتحال بتائی۔۔
“تیرے ڈیڈ کو اٹھا لیتے ہیں اور تاوان میں تگڑی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں ” بنٹی نے اپنے طور پہ نادر تجویز دی ۔۔
“ہاں اور تیری ساری پریشانیاں ختم ” ایک اور دوست نے ہاں میں ہاں ملائی۔۔
“تم لوگ اپنے مشوروں کی دکان بند کرو اور بس تھوڑی مدد کرو میری” جمال نے ان کو چپ کرواتے ہوئے بولا
” رہائش کے لیے جگہ چاہیئے اور پیسے نہیں ہیں میرے پاس” اس نے اصل مسئلہ بتایا
” تم یہاں رہو یہاں کیا تکلیف ہے ؟؟ بنٹی بولا
” نہیں ایک الگ جگہ چاہیئے بھلے سے چھوٹی ہو ” وہ بولا۔۔
” اچھا صبح کرتے ہیں کچھ تم پریشان نا ہو” سب اسے تسلی دیتے ہوئے چلے گئے
جمال جب کمرے میں آیا تو حسینہ نیند کی وادیوں میں گم تھی ۔۔
رات اپنا بیشتر سفر طے کر چکی تھی اس لیے اس نے بھی کمرے میں پڑے صوفے پہ جگہ بنائی اور سونے میں ہی عافیت جانی ۔۔
حسینہ کے چہرے کو تکتے تکتے جانے کب اس کی پلکیں جڑی اور وہ سو گیا۔۔۔
اگلی صبح اپنے ساتھ ہلچل لے کر آئی سب دوستوں نے مل کر دو کمروں پہ مشتمل فلیٹ کرائے پہ انھیں لے کر دیا۔۔
جمال جب حسینہ کو لے کر وہاں پہنچا تو فرط مسرت سے اس کی پلکیں بھیگنے لگیں ۔۔
جانے کہاں سے ان لوگوں نے ضرورت کا تمام سامان وہاں لاکر رکھ دیا تھا ۔۔۔
” بھابھی بس آپ چائے بنا دیں سارا سامان کچن میں موجود ہے ” بنٹی نے آواز لگائی ۔۔
حسینہ نے سکھ کی سانس لی تھوڑا ہی صحیح کچھ تو زندگی اپنی ڈگر پہ آئی۔۔۔
ان لوگوں کے جانے کے بعد حسینہ کے بچے اپنے دادا دادی کے ساتھ وہاں آگئے ۔۔
جمال کے کاندھوں پہ اک دم بھاری ذمیداری آگئی تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن سے اس کی زندگی ایک الگ ہی ڈھب پہ اگئی تھی ۔ اے سی والی گاڑی میں گھومنے والے جمال نے گرمی کی تمازت کو پہلی دفعہ محسوس کیا۔۔۔
وہ ایک دفتر سے دوسرے دفتر نوکری کے لیے گھومتا رہا لیکن اس کے اسناد پہ نظر ڈالتے ہی اسے صاف انکار کردیا جاتا۔۔
جمال کے ڈیڈ اپنے تعلقات کا بہترین استعمال کررہے تھے اور یہ ہی واحد طریقہ تھا اپنے اکلوتے بیٹے کو واپس بلانے کا۔۔
اس کی انا کو وہ توڑنا جانتے تھے اس کے بینک اکاؤنٹس وہ فریز کروا چکے تھے اور ان کو یقین تھا کہ کچھ ہی ہفتوں میں اس کے سر سے پیار کا بخار اتر جانا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روز شام میں جب وہ تھکا ہارا گھر پہنچتا تو حسینہ اسے پیار سے دیکھتی تو سارے دن کی تھک خود بخود ہی اتر جاتی ۔۔۔
“آپ اجازت دو تو میں کوئی نوکری دیکھوں” وہ اپنے پلکوں کی جھالر گراتی اٹھاتی اس سے اجازت طلب کررہی تھی ۔۔
“نہیں بالکل بھی نہیں میں ڈھونڈ رہا ہوں نوکری جلد ہی مل جائے گی” جمال نے اس کی پلکوں کو انگلیوں کی پوروں سے چھوتے ہوئے کہا
گھر میں کھانے پینے کا سامان تیزی سے ختم ہو رہا تھا اور آمدن کے ذرائع کوئی بھی نا تھے ۔۔۔
حسینہ نے صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے پاس پڑوس سے چھوٹے بچوں کو ٹیوشن کے لیے کہنا شروع کردیا۔۔
جمال کی غیر موجودگی میں وہ بچوں کو پڑھا کے فارغ ہوجایا کرتی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مئی کا گرم دن اپنے جوبن پہ تھا اور جمال نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا ۔۔
ہر جگہ سے انکار کی شکل ہی دیکھنے کو مل رہی تھی ابھی بھی وہ ایک دفتر سے نکل کہ فٹ پاتھ پہ بنے بس اسٹینڈ کے سایہ میں بیٹھ گیا تھا ۔۔
پاس ہی ٹھیلے پہ گنے کا رس نکالنے والا کھڑا تھا وہ اپنے پیاسے ہونٹوں پہ زبان پھیرتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
وہ اس منظر میں اس بری طرح منہمک تھا کہ پاس رکتی گاڑی پہ اس نے غور نا کیا ۔۔۔
“ہاں برخوردار !! ہوش ٹھکانے آئے یا نہیں” وہ اپنے ڈیڈ کی آواز پہ بری طرح چونکا
وہ ان کو جواب دینے بغیر ہی وہاں سے اٹھ گیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے سڑک پہ چلنے لگا ۔۔
“جب تھک جاؤ تو آجانا تمھاری پھپھو ابھی بھی پلوشہ کے لیے رشتہ دینے کے لیے تیار ہیں” وہ اسے امید کی کرن تھما کے چلے گئے۔۔
جمال سلگتے ہوئے ذہن کے ساتھ سڑک ناپنے لگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسینہ دوپہر میں ٹیوشن والے بچوں کا انتظار کرتی رہی لیکن آج کوئی بھی نہیں آیا۔۔۔
اس نے بیٹے کو بھیج کے معلوم کروایا تو سب نے ہی معذرت کرلی۔۔
“سب نے منع کردیا یہ اتفاق تو نہیں ہوسکتا” وہ سوچنے لگی
اس ہی لمحے دروازے پہ دستک ہوئی وہ اپنی سوچوں میں گم دروازے تک گئی تو دروازہ کھلنے پہ وہ چہرہ سامنے آیا جس کا وہ وہاں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔۔
زاہد سرفراز زاہد ۔۔۔ فن نعت گوئی کا خوبصورت نگینہ
محمد زاہد سرفراز کا ادبی نام زاہد سرفراز زاہد ہے۔ آپ کا شمار عہدِ حاضر کے نوجوان شعرا میں نعت...