دماغ کے اگلی اور نیچے کی طرف کا حصہ انسولر کورٹیکس ہے۔ تمام ممالیہ جانوروں میں یہ زبان اور ناک سے آنے والی انفارمیشن کو پراسس کرتا ہے۔ اور اس کی مدد سے جانور ٹھیک خوراک کی پہچان کر سکتے ہیں اور غلط سے دور رہ سکتے ہیں۔ لیکن اس قدیم حصے نے انسانوں میں نئی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ یہی انسانوں کے بارے میں “ذائقے” میں بھی راہنمائی کرتا ہے۔ اگر اخلاقی لحاظ سے کچھ قابلِ اعتراض ہو رہا ہو، کوئی ناگوار شے ہو یا ناانصافی ہو تو یہ زیادہ متحرک ہو جاتا ہے۔ اگر ہمارے پاس کوئی طریقہ ہو کہ اس کے بٹن دبا سکیں تو کیا ہم اس پر اثرانداز ہو سکیں گے؟ یہ سوال ایلکس جورڈن کا تھا۔
ایلکس نے اپنے تجربے میں چار متنازعہ ایشوز پر لوگوں کی رائے پوچھنی تھی۔ اور اس دوران میں خفیہ طور پر ان کے ناگواری کے الارم بجا دئے۔
ایلکس جب اپنے انٹرویو کے دوران کچرے کے ڈبے کے ساتھ کھڑے تھے جس سے “مہک” آ رہی تھی تو لوگوں کی اخلاقیات پر رائے زیادہ سخت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایلکس کے علاوہ باقی محققین بھی اس اثر کو دیکھ چکے ہیں۔ جب ہم کسی چیز کے بارے میں سوچنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہم اندر کی طرف دیکھتے ہیں کہ ہم خود کیسا محسوس کر رہے ہیں۔
ٹورنٹو میں شینبو ژونگ نے ایسا تجربہ کیا جس میں پہلے لوگوں کو سوالنامہ بھرنے سے پہلے صابن سے دھونے کا موازنہ کنٹرول گروپ سے کیا۔ جسمانی صفائی اخلاقی صفائی کے بارے میں زیادہ محتاط کر دیتی ہے۔ (مثلاً، منشیات یا پورنوگرافی جیسے ایشوز میں)۔ اگر آپ “صاف” ہیں تو “گندی” چیزوں کو دور رکھنا چاہتے ہیں۔
جسم اور ذہن میں دو طرفہ تعلق ہے۔ غیراخلاقی شے فزیکل طور پر گندگی لگتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں کلیدی نکتہ یہ ہے کہ اخلاقی رائے بنانے میں حقوق، انصاف، تکلیف جیسی چیزوں کو تولا نہیں جاتا۔ یہ اس سے بہت تیز اور خودکار عمل ہے۔ اور ہماری اخلاقی آرا کا بڑا حصہ یہاں سے ہے۔
اب اگلا سوال یہ کہ احساس اور عقل کا انوکھا ملاپ ہماری خوبی ہے یا خامی؟ کیا یہ ایک bug ہے یا پھر ایک feature ؟
اس کا جواب لینے کے لئے ہم انسانوں میں سے دو گروپ دیکھتے ہیں۔
سائیکوپاتھ اور بچے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں تقریباً ایک فیصد مرد سائیکوپاتھ ہیں۔ (خواتین میں یہ تناسب اس سے بہت کم ہے)۔ ایسا ہونا کسی کی شخصیت کا حصہ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر مجرم نہیں لیکن ان میں سے جو لوگ جرائم کی طرف چلے جائیں تو سب سے بدترین جرائم کرتے ہیں۔ سیریل قتل، ریپ اور ناقابلِ بیان جرائم میں ملوث ہونے والوں میں ان کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ بنیادی طور پر ان کا اخلاقی آلہ خراب ہوتا ہے۔ یہ جذبات محسوس نہیں کر سکتے۔ شرم، ہمدردی، پشیمانی یا پچھتاوا۔ اس وجہ سے ان کے لئے جھوٹ بولنا اور اپنے دوستوں، عزیزوں اور جانوروں کو بھی ایذا پہنچانا آسان ہے۔
سائیکوپاتھ میں عقل اور ریزن کرنے کی صلاحیت کا فقدان نہیں۔ اگر عقل کا ساتھ ہو لیکن اخلاقی جذبات کا قطب نما نہ ہو تو ایسی حالت نے تاریخ کے بدترین مجرموں کو جنم دیا ہے۔
ایسا نہیں کہ سائیکوپاتھ میں جذبات نہیں بلکہ یہ کہ ایسے جذبات نہیں جس کی وجہ سے یہ دوسروں کی پرواہ کریں۔
یہ صلاحیت جس میں اخلاقی جذبات کا فقدان ہو اور ساتھ ہی ساتھ عقل اور ذہانت بھی ۔۔۔ یہ ایک خطرناک ملاپ ہے۔
سائیکوپاتھ ہونے کا تعلق بچپن کی تربیت یا زندگی میں رونما ہونے والے کسی حادثے سے نہیں۔ یہ جینیاتی ہے۔ ایسا ذہن جو دوسروں کی ضروریات، تکالیف یا احترام کا ادراک نہ کر سکے۔ ایسے ذہن کا خودکار ہاتھی کسی بھی طرف نہیں جھکتا حالانکہ اس پر سوار بالکل نارمل ہے۔ اور اچھی منطق اور بحث کر سکتا ہے۔ لیکن اس “سوار” کا کام اخلاقی قطب نما کا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائیکوپاتھ کا برعکس چھوٹے بچے ہیں۔ یعنی کہ محسوس کر سکتے ہیں لیکن ریزن نہیں دے سکتے۔
کسی وقت میں ماہرینِ نفسیات کا خیال تھا کہ بچے کا ذہن خالی تختی ہے، لیکن ایسا نہیں۔ بچے اپنے ساتھ بہت کچھ لے کر آتے ہیں اور ان میں اخلاقی جذبات بھی ہیں۔
ییل میں چھ ماہ کے بچوں پر کئے گئے تجربات اس کو واضح کر دیتے ہیں۔ بچوں کے آگے شو کیا گیا جس میں ایک پُتلا پہاڑی چڑھ رہا ہے۔ ایک دوسرا پتلا آ جاتا ہے۔ وہ پہاڑی چڑھنے والے کی مدد کرتا ہے۔ اوپر سے تیسرا پتلا اسے نیچے گرانے کی کوشش کرتا ہے۔
تجربے کے بعد انہیں یہ پتلے کھیلنے کے لئے دئے گئے۔ بچوں نے تقریباً ہمیشہ مددگار پتلے کا انتخاب کیا۔ محققین نے اس سے اور اس کی کچھ ویری ایشنز کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ “دوسروں کے بارے میں اخلاقی رائے قائم کرنے کی صلاحیت یونیورسل ہے اور جبلی ہے”۔
یہ حیران کن نہیں کہ چھوٹے بچے اس بات کو سیکھ لیں کہ کون ان کے ساتھ اچھا برتاوٗ کر رہا ہے۔ دوسرے جانور بھی یہ سیکھ جاتے ہیں۔ لیکن یہ تحقیق یہ دکھاتی ہے کہ بچے یہ دیکھ کر رائے قائم کرتے ہیں کہ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ کیسا برتاوٗ کر رہے ہیں اور اچھے لوگوں کے بارے میں ترجیح رکھتے ہیں۔ اخلاقی ججمنٹ زبان سیکھنے اور ریزننگ کی صلاحیت سے پہلے ہی موجود ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاصہ یہ کہ اگر احساس ہو اور ریزن کرنے کی اہلیت نہ ہو تو پھر اخلاقیات چھوٹے بچے کی ہوں گی۔ ہم انہیں اخلاقی فیصلوں پر ذمہ دار نہیں ٹھہراتے۔ جبکہ دوسری طرف احساس نہ ہو اور ریزن کرنے کی اہلیت ہو تو پھر اخلاقیات سائیکوپاتھ کی ہوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخلاقی جبلت بہت ابتدائی عمر میں آ جاتی ہے اور ڈویلپمنٹ کے لئے ضروری ہے۔ ریزننگ بہت بعد میں۔ اور جب ریزننگ ہو لیکن یہ جذبات نہ ہو تو نتیجہ برا نکلتا ہے۔
تنوع کے فقدان کا عذاب
لاہور ایئرپورٹ سے فلائی کرنے والا ہوموپاکیئن دو تین گھنٹے بعد دوبئی یا دوحہ میں اترتا ہے تو ایک مختلف...