طلوع بدر کے ساماں ہوئے بزم کواکب میں
کئی دن سے یہ روشن ہو چکا تھا ارضِ یثرت میں
نکل کر شہر سے خلقت قبا تک چل کے آتی تھی
تمنا رنگ حسرت بن کے آنکھوں میں سماتی تھی
ہوا کرتی تھی فرشِ راہ اٹھ کر بار بار آنکھیں
ہمہ تن انتظآر آنکھیں ہمہ تن انتظار آنکھیں
بھٹکتا تھا تصور منزلوں میں اور راہوں میں
سحر سے شام تک اک شکل رہتی تھی نگاہوں میں
کئی دن تک نہ جب صورت دکھائی شاہِ والا نے
بہت مضطر ہوئے شمع نبوت کے یہ پروانے
ہوئیں کوتاہ آخر انتظار دید کی گھڑیاں
نگاہوں کے لیے آئیں نمازِ عید کی گھڑیاں
کسی نے دی خبر اے لو رسول اللہؐ آ پہنچے
جناب حضرت صدیقؓبھی ہمراہ آپہنچے
غل اٹھا لیجیے ذروں کے گھر میں آفتاب آیا
زمین و آسماں کا نور جس کے ہمرکاب آیا
اکٹھے ہو گئے ہر سمت سے طالب زیارت کے
شعاعوں کی طرح سے گرد خورشید رسالت کے
نظر آئی جونہی پہلی جھلک روئے منور کی
سلامی گونج اٹھی نعرہ اللہ اکبر کی
پیمرؐنے قبا میں چند دن آرام فرمایا
مروت نے بلطف خاص فیض عام فرمایا
سبھی پہلے مہاجر اس جگہ موجود تھے سارے
اکٹھے ہو گئے تھے چاند کے چاروں طرف تارے
علی مرتضٰیؓبھی تیسرے ہی روز آ پہنچے
چلے مکے سے تنہا پا پیادہ تا قبا پہنچے
وہ اہل مکہ کو ان کی امانت دے کے آئے تھے
انہیں اسلام کا درسِ دیانت دے کے آئے تھے
ہوئے حاضر تو پا سوجے ہوئے تھے خون جاری تھا
نبی کا دیدہ ہمدرد محو اشکباری تھا
اساس دین محکم تھی نبی کی خاطر عالی
قبا میں سب سے پہلے ایک مسجد کی بنا ڈالی
یہ مسجد اولیں بنیاد تھی طاعت گذاری کی
صفا کی صدق کی تقویٰ کی اور پرہیز گاری کی