وہ روم میں ائی تو اشعر کسی سے فون پر بات کر رہا تھا اسلیے بنا کچھ کہے وہ صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔۔
اشعر نے مسکرا کر اسے دیکھا پھر اپنی لیپ ٹوپ سے کچھ دیکھ کر اگلے بندے کو بتاتا رہا ۔۔۔۔ ارشیا نے سامنے پڑے گیفٹ دیکھے جو اقصی اور اصف ان کے لیے لے کر ائے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ اشعر نے وہ ابھی تک نہیں کھولے تھے ۔ شاید اسی کا ویٹ کر رہا تھا ارشیا نے اشعر کو دیکھا پر اسکی آنکھیں سکرین پر جمی تھی لیکن دھیان فون پر تھا۔ ارشیا نے گیفٹ اٹھا کر کھولنے شروع کر دیے ۔۔۔۔
اشعر نے کال ختم کی تب تک وہ ایک گیفٹ کھول چکی تھی ۔۔۔
مسکراتے ہوئے اسنے گیفٹ اشعر کی طرف بڑھایا ۔۔۔ اچھا ہے نا ۔۔۔۔
اشعر نے سیل رکھتے اسکے ہاتھ کی طرف دیکھا۔۔۔ ایک خوبصورت ڈبے میں پریسلٹس تھے جس پر لیٹر A بہت ہی خوبصورت انداز میں بنا کر سجایا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ اصف کی طرف سے ہے۔ وہی اسی طرح کر تا ۔ اسے ہی شوق سیم چیز لینے کا ۔۔۔ بریسلٹ نکالتے یہ تمہارا اور یہ میرا ۔۔۔۔ دیکھو دونوں پر ہمارے نام کے فرسٹ لیٹر ہیں ۔۔۔
ارشیا اپنا بریسلٹ دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
اشعر نے اپنا بریسلٹ پکڑا ہاتھ میں تمہیں کیسے پتہ ۔۔۔۔؟؟؟
ارشیا بریسلٹ کو دیکھتے اقصیٰ اوراسکے جیولری سیم ہوتی بس اسکی مردوں کے لحاظ سے اور اقصیٰ کی تھوڑی سجی دھجی لڑکیوں والی ۔۔
پر ہمارے سیم ہیں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مردوں والی سمپل یا عورتوں والی چمکتی ہوئی بہت ہی ڈیسنٹ گیفٹ ہے دیکھو دونوں سیم ۔۔ ایک دفعہ پھر اسنے ایک ساتھ دونوں کو کر کے دیکھتے کہا۔۔۔۔۔۔ مرد عورت دونوں پہن سکتے ۔۔۔۔ ارشیا نے اسکے ہاتھ سے اسکا برسلٹ لیتے دونوں جو اکٹھا کر کے اسے دیکھایا ۔۔۔۔
اشعر ا س کی حیرانی میں چھپی خوشی کو دیکھتے ۔۔۔۔ اچھا یہ تو اچھا ہے پھر ۔۔۔۔۔۔۔ تم ایسا کرو اسکے ہاتھ سے دونوں بریسلٹ لیتے یہ والا یہ سمجھ کر پہنو کہ تم نے میرے نام کا پہنا میں یہ تمہارے نام کا فرسٹ لیٹر سمجھ کر پہن لیتا ۔۔۔
ارشیا نے اسکے منہ کی طرف دیکھا جیسے اسکی بات کو سمجھ نہ پا رہی ہو ..
اشعر نے اسکی انکھوں میں دیکھتے روکوں ایک منٹ اسکا ہاتھ پکڑ کر اسمیں بریسلٹ پہنا دیا ۔۔۔ A لیٹر پر انگلی لگاتے اسکا مطلب اشعر ہوا ۔۔۔۔ اور یہ میرا اس پے لکھاAکا ارشیا ۔۔۔ سمجھی ۔۔۔ ساتھ ہی بریسلٹ پہن لیا ۔۔۔ ارشیا نے اپنے ہاتھ میں پہنے اس بریسلٹ کو دیکھا ۔
اشعر نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے اب گیفٹ صحیح اپنی اپنی جگہ پہنچ گئے ہیں ۔۔۔۔ میرا تمہارے پاس اور تمہارا میرے پاس ۔۔۔
ارشیا نے اسکے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیکھا پھر دونوں کے بریسلٹ کو۔
اشعر اسکے گرد اپنے بازوؤں مائل کرتے ۔ بہت اچھا گیفٹ دیا ہے اصف نے میں کل جا کر اس کو ضرور تھنکیو بولوں گا .. وہ اپنے اور ارشیا کے ہاتھوں کو دیکھ بول رہا تھا۔۔۔
۔۔ ارشیا نے اشعر کے چہرے کی طرف دیکھا پر کچھ نہ بولی ۔۔۔۔ اسنے اپنا سر اسکے سینے پر ٹکا دیا ۔۔ اور اپنے اور اسکے ہاتھ کو محویت سے دیکھنے لگی ۔۔۔
کافی دیر جب وہ نہ بولی تو اشعر کو اسکی چپی چھبنے لگی ۔۔۔ اشعر فورا ویسے اسے گیفٹ نہیں لانا چاہیے تھا۔۔۔
ارشیا نے فورا سر اٹھائے سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا ۔۔۔
اشعر نے سنجیدہ ہوتے ہاں ۔ پہلی دفعہ ائے تھے وہ بھی اتنے شورٹ نوٹس پے انکا انا ہی کافی تھا ہمارے لیے
اسکا لہجہ اتنا سنجیدہ تھا کہ ارشیاکو لگا کہ اسے سچ میں گیفٹ لانا پسند نہیں ایا ۔۔۔۔
ارشیا نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے باہر نکالا اور اقصیٰ کا گیفٹ جو وہ صرف ارشیا کے لیے لائی تھی ۔ اسنے ابھی تک وہ نہیں کھولا تھا ارام سے اٹھا کر کابرڈ میں رکھ دیا۔۔۔
اشعر کو یہ بولنا مہنگا پڑا ۔۔ پر اب وہ بول چکا تھا۔۔۔
اپنی بات کا دفاع کرتے ۔۔۔۔ نہیں میرا مطلب تھا کہ
وہ کچھ کہتا کہ ارشیا نے فورا تم صبیحہ کے گھر گئے تھے پہلی دفعہ تو کیا خالی ہاتھ گئے تھے ۔۔۔۔ ارشیا کا لہجہ سپاٹ تھا۔
اشعر کو اسکا لہجہ سمجھ نہ ایا ۔ وہ کچھ نہ بول پایا ۔۔۔ صبیحہ کا فورا موازنہ کرنا ۔۔۔
اشعر کو خاموش دیکھ اسے لگا کہ اسے صبیحہ کا موازنہ دینا برا لگا ۔۔ ارشیا نے موڑتے مجھے صبیحہ سے کوئی پروبلم نہیں بس وہ بھی پہلی دفعہ ہماری طرف ائے تو لے ائے وہ دوست ہیں میرے ۔۔۔۔ ارشیا کو سمجھ نہ ایا کہ خود کو ڈیفانڈ کیسے کرے ۔۔۔۔
اشعر نے پوری بات کو سنا پھر مسکراتے اچھا تو تم نے دیکھا تھا کہ۔میں نے کیا دیا تھا صبیحہ کو ۔؟؟؟۔۔۔
مجھے تھا کسی کو نہیں پتہ ہو گا ۔۔
ارشیا کو دیکھتے جو پہلے ہی سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیا بولے ۔۔۔
ارشیا الماری کی طرف موڑتے ہاں صبیحہ دوسرے دن پہن کر ائی تھی رنگ دی تھی تم نے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ تب پتہ چلا مجھے ۔۔۔۔ ۔۔ اسے ہانیہ اور صبیحہ کی باتیں یاد ائی ۔۔۔۔ پر وہ چپ کر گئی ۔۔۔ ایک بار پھر اسے لگا علی کی دی ہوئی امید جھوٹی اور صبیحہ صحیح ۔۔۔۔
اشعر اسے دیکھ محظوظ ہوتے تمہیں کیسی لگی تھی ۔۔؟
اچھی تھی ۔۔۔ اسکے ہاتھ میں اچھی لگ رہی تھی ۔۔۔۔ وہ نارمل لہجہے میں بول کر فارغ ہو گئی ۔۔۔
اشعر کو اسکا جواب سن کر ڈس ہاڑٹ منٹ ہوئی ۔۔۔ تم جیلس نہیں ہواس سے تھوڑی دیر بعد ارشیا کو شیشے کے سامنے کھڑے اپنے بال برش کرتے دیکھتے پوچھا ۔۔
ارشیا نے شیشے میں دیکھتے اشعر کو دیکھ کر نہ میں سر ہلایا ۔۔۔۔ میں کیوں جیلس ہوں گی اس سے ۔۔۔ دوست ہے وہ تمہاری ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ کچھ توقف کے بعد بس اچھی روست نہیں ۔۔۔۔۔
اشعر نے اٹھ کر اس کے پاس اتے ہممم اچھی ہے وہ ۔۔۔۔تمہیں نہیں پسند۔ تمہیں وہ کیوں نہیں پسند
ارشیا نے بنا اسے دیکھتے بس ایسے ہی
اشعر سمجھ گیا کہ وہ کچھ چھپا رہی ۔۔۔۔
وہ جا کر اپنی سائیڈ لیٹ گئی ۔۔۔ اشعر کھڑے کھڑے اسے دیکھتا رہا ۔۔
ارشیا نے اسے اپنے سر پر کھڑے دیکھ اب سونے دوں گے تم مجھے یا ایسے ہی کھڑے رہوگے ۔۔۔۔
اشعر پھر بھی نہ ہلا ۔۔۔ ارشیا اٹھ کر بیٹھتے ۔۔۔۔ کیا ہوا اشعر کچھ کہنا ہے یا کچھ پوچھنا ہے ۔۔۔۔۔
اشعر نے بیڈ پر بیٹھتے صبیحہ سے تم جیلس نہیں ہو ۔۔۔ وہ پتہ نہیں اس سے کیا اگلوانا چاہتا تھا
ارشیا نے اسے گھورتے ہاں ہوں ۔۔۔۔ تمہارے لیے اچھا ہے تم اس سے دور رہو جیسے مجھے کہا تھا کہ میں ہانیہ سے رہو ں ۔۔۔۔۔۔ کہتے غصے سے لیٹ گئے ۔۔۔
اشعر ہنستے ارشی بات سنو ارشی ۔۔۔۔
ارشیا نے چادر منہ پر کر لی ۔۔۔۔ جس کا مطلب وہ مزید بات نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔
پر اشعر پھر بھی بیٹھا اسے بار بار بولا تا رہا ۔۔۔۔
ارشیا غصے سے بیٹھتی کیا مسئلہ ہے اشعر ۔۔۔۔؟؟؟ وہ اسکے اتنے نزدیک بیٹھی تھی کہ اشعر اسکی خفگی کو بآسانی اسکی انکھوں میں دیکھ سکتا تھا
اشعر اسکے بال کانوں کے پیچھے کرتے بس یہی کہنا تھا کہ تم بیوی ہو میری ۔۔۔۔ اسلیے تمہاری جگہ کوئی نہیں لے سکتا ۔۔۔۔ ارشیا کے تنے ہوئے اصحاب تھوڑے ڈھیلے ہوئے ۔۔۔ دوسرے کان کی طرف بھی بال پیچھے کرتے اور تم غصے میں بہت اچھی لگتی اسلیے غصے میں ہی رہا کرو ۔۔۔
ارشیا مسکرا رہی تھی آخری بات سنتے اسنے اچھا میں غصے میں رہا کروں ۔۔ اسنے فورا سے اس پاس کوئی چیز ڈھونڈی اسے مارنے کے لیے پر تکیہ کے سوا کچھ نہ تھا۔۔۔۔ اسنے تکیہ کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن اشعر فورا سے بیڈ سے اٹھتے ۔۔۔ تعریف پے بھی کوئی مارتا ہے کسی کو ۔۔۔ اب بندہ تعریف بھی نہ کرے کسی کی ۔۔۔
ارشیا نے تعریف کی تم نے یہ ساتھ ہی تکیہ پھنکا پر اشعر نے کیچ کرتے ہاں میں نے کونسی توپ چلائی ہے تم پے جو تم مجھے تکیے مار رہی ۔۔۔ ارشیا اب بیڈ سے اترنے لگی تو اشعر فوراتکیہ اسکی طرف اچھالتے ۔۔۔۔ کمرے سے باہر نکلا۔۔ امی کہتی ان کی بہو شریف ۔۔۔ ابھی اکر دیکھیں ۔۔۔ ان کے بیٹے کا کیا حال کیا ہوا ۔۔۔ پر ارشیا نے اچھا میں بتاتی ہوں تمہیں کہتی ایک قدم ہی اگے بڑھی کہ اشعر بھاگ گیا۔۔۔۔۔ ارشیا اسے دیکھ کر ہنسی ۔۔۔ پاگل
صبیحہ کا سوچتے اسکی ہنسی سیمٹ گئی ۔۔۔ اشعر کی دوست تھی کیا دوست ایسی باتیں پھیلاتے جیسے وہ اشعر کے بارے میں افس میں پھیلا رہی تھی ۔ اگر میں سن سکتی تو باقی بھی تو کوئی سنتا ہو گا یا صرف مجھے ہی سنانے کے لیے وہ سب کہتی ۔۔۔۔ اشعر کو کبھی پتہ چلا تو اسکا کیا ری ایکشن ہو گا ۔ ارشیا کو صبیحہ کی باتیں یاد ائی پھر اشعر کا وہ غصے والا چہرہ ۔۔۔ ایک دفعہ تو دل دہل گیا ۔ پتہ نہیں اس وقت اسنے اسکی غصے والی انکھوں کی تاب کیسے لائی تھی ۔۔۔۔۔ وہ شرمندہ ہوئی اپنے رویے پر ۔۔ اگر وہ چپ چاپ نکل جاتی افس سے تواج اشعر اور اس کے درمیان ایک خلش نہ ہوتی ۔۔۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدلہ تھا لیکن ایک خالی پن ابھی بھی تھا
__________
دوسرے دن اشعر جلدی گھر ایا اور سب کو شوپنگ کرنے لے کر گیا علی اور احد بھی ساتھ تھے ۔
اسفند اسے ہانیہ کے بارے میں بتاتا رہا تھا ۔
سر بہت ہی تیز لڑکی ہے ادھے سے زیادہ کام دوسروں سے کرواتی ہے صبیحہ کی سپورٹ ہونے کی وجہ سے سب کو دبا کر رکھتی ہے ۔ اشعر گاڑی ڈرائیو کرتے ہنسا ۔۔۔۔۔ ہانیہ سے امید بھی کیا کی جاسکتی تھی ۔۔۔۔ اسے سمجھ نہیں اتا تھا کہ صبیحہ کو کیسے افس سے فئ حال باہر نکالے ۔۔۔۔ اسفند کو کام زیادہ کرنے اور چھٹی لیٹ دینے کا کہہ کر اسنے ارشیا کو دیکھا جو اس کے مسکرانے کی وجہ نہیں سمجھ پا رہی تھی ۔
اشعر مسکراتا رہا ۔۔۔۔ اور ڈرائیور کرتا رہا ۔۔۔ اج صبح سے اسنے پوری کوشش کی تھی ہانیہ کو زچ کرنے کی پر وہ اسکی سوچ سے زیادہ چالاک تھی
مال میں پہنچ کر سب اپنی اپنی شوپنگ میں مصروف ہو گے ۔۔۔۔۔ سعدیہ اور ارشیا نے بہت سی چیزیں خریدیں احد بھی انکے ساتھ تھا ۔ اشعر اور علی پیچھے پیچھے صرف بیگ اٹھانے کے لیے شاید ائے تھے ۔۔۔۔۔ جب تھوڑی بہت شوپنگ ہو گئی تو علی اور اشعر میل پورشن میں گھس گئے ۔۔۔۔
ارشیا سعدیہ اور احد تینوں ایک ساتھ احد کے لیے کپڑے دیکھ رہے تھے جب کسی نے ارشیا کو پہچانتے ہوئے اواز دی ۔۔۔ سب نے موڑ کر دیکھا صبیحہ شوپنگ بیگز اٹھائے ارشیا کو مسکراتے دیکھے جا رہی تھی ۔۔۔۔
صبیحہ نے اسکو ہائیڈ شیک کرتے تم یہاں کیسے ۔۔۔۔ ساتھ ہی انسب کو عجیب نظروں سے دیکھا جیسے وہ سب کوئی عجیب مخلوق ہو۔۔
ارشیا نے مسکرانے کی اج ناکام کوشش کی اسے صبیحہ سے کبھی مسئلہ نہیں تھا پر آشعر کے حوالے سے اسے صبیحہ پسند بھی نہیں تھی کہ اس سے ایسے ملنے پر خوشی سے پاگل ہو جاتی ۔۔۔۔۔
وہ بس شوپنگ کے لیے ائے تھے یہ میری امی ہیں امی یہ صبیحہ میرے ساتھ کام کرتی تھی ۔۔۔۔ ارشیا نے دونوں کا تعارف ایک دوسرے سے کروایا ۔
صبیحہ کچھ اور کہتی یا پوچھتی کہ اسکی نظر اشعر پر پڑی وہ ایکسیوز کرتے چلی گئی ۔۔۔۔ سعدیہ ارشیا کو دیکھتے بڑی ہی عجیب کولیگ تھی تمہاری ۔۔ ارشیا نے سکھ کا سانس لیتے جلدی میں تھی امی ۔۔۔ چلیں ہم اگے چلتے ۔۔۔۔ لیکن پھر کچھ سوچتے اپ چلیں علی جو ان کی طرف ہی ارہا تھا علی کو فورا تم امی اور احد کےساتھ اگے جاؤ میں اشعر کے ساتھ اتی ہوں مجھے اس سے کام ہے ۔۔۔ وہ ہاں کہتا سعدیہ اور احد کو لے کر چلا گیا ۔۔۔
ارشیا کے دل میں ڈر تھا کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ صبیحہ اشعر سے ملے یہ سوچے بنا کہ روز بھی تو وہ اسے افس میں ملتا ۔۔۔۔ بیوی کی طرح اشعر کو مال میں ڈھونڈھتے اور صبیحہ پر نظر رکھتے پر آشعر صبیحہ سے مل چکا تھا ۔۔۔ ارشیا کو صبیحہ اور اشعر دکان میں اکھٹے کھڑے نظر ائے ۔۔۔ ۔۔۔۔ جلن کے مارے اسکا دل کیا ان دونوں کو اٹھا کر نیچے پھنک دے ۔۔۔۔ پر بنا کچھ کہے وہ واپس سعدیہ کے پاس اگئی ۔۔۔۔ دل اور دماغ جیسے کچھ سوچ ہی نہیں پارہا تھا ۔ جلن اور غصے کے علاوہ کوئی احساس نہ رہا ۔۔۔۔
شوپنگ میں انہیں کافی ٹائم لگا ۔۔۔۔ علی سارے بیگ اٹھائے گاڑی میں رکھنے ایا ۔۔۔ اشعر بھی گاڑی میں بیگ رکھے ۔ کہاں رہ گئے ہیں یہ سب ۔۔۔۔
علی نے ارہی ہیں بس پانچ منٹ اشعر بھائی ۔۔۔ اپ فکر نہیں کریں ۔۔
اشعر اور وہ دونوں ویٹ کرتے رپے ۔۔۔۔۔ پر پانچ کیا دس منٹ گزر گے وہ نہ ائیں ۔۔۔۔۔ اشعر نے علی سے بات شروع کی ۔۔۔۔اسے دیکھتے تمہاری اپی تمہیں سب بتاتی ہے ۔۔؟؟؟
علی نے اشعر کا چہرہ دیکھا جیسے جاننا چاہ رہا ہو کہ تاثرات کیا ہیں پر اسکے چہرے پر کوئی ایسا تاثرنہ تھا کہ اسے برا یا عجیب لگتا ۔۔
نہیں سب نہیں بتاتی۔۔۔ پھر کچھ سوچتے اشعر بھائی اپی نے جب افس چھوڑا تھا اپکو اسکی وجہ پتہ ہے ۔۔۔۔
اشعر کشمکش میں نہیں ۔ مجھے نہیں پتہ کیوں ارشیا نے تمہیں کچھ بتایا ۔۔۔۔ علی سے الٹا سوال کیا ۔۔۔۔
علی نے مایوس ہوتے نہیں بتایا تو نہیں بس مجھے لگا کہ مسئلہ سارا اسی دن سے شروع ہوا ہے ۔۔۔
اشعر نے متوجہ ہوتے کیسا مسئلہ ۔۔؟؟؟
اشعر جو مکمل طور پر اسکی طرف ۔ متوجے دیکھ رہا تھا مسئلہ تو میں نہیں بتا سکتا بس اتنا ہے کہ صبیحہ اور ہانیہ نے کچھ ایسا کہا ہے اپی کو جس سے انہیں کافی تکلیف ہوئی اور وہ ۔۔۔ بولتے بولتے چپ کر گیا۔۔۔۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ کہیں سے پتہ چلے کہ انہوں نے ایسا کیا کہا تھا اپی سے ۔۔۔۔ کیونکہ اپی تو کبھی نہیں بتائے گی پوچھنے پر ۔۔۔۔
اشعر نے علی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے یہ سب ارشیا نے تم سے کہا ۔ کہ صبیحہ اور ہانیہ نے اسے کچھ بتایا ؟
علی نے پہلے ہاں پھر نہ۔میں سر ہلاتے ۔۔۔ پھر خود ہی مطلب بتایا نہیں میں نے ان کی باتوں سے اندازہ لگایا ۔ انہیں لگتا صبیحہ اپکی دوست تو وہ جھوٹ نہیں بول سکتی ۔۔
اندازے غلط بھی ہو سکتے پر اپی کے بارے میں میرا ہر اندازہ صحیح ہوتا اس لیے اپ سے پوچھا کہ شاید اپکو پتہ ہو صبیحہ اپکی بھی دوست ہے نا
اشعر اسے کچھ کہتا کہ ارشیا سعدیہ اور احد اگے ۔۔۔۔ واپسی کا سفر بہت خاموش گزرا ارشیا کا دکھ میں۔۔۔۔ علی اوراشعر کاسوچنے میں ۔۔ سعدیہ کا تھکن میں ایک
احد تھا جو اتنی شوپنگ کرنے پر خوش ت
اشعر ہانیہ کا تو مان سکتاتھا پر صبیحہ کاکہ وہ کبھی کچھ کرے گی یا ارشیا کو کچھ کہے گی ۔۔۔۔
دونوں اپنی اپنی جگہ خاموش سوچتےرہے ۔
وہ سامان کیبرڈ میں رکھ رہی تھی جب اسکی نظر ایک شرٹ پر پڑی ۔ یہ تم نےلی ہے اشعر کو دیکھاتے
اشعر ایک نظر شرٹ کو دیکھا نہیں یہ صبیحہ نے لے کردی ہے مجھے وہی مال میں ملی تھی ۔۔۔۔
ارشیا نے اشعر کو دیکھا جو اپنے سیل پرمصروف تھا
شرٹ کو واپس رکھتے ۔۔۔۔وہ اشعر کے پاس ائی ۔۔۔
اشعر نے سیل سے نظر ہٹا کر اسے دیکھا جو بس اسے گھور رہی تھی ۔۔۔ غصہ تھی اس سے پروجہ کیا تھی ۔۔۔
کیاہوا ۔۔۔ ارشیا کو گھورتاپا کر ۔۔ اسکا ہاتھ پکڑتے یہاں بیٹھو ۔۔۔۔
ارشیا نےبھی بنا کچھ کہتے اسکے پاس بیٹھ گئی ۔۔ پر اشعر کے کہنے سے پہلے ہی اسنے سوال کر ڈالا ۔۔۔کیا تم کبھی دوسری شادی کرو گے ۔۔ جو ڈر اسکے دل۔میں تھاوہ زبان پر لے ائی
۔ ارشیا نے یہ بات کیسے ہمت کر کے کی تھی وہی جانتی تھی جو جواب سے پہلے ہی دل میں دعائیں کررہی تھی کہ وہ نہ کہیے ۔۔۔
اشعر نے پہلے حیرانی سے پھر ہنستے یہ کیا کہہ رہی ہو
پر ارشیا کو اسکی ہنسی بالکل پسند نہ ائی ۔۔۔۔ اگر تمہیں پتہ ہوتا تمہاری شادی مجھ سے ہو رہی تم انکار کردیتے ۔۔۔؟؟؟ ا س کی انکھوں میں پانی بھر ایا ۔۔۔
اشعر نے اسکے آنسوؤں صاف کرتے تم روکیوں رہی ہو
انکارکاسوال ہی نہیں تھا تم میری ماں کی پسند تھی انکار کیوں کرتا میں اور میں کیوں کروں گا دوسری شادی ۔۔۔۔ تم ایسا کیوں سوچ رہی ہو۔۔۔۔۔ ارشیا نے دل۔میں سوچتے ماں کی پسند ہوں تمہاری نہیں پر اشعر سےنہ بولی ۔
اشعر کو ہمیشہ اسکے رونے کی وجہ سمجھ نہ اتی ۔۔ ایک شرٹ سےبات شروع ہوئی دونوں کی ۔۔۔۔۔ تم صبیحہ سے جیلس کیوں ہو رہی ہو وہ دوست ہے میری ۔۔ارشیا کے چہرے کو اپنی طرف کرتے ۔۔۔ ارشیا نے اسے دیکھا ۔۔
میں کل بھی کہہ چکا ہوں تم بیوی ہو میری وہ دوست ہے میری ۔۔۔کوئی تمہاری جگہ کبھی نہیں لے سکتا ۔۔۔۔۔ تم جیلس ہونا چھوڑ دو اس سے۔۔۔ ا س کے گرد اپنے بازوؤں مائل۔کیے ارشیا نے بھی بنا کچھ کہتے
اسکے سینے پر سر رکھتے پہلے نہیں ہوتی تھی اب ہوتی ہوں ۔۔۔۔۔ میں ۔۔
اشعر اسکی بات سن کر مسکرایا بنا کچھ کہے اسے اپنے سینے میں چھپائے رکھا ۔۔۔۔ مطلب اسکا محبوب کو اب یہ پسند نہیں تھا کہ کوئی اور اسکے قریب ہو ۔۔۔ یا اس پر اپنا حق سمجھتی۔ بیوی کی طرح جیلس ہو رہی تھی وہ اسکی دوست سے ۔۔۔۔ اسکو دیکھتے اشعر نے دل۔میں پاگل ہے یہ کیا کروں میں اسکا ۔۔۔۔۔ اس ارشیا پر پیار ایا تو اسنے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا۔۔۔ خود ہی خودمسکراتا رہا ۔
___________
رات کو ارشیا کی کب انکھ لگی وہ نہیں جانتی تھی جب تک وہ سوئی اشعر کمرے میں نہیں ایا تھا ۔۔۔۔ صبح بھی وہ نہیں تھا کمرے میں ۔۔۔۔ ارشیا نیچے ائی تو وہ سعدیہ کے کمرے میں بیٹھا تھا۔۔۔۔
اسنے سعدیہ کو سلام کیا سعدیہ جو کافی پریشان لگ رہی تھی ۔۔۔۔ کیا ہوا امی ۔۔۔۔ ۔۔؟؟؟ سعدیہ کو دیکھتے ۔۔۔ اشعر فون پر لگا ہوا تھا۔۔۔۔
سعدیہ ارشیا کو اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کرتے اشعر کی کال ختم کرنے کی منتظر تھی ۔۔۔۔۔ اشعر نے کال ختم کی ۔۔۔ ارشیا اور ماں کو دیکھا ۔۔۔۔۔
امی کنفرم ہو گئی ہے ٹکٹ ۔۔۔۔۔۔ اسفند اپکے ساتھ جائے گا ۔۔۔ چاچو بھی اجائے گے ائیر پورٹ پر ۔۔۔شام کی فلائٹ ہے ۔۔۔ ۔۔۔ سعدیہ نے اشعرکی بات سنتے ہاں میں سر ہلایا ۔۔۔۔
ارشیا کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کبھی اشعر کو دیکھتی تو کبھی سعدیہ کو ۔۔۔ اتنا تو جان گئی تھی کہ سعدیہ کہیں جارہی ۔۔۔۔
اشعر کرسی سے اٹھتے ۔۔۔ ارشی چائے بنا دو ۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔۔ میں کمرے میں ہوں ۔۔۔ کہتا سعدیہ کے کمرے سے نکل گیا ۔۔۔
اسے جاتا دیکھ ارشیا نے سعدیہ کو دیکھا ۔۔۔۔ کیا ہوا امی ۔۔؟؟؟ کہاں جا رہی ہیں اپ ؟؟؟
سعدیہ ارشیا کے سر پر ہاتھ رکھتے ۔۔۔آسلام آباد جا رہی ہوں بیٹا نواز کی بیٹی کی منگنی ہے ۔ سدرہ بیچاری اکیلی ہے ۔ تم تو جانتی ہو گی وہ سحرش کو ۔۔۔۔ ارشیا نے ہاں میں سر ہلایا ۔۔۔ بس اسکی منگنی ہے ہمیں بلایا ہے میں بڑی ہوں پھر سحرش چاہتی کہ ہم سب وہاں ہوں ۔۔ بہت پیاری بچی ہے ۔ اشعر اسے بھائیوں کی طرح چاہتا ۔۔۔ بولایا تو ہم سب کو ہے پر اشعر کا کوئی کام ہے اسلیے نہیں جا سکتا اوپر سے تمہارا ابھی تک پاسپورٹ نہیں بنا ۔۔۔۔ اسلیے فئ حال۔میں جا رہی ہوں ۔۔۔۔ بعد میں تم اور اشعر اجانا ۔۔۔ سعدیہ نے اسے پوری صورتحال سے اگاہ کیا ۔۔۔
ارشیا نے اترتے چہرے کے ساتھ اپ اکیلے کیسے جائیں گئی میں بھی چلتی ہوں ۔۔۔۔
سعدیہ نے ہنستے بیٹا پہلی دفعہ تھوڑی جا رہی ہوں میں ۔۔ تم اجانا بعد میں اشعر کے ساتھ ۔۔ فکر نہیں کرو ۔۔چلو اٹھ پریشان نہ ہو ۔ شام کو جانا ہے میں نے کون سا ابھی جا رہی ۔۔۔۔۔ اشعر کو چائے بنا کر دو۔
ارشیا بے دلی سے اٹھی ۔۔۔۔ سعدیہ کا جانا ضروری تھا پر وہ بھی سعدیہ کے ساتھ جانا چاہتی تھی ۔ ۔ ان کے بنا وہ کیسے رہے گی وہ یہی سوچتے سوچتے چائے بنا کر لائی ۔۔۔
اشعر صوفے سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا ۔۔۔
چائے ٹیبل پر رکھتے تم سوئے نہیں رات بھر ۔۔۔
اشعر نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھ کر نہ۔میں سر ہلایا ۔۔ سحرش کے منگنی ہے تو بس ان سب کی تیاری اور مبارک باد دینے اور بتانے میں پوری رات نکل گئی ۔۔۔
سحرش کے منگیتر کو جانتے ہو تم ۔۔۔؟؟؟ ارشیا نے چائے کا کپ پکڑراتے پوچھا ۔۔
ہاں بہت اچھے سے مل۔چکا ہوں میں اسے کافی دفعہ ۔ چاچو نے بھی پوچھا مجھ سے ۔مجھے تو ا اس میں کوئی خامی نظر نہیں آئی ۔ سحرش بھی اسے پسند کرتی اسلیے میں نےہاں کہہ دیا ۔۔۔۔۔ امی ابھی جارہی ہیں ہم بعد میں جائیں گے ۔
۔۔ اشعر میں بھی جانا چاہتی امی کے ساتھ ۔۔۔اسنے فورا سے اپنا کہا ۔۔۔۔
اشعر نے چائے کاسیپ لیتے نارمل۔لہجے میں نہیں فئ حال ممکن نہیں ۔
پر کیوں ۔۔۔ تم کچھ کر نہیں سکتے کسی سے کہہ کر یا بائے روڈ مجھے اورامی کو بھیجوا دو ۔۔۔۔ اسنے جیسے ایک اور حل۔پیش کیا ۔۔
نہیں ۔۔۔۔۔ وہ ارام سے چائے پیتا رہا ۔۔۔۔ پتہ نہیں وہ کیا کیا سوچتی رہتی تھی کل رات کو ہی اسے شوک لگا یہ سن کر کہ ارشیا کو لگتا وہ دوسری شادی کر لے گا ۔ جبکہ وہ تو شادی ہی اسی سے کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ غصہ اپنی جگہ پر وہ خوش تھا اسے پاکر ۔۔۔ اوپرسے صبیحہ اور ہانیہ دونوں اسکی سٹوری کی ویلن تھیں ۔ جو ارشیا پر پتہ نہیں اسکا کیسا امپریشن چھوڑے بیٹھی تھیں ۔۔۔۔ فی حال وہ چاہتا تھا کہ وہ اسکے ساتھ رہے تاکہ وہ اس یقین دلائے اپنی محبت کا اسکی ساری غلط فہمی دور کرے جب پہلے ہی وہ اتنی اس سے متنفر ایسے میں اسے دور کیسے جانے دیتا ۔
پر ارشیا کا حول اٹھ رہےتھے کہ وہ سعدیہ کے بنا کیا کرے گی ۔۔۔
کافی دیر خاموش رہنے کے بعد۔۔۔۔ امی کتنے دن رہیے گی ادھر ۔۔۔
پتہ نہیں جواب فورا ایا ۔۔
ہم کب جائے گے ۔۔ ارشیا نے بھی فورا اگلا سوال کیا ۔۔
پتہ نہیں ابھی مجھے ۔۔۔۔ کام ختم ہوگاتو جائیں گے ۔۔۔۔
وہ اٹھ کرواش روم چلا گیا ۔۔۔۔ چینج کر کے ایا تو ارشیا اسکے انتظار میں کھڑی تھی ۔۔۔
اشعر پلیز کسی طرح مجھے بھیج دو ۔۔۔۔ اسنے التجا کی جیسے وہ کر سکتا سب ۔۔۔۔
اشعر نے اسکو ترس سے دیکھتے تم۔مجھے یہاں اکیلا چھوڑ کرجاو گی ۔۔۔
ارشیا نے پوری سفاکی سے ہاں ۔۔۔۔ تم رہ لو گے میں کیسے رہوں گی امی کے بنا ۔۔۔۔
اشعر کو وہ فئ حال اسکی حالت سے زیادہ اپنی حالت پر ترس ایا ۔۔۔
مطلب میں یہاں اکیلا رہوں گا ۔ تمہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا ؟؟
ارشیا نے اسکی بات کو بیچ میں ہی کاٹتے تو تم۔پہلے بھی تو اکیلے رہتے تھے جب میں نہیں تھی ۔۔اب بھی رہ لو گے ۔۔۔۔۔
کل تک وہ صبیحہ سے جیلس تھی اور اج وہ اسے یہاں اکیلا چھوڑنے پر تیار تھی اشعر کو اس پر نہ غصہ ایا نہ ہی ترس۔۔۔۔۔ اگر وہ فئ حال صرف اپنا سوچ کر بول رہی تھی تو بہت ظلم بنی ہوئی تھی ۔۔۔۔ کتنی مین (mean)ہو نا تم ۔۔۔ کہتے افسوس سے باہر نکل گیا ۔
ارشیا منہ میں بولتے اس میں مین کہنے والی کیا بات۔۔۔
پورا دن وہ پریشان رہی سعدیہ کی پیکنگ میں پوری ہیلپ کی ۔ ۔۔۔شام کو وہ سب چلے گے ارشیا خود نہیں گی ۔ وہ جاتی تو شاید ائیر پورٹ پے کھڑے کھڑے رو دیتی
پر اشعر وہی سے افس اگیا ۔۔۔اجکل اسکا پسندیدہ مشغلہ ہانیہ کو سبق سیکھانا تھا۔۔۔۔ یا یہ بتانا کہ اپنا کام خود ہی کرنا چاہیے یا یہ کہ دوسروں کو تنگ کر کے کیسا لگتا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ فئ حال بھی اسفند کو باقی کی انسٹرکشن دینے ایا تھا ہانیہ کا کام وہ دیکھتا بھی خود اور دیتا بھی خود ۔
اس سب میں ہانیہ کو اشعر سے زیادہ صبیحہ پر غصہ تھا جو اس کے کسی کام نہیں آرہی تھی۔۔۔۔
صبیحہ تو خود ہی اشعرکے اتنے بڑے بزنس مین ہونے کے بعد اسکے تو انداز ہی بدل گئے تھے پہلے شاید صبیحہ کے والد اعتراض کرتے اشعت کے متعلق پر اب تو وہ اعتراض بھی نہیں رہا تھا۔۔۔ پورا دن وہ اشعر کے ساتھ ہی رہتی ۔۔۔ اشعر کے صرف اتنا کہنے پر ہی کہ سب کو اپنا کام خود کرنا چاہیے تھا ۔۔صبیحہ نے اس لائن کو تعویز سمجھ کر گھل کر پی لیا اب نہ وہ خود ہانیہ کی مدد کرتی نہ کسی کو کرنے دیتی ۔۔۔۔ ۔۔
اس سب میں ہانیہ پھنس چکی تھی ۔۔کام کا برڈن اور صبیحہ کا کام نہ انا اسے اشتعال کر گیا تھا پر مسئلہ تھا کچھ نہ کر پانا ۔۔۔۔ اسنے صبیحہ کو سبق سیکھانے کا سوچا ۔۔۔۔پر کیسے یہ ابھی سوچنا باقی تھا۔
____________
وہ کافی پریشان رہی ۔۔۔۔ رات کا ایک بج گیا پر اشعر ابھی تک گھر نہ ایا ۔۔۔۔ ادھر سعدیہ کی فلائٹ لینڈکرنے کے بعد اسنے اپنی خیر خیریت بتا دی تھی ارشیا کو ۔۔ پر اشعر کا کچھ پتہ نہ تھا۔۔۔ وہ لیٹ پہلے بھی اتا تھا پر اتنا نہیں اور اج تو سعدیہ بھی نہیں تھی اور نہ ہی اسکا نمبر تھا اسکے پاس کہ پتہ کرتی ۔۔۔۔۔ وہ رو دینے کر تھی ۔۔۔ عجیب وہم اور وسوسے ارہے تھے اسکے دماغ میں ۔۔۔۔۔۔۔ بہت دفعہ خیال ایا کہ سعدیہ سے نمبرانگ لے پر وہاں اتنا دور وہ پریشان ہو جاتی ۔۔۔ علی کا خیال اتے کہ اسکے پاس ہو گا ۔۔۔ اسنے علی کو کال کی پر علی کا فون کوئی نہیں اٹھا رہا تھا ۔۔ ارشیا مزید پریشان ہو گئی ۔۔۔
اسی کشمکش میں تھی اسنے دروازہ کھولنے کی اواز سنی ۔۔۔
اشعر دروازہ بند کر رہا تھا۔۔۔ اسکی وجود میں جان ائی ۔۔۔ شکر ہے الللہ کا اشعر کو دیکھتے اسکے منہ سے الفاظ نکلے ۔
اشعر سیڑھیاں چڑھتے اوپر ایا۔۔۔۔ لائٹ اوف تھی ورنہ وہ ارشیا کا رویا چہرہ دیکھ لیتا ۔۔۔ پاس سے گزرتے تم سوئی نہیں اب تک ۔۔۔۔۔
ارشیا کو اسکی لاپرواہی پر بہت غصہ ایا ۔۔ کمرے میں جاتے ۔۔۔۔ تم لیٹ کیوں ائے ۔۔۔ اسنے غصے سے کہا ۔۔۔ اشعر نے موبائل رکھتے ہاں وہ افس میں کام تھا اسنے جیسے اسکا لہجہ نوٹس ہی نہیں کیا ۔۔۔
کام ۔۔۔ہاں میں ہی پاگل ہوں جو کب سے پریشان ہوں حول اٹھ رہے تھے کہ تم کسی پروبلم میں نہیں اور تم سے اتنا نہیں ہوا کہ ایک دفعہ کال کر کے بتا دو کہ لیٹ اوں گا ۔۔۔ وہ جیسے دھاڑی
تم جان بوجھ کر کرتے ہو سب ۔۔۔ اچھا لگتا ہے تمہیں مجھے تنگ کرنا ۔۔۔۔ ۔۔ کبھی میں نے ایسا کیا تو دیکھنا پتہ لگے لگا تمہیں انسان کس قرب سے گزرتا ہے ۔۔۔کوئی فکر نہیں ہے ۔۔۔ کہ کوئی انتظارِ بھی کر رہا ہو گا
غصہ چہرے سے عیاں تھا۔۔۔۔
اشعر کو کافی ٹائم لگ گیا یہ سوچنے میں کہ اصل۔میں وہ بول کیا رہی ۔۔۔۔ اتنی سپیڈ سے بولتے ہوئے ارشیا نے اپنے پچھلے ریکارڈ بھی اج توڑ دیے تھے ۔۔۔۔
تم مجھے کال کر لیتی ۔۔۔۔ ؟؟؟ اسنے جیسے اپنے بچاؤ کا ایک موقعہ پیش کیا ۔۔
ارشیا نے غصے سے کبھی دیا ہے مجھے نمبر تم نے ۔۔ کہ میں کال کر کے پوچھتی ۔۔۔۔
اشعر نے تم نے کبھی مانگا نہیں وہ منمنایا ۔۔۔۔۔
ارشیا فورا مطلب اس میں بھی میری غلطی ۔۔۔۔ ۔۔۔ چار مہینے ہو گے ہیں شادی کو خود کبھی خیال ایا کہ نمبر رکھ لو کام اتا ۔۔۔۔۔ ارشیا کا جیسے ضبط ٹوٹا ۔۔۔۔۔ تم بہت ہی لاپرواہ ہو اشعر ۔۔۔۔۔ تمہیں یہ نہیں سوچا میں گھر اکیلی ہوں ۔۔۔۔ اس سے اچھا مجھے تم امی کے ساتھ جانے دیتے ۔۔۔۔۔کم از کن وہ مجھے اپنے ساتھ رکھ کر بھولتی تو نہیں ۔۔۔۔۔
اشعر شرمندہ ہو گیا ۔۔ہانیہ کے چکر میں وہ اپنی زمہ داری بھول گیا تھا۔۔۔
ارشیا بھی بنا اسکی کوئی بات سنے ناراضگی جتاتے بیڈ پر لیٹ گئی ۔
اشعر نے اج سچ میں لاپرواہی کی حد کر دی تھی ۔۔۔۔۔
ارشیا کا غصہ جائز تھا ۔۔۔۔
وہ واش روم سے باہر نکلا ۔ ارشیا کو فئ حال کچھ کہنا اسے مزید ناراض کرنے کے مترادف تھا۔
وہ چپ چاپ لیٹ گیا۔۔
صبح وہ اٹھا تو ارشیا روم میں نہیں تھی ۔۔۔۔۔ اس نے اسے آواز دی پر کوئی جواب نہ ایا ۔۔۔۔ وہ باہر نکل کر سب جگہ دیکھا پر وہ نہیں تھی ۔۔۔ پریشانی کے عالم میں وہ دروازے کی طرف بھاگا۔۔۔۔۔ کہ دروازہ کھول کر
ارشیا اندر ائی ۔۔۔۔
فورا اسکی طرف لپکتے ۔۔ کہاں گئی تھی تم ۔۔۔۔؟؟؟
ارشیا نے اسے دیکھا پر کوئی جواب دیے بنا اگے بڑھ گئی ۔۔۔
ارشی میں تم سے پوچھ رپا ہوں پتہ کتنا پریشان ہو گیا تھا میں ۔۔۔ وہ جو بس چلی جا رہی تھی اسکا بازوں پکڑتے ارشی تم سے کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔
ارشیا نے موڑ کر اسے دیکھتے پریشان اچھا ویسے ہی جیسے کل رات میں پریشان تھی تمہارے لیے ۔۔۔۔ اور تم ارام سے افس میں بیٹھے کام کر رہے تھے ہاں نا ۔۔۔۔۔ ساتھ ہی اسے سنجیدگی سے دیکھا ۔۔۔
اشعر سمجھ گیا کہ وہ اسے کیا جتانا چاہتی ۔۔
ارشیا کو پکڑتے دیکھو میں مانتا ہوں میں نے کل بہت ہی لاپرواہی کا نمونہ پیش کیا اور اس کے لیے میں سوری بھی ہوں مجھے تمہیں بتانا چاہیے تھا تمہارے پاس نہیں پر میرے پاس تو گھر کا نمبر تھا ۔۔۔۔ آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔۔۔۔۔ پرامس جہاں بھی جاؤں گا تمہیں بتا کر جاؤں گا ۔۔۔۔۔ پر پلیز ائندہ تم بھی ایسا نہیں کرو گی ۔۔۔۔ جان نکل گی تھی میری ۔۔۔۔۔
ارشیا اسے اتنا شرمندہ دیکھ کوئی بات نہیں ۔۔۔ مجھے بھی اتنا غصہ نہیں کرنا چاہیے تھا کل رات ۔۔۔۔لیکن پتہ نہیں اجکل بہت غصہ اتا مجھے تم پے ۔۔۔ سمجھ ہی نہیں اتا ۔۔۔۔ ساتھ ہی شرمندہ ہوئی ۔۔
اشعر ہنستے ہم غصہ بھی اسی پر ہوتے جس پر حق سمجھتے ۔۔۔۔۔۔ اور تم غصہ ہوتی کیونکہ میں تمہیں موقعہ دیتا ۔۔
ارشیا ہنسی ۔۔۔ جو اس میں بھی اپنی غلطی نکالے بیٹھا تھا۔۔۔۔
ارشیا اسکے اسے مسکرا کر دیکھنے پر ۔۔۔ ناشتہ بناؤ کر کے جاو گے یا وہاں کرو گے ۔۔۔
اشعر ہنستے نہیں کر کے جاؤ ں ۔۔گا۔۔۔۔۔
کچن میں داخل ہوتے تمہارا سیل کہاں ہے ۔۔۔ ارشیا نے اشارہ کیا تو ۔۔ اشعر نے سیل اٹھاتے اپنا نمبر اسکے سیل۔میں سیو کیا ۔۔اور اپنے سیل پر بل دی ۔۔۔۔ پھر اسکا نمبر اپنے سیل۔میں سیو کیا ۔۔ وہ ناشتہ بنا رہی تھی اشعر نے اسکے سیل کودیکھا جس میں صرف علی کو کالز کی گئی تھیں ۔ کونکیکٹ میں بھی صرف علی کا نمبر تھا۔۔۔۔ اسے حیرت ہوئی کیوں کہ ارشیا سعدیہ کو ہمشہ کہتی کہ اسکی نسرین سے بات ہوتی رہتی ۔۔۔ کیا وہ لینڈ لائن سے کال کرتی ہے ۔۔۔ وہ اسی سوچ میں تھا کہ ارشیا نے ناشتہ اسکے اگے رکھا ۔۔۔
اس نے سیل سائیڈ پر رکھتے شکریہ مادام ۔۔۔۔۔۔
ناشتہ کرتے تم اکیلے ڈرو گئی تو نہیں ۔۔۔۔ اشعر نے سوال کیا
پر ارشیا شاید کچھ اورہی سوچ رہی تھی اکیلی کیوں تم ہو گے نا ساتھ میرے ۔۔۔
اشعر نے ہنستے وہ تو میں ہوں پر پورا دن تو نہیں ہوں گا نا ۔۔۔۔
ارشیا نے اسے دیکھتے اسکی بات کو سمجھتے ۔ ہممم نہیں ۔۔۔ کام کروں گئی پہلے اس میں ہی پورا دن نکل جائے گا۔۔۔ اگر پھر بھی ٹائم بچا تو علی کے گھر چلی جاؤں گی ۔۔۔ اسنے اپنا پورا پلان پیش کیا جو وہ سوچے بیٹھی تھی۔۔۔۔ چلو ٹھیک ہے۔۔۔۔ میں کال کر کے خبر لیتا رہوں گا۔۔۔۔۔ ۔۔
وہ افس چلا گیا۔۔۔۔۔ گھر کی حفاظت کا انتظام وہ کل ہی کر چکا تھا ۔۔۔ گھر سے باہر نکلتے ہی تین چار بندے کو سر کے اشارے سے الرٹ رپنے کو کہا۔۔۔۔۔۔وہ چاروں نارمل حلیے میں کوئی چائے پیتا ہوا کوئی سائیکل میں پنچر لگاتا ہوا کوئی بیٹھا آخبار پڑھتا نظر ایا۔۔۔۔
وہ گھر اکیلی تھی اسلیے اسکو بنا بتائے اشعر نے اسکی تحفظ کا انتظام کیا تھا ۔۔۔۔
یہ بھی ایک وجہ تھی کہ وہ رات کو ارشیا کو لے کر مطمئن تھا۔۔۔۔۔
افس پہنچ کر وہ بار بار ارشیا کو کال کر کے پوچھتا رہا ۔۔۔ اس کا پلان تھا کہ سعدیہ کے جانے کے بعد وہ اسے بھی اپنے ساتھ افس لے ائے گا پر وہ جو پہلے ہی پتہ نہیں کی کیا کیا سوچتی رہتی تھی اشعر کے بارے میں اگر اسے اس سچ کا پتہ چلتا وہ کیسے ری ایکٹ کرتی یہ اشعر نہیں جانتا تھا اور فی حال وہ ایسا رسک نہیں لے سکتاتھا۔۔۔۔۔
ایک دن بآسانی سے گزر گیا ۔۔۔ اج وہ شام میں ہی گھر پر تھا۔ ارشیا کافی پرسکون تھی ۔۔۔۔ ارشیا کو پر سکون دیکھ وہ خود بھی پرسکون تھا۔۔۔۔ کھانا کھا نے کے بعد وہ صحن میں ہی بیٹھے تھے ۔۔۔۔ وہ کافی دیر بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔۔۔ باتوں سے بات نکلتی ۔۔۔ بھروسے پر پہنچی تو اشعر نے فورا تم مجھ پے بھروسہ نہیں کرتی ۔۔
ارشیا نے شکل بناتے یہ تم کیسے کہہ سکتے ۔۔
اشعر نے اسمان کی طرف دیکھتے ۔۔ بس پتہ ہے مجھے ۔؟
اگر میں تم پے بھروسہ نہیں کرتی تو پھر شاید کسی پے کر ہی نہیں سکتی ۔۔ اسنے بھی اسمان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ۔۔۔
اشعر اسکا جواب سن کر اسکے تاثرات دیکھتا رہا ۔۔ وہ جب بھی بولتی لاجواب کردیتی اسے ۔۔۔۔
اشعر نے مطلب کل کو تمہیں کوئی میرا قریبی کچھ کہے گا تم مان لو گی اسکی ہر بات کہ وہ سچ کہہ رپا ہے میرے بارے میں ۔۔۔
اشعر کا اشارہ صبیحہ کی طرف تھا۔۔۔۔ وہ بول نہیں سکتا تھا نہ پوچھ سکتا تھا پر جب سے علی نے اسے بتایا تھا اسے سمجھ نہیں ارہا تھا کہ کیسے پتہ کرے ۔۔۔
ارشیا نے اسے دیکھتے ۔۔۔ ہممم سیچوئیشن پے ڈیپنڈ کرتا ۔۔۔ ۔۔۔۔ یا اس شخص پے کہ وہ تمہارے کتنا قریبی ۔۔۔۔ ا چھا مجھے چھوڑو ۔۔۔۔ تمہیں اگر کل کو ایان یا ثمرہ کچھ اکر کہیں میرے بارے میں تو کیا مان لو گے ان کی بات ۔۔۔۔
اشعر نے نہ میں سر ہلاتے بالکل نہیں ۔۔۔۔ کیونکہ میرے لیے وہ سچ نہیں ہو گا جو وہ بولیں گے وہ ہو گا جو تمہاری انکھوں میں نظر ائے گا۔۔۔۔۔ پھر بھی اگر تمہاری انکھوں میں دیکھ کر سجھ نہ ایا تو تم سے پوچھوں گا سوال نہیں کرو ں گا۔۔۔۔ نہ ہی ایسا تاسب دوٹب گا کہ تم خود کو مجرم سمجھو ۔۔۔۔۔
ارشیا اسکا جواب سن کر جہاں حیران ہوئی وہی اسکا جواب اسے لاجواب کر گیا۔۔۔۔۔ ہنستے ہوئے ۔۔۔ وقت انے پر دیکھ لیں گے ۔۔ اشعر ہنستے دیکھ لینا ۔۔۔۔۔
ارشیا اسمان کو دیکھا اور اشعر خاموشی سے اسے دیکھتا رہ۔۔ ارشیا ہنستے ۔۔۔ مجھے تمہاری خاموشی سے بہت ڈر لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔
اشعر نے مسکراتے اچھا پہلی دفعہ کسی نے کہا ہے اسے میری خاموشی سے ڈر لگتا ۔۔۔۔ ارشیا ہنس دی ۔۔۔
ویسے تمہارے علاوہ کسی نے میری خاموشی نوٹس نہیں کی۔۔۔۔۔ ارشیا خاموش ہو گئی ۔۔۔۔۔ اشعر بھی چپ کر گیا۔۔۔ وہ ہمیشہ باتیں کر تے لڑتے لیکن کوئی بھی اخری لڑائی کے متعلق بات نہ کرتا ۔۔۔۔ اشعر کو غصے میں اسے جانے کے لیے نہیں کہنا چاہیے تھا اور ارشیا نے تو ویسے ہی بہت کچھ کہہ دیا تھا اسے ۔
دوسرے دن صبح اشعر بے فکری سے افس چلا گیا ۔۔ اج اسکی کافی اپمورٹنٹ میٹنگ تھی وہ جلد ازجلد یہاں کا کام ختم کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ سب کچھ پھر سے سینیئرز کو سوپ کر وہ واپس جانا چاہتا تھا۔۔۔۔ ارشیا نے گھر کا سارا کام ختم کر کے وہ علی کی طرف جانے والی تھی ۔
وہ گھر سے نکل کر مین روڈ تک ائی لیکن پرس میں سیل دیکھا وہ نہیں تھا اسلیے واپس اگئی ۔۔۔۔ اسنے اشعر کو کال کر کے بتا دیا تھا کہ علی کے گھر جا رہی یے۔۔۔
اشعر میٹنگ میں تھا۔۔۔
وہ واپس ائی تو سعدیہ کے روم سے سیل اٹھایا ۔۔۔۔ اسے کچھ آوازیں سنائی دیں اسنے پردہ ہٹاکر دیکھا تو سیڑھیوں سے چار نقاب پوشوں سیڑھیوں سے اتر رہے تھے ۔۔
ارشیا انکی آواز انکی باتیں بآسانی سن سکتی تھی۔۔۔۔ ارشیا کا ڈر سے سانس حلق میں پھنس گیا ۔۔۔ ڈر سے انکھیں تن گئی ۔۔۔ وہ اب باہر بھی نہیں جا سکتی تھی ۔۔۔ وہ فورا سے بیڈ کے نیچے گھس گئی ۔۔۔۔ اپنی دل کی دھڑکن ان کے قدموں کی آوازیں سب وہ بآسانی سن سکتی تھی اس وقت کو کوس رہی تھی جب وہ فون لینے واپس ائی تھی ۔
ان میں سے ایک بولا کہ کوئی نہیں ہے گھر میں۔۔۔۔۔ میں نے خود لڑکی کو باہر جاتے دیکھا ہے ۔۔۔ وہ چلتے چلتے اگلے کمرے میں چلے گئے ۔
ارشیا کا ڈر سے برا حال تھا۔
ایسے میں اسے سب سے پہلے اشعر اور علی کا خیال ایا ۔۔۔ اسنے اشعر کو کال کی پر اشعر نے فون نہیں اٹھایا ۔۔۔۔ اسنے یہ سوچتے کہ کہیں علی گھر نہ ا جائے اسے لینے اسنے فورا علی کو میسج کیا کہ وہ بازار ائی ہے خود اجائے گی ۔۔۔ وہ اسے لینے نہ ائے ۔۔۔۔۔ اسکے بعد اسنے پولیس کو کال کر بہت ہی دھیمی اواز میں سب بتایا ۔۔
بتانے کے بعد بھی اسے نہیں پتہ تھا کہ کوئی اسکی مدد کے لیے ائے گا بھی یا نہیں ۔۔۔۔
وہ نقاب پوش اپنی کاروائی میں ملوث تھے ۔ سعدیہ کے روم میں کوئی اتا بھی تو دیکھ کر واپس چلا جاتا
۔۔جیسے سبکو یقین ہو کہ وہاں کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔ کب پولیس اتی وہ نہیں جانتی تھی تب تک اسے چھپ کر رہنا تھا۔۔ ڈر سے اس کے ماتھے پر ایا پسینہ انکھوں میں اب چھبنے لگا ۔۔۔۔ وہ جانتی تھی اگر کسی نے اسے دیکھ لیا تو اسکے ساتھ کیا ہو سکتا ۔۔۔۔
اشعر کو بہت دفعہ کال کی اشعر کا سیل اپنے کیبن میں تھا۔۔۔۔ وہ میٹنگ میں بیٹھا سر حیدر کی باتیں سن رہاتھا۔۔۔ پر اسکا دماغ بار بار ارشی کی طرف جاتا ۔۔۔ لیکن ہر بار جھٹکتے کیونکہ میٹنگ میں انے سے پہلے وہ اس سے بات کر کے ایا تھا وہ بالکل ٹھیک تھی ۔۔۔۔۔۔ اسے سرحیدر کی ایک بھی بات سمجھ نہ ائی ۔۔۔ وہ ایکسیوز کرتا باہر نکل گیا۔۔۔۔
اشعر کو کافی دفعہ ٹرائے کر چکی تھی ایک دفعہ اور کال ملاتے اسنے کال بیچ میں ہی کاٹ دی ۔۔۔ اگر آشعر کو بتا بھی دیتی اور وہ اجاتا تو وہ مشکل میں پڑ جاتا وہ نقاب پوش کیا کرتے ۔ وہ اسسے زیادہ نہ سوچ پائی ۔۔۔خود کو بچانے کے لیے وہ ۔اشعر کو مشکل۔میں نہیں ڈال سکتی تھی
آنکھیں بند کیے یا خدا میری مدد کر میرے رشتوں کی میرے شوہر اور بھائی کی حفاظت کر ۔۔۔۔۔ مجھے نکال دے یہاں سے میرے خدا ۔۔۔۔ مجھے خالی ہاتھ نہ لوٹا ۔۔۔۔ میری حفاظت کر میرے مولا ۔۔۔۔۔
ارشیا کو لگا وہ سب چلے گئے کیونکہ اوازیں نہیں تھی وہ جوباہر ںکلنے کا سوچ رہی تھی ۔۔۔۔ لیکن گولیوں کی اواز سنتے ہی بےحس و حرکت بیڈ کے نیچے پڑی رہی اسے لگا گولیاں اسکے سر پر کھڑا کوئی شخص چلا رہا
اسنے اوازوں سے بچنے کے لیے کان پرہاتھ رکھ لیے ۔ خوف سے اسکے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی ۔۔انکھیں بند کیے کانوں پر ہاتھ رکھے وہ اشعر کی کال کو نہیں دیکھ پائی ۔۔۔ اشعر نے کیبن میں اکر سب سے پہلے اپنا سیل دیکھا ارشیا کی کافی کالز تھیں اسلیے فورا اسے کال بیک کی پر اسنے کال نہیں اٹھائی ۔۔ وہ اپنے افس سے نکلا ۔۔۔ نہ چاہتے بھی ایک ڈر نے اسے گھیر لیا ۔۔۔۔۔ وہ مسلسل اسے ساتھ ساتھ کال کر رہا تھا
_______
گولیوں کی آواز تھمی ۔۔۔ اسنے ڈرتے ڈرتے کانوں پر سے ہاتھ اٹھایا ۔۔۔ سیل کی سکرین بلنک ہو رہی تھی اسنے فورا دیکھتے اشعر کو کال بیک کیا ۔۔۔۔
ادھر اشعر جو افس سے تیز تیز قدم اٹھاتے نکل رہاتھا ۔۔ اس کا نام پڑھتے روکا ہانیہ اسکے پاس ائی کوئی فائل لے کر پر اسے ہاتھ سے روکنا کا اشارہ کرتے ۔۔۔
کہاں تھی تم کب سے کا ل کر رہا ہوں ۔۔۔ اور تم ۔۔۔
ارشیا کو اسکی اواز خوشی کی نوید لگی ۔۔۔۔ ڈر سے اسکی اواز جیسے کھو گئی ۔۔۔ ڈر کی کیفیت میں بھی اشعر کے ساتھ ہونے کا احساس وہ بہ مشکل اسکا نام لے پائی ۔
اشعر
اشعر اپنا نام سنتے ۔۔۔۔ تم ٹھیک ہو کیا ہوا ۔۔۔ ارشی ہیلو
ادھر ہانیہ کے کان ارشی کا نام سنتے کھڑے ہو گے ۔
ڈر سے اسے لگا اسکی جان نکل جائے گی ۔
ایک نقاب پوش منہ نیچے کیے اسے غصے سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ ارشیا کو بالوں سے کھنچتے اسنے بیڈ کے نیچے سے باہر نکالا ۔۔۔۔ سالی پولیس کو تم نے فون کیا ۔۔۔ تیری وجہ سے میرے سارے دوست مر گئے ہیں اور توں یہاں چھپی بیٹھی ہے ۔۔ کیا سوچا تھا بچ کر نکل جائے گی میں نہ بچا تو مرے گی توبھی کہتے اسنے ارشیا کو بالوں سے جھنجھوڑا ۔۔۔ ارشیا کا درد سے چیخی نکلی پر اسے بالوں سے مضبوطی سے پکڑتے اسنے اسکے چہرے پر دوسرے ہاتھ سے تھپڑ مارا ۔۔۔ ارشیا منہ کے بل بیڈ پر جا گری ۔۔۔ جس سے ہاتھ میں پکڑا سیل فون کاسپیکر اون ہو گیا ۔۔۔
اشعر جو پریشانی کے علم میں بار بار اس سےپوچھا رہاتھا۔۔۔۔ اسنے اسے دوبارہ بالوں سے پکڑتے اب تو نکالے گی مجھے یہاں سے کہتے ہوئے پھنکار ہ اس کا سر دروازے کے ساتھ دے مارا ۔۔۔ اشعر نے اس شخص کی اواز سنی اس کےسمجھنے تک وہ اسکا سر دروازے سےمارچکا تھا ۔ ارشیا درد سے کراہ گئی ۔ اس لگا اس سے زیادہ کچھ برا نہیں ہو سکتا اسکے ساتھ ۔۔ انکھوں کے اگے جیسے سب گھمنے لگا ۔۔۔
اشعر نے ارشیا کی اواز سنتے غصے سے چیختے اےےے ۔۔۔۔۔۔ میری بیوی کو کچھ ہوا تو تم دیکھنا ۔۔۔جنہم اسان لگی گئی تجھے وہ دھاڑا ۔۔۔۔ اشعر کی اواز موبائل کا سپیکر پھاڑ رہی تھی پر اس نقاب پوش پر کوئی اثر نہ ہوا اسکی دھمکی کا ۔۔۔۔
اشعر نے بھاگتے ۔۔۔میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا ارشی ۔۔۔ بھاگ کر باہر ایا اور گاڑی سٹارٹ کی ۔۔۔۔ سیل ابھی بھی اسکے ہاتھ میں تھا اسنے فون کٹ نہیں کیا تھا ۔ وہ وہاں کی آوازیں سن سکتا تھا
________
وہ نقاب پوش ارشیا کو یرغمال بنائے باہر لایا ۔۔ وہ صرف فرار ہونا چاہتا تھا۔ پولیس نے اسے لڑکی کو چھوڑنے کے لیے کہا پر وہ جانتا تھا کہ لڑکی کے ہوتے اسے کچھ نہیں کیا جائے گا ۔۔۔۔ وہ چلتے چلتے ان کو ساتھ ساتھ دھمکی دہتے کہ وہ اسے کچھ کر دے گا باہر صحن میں نکل ایا۔۔ ارشیا کا سر سے نکلتا خون اسکی قمیض اور دوپٹے پر بہہ رپا تھا۔۔۔
۔۔ ادھر اشعر تیز رفتار گاڑی چلا رہا تھا راستے میں انے والا ہر سگنل اسنے توڑ دیا ۔۔۔۔ ایک دم سے اسکی گاڑی کے سامنے بچہ اگیا ۔۔ اسنے بہمشکل بریک لگائی ۔۔
ادھر موبائل سے اسے گولی چلنے کی اواز ائی ۔۔ گولی کی اواز کے بعد ارشیا کے اسے پکارنے اور گرنے کی اواز کے بعد کال کٹ گئی ۔۔۔۔
اشعر نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ موبائل کو دیکھا آنسوؤں کا ایک ریلا اس کی انکھوں سے نکلا ۔ انجانہ خوف ڈر کھو دینے کا احساس ۔۔۔ وہ گاڑی چلانا چاہتا تھا پر آنسوؤں میں اسے جیسے کچھ نظر نہ ایا۔۔۔ اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔۔۔۔ آنسوؤں کو مشکل سے صاف کرتے اس نے گاڑی سٹارٹ کی ۔۔۔۔ وہ گھر اج کیسے پہنچا تھاوہی جانتا تھا ۔۔۔۔
اسکے گھر کے باہر کافی رش تھا۔۔۔ اشعر کے گاڑی سے نکلتے لوگوں نے اسے دیکھا ۔۔۔ پولیس والے لاشیں لے جا رہے تھے ۔۔۔ وہ اہستہ اہستہ قدم اٹھا کر اندر ایا تو دروازے کے پاس ہی اسے ایک ڈاکو کی لاش دیکھائی دی ۔ بس کچھ بکھرا پڑاتھا گولیوں کےخالی شل ۔ وحشت کا سماں تھا ۔۔۔ صحن کے ایک طرف اسے ارشیا کا دوپٹہ نظر ایا ۔۔ اسنے بھاگ کر وہ دوپٹہ اٹھا لیا ۔ اسمیں ہمت نہ رہی کسی سے پوچھنے کی کہ وہ کہاں ہےکیسی ہے ۔۔دوپٹے پر اسکا خون دیکھتے جیسا اسکا اپنا خون خشک ہو گیا ۔۔۔ قرب سے انکھیں بند کر لی ۔۔۔۔ جیسے اس سب سے نظریں چرا رہاہو ۔۔۔۔ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے۔۔۔ سر میم ٹھیک ہیں ۔۔۔۔ ڈر کی وجہ سے بے پوش ہیں ابھی ۔ کمرے میں ہیں وہ ۔۔ سب کچھ کنٹرول میں ہے ۔۔۔
خوشی اور دکھ کی ملی جلی کیفیت سے اواز کے ساتھ روتے وہ وہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ارشیا کے دوپٹے کو اپنے ہاتھوں میں سمیٹے وہ خدا کا شکر کرتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اسے ایک نئی زندگی بخشی تھی ارشیا کی صورت میں ۔۔۔۔۔اسے اس کی محبت لوٹا دی تھی ۔۔۔ ارشیا اگر دیکھ لیتی تو یقیناً اپنی قسمت پر رشک کرتی
سب کچھ کلیئر کرا دیا تھا ۔۔۔ اسفند نے معاملہ میڈیا تک نہیں جانے دیا تھا۔۔ اشعر وہی بیٹھا رہا ۔۔۔۔ ارشیا کا دوپٹہ لیے ۔۔۔۔ جب اسفند نے اسے اکر کہا۔۔۔ سر لاشیں لے کر جا چکیں ہیں۔ سب کچھ کنٹرول میں ہےسر ۔۔۔۔ گھر کے باہر اور چھت پر بوڈی گارڈز ہیں جو گھر کی حفاظت کریں گے اسکے علاوہ پورے محلے کو پولیس نے اپنی نگرانی میں لیا ہوا ہے ۔۔۔۔
اشعر نے سب سنا لیکن غائب دماغی سے ۔۔۔۔ وہ اسفند کی طرف دیکھتا رہا پر کوئی جواب نہ دے پایا ۔۔۔۔
اسفند بھی آشعر کی حالت سمجھ گیا اسلیے میں چلتا ہوں سر ۔۔۔۔ کیسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بولا لیجیے گا ۔۔۔۔ میں پولیس اسٹیشن کا کام نپٹا لوں ۔۔۔۔ اشعر نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔۔ وہ اشعر کودیکھ ۔۔۔ دوبارہ میں چلتا ہوں کہتا گھر سے نکل گیا۔۔
اشعر نے دوبارا سر گرائے اس دوپٹے کو دیکھا۔۔۔۔ جس پر گرا ارشیا کا خون اب سوکھ چکا تھا۔۔ تھوڑی ہی دور ارشیا کا موبائل ٹوٹا پڑا تھا ۔۔۔ اسنے موبائل دیکھتے ایک بار پھر ارشیا کی اواز ائی جو اخری بار اسنے اشعر کا نام پکارا تھا اسنے تکلیف سے آنکھیں بند کر لی ۔ اسے ایکدفعہ پھر درد سے بھری اواز میں اپنا نام سنائی دیا ۔۔۔ جیسے دور کسی کھائی سے ارہا ہو ۔۔
اسے لگا یہ اواز اسکے کانوں کے اس پاس گونج رہی ہے ۔۔ وہی تکلیف وہی درد ۔۔
وہ ابھی اسی تکلیف سے آنکھیں بند کیے ہوئے تھا ۔۔۔
کہ اسے ایک بار پھر اپنا نام سنائی دیا پر اس دفعہ آواز بہت ہی قریب سے ائی اسنے آنکھیں کھولے موڑ کر دیکھاتو ارشیا پیچھے کھڑی تھی ۔۔۔۔
اسکے سامنے کھڑے ہوتے ۔۔۔ جس کے سر پر پٹی باندھی تھی چہرہ سوجھا ہوا تھا۔۔۔ قمیض پر خون تھا ۔۔۔ لیکن وہ اسے دیکھ درد میں بھی مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔ اسے صحیح سلامت دوبارہ دیکھنے پر خوش ہوئی ۔۔۔
اشعر نے اگے بڑھتے اسے اپنی باہوں میں بیچ لیا۔۔۔۔
ارشیا کو اسکی مضبوط گرفت سے ایسا لگا کہ اسکی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جائیں گی ۔۔۔ پر اشعر نے اسے مضبوطی سے گلے لگائے رکھا تھا۔ ارشیا کو اپنے درد سے زیادہ اسکا رونا تکلیف دے رہا تھا۔۔۔۔ ارشیا کے بھی آنسوؤں نکل ائے اپنے محرم کو صحیح سلامت اپنے سامنے دیکھتے ہوئے یا ایک نئی زندگی ملنے کی خوشی ۔۔۔۔ یا اشعر کے پاس ہونے کی خوشی ۔
__________
ہانیہ اور باقی سب کافی ڈر گئے تھے اشعرکا وہ روپ دیکھ کر جس طرح وہ دھاڑا تھا ۔۔۔ سارے دم سادھے اسے دیکھنے لگے ۔۔۔ اج تک کسی نے اشعر کو اونچی اواز میں نہیں بولتے دیکھا تھا اور اج غصے میں اس کی اواز جیسے پوری افس میں گونج گئی ۔۔۔۔ ہانیہ بھی اسکی دھاڑ سنتے اسے پانچ قدم ڈر کر دور ہو گئی ۔۔
پر اشعر کے جانے کے بعد جب ماحول ٹھیک ہوا تو اسے اشعر کی فون والی بات یاد ائی ۔ خود سے بولتے پہلے اسنے ارشی کہا پھر اسنے کہا میری بیوی ۔۔۔۔ ایک خباثت والی ہنسی اسکے چہرے پر لہرائی ۔۔ ۔مطلب اشعر نے شادی کی ہوئی وہ بھی ارشیاکے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ صبیحہ ہاتھ ملتی رہ گئی ۔۔۔۔۔ ہا ۔۔۔۔ مجھے کچھ کرنا بھی نہیں پڑا ۔۔۔ صبیحہ خود ہی خالی ہاتھ رہ گئی ۔۔
اب دیکھتی ہوں کہ صبیحہ کیا کرتی ۔ بڑا اشعر آشعر کرتی ہے جب اشعر کو پتہ چلاکہ اسنے کیا کہا تھا ارشیا کواسکے بارے میں تو صبیحہ کی تیرتی کشتی وہی ڈو ب جائے گی ۔۔۔سبکچھ اسی نے کیا تھا۔۔۔۔ اشعرجو اسکا حال کرے گا۔۔۔۔ وہ سوچ سوچ کر ہنستی رہی ۔۔۔
ہانیہ سے غداری کا انجام برا ہوتا صبیحہ ۔۔بریکنگ نیوز تو دینی چاہیے ۔۔۔۔ مجھے اسے ۔۔۔۔۔۔ اسکی شکل دیکھنے والی ہوگی کہتے وہ فورا اٹھ کر صبیحہ کے کیبن کی طرف بھاگی ۔۔
پر وہ اپنے کیبن میں نہیں تھی اسے ما یوس واپس لوٹنا پڑا ۔
___________
اسلام وعلیکم امی
وعلیکم اسلام بیٹا ۔۔۔۔ کیسے ہو ارشی کیسی ہے ؟؟
ٹھیک ہوں میں ارشیا کو دیکھتے وہ بھی ٹھیک ہے ۔۔۔ وہ جو سو رہی تھی ۔۔۔۔
سعدیہ نے بیٹے کی اواز سنتے کیا ہوا اشعر ۔۔۔۔ سب ٹھیک ہے نا ۔۔۔
اشعر نے لہجہ بے حد درجے نرم رکھتے نارمل لہجے میں ہنستے جی امی باکل ٹھیک ہے سب ۔۔۔۔ ارشیا کچن میں ہے ۔۔۔ اپ اسکی فکر نہیں کریں میں ہوں اسکے ساتھ ۔۔۔۔ اپنی انکھوں سے نکلتا آنسوؤں صاف کرتے ۔۔۔۔
سعدیہ نے سکون کی اہ بھرتے پتہ ہے تم اسکا خیال رکھ لو گے بس صبح سے اسکی بہت یاد ا رہی ہے ۔۔۔۔ پھر تمہاری پھوپھو لوگ اگے دن بھر ان کے ساتھ رہی ابھی سوچا ایک دفعہ بات کر کے تسلی کر لوں ۔خیال رکھنا اسکا اشعر معصوم بچی ہے ۔۔۔پھر کسی کو سلام کرتے ۔ سحرش کے مہمان اگے ہیں میں پھر تم سے بات کرتی ہوں ۔۔ سعدیہ نے دعا دیتے کال بند کر دی
وہ سیل کی سکرین کو دیکھتا رہا ۔۔کتنا مشکل ہوتا ہے اپنوں سے اپنا دکھ چھپانا ۔ اسنے کہہ دیا وہ خیال رکھ لے گا ارشیا کا پروہ نہیں رکھ پایا تھا ۔۔
ارشیا سوئی ہوئی تھی اشعر اسکے پاس بیٹھے اسے دیکھے جا رہا تھا۔۔۔ کتنی اہم تھی وہ اس کے لیے ۔۔۔۔ اسکی چوٹ اسکا سوجا ہوا منہ اشعر کو اپنی کمزوری کا احساس دلا رپا تھا ۔۔۔۔ وہ خوش تھا وہ پاس ہے اسکے پر ۔ اسے تکلیف میں دیکھ وہ درد کی انتہا کوپہنچ جاتا ۔۔۔
ارشیا کافی ڈری ہوئی تھی ۔۔۔ تھوڑی گہری نیند میں جاتی تو ڈر کر اٹھ جاتی ۔۔۔دوپہر سے اب تک وہ ارشیا کے پاس سے ہلا نہیں تھا ۔
علی اور احد بھی اج وہی تھا۔۔۔لیکن اشعر دوپہر سے ارشیا کے پاس تھا ۔۔۔۔ اسنے ایک سیکنڈ کے لیے اسے اکیلا نہیں چھوڑا تھا
ارشیا ایک بات پھر ڈر کر آشعر کہتے اٹھی ۔۔۔ اشعر پاس ہی بیٹھا تھا ۔۔ اسے گلے لگاتے کچھ نہیں ہوا میں یہی ہوں سب ٹھیک ہے اسے دلاسا دیتا رہا ۔۔۔ ہر بار اسکا ڈر دیکھ اشعر کے آنسوؤں نکل اتے ۔۔۔۔ وہ بہادر تھی یا بے وقوف اسے سمجھنا مشکل تھا۔ جو اپنوں کو ان نقاب پوشوں سے بچانے کے لیے اسنے علی سے جھوٹ بولا تھا یا اشعر کو نہیں بتایا تھا۔۔۔ رات سب کے لیے بہت مشکل تھی ۔۔۔ کوئی نہ سو پایا ۔۔۔
جو ہونا تھا ہو گیا تھا ویسے ہی ہونا لکھاتھا پر سب اپنی اپنی جگہ شرمندہ تھے ۔
___________
صبح اسکی انکھ کھولی تو اشعر ابھی تک وہی بیٹھا تھا۔۔۔۔ اٹھتے ۔۔۔۔ اشعر نے اسکو اٹھتے دیکھ اسکی مدد کی ۔۔
وہ مسکرا دی ۔۔۔ سوجھے ہوئے چہرے کے ساتھ اسکی مسکراہٹ اشعر کے دل پر لگی ۔۔۔ تکلیف سے اسنے اسکے چہرے سے نظر ہٹا لی ۔۔۔۔
وہ اسکی مدد سے واشروم گئی ہاتھ منہ دھویا اپنا منہ پر ہاتھ مارتے وہ لمحہ اسکی انکھوں کے اگے سے گزرا ۔ اسنے آنکھیں بند کر لی ۔۔۔۔ اشعر نے اسکا ہاتھ پکڑتے چلیں ۔۔۔۔ کہا ۔۔۔ ارشیا نے سر کو ہاں میں ہلاتے باہر اگئی
ناشتہ علی نے بنایا تھا ۔۔۔۔ احد سکول جا چکا تھا۔۔۔ علی اج اسےزبردستی چھوڑ کر ایا تھا وہ نہیں چاہتاتھا کہ وہ باربار پوچھ کر ارشیا کو پریشان کرے ۔۔۔۔۔ ناشتے کی ٹیبل پے خاموشی سے
ناشتہ کر کے وہ ارشیا کو لے کر کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔ ارشیا چاہتی تھی کہ سب اسکی وجہ سے اپنا کام نہ چھوڑے پر کسی نے اسکی نہ سنی ۔۔۔ خود ہی کام باٹتے رہے ا رشیا کو بھی پورا ٹائم دیتے رہے ۔۔۔۔ ہر ٹائم۔کوئی نہ کوئی اسکے پاس ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔ اشعر کے گھر کے اس پاس بوڈی گارڈز ہر ٹائم چوکنا تھے۔۔۔ پہلے کی غفلت میں ابھی تک آشعر نے ان سے کوئی سوال۔نہیں کیا تھا ان کے ہوتے ڈاکوؤں کا انا ان کی ڈیوٹی میں لاپرواہی کا ثابوت تھا ۔۔۔ اشعر ہر چیز سے بیگانہ اسے فئ حال صرف ارشیا کی فکر تھی ۔۔۔
اس کے ماتھے کی چوٹ ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئی تھی پر سوجن اب نہ ہونے کے برابر تھی ۔۔۔۔۔ اشعر اسکے ساتھ ہوتا بنا مطلب کے بولتا ۔ اسے سب کچھ بتاتا ۔۔۔ پر جب اکیلا ہوتا تو ایسا لگتا سب خاموش ہیں سب اس پر ہنس رہے ۔۔۔۔ اپنے اندر کا گلٹ اسے سکون نہ لینے دیتا ۔۔
ارشیا کمرے میں ائی ۔۔۔۔ تو اشعر خاموش بیٹھے دیوار کو گھور رہا تھا ۔۔۔۔۔
ارشیا نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے کیا سوچ رپے ہو ۔
اشعر اپنی سوچوں سے نکل۔کر ارشیا کو سامنے دیکھ کچھ نہیں بس ایسے ہی ۔۔۔۔ اسنے آنکھیں چرائی ۔۔۔
ارشیا اسکے سامنے بیٹھتے ۔۔۔۔۔ میں نے تمہیں نہیں بتایا ۔۔۔۔کیونکہ میں تم پر بھروسہ نہیں کرتی ۔۔۔۔۔ اشعر نے اسکی بات سے انکار کرنا چاہا ۔۔۔۔۔۔
ارشیا نے اسکا ہاتھ پکڑتے ۔۔۔۔ بھروسہ ۔۔۔۔ محبت ۔بھروسہ کے بنا نامکمل ہے ۔۔ کبھی تم پر بھروسہ نہیں کرتی ہوں اسلیے نہیں کہ تم پر بھروسہ نہیں مجھے اسلیے کہ مجھے اپنی قسمت پر بھروسہ نہیں تھا ۔۔۔ قسمت نے بہت دھوکے دیے ہیں ۔۔۔ پر سب دھکوں اور دکھوں کے بدلے تمہیں دیا ہے مجھے۔۔۔اور بھروسہ دلایا نہیں جاتا ہو جاتا ہے ۔ ۔۔۔ اس کے چہرے کو چھوتے میں تم پر تب بھی بھروسہ کرتی تھی جب مجھے پتہ بھی نہیں تھا میں تمہیں پسند کرتی ہوں ۔۔۔ اس دن جب وہ لڑکے ہمارے پیچھے تھے اپنے خدا کے بعد مجھے تم پر پورا یقین تھا کہ تم ہمیں کچھ نہیں ہونے دو گے ۔۔۔ تمہاری موجوگی ہمیشہ مجھے تحفظ دیتی ہے
نایاب ہوتے ہیں وہ مرد جن کے ہونے سے آپکو تحفظ کا احساس ملے___!!!❤ اور وہی مرد جب اپکا محرم ہو تو انسان کی خوش قسمتی کی انتہا ہوتی ۔۔
میرے لیے بھی تم بہت قیمتی بہت نایاب ہو ۔۔۔۔۔۔میرے محرم ہو تم ۔۔۔۔ یہ احساس ہی مجھے اسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا کہ تم ساتھ ہو میرے ۔۔۔۔ کبھی اکیلا نہیں چھوڑوں گے ۔۔۔۔ میں جانتی ہوں میں نے بہت بے وقوفیاں کی ہیں پر یہ حق بھی تم۔نے دیا مجھے کہ کچھ بھی کہوں کچھ بھی کروں تم سنبھال لو گے ۔۔۔ ہاں نا ۔۔۔ اسنے اپنی نم انکھوں میں اپنا یقین بھرتے اشعر کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیتے اعتمادی سے کہا ۔۔۔۔
اشعر نے اسکے ہاتھ پکڑتے اسکا یقین دیکھ اسے اپنا اپ پھر سے شرمندگی کی کھائی میں گرتا محسوس ہوا
پر میں نہیں کر پایا تمہاری حفاظت ۔۔۔۔ بیھگے لہجے میں اخر وہ بولا ۔۔۔ ارشیا کی انکھوں میں دیکھا ارشیا انکھیں اس کی بات سنتے حیرانی میں پھیلی ۔۔۔
میں خود پر شرمندہ ہوں ۔۔۔ بھیگے لہجے میں وہ پھر سے بولا۔۔۔۔
کوئی نہیں جان سکتا میں کس قرب سے گزر کر ایا ہوں ۔ وہ پانچ منٹ کا راستہ میرے لیے پل صراط سا تھا۔۔۔۔ بہتے آنسوؤں میں وہ بولا ۔۔۔۔۔ تمہیں کچھ ہو نہ جائے یہی سوچ ہی مجھے موت کی سی لگ رہی تھی
ارشیا کو تھکے لہجے میں دیکھتے ۔۔ تم محبت ہو میری پہلی بھی اور اخری بھی اشعر نے تمہیں چاہا ہے صرف تمہیں ۔۔۔ تمہارے ساتھ کی ہی خواہش کی ہے میں نے۔۔۔۔۔ تمہیں تکلیف میں دیکھ کر مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔ یہ چوٹ تمہیں لگی ہے پر درد مجھے بھی ہو رہا ۔ بہت کمزور لگ رہا مجھے اپ اپنا اپ ۔۔۔ میں حفاظت نہیں کر پایا تمہاری ۔۔۔۔۔ آنسوؤں صاف کرتے ۔۔۔۔ ایک دن میں رویا تھا کہ میرے پاس حق نہیں تم پے حق جتانے کا ۔ میں محرم نہیں ہوں تمہارا ۔۔۔ اج جب حق تھا میں تب بھی حفاظت نہیں کر پایا ۔۔۔۔۔ اس نے اسکی چوٹ کو اپنے ہاتھ سے چھوا ۔۔۔۔
ارشیا نے آنسوؤں میں مسکراتے اشعر کو دیکھا ۔۔ اس کے لفظوں نے اسے کس قدر سکون پہچایا تھا وہ حد اشعر شاید ہی ماپ پاتا ۔۔۔۔ عزت احساس محبت سبھی تو کرتا تھا اشعر اس سے ۔۔۔ اور اسے کیا چاہیے تھا ۔ اسکا محرم کو اس سے محبت ہے ۔ یک طرفہ محبت نہیں تھی اسکی ۔۔۔۔ آنسوؤں میں مسکراتی وہ اشعر کو دیکھتی رہی تھی ۔۔۔۔ کسی کو غم کے بعد اگر اتنی خوشی ملے تو شاید انسان ہر غم ہنستے ہنستے قبول کرے ۔۔۔۔
اشعر کو مسکراتے دیکھ اسکا دل کیا اج وہ سب کو چیخ کر بتائے اسکی محبت یک طرفہ نہیں اسکے رب نے اسکی سن لی ہے ۔۔۔ اسکے شوہر کے دل میں صرف اسی کے لیے محبت ہے ۔۔ ۔۔۔ اسکی دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔۔۔۔ اشعر کے ساتھ کی دعا اسکے دل میں اسکی محبت پیدا کر دینے کی دعا ۔۔ خوشی اسکے چہرے سے جھلکی ۔۔۔۔ آنسوؤں کے ساتھ بہی ۔۔۔۔ پر اشعر کے آنسوؤں صاف کرتے تمہاری محبت میرے لیے سکون ہے ایسے شرمندہ ہو کر میری محبت کو شرمندہ نہ کرو ۔۔۔
تمہارے بس میں ہوتا تو تم مجھے ایک خراش نہ پہنچنے دیتے پر یہ سب لکھا تھا ۔۔۔ اگر یہ سب نہ ہوتا اسکے چہرے پر نظریں جماتے تو کبھی بتاتے کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو ۔۔۔۔ میں پوری زندگی سوچتی رہتی میری محبت یک طرفہ ساتھ ہی خود پر ہنسی ۔۔۔۔
اشعر اسکی بات سنتے پاگل ہو تم۔ کچھ بھی سوچتی رہتی ہو ۔۔۔ ارشیا نے اسے دیکھتے۔۔۔۔۔ پاگل تو ہوں پر تم سے کم ۔۔۔۔ اشعر نے اسکا جواب سنتے اسے اپنی باہوں میں لیتے پاگل تو ہوں پر تمہاری محبت میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکے سر پر بوسہ دیا ۔ ایک براوقت ایا تھا گزر گیا۔۔۔۔ پر تمہیں اور مجھے جوڑ گیا۔۔۔۔۔ ارشی نے ہنستے اسکے سینے سے لگے ہاں میں سر ہلایا جیسے اسکی بات سے اتفاق کررہی ہو۔
روہتاس کے سرکٹے بزرگ حضرت سخی خواص شاہ آف خواص پور
برِّ صغیر، جی ہاں ہمارے والے برِّصغیر میں سن سینتالیس میں کھنچی سرحد کے اِس پار یعنی ہماری طرف کچھ...