اشعر بات سنو ۔۔۔ارشیا نے کچن سے نکلتے ہوئے اسے اواز دی وہ جو سیڑھیاں اتر رہا تھا لیکن اسکا دھیان ارشیا کی طرف نہیں اپنے موبائل کی طرف تھا۔ اسنے ارشیا کی اواز ہی نہ سنی
وہ پاس سے گزر گیا ۔ ارشیا نے اسے پاس سے گزرتے ۔ کوئی قدر نہیں میری۔ بولتے رہے بندہ پر ادھر کوئی سنتا ہی نہیں ۔۔۔ اشعر نے پھر بھی نہ سنا ۔۔ جب ا شعر نے پھر کوئی جواب نہ دیا تو ارشیا غصے سے اشعر چیخی
اشعر نے موڑ کر اسے دیکھتے وہ جو دروازے میں کھڑے اسے گھور رہی تھی ۔۔۔۔۔ کیا ہوا ؟؟؟ اتنا کیوں چیخ رہی ہوں بہرہ نہیں ہوں میں ۔۔۔۔
ارشیا کو اس کا جواب مزید غصہ دلا گیا ۔ ۔۔۔وہ بنا کچھ کہے پاؤں پکٹتے واپس کچن میں چلی گئی ۔۔۔
اشعر سمجھ گیا کہ اج پھر سے مرچی پکی ۔۔۔۔۔ لیکن پھر خود ہی ہنستے اگے باہر نکل گیا۔ اب اسے ارشی کی اسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراضگی دیکھنا اچھا لگتا ۔۔۔ اور پھر سزا کے طور پر مرچی کھانا زیادہ پسند
ارشیا چائے بنا کر اپنی اور سعدیہ کی لے کر باہر صحن میں اگئی جہاں سعدیہ بیٹھی تھی ۔۔۔۔
وہ مزے سے باتیں کرتے چائے پیتی رہی ۔۔۔۔ اشعر جو فون پر بات ختم کر کے ایا تو میری چائے ؟؟؟ ارشیا کو سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔۔۔
ارشیا نے جیسے سنا ہی نہیں ٹوٹل اشعر کو اگنور کرتے وہ سعدیہ کو دیکھتی رہی ۔۔۔ سعدیہ بھی ایک دفعہ اشعر کو دیکھتی پھر ارشیا کو ۔۔۔۔
جب ارشیا نے اشعر کو کوئی رسپونس نہ دیا ۔ تو سعدیہ نے ارشیا کو بولایا ۔۔۔
ارشیا نے فورا جی امی ۔۔۔۔۔
بیٹا اشعر چائے مانگ رہا ۔۔۔۔
ارشیا نے اشعر کو بنا دیکھے ۔۔۔ بلا کی مظلومیت لاتے ۔۔۔۔ ان سے پوچھا تھا میں نے جب یہ سیڑھیاں اتر رپے تھے ۔۔۔۔ پر انہیں نے مجھے جواب ہی نہیں دیا ۔ یہ ہمیشہ ایسا کرتے ہیں میں بولاتی رہوں سنتے نہیں اور خود انہیں میں کام کے ٹائم ہی یاد اتی ہوں۔۔ اس نے پوری بات میں پہلی دفعہ اشعر کو گھور کر دیکھا جیسے سچ بولنے کی تصدیق چاہ رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ سعدیہ کو دیکھتے ۔۔۔۔۔ ۔ امی میں چائے بنا کر لاتی ہوں ورنہ بعد میں یہ مجھے سناتے ۔ کہتے کہ میں اپکو شکایتیں لگاتی ہوں ان کی۔ جب سے میں ائی ہوں تب سے اپ انکوزیادہ ڈانٹتی ہیں ان سے سوتیلوں والا سلوک کرتی ہیں ۔۔۔ میں نے اور اپ نےپارٹی بنائی ہوئی انکے خلاف
یہ سب ارشی نے اہنے پاس سے کہا لیکن اتنے دکھی انداز میں ۔۔۔۔۔۔ کہ اشعر کا منہ کھول گیا ۔۔ جیسے اسی نے یہ سب کہا ہو۔۔۔۔ارشیا کو حیرانی سے دیکھتے ۔۔۔۔
ارشیا اپنی جگہ سے اٹھتے میں اپکے لیے چائے لاتی ہوں ۔۔۔ اشعر کو مسکرا کر دیکھتے ۔ کہتے کچن کی طرف چلی گئی ۔۔۔
اشعر نے اسے جاتا دیکھا۔ پھر سعدیہ کو اب اشعر کی کلاس پکی تھی ۔۔۔
سعدیہ نے اشعر کی طرف اپنی توپوں کا رخ موڑتے ۔۔۔۔ بیٹھو تم ادھر ۔
تم ایسا کہتے ہو اسے ۔ وہ کبھی شکایت نہیں لگاتی میں خود نہیں دیکھتی کیا کرتے ہو تم ۔ شادی کے بعد کیا کیا تم نے اگلے دن ہی منہ اٹھا کر اسلامآباد چلے گئے ایسی بھی کیا مجبوری کے نئی نویلی دلہن کے ساتھ ایسا کرے ۔ پر ایک دفعہ جو اس نے شکایت کی ہو ۔۔ اتنا خیال رکھتی ہے تمہارا ۔۔۔ تم جیسی ڈھونڈتی میں تب تمہیں پتہ چلتا اچھی لڑکی مل گئی ہے تمہیں قدر ہی نہیں ۔۔۔۔۔ اشعر سنتے سنتے بیٹھ گیا کیونکہ سعدیہ کے بس کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا
سعدیہ نے اسے کچھ نہ بولتے دیکھ ۔۔۔۔ کیوں نہیں لائے تھے تم اسے دن ہسپتال ؟؟؟
اشعر نے نظر اٹھا کر ماں کو دیکھا ۔۔۔ وہ امی ۔۔۔۔۔ وہ ہچکچایا کہ کیا جھوٹ بولے ۔۔۔۔
رہنے دو تم ۔۔۔۔۔ مجھے ہتہ ہے تم ہی نہیں لائے ہو گئے جانتی ہوں میں تمہیں ۔۔۔ ارشیا کی آنکھیں بتا رہی تھی کہ وہ پیچھے سے روتی رہی ہے ۔۔ پر میں نے پوچھا تو پتہ اسنے کیا کہا ۔۔۔۔کہ اسے ہسپتال سے الرجی یے ۔۔۔ تمہیں بچانے کے لیے اسنے جھوٹ بولا ۔۔۔۔۔ ۔ جب کہ میں تو پہلی دفعہ ملی ہی اسے ہسپتال میں تھی ۔۔۔
تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ تم اسے کتنا دکھ دیتے ہو وہ کچھ کہتی نہیں تمہیں اور تم ۔ اسکی اچھائی کو اسکی کمزوری سمجھ رہے ۔۔۔ بتا رہی ہوں اشعر ایسا رہا نا تو ارشیا کو لے کر میں چلی جاؤں گی یہاں سے رہنا تم پھر اکیلے کرتے رہنا دن بھر کام ۔۔۔۔۔ سعدیہ نے بات ختم کرتے منہ دوسری طرف کر لیا ۔۔۔ جیسے روٹھ گئی ہو ۔
اشعر اٹھ کر سعدیہ کے قدموں میں بیٹھتے ارشیا نے اس کے ساتھ مذاق کیا تھا پر وہ ماں کی ناراضگی کیسے مول۔لیتا ۔۔۔۔۔ امی آئندہ نہیں کروں گا ایسا ۔۔۔ وعدہ کرتا ہوں ۔۔۔۔ میرے لیے اپ اورارشیا دونوں ہی بہت اہم ہیں ۔۔۔ میں جو کچھ کر چکا ہوں اسکا مداوا تو نہیں کر سکتا لیکن اگے سے میں خیال رکھوں گا کہ ایسا کچھ نہ کروں جو اپکو اور ارشیا کو تکلیف دے ۔۔۔۔۔ اپ دونوں ہی میری زندگی کے لیے اہم ہیں ۔۔۔۔ اپ کے بنا میں یہاں اکیلا میں کیا کروں گا ۔۔۔۔ ساتھ ہی ماں کو مسکراتے دیکھا ۔۔۔۔
سعدیہ جانتی تھی اپنے بیٹے کو سمجھتی تھی کہ کب وہ سچ کہہ رہا اور کب صرف ٹال رہا ۔۔۔ اشعر کے سر پے ہاتھ رکھتے ۔ میں جانتی ہوں میرا بیٹا بہت اچھا ہے پر ارشیا بھی میری بیٹی ہے اور بیٹیوں کا دکھ
زیادہ لگتا اشعر ۔۔۔۔ تم جب ایک بیٹی کے باپ بنو گے تب پوچھوں گی میں تم سے ۔۔۔۔ بہت نازک ہوتی ہیں بیٹیاں ۔۔اسکے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔
اشعر نے ماں کو دیکھتا رہا ۔۔۔ ۔۔۔۔ وہ اپنی ماں کی ارشیا کے لیے اتنی محبت دیکھ بہت خوش تھا ارشیا جتنی محبت اور اپنائیت رکھتی تھی سعدیہ کے لیے سعدیہ بھی اتنی ہی محبت کرتی تھی وہ روائتی ساس بالکل نہیں تھی نہ ارشیا روائتی بہو ۔۔۔۔۔ سعدیہ بیٹے کو دیکھتا پاکر اب ہٹو میری نماز کا ٹائم ہونے والا ہے تم جاؤ جا کر چائے پی لو ارشیا نے بنا دی ہو گئی ۔۔۔ کھڑے ہو کر اور اب اسکو جا کر کچھ مت کہنا اسے پھر سے تنبیہہ کیا ۔۔۔ اشعر نے ماں کو ہنستے گلے لگاتے نہیں کرتا امی۔۔۔۔ اپ فکر نہیں کریں ۔۔۔۔ ویسے وہ بھی کم نہیں ہے ۔۔۔۔
سعدیہ نے اسے تھپڑ مارتے اشعر ۔۔۔۔
اچھا اچھا امی ۔۔۔۔ ماریں تو نہیں نا ۔۔۔ کچھ نہیں کہتا اپکی لاڈلی کو میں ۔۔۔۔۔
سعدیہ ہنس کر اسے تم بہت ہی شرارتی ہو ۔۔۔۔۔ اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔۔۔
اشعر ہنستے ہوئے کچن کی طرف ایا ۔۔۔۔ لیکن اندر جاتے اسنے دکھی سی شکل بنائی ۔ وہ چپ چاپ جا کر بیٹھ گیا ۔۔۔
ارشیا نے اسکی شکل دیکھی تو وہ دل میں سوچتے کچھ زیادہ ہی ڈانٹ پڑ گئی لگتا ۔۔۔ لیکن اپنی ہنسی کنٹرول کرتے وہ اشعر کے پاس گئی ۔ اپکو چائے ڈال دوں ۔۔ اسنے اپ کو پر کافی زور دیا۔۔۔۔۔
اشعر نے فورا ہاں اتنی غزت افزائی کے بعد اسے ہضم کرنے کے لیے چائے تو پینی پڑے گی ۔۔۔ ساتھ ہی دکھی شکل بنائی ۔۔۔۔ ارشیا نے ایسا کہنے پر اسکی شکل دیکھتے ہنسی ۔۔
اشعر نے اسے گھورا جیسے اسکی دکھی شکل کا اس پر کوئی اثر نہ ہو رہا ہو ۔۔۔۔ باجود اس کے وہ اس پر ہنس رہی ہے
ارشیا واپس شیلف کی طرف جاتے بس کرو ڈرامہ کرنا ۔
امی کی ڈانٹ بری لگتی تو ایسی شکل نہ ہوتی تمہاری ۔۔۔۔
اشعر فورا سے شکل کو سنجیدہ کرتے نہیں ڈانٹ تو پڑی ہے مجھے ۔۔۔۔ جا کر پوچھ لو ۔
ارشیا نے واپس موڑ کر دیکھتے ۔۔۔۔ تم چائے پیو یہ دکھی شکل کسی اور کو دیکھانا ۔ جو یقین کر لے ۔۔
اشعر نے نارمل ہوتے یہ کیا پہنتی رہتی ہو تم ۔ اشارہ اسکے کپڑوں کی طرف کیا۔
اشعر نے فورا بات بدلی ۔ کیونکہ وہ اسکے مصنوعی دکھی پن کو پہنچان گئی تھی وہ شرمندہ نہیں ہونا چاہتا تھا۔۔۔۔
ارشیا اپنے کپڑوں کو دیکھتے کپڑے ہیں ۔ لائٹ بلیو کلر ہے ۔
اشعر ٹیبل پر سیل رکھتے تمہاری چوائس کتنی خراب ہے ۔۔۔ تمہیں کوئی ڈھنگ کا کلر بھی پسند ہے !؟
ارشیا فورا سے مڑتے مجھے تو تم بھی پسند ہو ۔ بے وجہ میرے کپڑوں کے کلر کے پیچھے مت پڑو ساتھ اسے گھورا جو بنا بات کے اسکے کپڑوں کو ٹارگٹ کر بیٹھا تھا۔۔۔
اسکا جواب سنے بنا وہ کپ میں چائے ڈالنے لگی اشعر مسکرایا ۔ کیونکہ جواب دینے کے چکر میں وہ کیا بول گئی تھی وہ خود بھی شاید نہیں جانتی تھی ۔۔۔ وہ ہمیشہ اس کا دھیان دوسری طرف بٹانے میں کامیاب ہو جاتا ۔۔۔۔
۔۔۔ تم ڈارک کلر نہیں پہنتی ہو ؟؟؟ اپنی ہنسی کو چھپاتے ۔۔۔۔
ارشیا اسکے سامنے چائے رکھتے ۔ نہیں ۔۔۔۔ تم چپ کر کے چائے پیو ۔۔۔۔
اشعر اسے بزل کرنے کے لیے۔۔۔۔۔ یہ “آپ “سے پھر میں ” تم “ہو گیا ۔ ؟؟؟ ابھی باہر تم مجھے اپ کہہ رہی تھی اور اب پھر تم ۔۔۔
ارشیا نے فورا دوستی میں میں تمہیں اپ کہتی اچھی لگتی ۔۔۔۔۔۔۔ اسنے ایک دلیل پیش کی ۔۔۔
اشعر نے اسکے سامنے کھڑے ہوتے دوست ۔ کوئی دوست کے ساتھ ایسا کرتاہے ۔ ایک دفعہ تمہاری بات نہیں سنی تو سیدھا امی کو بتا دیا۔۔ اتنی ڈانٹ پڑوا دی مجھے ۔۔۔
ارشیا اسکے گھورنے پے ۔ نہیں وہ تو میں اپنے شوہر کی شکایت لگائی تمہاری تھوڑی ۔۔ تم تو اچھے دوست ہو میرے اٹکتے اٹکتے بولی ۔۔۔ پھر خاموش ہو گئی ۔
اشعر اسکی حالت سے محظوظ ہوتے شوہر کی شکایت لگائی بات پر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا
وہ ہمیشہ بنا سوچے بولتی لیکن وہی بولتی جس کو وہ مانتی یا جو اسکے دل میں ہوتا ۔۔۔۔
وہ کچھ کہتی اسکے دیکھنے پر فورا مجھے ایسے مت دیکھو نظر لگاوں گی مجھے ۔۔۔۔۔ تم پوری کی پوری چڑیل ہو ۔۔۔۔ کہتے ہی کرسی پر پھر سے بیٹھ گیا ۔۔
ارشیا نے سکھ کا سانس لیا وہ ہمیشہ اسکے گھورنے سے گڑبڑا جاتی ۔ بھول جاتی کہ بات کیا ہو رہی تھی یا بات کیا کرنی تمہیں بڑا پتہ چڑیلوں کا ۔۔ اسکی بات کا برا مانے بنا الٹا اس سے سوال کر لیا ۔۔
اشعر نے بھی موقعہ دیکھتے ہاں ایک چڑیل سے پہلے افس میں پلا پڑا تھا اب تو دن رات اسی کے ساتھ رہتا ہوں ۔۔۔ اسنے بھی فورا بدلہ اتارا ۔۔۔۔
ارشیا پلٹتے جی نہیں مجھے کیوں گھسیٹ رہے ہو ۔ سیدھا سیدھا صبیحہ کا نام لو میں تو ابھی ائی ہوں اس لائن میں ۔۔۔۔
اشعر نے ارام سے چائے کا سیپ لیا جیسے سنا ہی نہیں ۔۔۔ ارشیا نے کیا کہا ۔۔۔
ارشیا اسکے پاس بیٹھتے تمہیں پتہ ہم تمہارے ڈپارٹمنٹ کو بھوت بنگلہ کہتے تھے سر حیدر دیو تم بھوت راجہ اور صبیحہ چڑیل رانی فیصل عدنان اشرف وہ سب اگے چھوٹے موٹے بھوت ۔۔۔ ساتھ ہی اسکو دیکھتے۔۔ تم بھوت سے کم نہیں تھے تب ۔۔۔ اشعر ۔۔۔۔۔کہتے وہ ہنسی۔۔۔۔
اشعر اسکو ایسے پاگلوں کی طرح ہنستے دیکھتا رہا ۔۔ کتنی خوبصورت لگ رہی تھی وہ اسے ہنستے ہوئے ۔ اسکی ہنسی اسکی معصومیت بس وہ ہنستی رہے اور وہ دیکھتا رہے اسے ۔۔۔۔۔
ارشیا نے اشعر کو اسے دیکھتا پاکر جو بہت ہی سنجیدہ تھا۔ اسکی ہنسی کم ہو گئی ۔۔۔۔ وہ اسکے ایسا دیکھنے پر اسے کچھ کہتی ۔۔۔۔۔ اشعر نے فورا سے لگتا اج کھانا باہر سے کھانا پڑے گا ۔۔۔
ارشیا نے حیرانی سے نہیں میں بنا جو رہی ہوں ۔۔۔
اشعر نے گھڑی اسکی طرف کرتے سات تو بج گئے ۔۔۔
ارشیا اسکی گھڑی دیکھتے اتنا لیٹ ہو گیا تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں ۔۔۔
اشعر چائے ختم کرتے تم بولتے وقت سنتی ہو کسی کی ۔۔۔ بتاوں میں باہر سے لے اتا ہوں کھانا ۔۔۔
کیوں باہر سے لاوں گے میں بنا لوں گی یہ ارشیا دی گیرٹ کی سروس ہے ساتھ ہی اپنا ہاتھ فخریہ اندا میں ہوا میں لہرایا ۔۔۔۔۔ تمہیں ڈنر ٹائم پے مل جائے گا۔ فکر نہیں کرو ۔۔۔۔
اشعر فورا سے اٹھ کراسکے سر پر ہاتھ رکھتے تو ارشیا دی گیڑٹ اکیلے اپنی مہارت کے جوہر دیکھائیں میں جا رہا ہوں امی کے پاس ۔۔۔ کہتے باہر کو جانے لگا ۔۔۔ ارشیا نے اواز دیتے اشعر فورا موڑا جی میڈم ہیلپ چاہیے ۔۔۔
ارشیا نے مسکراتے نہیں میں سب خود کر لوں گی
پھر ۔۔۔۔ اشعر نے جیسے بولانے کی وجہ پوچھی ۔۔۔
سوری ۔۔۔۔۔
کس لیے ؟؟؟؟؟
بس ایسے ہی ۔۔۔۔ ارشیا نے مسکراتے کہا ۔۔
اشعر نے واپس اکر سنجیدگی سے ہاتھ سینے پر باندھے سوری کی وجہ نہیں تو مت بولو ۔۔۔ تمہیں لگتا تمہاری غلطی نہیں تو تمہاری غلطی نہیں ہو گی۔ ارشیا مسکرائی وہ باہر کی طرف موڑ گیا ۔۔۔
اشعر کو دیکھتے وہ جاتے جاتے کتنا اسکا مان قائم رکھ گیا تھا ۔۔۔۔ اسکی ہر بات کا برا نہ مانتا ۔۔۔ ورنہ جو اج اسنے کیا تھا اگر کوئی اور ہوتا تو شاید بات ہی نہ کرتا پر اشعر بالکل ناراض نہیں تھا ۔۔
اشعر باہر نکلتے بنا موڑے ارشیا کو دیکھتا پا کر مجھے بعد میں دیکھ لینا ادھر ہی ہوں میں مسکرا کر باہر نکل گیا ۔۔۔
ارشیا بھی اپنی چوری پکڑنے پر شرمندہ ہونے کی جگہ صرف ہنس دی ۔۔
__________
طلال کی فیملی ربیعہ کے گھر ائی عرفان کے ساتھ ۔ وہ کافی اچھی فیملی کا اک لوتا بیٹا تھا۔ عرفان لوگوں سے کافی امیر فیملی تھی ۔ انہوں نے ربیعہ کا رشتہ مانگا ۔ کسی کو کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ سبھی طلال کو جانتے تھے ۔ وہ اکثر اتا تھا عرفان کے ساتھ انکے گھر ۔ ۔ وہ ایان کو بھی جانتا تھا طلال کے تھرو ہی ان کی جان پہچان ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
دومہینے بعد شادی ہونا طہ پایا ۔ ربیعہ بہت خوش تھی وہ طلال کو بہت پسند کرتی تھی وہ بہت ہی دھیمے لہجے میں بات کرتا اسنے کبھی اسے اونچی اواز میں نہیں بولتے دیکھا تھا۔۔۔۔ اس کی ماں کو بھی ربیعہ اپنے بیٹے کے لیے پسند ائی ۔۔۔۔۔
سب کچھ طہ کرتے وہ شام کو ہی نکل گئے ۔۔۔ ربیعہ بہت خوش تھی اپنی خوشی میں وہ یہ بھی بھول گئی کہ اسنے عرفان سے پوچھنا تھا کہ اسنے وہ سب کیوں کیا تھا ارشیا کے ساتھ ۔
ربیعہ کو بھی کچھ پتہ نہ تھا وہ تو ایان نے ان کے گھر اکر کافی ہنگامہ کیا تھا جس میں اسے یہ سمجھ نہ ایا کہ ارشیا اور عرفان کا معاملہ ۔۔۔۔
عرفان کی بہن کی شادی اسکے بیسٹ فرینڈ طلال سے ہو رہی تھی جو ہر لحاظ سے اس قابل تھا کہ اسے ربیعہ کے لیے چنا جاتا۔۔۔ وہ بہت خوش اور مطمئن تھا۔ طلال کو میٹرک سے جانتا تھا ۔ وہ اس کا سچا دوست تھا لیکن یہ پتہ چلنے کے بعد کہ ربیعہ اسے پسند کرتی اسکی قدر طلال کے لیے مزید بڑھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ربیعہ کی خوشی اسکے لیے سب سے زیادہ معنی رکھتی تھی ۔۔۔۔۔ ا ۔ اپنی خوشی میں وہ یہ بھول گیا کہ وہ یہ خوشیاں کسی کو آنسوؤں دے کر اپنی بہن کے لیے خرید کر لایا ہے ۔۔
__________
صبح ساڑھے اٹھ بج رہے تھے پر اشعر ابھی تک نہ اٹھا اسنے اشعر کا ماتھ اپنے ہاتھ سے چھوا یہ دیکھنے کے لیے کہ کہیں اسے بخار تو نہیں ۔۔۔ پر اسے بخار نہیں تھا
وہی اسکے پاس بیٹھے اشعر اسے دودفعہ بولایا پر کوئی حرکت نہ ہوئی ۔۔ پر وہ جاگ رہا تھا وہ سمجھ گئی
اشعر وہ دیکھو ۔۔۔۔ ساتھ ہی اسے جھنجھوڑ ا
اشعر نے آنکھیں کھولتے ہاتھ کے اشارے کی طرف دیکھا تو گھڑی کو دیکھتے گھڑی ہے
ارشیا ہنستے وہ تو مجھے بھی پتہ ہے گھڑی کی سوئیاں دیکھو ۔۔۔
اشعر نے دیکھ کر پھر سے سر تکیے پر گرا لیا ۔۔۔
تم نے افس نہیں جانا ۔۔۔ ارشیا اسکے سکون سے لیٹتے دیکھ زچ ہو کر بولی ۔۔۔۔
نہیں جانا میں نے ۔۔ کہتے بازوں بھی ماتھ پر رکھ لیا
ارشیا بھی اٹھ گئی ۔۔۔۔۔ لیکن اشعر کے موبائل کی سکرین بلنک ہوئی تو اس کا موبائل دیکھتے ۔۔۔ پھر کچھ سوچتے ۔۔۔
اچھا سر حیدر کو بتا دیا ہو گا تم نے ورنہ وہ تمہیں تیرہ دفعہ کال کیوں کرتے ۔۔۔
اشعر فورا ہڑبڑا کر اٹھتے کتنی دفعہ ۔۔۔۔
ارشیا نے اسے موبائل دیتے یہی کوئی دو دفعہ
کہتے ساتھ ہی مسکرائی ۔۔۔۔۔ اشعر اسکے ہاتھ سے سیل لیتے ۔۔۔۔ کیا کروں میں میں تمہارا ۔؟؟؟
ارشیا بنا کچھ بولے مسکرا کر کچن میں اشعر کا ناشتہ بنانے چلی گئی ۔۔۔
اشعر بھی تھوڑی دیر میں کچن میں اتے یہ کیا حال بنایا ہوا ۔۔۔ ؟؟ کچن کو دیکھتے ۔۔۔
ارشیا نے پلٹتے ہاں سوری وہ اج تھوڑا کام زیادہ تھا تم یہ ناشتہ باہر بیٹھ کے کر لو ۔۔۔ پلیز ۔۔ ساتھ ہی ٹرے اسکے ہاتھ میں تھمائی ۔۔۔
اشعر باہر بیٹھتے ویسے اج کچھ خاص ہے جو تم اتنی تیاری کر رہی ۔۔
ارشیا نے کچن سے ہی اواز لگاتے ہاں احد کا برتھ ڈے ہے ۔ اسلیے دن کا کھانا ابھی بنا رہی پھر مجھے بازار جانا ہے اسکے لیے گیفٹ لیا تھا وہ پک کرنے ۔۔ ساتھ ساتھ چل کر اتے ابھی کیک بھی رہتا۔۔۔چائے لا کر اسکے سامنے رکھی ۔۔۔
وہ کچھ کہتا کہ وہ سیل کان سے لگائے کچھ انسٹرکشن دی رہی تھی بات اور لہجے سے وہ سمجھ گیا ایک ہی ہو سکتا اپنی بہن کا بھائی علی ۔
اسنے ارام سے ناشتہ کیا اور اندر کچن میں اگیا ۔۔۔
میں کچھ ہیلپ کروں ۔۔۔ وہ کچھ کہتی اشعر نے پیاز چھیلنے شروع کر دیے ۔۔ ارشیا بھی چپ کر گئی ورنہ وہ اسے کہنے والی تھی کہ وہ خود سب کر لے گئی ۔۔۔ دونوں نے مل کر دن کا کھانا بنایا ۔۔ کچن صاف کی پھر کیک کا بیٹر بنا کر اون میں رکھا ۔۔۔ اس دوران سعدیہ نے بھی ان کا کافی ساتھ دیا ۔ وہ سارے اج کچن کو رونق بخشے ہوئے تھے ۔۔۔
ارشیا تیار ہونے چلی گئی تاکہ پھر وہ جا کر گیفٹ لے ائے ۔ اشعر ساتھ جانے والا تھا۔
اشعر اون میں سے کیک نکال رہا تھا۔
کیک کو دیکھتے جو دیکھنے میں صحیح بیک ہوا وا لگ رہا تھا۔۔۔ اشعر نے اسے شیلف پر رکھا پر وہ پورا شیلف پر نہ رکھنے کی وجہ سے گر گیا۔۔۔۔
اشعر کی آنکھیں کھول گئی وہ کیک گر کر پورا تباہ ہو چکا تھا۔ ۔۔۔ اسنے فورا باہر نکلتے ۔
ارشیا سیڑھیاں اتر رہی تھی ۔۔۔ وہ تم علی کے ساتھ جا سکتی ہو ۔ مجھے کچھ کام یاد اگیا ہے ۔۔۔
ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ تمہیں بھی کچھ لینا ہے تو ساتھ ہی چلتے ہیں ۔۔
نہیں میں پھر کچھ دے دوں گا ۔ تم دو یا میں ایک ہی بات ہے ۔۔ اب تم جاؤ دیر ہو رہی پھر اکر لنچ کرتے سب ۔۔۔ کہتے اسے باہر کی طرف لے کر جانے لگا ۔۔۔
وہ علی کے ساتھ چلی گئی ۔۔ واپسی پر انہوں نے احد کو بھی سکول سے پک کر نا تھا ۔۔۔۔
گیفٹ شوپ سے گیفٹ لیتے ۔ ارشیا نے اپنے گیفٹ کے علاوہ اشعر کی طرف سے پہلے ہی ایک گیفٹ لیا ہوا تھا۔۔۔
ارشیا نے سامنے سے ایک شخص کو اتے دیکھا وہ سکینڈ کے ہزارویں حصے میں اس شخص کو پہچان گئی ۔۔۔۔ علی جو سامنے ہی ایک شوپ۔میں جا رہا تھا ۔۔۔
ارشیا بینچ سے اٹھتے میں بھی چلتی ہوں ساتھ ۔۔
علی نے اسکے پاس پڑے گیفٹ کو دیکھا نہیں اپی اپ یہ لے لے کر کہاں پھرتی رہیں گی اپ روکیں میں نے بس وہ کھیلونا لے کر اجانا ۔۔۔ اپ ادھر ہی روکیں میں خود جاتا ہوں ٹیکسی بھی میں یہی لے آؤں گا ۔۔
ارشیا نے عرفان کو اسی کی طرف اتے دیکھے علی میں بھی چلتی ہوں میں یہاں کیا کروں گی ۔۔۔ پر علی نہ مانا ۔۔۔ اپی اپ بیٹھیں میں ابھی اتا ہوں ۔۔۔ اصل میں علی نے ارشیا کے لیے بھی کچھ لیا تھا وہ نہیں چاہتا تھا وہ ساتھ ائے اور دیکھے ۔۔۔
وہ چلا گیا۔۔۔۔ عرفان بھی جیسے غائب ہو گیا ۔۔۔
ارشیا نے سکھ کا سانس لیا ۔۔۔ وہ کیوں ڈر رہی تھی اس سے وہ سمجھ نہ پائی ۔۔۔ پر ڈر ابھی قائم تھا اسکی انکھوں میں ۔۔۔۔
گیفٹ کو دیکھتے وہ پھر سے بینچ پر بیٹھنے لگی تو
کیسی ہو ارشیا ۔۔؟؟؟
اسنے اواز کی سمت دیکھا تو ڈر غلط۔نہیں تھا اسکا عرفان سامنے کھڑے طنزیہ مسکراہٹ لیے کھڑا تھا۔۔۔
ارشیا غلط نہیں تھی وہ تھا ۔ اس نے خود کو کمپوز کرتے مضبوط لہجے میں ۔۔۔ میں ٹھیک ہوں ۔۔۔
عرفان نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے کافی بدل گئی ہو تم ۔ شادی کر لی تم نے مجھے بولایا تک نہیں مجھے نہ سہی اپنی دوست کو تو بولاتی ۔۔۔۔ شوہر کیسا ہے تمہارا ۔۔۔ کیا نام ہے ۔۔۔ کیا کرتا ہے وہ ۔۔۔۔ فریکنس دیکھاتے ایک ساتھ سب پوچھا۔۔۔ ساتھ ساتھ مسکراتا رہا جیسے سب سمجھے وہ اسکے جاننے والا
ٹھیک ہے وہ اشعر نام ہے اسکا ۔۔۔ جاب کرتا ہے ۔۔ جان چھوڑنے والے انداز میں جواب دیا۔۔۔
اشعر اسنے اس نام کو پھر سے دوہرایا ۔۔۔۔ ساتھ ہی خباثت والی ہنسی ہنسا ۔۔۔۔ ربیعہ کی شادی ہے دو مہینوں میں طلال کے ساتھ ۔۔۔ تم طلال کو تو جانتی ہو گی ۔۔
ارشیا نے پیچھے دکان کی طرف دیکھتے ۔۔نہیں ۔۔۔۔
طلالتو ایان بھائی کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتی اسے ۔۔۔ اسنے حیرت سے دیکھتے ۔۔۔
ارشیا نے لہجے کو سخت کرتے ایان کے کسی دوست کو میں نہیں جانتی ۔
عرفان کو اسکا لہجہ برا لگا لیکن پھر مسکراتے چلو اب دیکھ لینا تم نے بلایا نہیں ہمیں اپنی شادی پر ۔۔۔ پر میں تمہیں اپنی بہن کی شادی کی دعوت دیتا ہوں ۔۔۔۔ ضرور انا اپنے شوہر کو بھی لے کر انا ہم بھی مل لیں گئے ۔۔۔
ارشیا نے جان چھوڑوانے والے انداز میں ضرور ۔۔۔۔ کہتے گیفٹ اٹھائے اس شوپ کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔
ارشیا واپسی پر پورا راستہ نہ بولی ۔۔۔
اشعر نے کیک کا آڈر دیا ہوا تھا اسے تھا کہ کیک اجائے گا تو وہ کہہ دے گا کہ اسنے ائسنگ کر دی پر کیک ایا اور ارشیا نے ہی ریسیو کیا ۔ پےمنٹ کرکے وہ اندر لے ائی ۔ لیکن کسی سے کچھ نہ بولی ۔۔۔۔ کھانا لگا کر وہ روم میں چلی گئی ۔۔۔ اشعر اسکو خاموش دیکھ اسکی خاموشی خطرے کا نشان ثابت ہوتی ۔۔۔ اسے لگا وہ کیک مانگوانے پر ناراض ہے ۔۔۔
ارشیا روم سے نکل رہی تھی ۔۔۔
سوری ارشی وہ۔کیک اون سے باہر نکالتے مجھ سے گر گیا مجھے لگا تم برا نہ مانو تو میں نے بیکری سے مانگوا لیا ۔ ارشیا نے اسکی بات ختم ہونے پہلے ہی اٹس اوکے اشعر ۔۔۔ چلو تیاری کرتے برتھ ڈے کی۔۔ وہ سیڑھیاں اترنے لگی اشعر نے بھی اسکی پیروی کرتے تھنکیو مجھے لگا تم اس وجہ سے چپ کر گئی ۔۔۔
شام کی پارٹی کافی اچھی رہی پر وہ علی سے نہ بولی ۔ علی بھی محسوس کرتا رہا کہ وہ اسے اگنور کر رہی ۔
کچھ کہتا تو جواب بھی مختصر دیتی ۔۔۔۔
پارٹی میں احد کے کافی دوست ائے ۔ سعدیہ نے احد کے لیے الگ سے گیفٹ لیا جس کا کسی کو پتہ نہ تھا ۔۔۔۔
رات تک ان کے گھر کافی چہل پہل رہی ۔ کچھ محلے کے بھی آنٹیاں اتی رہی ان کے بچے سب ۔۔
رات کو سب کے جانے کے بعد علی اور احد بھی جا رہے تھے ۔۔۔۔ ارشیا کچن کو دیکھ رہی تھی ۔ جب علی نے اسے پیچھے سے بولایا ۔۔
پر ارشیا نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔
علی بھی اسی کا بھائی ۔ کرسی کھنچ کر بیٹھنے لگا تو ارشیا کرسی کی آواز سنتے پلٹی ۔ تم گھر جاؤ علی ۔
علی بیٹھتے بیٹھتے روک گیا ۔ اپ ناراض ہیں مجھ سے
ارشیا نے فورا جھوٹ بولتے ایسا کچھ نہیں ۔۔۔
علی نے اسکی بات پر نہیں اپ ناراض ہیں جب سے واپس ائیں ہیں اپ بات نہیں کررہی مجھ سے ۔۔۔
ارشیا نے سلیب کی طرف موڑتے علی کل بات کرتے فی حال تم جاؤ یہاں سے ۔۔۔ میں پہلے ہی پریشان ہوں
علی کو سمجھ نہ ایا اسکی ناراضگی ارشیا اس سے کبھی ناراض نہیں ہوتی تھی ڈانٹ لیتی پر ایسا کبھی رویہ نہ رکھتی جیسے اج تھا ۔۔
نہیں میں وجہ جانے بنا نہیں جاؤں گا۔۔۔ اپ بتاؤ مجھے کہ میری غلطی کیا
ارشیا جو شام سے اپنے اندر ایک ڈر کو سنبھالے ہوئے تھی ۔ ہاں ہوں میں ناراض تم سے اور بنا وجہ کے ناراض تو۔میں ہو نہیں سکتی ۔۔۔ اسنے علی کو دیکھتے غصے سے بولا ۔۔۔
علی دم سادھے اسے دیکھتا رہا ۔ غصہ اسکے چہرے پر عیاں تھا۔۔۔
ارشیا جیسے اپنے لہجے پر غور کرتے شرمندہ ہوئی ۔۔۔۔۔ پھر اواز نارمل رکھتے کہا تھا نا مجھے ساتھ انے دو پر نہیں ۔ تمہیں تو اپنی مرضی کرنی تھی ۔ اگر میں انسسٹ کر رہی تھی کہ میں نہیں روک سکتی وہاں ۔۔۔ مجھے ساتھ انا ہے تمہارے ۔۔۔ تو کوئی تو بات ہو گی نا علی اج سے پہلے کبھی ضد کی ہے میں نے ۔۔
علی نے پریشان ہوتے ۔۔۔ کچھ ہوا ہے اپی ؟؟؟
ارشیا نے تھکے ہوئے لہجے میں میری زندگی اسان نہیں ہے علی ۔ بہت کچھ برداشت کر کے یہاں تک پہنچی ہوں ۔ تمہیں یہ بات کیوں سمجھ نہیں اتی ۔ اگر میں کہہ رہی تھی کہ مجھے ساتھ انا ہے تو تمہیں کیا مسئلہ تھا مجھے ساتھ لے جانے میں ۔۔۔
اپی مجھے ۔۔۔ علی کی بات پوری کرنے سے پہلے ہی ارشیا نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔۔۔ آنسوؤں صاف کرتے اگر میں تمہیں اب بوجھ لگنے لگی ہوں تو مجھے بتا دو ۔ تاکہ نہ تم تکلف میں مجھے برداشت کرو اور نہ۔میں خوش فہمی پال کر بیٹھی رہوں ۔۔۔ بہن بھائی پر بوجھ بن جائے تو اس بوجھ کو ختم کرنا بہتر
علی نے بے یقینی سے ارشیا کو دیکھا ۔۔۔ جو غصے میں کیا کہہ رہی تھی شاید وہ خود بھی نہیں جانتی تھی ۔ غلطی اسکی بھی تھی پر اتنی نہیں کہ ارشیا سمجھے کہ وہ سے اب بوجھ سمجھتا ۔۔۔
ارشیا موڑتے فئ حال جاؤ یہاں سے علی ۔۔۔
علی نے وہی کھڑا اسے دیکھتا رہا لیکن وہ جیسے اسکی موجودگی سے واقف ہی نہیں تھی ۔۔۔
تھوڑی دیر بعد باہر نکل گیا ۔ اشعر نے اسے دیکھا تو کیا ہوا ۔ علی طبیعت ٹھیک ہے منہ کیوں اترا ہوا ۔۔۔
وہ احد کے ساتھ اسکے گیفٹ دیکھ رہا تھا۔۔۔
نہیں کچھ نہیں ہوا بس تھک گیا ہوں ۔۔۔ سعدیہ کودیکھتے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔۔ ساتھ ہی احد چلو اب چلتے ہیں ۔ کافی لیٹ ہو گیا۔۔۔۔
سعدیہ سے دعائیں لی ۔۔ احد ارشیا سے ملنے کے لیے بھاگا ۔۔۔
اشعر نے علی کو پکڑتے ۔ کیا ہوا کسی نے کچھ کہا ۔۔۔ ارشیا نے کچھ کہا ۔۔۔ تم کچن میں جانے سے پہلے تک ٹھیک تھے ۔۔۔
علی نے اشعر کو دیکھتے مسکرا کر نہیں نہیں اپی نے کیا کہنا ۔۔۔
پر اشعر کو جیسے اسکا ہنسنا پسند نہ ایا ۔ علی تم مجھے بتا سکتے ہو ۔ بیوی ہے وہ۔میری اور تم اسکے بھائی ۔ اگر مسئلہ تم دونوں کے متعلق ہے تو مجھے جاننے کا حق ہے ۔۔۔
علی نے آنکھیں جھکاتے وہ ناراض ہیں مجھ سے ۔۔۔ انہیں لگتا میں اب ان کو بوجھ سمجھتا ہوں ۔۔ سر اٹھاتے پر ایسا باکل نہیں اشعر بھائی ۔ میں جانتا ہوں اپی نے غصے میں کہا جب غصہ ٹھنڈا ہو گا وہ خود سمجھ جائیں گی لیکن مجھے برا لگا کہ میری بے وقوفی کی وجہ سے وہ شام سے اب تک پریشان رہی ۔۔۔۔ مجھے انکو وہاں اکیلے نہیں چھوڑنا چاہیے تھا ۔۔ ۔ شوپ ۔میں ساتھ لے جاتا ۔۔۔تو وہ ناراض نہ ہوتی ۔۔۔
احد کو اتا دیکھ اشعر نے علی ٹھیک ہے میں بات کرتا ہوں ارشی سے تم فکر نہ کرو ۔۔۔۔۔
وہ چلے گئے ۔۔۔۔ اشعر نے کچن میں جھانک کر ارشیا کو دیکھا جو کچن سمیٹنے میں مصروف تھی ۔۔ وہ سمجھ نہ سکا صرف ایک شوپ۔میں ساتھ نہ۔لے جانے ہر وہ اتنا ناراض تو نہیں ہو سکتی اسے یا اسے پوری بات نہیں پتہ ۔۔۔۔۔۔ فون بجا اسنے بات کرتے ایک نظر اسے دیکھا جو ہر ذی روح سے بیگانی کس سوچ میں گم اپنے کام میں لگی تھی ۔۔۔ وہ کمرے میں چلا گیا ۔۔
کافی دیر وہ افس کا کام لیے بیٹھا رہا ساتھ انتظار کرتا رہا ارشیا کے انے کا ۔۔۔۔۔۔
ارشیا روم میں ائی تووہ روم میں نہیں تھا ۔۔۔ ارشیا کو اسکا نہ ہونا بہت برا لگا ۔ ۔۔ وہ واش روم سے نکلا ۔۔۔
ارشیا نے موڑ کر۔دیکھتے جیسے اسکے جسم۔میں جان ائی ۔۔۔ اپنے محافظ کو اپنے سامنے دیکھ اسے اج کتنی خوشی ہوئی تھی یہ صرف ارشیا اس لمحے جان سکتی تھی ۔۔۔
اشعر بنا دیکھے تم اگئی ۔۔۔ آؤ بیٹھو مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔۔ کہتے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے صوفے پر بیٹھایا
ارشیا بھی خود کی کیفیت کو چھپاتے صوفے ہر بیٹھ گئی ۔۔ اشعر ٹیبل پر اسکے سامنے بیٹھتے ۔۔۔۔ کچھ ہوا ہے ارشیا ۔۔۔
پر ارشی نے سر جھائے رکھا ۔۔ اج پہلی دفعہ وہ اسکے سامنے سر جھکائے بیٹھی تھی جیسے ساری غلطی اسی کی تھی سب کچھ اسی کا کیا ہوا تھا۔۔۔ مجرم نہ ہوتے وہ خود کو مجرم سمجھ رہی تھی ۔۔۔
اشعر کو اسکا جھکا ہوا سر دیکھ کر کچھ ہوا ۔۔۔ اس کی ٹھوڑی کو اپنے ہاتھ سے اوپر کرتے ۔ میری طرف دیکھو ۔۔۔۔
ارشیا نے اسکی انکھوں میں دیکھتے وہ آنسوؤں میں مسکرائی ۔۔۔
اشعر کو حیرت ہوئی ۔ اسکو روتا دیکھا۔ وہ کچھ بول نہ پایا ۔۔
ارشیا نے آنسوؤں صاف کرتے میں ہاتھ پکڑ لوں تمہارا ۔۔۔ تھوڑی دیر کے لیے ۔۔۔۔
اشعر نے اپنے ہاتھ کودیکھتے ۔۔ ہاتھ ساتھ میں اپنا ہاتھ اگے کیا ۔ ارشیا اسکا ہاتھ پکڑے کافی دیر بیٹھی رہی جیسے اسکے ساتھ ہونے کے احساس
کو محسوس کر رہی ہو ۔ اپنے ڈر سے کہہ رہی ہو کہ وہ ساتھ ہے اسکے ۔۔ اشعر ساتھ ہے اسکا محرم ساتھ ہے ۔۔
۔۔۔ اشعر اسکی حالت سمجھ نہ پایا ۔۔۔
اشعر کا سیل بجا ۔ صبیحہ کالنگ لکھا تھا ۔ ارشیا نے موبائل۔کی سکرین دیکھی تو اسکے ہاتھ کی پکڑ ڈھیلی ہو گئی ۔۔۔ خود پر جیسے ہنستے اسنے ہاتھ چھوڑ دیا۔۔۔
اشعر
موبائل کو دیکھ کر کال کٹ کی دی ۔ پر ارشیا تب تک ہاتھ چھوڑ چکی تھی ۔۔۔ وہ اٹھنے لگی جب آشعر نے اسکا ہاتھ پکڑتے کچھ ہوا ہے تو ۔ تم مجھے بتا سکتی ہو۔۔۔
ارشی۔۔
وہ خود ہی مسکرائی ۔۔۔ واپس موڑ کر اشعر کو دیکھتے۔۔۔ کچھ نہیں ہوا ۔۔۔
اشعر نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتے ہوا ہے کچھ ہر تم مجھے نہیں بتا رہی ۔۔۔
ارشیا نے ہاتھ کو دیکھتے ۔۔۔ نہ بتا کر میں خود کو دکھ اور خوش فہمی سے بچا رہی ہوں ۔۔۔ ساتھ ہی پھیکا سی ہنسی ۔۔۔
ہنستے ہوئے اب ہاتھ چھوڑوں میرا۔ مجھے امی کے پاس جانا ہے ۔۔
اشعر نے ہاتھ چھوڑ دیا۔۔۔۔۔ وہ نہ پوچھ پایا ۔ اس سے نہ اسکی حالت سمجھ پایا ۔۔ اسکا موبائل ایک دفعہ پھر سے بجا ۔۔۔ ارشیا منظر سے غائب تھی اسنے غیر دماغی سے کال اٹھائی ۔ پر صبیحہ نے جو کچھ بولا اسے کچھ سمجھ نہ ایا۔۔۔ صبیحہ بھی اسکے نیند میں ہونے کا سوچ کر ایک دو باتیں کر کے فون رکھ دیا۔۔۔
ارشیا واپس نہ ائی وہ سعدیہ۔کے پاس جا کر سو گئی
کافی دیر اشعر اسکی حالت کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ ڈری ہوئی پر کس سے یہ اسکی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔ ارشیا اسے کچھ بتاتی یہ تو ہو نہیں سکتا تھا اور جتنا علی نے بتایا اس سے اشعرنے یہی انداز ہ لگایا کہ شوپ کے باہر کسی کو دیکھ کر وہ ڈر گئی ۔ پر ارشیا کو سوچتے کہاں وہ لڑکوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو جاتی اور اج وہ کسی سے ڈر کردوپہر سے اب تک خاموش تھی یا سہمی ہوئی ۔۔۔۔ ۔ کتنی بدل گئی تھی وہ ۔۔۔ کس چیز کا خوف تھا اسے ۔۔
اشعر۔نے اسفند کو کال کی ۔ اسے شوپ کا نام بتا کر اسکی فوٹیج لینے کو کہا شوپ کا نام ارشیا اسے صبح بتا چکی تھی ۔۔۔ ۔۔۔۔ اسے ایک دفعہ خود پر غصہ ایا جب وہ خود جانے والا تھا اسکے ساتھ تو اسے ہی جانا چاہیے تھا ۔ اگر وہ جاتا تو ارشیا کو اس طرح ڈر میں نہ دیکھنا پڑتا ۔
____________
اشعر اور ارشیا کی صبح کوئی بات نہ ہوئی اشعر جلدی افس چلا گیا ۔۔۔ سعدیہ کا اج چیک اپ تھا ۔ اسلیے چیک اپ کے بعد وہ اور سعدیہ دونوں علی کے گھر اگے ۔۔۔ وہ اپنے کل کے الفاظ پر کافی شرمندہ تھی ۔۔۔۔ ۔ سعدیہ کو ویسے ہی علی کا محلہ کافی پسند تھا وپاں سب ہی بہت ملن نثار تھے ۔ عورتوں کے ساتھ
سعدیہ۔کی اچھی سلام دعا تھی ۔ اشعر کے نہ ہوتے وہ زیادہ تر علی کے گھر ہی ہوتی ۔۔۔ سب عورتیں سعدیہ کہ کافی عزت کرتی اور سعدیہ کے انے کا سن کر فورا سے علی کے گھر اکھٹا ہو جاتیں ۔۔۔ ابھی بھی وہ باہر عورتوں کے ساتھ بیٹھے باتیں کررہی تھی ۔۔۔ جب علی گھر ایا۔۔
اس گھر کی ایک چابی ارشیا کے پاس ہمیشہ ہوتی علی کی غیر موجودگی میں اکثر وہ احد کے ساتھ ہوتی یا اسے سکول سے لے کر اتی تھی جب ارشیا جاب کرتی تھی ۔۔۔
علی نے سعدیہ کو سلام کر کے اندر ایا ۔ وہ جانتا تھا ارشیا کہاں ہو گی ۔۔۔ آسلام وعلیکم اپی ۔۔۔
وہ شیلف پر چائے کا ڈبہ رکھتے وعلیکم سلام کیسے ہو چھوٹے ۔۔۔۔۔۔۔ اج لیٹ ہو تم ۔۔۔۔ چائے کا ڈبہ کھول کر ابلتے ہوئے پانی میں پتی ڈالی ۔۔۔
علی نے بھی ہنستے ارشیا کا لہجہ کل سے بہت اچھا تھا۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔ احد کو اسکے دوست کی طرف چھوڑ کرایا ہوں اسلیے لیٹ ہو گیا۔۔۔
ارشیا نے دودھ کا ڈبہ کھولتے ہاں بتایا پا جی نے اتے ہوئے ہمیں ۔۔۔۔۔ چلو تم ہاتھ منہ دھو لو میں چائے بنا رہی۔۔۔
ہاتھ دھو کر وہ واپس ایا تو ارشیا اسی کے روم میں بیٹھے اسکا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔
اپ ادھر کیوں لے ائی ۔میں باہر ہی اجاتا ۔۔۔۔
ارشیا نے اسے دیکھتے وہ بات کرنی تھی۔مجھے ۔۔۔۔ اسلیے میں یہاں لے ائی ۔۔۔
علی ارام سے کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔
سوری کل کے لیے مجھے وہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا ۔ پر غصے میں منہ سے نکل گیا سب ۔۔۔۔ اے ایم سوری ۔ ۔۔۔۔ علی نے سر اٹھاکر دیکھتے اپی سوری مت کہیں۔ مار لیں ڈانٹ لیں لیکن پلیز ائندہ ایسا مت کہیے گا کہ اپ مجھ پے بوجھ ہیں ۔۔۔ امی ابو کے بعد صرف اپ ہیں جہنوں نے مجھے اور احد کو اپنا سمجھا ہے اپنی فیملی کا حصہ بنایا ہے ۔۔۔
ارشیا اسکے ایسے کہنے پر۔مزید شرمندہ ہوئی ۔۔۔۔
میں شرمندہ ہوں ۔ سب مجھے چھوڑ کر چلے جائیں گے یہ ڈر مجھے کافی تکلیف دیتا ۔۔ مجھے لگتا اک دن میں اکیلی رہ جاؤ گی جسے اپنا کہتی یا سمجھتی وہ چھوڑ کر چلا جاتا اسلیے مجھے لگا اور احد بھی ۔
علی نے کرسی سے تھوڑا اگے ہوکر بیٹھتے ۔ یہ ڈر نکال دیں ہم اپ کاپیچھا نہیں چھوڑنے والے ۔۔۔۔۔ کیونکہ ہماری ایک بہن ہے اور اس کا ساتھ ہم مرتے دم تک نہیں چھو ڑیں گے ۔۔۔ مضبوط لہجے میں بولا ۔۔ ارشیا اس کا مضبوط لہجہ دیکھتے اچھا مان لیا ۔ اپ چائے پیو ۔۔۔
وہ بھی ہنستے چائے کا کپ اٹھالیا ۔۔۔
وہ کل کے متعلق جاننا چاہتا تھا کہ وہ کیوں پریشان تھی پر فئ حال وہ مزید اسے پریشان نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔ اسلیے ۔۔۔۔بات کو موڑتے ۔۔
چائے کے سیپ لیتے اشعر بھائی بہت اچھے ہیں ۔۔۔
ارشیا کی مسکراہٹ سمٹ گئی ۔۔۔ کل رات سے اسے یہی لگ رہا تھا کہ وہ اتنے دنوں سے ایک خواب میں جی رہی تھی صبیحہ نے اسے ایک دفعہ پھر ایک خواب سے نکالا ۔۔۔۔ اشعر کے لیے وہ صرف دوست تھی ۔۔۔ کل بھی اور اج بھی ۔۔۔۔
علی نے چائے کا کپ رکھتے ارشیا کا چہرہ دیکھا ۔۔۔۔ جو کب سے اہنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی ۔۔۔
کیا ہوا اپی اشعر بھائی کا نامسنکر اپ خاموش کیوں ہو گئی ۔۔۔۔ کچھ کہا کیا اشعر بھائی نے ؟؟؟
ارشیا جسیے اپنی سوچوں میں زچ ہوتے وہ کچھ کہتا ہی تو نہیں ۔۔۔۔۔ بولنے کے بعد اسنے سر اٹھائے علی کو دیکھا جو اسکا جواب سن کر ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھ رہا تھا ۔
اشعر بھائی نے پھر سے کچھ کیا ؟؟؟ علی نے فورا سے سوال کیا ۔۔۔
ارشیا نے منہ دوسری طرف کرتے علی سے وہ چاہ کر بھی جھوٹ نہ بول سکتی تھی نہ ہی چھپا سکتی ۔ جب اسکا دل کرتا وہ اپنا حال صرف علی کو سنا دیتی ۔۔۔ اشعر کی بات کرتے وہ اب ہمیشہ ایموشنل ہو جاتی ۔۔۔۔
سنجیدہ ہوتے ۔۔۔۔۔۔ اپنے آنسوؤں صاف کرتے وہ نہ کچھ کہتا ہے نہ کرتا ہے ۔ میں ہی ہمیشہ اسے غلط سمجھ بیٹھتی ہوں ۔۔۔۔۔ اشعر کے بارے میں میرا ہر خیال غلط ہوتا ۔۔۔ پہلے بھی اور اب بھی ۔ ہمیشہ ہی غلط فہمی پال لیتی میں ۔۔۔۔۔۔ یک طرفہ محبت ہے میری ۔۔۔۔ بہت مشکل تھا میرے لیے اپنے اپ کو سنبھالنا ۔۔ ایک غلط فہمی ۔۔ وہ روکی ۔ تکلیف کے اثار اسکے چہرے پر عیاں تھے
پہلے ہی بہت رسوا ہوئی ہوں میں اپنی غلط فہمی کی وجہ سے ۔۔۔۔ اب نہیں ہونا چاہتی ۔ وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولی ۔۔۔۔۔
پر اشعر کو دیکھتی ہوں اسکی باتیں اس کی میرے لیے فکر اسکی انکھیں ایسا لگتا وہ ہمیشہ مجھ سے سچ کہتیں ۔ ہمشیہ سچ بولتی ۔۔۔۔۔ سب مجھے پھر سے غلط فہمی میں مبتلا کر رہی ہیں ۔ میں پھر سے بھروسہ کرنے لگ پڑی ہوں اسے ۔۔۔۔ ایسا بھروسہ جو شاید میں خود پر بھی نہیں کرتی ۔۔۔۔ اسکی موجودگی مجھے تحفظ دیتی ۔۔۔۔۔۔۔ ایسا لگتا میری غلط فہمی نہیں تھی وہ صرف مجھے وہ کہتے کہتے روکی ۔۔۔۔ پر صبیحہ اور ہانیہ کی باتیں مجھے اپنے خواب سے نکال دیتیں ۔
علی اسے ٹیشو بوکس سے ٹیشونکال کر دیا ساتھ پانی کا گلاس لے کر ایا ۔۔۔ ارشیا نے پانی پیتے ۔۔
ہو سکتا انہوں نے جھوٹ بولا ہو جان بوجھ کر اپکو وہ باتیں بتائی ہوں ۔
وہ ایسا کیوں کریں گی اس سے انکو کیا فائدہ وہ تھوڑی جانتی تھی کہ میں اسے پسند کرتی ہوں ۔۔۔
علی نہیں جا۔تا تھا کہ صبیحہ اور ہانیہ نے کیا کہا تھا اور اشعر اور ارشیا کی اخری لڑائی کی وجہ کیا تھی ۔۔۔کچھ سوچتے وہ سب مجھے نہیں پتہ میں بس اتنا جا تا ہوں کہ اشعر بھائی بہت اچھے ہیں اور اپکے معاملے میں کافی سیریس ہیں۔ اس دن ہوسپٹل میں بھی وہ کافی شرمندہ تھے اپکو جو کچھ وہ کہہ کر ائے تھے ۔۔ویسے اپ دونوں سیم ہو ۔ غصہ میں کچھ بھی بولتے یہ نہیں سوچتےاگلے کو کیا لگے گا ۔۔۔ علی نے ارشیا کا مائنڈ ڈیورٹ کرنے کے لیے کہا ۔۔۔
ارشیا فورا سے ہی سوری تو بولا ہے نا میں نے ۔ اب کیا کان پکڑوں تب تم معاف کرو گے ۔۔۔۔
علی نے فورا کان پکڑتے اپ کان پکڑتے اچھی نہیں لگے گئی اسلیے میں پکڑتا ۔۔۔۔۔
ارشیا اسے کان پکڑتا دیکھ کھکھلا کر ہنسی ۔۔۔ اسکی ہنسی کی آواز علی کے فون بجانے ہر تھمی ۔۔۔۔
فون کو دیکھتے بڑی لمبی عمر ہے اپکے شوہر کی ۔۔۔کہتے علی نے کال اٹھائی ۔۔۔۔
سلام کے بعد ہی جی ادھر ہی ہیں ۔۔۔ ٹھیک ہے میں لے کر اتا ہوں ۔۔۔۔ فون رکھتے چلیں جی اپکے شوپر کا اوڈر اگیا کہ گھر پہنچیں ۔۔۔۔ ارشیا جو کپ اٹھا رہی تھی ۔۔کیوں ابھی توہم ائے ہیں ۔۔۔
کوئی ارہا اپ کے گھر ۔۔۔۔ کون ارہا یہ نہیں بتایا ۔۔۔ بس کہا کہ ان کوبیس منٹ لگے گے تب تک اپ کو میں گھر پہنچا دوں۔۔۔۔۔ اب کھڑی کیوں ہیں چلیں ارشیا کو سوچتے دیکھ گاڑی میں سوچ لینا اپ ۔۔۔۔ ۔۔۔ یہ یہی رکھ دیں میں واپس اکر کر لوں گا خود ۔۔۔۔ کہتے کپ واپس رکھ دیے ۔۔۔
باہر نکلتے اپ تھوڑا کم سوچا کریں ۔ اپکو فائدہ دے گا
ارشیا نے اسے پیچھے سے تھپڑ مارتے ۔ٹھیک ہے اج سے سوچنے کا ڈپارٹمنٹ میں تمہیں دیتی ہوں ۔ ۔
علی اسے دیکھتے شکریہ مادام شکریہ ۔
___________
وہ لوگ گھر پہنچے تو اشعر کے پاس اقصیٰ اور اصف کو دیکھ ارشیا کا منہ کھول گیا۔۔ خوشی اور شوکڈ طرئقے سے وہ اصف اور اقصیٰ کو ملی ۔۔۔۔۔ وہ اقصیٰ سے کتنے مہینوں بعد مل رہی تھی ۔ سعدیہ کو سب سے ملواتے وہ وہی سب کے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔۔
ارشیا نے فور اسے انتظام کیا کچھ کھانے کا ۔۔۔۔ چائے سرو کرتے وہ اقصیٰ اور اصف سے بہت کچھ پوچھتی رہی سعدیہ کو ان کی نوک جھونک کے بارے میں بتاتی رہی جو وہ سب پہلے بہت دفعہ بتا چکی تھی ۔۔۔
سعدیہ نے سب کو بتایا کہ کیسے وہ ارشیا سے ملی اور پھر اشعر کا رشتہ لے کر گئی اسکے گھر ۔۔ کیسے انا فانا شادی ہوئی ۔۔۔ سعدیہ ماں تھی وہ اشعر کی پسند جانتی تھی ۔۔۔ ہوسپٹل میں ارشیا کو دیکھ جو اسے پہلی نظر میں ہی اشعر کے لیے پسند ائی تھی سعدیہ کو یقین تب ہوا جب سعدیہ نے اسفند کو ارشیا کے بارے میں پتہ لگانے کو کہا تو اسفند پہلے ہی سب بول پڑا ۔۔۔ اور اسفند کو سب کچھ ڈیٹیل میں پتہ ہونا مطلب اشعر کو بھی پتہ ہونا ۔وہ بنا مطلب کسی کی اتنی انفو نہ رکھتا تھا۔۔۔۔۔ ۔ پھر اہستہ اہستہ سعدیہ کو اسفند کے تھرو سب پتہ چلتا رہا ۔ ۔۔۔۔۔ وہ افس کو سیٹ کرنے میں لگا رہا اور سعدیہ اسکی زندگی کو ۔۔۔۔۔
اقصی اور وہ دونوں چائے بنا رہی تھی جب اقصیٰ نے اسے دیکھتے تم نے افس کیوں چھوڑا تھا ۔۔۔ ہانیہ نے بعد میں کافی باتیں پھیلائی تھی ۔۔۔
ارشیا نے ہاتھ روکتے کیسی باتیں ۔۔۔؟؟؟
کہ تمہاری اور اشعر کی لڑائی ہوئی ہے تم اشعر پر وہ بولتے بولتے چپ کر گئی ۔۔۔۔
ارشیا نے اسے بنا دیکھے ہممم ۔۔۔۔ پتہ نہیں یار ہانیہ کو کیا مسئلہ تھا مجھ سے پہلے سب ٹھیک تھا پھر ایک دن ایسا کیا ہوا کہ وہ اتنے مخالف ہو گئی تھی میرے ۔۔۔ اقصیٰ اسکو دیکھتے جیسے اسکی بات سے اتفاق کر رہی ہو ۔۔
اس دن بھی اسنے مجھے گرایا تھا جب میرے ہاتھ میں وہ کانچ چھبا تھا پتہ نہیں اسے مجھے تکلیف دے کر کیا ملتا تھا۔۔۔
اقصیٰ کو یقین نہ ہوا ۔ ایک دم ارشیا کے پاس اتے اسنے تمہیں گرایا تھا ۔۔ ارشیا نے ہاں میں سر ہلایا
تم نے اس دن کیوں نہیں بتایا ۔ منہ توڑ دیتی میں اسکا
پر ارشیا نے ہنستے اس حالت میں کہاں تھی کہ کسی کو بتاتی ۔۔۔۔
تم اشعر کو اب بتاؤ وہ صحیح خبر لے گا اسکی ۔۔دیکھنا ۔۔
ارشیا نے ہنستے کیوں اشعر اس کے ساتھ کیا کرے گا
اقصیٰ بے نیازی سے بسکٹ کھاتے وہ تم اس پر چھوڑ دوجتنی اتھورٹی اسکے پاس وہی سب کر سکتا ۔۔۔
ارشیا نے اسکی بات کومذاق سمجھتے ۔۔۔ چھوڑو اب ہمیں کیا ۔ اب کونسامیں نے کبھی اس سے ملنا ۔ اور الللہ کرے اس سے نہ ہی ملنا پڑے ۔۔۔۔
اقصیٰ نے بھی فورا آمین ۔۔۔۔۔ وہ اور ارشیا اسکے ایسے کہنے پر مل کر ہنسی ۔۔
وہ لوگ تھوڑی دیر روک کر چلے گئے ۔ ارشیا اج بہت خوش تھی ۔۔۔ پہلے علی کی باتوں سے اسے تھوڑی بہت ہمت ملی تھی اور اقصیٰ اور اصف کا آنا اتنے عرصے بعد بھی وہ سب نہیں بدلے تھے ۔۔۔۔ ارشیا سے سب بہت ہی اپنائیت سے ملے
جیسے ارشیا نے سب سے اچانک کونکیکٹ ختم کیا تھا وہ چاہتے تو برا مانتے پر اشعر کے ایک دفعہ کہنے پر وہ دونوں اس سے ملنے ائے تھے ۔۔
ارشیا کو خوش دیکھ اشعر نے بھی سکھ کا سانس لیا
وہی ہانیہ کا کیا کرنا وہ سوچ رہاتھا وہ اقصیٰ اور ارشیا کی باتیں سن چکا تھا۔۔۔ ہانیہ اسے ویسے ہی نہیں اچھی لگتی تھی اب تو وہ جانتا تھا کہ اسنے ارشیا کو تکلیف دی تھی وہ کیسے معاف کرتا ۔۔
تنوع کے فقدان کا عذاب
لاہور ایئرپورٹ سے فلائی کرنے والا ہوموپاکیئن دو تین گھنٹے بعد دوبئی یا دوحہ میں اترتا ہے تو ایک مختلف...