“ڈیڈمیری ایگزیبیشن ہے آج۔” اُس نے میسج ٹائپ کیا اور ایک منہ بسورتا ہوا سمائلی بنا کر اپنے ڈیڈی کو سینڈ کر دیا۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد وہ گولی کی طرح اپنی نینی کے پاس جا پہنچی تھی جو کچن میں مصروف تھیں۔
“ڈیڈ نے گڈ لک تک نہیں کہا مجھے۔” پرِیا منہ بسورتے ہوئے بولی۔
“اوہ بچے وہ مصروف ہو تا ہے جانتی تو ہو تم سب۔” وہ جلدی جلدی اسکا ناشتہ بناتے ہوئے بولیں۔ انداز با لکل پچکارنے والا تھا۔
“ہاں ہاں سب سمجھتی ہوں۔ میری ایگزیبیشن سے بھی اہم کام ہیں اُن کو۔” کرسی گھسیٹ کر وہ مرے دل کے ساتھ بیٹھ گئی۔
“تمھیں سب معلوم ہے پری! گرو اپ (بڑی ہو جاؤ)۔ اُس کو تنگ نہیں کیا کرو۔” وہ اُسے ڈپٹتے ہوئے گویا ہوئیں۔
“جانتی ہوں سب۔” کہتے ہوئے بیگ پیک اُٹھایا اور ناشتہ کیے بغیر باہر نکل گئی جبکہ نینی ٹھنڈی سرجھٹک کے رہ گئیں۔
حالا نکہ معلوم تھا ابھی راستہ مکمل بھی نہیں ہوا ہوگا اور اِن باپ بیٹی کی صُلح ہو چکی ہوگی۔ ایک پُرسکون مُسکراہٹ نے اُن کے چہرے پہ جھلک دِکھائی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اور بے شک نینی کی سوچ غلط نہیں تھی۔ وہ ابھی کچھ ہی راستہ طے کر پائی تھی جب ایک ہنستا مُسکراتا گڈ لک کا میسج موصول ہوا تھا۔ اُسکا دل پُرسکون ہو گیا تھا۔ دِل کو یقین ہونے لگا کہ ہمیشہ کی طرح آج کا دن بھی خاص ہونے والا تھا۔
وہ ایگزیبیشن کے دوران اُڑی اُڑی پِھر رہی تھی۔
گرین ٹاپ کے ساتھ سکن ٹائٹس پہنے، کالے بالوں کو پونی میں جکڑے وہ کوئی چھوٹی سی بچی معلوم ہو رہی تھی۔
سب کے سوالات کے ہلکے پُھلکے انداز میں جوابات دیتے ہوئے وہ اُس راہداری میں آئی جہاں پینٹنگز پر ‘ناٹ فار سیل ‘کا ٹیگ لگا ہوا تھا۔
یُوں ہی گھومتے اور خود پر اِتراتے ہوئے وہ اپنی پسندیدہ ترین پینٹنگ کیطرف آئی تو وہاں ایک حیرت اُسکی مُنتظر تھی۔
کوئی بہت اِشتیاق کے ساتھ اُسکے اُس شاہکار کو دیکھنے میں مگن تھا۔ جبکہ پرِیا کی کیفیات ناقابلِ بیاں تھیں۔ اُسے آگے بڑھنا چاہیے یا بس اُسے دیکھتے رہنا چاہیے۔
آخر خود کو نارمل کرتی وہ آگے بڑھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مغربی مُلک میں مغرب کی طرف منہ کیے وہ جھیل کنارے غروب ہوتے سورج کا حصہ ہی معلوم ہوتا تھا۔ اِردگِرد کے لوگ قریب سے گُزرتے ہوئے ایک آدھ نِگاہ اُس پر بھی ڈال دیتے تھے۔ اُس نے اپنی بائیں طرف بنی جھیل کی طرف دیکھا جسکا پانی اِتنا شفاف تھا کہ آنکھیں ٹھنڈک کے احساس سے بھر جاتی تھیں۔ مگر وہ ہمیشہ بہت خُشک نگاہوں سے جھیل کو دیکھا کرتا تھا۔ جھیل میں موجود بطخیں اور مُرغابیاں اپنی موج مستی میں اِدھر سے اُدھر تیرتی رہیں مگر اُسنے تو شائد اُن کو بھی نہ دیکھنے کی قسم کھائی ہوئی تھی۔ شام آہستہ آہستہ ڈھل رہی تھی۔
وہ چونک کے اُٹھا اور گھر کی جانب چل پڑا۔ جو کہ اب اُس کی واحد منزل رہ گئی تھی باقی سب منزلیں تو وہ خود اپنے ہاتھوں سے گنوا چُکا تھا۔
یا شاید اب بھی اسی بھنور میں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ڈارک پرپل گھیر دار بہت ہی نفیس سے گاؤن پر آف وائٹ اسکارف لیے بہت معصوم لگ رہی تھی۔ اُس کے چہرے پر پھیلا سُکون اور معصومیت دیکھنے والے کو ٹھٹکنے پر مجبور کرتا تھا۔ پرِیا بھی بِلا شُبہ اُن دیکھ کے ٹھٹکنے والوں میں سے ایک تھی۔
پہلے پہل تو وہ ٹھٹکی پھر اُس کی طرف بڑھ گئی۔ اُس کے پاس پہنچنے پر پرِیا مزید حیران تھی۔ کبھی وہ قدرت کے اُس شاہکار کو دیکھتی اور کبھی اپنے شاہکار کو۔ فیصلہ کرنا بہت آسان تھا کہ قُدرت کا شاہکار بے مِثال تھا۔اس کے قریب پہنچ کر وہ یک ٹک اس معصوم سے چہرے و دیکھنے لگی۔ یوں دیکھنے پر وہ لڑکی پہلے تو چونکی،اسے دیکھا اور پِھر آگے بڑھنے لگی۔
پرِیا نے اُسے آگے بڑھنے سے روکا۔ “ایکسکیوز می۔”
وہ لڑکی ٹھٹک کر رُکی اور سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگی۔
” یہ پینٹنگ دیکھ رہی تھیں آپ۔” پرِیا نے بات شروع کرنے کی غرض سے شُستہ انگریزی میں پُوچھا۔
“جی۔” اُس نے ہلکی مُسکراہٹ کے ساتھ جواب دِیا۔
“ہاؤز اِٹ(کیسی تھی)؟؟” لڑکی کی مُسکراہٹ سے پرِیا کا حوصلہ بڑھا تھا سو اگلا سوال کر ڈالا۔ لڑکی نے کوئی جواب دینے کی بجائے ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے دیکھا۔ پرِیا حیران ہوئی کہ اِتنا اِشتیاق اور بس ایک مسکراہٹ؟؟
” یعنی آپ کو میری پینٹنگ اچھی لگی ۔ تھینک یُو سو مچ آپ نے تعریف نہیں کی مگرمجھے اچھا لگا۔” پرِیا کُھل کے مُسکراتے ہوئے بولی تو سامنے والی لڑکی حیران ہوئی۔
“آپ پرِیا رِتیش ہیں؟؟” اُسنے پُوری آنکھیں کھول کے سوال کیا۔
“جی با لکل میں پرِیا رتیش ہی ہوں۔” پرِیا نے بھرپُور مُسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ جبکہ مقابل کا چہرہ ایکسائٹمنٹ سے روشن ہوا تھا۔
“آپکی پینٹنگز بہت اچھی ہوتی ہیں۔ یہ تیسری ایگزیبیشن ہے آپکی جو میں اٹینڈ کر رہی ہوں۔” وہ لڑکی ہلکے جوش کے ساتھ بتانے لگی تھی جبکہ پرِیا خوش تھی کہ آخر اس نے لڑکی کو بولنے پر مجبور کر دیا تھا۔
“آپ میٹریل کونسا اِستعمال کرتی ہیں؟ سب بہت نیچرل لگتا ہے۔” یہی پرِیا کے مطلب کا سوال تھا اور وہ نان سٹاپ شروع ہو چُکی تھی۔
بات ختم ہوتے ہی لڑکی کو جانے کی جلدی تھی اور پرِیا الگ ہوتے ہوئے اُس سے ایڈریس لینا نہیں بھولی تھی۔ہاں اگر بھولی تھی تو وہ جو آج کے زمانے کی اہم ضرورت ہے۔۔
اس کا رابطہ نمبر۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ لاہور ڈیفنس کا ایک پوش علاقہ تھا جہاں اس وقت ہر طرف خاموشی سی طاری تھی۔ فروری کا ٹھنڈ کو وداع کرتا ہوا موسم ، سورج تپش اور ہوا کی خنکی۔۔۔
ایسی ہی خنکی کچھ دلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی۔ ایسے میں جمال صاحب اپنی اسٹڈی سے نکلے تو عائشہ بیگم کو اپنا مُنتظر پایا۔
“جی بیگم صاحبہ! چائے کا وقت ہوا چاہتا ہے کچھ اِنتظام ہے بھی کہ نہیں؟” اُنہوں نے مُسکراتے ہوئےپُوچھا۔وہ ہمیشہ یوں ہی اچھے موڈ میں پائے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی شادی کے اتنے سال میں ایک بھی بار عائشہ بیگم نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی تھی۔ یہی تو خوبی ہوتی ہے ایک اچھے مرد کی کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ معاملات میں کیسا ہے۔۔
“چائے تو تیار ہے آپکا ہی اِنتظار تھا۔” عائشہ بیگم اُنہیں دیکھتے ہی اُٹھ کھڑی ہوئیں۔
“عائشہ یُوں کیجئےباہِر لان میں آ جایئے۔ یہاں کچھ گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے۔” یہ کہتےہوئے وہ باہر کی طرف بڑھ گئےجبکہ عائشہ ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئیں ۔اولاد کی بے رُخی نے اُن میاں بیوی کو توڑ کے رکھ دیا تھا۔ خود کو خوش ظاہر کرنے کو بہانے ڈھونڈنے پڑتے تھے۔
عائشہ چائے لان میں لے گئیں۔
“عائشہ کتنے دن ہو گئے صاحب زادے نے رابطہ نہیں کیا۔” جمال صاحب دور دیوار پر نظر جماتےہوئے بولے۔
“آپ دل بُرا نہ کریں۔ آپ کومعلوم تو ہے وہ مصروف ہوتا ہے۔”عائشہ نے انہیں روزانہ کی طرح تسلی دی۔
“ہوں۔۔۔ یوں کریں یہ لیں موبائل۔ کریں بیٹے کو کال۔۔ دیکھ لیں مصروف ہے بھی کہ نہیں”جمال صاحب نے انہیں موبائل پکڑاتے ہوئے کہا تو عائشہ نے آس اور یاس کے درمیان ڈولتے ہوئے بیٹے کا نمبر ملایا مگر ہر بار کی طرح دوسری طرف سے فون نہیں اُٹھایا گیا تھا۔ اُنہوں نے جمال صاحب کی طرف دیکھا جو اُنہیں طنزیہ مُسکراہٹ کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ اِسی اثناء میں فون کی گھنٹی بجی تو عائشہ کِھل اُٹھیں۔
لیکن اسکرین پر موجود نمبر دیکھ کر مایوسی نے اُن کا احاطہ کر لیا۔ فون اُنکی بہن سعدیہ کی طرف سے تھا۔
چنگا ویلا موڑ دے سائیاں
تینوں کیہڑی تھوڑ وے سائیاں
وہ فون پر مصروف ہوئیں تو جمال صاحب غور سے اُن کی باتیں سُننے لگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“ہائے نینی میں کیا بتاؤں مجھے آج کیا ملا” وہ بہت پُرجوش انداز میں اپنی آیاـــ جنہیں وہ نینی کہتی تھی ـــ بتانے لگی۔
“کیا دیکھ لیا بھئ مادام پرِیا رِتیش نے” نینی نے ہلکے پُھلکے انداز میں اُس سے پُوچھا۔
” ایک لڑکی دیکھی” پرِیا نے فوراً سے آنکھیں مٹکاتے ہوئے جواب دیا جس پر نینی نے ایک بے ساختہ قہقہہ لگایا تھا۔
“ہا ہا ہا۔ ۔ ۔ تم نے ایک دیکھی؟ میں نے تو بھئ آج بہت سی دیکھیں ، پارک میں بھی باہر وہاں جنرل سٹور میں بھی اور مِسز جارج کی نواسی بھی دیکھی آج تو” وہ تقریباً مزاحیہ انداز میں گویا ہوئیں ۔ایسے ہی تو زندگی گزر رہی تھی ۔ ایک دوسرے کا دل لگانے کو عام سی بات کوبھی مزاح کا رخ دے کر۔۔
“نینی!” وہ چِڑ چُکی تھی۔سلونے ماتھے پر تیوری ڈال کر انہیں دیکھنے لگی۔ اُنہوں نے حتی المقدُور خود کو سنجیدہ ظاہر کیا۔
“میں نے واقعی دیکھا۔ شی واز سو ایلیگنٹ ” پرِیا نےڈونٹس بھرے منہ کے ساتھ ہلکے سے جوش سے بتایا۔
“اور نام کیا تھا بھئ” نینی اب متوجہ ہو چُکی تھیں۔ جبکہ پرِیا جو ابھی بھی مُسلسل ڈونٹس کُترتے ہوئے تفصیل جاری کر رہی تھی، فوراً چونکی اور اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی۔
“اوہ شِٹ شِٹ شِٹ! نام تو میں پُوچھ ہی نہیں سکی” وہ اب گھومتے ہوئے اِس بات پر افسوس کررہی تھی۔ نینی نے ایک بار پِھر سے مُسکراہٹ چھپائی تھی۔
“لیکن میں نے ایڈریس لے لیا تھا۔ میں اُس سے ملوں گی” اب کہ وہ مُسکرا رہی تھی۔ اور نینی سوچتی نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھیں کہ کبھی دوست نہ بنانے والی اب خود کسی سے مِلنے جانے والی تھی۔ ایک طرح سے یہ ایک خوش آئیند بات تھی مگر مِسٹررِتیش کو مطلع کرنا بھی ضروری تھا۔
“چلیں اب آپ ڈِنر کی تیاری کریں میں فریش ہو کے آئی۔” یہ کہہ کر وہ اندر کمرے کی طرف چل دی جبکہ نینی مِسٹر رِتیش کو خوشخبری سُنانے کو فون لے کر کھڑی ہو گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چاند کی مٹی سے ہوا؟
چاند کی زمین کی طرح کوئی فضا نہیں۔ زمین کی فضا میں کئی گیسیں ہیں جن میں سے ایک آکسیجن...