وہ دونوں کچھ وقت بعد پرانے کھنڈرات کے قریب پہنچے ۔۔ یہ جگہ شہر سے کئی کلو میٹر دور ویرانے میں واقع تھی ۔۔ کھنڈرات میں زیر زمین اترنے کے بعد وہ دونوں لفٹ کے ذریعے کئی فٹ نیچے چلے گئے ۔۔۔جہاں ایک نیا جہاں آباد تھا ۔۔۔ لفٹ سے گزر کر وہ لوگ کشادہ گرائونڈ پار کرنے بعد لائونج نما کمرے میں آرکے ۔۔۔جہاں پرجیکٹر ، کئی جدید مشینیں ، کبڈ میں سجا اسلحہ، بارود نئے پرانی تکنیکی آلات اور نوٹس بورڈ پر مشن سے ریلیٹڈ واقعات کو اٹیچ کیا گیا ۔۔۔ لائونج کسی انسانی نفوس سے عاری تھا ۔۔
ہاں کسی وجود کے سانس لینے کا احساس بروقت ہوا۔۔
جن پر صرف نایا چونکی ۔۔
وہ آفیسر اور جاسوس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اینالسٹ بھی تھی ۔۔۔
یہ اسکی غیر معمولی قابلیت اور تربیت کا اثر تھا ۔۔۔
وہ اُن چیزوں کو بھی محسوس کر سکتی تھی ۔۔۔
جو عام انسان کے گماں سے بھی پرے تھیں ۔۔
کیا ہوا ؟؟؟
دائم اسکے چونکنے پر چونکا تھا ۔۔۔
یہاں ہم دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا بھی ہے !
وہ اطراف میں نگاہ ڈالتی ہوئی بولی ۔۔۔
یہ سوال تھا یا جواب؟؟؟
دائم اندر ہی اندر محفوظ ہونے لگا ۔۔۔
جواب….یہاں کوئی تیسرا بھی ہے ، میں محسوس کر سکتی ہوں ! نایا نے باور کروایا ۔۔
ہمارے علاوہ یہاں قاسم ہے !
وہ اسکی صلاحیتوں کو ‘ٹیسٹ’کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے بولا ۔۔ اور دیوار کے دائیں طرف لگی مشین پر کوڈ ڈائل کرنے بعد دروازہ سرکا کر اندر چلا گیا ۔۔ نایا بھی اس تاکید میں آگے بڑھی ۔۔۔
کیسے مزاج ہیں جناب کے ؟؟؟
وہ تنز سے بھرپور لہجے میں کہتا ہوا اسکے سر سے کپڑا اتارنے لگا ۔۔۔
تم پھر آگئے ! بہت ڈھیٹ انسان ہو مگر ایک بات یاد رکھنا تم مجھ سے کچھ اگلوا نہیں پائو گے
وہ دانت پیس کر بولا ۔۔ اور ایک حیرانی سے بھرپور نگاہ نایا پر ڈالی ۔۔۔
جو آگ بھڑکا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ کے اسے گھور رہی تھی ۔۔۔
کیا کرنے والے ہیں اسکے ساتھ؟؟؟ نایا اسکے پیچھے آئی جو لیپ ٹاپ پر ایک نظر ڈال کر سم اور فون اٹھا رہا تھا ۔۔۔
اسکے لواحقین کو بلانا پڑے گانا !! اُن کے بغیر ہم آخری رسومات بھلا کیسے ادا کر سکتے ہیں ؟؟؟ کیوں قاسم ؟ ملنا چاہو گے اپنے کمانڈر سے !
نایا کی اوٹ سے جھانک وہ زہر خند لہجے میں بولا ۔۔اور فون کان سے لگا کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
کیسے مزاج ہیں کمانڈر ! آپ جناب کے ؟؟؟
وہ مسخرانہ لہجے میں کہتا ہوا ۔۔۔
شیلف سے اوزار اٹھا کر قاسم کے سامنے براجمان ہوا ۔۔
یہ سب چھوڑو ، تم اپنے لاپتا جانیشن کے بارے میں جاننا چاہو گے یقینا!!!
دائم نے اوزار قاسم کی انگلیوں میں دبا کر گرفت تنگ کردی ۔۔۔ وہ درد چلا اٹھا ۔۔۔ کمرے کے در و دیوار اسکی درد ناک آوازوں سے لرز اٹھے ۔۔.
کمانڈر ! بچائیں مجھے ، خدا کے لئے بچائیں مجھے کمانڈر ،، میں ٹارچر اور نہیں سہہ سکتا !
وہ فربہ روانی سے منتیں کرنے لگا ۔۔۔ دائم کے اگلے اشارے پر نایا نے اسکا منہ دوبارہ مفقل کردیا ۔۔۔
اب سنو کمانڈر ! میرے پاس تمہارے لئے ایک شاندار آفر ہے !اگر اپنا جانشین چاہیئے تو سفیر کی بیٹی لاکردو ! ہم آج شام بارڈر پر تمہارا کریں گے ، اگر سفیر کی بیٹی ہمیں نہیں ملی تو اپنے جانشین کو بھول جانا !
سخت گیر لہجے میں وارننگ دے کر دائم نے کال کاٹ دی ۔۔ وہ کیا کرنا چاہ رہا تھا ؟ نایا سمجھ نہیں پائی ۔۔ پوچھنا بھی اس نے مناسب نہیں سمجھا ۔۔۔ جنرل کے مطابق اسے ابھی انتظار کرنا تھا ۔۔
____________________________________
صبح ناشتے کے ٹیبل پر تقریبا گھر کے سب ہی مکین موجود تھے ۔۔۔ روشن اور رومیشا ڈائننگ ٹیبل ترتیب دے رہیں تھی ۔۔ شاکرہ بیگم اور نصیبہ پھپھو بھی ان کا ہاتھ بٹا رہی تھی ۔۔
یہ یوسف آج کل کہاں غائب رہتا ہے ! فیکٹری میں مزدوروں کی شکایتوں کا انبار لگا ہوا ہے اور موصوف ہیں کہ سارا سارا دن غائبانہ سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں ، کم از کم فیکٹری کے معملات تو نپٹا دیا کرے ، یہ کام بھی بوڑھے باپ کے کندھوں پر ہے اب ! یوسف نے بہت مایوس کیا ہے مجھے !
شاہین سہگل صبح صبح یوسف پر برس رہے تھے ۔۔
برہمی سے کرسی کھینچ کر ڈائننگ پر بیٹھ گئے
شاکرہ بیگم نے فورا سے ناشتے کی ٹرے انکے سامنے دھری ۔۔ شکر ہے کوئی تو میرا ساتھ دینے اس میدان میں اترا ، ورنہ مجھے تو لگا تھا کہ اس گھر معزز ترین مکینوں کو میں اکیلا ہی مایوس کر رہا ہوں !
اپنے ازلی کٹیلے لہجے میں فاتح نے جملے میں تنقید لپیٹ کر سب کو دے ماری ۔۔۔
حد ادب فاتح ، یوسف تم جیسے نالائق سے کئی گنا بہتر ہے میری نظر میں۔۔
شاہین صاحب نے ناگوار اور غصے کا برملا اظہار کیا ۔۔
ہونہہ ۔۔ آپ کی بلند نظروں کا تو کیا ہی کہنے
اس نے براہراست باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔ فاتح بس کرو وہ پہلے ہی غصے میں ہیں ۔۔
شاکرہ بیگم نے گھبرا کر دبہ دبہ غراتے ہوئے فاتح کو آنکھیں دکھائیں ۔۔
ٹھیک ہے ، اس بار بھی آپ میرا منہ بند کروانے میں کامیاب رہیں اماں ،
وہ خاصا چڑ کر کہتا کھانے میں مگن ہوگیا ۔۔
شاہین صاحب نے تحمل سے لب بھینچے اور کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔۔۔ سب لوگ خاموشی کی چادر میں دبکے ہوئے تھے ۔۔ فاتح کے علاوہ کوئی ان سے زبان درازی مول نہیں لے سکتا تھا ۔۔۔ ان کا رعب اور دبہ دبہ کسی کو بھی آنکھیں جھکا کر بات کرنے پر مجبور کر سکتا تھا
ناشتہ تو کرلیں بھائی !
نصیبہ پھپھو کا دل دکھا تھا ۔۔ یوں ناشتے کے ٹیبل پر بد کلامی انہیں پسند نہیں آئی تھی۔۔
کر لیا ناشتہ ، بس پیٹ بھر گیا میرا !
ناشتے کے بعد اسٹڈی میں ملو مجھے داماد!!!
وہ شعلے برساتی نگاہ فاتح پر ڈال کر واک آئوٹ کر گئے ۔۔۔ساتھ ہی تصور بھائی کو بھی ہدایت دی ۔۔
اپنی زبان پر قابو رکھو فاتح ، جو بد لحاظی پر اتر آئے تو بھول جاتی ہے کہ سامنے کس سے ہم کلام ہو تم !
شاکرہ بیگم نے شوہر کے جاتے ہی فاتح کو آڑے ہاتھوں لیا
بس کردیں اماں ، کیا غلط کہہ دیا کیا میں نے ؟؟؟ میں کچھ بھی کرلوں یہ بات تو طے ہے کہ بابا کی نظروں میں میری اوقات دو کوڑی ہی کی رہے گی ۔۔۔ لیکن وہ پچھتائیں گے دیکھنا آپ ۔۔۔ان کو خوش کرنے کے چکروں میں ایک دن میں بھی قبر میں چلا جاوں گا ! ابراہیم بھائی کی طرح !
ابراہیم کا حوالہ دے کر وہ انکے دل پر بری طرح سے چوٹ کرتا کانٹا پلیٹ میں پھینک تنفر سے چلا گیا ۔۔
شاکرہ کی آنکھیں لبالب پانیوں سے بھر گئیں ۔۔۔
نصیبہ پھپھو نے افسوس سے سر جھٹکا ۔۔۔
ابراہیم ہر دل عزیز تھا ۔۔ وہ اس گھر کے مکینوں کے سینے میں دل بن کر دھڑکتا تھا۔۔۔اسکی ناگہانی موت کا زخم کا وہ انجانے میں بری طرح سے کرید کر چلا گیا تھا۔۔۔
نوال کو فاتح سے اسے لمحے نفرت محسوس ہونے لگی ۔۔ آپ بیٹھ جائیں ممانی ، فاتح انتہائی سنگدل ہے کوئی نئی بات نہیں ! اسکا دماغ ہمیشہ اسی طرح خراب رہتا ہے
وہ انکا کندھا سہلانے لگی ۔۔
شاکرہ بیگم آنسو پونچھتی کمرے کی طرف بڑھی اب پھر انہوں نے ابراہیم کی تصویروں کو سینے سے لگا کر گھنٹوں اسے یاد کرکے آنسو بہانے تھے ۔۔۔
________________________________________
وہ دونوں گاڑی کی پشت سے ٹیک لگائے کھڑے انتظار میں تھے ۔۔۔
رات کے اس پہر اطراف میں گھپ اندھیرا تھا ۔۔ آسمان پر چاند اپنی جوبن پر تھا ۔۔۔ ٹھنڈی ہوا کے ساتھ کھیتوں کے لہلہانے کی سراسراہٹ سنائی دے رہی تھی ۔۔۔۔
اس دن۔۔۔ بارڈر پر تم تھے ؟؟
گہری خاموشی کو چیرتی ہوئی اس کی آواز دائم کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی ۔۔
ہوں… مشن پر تھا میں اس دن !
وہ عام سے لہجے میں بولا ۔۔
آ ۔۔۔ئی ۔۔۔ ایم ۔۔ سوری !
وہ کچھ جھجھک کر آہستگی سے بولی ۔۔۔
تمہارا نشانہ بہت کمال کا ہے آفیسر !
وہ جوابا بولا تھا ۔۔ جانے وہ تنز کر رہا تھا یا جتا رہا تھا کہ نایا نے اس پر گولی چلائی ۔۔ !!
اسے سمجھنے کا موقع نہیں ملا ۔۔۔
Hide , hide , hide !
دائم کی پرزور آواز پر وہ دونوں ہیڈلائٹس آف کرکے گاڑی کی اوٹ میں ہوگئے ۔۔ دور سے انہیں گاڑیوں کے آنے کی آوازیں آرہی تھی ۔۔۔ جو چوکی نما مقام پر رک گئیں ۔۔۔ دھیان سے سننا اب ، ہمیں ان لوگوں کو پندرہ منٹ یہاں روکنا ہے ، کسی بھی طرح !
اور تم مجھے کور (cover) دینا جب ان سے بات کرنے لگوں!دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے!
وہ کہتا ہوا پلٹ کر قاسم کو گاڑی سے نکال کر اپنے ساتھ گھسیٹنے لگا ۔۔
۔ نایا کی سمجھ سے بالاتر تھا وہ شخص کیا کرنا چاہ رہا تھا ۔۔ چونکہ وہ دونوں متحد تھے اسلئے دونوں کو ایک دوجے کے فیصلوں پر ہر صورت عمل کرنا تھا ۔۔۔
وہ گنز پر مضبوطی سے انگلیاں جمائے درخت کے مضبوط تنے پر چڑھی ۔۔ اور گاڑی کی ہیڈ لائٹس میں ابھرتے ہیولیوں پر نشانہ تاکنے لگی ۔۔۔
مجھے نپٹنے دیں ان سے !
درباس ریلکیس انداز میں سر کو دائیں بائیں حرکت دیتا ۔۔ باہر نکل آیا ۔۔ جبکے کمانڈر نے اسٹرینگ پر انگلیاں مضبوط کردیں ۔۔۔
کہاں ہو تم ؟ہم لے تمہارے مطلوبہ شخص کو؟؟؟
تمہارے آس پاس ! دائم کا سایہ اندھیرے میں یکدم ابھرا وہ ان سے کچھ دوری پر تھا ۔۔
نایا کو ان کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھی ۔۔۔ لڑکی ؟؟؟ دائم کا لہجہ سخت گیر ہوا ۔۔۔
قاسم کدھر ہے ؟؟؟
درباس اپنے ازلی لاپرواہ انداز میں ہاتھوں کی انگلیاں چٹختا ہوا سرد لہجے میں بولا ۔۔.۔
قاسم بھی مل جائے گا ، پہلے لڑکی کا چہرہ دکھائو !
دائم بھی اسی کے لہجے میں بولا ۔۔۔ درباس نے اپنے قدموں کو زحمت دیتے ہوئے آگے بڑھا اور انتہائی سفاکی سے کسی عبائے میں ملبوس عورت کو گھسیٹ کر اسکے سامنے پھینک دیا ۔۔ دائم محتاط سا ہوکر پیچھے ہٹ گیا۔۔
چہرہ دکھائو اس عورت کا !
اس نے غصے سے کہا ! اسے یقین نہیں تھا کہ وہ شزانہ ہو سکتی ہے اور وہی ہوا ۔۔۔
درباس نے بے دھڑک فائرنگ شروع کردی ۔۔۔ کمانڈر بری طرح سے چونکا ۔۔۔ فضا میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دینے لگی ۔۔۔دائم لمحے ضایع کیئے بغیر منظر سے غائب ہوگیا ۔۔
نایا بری طرح چونکی ۔۔۔
اسکی جانب سے برسنے والی گولیوں سے درباس جھک کر اپنا بچائو کرتا گاڑی میں سوار ہوا ۔۔۔
قاسم کہاں ہے ؟؟؟
کمانڈر حواس باختہ ہوکر سوال کرنے لگا ۔۔
چلو یہاں سے نکلو ! جلدی ۔۔۔
وہ چیخا ۔۔۔
قاسم کہاں ہے ؟؟؟
قاسم گیا بھاڑ میں ! اپنی جان بچانی ہے چلو یہاں سے !
وہ دھاڑا ۔۔ گولیوں کے برسنے کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں ۔۔ ایسا لگ رہا تھا کوئی ٹریگر پر انگلی رکھ کر اٹھانا بھول گیا ہو۔۔۔
کمانڈر نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے گاڑی گھمائی اور اسپیڈ بڑھادی ۔۔۔
کچھ دور آنے کے بعد کمانڈر نے گاڑی روک دی ۔۔
جب بات چل رہی تھی تو تم نے گولی کیوں چلائی درباس ؟ کمانڈر چلا اٹھا ۔۔
درباس کا دل کیا بندوق کی ساری گولیاں کمانڈر کے حلق میں اتار دے۔۔
کیونکہ وہ قاسم نہیں تھا ، اگر میں پہل نہ کرتا تو تم بھی یہاں نہ ہوتے کمانڈر !
اکڑ کر کہتا احسان جتا گیا تھا ۔۔
بکواس بند کرو ، تمہیں کیسے پتا وہ قاسم نہیں تھا ؟؟؟ کمانڈر کو اسکا لہجہ بلکل نہ بھایا ۔۔۔
بلکل اسی طرح جس طرح تم اور میں لڑکی کو لانے میں ناکام رہے اسی طرح وہ بھی قاسم کو نہیں لایا ، اس نے صرف ہمارا وقت برباد کیا اور کچھ نہیں !
درباس نے بہت تحمل سے جواب دے کر گاڑی کا دروزہ کھولا اور باہر نکل آیا ۔۔۔ کمانڈر سوچ میں پڑ گیا تھا ۔۔۔
اس سب کا کیا مقصد بھلا ۔۔۔ ؟؟
پھر اس کے دماغ میں جھماکا سا ہوا ۔۔۔ انکا ٹھکانہ ؟؟؟ ہاں ! ان کی رہائش خطرے میں تھی ، انہوں نے اسے یہاں بلایا تاکہ رہائش پر چھاپا مار سکیں ۔۔۔
آہ درباس !!! آہ درباس !!! ہم برباد ہونے والے ہیں
کمانڈر انہونی کے تحت بڑبڑایا ۔۔
اب کیا ہوگیا ؟؟؟
وہ پلٹ کر ناگواری سے پوچھنے لگا۔۔
گاڑی میں بیٹھو احمق ،
اس بدذات نے ہم دونوں کو بے وقوف بنایا ! گاڑی میں بیٹھو ہمیں جلد سے جلد واپس پہنچنا ہے !
کمانڈر تشویش ناک حالت میں چیخا ۔۔۔
درباس کا دل کیا سب کچھ تہس نہس کردے ۔۔
کوئی اور وقت ہوتا تو وہ سب سے پہلے کمانڈر کا منہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کروا دیتا ۔۔
کیونکہ اسے ‘آرڈرز’ دینے والے پسند نہیں تھے ۔۔۔
___________________________________
کئی گھنٹے خار دار جھاڑیوں میں دبک کر گزارے ۔۔
ھانی کے لوگوں پہرہ ابھی بھی اس قصبے پر تھا ۔۔
اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا زندگی میں ایسا موڑ بھی آئے گا جب اسے اپنا محل نما رہائش چھوڑ کر جانا پڑے گا، وہ ملک بدر ہوجائے گی ۔۔۔ بھوکی پیاسی ۔۔ خستہ حال
اس نے دکھ سے جلتی آنکھوں کو زوروں سے مسلا اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔ یک دم آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا ۔۔ اس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا ۔۔۔ پیاس کی شدت سے اسکے گلے میں کانٹے چھبنے لگے ۔۔۔ پیر سوجن کا شکار تھا ،اسکا دو قدم چلنا بھی محال تھا ۔۔۔ اعصاب شل ہورہے تھے ۔۔۔لیکن اسے کسی بھی طرح یہاں سے نکلنا تھا بس ۔۔۔ شام کے سائے گہرے ہورہے تھے ۔۔۔ رات ڈھلنے تک اسے کسی بھی طرح گائوں پہنچ کر امداد حاصل کرنی تھی ۔۔۔ تاکہ آگے کا سفر طے کر سکے ۔۔۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ اسے اپنی کمر پر دبائو محسوس ہوا ۔۔۔
ایک پل کو اسکی سانس تھمی ۔۔۔
اس نے آہستگی سے رخ موڑا تو نقاب پوش بندوق کی لمبی نال اس پر تانے بس تیار کھڑا تھا ۔۔۔
شزانہ کی رہی سہی ہمت اور حوصلہ بھی ٹوٹ گیا ۔۔۔
اب وہ نہیں بھاگے گی ، زندگی کا انجام آخرکار موت تھا ۔۔۔ اور پھر وہ تو ٹوٹ کر ہاری تھی ۔۔۔ باپ شہید ہوچکا تھا ! بھائی کی کچھ خبر نہیں تھی ! وہ ملک بدر ہونے پر مجبور تھی ! مرنا ہی بہترین آپشن تھا ۔۔۔ کیا کرے گی جی کر !!!! اس نے آہستگی سے پلکیں میچ لیں ۔۔۔
آنسو پلکوں باڑ توڑ کر اسکے گالوں سے پھسلنے لگے
دوپٹہ سر سے پھسل گیا ، گھنگھرالے بال چہرے پر جابجا چمٹنے لگے ۔۔۔ اسکے چہرے پر قیامت کا سا دکھ تھا ۔۔۔
وہ خود کو موت کے منہ میں تصور کر رہی تھی !
ستم تو یہ تھا کہ مزاہمت کرنا بھی اس نے چھوڑ دیا تھا ۔۔۔ کون ہو تم ؟؟؟؟ اور کیا کر رہی یہاں ؟؟؟ لڑکی؟؟؟؟
ضعیف شخص نے اسکا کندھا جھنجھوڑا۔۔۔
وہ کسی بے جان گڑیا کی طرح بے ہوش ہوکر بوڑھے ضعیف کے قدموں میں گر گئی ۔۔۔
اس شخص نے گھبرا کر اسکی نبض ٹٹولی جو نارمل چل رہی تھی ۔۔۔ قدموں کی آہٹ پر اس نے تیزی سے اسے گھنی جھاڑیوں کی اوٹ میں دھکیلا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
یہاں بھی نہیں ہے !
بلند آواز میں خبردار کرتا وہ اپنے ساتھیوں سے جا ملا ۔۔۔
___________________________________
پورے گھر میں نوال کے سسرالیوں کی آمد کے متعلق چہ مگوئیاں ہو رہی تھی ۔۔۔ روشن کا ‘روشن’ خیال یہ تھا کہ اب کی بار وہ لوگ آئے تو منگنی کرکے ہی دم لیں گے !
سہی کہہ رہی ہو تم ، جتنی گندی نظروں سے وہ ہماری نوال کو گھور رہا تھا ، مجھے نہیں لگتا یہ منگنی زیادہ دیر رہنے والی ہے !
تاشا نے انگور پھانکتے ہوئے لقمہ دیا ۔۔۔
تم لوگ پلیز اپنی بکواس بند کروگے ؟
نوال نے کئی لمحوں سے جاری شادی نامے سے زچ ہوکر آخر کار کہہ ڈالا ۔۔
نہیں میری جان ، نہیں ہوسکتی …اب جب تک تمہارے ہاتھ پیلے نہ کروا دوں مجھے سکون نہیں ملے گا !
تاشا کو اسکا تپا پوا چہرہ مزا دینے لگا. ۔۔۔
بھاڑ میں جائو ! وہ چڑ کر بولی ۔۔
اور تم اپنے ہزبینڈ کے ساتھ ہنی مون پر جائو !
تاشا نے اسے مزید تپایا ۔۔۔
نوال کا چہرہ دیکھنے لائق تھا ۔۔۔ وہ لال بھبھوکا چہرہ لئے اپنے کمرے میں آگئی ۔۔۔
ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے آنسو متواتر اسکی گالوں پر بہنے لگے ۔۔۔ کاش میں تمہارا نام اپنے دل کھرچ کر نکال پاتی فاتح !
اس نے ازیت سے آنکھیں میچ لیں ۔۔۔
فاتح اور اسکا میل کسی طور ممکن نہیں تھا ۔۔۔
امی کو فاتح سخت نا پسند تھا ۔۔۔ وہ بارہا جتا بھی چکی تھی کہ انہیں شاہین ماموں کی ٹوٹی پھوٹی حالت سے کتنا افسوس ہوتا ہے ! فاتح انتہا کا سنگدل اور من مانی کرنے والا شخص تھا ۔۔۔ اور سب سے بڑی بات وہ خود اسکے وجود سے انکاری تھا ۔۔۔ اور اب منگنی والا جھمیلا ۔۔۔ سوچتے ہی اسکے آنسوئوں میں مزید شدت آ گئی ۔۔
نصیبہ پھپھو کمرے میں اسے مہمانوں کی آمد کے متعلق آگاہ کرنے آئیں تھیں ۔۔ اسے روتا دیکھ کر انکا دل بھی بھرا گیا ۔۔۔
اب تمہیں کیا ہوا نوال ؟؟؟؟
بظاہر سختی سے دریافت کیا ۔۔.
اماں مجھے یہ شادی نہیں کرنی !
وہ تو جیسے انہی کے انتظار میں تھی لمحہ ضایع کیئے بغیر انکے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رودی ۔۔
پل بھر کو تو نصیبہ پھپھو گھبرا گئی ۔۔۔
ہوا کیا ہے ؟؟؟ رو کیوں رہی ہو یوں پاگلوں کی طرح؟؟؟ نصیبہ پھپھو پریشان ہونے لگیں ۔۔۔
اماں مجھے یہ شادی نہیں کرنی بس!
وہ بچوں کے سے انداز میں بولی ۔۔
لو بھلا یہ کیا بات ہوئی؟؟ تمہیں رامس نہیں پسند آیا ؟؟؟ وہ خفگی سے پوچھنے لگیں ۔۔
رامس اچھا ہے اماں ، پر مجھے ابھی شادی نہیں کرنی !
نم لہجے میں گزارش کرنے لگی ۔۔۔
ابھی نہیں تو کبھی تو کرنی ہے نا میری جان ، میں چاہتی ہوں ہبا کہ طرح تمہارے بھی فرض سے سبکدوش ہوجائو ، ورنہ سانسوں کو کیا بھروسہ !
وہ رسان سے سمجھانے لگیں ۔۔
اللہ آپ کو لمبی عمر دے ، آپ ایسی باتیں کیوں کر رہی ہیں ! وہ ناراضگی سے گھورتی ان سے لپٹ گئی ۔۔۔
بس میں چاہتی ہوں ، تمہیں بھی ہبا کی طرح سلجھا اور نیک شوہر ملے ! ماشااللہ رامس بہت اچھا بچہ ہے!
اسے یوں بے سبب انکار کرنا بھی غلط ہے !
نوال کی آنکھوں میں پھر سے آنسو چکمے ۔۔۔
چلو شاباش اب اچھا سا تیار ہوکر نیچے آجائو !
آجکل میں منگنی کا کہہ رہے تھے شاہین بھائی ۔۔ ان کو انکار کرنا میں نے مناسب نہیں سمجھا البتہ نکاح کے لئے ہم کچھ وقت مانگ لیں گے !
وہ اسکے سر پر بوسہ دے کر باہر نکل گئی ۔۔۔
نوال نے اپنی جلتی آنکھوں کو زور سے رگڑا ۔۔۔
اور لائٹ کلر کا سوٹ لے کر واشروم میں گھس گئی ۔۔فاتح کے لئے آنسو بہانا اب بیکار تھا ، اگر وہ اپنی محبت فاتح پر آشکار کر بھی دیتی تو کیا ہوتا ، اماں کو ‘وہ’ نا پسند تھا ، اور ‘اسے’ نوال !
دونوں صورتوں میں نقصان اسی کا تھا ۔۔۔
اسلئے وہ فاتح کے بغیر ہی بھلی تھی ۔۔۔ صبح والی بد لحاظی نے اسکے اندر تلخ سا احساس بھر دیا تھا ۔۔ جو شخص سگے رشتوں کی محبت کا احترام نہیں کرسکتا ، وہ نوال کو کس کھاتے میں ڈالے گا !!!
___________________________________
گولی پہلے کس نے چلائی تھی ؟؟؟
وہ ڈرائیونگ میں مصروف تھا جب نایا کی آواز پر چونک کر اسے دیکھا ۔۔
یہ میٹر نہیں کرتا ! مختصر سا جواب ملا ۔۔۔
آف کورس میٹر کرتا ہے ، اگر وہ لوگ مطلوبہ لڑکی لائے تھے تو ہمیں گولیاں برسانے کی ضرورت نہیں تھی ،
بلکے ہم انکا پیچھا کرکے آسانی سے پکڑ سکتے تھے !
نایا نے احتجاج کیا ۔۔
اگر وہ لڑکی لائے ہوتے تو ،
دائم نے قدرے روکھے لہجے میں جواب دیا ۔۔
نایا کو برا لگا تھا اسکا انداز ۔۔ اس نے ابھی مشن کے منصوبے تک رسائی حاصل نہیں کی ۔۔ اسلئے اسکا خاموش رہنا ہی بہتر تھا ۔۔
اسٹاپ دا کار !
وہ مین روڈ پر ہی اترنے کا ارادہ رکھنے تھی۔۔
دائم چاہنے کے باوجود کچھ کہہ نہ پایا ۔۔ اس نے گاڑی روک دی ۔۔ وہ خاموشی سے باہر گئی ۔۔ اسکے جاتے ہی دائم نے اس شخص کے ہاتھ پیر کھول دیئے جسے وہ قاسم بنا کر لائے تھے ۔۔ جو سڑک پر چلتا ہوا غائب ہوگیا ۔۔ دائم نے بھی گھر کا رخ کیا ۔۔.
________________________________
نوال نے ہلکے پیچ رنگ کا لباس زیب تن کرنے کے بعد برائے نام سا کلوس لگا کر کاجل کی دھاری آنکھوں میں لگائی ، اور مسکارے سے پلکیں سنوار کر دوپٹہ کندھوں پر پھیلا لیا ۔۔ پھر کچھ سوچ کر کندھوں سے ہٹایا اور سلیقے سے سر پر جما لیا ۔۔۔ رامس کی نظروں سے اسے ویسے بھی خار تھی ۔۔۔ اپنے کمرے سے نکل کر اس نے لائونج میں محو گفتگو مہمانوں کا رخ کیا ۔۔۔
اسلام و علیکم !
اسکے مشترکہ سلام پر سب اسکی جانب متوجہ ہوئے ۔۔۔ رامس نے تو گویا اپنی نشست چھوڑ اسکا استقبال کیا ۔۔۔ رامس کے انداز پر نوال کے تاثرات دیکھ کر تاشا نے زبردستی لبوں پر ہاتھ جماکر ہنسی روکی۔۔۔
سرخی مائل چمکتی گوری رنگت ،گہری کالی مسکراتی آنکھوں پر سایہ فگن لانبی پلکیں دوپٹے کے حالے میں اسکا سراپا دمک رہا تھا ۔۔۔ رامس اپنی جگہ فاتح خود آنکھیں جھپکنا بھول گیا تھا۔۔۔
وہ بے دھیانی میں اسے دیکھے گیا ۔۔۔ بھول چکا تھا ؟ کہاں ؟ کن لوگوں کے بیچ بیٹھا ہے ۔۔۔
بہت پیاری لگ رہی ہو ماشااللہ !
ساس صاحبہ نے کھلے دل سے تعریف کی تو نوال جھینپ گئی ۔۔۔ اوپر سے فاتح کی نظریں اسے ازیت و ناگواری کی کیفیت سے دو چار کر رہی تھی ۔۔۔
حیران کن بات تو یہ تھی وہ یہاں موجود تھا.. کیوں آخر ؟
شاہین ماموں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے پاس بٹھا لیا ۔۔۔
یہ فاتح بھائی کو کیا ہوگیا آج ؟؟؟؟
تاشا کو خوشگوار حیرت ہوئی ۔۔ اس نے بھی فاتح کی نظروں کا نوٹس لیا تھا۔۔
شششش! یہ چائے صرف کرکے آئو مہمانو کو !
روشن کی آواز پر وہ دانت پیس کر اسکی طرف بڑھی ۔۔۔ تمہیں میں ملازمہ دکھتی ہوں ، یہ جوڑا دیکھو ؟؟ پورے دس ہزار کا خریدا ہے ‘زارا’ سے ! یہ جوڑا پہن کر میں چائے صرف کروں ! اب اتنی بھی خاندانی نہیں ہوں میں !
تاشا دبہ دبہ غرائی
شکل سے لگتی بھی نہیں ہو,
آگے بھی روشن تھی ۔۔۔لگی لپٹی رکھے بغیر بولی ۔۔
تاشا بیٹا ؟؟ کیا مسلہ ہے ؟؟
اماں مہمانوں کے بیچ بیٹھی تھی انکی کھسر پھسر سن کر بظاہر نارمل لہجے میں بولی ۔۔
کچھ نہیں اماں ، میں روشن کا ہاتھ بٹا رہی تھی ! لائو یہ مجھے دے دو !میں صرف کر آتی ہوں مہمانوں کو
بڑی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ دانت پیس کر روشن کے ہاتھوں سے ٹرے لینے لگی ۔۔۔
زیادہ بنو مت ، ورنہ بھری محفل میں پول کھول دوں گی تمہارا ! جو تم مہمانوں کے حصے کے کبابوں پر ہاتھ صاف کرکے آرہی ہو۔۔
وہ اسکے ڈھونگ پر دبہ دبہ کہتی واپس کچن میں چلی گئی ۔۔ روشن ہمیشہ ہی اپنے خیالوں میں روشن اور بے باک رہی تھی ۔۔ حالانکہ وہ نوکرانی کے بھیس میں مہارانی تھی اس گھر کی ۔۔۔ اور گھر والوں کو بھی کوئی دقت نہیں تھی ۔۔ کیونکہ خاندانی نوکر بھی انکی فیملی کا حصہ مانے جاتے تھے ۔۔۔ سب کو چائے صرف کرنے کے بعد وہ کپ فاتح جانب بڑھانے لگی ۔۔
مگر وہ نہ جانے کن سوچوں میں غلطاں تھا ۔۔۔
فاتح بھائی ؟؟کیوں علامہ اقبال کی تصویر کاپی کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں؟
تاشا نے دبی دبی سرگوشی کی ۔۔۔
وہ بری طرح چونکا نتیجا ہاتھ تاشا کے ہاتھ سے ٹکرایا اور گرم گرم چائے اسکے ہاتھ پر چھلک گئی۔۔۔
اماں تڑپ اٹھیں ۔۔ اپنی نشست چھوڑ کر پریشانی سے فاتح کے ہاتھ کا معائنہ کرنے لگیں ۔۔
کتنی بار کہا ہے آنکھیں کھلی رکھا کرو !
اماں نے اسے جھاڑ پلائی ۔۔ جبکے مہمان متوجہ نہ ہوسکے ۔۔ چونکہ وہ ان سے کچھ دوری پر الگ تھلگ سا بیٹھا تھا ۔۔ کچھ نہیں ہوا !
وہ سرد اور بے تاثر چہرہ لئے اپنا ہاتھ چھڑا کر کمرے میں چلا آیا ۔۔
جائو دیکھو اسے ، زرا سا کام بھی تم ڈھنگ سے نہیں کر سکتی !
اماں نے اسے جھاڑا ۔۔
میرا کیا قصور بھلا ، بے دھیانی ان کا ہی ہاتھ لگا تھا
تاشا پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی ۔۔۔
رامس کا محبت سے چور نظروں سے نوال کو دیکھنا ، اس پر نوال کا مسکرانا ۔۔۔ بار بار اسکے سامنے آنے لگا ۔۔۔
اس لمحے فاتح کا دل کیا اپنی ذات سمیت سب کچھ تہس نہس کردے ۔۔۔ ہر چیز کو آگ لگادے ۔۔۔ اسکی سرخ و سپید رنگت ضبط کے مارے لال پڑنے لگی ۔۔۔
نوال ۔۔۔ نوال ۔۔۔نوال !
وہ کنپٹیاں مسلتا کمرے میں چکر کاٹنے لگا ۔۔۔
اسکا دل اب نوال کے لئے مچلنے لگا تھا ؟
کیا ہوا بھائی…کیا کر دیا نوال نے ؟؟؟
کمرے کی چوکھٹ پر قدم رکھتی ہوئی تاشا نےاسکے الفاظ بخوبی سنے ۔۔ وہ اسے آئنمنٹ دینے آنے تھی ۔۔۔
میرا موڈ بہت برا ہے اس وقت تاشا ! بہتر ہوگا تم جائو یہاں سے !
وہ کاٹدار لہجے میں بولا ۔۔۔
بھائی میں جان بوجھ کر تو نہیں کیا نا !
وہ بس رو دینے کو تھی ۔۔۔
تاشاااااااا !!!
فاتح نےسخت لہجہ اپنایا ۔۔۔
تاشا آنسو پیتے آئمنئت اسکی ہتھیلی پر دھری اور باہر نکل گئی ۔۔ اسکے دلی جذبات سے قطعی بے خبر!
فاتح نے مٹھی میں دبوچی آئمنٹ زور سے دیوار پردے ماری ۔۔ جلن کے احساس سے اسکی آنکھیں تک سرخ پڑنے لگیں ۔۔۔ یہ سب اسکی برداشت سے باہر ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا سینے سے دل نوچ کر کہیں دور پھینک دے ۔۔ جسے پہلے تو نوال نظر نہیں آئی ، جب وہ کسی اور کی ہونے جا رہی تھی ۔۔۔ تو دل پل پل اس کی موجودگی کا احساس دلانے پر تلا ہوا تھا۔۔۔
دل کی صرف ایک ہی ضد تھی !
اسے بس نوال چاہیئے تھی۔۔
نوال محض اسکی لمحاتی طلب ہے’
وہ یہ سوچ کر اپنے دل کو نظر انداز کردینا کر چاہتا تھا ،، لیکن یہ اسکے لئے مشکل ترین ہوگیا تھا ۔۔۔ وہ جب جب اسکے سامنے آتی فاتح ہوش و خرد سے بیگانہ ہوجاتا !
اسے دل کے ہاتھوں اپنی شکست کسی صورت قابل قبول نہیں تھی ۔۔۔ وہ بھی تب جب نوال کے منہ سے انتہائی جملے سن چکا تھا اپنے متعلق !
اسے رونے دھونے والی نوال بلکل پسند نہیں تھی ، اسے کانفیڈنٹ وہ بولڈ قسم کے لوگ پسند تھے ۔۔ اپنی طرح !
وہ دل کے ہاتھوں اپنی انا مجروع نہیں ہونے دے گا ! قطعی نہیں !
ایک بار پھر سے نہ جانے کیا ابال سا اٹھا اسکے دل میں ….بیڈ کی پائنتی پر پڑا کمفرٹر اٹھا کر پلٹ دیا ۔۔۔ بیڈ شیٹ سمیت نفاست سے سجا کمرہ تہس نہس کردیا ۔۔۔ یہ بھی اسکے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے ناکافی تھا ۔۔ چابی اٹھائی اور باہر نکل آیا ۔۔۔
فاتح بھائی کو آئمنئت دینے گئی تھی ! انہوں نے مجھے بری طرح ڈانٹ دیا !
تاشا بے آواز آنسوئوں سے روتے ہوئے روشن کو اپنا دکھڑا سنا رہی تھی ۔۔ جبکے روشن بیچاری ٹشو کا ڈبہ تھامے اسے ایک کے بعد ایک ٹشو کھانے کی طرح پروس رہی تھی ۔۔
فاتح طویل سانس لے اسکی طرف بڑھا ۔۔۔
روشن اسے آتا دیکھ کر پہلی فرست میں رفو چکر ہوگئ ۔۔ جیسے بلی کے راستے کاٹنے پر انسان دوسرا رستہ بدلتا ہے ۔۔۔
تاشا نے اسے دیکھ کر رخ موڑ لیا ۔۔
اچھا میری طرف دیکھو تو سہی !
اس نے عادت کے برخلاف نرمی سے کہا ۔۔۔
سوری نا یار ! میں تم پر غصہ نہیں تھا قسم سے۔۔
وہ اپنے رویے کی صفائی دینے لگا ۔۔۔
تاشا نے ٹشو ناک پر رکھ اچھنبے سے اسے دیکھا ۔۔
فاتح بھائی اور صفائی ؟؟؟ ایسا ممکن ہے !
غصہ جس پر بھی تھے کیا فرق پڑتا ہے ، نکالا تو مجھ معصوم پر !
وہ ناک رگڑتی کاروائی جاری رکھتے ہوئے بولی ۔۔۔
اچھا بابا ، سوری بول تو رہا ہوں ! وہ اٹھا ۔۔ اور اسکے پیشانی پر لب رکھتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔۔
اس میں اب اور سکت نہیں تھی ۔۔وہ یہاں سے کہیں دور چلے جانا چاہتا تھا ۔۔۔
شششش ؟؟؟ روشن؟؟ یہاں آئو بھاگ کے ؟
وہ رونا دھونا بھول کر تشویش بھرے انداز میں روشن کو بلانے لگی ۔۔
فاتح بھائی نے مجھے سوری بولا ، کین یو بیلیو دیٹ !
وائو ۔۔۔۔ یہ قصہ ‘جینئیس بک آف ورلڈ ریکارڈ’ میں لکھا جائے گا ! فاتح شاہین سہگل نے اپنی زندگی میں پہلی بار تاشفین سہگل سے معافی مانگی !
روشن مخصوص انداز میں بولی ۔۔
ہیلو؟؟؟ نیوز پیپر ؟؟ اگر ہوگیا ہو تم دونوں کا تو کچن میں آئو مہمانوں کے کھانے کا وقت ہوگیا ہے !
رومیشا نے کچن کی کھڑکی سے جھانک کر کہا ۔۔۔ نیوز پیپر خاص طور روشن کے لیئے کہا گیا تھا ۔۔۔جو گھریلوں خبروں کو ایک سے دوسری جگہ پہنچانے میں ماہر تھی ۔۔رومیشا کی پکار پر دونوں منہ بسورتی ہوئی کچن میں جانے لگیں
کاوشیں فرہاد احمد فگار کیں
فرہاداحمد فگار کے بارے میں کیا کہوں کہ میں اسے کب سے جانتی ہوں کیوں کہ جاننے کا دعوا مشکل...