“شہوار!! اٹھو یار!! شانی بھائی جارہے ہیں ۔۔ہمیں چھوڑنے والا کوئی نہیں ہوگا پھر جلدی اٹھو! ” حوریہ اسکے کمرے میں آکر کالج کیلئے چلا چلا کر اٹھا رہی تھی مگر شہوار ٹ سے مس نہیں ہوئی
“اففف!! تم اٹھ رہی ہو یا نہیں؟؟” حوریہ بھرم سے اسکا کمبل اٹھا کر بولی
“یار!آج میرا موڈ نہیں جانے کا” وہ اپنے اوپر واپس سے کمبل ڈالتے ہوئے بولی
تم پاگل ہوگئی ہو؟؟آج اسائیمنٹ جمع کروانے کی لاسٹ ڈیٹ ہے شرافت سے اٹھ جاؤ۔۔۔ورنہ میں چلی جاؤں گی تم سوتی رہنا آرام سے” حوریہ نے اسکو ڈرانے کی کوشش کی
“ٹھیک ہے لیکن ہم رکشے یا ٹیکسی میں جائینگے مسٹر شایان کے ساتھ نہیں” شہوار اپنا فیصلہ سنا کر واشروم میں گھس گئی اور حوریہ اسکی بات کو پس پشت ڈال کر شایان کو ناشتہ دینے چلی گئی
کچھ دیر بعد وہ تیار ہوکر نیچے دادی کے کمرے میں آگئی وہ جانے سے پہلے دادی سے ضرور ملتی تھی انکی دعائیں اسے سکون دیتی تھیں۔۔۔وہ دادی سی مل کر باہر آئی سامنے صوفے پر حوریہ سینڈلز پہن رہی تھی
“چلو اب!جلدی جلدی لگا کر رکھی خود تیار نہیں ہو”شہوار نے چڑتے ہوئے کہا
ہاں تو میں تیار ہوں نا چلو! حوریہ کھڑی ہوگئی اور دونوں پورچ کی جانب چل دیں
شہوار گیٹ کی طرف بڑھنے لگی جب پیچھے سے شایان کی آواز آئی جو گاڑی میں بیٹھنے کو کہ رہا تھا۔۔شہوار کو حوریہ پر بہت غصہ آرہا تھا
)اسکو تو میں کالج جا کر پوچھتی ہوں)اس نے سوچا اور نوٹس نکال کر پڑھنے لگی اس بات سے بے خبر کہ کسی کی نظریں مسلسل اس پر جمی تھیں
__________________________
قیصر صاحب اور شاہینہ بیگم کی پسند کی شادی تھی۔انکی ایک بیٹی سمینہ اور تین بیٹے (اکرام،عثمان،مصطفی) تھے۔ سمینہ کی شادی انکے چچا زاد ہاشم سے ہوگئی تھی جن سے دو بیٹیاں سمرہ اور اریبہ جبکہ ایک بیٹا فائز تھے ۔
اکرام صاحب نے اپنی پسند سے اپنی یونی فیلو سے فوزیہ سے اپنے والدین کی باہم رضامندی سے شادی کی جن سے دو بیٹے شایان اور ذیشان ہوئے
پھر عثمان صاحب کی ربیعہ جو انکی خالہ زاد تھیں زوجہ بنیں اور انکے آنگن میں حمزہ ارسلان اور حوریہ آئے
مصطفی کی شادی والدین کی پسند کرن سے ہوئی جن سے فیضان اور شہوار ہوئے
سمینہ بیگم اسلام آباد جبکہ سارے بھائی اکٹھے اوپر نیچے کی منزل کے گھر میں خوش باش زندگی گزار رہے تھے کہ اچانک وہ حادثہ رونما ہوگیا جسکا کسی کو بھی گمان نہیں تھا۔
کرن اور مصطفی کسی شادی میں جاتے ہوئے ایک بڑے ایکسیڈنٹ کا شکار ہو کر دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔اپنے بچوں کی ناگہاں موت پر دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے قیصر صاحب بھی چل بسے۔
اب شاہینہ بیگم نے اپنے پوتے اور پوتی کو سینے سے لگا کر انکی پرورش کی۔فیضان اس وقت پندرہ جبکہ شہوار صرف نو سال کی تھی۔فیضان وقت سے پہلے بڑا ہوگیا تھا خاموش خاموش سنجیدہ مگر پر کشش فیضان اپنی بہن کیلئے ایک مضبوط سائبان تھا جو اسکا باپ بن کر شفقت دیتا ماں کی طرح خیال رکھتا بھائی کی طرح لاڈ اٹھاتا اور ایک بہن کی طرح رازدار تھا.
وقت گزرتا گیا فیضان اپنے والد کا بزنس سنبھالنے لگا اور شہوار نے حوریہ کے ساتھ مل کر ایک کالج میں ایڈمیشن لے لیا بچپن سے ہی وہ دونوں ہر جگہ ساتھ ساتھ ہوتی تھیں۔شایان بھی اپنے والد کے ساتھ بزنس کرنے لگا۔جبکہ حمزہ اور کاشان لندن میں اپنی پڑھائی مکمل کرنے گئے ہوئے تھے اور ارسلان ابھی میٹرک میں تھا۔سب کزنز کی آپس میں بہت بنتی تھی سوائے شہوار کی شایان سے کیونکہ شہوار شایان کو اسکی ماں کی طرح سمجھتی تھی جنکا رویہ شہوار کے ساتھ بہت حقیرانہ تھا۔
انکی نظر صرف ان دونوں کی دولت پر تھیں۔۔
____________________________
“شہوار!میری بات تو سنو!” حوریہ کالج میں اسکے پیچھے پیچھے بھاگ رہی تھی ۔
“دفع ہوجاؤ تم!مجھ سے بات مت کرو جب میں نے کہا تھا شایان صاحب کے ساتھ نہیں جائینگے پھر تم کیوں انکی گاڑی میں بیٹھی۔۔”شہوار رک کر اسکی طرف غصہ سے دیکھنے لگی
“یار! دادی جان کہ رہی تھیں ہم اکیلی لڑکیاں ہیں ہمارا اکیلے جانا مناسب نہیں اور شایان بھائی بھی غصہ ہورہے تھے۔” حوریہ اسکو مناتے ہوئے بولی
“انکو غصہ کے علاوہ کچھ آتا بھی نہیں ہے”شہوار بڑا سا من بناتے ہوئے بولی۔
“کیا ہوگیا شہوار!؟ اتنی سی بات پر موڈ آف کیوں کر رہی ہو کھا تو نہیں جاتے وہ تمہیں”
“کھاتے نہیں مگر انکی نظریں مجھ پر ایسے پڑتی ہیں جیسے میں کوئی حقیر چیز ہوں”
تم اتنا غلط کیوں سوچتی ہو شہوار! ایسی کوئی بات نہیں”حوریہ اسکو سمجھانے کی ناکام کوشش کرنے لگی
“تم کیا جانو جنکے سر سے ماں باپ کا سایہ اٹھ جاتا ہے انکو کیسی کیسی نظروں کا سامنا کرنا پرتا ہے ” شہوار نے دکھی دل سے کہا کیونکہ اسکو بڑی تائی کی نظریں اور رویہ نہ بھولتا تھا
اچھا تم نے رات کو اسائنمنٹ کتنی دیر تک تیار کرلیا تھا؟”حوریہ نے موضوع بدلنے میں ہی عافیت جانی کہ وہ جانتی تھی شہوار حد سے ڑیادا حساس لڑکی ہے اور اپنا آپ وہ صرف حوریہ اور فیضان کے سامنے کھولتی تھی باقی سب کے سامنے وہ ایسے رہتی تھی جیسے اس سے زیادہ کوئی خوش نہیں
ہاں!فیضان اور حوریہ کیلئے وہ ایک کھلی کتاب تھی جسکی مسکراہٹ کے پیچھے غم کو صرف اسکا بھائی اور اسکی واحد دوست ہی جان سکتی تھی
دونوں اسی طرح باتیں باتیں کرتے کرتے کلاس میں پہنچ گئیں
_________________________
“فیضی بھائی!” وہ فیضان کے کمرے میں داخل ہوئی جو کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔
“جی بھائی کی جان!” فیضان نے اپنی بہن کیلئے بانہیں پھیلادیں۔وہ آرام سی اسکے سینے سے لگ گئی کہ ایک یہی جگہ تھی جہاں اسکو خالص پیار اور سکون ملتا تھا۔
“کیا ایسا ممکن نہیں کہ صبح آپ مجھے اور حوریہ کو کالج چھوڑدیں”شہوار نے اپنا مدعا بیان کیا۔
گڑیا!میں تو صبح جلدی چلا جاتا ہوں نا اور تم لوگ لیٹ جاتے ہو ویسے شایان تو چھیڑ دیتا ہے نا پھر؟؟”فیضان نے کچھ حیرانگی سے کہا ۔
ہاں!جیسے تو آپ جانتے ہی نہیں”شہوار بڑا سا من بنا کر بولی
“میرے خیال میں یہ تمہاری غلط سوچ ہے شہوار!تمہیں ہر کسی کی نظریں غلط لگتی ہیں۔دیکھو گڑیا یہ دنیا ہے یہاں بہت سے لوگ بہت سی باتیں بناتے ہیں اسکا یہ مطلب تو نہیں کی ہم ہر کسی کی بات کو دل سے لگا کر بیٹھ جائیں ہر کسی کیلئے منفی پہلو سے سوچیں۔۔”فیضان اسکو نرمی سے سمجھانے لگا”پر بھیا بڑی تائی مجھ بہت بڑے طریقے سے بات کرتی ہیں”شہوار اداسی سے بولی
“بڑی تائی اگر ایسا کرتی ہیں تو اسمیں شایان کا کیا قصور؟” فیضان اسکے دل سے شایان کیلئے بدگمانی دور کرنا چاہ رہا تھا کیونکہ وہ اسکا ایک بہترین دوست تھا اور اسکو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔
“جب بھی مجھے بڑی تائی ڈانٹتی ہیں تو شایان بھائی وہاں ہوتے ہیں اور وہ انہیں کچھ نہیں کہتے”
“تو گڑیا وہ اپنی ماں کے سامنے کیسے بولے گا”فیضان نے جیسے اسکی ناقص عقل پر افسوس کیا
آپ زیادہ انکی سائیڈ نہیں لیں اچھا!” شہوار نے غصے سے کہا
ارے! میں سائیڈ نہیں لے رہا پاگل لڑکی!”فیضان نے اسکے سر پر ہلکی سی چپت لگائی
اچھا بتاؤ آج کا دن کیسا گزرا؟”فیضان نے اسکا موڈ چینج کرنے کیلئے موضوع بدلا اور جوابا شہوار اسکو پورے دن کی روداد سنانے لگی اور فیضان مسکرا کر سننے لگا
“شہوار سنو!” وہ گارڈن میں بیٹھی تھی جب حوریہ اسکے پاس آئی
ہوں!
“حمزہ بھائی اور کاشان بھائی آرہے ہیں پھر دادی جان حمزہ بھائی اور سمرہ آپی کا نکاح کردیں گی”حوریہ جو اندر سے خبر سن کر آئی تھی اسکے گوش گزار دی۔
“اوہ واؤ کتنا مزہ آئیگا ویسے بھی میں ڈیلی روٹین لائف سے تھک گئی ہوں۔”شہوار کے لہجے میں واضح تھکن کے آثار تھے
“اچھا چلو اندر کافی بناتے ہیں” حوریہ کے کہنے پر شہوار کھڑی ہوگئی اس بات سے بے خبر کہ وہ آج بھی کسی کی نظروں کے حصار میں تھی اور اسکے اٹھ کر جانے سے ان نظروں کی روشنی ماند پڑگئی
______________________
“شہوار!”فیضان رات کو آفس کافی دیر سی آیا تھا بارش کی وجہ سے وہ ٹریفک میں پھنس گیا تھا اور رات کو شہوار سے مل نہیں پایا تھا اسی لیئے صبح ہی اسکے کمرے میں آگیا لیکن اندر داخل ہوا تو شہوار اوندھے منہ لیٹی ہوئی تھی
“شہوار کیا ہوا؟ ” فیضان نے پریشانی سے پوچھا۔
“کچھ نہیں آپ جائیں یہاں سے”شہوار نے لیٹے لیٹے ہی جواب دیا
“شہوار بتاؤ میں پریشان ہورہا ہوں”فیضان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر سیدھا کیا۔
“کیوں کیوں ہورہے ہیں پریشان جب آپ نے بھی مجھے چھوڑدینے کا فیصلہ کردیا ہے”شہوار کی بات پر فیضان تو حیران و پریشان رہ گیا
“کیا کہ رہی ہو شہوار!” فیضان نے قدرے تشویش سے پوچھا
“جانتے ہیں نا ماما بابا بھی شادی سے لیٹ ہوگئے تھے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے اور کل آپ بھی لیٹ ہوگئے اور وہ بھی بارش والی رات تھی اور کل بھی کتنا تڑپی ہوں میں کتنا روئی ہوں کتنے وہم ستاتے رہے مجھے۔۔۔۔شہوار آگے بولتی جارہی تھی اور فیضان ہق دق کھڑا سن رہا تھا اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ شہوار اتنی گہرائی میں جا کر سوچ سکتی ہے۔فیضان سے اپنی بہن کے آنسو برداشت نہیں ہورہے تھے اس نے آگے بڑھ کر اپنے سینے میں بھینچ لیا اور شہوار اسکے سینے سے لگ کر کافی پر سکون ہوگئی ایک یہی تو جگہ تھی جہاں اسے ماں جیسی محبت اور باپ جیسی شفقت مل جاتی تھی۔
“آئ ایم رئیلی سوری شہوار مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ تم اتنا زیادہ پریشان ہوجاوگی” فیضان اسکے بالوں میں ہاتھ پھیڑ کر ریلیکس کرنے لگا۔
“اچھا جلدی سے چپ ہوجاؤ پھر ہم پورا دن ساتھ گزاریں گے باہر گھوم پھر کر “فیضان اسکی خوش کرنے کے طریقے بھی تو جانتا تھا نا
شہوار خوشی خوشی تیار ہونے چل دی
١٥ منٹ بعد وہ حوریہ کو اپنے کالج نا جانے کا بتا کر دادی سے مل کر پورچ میں آئی تو فیضان گاڑی میں اسکا انتظار کر رہا تھا
“پہلے مجھے ناشتہ کروائیں”گاڑی میں بیٹھ کر ہی اس نے بولا ظاہر ہے دل ہلکا ہوجانے کے بعد بھوک لگنا لازم تھا نا اور فیضان نے مسکراتے ہوئے گاڑی ہوٹل کی طرف موڑدی۔
_______________________
وہ دونوں گھوم پھر کر اپنے کمروں میں جارہے تھے جب تائی کی آواز نے انکے قدم جکڑ لئے۔
“ارے کیا بتاؤں امی نے ہی بگاڑا ہے انکو یہ خود تو ہوتے نہیں خوامخواہ کی مصیبت میرے سر ڈال دی فیضان تو ہر وقت کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے اور شہوار کا تو مت ہی پوچھو اسکو تو بس اشتہار بننے کا موقع چاہیئے اسکا بس چلے تو ہر کسی کو اپنی مظلومیت کی داستان سنائے ایک نمبر کی چھچھوری لڑکی ہے۔۔اس سے آگے وہ کچھ کہتی جب فیضان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور وہ اندر بڑھا اور تائی فیضان کو دیکھ کر خاموش ہوگئیں
فیضان نے آگے آکر فون انکے ہاتھ سے لے کر کریڈل پر رکھا اور گویا ہوا
“تائی جو کہنا ہے میرے بارے میں کہیں لیکن میری بہن کا نام بھی اب آپ کی زبان پر آیا تو میں یہ بھول جاؤنگا کہ آپ میری کچھ لگتی ہیں آئندہ یہ نازیبہ لفظ اپنی بہن کیلئے نہ سنوں اور الحمدللہ میں افورڈ کر سکتا ہوں کہ شہوار اور میں ایک الگ گھر میں رہ سکیں لیکن صرف دادی جان کی وجہ سے اس گھر میں رہنے پر مجبور ہیں اسلیئے آئندہ شہوار کے خیال کی فکر چھوڑدیں۔”فیضان کا لہجہ اتنی سختی لیے ہوئے تھا کہ ایک لمحے کیلئے تائی بھی گڑبڑا گئیں اور اونہہ کہ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
_____________________
گرمیوں کی چھٹیاں ہوگئیں تھیں اور آج حمزہ اور کاشان نے آنا تھا اور اسلام آباد سے پھپھو بھی اپنے بچوں کے ساتھ آئیں تھیں۔اسلئے گھر میں خوب چہل پہل تھی دونوں تائی اپنے اپنے بچوں کی آمد پر بہت خوش تھیں۔
“سمرہ آپی آپکے چہرے پر تو rainbow بنا ہوا ہے” حوریہ اریبہ اور شہوار سمرہ کو چھیڑنے میں مصروف تھے جسکا حمزہ سے کچھ دنوں میں نکاح تھا۔
“چپ کرو تم لوگ”سمرہ مسکراتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی ورنہ یہ لوگ آج اسکی درگت بنانے پر تلے ہوئے تھے۔
“اچھا رات کو شرافت سے چھت پر آجائیگا ہمارا رت جگے کا پروگرام ہے”حوریہ نے اسکو آگاہ کرنا چاہا
“شرم کرو تم لوگ بیچارے وہ لوگ تھکے ہوئے آئینگے اور تم لوگ رات کو بھی جگاؤگی ” سمرہ کے منہ سے نکلا اور خود ہی پچھتائی کیونکہ تینوں اسکو شرارتی نظروں سے دیکھ رہی تھیں وہ فورا بھاگی لیکن اپنے پیچھے اریبہ کی آواز سن کر مسکرائی۔
“آپ بے فکر رہیں بعد میں ان بیچارے نے
آرام ہی کرنا ہے سمرہ آپی کی گود میں کیوں بھئ؟اریبہ نے داد طلب نظروں سے ان دونوں کی طرف دیکھا
“اللہ تم کتنی بے شرم ہو اریبہ” شہوار نے اسکو ایک چپت لگائی۔
“چلو اٹھو اس سے پہلے کہ دادی ڈنڈے سے اٹھانے آئیں۔” حوریہ ہنستی ہوئی کھڑی ہوگئی
“اے خبردار جو میری دادی کو کچھ کہا بھی تو” شہوار مصنوعی غصے سے بولی
“ارے ہاں ہاں انکو نہیں انکے ڈنڈے کو کی رہی ہوں جو شکل سے ہی خطرناک لگتا ہے۔”حوریہ دادی کی اسٹک جس سے سہارا لے کر وہ چلتی تھیں ڈنڈا کہتی تھی کیونکہ اکثر شرارتوں پر اسکو وہی کن دھوں پر لگتا تھا اور وہ کراہ کر رہ جاتی
تینوں کمرے سے آٹھ کر کچن میں پھپھو اور چھوٹی تائی کے پاس آئیں جبکہ بڑی تائی کی اپنی نند سے بنتی نہیں تھی سو وہ اپنے کمرے میں آرام فرما رہی تھیں۔
کاشان اور حمزہ اپنی ماؤں کے ساتھ لگے بیٹھے تھے عورت دوسروں کیلئے چاہے جیسی بھی ہو لیکن ماں کے روپ میں وہ مخلص ہوتی ہے یہی حال بڑی تائی کا بھی تھا شہوار کے ساتھ بیشک وہ جیسی بھی تھیں پر شایان اور کاشان کے ساتھ وہ ایک مکمل مختلف عورت تھیں۔
“کیا ہوا شہوار ادھر اکیلی کیوں بیٹھی ہو؟”وہ گارڈن میں اکیلی بیٹھی سوچوں میں گم تھی جب اچانک پھپھو نے آکر اسکی سوچوں کا محور توڑا۔
“کچھ نہیں پھپھو”وہ زبردستی مسکراتی ہوئی بولی۔پھپھو بیشک کم آتی تھیں پر وہ شہوار سے پیار بھی بہت کرتی تھیں آخر کو انکے سب سے لاڈلے بھائی اور بیسٹ فرینڈ بھابھی کی اولاد تھی۔
“بتاؤ چلو کیا ہوا اب مجھ سے بھی چھپاؤگی؟”پھوپھو اسکو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولیں۔
“کچھ خاص نہیں پھوپھو بس ماما کی کمی محسوس ہورہی ہے میرا بھی دل چاہتا ہے ماما ہوتیں تو میرے بھی ایسے لاڈ اٹھاتیں جیسے بڑی اور چھوٹی تائی اپنے بچوں کے اٹھاتی ہیں۔”وہ اداسی سے بولی
“ارے چندا!تم اپنے لاڈ مجھ سے اٹھوایا کرو میں ہوں نا جانی تم بالکل میرے لیئے سمرہ اور اریبہ کی طرح ہو ابھی تو میں نکاح تک ادھر ہی ہوں اپنی بیٹی کے خوب لاڈ اٹھاؤنگی چلو بتاؤ ابھی کیا بناؤں اپنی بیٹی کیلئے؟”پھپھو کے اس پیار پر شہوار کی آنکھوں میں نمی آگئی۔وہ کیا بتاتی کہ زندگی کے ہر موڑ پر ماں کی کمی ضرور محسوس ہوتی ہے اگرچہ پیار کرنے والے لوگ ہوں لیکن ماں جیسا پیار نہیں ملتا کیوں سہی کہا نا؟
اور پھپھو شہوار کے منع کرنے کے باوجود اسکو اپنے ساتھ اندر لے گئیں۔
الفاظ دیکھئے۔۔ راھبر۔ رھبر۔۔ رکّھا۔ رَکھا۔۔ دھمّال۔۔۔اور دھمال
الفاظ دیکھئے۔۔ راھبر۔ رھبر۔۔ رکّھا۔ رَکھا۔۔ دھمّال۔۔۔اور دھمال۔۔۔۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب اور سرائیکی ملا کر بہت بڑی...