رابطہ نہ رکھنے سے !!
یہ تو مان سکتا ہوں
گفتگو نہیں ہو گی
گفتگو نہ ہونے سے
کیا یقین ہے تم کو
آرزو نہیں ہو گی ؟؟
جستجو نہیں ہو گی ؟؟
کیا تمہیں یہ لگتا ہے
دل تمہیں بھُلا دے گا
کوئی بد دعا دے گا
دل تمہارا ہو کر بھی
اور کو جگہ دے گا ؟؟
کیا تمہیں یہ لگتا ہے ؟؟
وقت کی روانی میں
اس جہانِ فانی میں
تُو نہیں تو لاکھوں ہیں
جن کو دیکھ کر یہ دل
پھر سے مسکرائے گا ؟؟
تم کو بھول جائے گا ؟؟
یاد بھی نہیں ہو گا
کوئی ایک ایسا تھا
جس میں جان تھی اپنی
جس پہ جان دیتے تھے
جو کسی کا ہو کر بھی
بس فقط ہمارا تھا !!
تم اگر سمجھتے ہو !!
گفتگو نہ ہونے سے
کچھ بھی ایسا ممکن ہے
یہ تمہاری غلطی ہے !!
پیار کی کتابوں میں !!
عشق کے صحیفوں میں
اک مثال بھی ایسی
تم نہیں دکھا سکتے
جو دلیل دیتی ہو !!
سلسلہ محبت کا !!
رابطوں سے قائم ہو …!!
سلویٰ کالج سے گھر واپس آئی تو سامنے عفت جہاں کو بیٹھا پایا۔وہ خوشی سے بھاگتی ہوئی انکے پاس آئی اور گلے لگ گئی ۔
اماں تم کب آئی بتایا بھی نہیں؟
بس تھوڑی دیر پہلے آئی ہیں تمہاری اماں۔جاو سلویٰ بیٹا فریش ہو آو پھر مل کر کھانا کھاتے ہیں۔نگہت جہاں اس کہہ کر کھانا لگوانے لگیں۔
اماں میں آتی ہوں۔
وہ خوشی سے اپنے کمرے میں آئی مسکراہٹ اسکے چہرے سے جدا نہیں ہو رہی تھی۔
وہ واش روم سے چنیج کر کے باہر آئی تو عفت جہاں اسی کے کمرے میں بیٹھی تھیں۔
ارے اماں میں بس آرہی تھی ۔
وہ بھی ان کے پاس ہی آکر بیٹھ گئی۔
کیسی ہے میری بیٹی؟
وہ سلویٰ کے چہرے پر ہاتھ پھیرتی بولیں۔
میں بہت اچھی ہوں اماں ۔اچھا آپ ہمارے نئے مہمان سے ملیں۔
سلویٰ کا اشارا وہاج کی طرف تھا جو اس وقت وہاں نہیں تھا۔
سلویٰ یہ کیا بچپنا کیا ہے تم نے؟
نگہت جہاں کا لہجہ خاصا ناخوش تھا۔
کیا ہوا اماں۔
یہ کس کا بچہ اٹھا لائی ہے تو؟سلویٰ تو کب جوش کی بجائے ہوش سے کام لے گی۔
اماں پلیز وہ بات اب پرانی ہوگئی اور فلحال نئی اور مستقل بات یہ ہے کہ وہاج میرا اور راحب کا بیٹا ہے۔
تو کیوں اپنے سر پر بلاوجہ کے پہاڑ کھڑے کر رہی ہے اس عمر میں تو سمنبھال سکتی ہے کیا سب؟
کیا ہے میری عمر کو اماں انیس کی ہو گئی ہوں اب میں۔
سلویٰ سلویٰ میں تجھے کیسے سمجھاوں بیٹا یہ سب شروع شروع میں بھلا معلوم ہوتا ہے کل کو جب تیری زمہ داریاں زیادہ ہوں گی نا تو ہچھتائے گی تو۔
عفت جہاں کا لہجہ شکست زدہ تھا۔
اماں خالہ کہتیق ہیں زمہ داریاں اور فرض نبھانے والے کبھی نہیں پچھتاتے۔
اور کل کو جب تیرے اپنے بچے ہونگے تو؟
انھوں نے سلویٰ کو گھورا۔
جو ہوا ہی نہیں ابھی اسکی فکر میں حال کا سکون بھی برباد کر دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔اور ویسے بھی جب وہ ہونگے میں انھیں بھی سمنبھال لونگی۔
اچھا تو تو اب اتنی بڑی ہو گئی ہے تیری اماں آج تک اتنی زمہ داریاں نہیں سمنبھال پائی تو کر لے گی۔
اماں اس سب میں عمر کی نہیں حوصلے کی ضرورت ہے۔ہاں تھوڑی دیر کیلئے میں بھی خودغرض ہوئی تھی جب میں نے اپنی عقل پر پردے ڈال کر راحب سے شادی کی۔میں اسلئے نہیں پچھتا رہی کہ میں نے راحب سے شادی کی بلکہ مجھے اس بات کا دکھ ہے اسکے پیچھے میرا اپنا غرض تھا۔
میرا ضمیر مجھے آج تک کچوکے لگاتا ہے ۔میں نے تجھے چھوڑ کر اپنی خواہش کو چنا۔
اس دن اگر میں چاہتی تو وہاج کو ہیں کہیں پھینک کر واپس آجاتی کون ہوچھتا مجھ سے کوئی مجھے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا ہاں مگر میرا ضمیر مجھے شائد پاگل کر دیتا۔اپنے تھوڑے سے آرام و سکون میں اس بچے کا سودا کیسے کرتی میں اماں صرف اسلئے کہ میں بچے کی زمہ داری نہیں اٹھا سکتی۔
سلویٰ بولتے بولتے ایک دم رکی اور گہرا سانس لیا۔
اماں وہاج میرے پاس خدائی عطیہ ہے یہ کیوں ہے اسکا جواب بھی ہم سب کو جلد مل جائے گا خدا کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے۔
اگر ہم زمہ داریوں اور خواہشوں کو ساتھ لیکر چل سکتے ہیں تو کیوں خود کو صرف آسانی دیں ۔کہ زندگی کا اصل مزہ تو مشقت میں ہی ہے۔
بہت بڑی بڑی باتیں کرنے لگی ہے میری بیٹی۔
پتا نہیں اماں اس تھوڑے سے وقت میں جینے کا نظریہ ہی بدل گیا ہے۔
خالہ کی زندگی صبر کی داستان اور راحب کی زندگی زمہ داریوں کی داستان سناتی ہے ۔
ٹھیک کہہ رہی ہو سلویٰ ہم سب آپا کو خودغرض کہتے رہے مگر انھوں نے جزبات پر فرائض کو فوقیت دی۔
نگہت جہاں کی آنکھیں نم ہوئیں۔
میرے بابا کو گئے ایک سال ہوا ہے اماں اور یاد ہے میں کتنا روئی تھی اور راحب کے بابا تو جا کر لوٹے ہی نہیں سوچو ان پر کیا بیتی ہوگی۔
وہ تو روتے بھی نہیں۔
مجھے بس ان جیسا بننا ہے اماں۔
انشاءاللہ بیٹا ۔سلویٰ عفت جہاں کے سینے سے لگ گئی اور وہ دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔
کمرے میں اس وقت قبرستان سی خاموشی تھی۔چاقو ابھی بھی ثمرین کے ہاتھ میں تھا جسے وہ کبھی اپنے بازو پر چلاتی تو کبھی راحب پر ۔
راحب اچھے سے جانتا تھا کہ ثمرین ڈرگز کے نشے میں ہے یوش میں آنے کے بعد اسے کچھ یاد بھی نہیں ہوگا کہ وہ کیا کرتی رہی ہے۔
اس سے سچ اگلوانے کا اچھا موقع کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
راحب نے دل میں سوچا۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتا ثمرین پھر اسکے قریب آئی۔اور سرگوشی میں بولی۔
“مجھے سچ سچ بتا دو تم نے کس نے بھیجا ہے”
جب اتنا جان گئی ہیں آپ میں جاسوسی کرنے آیا ہوں تو یہ بھی پتا ہوگا کس نے بھیجا ہے مجھے۔
ہاہاہا ثمرین نے قہقہ لگایا۔
یہی تو بات ہے کہ تم اپنا سارا ریکاڑڈ صاف کر کے آئے ہو کیسے پتا کرواں میں انسان وں جادوگرنی نہیں۔
پھر بھی کسی پر شک؟
راحب بس یہ جاننا چاہتا تھا کہ آرمی پر اسے شک ہےیا نہیں۔
تمہیں ان غیر ملکیوں نے بھیجا ہوگا وہ میرا پتا کاٹ کر خود ہر جگہ حکومت کرنا چاہتے ہیں۔
بلڈی چیٹرز۔ثمرین نے اپنی رو میں انھیں دو تین گالیاں نکالیں۔
وہ لڑکھڑاتی اپنی راکنگ چئیر پر بیٹھ گئ۔دوپٹہ تو اسکے وجود سے دور ہی کہیں گر گیا تھا۔
اب تم مجھے بتاو گے عزت سے یا کسی اور طرح۔۔۔۔ثمرین نے جان کر جملہ ادھورا چھوڑا۔
مجھے ریچرڈ نے بھیجا ہے۔ریچرڈ جین وہ پاکستان میں اپنا راستہ بلکل صاف چاہتا ہے اسلئے مجھے آپکی ایکٹیویٹیز پر نظر رکھنے بھیجا ہے۔راحب نے اسی کی کہانی اسی کو واپس سنا دی۔
جانتی تھی میں ثمرین سکندر شاہ کو گمراہ کرنا اتنا بھی آسان نہیں ہے۔
اب تم کیا کرو گے؟ثمرین نے نظریں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔
راحب خاموش رہا۔
اب تم وہی کرو گے جو میں کہوں گی۔
اور میں ایسا کیوں کرونگا؟راحب نے سینے پر ہاتھ باندھے۔
کیونکہ تم میرے ساتھ کام کرو گے مجھے تمہاری ضرورت ہے۔
ثمرین کرسی سے اٹھی۔
تو ثمرین سکندر کو بھی کسی کی ضرورت پڑتی ہے؟
ثمرین سکندر کو انہی کی ضرورت پڑتی ہے جنکی وہ چاہت کرتی ہے۔
اور تم۔۔۔۔تم میری چاہت بننے لگے ہو۔
میں نے کبھی کوئی کام دل سے نہیں کیا سوائے تمہارے۔تم پر میں چاہ کے بھی دماغ نہیں استعمال کر پاتی۔
بیشک آپکو نقصان اٹھانا پڑے؟
بھلے ہی مجھے تمہارے ہاتھوں برباد ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔وہ نشیلی مسکراہٹ کے ساتھ یہ الفاظ کہتی راحب کے دل میں کھلبلی مچا گئی۔اور اگلے لمحے وہ اسکی بانہوں میں جھول گئی اس بار واقعی وہ ڈرگز کے زیر اثر تھی۔راحب نے اسے بیڈ پر لٹایا ۔
تم عورت نہیں فتنہ ہو ثمرین شاہ۔۔
وہ گہرے سانس لیتا وہاں سے نکل آیا۔
ابھی اسے اور بھی بہت سے کام کرنے تھے۔
سر۔۔ہیلو میجر راحب احمد ہئیر۔۔۔
آفیسر زایان۔۔۔۔
اپنے ٹاک بوتھ کو کنکٹ کئے وہ کب سے ہیڈکواڑٹر میں بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر کوئی جواب موصول نہیں ہو ا۔
ہیلو۔۔۔۔۔۔؟؟
یس یس میجر راحب یہاں کچھ سگنل ایشوز ہو گئے تھے پر اب ٹھیک ہیں۔
آفیسر زایان کی آواز ابھری۔
اوکے جنرل مرزا کہاں ہیں۔؟؟
جی میجر راحب یہیں ہوں میں بھی۔
سر آپ کیلئے ایک اچھی خبر ہے۔
سر میں نے ثمرین سکندر کی ساری ٹرانسکشنز ڈیٹیلز نکال لی ہیں اور اسکے کہاں کہاں کتنے اکاونٹس ہیں ان سب کی معلومات ہے اس میں۔
او ڈیٹس ویری گڈ میجر۔۔۔پر یہ کیا کیسے آپ نے مطلب اتنی نازک معلومات ثمرین کے ہوتے ہوئے آپ تک پہنچنا۔
سر میں نے کہا تھا نا ہر انسان کی کمزوریاں ہوتی ہیں جو اسے کمزور بنا دیتی ہیں۔
کیا مطلب؟؟
زایان کی آواز آئی۔
مطلب یہ زایان کہ ثمرین کو ڈرگز کی عادت ہے۔اور میرا خیال ہے اسے کچھ مینٹل پرابلمز بھی ہیں۔اس پر غشی طاری ہوتی ہے پھر وہ خود کو نارمل کرنے کیلئے ڈرگز کا سہارا لیتی ہے۔۔
کس بات پر ہوتا ہے ایسا میجر؟
سر میرا خیال ہے اسکا ماضی کافی ڈسٹربنگ ہے۔
گڈ یہ آیا حکم کا اکا ہمارے ہاتھ۔
جنرل مرزا خوشی سے بولے۔
میجر راحب اسکی کمزوری ڈرگز نہیں ماضی ہے۔
جو ہم جانتے ہیں۔۔
پر سر ہم اسکے ماضی کا استعمال کیسے کریں گے۔۔
زایان نے جنرل مرزا سے پوچھا۔
وہ جب جب اپنے ماضی کو یاد کرتی ہے تو ڈسٹرب ہو کر حال بھول جاتی ہے ایم آئی رائٹ میجر راحب؟
یس ۔۔۔۔
تو میجر راحب آپکو کرنا یہ ہے کہ اسے بس ماضی میں الجھائے رکھنا ہے اور حال میں آ پ اپنا کام کریں گے۔
اس طرح وہ آپ کے کام سے دور رہے گی۔
یہ مشکل ہے مگر یہ آخری راستہ ہے۔۔
فکر نہ کریں سر آئی ول مینج۔۔۔
پر ایک بات یاد رکھئے گا میجر راحب ثمرین سکندر ایک ٹیڑھی کھیر ہے اتنی جلدی وہ کسی کے ہاتھوں میں آنے والی نہیں ہے۔جبھی تو آج اتنی طاقت ور ہے۔وہ آپکوں بہلانے یا بہکانے کی کوشش ضرور کرے گی۔
راحب خاموش رہا۔ایک عورت ایک مرد کو کیسے بہکا سکتی ہے میرا خیال ہے مجھے آپکو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
راحب کے کانوں میں اسکی باتیں گونجنے لگیں
(تم میری ضرورت نہیں میری چاہت ہو)
وہ فورا ہوش میں آیا۔
آپ فکر نہ کریں میں میجر راحب احمد ہوں مجھ پر جزبات اثر نہیں کرتے۔۔
گڈ مائے بوائے۔۔
میں آپ تک ایک دوسری قسم کے ڈرگز پہنچا دوں گا جو ثمرین کو سیڈیوز کریں گے اور آپکا کام مزید آسان ہو جائے گا۔آپ نے بس اسکے ڈرگز بدلوانے ہیں اور ڈیٹیلز ہم تک پہنچانی ہیں۔
یس سرررر۔۔۔۔
آج کا دن سلویٰ کیلئے معمول سے زیادہ مصروف ثابت ہوا۔پہلے کالج پھر گھر اور عفت جہاں کا آنا ۔شام کو ہی واپس لوٹ گئی تھیں۔
سلویٰ کچن کا کام ختم کر کے بارہ بجے کے قریب وہاج کو لئے کمرے میں آئی۔
مگر وہاج سارا دن دادی کے ساتھ سو سو کر اب فریش موڈ میں جاگ رہا تھا۔
وہاجی بیٹا اب میری آنکھیں نیند سے بند ہو رہی ہیں۔اور تمہیں کھیلنے کی پڑی ہے۔وہاج کھکھلا کر ہنسا۔راتوں کو جاگ کر ماوں کو ستانا تو چھوٹے بچوں کا سب سے پسندیدہ مشغلہ ہے شائد۔
آج کا سارا دن اسکی آنکھوں کے سامنے ڈوڑنے لگا۔
اور وہ وہاج کو سب بتانے لگی۔وہاج بھی یوں آنکھیں پھاڑتا تھا گویا سب سمجھ آتا ہے۔
سب آتے ہیں سب مل لیتے ہیں بس تمہارے بابا نہیں آتے۔
سلویٰ نے منھ بسورا۔
ایک ہی شہر میں ہو کر مہینوں مہینوں ملنے نہیں آتے ہفتوں بعد کال کرتے ہیں۔
بہت برے ہیں اس بار آئیں گے نا تو مل کر ماریں گے۔
وہ زیادہ دن ملنے نا آئیں تو دل گھبرانے لگتا ہے کہیں کسی مشکل میں نہ ہوں کام بھی تو ایسا ہے انکا۔
صبر کے لفافوں میں ہم نے تیرے وعدوں کو
تہہ بہ تہہ کر کے جوڑ جوڑ رکھا ہے
کوئی حصہ بستر پر کوئی ٹکڑا ٹیرس پر
ہم نے تیری یادوں کو توڑ توڑ رکھا ہے
جن صفحوں پہ ذکر ہے تیرے میرے ملنے کا
ڈائری کے ان ورقوں کو موڑ موڑ رکھا ہے
دریچے میرے خیال کے مسکن تیرے پیکر کے
جان آج بھی لمس تیرا اوڑھ اوڑھ رکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔!!!
سلوی کی ساری رات بس اسی سوتی جاگتی کیفیت میں گزری۔صبح پانچ بجے کے قریب اسکا الارم بجا تو اسنے فورا کر دیا۔وہاج بڑی محنت سے سویا تھا اٹھ جاتا تو رو رو کر برا حشر کر دیتا۔
وہ کلستی دانت ہیستی اٹھی تو میں سوئی تھی صبح بھی ہو گئی۔
نماز پڑھنے کے بعد سلویٰ رانی نے پھر ایک جھونکا لگایا۔اور اگلے لمحے کچن کو دوڑی ۔
اسکے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار نمایاں تھے۔
اور اس بیچ چندہ کا آنا اس کیلئے کسی غنیمت سے کم نہیں تھا۔
چندہ کو ناشتے پر لگا کر وہ خود باہر بیٹھ گئی۔
سلویٰ بیٹا آج کالج کے بعد زرا چندہ کے گھر جانا ہے۔
نگہت جہاں نے اسے آج کا ہروگرام بتایا۔
کیوں خالہ خیریت؟
ہاں بیٹا وہ زرا چندہ کو دیکھنے لوگ آرہے ہیں ۔اسکےوالد کا فون آیا تھا مجھے بلا رہے ہیں۔
تو اسکی امی؟
اسکی امی میری بڑی اچھی سہیلی تھی جب میں شہر آئی تھی تب سے مجھے سارا کام کر دیا کرتی تھی میرا اور راحب کا بہت خیال کرتی بس چندہ کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد ہی چل بسی۔اور تب سے چندہ کو میں نے اہنی بیٹیوں کی طرح ہی رکھا ہے۔
کیوں نہیں خالہ میں ضرور چلوں گی۔
سلویٰ کچن میں ناشتہ لینے گئی تو اسکے چہرے پر شریر سی مسکراہٹ تھی۔
اہمم اہمم۔۔۔ہماری بنو کو دیکھنے آرہے ہیں لوگ۔
توبہ بھابھی۔۔۔۔
اب تم سے سارے بدلے لینے ہیں میں نے چندہ رانی مجھے بہت ستایا ہے تم نے۔
بھابھی چندہ سرخ پڑنے لگی۔
اچھا اچھا جاو وہاج کو لے آو کہیں رو نا رہا ہو۔
جی ۔چندہ بھاگتی ہوئی چلی گئی جبکہ سلویٰ وہیں قہقہے لگانے لگی۔
آپ نے بلایا میڈم۔۔۔
آفس کے پر سکون کمرے میں سلیمانی صاحب ابھی داخل ہوئے جہاں ثمرین کرسی سے ٹیک لگائے آنکھیں موندھے بیٹھی تھی۔
ریچرڈ۔۔۔
ثمرین بس اتنا ہی بولی۔
کیا میڈم۔۔
ریچرڈ جین نے غداری کی ہے ہم سے سلیمانی صاحب۔۔
غداری؟؟
جی دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے اس نے مجھے ثمرین سکندرکو۔
میں کچھ سمجھا نہیں میڈم کیا کیا اس نے مجھے کسی بارے میں نہیں پتا۔
سلیمانی صاحب حیران و پریشان تھے۔
یہی تو مسئلہ ہے سلیمانی صاحب ناجانے آپکے دھیان کہاں کو ہو گئے۔
ثمرین نے اسے گھورا تو انکے چہرے کی ہوائیاں اڑیں۔
خیر وہ جو لڑکا ہے ڈینی جھان اسی نے بھیجا ہے اس لڑکے کو مجھ پر نظر رکھنے کیلئے۔
کیا؟؟
سلیمانی صاحب کوگویا سکتہ لگ گیا۔
ہاں وہ یہاں میری سلطنت پر بھی قبضے کے خواب دیکھ رہا ہے۔انکی پرانی عادت ہے جو مل جائے اس پر خوش نہیں ہوتے یہ۔
پر میڈم یہ سب آپکو کیسے پتا چلا۔
اس لڑکے نے خود اعتراف کیا ہے۔۔کل جب میں نشے میں تھی۔
پر۔۔۔
جی اب آپ یہ پوچھیں گے نشے کے بعد تو مجھے کچھ یاد نہیں رہتا ہے مگر شائد آہ بھول گئے ہیں میرا کمرا کوئی عام کمرا نہیں ہے وہاں ایک ایک لمحہ ایک ایک لفظ ریکاڑڈ ہوتا ہے۔
میڈم ریچڑد ہمارے ساتھ بہت عرصے سے کام کر رہا ہے اور بہت فائدے میں ہے وہ میرا نہیں خیال وہ کوئی اوچھی حرکت کرے گا۔
مجھے اس لڑکے پر شک ہے آہکو بھی اس پر یقین نہیں کرنا چاہئے۔
یہ ہو سکتا ہے آپ دونوں کا دشمن ہو اور پھوٹ ڈلوانے آیا ہو۔
سلیمانی صاحب آپ اپنے اس چھوٹے سے دماغ پر زور نہ دیں آپ بس ایک کام کریں۔۔
ریچرڈ جین کی موت کا انتظام۔
واٹ میڈم پر۔۔۔۔
میں اس لڑکے پر یقین نہیں کر رہی پر اسکا مرنا اب ضروری ہے جو اسکے نام سے ہم تک پہنچ سکتا ہے ہمارے نام سے وہاں بھی پہنچ سکتا ہے اور وہ نامرد ایک ہی تھپر میں سب اگل دیں گے۔
صرف مارنا ہی حل ہے کیا میڈم؟؟
سلیمانی صاحب نے اپنا پسنہ پونچھا۔
آپ کو کیوں اتنی تکلیف ہو رہی ہے کہیں آپ تو نہیں ریچڑڈ کے آدمی۔۔
ثمرین کی تیز دھاری نظر اس کے آر پار ہونے لگی۔
نہیں نہیں میڈم میں کرتا ہوں۔۔
اور اس لڑکے کو ڈینی کو بھیج دیں۔
اسکا کیا کرنا ہے اب ؟ سلیمانی صاحب نے ہمت کر کے پوچھا؟
شادی۔ہاہاہا ثمرین نے قہقہ لگایا۔
جی؟؟
بس بس سلیمانی صاحب آج کیلئے اتنے دھچکے بہت ہیں آپ کی عمر کیلئے دل کے دورے سے مر گئے تو مجھے بہت دکھ ہوگا۔
ثمرین کا یہ بدلہ بدلہ انداز سلیمانی صاحب کو کچھ ہضم نہیں ہوا تھا کیونکہ آج سے پہلے اس نے کبھی خود سے کسی کو نہیں مروایا تھا۔
وہ پسینہ پسینہ اپنے کیبن میں آئے اور کسی کو فون ملانے لگے۔
ہیلو میری بات سنو ثمرین ریچرڈ کو مروانا چاہتی ہے مگر ایسا ہو گیا تو سب سے زیادہ نقصان مجھے ہوگا ۔تم اسے کہو کہیں غائب ہو جائے۔
مگر وہ آج صبح ہی قتل ہو چکا ہے۔اگلی آواز نے سلیمانی کو شل کر دیا۔
جبھی اسے پولیس کے سائرن ہر طرف سنائی دینے لگے۔
یہ پولیس کہاں سے آئی؟؟
گاڑڈز کس نے بلایا ہے پولیس کو۔۔
مسٹر اکرام سلیمانی؟؟
جی میں ہوں انسپکٹر نے اندر آتے ہی پوچھا۔
تو وہ کپکپاتے بولا۔
یو آر انڈر اریسٹ۔۔
میں نے کیا کیا ہے؟؟
آپ کو ایس ایس تھری انڈسٹریز میں پانچ کڑوڑ غبن کیس میں گرفتار کیا جاتا ہے۔
واٹ کیا انسپکٹر آپکا دماغ ٹھیک ہے میں نے کچھ نہیں کیا کس نے کہا آپنے۔
ثمرین سکندر شاہ نے کیس کیا ہے آپکے خلاف ۔۔
ایسا نہیں ہو سکتا میڈم ایسا نہیں کر سکتی۔
مجھے ملنا ہے میڈم سے۔۔
وہ اسکے کیبن کی طرف جانے لگا جب پولیس اسے ہتھکڑی پہنانے لگی۔
میڈم میرری بات سنیں۔
آپکو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میڈم سے ملنے دیں مجھے۔
آپ کو جس سے بھی ملنا ہے کوڑٹ میں ملئے گا اب۔
سلیمانی صاحب کی چیخ اور شور سے سارا آفس شل کھڑا تھا۔کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ اسے روکیں یا ثمرین کے پاس جائیں۔۔
اور ثمرین سکندر اپنی کھڑکی میں شان سے کھڑی وفا کا تماشہ دیکھ رہی تھی۔
آپ نے بلایا میڈم۔۔۔
آفس کے پر سکون کمرے میں سلیمانی صاحب ابھی داخل ہوئے جہاں ثمرین کرسی سے ٹیک لگائے آنکھیں موندھے بیٹھی تھی۔
ریچرڈ۔۔۔
ثمرین بس اتنا ہی بولی۔
کیا میڈم۔۔
ریچرڈ جین نے غداری کی ہے ہم سے سلیمانی صاحب۔۔
غداری؟؟
جی دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے اس نے مجھے ثمرین سکندرکو۔
میں کچھ سمجھا نہیں میڈم کیا کیا اس نے مجھے کسی بارے میں نہیں پتا۔
سلیمانی صاحب حیران و پریشان تھے۔
یہی تو مسئلہ ہے سلیمانی صاحب ناجانے آپکے دھیان کہاں کو ہو گئے۔
ثمرین نے اسے گھورا تو انکے چہرے کی ہوائیاں اڑیں۔
خیر وہ جو لڑکا ہے ڈینی جھان اسی نے بھیجا ہے اس لڑکے کو مجھ پر نظر رکھنے کیلئے۔
کیا؟؟
سلیمانی صاحب کوگویا سکتہ لگ گیا۔
ہاں وہ یہاں میری سلطنت پر بھی قبضے کے خواب دیکھ رہا ہے۔انکی پرانی عادت ہے جو مل جائے اس پر خوش نہیں ہوتے یہ۔
پر میڈم یہ سب آپکو کیسے پتا چلا۔
اس لڑکے نے خود اعتراف کیا ہے۔۔کل جب میں نشے میں تھی۔
پر۔۔۔
جی اب آپ یہ پوچھیں گے نشے کے بعد تو مجھے کچھ یاد نہیں رہتا ہے مگر شائد آہ بھول گئے ہیں میرا کمرا کوئی عام کمرا نہیں ہے وہاں ایک ایک لمحہ ایک ایک لفظ ریکاڑڈ ہوتا ہے۔
میڈم ریچڑد ہمارے ساتھ بہت عرصے سے کام کر رہا ہے اور بہت فائدے میں ہے وہ میرا نہیں خیال وہ کوئی اوچھی حرکت کرے گا۔
مجھے اس لڑکے پر شک ہے آہکو بھی اس پر یقین نہیں کرنا چاہئے۔
یہ ہو سکتا ہے آپ دونوں کا دشمن ہو اور پھوٹ ڈلوانے آیا ہو۔
سلیمانی صاحب آپ اپنے اس چھوٹے سے دماغ پر زور نہ دیں آپ بس ایک کام کریں۔۔
ریچرڈ جین کی موت کا انتظام۔
واٹ میڈم پر۔۔۔۔
میں اس لڑکے پر یقین نہیں کر رہی پر اسکا مرنا اب ضروری ہے جو اسکے نام سے ہم تک پہنچ سکتا ہے ہمارے نام سے وہاں بھی پہنچ سکتا ہے اور وہ نامرد ایک ہی تھپر میں سب اگل دیں گے۔
صرف مارنا ہی حل ہے کیا میڈم؟؟
سلیمانی صاحب نے اپنا پسنہ پونچھا۔
آپ کو کیوں اتنی تکلیف ہو رہی ہے کہیں آپ تو نہیں ریچڑڈ کے آدمی۔۔
ثمرین کی تیز دھاری نظر اس کے آر پار ہونے لگی۔
نہیں نہیں میڈم میں کرتا ہوں۔۔
اور اس لڑکے کو ڈینی کو بھیج دیں۔
اسکا کیا کرنا ہے اب ؟ سلیمانی صاحب نے ہمت کر کے پوچھا؟
شادی۔ہاہاہا ثمرین نے قہقہ لگایا۔
جی؟؟
بس بس سلیمانی صاحب آج کیلئے اتنے دھچکے بہت ہیں آپ کی عمر کیلئے دل کے دورے سے مر گئے تو مجھے بہت دکھ ہوگا۔
ثمرین کا یہ بدلہ بدلہ انداز سلیمانی صاحب کو کچھ ہضم نہیں ہوا تھا کیونکہ آج سے پہلے اس نے کبھی خود سے کسی کو نہیں مروایا تھا۔
وہ پسینہ پسینہ اپنے کیبن میں آئے اور کسی کو فون ملانے لگے۔
ہیلو میری بات سنو ثمرین ریچرڈ کو مروانا چاہتی ہے مگر ایسا ہو گیا تو سب سے زیادہ نقصان مجھے ہوگا ۔تم اسے کہو کہیں غائب ہو جائے۔
مگر وہ آج صبح ہی قتل ہو چکا ہے۔اگلی آواز نے سلیمانی کو شل کر دیا۔
جبھی اسے پولیس کے سائرن ہر طرف سنائی دینے لگے۔
یہ پولیس کہاں سے آئی؟؟
گاڑڈز کس نے بلایا ہے پولیس کو۔۔
مسٹر اکرام سلیمانی؟؟
جی میں ہوں انسپکٹر نے اندر آتے ہی پوچھا۔
تو وہ کپکپاتے بولا۔
یو آر انڈر اریسٹ۔۔
میں نے کیا کیا ہے؟؟
آپ کو ایس ایس تھری انڈسٹریز میں پانچ کڑوڑ غبن کیس میں گرفتار کیا جاتا ہے۔
واٹ کیا انسپکٹر آپکا دماغ ٹھیک ہے میں نے کچھ نہیں کیا کس نے کہا آپنے۔
ثمرین سکندر شاہ نے کیس کیا ہے آپکے خلاف ۔۔
ایسا نہیں ہو سکتا میڈم ایسا نہیں کر سکتی۔
مجھے ملنا ہے میڈم سے۔۔
وہ اسکے کیبن کی طرف جانے لگا جب پولیس اسے ہتھکڑی پہنانے لگی۔
میڈم میرری بات سنیں۔
آپکو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میڈم سے ملنے دیں مجھے۔
آپ کو جس سے بھی ملنا ہے کوڑٹ میں ملئے گا اب۔
سلیمانی صاحب کی چیخ اور شور سے سارا آفس شل کھڑا تھا۔کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ اسے روکیں یا ثمرین کے پاس جائیں۔۔
اور ثمرین سکندر اپنی کھڑکی میں شان سے کھڑی وفا کا تماشہ دیکھ رہی تھی۔
اسے کہتے ہیں شہ و مات ۔
سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے
راحب احمد نے آج دل کھول کر قہقہہ لگایا۔
دوسری طرف زایان نے فون کانوں سے ہی ہٹا لیا۔
راحب یہ کیسے کیا تم نے؟
کل ثمرین سکندر کے کمرے سے نکلنے کے بعد میری نظر اسکے کمرے کی وائرنگ پر گئی جہاں کا سسٹم کمپیوٹرائزد تھا جسکا مطلب وہاں ہر چیز ریکارڈ ہوتی تھی۔
میں اپنی لاعلمی میں اسے خود پر تو شق کروا بیٹھا تھا پھر میں نے سوچا کیوں نہ کسی اور کو بھی اپنی نیا میں شامل کر لوں۔
پھر میں نے وہیں کھڑے ہو کر فون ملایا اور یوں بات کرنے لگا گویا سلیمانی سے بات کر رہا ہوں اور وہ ریچرڈ کے ساتھ ملا ہے۔
تو سلیمانی نے اسے بھگانے کی کال کیوں کی؟؟زایان تجسس سے بولا۔ وہ واقعی ریچرڈ کو بچانا چاہتا تھا بیچارا کیونکہ اسے مجھ پر شک تھا اس پر نہیں۔
تو اب کیا ہوگا؟؟
اب ہوگا یہ سلیمانی کو میں اپنے ساتھ ملا لوں گا۔ثمرین سکندر کے ہر زبر زیر سے وہی واقف ہے۔
اور وہ تمہاری مان لے گا؟
سانپ کآ ڈسا بچھو پر یقین نہیں کرتا مگر اپنی آزادی کیلئے ضرور مانے گا۔
افففف دماغ گھوم گیا میرا راحب تم نے یہ سب جنرل مرزا کو کیوں نہیں بتایا اپنا گیم پلین۔۔
مجھے ہونے کا انتظار تھا اب ہو گیا اب بتاوں گا۔
اور ثمرین راحب اگر وہ سچ میں تجھ میں انوالو ہوئی تو پھر؟زایان کا لہجہ سنجیدہ تھا۔
تو ہوتی رہے میں ایک شادی شدہ اور اب تو باپ بھی ہوں۔
راحب مسکراتے بولا۔
اور ساتھ کنجوس ندیدہ بھی ہوں؟زایان جل کر بولا۔
کوں بھئی؟؟
بندہ مٹھائی ہی کھلا دیتا ہے یار۔
بس یہ مشن ختم ہونے دے پھر مٹھائیاں ہی مٹھائیاں۔
میں سوچ رہا ہوں اس مشن کے بعد کام سے کچھ عرصہ بریک لونگا اور فیملی کے ساتھ وقت گزاروں گا۔
شکر ہے تمہیں بھی خیال آیا فیملی کا ۔
وہ دونوں یونہی کچھ دیر باتیں کرنے لگے۔اور ہھر راحب نے فون بند کر دیا۔
اب اسے ثمرین کے سامنے پیشی دینی تھی۔
راحب ناک کرتا ہوا کیبن میں آیا ۔تو ثمرین اپنی کنٹیاں سہلا رہی تھی۔
کیوں بلایا ہے آپ نے مجھے؟
راحب اعتماد سے بولا۔
سلیمانی صاحب میرے بہت وفادار تھے۔ثمرین کی کھوئی کھوئی آواز آئی۔
تم نے انہیں ورغلا کر مجھے ایک بار پھر میرے ماضی میں دھکیل دیا ہے میرے وحشت ناک ماضی میں۔
ثمرین کا رخ دوسری طرف تھا۔
راحب چلتا ہوا آگے آیا۔
تو آپ مجھے بھی انکی طرح جیل بھجوا دیں یا مروا دیں کس نے روکا ہے آپ کو؟
تمہاری سزا اتنی آسان نہیں ہو سکتی۔
سلیمانی صاحب کے دھوکے نے میرے دماغ کو ہلایا مگر تم نے میرے دل کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
کیا کہہ رہی ہیں آپ صاف صاف کہیں۔
راحب کو واقعی اس بار اسکی سمجھ نہیں آئی۔
تمہیں نہیں پتا میں کیا کہ رہی ہوں۔
تو سنو تم جو کوئی بھی ہو میں تم سے محبت کرنے لگی ہوں۔
تم یہاں میرے دل میں رہتے ہو۔اسنے اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔
یہاں رہنے والوں کی سزائیں بھی بہت گہری ہوتی ہیں۔
وہ بلکل راحب کے قریب آکھڑی ہوئی۔
تمہیں جیل بھیج کر اپنا حق نہیں مارنا چاہتی کیونکہ تمہیں دکھ دینے کا تمہیں ستانے کا حق میرا ہے۔
مگر اب میرا دل مجھ سے ہی بغاوت کرنے لگا ہے۔
مجھے ہر پل تمہارے ساتھ رہنا ہے اس گناہوں کی دنیا سے مجھے نکال لو ۔تم تم مجھ سے شادی کر لو۔
راحب فورا اس سے دو قدم دور ہوا تو وہ اسکے سینے لگ گئی
تم مجھ سے شادی کر لو۔میں یہ سب کام چوڑ دونگی اپنے سارے گناہوں کا اعتراف کر لونگی۔
راحب کو بلکل سمجھ نہیں آئی یہ عورت کونسا گیم کھیل رہی ہے اسکے ساتھ مگر شادی؟؟
میں تم سے شادی نہیں کر سکتا۔
ثمرین نے ایک دم اسکا گریبان پکڑ لیا۔
کوئی اور ہے تمہاری زندگی میں تو یاد رکھنا میں سب برباد کر دونگی کسی کو نہیں چھوڑوں گی ثمرین سکندر نام ہے میرا۔
اسکا ماضی اس بار صرف ثمرین پر ہی نہیں راحب پر بھی بھاری پڑا تھا۔اسکے اس جنون نے راحب احمد کو کچھ بہت غلط ہونے کا اشارہ دیا تھا۔
رات کا آخری پہر تھا”
مجھ سے چاند نے کہا”
ہم نشیں الوداع”
مجھ کو نیند آ رہی ھے”
کل ملیں گے اسی جگہ”
سُن کر میں مســــکرا دی”
اس کو بتلا دیا”
جانے والے لوٹتے نہیں”
تم نہیں آؤ گے”
مجھے ہے یقیں”
میری بات سُن کہ وہ رُک گیا”
اور کہنے لگا”
تم سے وعدہ کروں”
پھر پورا نہ کروں”
ایسا ممکن نہیں”
سُن اے خاک نشیں”
میں چاند ھوں انساں نہیں………!!!!