ڈھونڈنا کچھ اُداس لفظوں کا۔۔۔
باندھ دینا ردیف دھاگے میں !!
جیسے گجرے میںپھول گیندے کے۔۔۔۔
موتیے کی سفید کلیوں میں، خوب جچتے ہیں، خوب لگتے ہیں !!
لیکن ایسا بھی دُکھ سے کیا لکھنا …
لفظ لگتے ہوںدل پہ پتھر سے
حرف چُبھتے ہوں بن کے نشتر سے !!
!! میں نے دیکھی ہیںآپ کی نظمیں
روز پڑھتی ہوں آپ کی غزلیں ۔۔
“زخم “ آتا ہے قافیے میں کہیں۔۔
…”ہائے “ مصرعوں میں عام ہے شا ید
!! “درد” تکیہ کلام ہے شا ید
!! رنج و حسرت ۔۔۔غضب کا لکھتے ہیں
آپ ناصر کے ڈھب کا لکھتے ہیں۔۔۔
!! شعر مجھ پر بھی کوئی لکھ دیجے
!!نظم لکھیے نا ں !!کو ئی اچھی سی
!!شوخ زلفوںپہ !! گال پر لکھیے !!
!!میری چشمِ غزال پر لکھیے !!
اپنے زخموںکو چاک لکھتے ہیں!!
میری آنکھوںپہ گر نہیںلِکھا ۔۔۔۔۔۔
!!! لوگ سمجھیںگے ۔۔۔۔۔ خاک لکھتے ہیں
شہر کے اس مہنگے ترین ہوٹل میں معمول سے زیادہ رش تھا ۔کیونکہ آج یہاں بزنس ٹائکون لیڈی ثمرین سکندر شاہ موجود تھی۔
وہ اپنے اسی کے زیادہ پروٹوکول کے ساتھ اس ہوٹل میں آئی ۔
اس کے چہرے پر گہرے بل اور غصے کے آثار نمایاں تھے۔
وہ رش اور دھکم پیل میں شان سے چلتی ہوئی اپنے اسپیشل بوکڈ روم میں آئی اور آکر گہرا سانس لیا۔
پاس پڑا گلدان اتنی شدت سے پھینکا کے کسی کی بھی سماعت چیرنے جائے۔
بلڈی فولز۔۔۔
پرائیویٹ بات کرنے کیلئے کوئی پبلک پلیس پر بلاتا ہے۔ہزاروں کا پریس اور میڈیا گواہ میں یہاں آئی ہوں۔
یہ الو میری بنی بنائی ریپوٹیشن کا ستیاناس کرنے پر تلے ہیں۔
وہ زور زور سے کنپٹیاں مسلتی ادھر ادھر چکر کاٹ رہی تھی۔
میڈم آپ فکر نہ کریں میں دیکھ لونگا۔
ارے کیا دیکھ لیں گے آپ؟ کہاں ہے وہ لڑکا؟بلایا تھا میں نے اسے وہ کیوں نہیں ہے یہاں؟یا آپ سب چاہتے ہیں کوئی بھی مجھے شوٹ کر کے یہاں سے چلتا بنے۔
میڈم وہ بلاگر ہے ہمارے ساتھ کیا کرے گا۔اس کا سارا کام آفس کا ہے۔
بھاڑ میں گئی بلاگنگ سلیمانی صاحب میں نے اسے اس مقصد کیلئے نہیں رکھا۔اسکا کام میری حفاظت ہے ۔جو بےخوفی اور دلیری اسکی آنکھوں میں نظر آتی ہے مجھے اسکی ضرورت ہے۔
پر میڈم گاڑڈز تو بہت ہیں ہمارے ساتھ۔
یہ ان بندروں کو آپ گاڑڈز کہتے ہیں ان غیر ملکیوں کی کم عقلی کی وجہ سے جتنے میرے دشمن بن گئے ہیں نا وہ مجھے ان کے بیچ و بیچ شوٹ کر جائیں اور انکو پتا بھی نہ چلے۔
ثمرین نے جگ سے پانی انڈیلا اور ایک ہی سانس میں پانی پینے لگی۔
اس ٹھنٍڈ کے موسم میں بھی وہ پسینہ پسینہ تھی۔
وہ کبھی اپنے کندھے پر ہاتھ رکھتی کبھی سر پر۔
سلیمانی صاحب ہونٹ تر کرتے بولے۔
ممیڈم آپ نے اپنی دوائی لی؟
جتنا بولا ہے اتنا کریں ڈینی کو بلائیں۔۔۔وہ دھاڑی تو سلیمانی صاحب فور باہر نکلے۔
ثمرین نے اپنے پرس میں سے چند دوائیاں اور انجکشن نکالا۔انجکشن اس نے بڑی بےدردی سے اپنے اپنے جسم میں پیوست کیا جسے پہلے سے بھر کر رکھا گیا تھا۔ایک ہلکی سی سسکاری اسکے منھ سے نکلی۔
پھر چند دوائیاں لیکر وہ وہیں آنکھیں موندھ گئی۔
“تم پاکستان کی گندی پیداوار ہو”
“تم چور باپ کی بدکردار بیٹی”
“سعدیہ اگر میری سگی بیٹی ہے نا تو کسی کو نہ چھوڑنا ان سب کو موت کے گھاٹ اتارنا ان سب سے باپ کی موت کا بدلہ لینا ان کی ساری نسلیں اس غلطی کی سزا بھگتیں”
اینٹی ڈپریشن اور ڈرگز لینے کے بعد ماضی یونہی ایک بلکھاتی ناگن کی طرح اسکے اردگرد گھومنے لگتا تھا۔
چند گھنٹوں بعد اس کے کمرے پر دستک ہوئی تو اس نے پھر سے سب ٹھیک ہونے کا منھ کھوٹا پہن لیا۔
وہ دنیا کے سامنے سعدیہ نہیں دی ثمرین سکندر شاہ تھی۔
ہوش کا کتنا تناُسب ہو __بتا دے مُجھ کو،
اور اس عشق میں درکار ہے __وحشت کتنی…
دیکھ یہ ہاتھ میرا__اور بتا دست شناس،
درد کتنا ہے مُقدر میں..؟___مُحبت کتنی..
میرا بےبی دادو کو زیادہ تنگ نہیں کرے گا نا؟
سلویٰ کالج کیلئے تیار ہوتی ساتھ ساتھ وہاج سے محو گفتگو تھی اور یہ اسکا ہسندیدہ عمل تھا۔
اور وہاج بھی اس طرح آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھتا گویا سب سمجھ رہا ہو۔
سلویٰ تیار ہوئی وہاج کو اٹھایا اور نیچے آئی جہاں نگہت جہاں اور چندہ پہلے ہی بیٹھی تھیں۔
آو بیٹا ناشتہ کر لو ۔دیر ہو جائے گی۔
نگہت جہاں نے اسے بلایا۔
وہ بھی وہاج کو لئے بیٹھ گئی۔
بھابھی وہاج مجھے دے دیں میں ناشتہ کر کے آئی ہوں۔
چندہ نے اس سے لے لیا۔
خالہ مجھے معاف کر دیں۔
اور بھاھی آپ فکر نہ کرنا میں اور خالہ اسے سمبھال لیں گے۔
نگہت جہاں بھی مسکرائیں۔
خالہ آئی ایم سوری۔
سلویٰ نے گردن جھکائی۔
کیا ہواسلویٰ ایسے کیوں کہہ رہی ہو۔
جی خالہ ٹھیک کہہ رہی ہوں مجھے چاہئے تھا اس عمر میں آپکو آرام دینے کی بجائے میں آپ پر زمہ داریاں ڈال رہی ہوں۔
بیٹا زندہ رہنے کیلئے زمہ داریاں بہت ضروری ہیں فارغ انسان ہمیشہ جلدی زندگی سے فارغ ہو جاتا ہے۔
اور اگر تم اتنی کم عمر میں اتنی زمہ داریاں اٹھا سکتی ہو تو میں کیوں نہیں میں نے تو ساری زندگی بس انتظار میں گزاری ہے کچھ کرنے کا موقع تو مجھے اب ملا ہے۔
نگہت جہاں نے اسکے س پر ہاتھ پھیرا۔
وہ تو آپ اتنی اچھی ہیں اسلئے ورنہ کوئی اور ساس ہوتی تو مجھے چٹیا سے پکڑ کر باہر نکال دیتی۔
سلویٰ روہانسی بولی۔
نگہت جہاں نے قہقہ لگایا۔
واقعی بھابھی اس معاملے میں آپ بہت لکی ہیں ہماری خالہ بہت اچھی ہیں۔
بیٹا ساس بہو کا رشتہ بہت پیچیدہ ہوتا ہے اسے سمجھنے کیلئے دو طرفہ محنت کی ضرورت ہے۔اور میرے مطابق دنیا کا ہر رشتہ دو طرفہ محنت عزت وقت مانگتا ہے۔جو رشتہ صرف ایک نبھائے وہ کبھی زیادہ دیر نہیں چلتا کیونکہ ایک طرفہ رشتے میں کسی کے قدم تھک جاتے ہیں اور کسی ک دل۔
میں نے سلویٰ کو جس دن اپنے راحب کیلئے پسند کیا تھا تو سوچ لیا تھا یہ میری ہسند ہے اور اپنی پسند کی لاج مجھے خود رکھنی ہے۔آج کل کی ساسیں پہلے بہو خود پسند کر کے لاتی ہیں اور پھر اسی میں کیڑے گننے لگتی ہیں۔
لڑکا لڑکی محبت کی شادی کے بعد ایک دوسرے سے ہی بیزار ہو جاتے ہیں کیوں؟
کیونکہ وہ ایک دوسرے کو صرف خوبیوں سمیت قبول کرتے ہیں لیکن جنہیں پسند کیا جائے انکی خامیوں کی لاج رکھی جاتی ہے۔دوسروں کیلئے نہیں اپنی نظر میں اپنی عزت رکھنے کیلئے ۔دل کے فیصلوں پر پچھتانے سے بہت بہتر ہے کہ جو طہ کر لیا اسی کو بہتر بنا لیا جائے۔
سلویٰ فورا نگہت جہا کے گلے لگ گئی
اچھا اچھا بس اب اٹھو تمہاری کالج وین آ گئی ہوگی تمہارا میاں صبح سے میرا سر کھا گیا ہے کہ سلویٰ کو دیر سے نہ بھیجنا۔
راحب کا فون آیا تھا ۔سلویٰ نے حیرانی سے پوچھا۔
کوئی ایک بار بھابھی درجنوں بار چندہ نے پھر قہقہ لگایا۔
اچھا ٹھیک ہے خالہ۔۔
سلویٰ عبایہ اوڑھتی باہر نکل گئی۔
نگہت جہاں نے اس چھوٹے سے شہزادے کو گود میں لیا جس نے سلویٰ کے جاتے ہی رونا شروع کر دیا تھا۔
اففف اسے تو جیسے الہام ہو جاتا ہے بھابھی چلی گئی ہے۔
بچہ پہلی گود کا لمس زندگی بھر محسوس کر سکتا ہے۔
اور وہ لمس سلویٰ کا ہے۔
نگہت جہاں اسے چپ کروانے لگیں۔
بہت ہمت ہے بھابھی میں ایک پرایے بچے کی زمہ داری لے لی وہ بھی اتنی کم عمر میں۔ورنہ آج کل کی لڑکیاں تو شادی کے پانچ چھ سال بعد کہیں اپنا بچہ پیدا کرتی ہیں کہ ہم زمہ داریاں نہیں سمنبھال سکتی۔
ٹھیک کہہ رہی ہو چندہ۔میری بچی کے بڑے دل کو اللہ بہت نوازے گا۔
ان شاءاللہ
میٹنگ ختم ہوئی ثمرین آنے والوں کی دھواں دار سی حوصلہ افزائی کر چکی تھی۔
وہ ابھی بھی وہیں تھی جب سلیمانی صاحب ڈینی کے ساتھ اندر داخل ہوئے۔ثمرین کے چہرے پر عجیب سی وحشت طاری تھی۔
مجھے دیر سے آنے والے لوگ بلکل نہیں پسند۔ثمرین اسے گھورتے ہوئے بولے۔
مجھے بھی جلدی میں بلانے والے لوگ بلکل نہیں پسند۔
آگے سے بھی کرارا جواب آیا تھا۔
ثمرین کے اشارے پر سلیمانی صاحب باہر نکل گئے۔
تمہیں نہیں لگتا تمہارا مجھ سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔وہ آہستہ آہستہ چلتی اسکی پاس آنے لگی۔
کچھ تو ہے جو آپکو ہر بار میرے سامنے بولنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
راحب سینے پر ہاتھ باندھتے بولا۔
ثمرین بلکل اس کے قریب کھڑی تھی ۔اور سرگوشی والے انداز میں بولی
تمہیں مجھ سے ڈرنا چاہئے ڈینی جھان۔۔
آپ بزنس لیڈی ہیں یا گینگسٹر۔۔وہ بھی اسی رو میں بولا۔
بغیر اس سب کے بھی تمہیں ڈرنا چاہئے۔
خیر آج سے تم میرے پرسنل اسسٹنٹ تم میرے مطابق بلوگز بناو گے ۔
بہتر۔۔راحب دو قدم دور ہٹا۔
ثمرین کی آنکھوں سے صاف جھلک رہا تھا کہ اس نے کوئی نشہ کررکھا ہے۔شائد ڈرگز اپنا اثر دکھا رہے تھے۔
چابی اٹھاو اور میرے ساتھ چلو۔
ریڈ کلر کے سوٹ میں ریڈ لپ سٹک اور آنکھوں پر سیاہ چشمے کسی بھی بندہ بشر کو بہکانے کیلئے کافی تھے۔
پر راحب احمد کے ذہن میں اپنا مقصد بہت تازہ تھا۔
سلویٰ ابھی بھی اپنے کالج میں داخل ہوئی جو کوایجوکیشن تھا۔
ہر طرف بے فکر لڑکے لڑکیاں کتابیں اٹھائے چلتے پھرتے نظر آرہے تھے سلویٰ کی بند مٹھی میں پسینے آنے لگے آج اسکی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوئی تھی آج وہ شہر کے کالج میں کھڑی تھی۔
پر اتنے انجان جگہ وہ بھی اکیلی سلویٰ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔
وہ پانچ منٹ سے ہنوز ایک ہی جگہ کھڑی تھی۔
کالج کی بلڈنگ نہایت کشادہ اور وسیع و عریض ہونے کے باوجود وہاں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔
سلویٰ نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا تو باہر گراونڈ میں پہنچ آئی۔
اب صحیح معنوں میں سلویٰ کے حواس بیگانہ ہوئے۔
“کب تک کھڑی رہوں گی کسی سے پوچھ لیتی ہو”
خود کو خود ہی مشورہ دے کر وہ روہانسی ہو گئی۔
گراونڈ کے بیچ درختوں تلے بہت سے لڑکے لڑکوں کے گروپ بنے تھے۔
ایک میں ہی اکیلی ہوں شائد۔
یہ اسکا اپنا خیال تھا وگرنہ وہاں اور بھی لوگ تھے جو اپنی مدد آپ کر رہے تھے۔پر سلویٰ راحب احمد کو کونے میں کھڑے ہو کر روہانسا ہونا ہی اچھا لگا۔
تبھی ایک کاغز کا جہاز اڑتا ہوا آیا اور اسکے ناک پر لگا۔
سلویٰ نے برا منھ بنا کر ادھر اھر دیکھا تو کوئی اسکی طرف متوجہ نہیں تھا۔
سلویٰ نے وہ کاغز اٹھایا تو وہ کسی کا بہت برا گریڈڈ ٹیسٹ تھا یقینا اس نے اسی لئے جہاز بنا دیا ہوگا۔
ایکسیوز می۔۔۔۔
گراونڈ میں بیٹھی ایک لڑکی نے اسکی طرف ہاتھ ہلایا تو سلویٰ اسے گھورنے لگی۔
یہ پیپر مجھے دے دیں۔
وہ لڑکی کسی لڑکے کے ساتھ گراونڈ میں بیٹھی تھی لڑکے کا دھیان سلویٰ کی طرف نہیں تھا۔وہ بڑی فرصت سے کتاب پڑھ رہا تھا۔
سلویٰ چلتے چلتے اس لڑکی کے پاس آئی اور اسے کاغز دے دیا۔
اور وہیں کھڑی ہو گئی۔
کچھ لمحے بعد اس نے دیکھا کہ سلویٰ وہیں کھڑی تھی۔
بیٹھ جاو ہم پیسے نہیں لیتے۔۔اور ہنسنے لگی۔
سلویٰ کو شرمندگی ہونے۔
ایکچولی میرا آج پہلا دن ہے مجھے پتا نہیں ہے کچھ ہے۔
سلویٰ آہستہ سے بولی تو اب کی بار لڑکے نے سرسری سی نظر اسے دیکھا اور پھر کتاب پڑھنے لگا۔
پتا تو ہمیں بھی نہیں پیاری بیٹھ جاو تم بھی۔وہ بہت پیاری سی ہنس مکھ لڑکی تھی اب کی بار سلویٰ بھی بیٹھ گئی۔
کیا نام ہے تمہارا۔
سلویٰ۔
سلویٰ راحب احمد۔۔
مم نائیس نیم میرا نام ماہین ہے تم مجھے ماہی بھی کہہ سکتی ہو۔
وہ سلویٰ سے ایسے ہی رسمی باتیں کرنے لگی۔
جب وہ لڑکا بیزار ہوتا ایک دم بولا۔
سنو لڑکی اپنا شیڈول دکھاو۔
وہ سلویٰ سے گویا ہوا۔
سلویٰ کو کالج سے ملا شیڈول اس لڑکے کو تھما یا۔
تمہاری آج چار کلاسز ہیں سیکنڈ فلور روم نمبر تھری۔
جو اب سے پانچ منٹ بعد شروع ہونگی۔
اور دوسری بات اگر تم پڑھ کر یہاں ڈگری لے جانا چاہتی ہو نا تو اس ماہین بلا سے دور رہنا۔
زین کیا کہ رہے ہو تم !۔
اس ماہین لڑکی کا منھ ہی حیرت سے کھل گیا۔
ٹھیک کہہ رہا ہوں تمہاری کلاس کی ہی ہے یہ اور تمہیں توفیق نہیں ہو رہی کہ کلاس لے لو۔
سلویٰ ان دونوں کو یونہی بحث کرتا چھوڑ کر کلاس کی جانب چل پڑی۔
اور آخر اللہ اللہ کر کے کلاس میں ہہنچ ہی آئے کلاس میں ایک جگہ بیٹھی ہی تھی کہ پانچ منٹ بعد وہ ماہین بھی وہیں آ بیٹھی جس کے چہرے پر ہنسی کی بجائے بارہ بجے تھے۔
سلویٰ نے اسے نا بلانا ہی مناسب سمجھا۔
اسکی اگلی کلاسز وہیں تھیں۔
وہ سلویٰ کے ساتھ ہی بیٹھی تھی پر اسکا دھیان پڑھائی میں زرا بھی نہیں تھا۔وہ کبھی ماہین لکھتی کبھی زین کبھی دل بناتی ۔وہ سلویٰ ہی کی ہم عمر تھی۔سلویٰ نفی میں سر ہلاتی کام کرنے اس دنیا میں دل جلوں کی کمی تھوڑی ہے جو ہر ایک پر غور کیا جائے۔
ثمرین خود ہی ڈرائیو کر کے اپنے گھر آئی تھی۔یہ گاڑی لے جاو شوروم میں۔وہ گاڑی سے باہر نکلی تو بری طرح لڑکھڑائی ٹھیک وقت راحب اسکا ہاتھ نہ ہکڑتا تو وہ شائد مین گیٹ سے ٹکرا کر اپنا سر پھاڑ لیتی۔
میں آہکو اندر چھوڑ دیتا ہوں۔
راحب کے پاس گھر تک پہنچنے کا اس سے اچھا موقع کوئی نہیں تھا۔مگر اسکے پہلو میں چلتی وہ ناجانے کونسے خواب بننے لگی تھی اسے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس شخص کو سب سونپ رہی ہے حالانکہ ثمرین کو اس پر اعتبار نہیں تھا۔
اس نے راحب کا ہاتھ زور سے پکڑا تو وہ راحب اپنی دنیا سے باہر نکلا۔
اس سے پہلے کہ وہ ہاتھ چھڑواتا وہ اسی کے بازووں میں گر پڑی تھی راحب دانت پیس کر رہ گیا۔
ایک امپائیر چلانے والی عورت جس نے پورے ملک کو آگے لگا رکھا تھا ایک زرا سے نشے میں بہوش ۔ہونہہہ
راحب اسکے ڈرامے اچھے سے واقف تھا مگر وہ دریا میں رہ کر مگرمچھ سےنہیں بھڑ سکتاتھا اسلئے اسے تھامتا اندر لے گیا۔
اور وہیں لاونج کے صوفے پر لٹا یا۔
ثمرین سکندر شاہ کا گھر کسی محل سے کم نہیں تھا۔اعلی فرنیچر دیدہ زیب آرائش۔
ہونہہ صحیح لوٹا ہے اس نے پاکستان کو۔
اسکی ملازمہ فورا آئی اور اسے ہانی پلانے لگی۔
میں بی بی کی دوائی لے آتی ہوں۔
ملازمہ جانے لگی تو راحب نے اسے روکا۔
تم ان کے ہاس رکو مجھے بتاو میں لے آتا ہوں۔
دوائی کہاں ہے؟
جی اوپر کمرے میں۔
راحب اسکے ہاتھ میں سے ہاتھ نکلواتا کمرے کو دوڑا۔
راحب نے سب سے پہلے کمرے کا معائنہ کیا کہیں کوئی کیمرہ نہ ہو۔
پر صد شکر وہاں کوئی کیمرہ نہیں تھا۔
راحب کمرے کا ایک ایک کونہ چھاننے لگا اسے ثمرین کی الماری سے اسکے ٹرانزیکشن کی ساری ڈیٹیلز مل گئیں۔
راحب نے اپنے موبائیل سے ان سب کے سنیپ شوٹ لئے۔
تبھی اسے پشت پر کسی کا لمس محسوس ہوا۔
کوئی اسکی کمر کو اپنے حصار میں لئے تھا راحب نے فورا سے کاغز سائیڈ پر کر کے دوائیاں اٹھا لیں۔
اور اسے پیچھےدھکیلا۔
یہ کیا کر رہی ہیں آپ؟
یہ سوال میں بھی ہوچھ سکتی ہوں۔
پر میں نہیں ہوچھوں گی ۔تم تو کیا تمہارے جیسے چالیس بھی میری جاسوسی کر لیں تب بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
ثمرین کے ہاتھ میں ایک تیز دھار والا چاقو تھا۔
جسکی نوک وہ بڑے پیار سے سہلا رہی تھی۔پر تمہیں اب میں جانے نہیں دونگی۔
او اچھا تو آپ مجھے ماریں گی۔
راحب نے سینے پر ہاتھ باندھے۔
نہیں جلاوں گی۔
راحب کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ آئی گویا وہ اسکا مزاق اڑا رہا ہو۔
جانتے ہو کس آگ میں؟
کس میں؟
اپنے عشق کی۔۔۔۔
وہ راحب کے کانوں کے ہاس آکر بولی اور راحب احمد کی مسکراہٹ ہوا ہوئی۔
سنو جاناں
ابھی پہلی محبت کے
بہت سے قرض باقی ہیں
ابھی پہلی مسافت کی
تھکن سے چُور ہیں پاؤں
ابھی پہلی رفاقت کا
ہر اک گھاؤ سلامت ہے
ابھی مقتول خوابوں کو
بھی دفنایا نہیں ہم نے
ابھی آنکھیں ہیں عدت میں
ابھی یہ سوگ کے دن ہیں
ابھی اس غم کی کیفیت سے
باہر کس طرح آئیں؟؟
ابھی یہ زخم بھرنے دو
ابھی کچھ دن گزرنے دو
یہ غم کے نیلگوں دریا
اُتر جائیں تو سوچیں گے
ابھی یہ زخم تازہ ہیں
یہ بھر جائیں تو سوچیں گے کہ ۔۔۔۔۔
“دوبارہ کب اجڑنا ہے۔۔