ابراہیم البدری کی سپشلائزیشن فقہ میں تھی۔ 2003 تک انکا کیرئیر خاموشی سے چل رہا تھا۔ اگر امریکہ عراق میں نہ آیا ہوتا تو ایک ناقابلِ ذکر زندگی ہوتی۔ نہ وہ افغانستان گئے۔ نہ زرقاوی کی طرح زندگی تشدد کے ماحول میں بسر کی۔ نہ اسامہ بن لادن کی طرح ایڈونچر کا شوق تھا۔ عینک لگانے والے اور اپنے میں رہنے والے البدری کو فٹبال پسند تھی۔ شادیوں میں رقص ناپسند تھے۔
امریکہ کے خلاف ایک چھوٹی مزاحمتی تحریک میں شامل ہوئے۔ جنوری 2004 میں گرفتار ہوئے اور کیمپ بکا میں قیدی بنے۔ مزاحمتی تحریک اور قید، البدری کا بہتے خون سے لطف اندوز ہونے والے انتہاپسندانہ کیرئیر کا یہ آغاز تھا۔
کیمپ بکا ایک جہادی یونیورسٹی تھی اور اس کے سب سے مشہور گریجویٹ البدری تھے، جنہوں نے ابوبکر البغدادی کے نام سے شہرت پائی۔ اس طرح کے کیمپ انتہاپسند اور معتدل مزاج لوگوں کے ملنے کی جگہ تھے، جس میں لوگ انتہاپسند بن کر نکلتے تھے۔ یہاں پر اپنی دینی علم کی وجہ سے ان کو عزت ملی۔ نماز میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ شرعی مسائل میں ان سے راہنمائی لینے آتے تھے۔ دس مہینے کے اس قیام نے ان کو قیادت کے شوقین شخص میں بدل دیا۔ جیل جنگجو تنظیموں میں عزت لینے کی لئے ضروری بھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس جیل سے نکل کر واپس اپنی ڈاکٹریٹ کرنے لگے۔ ان کی پی ایچ ڈی 2007 میں مکمل ہو گئی۔ اس دوران ان کی تنظیم زرقاوی کی قائم کردہ کونسل میں ضم ہو چکی تھی۔ بغدادی کو اس میں شرعی قانون کا مشیر بنا دیا گیا۔ 2010 میں تنظیم کی مرکزی کونسل میں شامل ہو گئے۔ اپریل 2010 میں جب تکریت میں دولتِ اسلامیہ کی قیادت بم تلے ماری گئی تو بغدادی قیادت کے لئے انتخاب بنے۔ القاعدہ اپنے دہشت گرد حملوں کی تاویل کے لئے کئی بہانے تراشتی رہی تھی لیکن کم از کم کوشش کی جاتی تھی کہ کچھ علماء سے حق میں فتوے لے لئے جائیں۔ زرقاوی نے اس تکلف کو چھوڑ دیا تھا۔ دولتِ اسلامیہ کا طریقہ یہ تھا کہ یہ جو چاہتے تھے کرتے تھے۔ ان کے سکالر لیڈر اس کی تاویل فٹافٹ بتا دیتے تھے۔ کوئی عمل کتنا ہی غیرانسانی اور ظالمانہ کیوں نہ ہو ۔۔۔ گلے کاٹنا، خود کش حملے، بھتہ وصول کرنا، اغوا کرنا، عقیدے کے فرق کی وجہ سے کسی کو قتل کرنا، عام لوگوں کا خون بہانا، قیدی کو نذرِآتش کر دینا ۔۔۔ بغدادی کے پاس جھٹ حل اور جواز موجود ہوتا تھا۔ ان کا دوسرا فائدہ ان کا پڑھا لکھا ہونا تھا جو ایک ممکنہ خلیفہ کے لئے جچتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عراق میں ناکام ہونے کے بعد شام میں القاعدہ نے اپنے آنے کا اعلان انیٹرنیٹ پر ویڈیو سے کیا تھا۔ جیسے سٹیو جابز آئی فون متعارف کرواتے تھے، یہ رونمائی بھی اسی مہارت سے کی گئی۔ کئی روز سے اہم اعلان کا کاونٹ ڈاون چلتا رہا اور پھر اس کے صفر پر آ جانے پر ابو محمد الجولانی کی سولہ منٹ کی ویڈیو شروع ہو گئی۔
اس سے کچھ ہفتے قبل دمشق میں دو گاڑیوں میں بم دھماکے ہوئے تھے جس سے چوالیس لوگ ہلاک ہوئے۔ اس ویڈیو میں فخریہ اس کی ذمہ داری قبول کی گئی۔ نصرہ فرنٹ کی شام آمد کی خوشخبری سنائی گئی اور سب کو کہا گیا کہ وہ مشرق سے آنے والے سیاہ جھنڈوں تلے اکٹھے ہو جائیں۔ فتح کے اس قافلے کا حصہ بن جائیں۔ ساتھ ساتھ میں شامی بچوں کی لاشیں اور جذبات ابھارتے مناظر ۔۔۔ اس زبردست مارکٹنگ نے ہزاروں لوگوں کو متوجہ کیا۔ کویت میں حجاج العجمی کے لاکھوں فالوور تھے۔ انہوں نے اس کے لئے چندہ اکٹھا کرنا شروع کیا۔ شامی مظلومین کی مدد کے لئے سپیشل بینک اکاونٹ قائم ہوئے۔ ٹوئٹر پر ہونے والی نیلامیوں نے لوگوں نے اپنے گاڑیاں اور کشتیاں بیچ کر شامی بھائیوں کی مدد کے لئے عطیات دئے۔ کیش، زیورات اور دیگر سازوسامان اکٹھا ہونے لگا۔ مخیر حضرات کی طرف سے کیش سے بھرے بریف کیس میدانِ جنگ پہنچنے لگے۔ زیادہ چندہ دینے والے کے نام پر ایک باغی بریگیڈ کا نام رکھا جاتا۔
جن ممالک سے فنڈ آ رہے تھے، انہوں نے اس سب کو منع نہیں کیا۔ “بشار الاسد مسئلہ ہے۔ نصرہ اس کا حل ہے۔” یہ مشرقِ وسطٰی کے ایک ملک کے سفیر کے الفاظ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعدے کے مطابق سیاہ جھنڈے مشرق سے پہنچ گئے۔ لمبے بال اور داڑھیوں والے۔ یہ گھوڑوں پر نہیں بلکہ چھوٹے پک اپ ٹرکوں پر گرد اڑاتے آئے تھے۔ قدم جما لینے کے بعد اس پراجیکٹ کے اگلے مرحلے کا وقت آن پہنچا تھا۔ بغدادی کے مطابق “اب کافروں کو یہ دکھانے کا وقت تھا کہ خلافت کیسی ہوتی ہے”۔ ستائیس سالہ کمپیوٹر انجینیر شاکر واہب الدلیمی سیاہ لمبے بالوں، سر پر ٹوپی اور لمبی داڑھی کے ساتھ بغیر ماسک کے ویڈیو پر نظر آیا کرتے تھے۔ انہوں نے اب کیمرہ ہائی وے پر سیٹ کروایا تھا۔ رائفل پکڑے واہب نے انہوں نے سڑک پر آنے والی ٹریکٹر ٹرالیوں کو روکا۔ ان سے اترنے والے تین افراد سے شناختی کارڈ طلب کیا۔ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ شیعہ ہیں۔ سفید جینز میں ملبوس نوجوان نے کہا کہ نہیں، وہ حمص کے سُنی شہری ہیں۔ ویڈیو ریکارڈنگ جاری رہی۔ “کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟” اس لڑکے کے ساتھ کھڑے ادھیڑ عمر شخص نے جواب دیا، “ہم صرف اپنے کام سے کام رکھنے والے ہیں”۔ ابو واہب نے کہا، “ثابت کرو کہ تم سنی ہو۔ یہ بتاوٗ کہ فجر میں کتنی بار سجدہ کیا جاتا ہے”۔ لرزتے اشخاص میں سے ایک نے کہا”چار بار”۔ ایک کا جواب آیا، “چھ دفعہ”۔ ایک نے کہا، “تین؟”
“تم کافر ہو، ریت پر گھٹنے کے بل بیٹھ جاوٗ۔” یہ کہہ کر ابو واہب ان کی کمر کی طرف چلے گئے اور رائفل نکال لی۔ ایک نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن تینوں کو گولیوں سے اڑا دیا گیا۔ ان کی ٹریکٹر ٹرالیوں کو آگ لگا دی گئی۔ ویڈیو میں آواز ابھری، “عراق میں شعلہ بھڑک چکا ہے۔ اس کی آگے ابھی پھیلے گی۔ صلیبی فوجوں کو دابق میں شکست دی جائے گی۔ یہ پیشگوئی عنقریب پوری ہونے والی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بغدادی نے جو لوگ اس پہلے بھیجے تھے، وہ ان کے خیال میں نرم دل تھے اور بغدادی ان سے مایوس ہوئے تھے۔ ان کے ارادے بلند نہیں تھے۔ خلافت قائم کرنے کے لئے ناکارہ تھے۔ ابو واہب جیسے لوگ یہ کام کر سکتے تھے۔ 9 اپریل 2013 کو اسلامسٹ ویب سائٹ پر بغدادی کا اکیس منٹ کا پیغام چل رہا تھا۔ نصرہ فرنٹ اب کالعدم کر دیا گیا ہے۔ اس کی جگہ نئی تنظیم دولتِ اسلامیہ فی العراق و شام بن گئی ہے۔ (اس کا مخفف داعش ہے)۔ جبہت النصرہ کو اس میں ضم کر لیا گیا ہے۔ عراق اور شام میں اب ایک ہی تنظیم کافر حکومتوں کے خلاف جہاد میں متحد ہے۔
اس کا سب سے سخت جواب جس سے آیا، وہ حیران کن تھا۔ بغدادی نے اپنے ساتھی جولانی سے اس بارے میں رائے نہیں لی تھی۔ دو روز بعد جولانی کا پیغام آ گیا۔ “جبہت النصرہ قائم ہے۔ اس کا جھنڈا ویسا ہی رہے گا۔ کوئی اس کو بدل نہیں سکتا”۔ بغدادی کے پرانے کامریڈ اور دوست نے صاف جواب دے دیا تھا۔ 9 جون 2013 کو ایمن الظواہری کا ڈانٹ بھرا خط آ گیا جس میں انہیں اعتماد میں لئے بغیر یہ قدم لینے پر سرزنش کی گئی تھی اور کہا کہ بغدادی کو اب پروبیشن پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ ایک سال بعد ظواہری فیصلہ کریں گے کہ بغدادی سربراہ رہنے کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔ ایک نمائندے خالد السوری کو مقرر کیا کہ وہ سیریا میں اس جھگڑے کا تصفیہ کروائیں۔
بغدادی نے اس پیغام کو نظرانداز کرتے ہوئے جواب دیا کہ وہ سوائے اللہ کے کسی اور کو جواب دہ نہیں۔ دونوں دہشت گرد تنظیمیں، القاعدہ اور داعش ۔۔۔ اب کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بغدادی نے تنظیمی اووہالنگ کی، علاقائی گورنر لگائے، شریعت ایڈوائزر بنائے، ملٹری کمانڈروں کا تقرر کیا۔ سوشل میڈٰیا، تربیت، ریکروٹمنٹ کے شعبے بنائے۔ خود کش حملوں کے لئے الگ شعبہ قائم کیا گیا۔
عراق میں دہشت گرد حملوں کی نئی لہر شروع ہوئی۔ تمام حملے عام شہریوں پر کئے جاتے تھے۔ کھیلوں کے میدان، مسجد، کیفے، بازار۔ یہاں تک کہ نینوا میں ایک پرائمری سکول پر ٹرک بم سے حملہ کیا گیا جس میں گراونڈ میں کھیلتے تیرہ بچے جاں بحق ہوئے۔
اس سے اگلا قدم “گیٹ تباہ کرنے” کا آپریشن تھا۔ اس کو تکریت کی ایک چھوٹی جیل سے شروع کیا گیا۔ جنگجو جیل توڑ کر قیدیوں کو رہا کروا دیا کرتے تھے۔ وہ دہشتگرد بھی جو سزائے موت پا چکے ہوتے تھے، آزاد ہو جاتے تھے۔ 21 جولائی 2013 کو داعش نے رات کے ریڈ میں کئی خودکش بمبار استعمال کر کے عراق کی دو بڑی جیلیں توڑ دیں۔ ان میں عراق کی بدنامِ زمانہ ابو غریب جیل بھی تھی۔ اس سے زرقاوی کے نیٹورک کے پانچ سو دہشت گرد آزاد کروا لیے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بغدادی کے پاس اب داعش کی فوج کھڑی کرنے کے لئے جنگ کا تجربہ رکھنے والے جنگجو بھی تھے۔ شام میں یہ جبہت النصرہ سمیت ہر باغی فورس پر حملہ کرتے اور ان کے سامنے تین انتخاب رکھتے۔ ہمارے ساتھ مل جاوٗ، بھاگ جاوٗ یا پھر لڑائی کرو۔ جو پہلے دو انتخاب نہیں کرتا تھا، اس کو قتل کئے جانے سے ہچکچایا نہیں جاتا تھا۔
القاعدہ نے ابو خالد السوری کو مصالحت کے لئے مامور کیا تھا۔ 2014 کے آغاز میں السوری حلب میں اس ملیشیا کے ہیڈکوارٹر میں تھے جب پانچ افراد گولیاں برساتے داخل ہوئے۔ ایک نے خود کش جیکٹ پھاڑ دی۔ السوری، اپنے چھ ساتھیوں سمیت مارے گئے۔ القاعدہ نے اب اپنے ممبران کو ہدایت کر دی کہ نہ صرف داعش سے بات چیت نہ کریں بلکہ وہ ان کے دشمن ہیں۔ داعش کو اس سے فرق نہیں پڑتا تھا۔ القاعدہ ماضی کی طاقت تھی۔ بغدادی کے پاس مستقبل تھا۔ تجربہ کار جنگجو، بہترین ہتھیار، دنیا بھر سے آنے والی امداد۔
داعش اب میدانِ عمل میں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصویر کیمپ بکا کی ہے جہاں البغدادی دس ماہ قید رہے۔ یہ کیمپ 2009 میں بند کر دیا گیا۔
روہتاس کے سرکٹے بزرگ حضرت سخی خواص شاہ آف خواص پور
برِّ صغیر، جی ہاں ہمارے والے برِّصغیر میں سن سینتالیس میں کھنچی سرحد کے اِس پار یعنی ہماری طرف کچھ...