سنو قصٌہ میری شب کا
آغازِ شب سے میں
اپنی ذات کے در بند کرتا ھوں
سمیٹتا ہوں خود میں
پھر تجھے آواز دیتا ہوں
میری ذات کے کھنڈر میں آواز گونجتی ھے لوٹ آتی ھے
مگر نہیں آتے
صدا کے بے مروت
مبرا پکارنا اکارت
پھر بے بسی میں
یہی کرتاہوں میں…….
چیختا ہوں, ٹوٹتا ہوں, بکھرتا ہوں
رو دیتا ہوں……..!!
پھر ٹوڑ پھوڑ ھوتی ھے
میری روح سے میرے بدن تک…
خاک اڑاتا پھرتا ہوں خود میں
یہی ہوتا ھے شب بھر مجھ میں
تہجد سے ذرا پہلے خود کو سمیٹتا ہوں….
کبریا کے حضور حاضری دینی ہوتی ھے
خوشیاں تا زیست مانگنی ہوتی ہیں
اپنے اس کوزہ گر کے لئے
جس کا فن ھے مجھ میں
سیمٹنا, ٹوٹنا, بکھرنا,
یہی ھے قصٌہ میری شب کا….!!
آہہہہ۔۔۔۔۔۔
اس کے منھ سے کراہ نکلی۔شائد کوئی زہریلی چیز کاٹ گئی ۔اس نے گردن ترچھی کر کے نیچے دیکھنا چاہا مگر اندھیرے کے باعث کچھ نظر نہ آیا۔
میجر راحب آر یو اوکے؟اسکے ائیر پیس سے آواز ابھری
ایبسولوٹلی۔۔۔
بھلا ان چھوٹے موٹے دردوں سے انکا کیا لینا۔وہ جو تین گھنٹے سے اس سنسان گندی جگہ پر بندوقیں تانے ترچھے لیٹے تھے۔
کراچی نیشنل اسٹیڈیم کے تقریبا چند کلو میٹر دور وہ پہرے پرمعمور تھے۔ساری جگہ کی تلاشی لی جا چکی تھی۔اسلئے وہ وہیں بیٹھ کر دشمن کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔
آفیسر علی؟؟
اس نے ماوتھ پیس میں کہا۔
جی۔۔۔۔۔
آفیسر زایان کدھر ہیں؟
سر وہ آفیشل لیکر گئے ہیں شادی کی اسلئے جنرل مرزا نے انہیں انفارم نہیں کیا۔شادی کے نام پر اسکے زہن میں بہت کچھ نمودار ہوا۔
آج تو اسکی بھی شادی ہوئی تھی۔وہ تو جب گاڑی سے اترا تھا اسکے ذہن میں ایک ہی آواز تھی ملک حملہ جانیں۔مگر پھر آہستہ آہستہ کچھ اور بھی ابھرنے لگا۔کسی کے الفاظ ۔
“ہاں قبول ہے”
وہ ائیر پورٹ میں داخل ہوا تو ضمیر اب بوجھل ہونے لگا تھا۔
”
تو اسکا کیا راحب جو وہاں بیٹھی گھنٹوں سے تمہارا انتظار کر رہی” ہے۔”
نگہت جہاں کی آواز گونجی۔۔۔۔۔
راحب مت کرو ایسا بیٹا وہ َلڑکی ہے اسکی عزت کا تماشہ نہ بناو ۔
اففففف انففف ۔۔۔۔میں اس زہن کے ساتھ کیسے فوکس کرونگا کام پر۔اسی لئے کہا تھا امی سے مت باندھیں کسی کو میرے لئے نہ پیدا کریں میری کمزوریاں۔
وہ اپنی کشمکش میں مبتلا تھا جب دو گھنٹے فلائٹ لیٹ ہونے کا اعلان ہوا۔
اب یہ کیا مصیبت ہے۔
“کیا کروں چلا جاوں؟
ہاں چلا جاتا ہوں۔پر 1 گھنٹے میں واہس کیسے آون گا۔
وہ پورے ائیر پورٹ پر چکر لگا رہا تھا۔
نہیں نہیں میری وجہ سے ایک لڑکی کی عزت کیسے جا سکتی ہے اسکی عمر ہی کیا پھر کون کرے گا اس سے شادی۔
وہ ائیر ہورٹ سے باہر نکلا تو گاڑڈ نے اسے گرتے گرتے بچایا۔
میاں آرام سے۔وہ کوئی پچاس پچپن سالہ بزرگ تھا۔
چاچا ایک بات بتائیں۔اگر آپ کسی سے بہت دور ہوں تو آپ اس کے پاس جلدی پہنچ جانا چاہیں وہ تنہا محسوس نہ کرے خود کو تو کیا کرنا چائیے۔
بوڑھے نے اسے حیرت سے دیکھا۔
بیٹا اتنے ایڈوانس دور میں بھی ایسے باتیں کرتے ہو؟
ارے چاچا کوئی سادہ سا حل بتائیں سب ساتھ چھوڑ گیا یہاں۔
بزرگ سمجھا شائد وہ فلائٹ ہونے کی وجہ سے پریشان ہے۔
آسان حل بتا رہا ہوں۔اتنا ایڈوانس دور ہے ٹیکنالوجی کا استعمال کرو نا۔اس موبائیل کا استعمال کرو نا جس سے نکلنا تم جوان نسل گناہ سمجھتے ہو۔
چچا نے گویا روائتی امیوں والا طعنہ دیا پر راحب کی دماغ کی گھنٹی بجی۔
موبائیل کال نکاح ۔۔۔۔۔اوہ مائی گڈنس فون پر نکاح یہ خیال مجھے پہلے کیوں نہیں آیا۔
بہت شکریہ چچا۔
وہ فورا کیب لیتا وکیل کے پاس پہنچا چونکہ کورٹ گاوں بہت ہی قریب تھا۔
اسنے کورٹ پہنچتے ہی سارا ماجرہ وکیل کو سنایا اور کورٹ کے آفیشل نمبر سے نکاح کے وٹنس پیر بنوائے۔
چند لمحے بعد قاضی صاحب کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
راحب احمد ولد احمد علی آپکا نکاح سلویٰ ابراہیم ولد ابراہیم خان سکہ رائج الوقت کیا آپنے قبول کیا۔
پل بھر کو راحب سوچ میں پڑ گیا وہ اس زمہ داری کے قابل تھا یا نہیں۔
مگر پھر اسے سلویٰ یاد آئی اگر وہ اتنی کم عمر میں سب سر لے سکتی ہے تو وہ کیوں نہیں۔
قبول ہے
قبول ہے
قبول ہے
اور یوں ماضی کے دھندلکے چھٹکے اور وہ حال میں واپس آیا۔اسکے پیر میں شدید جلن ہونے لگی۔پر وہ سوائے برداشت کرنے کے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
میجر راحب نے سوچتی آنکھوں سے اردگرد کا جائزہ لیا تو اسکے ذہن میں جھماکہ ہوا۔
“آفیسرز اینی ون ہئیر۔۔۔۔۔؟؟؟؟
آہہہہ نہیں۔۔۔۔۔۔ یقینا انہیں گمراہ کیا گیا تھا۔
اور اب اس کے ساتھ والے کسی آفیسر کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔وہ۔درد سے کراہتے اٹھا اور اپنےساتھیوں کو۔تلاش کرنے لگا۔
اس خوفناک اندھیرے میں سوائے سیراب کے وہاں کچھ نہیں تھا۔
آفیسر علی؟؟؟؟؟
کیپٹن ماجد؟؟؟؟
رزاق؟؟؟؟؟
سبکو اونچی اونچی آوازیں دیں مگر ندارد۔۔۔۔
جنرل مرزا۔۔۔۔۔۔اسنے اپنے مائیکروفون سے ہیڈ کوارٹرز میں رابطہ کیا۔
جی میجر راحب۔۔۔۔
جنرل مرزا یہاں سب غائب ہے مجھے لگتا ہے کہ۔۔۔۔
جی میجر راحب آپکو بلکل ٹھیک لگتا ہے آپ بھی فورا وہاں سے نکلے ہمارے باقی آفیسرز انکے سیراب میں آگئے ہیں۔یہ محض پاک آرمی کو گمراہ اور اوورٹیک کرنے کی سازش تھی۔
لیکن سر مجھے انھیں ڈھونڈنا چاہئے۔۔
نہیں میجر راحب فضا میں ایک خطرناک کیمیکل معطر ہے جس سے آپ ہپنوٹائز ہو سکتے ہیں فورا سے نکلیں۔
باقی آفیسرز کی لوکیشن ٹریس ہو رہی ہے۔
اتنا ہی سنا تھا کہ راحب کا بوتھ ڈسکنکٹ ہو گیا۔
اسکے پیر کی جلن جوں کی توں تھی۔
اور وہ بھاری بھاری قدم رکھتا کراچی کی سڑکیں چھاننے لگا۔
دولہن کے لباس میں مقید وہ۔شام سے اسی صوفے پر بیٹھی تھی۔
لاونج چھوٹا سا ہی تھا۔جس میں تین سیٹر تین صوفے پڑے تھے۔ان ایک پر وہ بیٹھی تھی اور باقیوں پر خاندانی آنٹیوں کا تانتا لگا تھا۔
سلویٰ ایک ہی۔جگہ پر بیٹھ کہ سن ہو۔چکی تھی۔
نگہت جہاں اور چندہ مہمانوں کی خاطر مدارت میں شائد اسے بھول ہی گئی تھیں۔
تقریبا ایک گھنٹے کے توقف کے بعد بلآخر مہمان چلے گئے تو نگہت جہاں سلویٰ کی طرف آئیں۔
معاف کرنا بیٹا بھاگ دوڑ میں تمہیں بھول ہی گئی۔
چندہ؟؟؟؟؟
جی بی بی جی۔۔۔۔۔
کتنی بار کہا ہے مجھے بی بی جی مت بولا کرو۔۔
سلویٰ نے پہلی بار چندہ کو غور سے دیکھا جو کسی زاوئے سے ملازمہ نہیں لگتی تھی۔
اچھا سلویٰ کو کمرے میں لے جاو اور چینج کروا کے کھانا کھلا دو میں بھی زرا آرام کر لوں۔
سلویٰ بیٹا تم بھی اب آرام کرو پھر بات کرتے ہیں آج کا دن بیشک بہت مشقت والا تھا۔
سلویٰ سر ہلاتی چندہ کے ساتھ آگئی۔
آئیں بھابھی۔
یہ ہے راحب بھائی کا کمرہ۔سلویٰ نے طائرانہ نظر کمرے پر ڈالی جو کمرہ کم کتاب خانہ زیادہ معلوم ہوتا تھا۔
راحب بھائی تو سال میں شائدہ ایک مہینہ بھی نہیں رکتے مگر کیا پتا اب آپ آگئی ہیں تو لمبے ٹوور ہر آیا کریں۔
(آ ہی نہ جائے ہونہہ)
سلویٰ زیادہ بےتکلف نہ ہوتے ہوئے دل میں ہی کہہ گئی۔
چندہ نے اسکے سامان میں سے کپڑے نکال کر دئے آپ کپڑے بدلیں۔میں کھانا کھاتی ہوں۔
سلویٰ پانچ منٹ بعد واپس آئی اور کمرے کو شکلیں بگاڑ کر دیکھنے لگی۔
توبہ ہے یہ کمرہ تو کسی تازی بیوہ کی طرح اجڑا ہوا ہے میجر صاحب تو کچھ زیادہ ہی بےزوق ہیں۔
کمرے میں ایک بیڈ صوفہ اور بس ایک سنگھار میز تھا باقی ہر ہرجگہ کتابوں کی الماریاں تھیں۔
چندہ اسے کھانا دے کر چلی گئی۔
سلویٰ کھانے کے بعد بستر پر نیم دراز ہوئی تو اسے تکیے کے نیچے کچھ چبا۔
اسنے تکیہ اٹھایا تو تووہاں ایک چاقو پڑا تھا۔
ہائے اس کمرے میں کی خون خرابہ بھی ہوتا ہے۔
اسنے چاقو اٹھا کر دو پرے پھینکا اور بستر میں دبک کر لیٹ گئی۔دن کے سارے مناظر اسکی آنکھوں میں گھومنے لگے۔تھوڑی دیر بعد اسکا سارا چہرا بھیگ گیا۔
بہت برے ہو ہوتم راحب احمد ۔۔۔۔
میں نے تو پڑھنے کا کاایک خواب دیکھا مجھے تم اسکا وسیلہ نظر آئے۔مگر بہت بڑی قیمت لی ہے تم نے کوئی شادی ایسے کرتا ہے بھلا۔میں نہیں مانتی یہ شادی ۔اماں کی اتنی بدنامی ہو گئی۔
اماں۔۔۔۔۔۔
وہ سسک سسک کر رونے لگی تھی۔شائد اسکی ہر رات ایسی تھی
سُن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے اسیرا سُن !
خواب ٹوٹ جانے سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب مر نہیں جاتے !!
آگ کی محبت میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ جل بھی جائیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھہر سکتا ہے
پر نشاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں جاتے !!
سُن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے فقیرا سُن !
رات کے اُجالے لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند چہرے والے لوگ ۔۔۔۔۔۔۔
روشنی میں کھو جائیں،،،،،،
پِھر ۔۔۔۔۔۔۔ کبھی نہیں ملتے !!
درد کے امیرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سُن !
ضبط کے سفیرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سُن !
ہاتھ کے ملانے سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گلے لگانے سے
رابطہ تو رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رُوح ۔۔۔۔۔۔۔۔ مِل نہیں جاتی !!!
اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پُرانے لوگ
شام سے سُہانے لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد نہ بھی آتے ہوں،،،،،،،،،
بُھول تو نہیں جاتے !!!
اے میرے اسیرا ۔۔۔۔۔۔۔ سُن !!
سُن میرے فقیرا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سُن !!
کراچی کی سڑکوں میں رات کے آخری پہر بھی کافی چہل پہل تھی۔
کسی سے مدد مانگنا گویا اپنے پاوں پڑ کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔
وہ چلتے چلتے فٹ پاٹھ کنارے بیٹھ گیا۔شوز اتار کے دیکھا تو پاوں نیلا پڑ چکا تھا۔یقینا زہر پھیل رہا تھا۔
کسی ہسپتال تو چلا جاتا مگر واپسی کی کوئی زمانت نہیں۔
راحب نے اپنی جیب سے رمال نکالا اور پیر پر باندھ دیا اب اسے کسی بھی اسلام آباد پہنچنا تھا۔
ائیر پورٹ وہاں آدھے گھنٹے کی دوری پر تھا۔راحب کو کب سے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ کوئی اسکے پیچھے ہے اور اس پر نظر رکھے ہے۔چونکہ وہ فوجی لباس میں نہیں تھا یہ نظر خطرناک ہو سکتی تھی۔
وہ عجیب کشمکش کا شکار تھا چلا جا نہیں رہا تھا اور وہاں رہنا کسی مشکل کا باعث بن جاتا۔
کالنگ بوتھ بھی وہیں کہیں گر چکا تھا زہر پھیلنے کی رفتار آہستہ تو تھی پر وقت پر نہ نکالنے سے وہ پھیلاو یقینی تھا۔
راحب کی آنکھوں میں غنودگی چھانے لگی اور غنودگی کی جگہ جلد ہی اندھیرے نے لے لی۔
وہ وہیں فٹ پاتھ پر ڈھیر ہو گیا۔
کوئی پانچ منٹ بعد چلتا ہوا اس تک آیا اور راحب کی سانسوں کا تنفس چیک کرنے لگا۔
اس مشکوک آدمی نے ایک گاڑی کو اشارہ کیا اور وہ میجر راحب احمد کو اٹھائے ساتھ لے گئے۔
جسکی بیوی نے اس سے بد زن ہو کر اپنی شادی کی پہلی رات رو رو کے کاٹی اسکے شوہر نے وہی رات سسک سسک کے گزار دی۔
آج پورا ایک ہفتہ ہو گیا تھا راحب اور سلویٰ کی شادی کو ۔راحب کی کوئی خبر نہیں آئی ۔نگہت جہاں بظاہر تو سلویٰ کے سامنے مطمئن رہتیں کہ وہ ایسے کرتا رہتا ہے مگر اندر سے پریشان تھیں کیونکہ آج سے پہلے ایسا کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔
سلویٰ نے تو جیسے کچھ نہ بولنے کی قسم کھا لی تھی۔
سب یہی سمجھتے تھے کہ شائد وہ راحب کی وجہ سے ایسا کر رہی ہے۔
وہ صبح اٹھتی ایک کمرے سے دوسرے کمرے کبھی اندر کبھی چھت پر وہ بس ایک ہی ہفتے میں اس گز بھر کے گھر میں تھک گئی تھی۔سلویٰ کو ٹوٹ کر گاوں یاد آتا اسکی سہیلیاں جن کے ساتھ وہ کہیں بھی سیر کو نکل جاتی ۔یہاں باہر جانا تو دور ٹریفک کی آواز سے ہی اسکا دل دہل جاتا۔ابھی رزلٹ آنے میں بھی وقت تھا۔پڑھائی کیسے شروع کرتی جس کیلئے سلویٰ نے یہ سودا کیا۔مگر کبھی کبھی زنگی ہماری ایک خواہش کے عوض ہم سے اتنا برا کھیل جاتی ہے کہ انسانی عقل دھنگ رہ جائے.۔پھر وہاں کوئی سوگ صدمہ دہائی نہیں ہوتی بس حیرانی در حیرانی ہوتی ہے کچھ ایسا ہی ہوا تھا سلویٰ کے ساتھ۔
اس بیچ عفت جہاں شہر آکر اس سے مل گئی تھیں۔سلویٰ نے تو بہت ضد کی ساتھ جانے کی مگر انھوں نے بھی کہہ دیا وہ گاوں صرف راحب کے ساتھ آسکتی ہے۔
جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا سلویٰ راحب سے مزید بدگمان ہوتی جا رہی تھی۔جو نئے بندھن میں باندھ کر اسے مزید پرانا کر گیا تھا۔
اسے رات میں چاند تارے دیکھنے کی عادت تھی ۔مگر آسمان تو دور یہاں کوئی بالکونی تک سلویٰ کو نصیب نہ ہوئی۔
وہ بستر پر لیٹی اور کمرے کو دیکھنے۔کچھ بھی کر کے سب سے پہلے اس کمرے کی حالت درست کرنی ہوگی۔
“اللہ جانے یہ شہر والے اتنی بیزار اور بد مزہ زندگی کیسے گزار لیتے ہیں۔چھوٹی سی چار دیواری میں کبھی ادھر ادھر سر مارتے ہیں۔آہہ سلویٰ ۔۔۔۔
میرا گاوں والا گھر کتنا بڑا اور کشادہ تھا دس درجن سما جائیں وہاں۔
کاش میں نے اماں کی بات مان لی ہوتی اور شہر کی خواہش نہ کرتی۔ناجانے ہم بچے اپنے والدین کے فیصلوں
کو غلط کیوں سمجھتے ہیں حالانکہ میرا خیال ہے والدین کو تو شائد بچوں کے حق میں الہام ہو جاتے ہیں۔
خود سے بڑبڑاتی اپنے فیصلے پرپچھتاتی آخر وہ نیند کی وادی میں اتر گئی۔
وہ احمد ولا کے سامنے آ رکا وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ اس وقت گھر میں سو رہے ہونگے۔وہ پیچھے کی طرف سے پائپ کی مدد سے ایک کمرے میں چلنے لگا۔شائد وہ ایک نئے مہمان کی آمد کی سے انجان تھا یا فراموش کر چکا تھا جو اس کمرے کی طرف چل دیا۔پائپ سے چلتے ہوئے اسکے ہاتھ گرم ہونے لگے مگر وہ چھوڑ دیتا تو نیچے گر جاتا اور سب اسے پکڑ لیتے۔وہ اوپر پہنچ کر کمرے کی باہری طرف گرا جہاں ایک چھوٹی بالکونی تھی۔اسنےآہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہ کسی چیز سے ٹکراتا بیڈ پر اوندھے منھ گرا سلویٰ اس حملے کیلئے تیار نہیں تھی اسنے چیخ مارنے کیلئے منھ کھولا ہی تھا کہ کسی نے اسکے منھ میں گن رکھ دی۔
“اےے لڑکی کون ہو تم یہاں کیا کر رہی ہو؟؟
سلویٰ کے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑنے لگے۔۔۔
چیخنا مت سنا تم نے ۔۔۔۔
وہ اٹھا اور کمرے کی لائٹ جلا دی۔
اور وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر چونک گئے۔۔۔
سلوی؟؟؟
ررراححب۔۔۔۔۔۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو۔؟؟
راحب تقریبا آہستہ آواز میں چیخا۔۔۔
سلویٰ ایک دم زور زور سے رونے لگی۔
اب رو کیوں رہی ہو ؟؟
وہ اور رونے لگی۔
سلویٰ یار چپ کرو کوئی آجائے گا۔
پر سلویٰ نے تو شائد ساری زندگی کا آج ہی رو لینا تھا شائد۔
وہ آہستہ سے چلتا اسکے پاس گیا
ہے لٹل گرل رو کیو رہی ہو میں نے تمہیں مارا تھوڑی ہے؟
سلویٰ نے اسے دور پرے
ایک تو اپنے ہی گھر چوروں کی طرح آتے ہیں اور میرے منھ گن ڈال دی چل جاتی تو۔پہلے ہی میں آپکے ساتھ کی بہت بڑی قیمت چکا رہی ہوں۔اور اوپر سے آپ نے تشدد بھی شروع کر دیا۔اگر شادی نہیں کرنی تھی تو انکار کر دیتے کوئی زبردستی تھی؟؟
سلویٰ چھوٹے بچوں کی طرح آنکھیں رگڑتے بولی۔
اوکے آئی ایم سوری میری غلطی ہے اب یہ بلی کے بچے کی طرح منمنانا بند کرو۔مجھے واقعی نہیں یاد رہا کہ تمہارا بھی یہ۔۔۔۔
ہاہ آپ کو میں یاد ہی نہیں تھی؟سلویٰ اسکی بات مکمل ہوئے بغیر حیرانگی سے بولی۔
کتنے سوال کرتی ہو تم؟ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں یہاں آرام کرنے آیا ہوں۔
اس طرح سلویٰ آگے کو ہوئی۔
۔۔۔مجھے جب آرام کرنا ہوتا ہے میں اسی طرح گھر آتا ہوں بغیر کسی کو بتائے ملےچلا جاتا ہوں یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہے۔
پر اس بار مجھے یاد نہیں رہا کہ میری زندگی میں ایک اضافہ ہو گیا ہے۔
اففف ۔۔۔۔وہ بیزاری سے جھٹکتا
واشروم میں چلا گیا۔اور سلویٰ بیڈ کے کونے ہر اٹک کر بیٹھ گئی۔
کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو رات کی سیدھی سادی سی شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔
راحب نے تکیے اٹھایا تو وہاں کچھ نہیں تھا۔
یہاں سے چاقو کدھر گیا؟؟
ہیں وووہ مجججھے کیا پتا۔۔
سلویٰ نے خشک پڑتے لبوں ہر زبان پھیری۔
(کہیں مجھے ہی نہ حلال کر دے)
راحب نے اپنے بیگ سے کٹر نکالا اور صوفے پر بیٹھ کر زور سے اپنے پاوں پر ضرب لگائی خون کا فوارا چھوٹا۔جو پہلے سے پڑی بن میں گر گیا۔
آہہ۔۔۔۔وہ زور سے کراہا۔
یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔۔۔۔سلویٰ نے دیدے پھاڑے ۔
زہر نکال رہا ہوں ۔
تو آپکو کیا ضرورت ہے بڑے بننے کی ڈاکٹر کےپاس کیوں نہیں جاتے۔
سلویٰ نے مفت کا مشورہ دیا۔
یہ میرا روز کا کام ہے۔
کیوں آپ زہر کھاتے ہیں؟
کم از کم دماغ نہیں کھاتا۔۔۔یہ طنز تھا اور سلویٰ سمجھ گئی تھی۔
راحب پٹی کر کے وہیں صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
پانی؟
سلویٰ فورا سے پانی لیکر اسکے پاس گئی۔
وہ پانی پی کر بیڈ پر جا کر لیٹ گیا۔
اور سلویٰ وہیں صوفے پر بیٹھ گئے۔
ادھر آو۔۔راحب نے سلویٰ کو بلایا تو وہ مٹھیاں بینچ کر رہ گئی۔
میں؟؟
نہیں میری دوسری بیوی کا نام بھی سلویٰ ہے اسے یاد کر رہا ہوں۔۔
سلویٰ ایزی ہو کر بیٹھ گویا واقعی کوئی دوسری سلویٰ ہو۔
تم آوگی یا میں لینے آوں۔؟؟میں نے جانا بھی ہے۔
کککیوں؟؟؟
میرا سر دباو۔۔۔
اچھا۔
سلویٰ کی جان میں جان آئی اور آہستہ آہستہ چلتی بیڈ پر آکر دبانے لگی۔اسنے راحب کےسر پر ہاتھ رکھا تو وہ انگارے کی طرح دہک رہا تھا۔آپکو بخار ہے ؟
میں کھانا اور دوائی لاتی ہوں۔
اس سے پہلے کہ سلویٰ اٹھتی راحب اسے خود کی طرف کھینچ کر مقید کر چکا تھا۔سلویٰ اس حملے کو تیار نہ تھی اسکے حصار میں بس کسمسا کر رہ گئی۔۔محبت کے دریا میں تارے جگمگانے لگے۔
آؤ ساجن سے ملواؤں
بات ثواب کی لگتی ہے
…رنگ گلابی، مہکا مہکا ؟
بات گلاب کی لگتی ہے
چال صبا سے ملتی جلتی ؟
بات شراب کی لگتی ہے
دیکھے زیادہ ، بولے کم کم ؟
بات حساب کی لگتی ہے
ہاتھ پہ رکھا ہاتھ اچانک؟
بات تو خواب کی لگتی ہے
اس کا آ کر زلف کو چھونا؟
بات سراب کی لگتی ہے
سرگوشی میں کیا پوچھا تھا؟
بات حجاب کی لگتی ہے
پل میں روٹھے پل میں مانے؟
بات “جناب”کی لگتی ہے
اس کا ہجر بتاؤ کیسا؟
بات عذاب کی لگتی ہے
آدھا چندا ، آدھا بادل ؟
بات نقاب کی لگتی ہے
تھوڑا تھوڑا سا ہرجائی؟
بات تو آپ کی لگتی ہے
تقریبا فجر کی اذان کے وقت راحب کی آنکھ کھلی تو سلویٰ بےخبر اسکے پہلو میں سو رہی تھی۔
لٹل گرل وہ زرا سا مسکرایا
۔۔اسنے سلوی کو خود سے پرے کیا چونکہ اسے جانا تھا۔
وہ اٹھا تو سائیڈ ٹیبل ہر کھانا اور دوائی دیکھی جو جانے سلویٰ نے کب رکھی تھی۔
وہ اٹھا فریش ہوا کھانا دوائی لیکر جانے لگا تو سلویٰ کی طرف مڑا۔اور اسکے کان کے پاس سرگوشی کی۔
“اگر میرے آمد کی خبر کسی کو ہوئی تو پنکھے سے الٹا لٹکا دونگا۔سوچو لٹکتی کیسی لگو گی۔اور اسکا ماتھا چومتا چلا گیا۔
سلویٰ نے ایک دم آنکھیں کھولیں مگر راحب غائب ہو چکا تھا۔وہ مسکراتی کروٹ بدل کر سوگئی۔ساری بدگمانیاں وہ شخص ایک ہی لمحے میں ختم کر گیا تھا۔
عجیب مزاج کا شخص ہے کبھی ہم نفس کبھی اجنبی
کبھی چاند اس نے کہا مجھے کبھی آسمان سے گرا دیا