میرا عشق ہو…-
– تیری ذات ہو…-
– پھر حُسْن عشق کی بات ہو…-
– کبھی میں ملوں…-
– کبھی تو ملے…-
– کبھی ہم ملیں ملاقات ہو…-
– کبھی تو ہو چُپ…-
– کبھی میں ہوں چُپ…-
– کبھی دونوں ہم چُپ چاپ ہوں…-
– کبھی گفتگو..-
– کبھی تذکرے…-
– کوئی ذکر ہو…-
– کوئی بات ہو…-
– کبھی حجر ہو تو دن کو ہو…-
– کبھی وصل ہو تو وہ رات ہو…-
– کبھی میں تیرا کبھی تو میرا…-
– کبھی اک دوجے کے ہم رہیں…-
– کبھی ساتھ میں….-
– کبھی ساتھ تو…-
– کبھی اک دوجے کے ساتھ ہوں…-
– کبھی صعوبتیں…-
– کبھی رنجشیں…-
– کبھی دوریاں…-
– کبھی قربتیں…-
– کبھی الفتیں….-
– کبھی نفرتیں…-
– کبھی جیت ہو…-
– کبھی ہار ہو…-
– کبھی پھول ہو…-
– کبھی دھول ہو…-
– کبھی یاد ہو…-
– کبھی پھول ہو…-
– نا نشیب ہوں…-
– نا ” اداس ” ہوں….-
– صرف تیرا عشق ہو……-
– میری ذات ہو…..!!-
ہزار رکاوٹوں ممنوعات دلائل کہانیوں کے باوجود وہ بندھن بندھ گیا جسے بندھنا ہی تھا۔راحب نے سلویٰ سے ملنے کے بعد واپس آکر خوب واویلا مچایا کہ سلویٰ اس سے بہت چھوٹی ہے ایک اممیچور بچی ہے اسکے ساتھ نہیں چل سکتی مگر نگہت جہاں نے سر کان لپیٹ رکھے اور اسکی ایک نہ سنی بلآخر کلس کر راحب اس رشتے پر تیار ہو گیا۔
وہیں دوسری طرف عفت جہاں رشتے پر ہاں تو کر چکی تھیں مگر ابھی تک سلویٰ سے اکھڑی اکھڑی تھیں۔
راحب کے جانے سے پہلے نگہت جہاں نے نکاح کا دن مقرر کر دیا راحب کو اس بات پر بھی اعتراض تھا مگر اس بیچارے کی سنتا ہی کون۔
آج جمعہ کا دن انکے نکاح کیلئے مقرر کیا گیا تھا۔
راحب اپنے کمرے میں کھڑا تیار تھا مگر اسکے ماتھے پر پڑے بل جوں کے توں جسکا نگہت جہاں کوئی نوٹس نہیں لے رہی تھیں۔
امی میں کہتا ہوں سوچ لیں ایک بار یہ رشتہ موافق نہیں ہے،،۔
انسانی پسند کے موافق رشتے صرف آرڈر پر بن سکتے ہیں جو اس دنیا میں ممکن نہیں۔
نگہت جہاں اسکی نظر اتارتی کمرے سے باہر نکل گئیں۔
چندہ تم کتنا وقت لو گی تیار ہونے میں میں بتا دوں کہ تمہاری شادی نہیں ہے۔
نگہت جہاں نے لاونج میں کھڑے چندا کو آواز لگائی۔
آئی بی بی جی۔
وہ سیڑھیاں اتر کر بھاگتی آئی۔
راحب تم بھی آجاو کے گاڑی اوپر لے آوں میں۔
راحب بھی سیڑھیاں اترتا آیا غصے سے چندا اور نگہت جہاں کو گھورتا باہر چلا گیا۔
یہ راحب بھائی کو کیا ہوا؟
چندہ نے زرا خفیہ کر کے ہوچھا۔
عادت ہے اسے چھوڑو۔
چلو مہمانو کو گاڑی میں بٹھاو نکلنا ہے اب۔
جی۔
گاوں میں آج عفت جہاں کے گھر اچھا خاصہ رونق میلہ لگا تھا۔صحن مہمانوں سے گچا گچ بھرا تھا اور ہر کوئی شہری دولہے کے انتظار میں تھا۔سلویٰ کے ددھیال والے عفت جہاں پرقسم کے طنز کے تیر چلا رہے تھے۔
کہیں اسکی پھوپھی منھ پھلائے بیٹھی تھیں۔
“ہاں بھئی پرانے رشتے تازہ کرنے کیلئے قائم رشتوں سے پوچھنا بھی گوارا نہ کیا،تو کہیں چچی تائی دل جلانے والےکام کرنے لگیں۔
“شہری لڑکا وہ بھی فوجی مل جائے تو بھلا کون عمر دیکھتا ہے”
عفت جہاں بیٹی کے ہاتھوں مجبور سب چپ چاپ سنے گئیں۔
سلویٰ سفید گولڈن لانگ میکسی ہم تن جیلوری پہنے تیار بیٹھی تھی اسکی سہیلیوں کا بڑا گھیرا اسکے اردگرد موجود تھا۔
ہائے سلویٰ تو بہت پیاری لگ رہی ہے قسم سے۔
ارم اسکی جیولری کپڑے سکین کر کر کے دیکھ رہی تھی۔
یہ تیرے سسرال والوں نے بجھوائے ہیں۔
نورین کا تفتیشی انداز قابل غور تھا۔
نہیں اماں نے بنائے ہیں۔
بہت پیارے ہیں تمہارے کپڑے بھی اور اسی طرح تمہارے نصیب بھی۔سحر نے اسے پیار سے گلے لگایا۔
یار اتنا زیادہ سفر تو نہیں ہے پھر یہ بارات کیوں نہیں آئی۔
تبھی باہر سے ایک شور سا بلند ہوا۔
چلو باہر چلتے ہیں۔
جبکہ باہر تین چار گاڑیوں میں تھوڑے سے ہی مہمان تھے جو گاڑیوں سے اتر کر اب گیٹ میں کھڑے تھے سب سے وسط میں نگہت جہاں
تھیں ۔مگر جس کا سبکو انتظار تھا وہ کسی کو نظر نہ آیا۔آئیے آپا اندر عفت جہاں نے سب کو اندر بٹھایا۔بچیوں نے بارات کا استقبال خوب دل جمعی سے کیا۔
ارے بھائی دولہا کہاں ہے اسے گھر ہی بھول آئے کیا۔
سلویٰ کی پھوپی آخر موقع ہاتھ سے کیسے جانے دیتیں۔
جس پر نگہت جہاں نے سر جھکا لیا۔
ارے خالہ ہمارے راحب بھائی خاص مہمان ہیں آج کے اسلئے خاص طریقے سے آئیں گے نا۔چندہ نے اپنے طور بات سمبھالی۔
عفت مجھے تم سے اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے
عفت جہاں انھیں اکیلے میں لے آئیں۔
جی آپا اور راحب کہاں ہے۔
“عفت راحب نہیں آیا۔الفاظ تھے یا خنجر معلوم نہیں مگر عفت جہاں کا کلیجہ چھلنی کرگئے۔
(3 گھنٹے پہلے)
راحب بھائی کن سوچوں میں گم ہیں؟۔چندہ کے ہلانے وہ ہوش میں آیا۔آپکا موبائیل بج رہا ہے۔
اوہ ہاں۔
راحب نے موبائیل دیکھا تو وہ آرمی ہیڈ کوارٹر سے تھا۔
اسنے ایک سیکنڈ انتظار کئے بغیر فون اٹھایا۔
میجر راحب آپکو فورا کراچی کیلئے نکلنا ہے
جنرل آصف مرزا کی مصروف سی آواز موبائیل میں گونجی۔
ایوری تھنگ آل رائٹ سر ؟
نہیں کراچی کے علاقے میں ایک جگہ بومب بلاسٹ کے شواہد ملے ہیں۔یہ غیر ملکی حملہ تصور کیا جا رہا ہے۔میں نے دو ٹیمز آل ریڈی بھیج دی ہیں۔آپ بھی فور وہاں سے نکلیں۔آئی ہوپ یو ول؟
یس سر۔۔۔۔۔۔
راحب نے فون کان سے ہٹایا۔
ڈرائیور گاڑی روکو مجھے یہیں اتار دو،
کیا ہوا راحب؟
نگہت جہاں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
سوری امی پر میں نہیں جا سکتا
۔کیا مطلب تم نہیں جا سکتے ہاں؟
امی میرے ملک کو اس وقت میرا انتظار ہے مجھے جانا ہے۔
تو اسکا کیا راحب جو وہاں بیٹھی گھنٹوں سے تمہارا انتظار کر رہی ہے۔
امی اسکا انتظار میری زمہ داری نہیں ہے آپ نے قول کیا تھا نا آپ ہی نبھائیں گی۔
راحب مت کرو ایسا بیٹا وہ َلڑکی ہے اسکی عزت کا تماشہ نہ بناو ۔
امی مجھے عزت سے زیادہ ملک کی حفاظت عزیز ہے اور وہ اپنا ہاتھ چھڑوا کر گاڑی سے اتر چکا تھا۔
پل بھر میں نگہت جہاں کے ہاتھ سے راحب کا ہاتھ نکلا اور انھیں یوں لگا گویا ہمیشہ کیلئے چھوٹ گیا ہو۔
گھڑیاں رک جا تقدیرے
مینوں لگیاں توڑ نبھا لین دے
اج مکدے ھوۓ ساواں لئ
دو دل دے بول سنا لین دے
اونھے ساری حیاتی ازمایا اے
اج مینوں یار ازما لین د
میں کیا جواب دونگی انھیں۔
وہ کسی تھکے ہارے مسافر کی طرح سیٹ کی پشت سے لگ گئیں۔
بی بی جی عزت زلت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے نا ہم چلتے ہیں وہاں شائد کوئی وسیلہ بن جائے۔چندہ کی بات مانتے نگہت جہاں بارات لئےانکے گھر پہنچ گئیں۔
عفت جہاں سارا ماجرا سن چپ چاپ سی ہو گئیں۔
شکوہ کرتی بھی تو کس سے وہ جانتی تھی سب انکی بیٹی نے یہ راستہ خود چنا تھا۔انھیں اس وقت فکر تھی تو اپنے خاندان کی
جنکے منھ پہلے ہی بند نہیں ہو رہے تھے۔
وہ لوگ سلویٰ کے کمرے میں اور چندہ نے اسے سب بتا دیا۔
وہ جس کے چہرے پر خوشی کی قلقاریاں تھیں اچانک سے سنسانی چھا گئی۔
مطلب یہ شادی نہیں ہو ہوگی سب کے بیچ ہمارا تماشہ۔۔۔۔وہ جتنی بھی نا سمجھ یا کم عمر سہی مگر لڑکی کی بارات دروازے سے لوٹ کر جانے کا دکھ سمجھتی تھی
عفت مجھے معاف کردو مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا میں کیا کروں۔
خالہ باہر قاضی صاحب آ گئے ہیں بلا رہے ہیں آپکو۔۔
اب کیا ہوگا عفت ۔
اب جو یہاں تک لایا ہے اسنے آگے بھی کچھ سوچا ہی ہوگا۔
انھوں نے آسمان کی طرف دیکھا۔
سلویٰ نے ماں کے تعاقب میں آسمان کی طرف دیکھا وہ شخص سخت مزاج آدمی ہے یہ بات کچھ قدر وہ سمجھ گئی تھی مگر اتنا بے حس اور ایک آنسو ٹوٹ کر اسکی آنکھ سے گرا۔اس لمحے دل نے شدت سے سےدعا کی کاش کوئی معجزہ ہو جائے۔
مُجھے مُعجزوں پر یقین ہے
سُنا ہے وفا دِیمَک بَن کر جِنہیں چاٹ جاتِی ہے
وہ وفاؤں کے پیکر کُچھ ایسے بِکھرتے ہیں۔
کہ کِرچِیوں مِیں بھی اُنکا پتہ نہیں مِلتا
سُنا ہے
کَبھی رُت ایسے بھی بدلتی ہے
کہ سارے مہرباں لفظ یکدم کہِیں کھو جاتے ہیں
سُنا ہے
ہاں سُنا ہے
جب وجود ریزہ ریزہ ہوتا ہے
تو ٹُوٹ پُھوٹ بہت بے آواز ہوتی ہے
فقط اک خاموش سا موسم
اک سُنسان سا رستہ
اک ویران سی ساعت
اور اک گمنام سا لمحہ
یوں ہمسفر ہوتے ہیں گویا
صدیوں کی رفاقت ہو
سُنا ہے
آندھیوں کِی زَد مِیں آ کر پھول جو بِکھر جائیں
وہ پِھر سِمٹا نہیں کرتے
کِسی پُر رَنج سی ساعت کا
جو نشانہ بن کر کھو جائے
وہ پِھر پَلّٹا نہیں کرتے
اے چارہِ گَر
سُنا تو مَیں نے یہ سَب کُچھ ہے
مَگر میری دُعائیں ہیں اِک سِلسلہ
میری یہ اُمِید ہے
میرا حوصلہ——
مُجھے مُعجزوں پَر یَقِیں ہے——
ہاں….
مُجھے مُعجزوں پَر یَقِین ہے
اس سے پہلے کہ وہ لوگ باہر جاتے قاضی صاحب خاندان کے کچھ مردوں کے ساتھ اندر آئے
معزرت پر ہمیں ایک اور نکاح پڑھوانے جانا ہے آپ اجازت دیں تو ہم شروع کریں۔
عفت جہاں نے ہر سمجھ بوجھ سے سےباہر لاشعوری طور پر ہاں ہاں میں گردن ہلا دی
سلویٰ نے ماں کو حیرت سےدیکھا قاضی صاحب نکاح شروع کروا ۔
چکےتھے
سلویٰ ابراہیم ولد ابراہیم خان آپکا نکاح راحب احمد ولد احمد علی کے ساتھ پچاس ہزار سکہ رائج الوقت کیا آپنے قبول کیا۔
(تو کہو قبول ہے)
راحب راحبکے الفاظ اسکے کانوں مین گونجے۔
اسنے اپنی ماں کو دیکھا جو خالی نظروں سے اسے دیکھ رہیں تھیں۔
قبول ہے
قبول ہے
قبول ہے۔
وہ ایک ہی ہیرو میں تین بار بولے گئی۔
سلویٰ نے سائن کئے تو قاضی صاحب دولہے کا پوچھنے لگے۔
جسکا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ماحول میں عجیب سا سکوت چھانے لگا۔
اس خاموشی میں سلویٰ کو اہنے دل کی ھڑکن تیز تیز چلتی سنائی دی اسے یوں لگا کہ ابھی یہ بے رحم زمانہ اسے سنگسار کرنے والا ہے۔
انکی خالی آنکھوں اور خاموش زبانوں کا روزہ نگہت جہاں کی موبائیل رنگ نے توڑا۔جو کسی ان ناون نمبر سے تھی۔انھوں نے بیزاری سے فون پرے رکھ دیا۔مگر مسلسل بجنے پر چندہ نے اٹھا لیا۔
چندہ امی کو فون دو۔
چندہ کی جان میں جان آئی اسنے فورا فون نگہت جہاں کے کانوں کو لگایا۔
امی میری بات سے غور سے سنیں میرے پاس صرف دس منٹ ہیں آپ میرا نکاح کروادیں ایسے ہی وکیل صاحب میرے ساتھ ہیں۔ نگہت جہاں کوکچھ سمجھ نہ آیا مگر چندہ نے فون مولوی صاحب کو دے دیا۔جس سے راحب سے نکاح کی منظوری فون پر لے لی گئی۔
نکاح کے بعد فون نگہت جہاں نے اٹھایا تو وہ کچھ بول نہ سکیں۔ جبکہ دوسری طرف راحب کی آواز گونجی “لیں امی میں ں نے آپسے کیا وعدہ نبھا دیا ۔اب واہس آیا تو نئے عہد و ہیمان کرونگا اگر نہ آیا تو باقی تمام وعدے آپکے۔اس سے پہلے وہ وہکچھ بولتی فون بند ہو گیا
سلویٰ ابھی تک بے یقینی کے عالم میں تھی
وہ جھونکتا ہے میری آنکھ میں تو کیا
زرا سی ہی تو دھول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔قبول ہے
کبھی کچھ ایسا پوچھ لو کہ میں کہوں
قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قبول ہے
رسم تو نکاح کے علاوہ کوئی نہ ہوئی۔ البتہ لوگوں کی چہ مگوئیاں اور باتیں عروج پرتھیں۔
یہ”تو دنیا کی پہلی شادی ہوگی جس میں دولہا ہی نہیں آیا۔
“توبہ لگتا ہے عفت کی بیٹی نے کوئی چاند چڑھایا ہے جو سر سے اتار رہی ہے۔عفت جہاں نے تو دل پر پتھر رکھ لیا مگر سلویٰ کے ذہن میں ایک ایک بات نقش ہو گئی۔
پھر اللہ اللہ کر کے رخصتی کا وقت آیا۔
سلویٰ کا دل بوجھل ہونے لگا شہر جانے کا سارا شوق و جنون ہوا ہو گیا۔
بیٹی کو دل پر پتھر رکھ کے رخصت کر رہی ہوں آپا اسکا خیال رکھئے گا۔
اماں!!!! سلویٰ ان کے گلے لگ گئی
اپنا گھر آباد رکھنا چاہتی ہو تو جو بات سمجھ میں نہ آئے اس پر خاموش ہوجانا۔
اور جو سمجھ میں آئے اماں؟
اسے نظرانداز کر دینا۔
ماں کی یہ نصیحت سلویٰ نے پلو باندھ لی۔
اور چپ چاپ اپنا آنگن چھوڑ کر پیا گھر چلی گئی۔
اس سب میں اگر کچھ نیا ہوا تھا تو وہ تھی سلویٰ کی راحب سے نفرت وہ شخص اسے بہت خودغرض اور سفاک لگا تھا۔
پر کون سمجھائے وہ تو ہے ہی مشقتوں کا راہی جسکا ساتھ اسنے خود چنا تھا۔
دعائیں یاد تھی جتنی
وہ ساری پھونک لی خود پر
وظائف جو بھی آتے تھے
وہ سارے پڑھ لیے میں نے
مگر پھر بھی میرے دل میں
سکوں داخل نہیں ہوتا
تمھیں ہجرت ہی کرنی تھی
تو کچھ میرا بھی کر جاتے
کسی کو توڑ کر ! سنتے ہیں
کچھ حاصل نہیں ہوتا
کسی کے چھوڑ جانے سے
کسی کی جان جائے تو
مجھے فتویٰ یہ لینا ہے
کیا وہ قاتل نہیں ہوتا؟۔