تخلیق کا دیوتا جب روٹھ جائے تو کبھی کبھی عمر گزر جاتی ہے مگر وہ مان کر نہیں دیتا۔
بہت پہلے ایک سینئیر کے کہے گئے الفاظ کانوں میں گونجے تو وہ پہلی بار حقیقی پریشانی میں مبتلا ہوا۔ اب تک یہی سمجھ رہا تھا کہ عارضی رکاوٹ ہے دور ہو جائے گی مگر گذشتہ دس دنوں کی سر توڑ کوشش کے باوجود وہ ایک لفظ بھی نہ لکھ سکا تھا۔ کیا تخلیق کا دیوتا واقعی روٹھ چکا ہے؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ اگر ایسا ہوا تب تو وہ بھوکا مر جائے گا اس کا روزگار ہی قلم سے جڑا ہوا تھا۔ شاید غلطی اسی کی تھی، پچھلی کہانی کے پیسے وصول کرتے ہی اس نے قلم چھوڑ ریسٹ شروع کر دی تھی۔
ریسٹ کے نام پر جی بھر کے عیاشی کی۔ آئے دن اپنے دوستوں کو ٹی پارٹی یا ڈنر پہ مدعو کرتا۔ ان کے ساتھ شرابیں پیتا اور بتاتا کہ کیسے ایک عام سی کہانی میں اس نے دل کو چھو لینے والے تاثرات ڈالے کہ وہ لاکھوں میں فروخت ہوئی۔ اس کے دوستوں میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی۔ تاہم برے دنوں میں یہ تعداد حیرت انگیز طور پر کم ہو جاتی تھی۔ پتہ نہیں کیسے۔ پتہ نہیں کیسے۔
اب جبکہ اس کے پاس دوسری کہانی کا آرڈر تھا وہ ایک لفظ بھی نہیں لکھ پا رہا تھا۔ وہ کمرے میں اکیلا تھا، ٹیبل پر نئی کہانی کی پہلے سے لکھی ہوئی دو قسطیں پڑی تھیں۔۔۔ تیسری قسط وہ شروع ہی نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔ شاید اس لیے کہ تخلیق کا دیوتا اس سے روٹھ چکا تھا اسے ایک لفظ بھی عطا کرنے کیلیئے تیار نہیں تھا۔ اب کیا ہو گا؟۔۔۔
اس نے بے چین ہو کر ایل ایم سگریٹ کی نئی ڈبی کھولی بہت پہلے کہے گئے ایک سینئیر قلمکار دوست کے الفاظ ایک بار پھر اسے سنائی دیئے۔۔ تخلیق کے دیوتا کو منانے کے لیے ضروری ہے کہ خود کو بالکل خالص کر کے فطرت سے ہم آہنگ کر دیا جائے، تخلیق کا دیوتا سیاہ رات کے اندھیرے میں جگنو کی چمک میں کہیں ہوتا ہے۔۔۔ اسے پورے چاند سے دلچسپی ہے، وہ دریا کے کنارے بیٹھ کر پانی کے بہاؤ کو تکتا ہے یا ساحل کی ٹھنڈی ریت پر چلنے والے پیروں کے نشان کا پیچھا کرتا ہے وہ باغ میں گلاب کے پھولوں کی خوشبو کے آس پاس ہی کہیں ملے گا۔ اس کے بہت سارے ٹھکانے ہیں۔۔ وہ محبت کے کئی ایک رویوں میں بھی پایا جاتا ہے۔۔
تیسری قسط وہ کیسے شروع کرے سوچ سوچ کر تھک گیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ دوسری قسط میں اس نے ایک اہم کردار کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور اب اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کہانی میں کچھ نہیں بچا۔ اس کردار کے مرتے ہی سب کچھ ختم ہو گیا۔
’اف! یہ کہانی آگے کیوں نہیں بڑھ رہی۔‘ وہ آدھی رات کو چھت پر جا لیٹا اور غور و خوض کرنے لگا۔۔ دائیں طرف سے چلنے والی ہوا ٹھنڈی اور فرحت بخش تھی۔ اس کی نظریں دور ستاروں میں کہیں کھو گئیں۔۔
اگلے کئی روز تک وہ ستاروں کی اوٹ میں چھپے تخلیق کے دیوتا کو پکارتا رہا۔۔ مگر کہانی آگے نہ بڑھی۔۔۔
وہ جھنجھلا گیا کہ آخر اس نے اتنے اہم کردار کو مارا ہی کیوں۔۔ کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو پورے ایک گھر یا خاندان کو لے کر چل رہے ہوتے ہیں۔۔ ان کے ختم ہوتے ہی کہانی بھی ختم ہو جاتی ہے۔۔ نہیں۔۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ ابھی صرف دو قسطیں ہوئی ہیں۔۔۔ اسے کم از کم بائیس قسطیں لکھنی ہیں۔۔ مگر کیسے۔۔ کہانی کو آگے لے جانے والا کردار تو مر چکا ہے۔۔
اس نے تخلیق کے دیوتا کو ایک بار پھر آواز دی۔۔۔۔کوئی جواب نہ آیا۔ روٹھا ہوا دیوتا اس کے گرد کہانی کا جال بننے سے قطعی انکاری تھا۔ وہ صوفے پر لیٹ کر خالی نگاہوں سے چھت کو تکنے لگا۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ کافی عرصے سے وہ رومانس اور خالص پن سے دور رہا ہے۔۔ اس کی ساتھی عورتیں پیار و محبت کے عملی مفہوم سے تو واقف تھیں مگر روحانیت اور سچائی سے کوسوں دور تھیں۔ وہ سراپا جسم تھیں ان میں روح نام کی کوئی شے نہ تھی۔ اور تب اچانک احساس ہوا کہ وہ خود بھی تو روح سے خالی تھا۔ اس نے بھی تو کسی سے سچی محبت نہیں کی تھی۔ نہ ہی سچے دل سے کبھی کسی کی مدد کی تھی۔ گھنٹوں وہ اسی انداز میں لیٹا اپنی حالت پر کڑھتا رہا۔ پاس والے فلیٹ میں کسی نے ایم پی تھری پلیئر آن کیا تو لتا کی سریلی آواز اپنا جادو جگانے لگی۔ اس نے سوچا کس قدر دل سے گاتی ہے یہ عورت۔ اور پھر یہ بھی سوچا کس قدر بے دلی سے لکھتا ہوں میں۔ وہ بھی کلاکار ہے۔ میں بھی کلاکار ہوں۔ میں اپنے پیشے سے اتنا بد دیانت کیوں ہوں۔ میں دل اور جان کی گہرائی سے کیوں نہیں لکھ سکتا۔
بے چین ہو کر وہ گھر سے نکلا اور سمندر کے کنارے آن بیٹھا۔ اس نے اپنا تعلق سمندر کی لہروں سے جوڑنا چاہا اور من ہی من میں ان سے باتیں کرنے لگا۔ ادھیڑ بن کے دوران ایک فقیرنی کی آواز سن کر وہ چونکا۔ یہ ایک چھوٹی سی آٹھ نو سالہ بچی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ تیسری قسط کہاں سے شروع کرے جبکہ کردار مر چکا ہے۔۔۔ بچی نے اس کی طرف انگلی اٹھائی۔ کہا۔ ایک روپیہ دے دو۔ اسے مداخلت بری لگی مگر وہ کسی قسم کی کرختگی نہیں چاہتا تھا۔۔ بچی خود سے دور کھڑی ہوئی ایک دوسری لڑکی کی طرف بھی پلٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔ دوسری لڑکی بھی میلی کچیلی سی تھی مگر عمر میں کافی بڑی تھی۔۔ اس نے دس دس کے دو نوٹ نکالے۔۔۔ کہا۔ ایک تم رکھ لو، ایک اسے دے دو۔ اور اب جاؤ یہاں سے۔۔ بچی نے ایک نوٹ تو لے لیا مگر دوسرے کے لیے تذبذب میں پڑ گئی۔ کہنے لگی۔ یہ بھی میں لے لوں؟۔۔۔۔ ۔ اس نے کہا۔ ہرگز نہیں۔ یہ اسے دو جا کر بولی۔ وہ نہیں لے گی۔ وہ حیران ہوا۔ پیسے نہیں لے گی تو کیا جان لے گی۔ بچی دونوں نوٹ لے کر بھاگ گئی وہ اٹھ کر ان کا پیچھا کرنے لگا کہ ممکن ہے کوئی نئی کہانی ہاتھ لگ جائے بڑی لڑکی واقعی کسی سے بھیک نہیں مانگ رہی تھی پھر دوسرے تیسرے چوتھے پانچویں اور چھٹے روز بعد وہ ان دونوں سے گھل مل گیا۔۔ بڑی لڑکی اندرون سندھ سے آئی تھی۔ اس کا باپ اچانک انتقال کر گیا تھا، ماں باپ کے مرنے کے بعد وہ یکہ و تنہا و بے یار و مددگار تھی۔ سوچتی تھی کہ جانے اب اسے کیا کرنا ہو گا۔ اس کی زندگی مصنف کی کہانی کی طرح رک چکی تھی۔۔
یک لخت اسے خیال آیا کہ لڑکی کی زندگی کو آگے لے کر چلنا چاہئیے تاکہ اسے دیکھ کر شاید وہ بھی اپنی تیسری قسط شروع کر سکے۔۔۔
چنانچہ وہ اسے اپنے فلیٹ میں لے گیا۔ اسے نہلا دھلا کر انسان بنایا۔ اسے اچھے اچھے کپڑے گفٹ دیے۔ کہا اگر تم دوسروں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا چاہتیں تو بے شک یہ بہت اچھی بات ہے میرے پاس ملازمت کرو۔ میری سیکرٹری بن جاؤ۔ تمہیں لکھنا پڑھنا میں سکھا دوں گا۔ اور سکھانے کے ساتھ ساتھ معقول تنخواہ بھی دوں گا۔ پہلی بار وہ مسکرائی۔ اب وہ خوش لگ رہی تھی۔ وہ رائٹر اس کے جینے کا سہارا جو بن گیا تھا۔ اب اس کی زندگی کا پہیہ چل سکتا تھا۔۔ اور وہ بھی با عزت طریقے سے۔۔ ۔ اور رائٹر اس لیے خوش تھا کہ اس نے بڑے دنوں بعد کسی کی سچی مدد کی تھی۔ اب تخلیق کا دیوتا بھی شاید خوش ہو جائے اور تیسری قسط کے لیے ڈھیروں ڈھیر الفاظ عنایت کر دے۔
اس رات وہ مطمئن ہو کر سویا مگر صبح اٹھتے ہی احساس ہوا کہ بستر میں اکیلا نہیں ہے کوئی اور بھی اس کے ساتھ ہے۔ اس نے گھبرا کر چادر کھینچی اور تب اس کی روح فنا ہو گئی۔ دھلی دھلائی مگر بالکل برہنہ حالت میں گلی کی ایک فقیری اس کے ساتھ سو رہی تھی۔
٭٭٭
ماخذ: فیس بک
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
تنویر بخاری دی نذر ۔۔۔۔ گروآ تینوں سدا سلام
نذرانہ عقیدت : نور محمّد نور کپور تھلوی پنجابی دے ہرمن پیارے بوٹے نوں گل و گلزار کرن والیاں وچ...