احسن نے جاتے ہوئے امتیاز صاحب اور احمد صاحب سے ضروری باتیں کر لی تھیں انہوں نے بھی ساتھ آنے کا کہا تھا لیکن احسن نے ان کو تسلی دیتے ہوئے گھر ہی رکنے کا کہا تھا اور خود پہلے وہ ڈی آئی جی صاحب کے پاس گیا تھا
” احسن کیسے ہیں آپ ؟” انہوں نے مصافحہ کرتے ہوئے حال چال پوچھا تو وہ زیر لب مسکرایا
“آپ تو جانتے ہیں کہ میری مسز کس حالت میں ہیں ایسے میں ،میں کس حال میں ہو سکتا ہوں ؟”
انہوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا
“بے فکر رہو ینگ مین کیس بہت مضبوط ہے اور تمہارے حق میں ہی ہے ،تم یہ بتاؤ کہ نکاح نامہ کہاں ہے ؟”
“نکاح نامہ تو میرے پاس ہی ہی لیکن آپ نہیں جانتے کہ ایک نقلی نکاح نامہ ان کے پاس بھی ہے” احسن نے سوچ میں ڈوبے ہوئے کہا
“ارے ینگ مین اس نکاح نامے کا بھی کچھ کر لیں گے ۔۔اپنے وکیل کو بھلاؤ اور جلدی چلو اب ابھی تو وہ لوگ نہ جانے کیا کیا ضدیں کریں گے ” ڈی آئی جی کی بات بھی درست تھی اس لیے احسن نے مزید تاخیر کیے بنا وکیل صاحب کو کل کر کے بھلا لیا تھا اور سارا عملہ لے کر وہ لوگ مجیب کے گھر کی طرف روانہ ہوئے تھے
احسن کے تو زہن میں اس کی فاطی کی ہی شبیہہ تھی بس سب تو جلد از جلد اسے وہاں سے لیجانے کی پڑی تھی
پولیس نے چاروں طرف سے گھر کو گھیرے میں لے لیا تھا
اور بنا کوئی آواز نکال گھر کے ایک ایک کونے پر پہرہ دینے کھڑے ہو گئے کیونکہ فاطی یہاں ہی تھی اور کال پر جو بات اس کی ہوئی تھی اس بارے میں احسن نے ڈی آئی جی صاحب کو بتا دیا تھا جس کے مطابق وہ لوگ اسے گھر ہی لائے تھے اور کسی کمرے میں ہی رکھا تھا
مجیب اور ثاقب کو اندازہ ہوا تو وہ لوگ تو بھپڑے ہوئے شیر کی مانند سامنے آ گئے تھے اور دھڑلے سے اسی بات کو دہرائے جا رہے تھے کہ فاطی ان کی ہی بہو ہے ڈی آئی جی صاحب بھی یہی چاہتے تھے کہ وہ نکاح نامہ پیش کرے تا کہ وکیل صاحب مزید غور کریں
مجیب نکاح نامہ باہر لایا تھا جسے دیکھ کر احسن آپے سے باہر ہو گیا
” اپنی بکواس بند کرو تم لوگ ،فاطمہ کے بارے میں میں ایسی بات ہرگز نہیں سنوں گا ”
“احسن بیٹا حوصلہ رکھو مجھے کرنے دو بات ” ڈی آئی جی صاحب نے احسن کو کہتے ہوئے نکاح نامہ پر غور کیا
“کونسی تاریخ اندراج کی گئی ہے ” انہوں نے دونوں باپ بیٹے سے پوچھا تو پہلے وہ گڑبڑا گئے پھر مجیب ہی بولا تھا
“تین ماہ ہو گئے ہیں اس نکاح کو دس اکتوبر کو ہم نے تاریخ اندراج کروائی تھی اسی تاریخ کو جب نکاح ہوا ” “جبکہ اس تاریخ کو فاطمہ کی اٹینڈینس لگی ہے یونیورسٹی میں اور نکاح نامے پر دن گیارہ بجے کا وقت اندراج ہے اور فاطمہ سارا دن یونیورسٹی میں رہی تھی اور باقی کا دن اس نے اپنے گھر گزارا ہے ” وکیل صاحب نے انتہائی اطمینان سے جواب دیا ڈی آئی جی صاحب نے گھر پر چھاپہ مارنے کا کہا تھا ۔۔۔فاطمہ کو لیڈی کانسٹیبل کمرے سے لائی تھی احسن کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے
“ابھی فاطمہ احسن کے ساتھ جائے گی مزید اس کیس کا فیصلہ عدالت میں ہو گا ” ڈی آئی جی نے فیصلہ کرتے ہوئے کہا تو ثاقب ہتھے سے اکھڑ گیا
“آپ لوگ ایسے نہیں کر سکتے ۔۔فاطمہ میری بیوی ہے ” اس نے کہنے کے ساتھ ساتھ فاطمہ کا ہاتھ پکڑ لیا جو کم از کم احسن سے برداشت نہیں ہوا تھا وہ ایک سیکنڈ میں اس پر جھپٹا تھا
” ہاتھ مت لگانا میری بیوی کو ۔۔۔۔ہاتھ کاٹ دوں گا تمہارا ۔۔”اس نے فاطمہ کا ہاتھ ثاقب کے ہاتھ سے چھڑوایا تھا اور فاطمہ کو اپنے پیچھے کر لیا
“تم میری بیوی کو ایسے نہیں لیجا سکتے ” وہ ایک بار پھر بولا تھا اب کی بات احسن چپ نہیں رہا تھا اس نے ایک زور دار مکا ثاقب کے منہ پر مارا تھا
“آئی سیڈ جسٹ۔شٹ اپ ۔۔۔۔نام مت لو اپنی گندی زبان سے ” پولیس کانسٹیبل نے احسن کو ایک سائیڈ پر کیا اور خود ڈی آئی جی صاحب نے احسن کو گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا ، ثاقب کی اکڑ ہوا ہو گئی تھی
” تم لوگ صحیح نہیں کر رہے ہو ۔۔دیکھ لوں گا میں تم سب کو ”
“میں بھی دیکھ لوں گا تمہیں ۔۔۔۔میری بیوی کو زرا بھی ایذا پہنچی ہوئی تو میں تمہیں گولی سے اڑاؤں گا ” احسن کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا تھا
فاطمہ نے احسن کا ہاتھ سختی سے پکڑا۔ہوا تھا شاید اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ پھر نہ اسے لیجائیں
“فاطی تم ٹھیک ہو نا ” احسن نے فاطمہ کے کندھے سے پکڑتے ہوئے گاڑی میں بٹھایا
اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا وہ اب بھی شدید ڈر کے حصار میں تھا
احسن اپنی گاڑی میں تھا باقی پولیس اور ڈی آئی جی صاحب اپنی گاڑیوں میں تھے احسن کی گاڑی گاڑیوں کے درمیان تھی تا کہ ان لوگوں کو تحفظ سے گھر پہنچایا جائے
” فاطی ڈرو نہ میں ساتھ ہوں تمہارے ” احسن نے تسلی دیتے ہوئے اس کے دوپٹے کو اس کے اردگرد صحیح کیا تھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی مٹھی میں دبایا اور تسلی دی
“میں ان لوگوں کو نہیں چھوڑوں گا پہلے میں حیا کرتا تھا کے اپنے رشتہ دار ہی ہیں لیکن اب نہیں میں برداشت نہیں کروں گا اب ۔۔۔اس بے غیرت نے تمہیں ہاتھ بھی کیوں لگایا ” احسن اس قدر غصے میں تھا کہ فاطمہ اس کے غصے سے ڈر گئی تھی اور یہ بات احسن نے فیل کر لی
” یار تم تو مجھ سے نہ ڈرو ان خنزیروں کو میں ان کی اوقات دکھاؤں گا ضرور تم ریلیکس رہو گھر بھی جانا ہے ورنہ پھپھو تمہیں دیکھ کر مزید پریشان ہوں گی ”
“مما کیسی ہیں ؟” وہ جب سے گاڑی میں بیٹھی تھی صرف اب بولی
” سب پریشان تو ہوئے ہی تھی ظاہری بات ہے لیکن پھپھو ماں ہیں وہ تو کچھ زیادہ ہی تھیں لیکن اب تم آ گئی ہو نا اب وہ بھی بلکل ٹھیک ہو جائیں گے ”
“مما کو کچھ ہوا تو۔نہیں نا ” اس نے پریشانی میں احسن کے ہاتھ کو دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور سوال کیا تھا
” نہیں یار اللہ کا شکر ہے ۔۔تم پریشان نہ ہو ” اس نے فاطمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور پھر کچھ یاد آنے پر زرا شرارت سے پوچھنے لگا
“میری یاد نہیں آئی زرا بھی ؟” اس نے تو لبوں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے پوچھا تھا لیکن فاطمہ اس بات پر رونے لگ گئی تھی اور احسن کے کندھے پر سر رکھ دیا وہ تو اس سے یہ سب ایکسپیکٹ نہیں کرہا تھا لیکن پھر اس نے فاطمہ کے آنسو اپنے ایک ہاتھ سے صاف کیے کیونکہ ایک ہاتھ سے وہ ڈرائیونگ کر رہا تھا
“کیا یار پھر رونے لگ گئی ہو۔۔۔میرے سوال کا یہ جواب ہر گز نہیں ہے اب تم گاڑی میں ایسے کرو گی تو میرے اختیار میں نہیں رہے گا کچھ اور پولیس کی گاڑیاں بھی اردگرد ہیں وہ لوگ کیا سوچیں گے
کہ میں کتنا زن مرید ہوں ” احسن کی بات سن کر فاطمہ کے گال سرخ ہو گئے تھے جبکہ اس نے سر نیچے کر کے اپنے لب چبانا شروع کر دیے احسن اس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کر رہا تھا اور اس پہ فدا ہو رہا تھا شکر تھا۔کہ وہ اسے لے آیا ورنہ پھر شاید احسن سے مزید ایک رات بھی کاٹنا مشکل ہوتی ۔۔۔۔
________________
وہ لوگ پولیس کی گاڑیوں کے ساتھ ہی گھر میں داخل ہوئے تھے ڈی آئی جی صاحب نے اس معاملے کا مزید فیصلہ عدالت کے زمہ رکھا تھااور احسن کو ہدایات دیتے ہوئے خود بھی رخصت ہوئے ۔۔احسن فاطمہ کو ہاتھ سے پکڑ کر گاڑی سے یوں نکال رہا تھا جیسے وہ کوئی مریضہ ہو
” میں ٹھیک ہوں احسن ” فاطمہ نے اسے مطمئن کرواتے ہوئے کہا اور خود چلتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی ۔۔۔رقیہ بیگم فاطمہ کے آنے کی خوشی میں گیٹ کے آگے ہی سب کے ساتھ کھڑی تھیں ایسا لگ رہا تھا جیسے بیماری انہیں چھو کے بھی نہ گزری ہو ۔۔۔۔فاطمہ بھاگ کر ان کے گلے لگی تھی پھر دونوں ماں بیٹی کو چپ کروانے والا کوئی نہ تھا فاطمہ بھی زاروقطار رو رہی تھی سچویشن کوئی اور ہوتی تو احسن اب تک فاطمہ کو چپ کروا چکا ہوتا۔۔۔باری باری وہ امتیاز صاحب،آنسہ اور احمد صاحب کے گلے بھی لگ کے روئی تھی ۔۔۔جب بہت رو کے تھک چکے تو اندر آ گئے تھے ۔۔۔
“بیٹا بھوک تو لگی ہوں گی نا آپکو ؟” آنسہ بیگم نے اسے اپنے ساتھ لگایا تھا
” ماما مجھے بھی بہت بھوک لگی ہے آپ کی بہو کے چکر میں ،میں نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا ” احسن کی بات سن کر آنسہ بیگم کے ساتھ ساتھ رقیہ بیگم نے بھی حیرانگی کے ساتھ احسن کی طرف دیکھا
“احسن بچے یہ کیا بات ہوئی ؟۔۔۔بری بات ہے کھانے سے کیا دشمنی آنسہ تم کھانا لگاؤ ۔۔پتہ نہیں کب کا کھایا ہوا ہے ” رقیہ بیگم نے آنسہ کو کہا تو وہ فورا سے بیشتر اٹھی تھیں
فاطمہ نے ہچکچاہٹ سے نظریں نہیں اٹھائی تھیں
“فاطی ان لوگوں نے تمہیں زیادہ پریشان تو نہیں کیا بیٹا ” احمد صاحب نے فاطمہ کو اپنے ساتھ لگایا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے
“نہ میرا بیٹا رونا نہیں اب ۔۔۔۔ہم سب تمہارے ساتھ ہیں نا تمہارا بابا ابھی زندہ ہے ” انہوں نے فاطمہ کے آنسوؤں کو اپنے ہاتھ سے صاف کرتے ہوئے تسلی دی تو اس نے مضبوطی سے ان کے بازو کو پکڑ لیا
“چلو آؤ کھانا کھا لو آپ سب ۔۔۔باتیں پھر کریں گے ” آنسہ نے کھانا لگا دیا تھا
وہ لوگ کھانا کھا چکے تو رقیہ بیگم نے فاطمہ کو فریش ہونے کا کہا
“جاؤ فاطی کپڑے بھی چینج کرو اور فریش ہو جاؤ بیٹا ”
“جی ماما میں آتی ہوں تھوڑی دیر میں ” فاطمہ اٹھ کر چلی گئی تو احسن بھی اس کے پیچھے ہی گیا تھا کمرے میں جاتے ہی احسن لیٹ گیا تھا تھوڑی دیر تک فاطمہ بھی فریش ہو کر آ گئی ۔۔۔خوبصورت لمبے بالوں سے پانی کے قطرے گر رہے تھے تولیے سے بالوں کو صاف کر کے وہ جھٹک رہی تھی جب پانی کی بوندیں احسن کے چہرے پر پڑی تھیں اس نے ایکدم آنکھیں کھولی ۔۔۔اب وہ شیشے کے آگے کھڑی تھی احسن کے لبوں پر دلکش مسکراہٹ تھی اب وہ اٹھ چکا تھا لہذا دوبارہ سونا بےکار تھا وہ بھی اس کے پیچھے ہی آ کر کھڑا ہو گیا تھا وہ اس وقت اتنی پیاری لگ رہی تھی جیسے بارش ہونے کے بعد ہر چیز نکھر سی جاتی ہے
احسن نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور اس کےکانوں کے پاس سرگوشی کی جبکہ اس کے نم بال احسن کو مسحور کر رہے تھے فاطمہ نروس ہو رہی تھی اور احسن اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا
“سب کو مل لیا ہے لیکن تم ایسے بندے کو بھول رہی ہو جو دل و جان تم پر قربان کرتا ہے ” احسن کی بات پر فاطمہ کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا اس نے وہاں سے ہٹنا چاہا لیکن احسن نے اس کو مضبوطی سے پکڑا تھا
” میں نے کچھ پوچھا ہے ” اس نے ایک بار پھر سرگوشی کی
“میں نہیں جانتی ”
“تم ہی تو جانتی ہو سب ”
مجھے کام ہے چھوڑیں مجھے ” احسن نے اس کا چہرہ اپنی طرف کیا تھا
“جو شکایتیں ہیں وہ بتاؤ نا میں سب دور کروں گا ” احسن نے کہنے کے ساتھ ہی اسے اپنے ساتھ لگا لیا تھا فاطمہ چاہ کے بھی پیچھے نہیں ہٹ پائی تھی شاید بے بس ہو گئی تھی کچھ لمحات ایسے گزر گئے تھے پھر فاطمہ نے دھیرے سے اس سے الگ ہوئی تھی
“جو شکایتیں ہیں وہ آپ جانتے ہیں ”
کہہ کر وہ رکی نہیں تھی بلکہ کمرے سے نکل گئی اور وہ بھی کچھ سوچتا ہوا دوبارہ لیٹ گیا تھا اب تو اس کی غلط فہمی دور کرنا ضروری تھا کیونکہ احسن سے اب دور رہنا نا ممکن تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“فاطی ۔۔۔فاطی کہاں ہو یار ” احسن پورے گھر میں فاطمہ کو تلاش کر رہا تھا
“کیا بات ھے احسن خیریت تو ہے نا؟” رقیہ بیگم کچن میں مصروف تھیں جب احسن کی آواز سن کر باہر آئی تھیں
” جی ماما سب خیریت ہے وہ بس فاطی سے تھوڑا ہے ”
“کیا کام ہے مجھے بتاؤ میں کر دیتی ہوں” رقیہ بیگم جان گئی تھیں کہ وہ کچھ جلدی میں ہے
“نہیں ماما خاص کچھ بھی نہیں آپ بتائیں فاطی کہا ہے ” احسن کی نظریں مسلسل اردگرد ہی گھوم رہی تھیں لیکن وہ کہیں نظر نہ آ رہی تھی
” پیچھے لان میں ہو گی ۔۔جا کر دیکھ لو میں نے ہی اسے کہا تھا کہ چلی جاؤ فریش ہو جاؤ گی ” ان کے کہنے پر احسن فورا پچھلے حصے کی جانب گیا تھا جہاں اسے فاطمہ لان میں گھاس پر بیٹھی نظر آئی تھی پاؤں میں جوتے نہیں تھے
“کیا یار یہاں وہاں ہر جگہ تمہیں دیکھ لیا لیکن تم یہاں آ کر بیٹھی ہو شوہر نامدار کی تھوڑی خدمت بھی کر لیا کرو ” احسن بھی وہیں اس کے پاس ہی بیٹھا تھا
“اب کونسی خدمت پر مامور کرانے کا ارادہ ہے ” فاطمہ نے آنکھیں موندی ہوئی تھیں شاید وہ اپنے آپ کو ریلیکس کرنے کی کوشش میں ہی تھی اس لیے اس نے آنکھیں نہیں کھولی تھیں
” خدمت تو تم ہر طرح کی کر سکتی ہو اگر ارادہ ہے تو ؟” احسن نے زو معنی لہجے میں اس کے کانوں کے پاس سرگوشی کی تو اس نے فورا آنکھیں کھول لی تھیں
“کیا مطلب ہے آپ کا ؟آپ مجھ سے نا اس طرح کی باتیں مت کیا کریں ” فاطمہ نے نخوت سے کہتے ہوئے منہ پھیرا تو اس کا دل کیا وہ زور سے قہقہہ لگائے لیکن اس نے زرا کنٹرول کیا
” اچھا تو بیگم بات یہ ہے کہ مطلب تم سمجھو گی نہیں اور میں اسطرح کی باتیں کرتا رہوں گا ”
“فضول مطلب ہی ہوتا ہے آپ کی ہر بات کا ”
“اچھا میں کہنے آیا تھا کہ میرے کوئی زبردست سے کپڑے پریس کر دو کوئی اچھی سی شرٹ ” احسن اس قدر نصیحیتا انداز میں کہہ رہا تھا۔کہ اس نے بھنویں اچکاتے ہوئے طنزیہ دیکھا
” خیریت تو ہے کہاں جانا ہے ؟” وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی تھی
“خیریت تو ہے تم کیوں پوچھ رہی ہو؟” احسن نے بھی اسی کے انداز میں سوال کیا تھا
“خیریت تو ہے آپ کیوں ایسے ری ایکٹ کر رہے ہیں” وہ دونوں بلکل اسی طرح ری ایکٹ کر رہے تھے جیسے شادی سے پہلے ان کا رویہ تھا
” ثانی کی طرف جانا ہی مجھے ۔۔کیوں کہ اس نے انوائٹ کیا ہے ” احسن کے کہنے پر فاطمہ کا ایک ایک عضو کان بن گیا تھا
“ایسے کیسے جا سکتے ہیں آپ ؟”
“کیوں کیوں نہیں جا سکتا میں؟
“اچھا تو شوق سے جائیں پھر ” فاطمہ نے غصے سے کہا تھا
“ہاں تو شوق سے جا رہا ہوں ” احسن نے بآور کرایا تھا فاطمہ تن فن کرتی وہاں سے جانے لگی تھی جب احسن نے اسے کلائی سےپکڑ کر روکا تھا
“غصہ کیوں کر رہی ہو بس جو کہا ہے وہ کر دو ” اس نے ریکوئسٹ کرنے والے انداز میں کہا اس کا انداز فاطمہ کو جلا گیا تھا
“اگر نہ کروں تو ؟”
“چیلنج کر رہی ہو ؟”
“ہاں یہی سمجھ لیں ” فاطمہ اب اسے تنگ کر۔رہی تھی
“اگر تم ہی کرو تو ؟” احسن نے کہنے کے ساتھ ہی اس کی کلائی پر زور دے کر ایک جھٹکے سے اسے اپنے قریب کیا تھا جبکہ اس کی کلائی کو پیچھے ہی باندھے رکھا
“ایسا ممکن نہیں ہے ” فاطمہ کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا جیسے باہر آ رہا ہو اوپر سے وہ ہار ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھی
“خود ہی مانو گی ” احسن نے اس کا چہرہ اپنے قریب کیا تھا وہ ڈر گئی تھی وہ غور کر رہا تھا کہ بس اب وہ ماننے ہی والی ہے لیکن ایسا کچھ نہیں تھا اس نے وہی ہاتھ سامنے کیا جو پہلے کمر کے پیچھے باندھا تھا اور اپنے لب اس کے ہاتھ پر رکھ دیے وہ تو جی جان سے کانپ گئی تھی اس نے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی لیکن اس نے نہیں چھوڑا تھا
“اب بھی نہیں مانو گی ؟” اس نے گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو وہ سٹپٹا گئی
“بہت غلط کر رہے ہیں آپ ” فاطمہ کے کہنے پر وہ زیر لب ہنسا تھا
“کون پاگل پوچھ رہا ہے کہ غلط کر رہا ہوں یا صحیح ؟”
“میں نہیں مانتی کیا کر لیں گے آپ ؟”
“کچھ بھی کر سکتا ہوں ”
“دھمکیاں دینے کی ضرورت نہیں ہے ” فاطمہ نے دوسرا ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا تو اس نے وہ بھی ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور اس پر بھی اپنے لب رکھ دیے ۔۔۔پاگل تھا وہ بلکل ۔۔۔اور فاطمہ اس سے بڑھ کر پاگل تھی
احسن نے دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ لیا تھا اس کی نظروں کا فوکس اب کہیں اور ہی تھا اب کی بار وہ بلکل اپنے حواسوں میں نہیں تھا جذبات کی لے میں بہتا وہ کچھ اور کر دینا چاہتا تھا جب فاطمہ نے اسے جھٹکا دیا تھا ۔۔۔اس کا تسلسل توڑنے پر احسن نے فاطمہ کو بہت ہی عجیب نظروں سے دیکھا جس پر وہ شرمندہ سی ہو گئ تھی
“کر دوں گی آپ کا کام” وہ کہہ کر رکی نہیں تھی بلکہ بھاگ کر کمرے میں چلی گئی تھی جبکہ وہ بھی انہی پیروں اس کے پیچھے لپکا تھا
کیا ہی اچھی بات ہوتی اگر تم میری بات مانتی تو ” فاطمہ کیبن میں گھسی اس کی شرٹ ڈھونڈ رہی تھی جب وہ اس کے سر پر آ کر کھڑا ہو گیا تھا فاطمہ نے ایکدم سے ڈرتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا
“کہہ تو رہی ہوں کرتی ہوں کام اور دیکھ نہیں رہے کیا آپ نے اپنی ثانی کے پاس جانا ہے اس کے لیے میں ڈھونڈ رہی ہوں نا کوئی پیاااری سی شرٹ ” فاطمہ نے طنز کرتے ہوئے پیاری کو زرا لمبا زکھینچا
” میری بات مانتی تو وہاں سے آ نہ جاتی ” احسن نے اسے گھورا تھا
“جائیں یہاں سے آپ کا کام ہو جائے گا ”
“تم یہ سب کچھ اپنی جان چھڑوانے کے لیے کر رہی ہو ۔۔۔نہیں تو تم میری بات کبھی بھی نہ مانتی ” احسن نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھا فاطمہ شرٹ نکال چکی تھی اور اب پریس کرنے لگی
“پتہ ہے کیا ؟” احسن سے رہا نہ گیا تو اسے پھر بلا لیا
“اب کیا ہے ؟” فاطمہ نے شرٹ چھوڑ کر احسن سے پوچھا جو اس کے سر پر کھڑا تھا
“میں اور ثانی پہلے ڈنر کریں گے اور پھر شاپنگ پہ جائیں گے ” فاطمہ کے دل کو ایکدم سے دھچکا لگا تھا لیکن پھر اپنے تاثرات پر قابو پا گئی
“تو میں کیا کروں ؟” اس نے ایسے ظاہر کروایا جیسے اسے کوئی پرواہ نہ ہو
“اس لیے بتا رہا ہوں کہ تم نے اگر جانا ہے تو ”
“مجھے کہیں نہیں جانا آپ کا ڈنر اور آپ کی شاپنگ آپ ہی کو مبارک ہو ” فاطمہ نے شرٹ احسن کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اٹل لہجے میں کہا اور وہاں سی واک آؤٹ کر گئی
“پاگل شہزادی “احسن نے بڑبڑاتے ہوئے کہا تھا اور خود وہ تیار ہونے لگا
فاطمہ کو احسن کی باتیں بہت چبھ رہی تھیں پہلے تو اس نے سب سے چھپایا تھا اور اب ڈھنکے کی چوٹ پر وہ فاطمہ کو سب کچھ بتا رہا تھا اپنے دل کو سنبھالتی وہ ٹیرس پر چلی گئی تھی کچھ دیر گزرنے کے بعد اسے ہارن کی آواز سنائی دی احسن نے ٹیرس کی جانب نظریں دوڑائیں تو اس کو فاطمہ نظر آئی تھی ہنستے ہوئے اس نے ہاتھ ہلایا اور گاڑی میں بیٹھ گیا تھا جبکہ فاطمہ کو اس کی ہنسی اس وقت شدید جلا بھی رہی تھی اور رلا بھی رہی تھی ضبط کی انتہا جب ٹوٹی تو دو۔آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر گالوں کو نم کر گئے تھے جب کافی دیر گزر چکی تو وہ اپنے کمرے میں آ گئی تھی پتہ نہیں آج یہ خالی کمرہ اسے کچھ زیادہ ہی خالی لگ رہا تھا بلکل اس کے خالی دل کی طرح دو گھنٹے ہونے کو آ چکے تھے لیکن احسن نے ایک دفعہ بھی اسے کال یا میسج نہیں کیا تھا سائیڈ ٹیبل سے احسن کی تصویر اٹھاتی وہ اس کے ایک ایک نقش پو غور کرنے لگی نہ جانے کب سے وہ اس کے دل کی دنیا کو ہلا گیا تھا اسے اس قدر بے بسی پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی اب ۔۔۔رات آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی لیکن فاطمہ کو آج احسن کے بنا نیند نہیں آ رہی تھی فوٹو فریم اس کے سینے پر ہی تھا جب وہ نیند کی وادیوں میں گم ہو گئی جبکہ رخسار آنسوؤں کی وجہ سے ظاہر کروا رہے تھے جیسے آنسو پلکوں کی بار سے نکلے ہیں کیونکہ نشانات واضح تھے۔
تنوع کے فقدان کا عذاب
لاہور ایئرپورٹ سے فلائی کرنے والا ہوموپاکیئن دو تین گھنٹے بعد دوبئی یا دوحہ میں اترتا ہے تو ایک مختلف...