وہ لوگ پولیس کی گاڑیوں کے ساتھ ہی گھر میں داخل ہوئے تھے ڈی آئی جی صاحب نے اس معاملے کا مزید فیصلہ عدالت کے زمہ رکھا تھااور احسن کو ہدایات دیتے ہوئے خود بھی رخصت ہوئے ۔۔احسن فاطمہ کو ہاتھ سے پکڑ کر گاڑی سے یوں نکال رہا تھا جیسے وہ کوئی مریضہ ہو
” میں ٹھیک ہوں احسن ” فاطمہ نے اسے مطمئن کرواتے ہوئے کہا اور خود چلتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی ۔۔۔رقیہ بیگم فاطمہ کے آنے کی خوشی میں گیٹ کے آگے ہی سب کے ساتھ کھڑی تھیں ایسا لگ رہا تھا جیسے بیماری انہیں چھو کے بھی نہ گزری ہو ۔۔۔۔فاطمہ بھاگ کر ان کے گلے لگی تھی پھر دونوں ماں بیٹی کو چپ کروانے والا کوئی نہ تھا فاطمہ بھی زاروقطار رو رہی تھی سچویشن کوئی اور ہوتی تو احسن اب تک فاطمہ کو چپ کروا چکا ہوتا۔۔۔باری باری وہ امتیاز صاحب،آنسہ اور احمد صاحب کے گلے بھی لگ کے روئی تھی ۔۔۔جب بہت رو کے تھک چکے تو اندر آ گئے تھے ۔۔۔
“بیٹا بھوک تو لگی ہوں گی نا آپکو ؟” آنسہ بیگم نے اسے اپنے ساتھ لگایا تھا
” ماما مجھے بھی بہت بھوک لگی ہے آپ کی بہو کے چکر میں ،میں نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا ” احسن کی بات سن کر آنسہ بیگم کے ساتھ ساتھ رقیہ بیگم نے بھی حیرانگی کے ساتھ احسن کی طرف دیکھا
“احسن بچے یہ کیا بات ہوئی ؟۔۔۔بری بات ہے کھانے سے کیا دشمنی آنسہ تم کھانا لگاؤ ۔۔پتہ نہیں کب کا کھایا ہوا ہے ” رقیہ بیگم نے آنسہ کو کہا تو وہ فورا سے بیشتر اٹھی تھیں
فاطمہ نے ہچکچاہٹ سے نظریں نہیں اٹھائی تھیں
“فاطی ان لوگوں نے تمہیں زیادہ پریشان تو نہیں کیا بیٹا ” احمد صاحب نے فاطمہ کو اپنے ساتھ لگایا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے
“نہ میرا بیٹا رونا نہیں اب ۔۔۔۔ہم سب تمہارے ساتھ ہیں نا تمہارا بابا ابھی زندہ ہے ” انہوں نے فاطمہ کے آنسوؤں کو اپنے ہاتھ سے صاف کرتے ہوئے تسلی دی تو اس نے مضبوطی سے ان کے بازو کو پکڑ لیا
“چلو آؤ کھانا کھا لو آپ سب ۔۔۔باتیں پھر کریں گے ” آنسہ نے کھانا لگا دیا تھا
وہ لوگ کھانا کھا چکے تو رقیہ بیگم نے فاطمہ کو فریش ہونے کا کہا
“جاؤ فاطی کپڑے بھی چینج کرو اور فریش ہو جاؤ بیٹا ”
“جی ماما میں آتی ہوں تھوڑی دیر میں ” فاطمہ اٹھ کر چلی گئی تو احسن بھی اس کے پیچھے ہی گیا تھا کمرے میں جاتے ہی احسن لیٹ گیا تھا تھوڑی دیر تک فاطمہ بھی فریش ہو کر آ گئی ۔۔۔خوبصورت لمبے بالوں سے پانی کے قطرے گر رہے تھے تولیے سے بالوں کو صاف کر کے وہ جھٹک رہی تھی جب پانی کی بوندیں احسن کے چہرے پر پڑی تھیں اس نے ایکدم آنکھیں کھولی ۔۔۔اب وہ شیشے کے آگے کھڑی تھی احسن کے لبوں پر دلکش مسکراہٹ تھی اب وہ اٹھ چکا تھا لہذا دوبارہ سونا بےکار تھا وہ بھی اس کے پیچھے ہی آ کر کھڑا ہو گیا تھا وہ اس وقت اتنی پیاری لگ رہی تھی جیسے بارش ہونے کے بعد ہر چیز نکھر سی جاتی ہے
احسن نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور اس کےکانوں کے پاس سرگوشی کی جبکہ اس کے نم بال احسن کو مسحور کر رہے تھے فاطمہ نروس ہو رہی تھی اور احسن اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا
“سب کو مل لیا ہے لیکن تم ایسے بندے کو بھول رہی ہو جو دل و جان تم پر قربان کرتا ہے ” احسن کی بات پر فاطمہ کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا اس نے وہاں سے ہٹنا چاہا لیکن احسن نے اس کو مضبوطی سے پکڑا تھا
” میں نے کچھ پوچھا ہے ” اس نے ایک بار پھر سرگوشی کی
“میں نہیں جانتی ”
“تم ہی تو جانتی ہو سب ”
مجھے کام ہے چھوڑیں مجھے ” احسن نے اس کا چہرہ اپنی طرف کیا تھا
“جو شکایتیں ہیں وہ بتاؤ نا میں سب دور کروں گا ” احسن نے کہنے کے ساتھ ہی اسے اپنے ساتھ لگا لیا تھا فاطمہ چاہ کے بھی پیچھے نہیں ہٹ پائی تھی شاید بے بس ہو گئی تھی کچھ لمحات ایسے گزر گئے تھے پھر فاطمہ نے دھیرے سے اس سے الگ ہوئی تھی
“جو شکایتیں ہیں وہ آپ جانتے ہیں ”
کہہ کر وہ رکی نہیں تھی بلکہ کمرے سے نکل گئی اور وہ بھی کچھ سوچتا ہوا دوبارہ لیٹ گیا تھا اب تو اس کی غلط فہمی دور کرنا ضروری تھا کیونکہ احسن سے اب دور رہنا نا ممکن تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“فاطی ۔۔۔فاطی کہاں ہو یار ” احسن پورے گھر میں فاطمہ کو تلاش کر رہا تھا
“کیا بات ھے احسن خیریت تو ہے نا؟” رقیہ بیگم کچن میں مصروف تھیں جب احسن کی آواز سن کر باہر آئی تھیں
” جی ماما سب خیریت ہے وہ بس فاطی سے تھوڑا ہے ”
“کیا کام ہے مجھے بتاؤ میں کر دیتی ہوں” رقیہ بیگم جان گئی تھیں کہ وہ کچھ جلدی میں ہے
“نہیں ماما خاص کچھ بھی نہیں آپ بتائیں فاطی کہا ہے ” احسن کی نظریں مسلسل اردگرد ہی گھوم رہی تھیں لیکن وہ کہیں نظر نہ آ رہی تھی
” پیچھے لان میں ہو گی ۔۔جا کر دیکھ لو میں نے ہی اسے کہا تھا کہ چلی جاؤ فریش ہو جاؤ گی ” ان کے کہنے پر احسن فورا پچھلے حصے کی جانب گیا تھا جہاں اسے فاطمہ لان میں گھاس پر بیٹھی نظر آئی تھی پاؤں میں جوتے نہیں تھے
“کیا یار یہاں وہاں ہر جگہ تمہیں دیکھ لیا لیکن تم یہاں آ کر بیٹھی ہو شوہر نامدار کی تھوڑی خدمت بھی کر لیا کرو ” احسن بھی وہیں اس کے پاس ہی بیٹھا تھا
“اب کونسی خدمت پر مامور کرانے کا ارادہ ہے ” فاطمہ نے آنکھیں موندی ہوئی تھیں شاید وہ اپنے آپ کو ریلیکس کرنے کی کوشش میں ہی تھی اس لیے اس نے آنکھیں نہیں کھولی تھیں
” خدمت تو تم ہر طرح کی کر سکتی ہو اگر ارادہ ہے تو ؟” احسن نے زو معنی لہجے میں اس کے کانوں کے پاس سرگوشی کی تو اس نے فورا آنکھیں کھول لی تھیں
“کیا مطلب ہے آپ کا ؟آپ مجھ سے نا اس طرح کی باتیں مت کیا کریں ” فاطمہ نے نخوت سے کہتے ہوئے منہ پھیرا تو اس کا دل کیا وہ زور سے قہقہہ لگائے لیکن اس نے زرا کنٹرول کیا
” اچھا تو بیگم بات یہ ہے کہ مطلب تم سمجھو گی نہیں اور میں اسطرح کی باتیں کرتا رہوں گا ”
“فضول مطلب ہی ہوتا ہے آپ کی ہر بات کا ”
“اچھا میں کہنے آیا تھا کہ میرے کوئی زبردست سے کپڑے پریس کر دو کوئی اچھی سی شرٹ ” احسن اس قدر نصیحیتا انداز میں کہہ رہا تھا۔کہ اس نے بھنویں اچکاتے ہوئے طنزیہ دیکھا
” خیریت تو ہے کہاں جانا ہے ؟” وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی تھی
“خیریت تو ہے تم کیوں پوچھ رہی ہو؟” احسن نے بھی اسی کے انداز میں سوال کیا تھا
“خیریت تو ہے آپ کیوں ایسے ری ایکٹ کر رہے ہیں” وہ دونوں بلکل اسی طرح ری ایکٹ کر رہے تھے جیسے شادی سے پہلے ان کا رویہ تھا
” ثانی کی طرف جانا ہی مجھے ۔۔کیوں کہ اس نے انوائٹ کیا ہے ” احسن کے کہنے پر فاطمہ کا ایک ایک عضو کان بن گیا تھا
“ایسے کیسے جا سکتے ہیں آپ ؟”
“کیوں کیوں نہیں جا سکتا میں؟
“اچھا تو شوق سے جائیں پھر ” فاطمہ نے غصے سے کہا تھا
“ہاں تو شوق سے جا رہا ہوں ” احسن نے بآور کرایا تھا فاطمہ تن فن کرتی وہاں سے جانے لگی تھی جب احسن نے اسے کلائی سےپکڑ کر روکا تھا
“غصہ کیوں کر رہی ہو بس جو کہا ہے وہ کر دو ” اس نے ریکوئسٹ کرنے والے انداز میں کہا اس کا انداز فاطمہ کو جلا گیا تھا
“اگر نہ کروں تو ؟”
“چیلنج کر رہی ہو ؟”
“ہاں یہی سمجھ لیں ” فاطمہ اب اسے تنگ کر۔رہی تھی
“اگر تم ہی کرو تو ؟” احسن نے کہنے کے ساتھ ہی اس کی کلائی پر زور دے کر ایک جھٹکے سے اسے اپنے قریب کیا تھا جبکہ اس کی کلائی کو پیچھے ہی باندھے رکھا
“ایسا ممکن نہیں ہے ” فاطمہ کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا جیسے باہر آ رہا ہو اوپر سے وہ ہار ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھی
“خود ہی مانو گی ” احسن نے اس کا چہرہ اپنے قریب کیا تھا وہ ڈر گئی تھی وہ غور کر رہا تھا کہ بس اب وہ ماننے ہی والی ہے لیکن ایسا کچھ نہیں تھا اس نے وہی ہاتھ سامنے کیا جو پہلے کمر کے پیچھے باندھا تھا اور اپنے لب اس کے ہاتھ پر رکھ دیے وہ تو جی جان سے کانپ گئی تھی اس نے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی لیکن اس نے نہیں چھوڑا تھا
“اب بھی نہیں مانو گی ؟” اس نے گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو وہ سٹپٹا گئی
“بہت غلط کر رہے ہیں آپ ” فاطمہ کے کہنے پر وہ زیر لب ہنسا تھا
“کون پاگل پوچھ رہا ہے کہ غلط کر رہا ہوں یا صحیح ؟”
“میں نہیں مانتی کیا کر لیں گے آپ ؟”
“کچھ بھی کر سکتا ہوں ”
“دھمکیاں دینے کی ضرورت نہیں ہے ” فاطمہ نے دوسرا ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا تو اس نے وہ بھی ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور اس پر بھی اپنے لب رکھ دیے ۔۔۔پاگل تھا وہ بلکل ۔۔۔اور فاطمہ اس سے بڑھ کر پاگل تھی
احسن نے دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ لیا تھا اس کی نظروں کا فوکس اب کہیں اور ہی تھا اب کی بار وہ بلکل اپنے حواسوں میں نہیں تھا جذبات کی لے میں بہتا وہ کچھ اور کر دینا چاہتا تھا جب فاطمہ نے اسے جھٹکا دیا تھا ۔۔۔اس کا تسلسل توڑنے پر احسن نے فاطمہ کو بہت ہی عجیب نظروں سے دیکھا جس پر وہ شرمندہ سی ہو گئ تھی
“کر دوں گی آپ کا کام” وہ کہہ کر رکی نہیں تھی بلکہ بھاگ کر کمرے میں چلی گئی تھی جبکہ وہ بھی انہی پیروں اس کے پیچھے لپکا تھا
کیا ہی اچھی بات ہوتی اگر تم میری بات مانتی تو ” فاطمہ کیبن میں گھسی اس کی شرٹ ڈھونڈ رہی تھی جب وہ اس کے سر پر آ کر کھڑا ہو گیا تھا فاطمہ نے ایکدم سے ڈرتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا
“کہہ تو رہی ہوں کرتی ہوں کام اور دیکھ نہیں رہے کیا آپ نے اپنی ثانی کے پاس جانا ہے اس کے لیے میں ڈھونڈ رہی ہوں نا کوئی پیاااری سی شرٹ ” فاطمہ نے طنز کرتے ہوئے پیاری کو زرا لمبا زکھینچا
” میری بات مانتی تو وہاں سے آ نہ جاتی ” احسن نے اسے گھورا تھا
“جائیں یہاں سے آپ کا کام ہو جائے گا ”
“تم یہ سب کچھ اپنی جان چھڑوانے کے لیے کر رہی ہو ۔۔۔نہیں تو تم میری بات کبھی بھی نہ مانتی ” احسن نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھا فاطمہ شرٹ نکال چکی تھی اور اب پریس کرنے لگی
“پتہ ہے کیا ؟” احسن سے رہا نہ گیا تو اسے پھر بلا لیا
“اب کیا ہے ؟” فاطمہ نے شرٹ چھوڑ کر احسن سے پوچھا جو اس کے سر پر کھڑا تھا
“میں اور ثانی پہلے ڈنر کریں گے اور پھر شاپنگ پہ جائیں گے ” فاطمہ کے دل کو ایکدم سے دھچکا لگا تھا لیکن پھر اپنے تاثرات پر قابو پا گئی
“تو میں کیا کروں ؟” اس نے ایسے ظاہر کروایا جیسے اسے کوئی پرواہ نہ ہو
“اس لیے بتا رہا ہوں کہ تم نے اگر جانا ہے تو ”
“مجھے کہیں نہیں جانا آپ کا ڈنر اور آپ کی شاپنگ آپ ہی کو مبارک ہو ” فاطمہ نے شرٹ احسن کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اٹل لہجے میں کہا اور وہاں سی واک آؤٹ کر گئی
“پاگل شہزادی “احسن نے بڑبڑاتے ہوئے کہا تھا اور خود وہ تیار ہونے لگا
فاطمہ کو احسن کی باتیں بہت چبھ رہی تھیں پہلے تو اس نے سب سے چھپایا تھا اور اب ڈھنکے کی چوٹ پر وہ فاطمہ کو سب کچھ بتا رہا تھا اپنے دل کو سنبھالتی وہ ٹیرس پر چلی گئی تھی کچھ دیر گزرنے کے بعد اسے ہارن کی آواز سنائی دی احسن نے ٹیرس کی جانب نظریں دوڑائیں تو اس کو فاطمہ نظر آئی تھی ہنستے ہوئے اس نے ہاتھ ہلایا اور گاڑی میں بیٹھ گیا تھا جبکہ فاطمہ کو اس کی ہنسی اس وقت شدید جلا بھی رہی تھی اور رلا بھی رہی تھی ضبط کی انتہا جب ٹوٹی تو دو۔آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر گالوں کو نم کر گئے تھے جب کافی دیر گزر چکی تو وہ اپنے کمرے میں آ گئی تھی پتہ نہیں آج یہ خالی کمرہ اسے کچھ زیادہ ہی خالی لگ رہا تھا بلکل اس کے خالی دل کی طرح دو گھنٹے ہونے کو آ چکے تھے لیکن احسن نے ایک دفعہ بھی اسے کال یا میسج نہیں کیا تھا سائیڈ ٹیبل سے احسن کی تصویر اٹھاتی وہ اس کے ایک ایک نقش پو غور کرنے لگی نہ جانے کب سے وہ اس کے دل کی دنیا کو ہلا گیا تھا اسے اس قدر بے بسی پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی اب ۔۔۔رات آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی لیکن فاطمہ کو آج احسن کے بنا نیند نہیں آ رہی تھی فوٹو فریم اس کے سینے پر ہی تھا جب وہ نیند کی وادیوں میں گم ہو گئی جبکہ رخسار آنسوؤں کی وجہ سے ظاہر کروا رہے تھے جیسے آنسو پلکوں کی بار سے نکلے ہیں کیونکہ نشانات واضح تھے
__________
رات کا نہ جانے کونسا پہر تھا جب احسن واپس آیا تھا ثانیہ کے ساتھ شاپنگ اور ڈنر کر کے وہ اب ریسٹ کرنا چاہتا تھا کمرے میں آیا تو سامنے ہی اس کی نظر سوئی ہوئی فاطمہ پر پڑی تھی وہ چلتے چلتے بلکل اس کے قریب آ کر کھڑا ہوا تھا سوئی ہوئی وہ بہت معصوم لگتی تھی اور اس بات کا اعتراف احسن پہلے ہی کر چکا تھا یہ اس کی معصومیت ہی تھی جو اسے گھائل کر گئی تھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے احسن نے کچھ محسوس کیا تھا یعنی کہ وہ روئی تھی اور روتے روتے ہی سو گئی احسن کے دل کو کچھ ہوا تھا وہ اپنے آپ کو روک نہیں سکا اس نے اپنے ہاتھ سے اس کے گال پر آئے آنسوؤں کو صاف کیا جو کہ خود ہی سوکھ چکے تھے اور وہ فوٹو فریم جو جو اس کے سینے پر الٹا پڑا ہوا تھا احسن نے دھیرے سے وہ اٹھایا اور ساکت رہ گیا یعنی مسز احسن دل ہار چکی تھی اور اس کی یاد میں روتی رہی احسن نے فوٹو فریم سائیڈ پر رکھا اور وہیں گھٹنوں کے بل زمین پر ہی بیٹھ گیا آہستگی سے فاطمہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا جو نیچے کی طرف لٹکا ہوا تھا اور پھر اپنے لب اس کے ہاتھ کی پشت پر رکھ دیے
“کیسے سمجھاؤں فاطی کہ تم میری روح بن چکی ہو ” وہ خود اپنے آپ سے ہی ہم کلام تھا
“میں جانتا ہوں تم بھی میری بغیر اب نہیں رہ سکتی ” سوچتے ہوئے وہ زیر لب مسکرایا فاطی کا ہاتھ بستر پر رکھا اور پھر وہ اس کی طرف جھکا تھا اور بڑے ہی پیار سے اس کے ماتھے پر اپنے پیار کی نشانی چھوڑ چکا تھا فاطمہ کسمسائی تھی لیکن اس سے پہلے کہ وہ اٹھتی احسن وہاں سے ہٹ گیا تھا اور دوسری سائیڈ پر آ کر لیٹ گیا صد شکر کہ فاطمہ اٹھی نہیں تھی احسن نے لائیٹ آف کرنے سے پہلے فاطمہ کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لیا تھا اور ایسے ہی سونا چاہتا تھا کیونکہ اب وہ اس کا ہاتھ نہیں چھوڑنا چاہتا تھا کسی بھی شرط پر ۔۔۔کسی بھی صورت میں ۔۔۔۔
مُجھے کھینچتا ہے کئی بہانوں سے
ایک جادُو جو تیری ذات میں ہـے_____
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ جب سے اٹھی تھی اس کی طبیعت میں چڑچڑا پن سا تھا نہ جانے کیا تھا شاید رات جو کچھ ہوا اس وجہ سے اس نے اتنی پریشانی لی تھی کہ اس کا دماغ کچھ بھی سوچنے سے عاری تھا منہ ہاتھ دھونے وہ واشروم گئی تھی جب اس کا پاؤں اتنے زور سے پھسلا کہ اس کی چیخ نکل گئی احسن جو ٹیرس پر کھڑا تھا اس کی چیخ سن کر بھاگا تھا ایسے جیسے جان سی نکل گئی ہو
واشروم کا دروازہ بند تھا احسن نے دو تین دفعہ دھکا لگایا تھا لیکن دروازہ نہ کھلا
“فاطی تم میری آواز سن رہی ہو؟ پلیز دروازہ کھولو ” وہ بار بار دروازہ بجا رہا تھا
” اح۔۔احسن مجھے بچا لو پلیز ” وہ بچوں کی طرح چیخ رہی تھی
“فاطی ہمت کر کے دروازہ تو کھولو یار ” وہ بے بسی کی انتہا پر تھا
جب دو تین دفعہ بلانے پر وہ نہ بولی تو احسن نے جلدی جلدی سارے دراز چیک کیے اور چابیاں نکالی تھیں ایک ایک کر ساری چیک کیں اور قسمت اچھی تھی دروازہ کھل گیا ۔۔۔لیکن جو منظر احسن نے دیکھا تھا وہ اس کی روح کھینچ لینے کے لیے کافی تھا فاطمہ بیسن کے پاس بیہوش پڑی تھی کپڑے سارے بیگ گئے تھے احسن نے جلدی سے اس کا سر پکڑ کر اپنی گود میں رکھا لیکن یہ کیا اس کے کپڑوں پر خون بھی تھا ۔۔احسن پریشانی میں اس کا سر جگہ جگہ سے ہاتھ لگا کر چیک کر رہا تھا سر کی پچھلی جانب سے کافی گہرا زخم تھا شاید گرنے کی وجہ سے بیسن کا کونہ لگا تھا احسن کے ہاتھ کانپ رہے تھے جبکہ آنکھوں میں آنسو تھے اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے کبھی اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی میں وہ ایسے بھی کبھی بے بس ہو گا اور وہ بھی اپنی جان سے پیاری بیوی کے لیے ۔۔۔اسے لگ رہا تھا کہ سارا قصور اسی کا ہے نہ وہ اسے تنگ کرتا اور نہ وہ اتنی شدید ٹینشن لیتی
” فاطی پلیز اٹھو ۔۔۔مجھے معاف کر دو ایک بار اٹھو تو سہی ” وہ بار بار اس کے چہرے پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور اسے ہلا رہا تھا لیکن فاطمہ کوئی حرکت نہیں کر رہی تھی احسن نے اسے بازوؤں میں اٹھایا اور بیڈ پر لٹا دیا پھر خیال آنے پر اس نے جلدی جلدی ڈاکٹر کو کال کی تھی کیونکہ بلڈ آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا پھر اس نے رقیہ بیگم اور باقی سب کو بھی بلایا تھا سب ہی اس کے اردگرد بیٹھے تھے اور احسن سے سوال جواب کر رہے تھے جو گم سم اس کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا تھا ڈاکٹر نے بینڈیج کر دی تھی سر پر گہری چوٹ ہونے کی وجہ سے ٹانکے لگے تھے احسن سے یہ سب دیکھنا مشکل تھا گھر والوں سے اس نے کہا تھا کہ پاؤں پھسل گیا ہے لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ ڈپریشن کی وجہ سے گر گئی ہے ۔۔ڈاکٹر نہ کہا تھا کہ۔کمزوری کافی ہو گئی ہے اور بلڈ بہنے کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی ہو گئی تھی ۔۔۔ابھی دوائیوں کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے فاطمہ سوئی ہوئی تھی باقی سب بھی چلے گئے تھے تاکہ وہ فاطمہ ڈسٹرب نہ ہو رقیہ بیگم تو روتی رہیں احسن نے ہی انہیں حوصلہ دیا تو وہ چپ ہوئیں ۔۔۔وہ کب سے اس کے سرہانے بیٹھا تھا اور اس کا ہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا جب اس کی آنکھ کھلنے کا انتظار کرتے کرتے تھک گیا
تو وہیں سر رکھ کر سو گیا ۔۔۔۔فاطمہ کو کچھ دیر بعد ہوش آیا تو احسن کو اپنے بازو پر سر رکھے سویا ہوا دیکھ کر تلملا کر رہ گئی اس نے اپنا بازو اس کے سر سے آزاد کرایا اور ایسا کرتے ہوئے ایک کراہ اس کے منہ سے نکلی تھی کیونکہ سر میں شدید درد اٹھا تھا احسن کی فورا آنکھ کھلی تھی
“فاطی کیا کر رہی ہو آرام سے یار درد ہو گا ۔۔۔مت اٹھو پلیز ” احسن نے اسے روکنے کی کوشش کی جب اس نے احسن کا ہاتھ جھٹک دیا
“ہاتھ مت لگائیں مجھے ”
“کیوں نہ لگاؤں ۔۔۔مجھے ہی تو سارے حق دیے ہیں اور مجھے ہی منع کر رہی ہو ”
میں نے کوئی حق نہیں دیا آپ نے زبردستی لیا ہے ” فاطمہ نے اس کی طرف سے منہ موڑا تھا جو کم از کم احسن سے تو برداشت نہیں ہوا تھا وہ وہاں سے اٹھ کر اس کے سامنے آیا تھا ۔۔۔اور اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا تھا۔
محمد عارف کشمیری۔۔۔ ایک تعارف
خطہ کشمیر میں بہت سے ایسی قابل قدر شخصیات ہیں جنھوں نے کم وقت میں اپنی محنت اور خداداد صلاحیت...