دائم نے دبے پائوں گھر میں قدم رکھا ۔۔ لائٹس آف ہونے بعد گھپ اندھیرا تھا ۔۔ شفق سے وہ کہہ چکا تھا کہ ایزی کو شام سے پہلے گھر پہنچادے ۔۔
چابی سائیڈ ٹیبل پر پھینک کر آگے بڑھا ۔۔۔ کمرے کا دروازہ کھولا تو علیزے اپنے بیڈ پر دبکی ہوئی تھی ۔۔
اسکے قدم واپسی کے لئے پلٹنے لگے تھے کہ وہ ایک دلخراش چیخ کے ساتھ اپنے بستر پر اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔
دائم کا دل اچل کر حلق میں آگیا ۔۔۔
جب نظر ایزی پر پڑی تو اسکے تاثرات غصے اور برہمی میں بدلنے لگے ۔۔۔
ایک خوفناک سا ماسک منہ پر جمائے اس نے دائم کو ڈرانے کی ناکام کوشش کی تھی ۔۔۔
آپ تو ڈرے ہی نہیں پاپا ، مزہ نہیں آیا !
وہ ناک سکوڑ کر بولی تو دائم کی بے اختیار ہنسی چھوٹی ۔۔۔
تمہیں یہ حرکتیں کون سکھا رہا ہے مجھے تعجب ہورہا ہے ایزی ۔۔۔
وہ اسے گود میں اٹھائے باہر لائونج میں آگیا ۔۔
علی نے کہا تھا اسکی مما بہت ڈرتی ہیں ۔۔۔
but it doesn't work on you papa .. I was stupid
اسکے چہرے پر مایوسی چھا گئی ۔۔
دائم نے نفی میں سر جھٹک کر اسے گود سے اتارا
مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ ہم مووی دیکھنے لگے ہیں پاپا؟؟؟
وہ خوش فہم ہوئی
ہرگز نہیں ، تم اپنا ہوم ورک کرو گی اور میں اپنا !
وہ کمرے سے اسکا بیگ لے آیا ۔۔۔
ساتھ ہی اپنا لیپ ٹاپ اور فائلیں لئے صوفے سے پشت ٹکا کر زمین پر بیٹھ گیا ۔۔۔
ایزی نے اپنا بیگ کھولا تو وہ بھی لیپ ٹاپ پر مصورف نظر آنے لگا ۔۔ تبھی اسے اپنے سیل فون پر ایک پیغام ملا ۔۔۔
وہ فورا متوجہ ہوا ۔۔۔
اور تیزی سے کچھ ٹائپ کرنے کے بعد جنرل بخشی کو بھیج دیا ۔۔۔
تم نے کھانا کھایا ؟؟؟ سرسری سا ایزی سے سوال کیا ۔۔
بہت سارا ،
اس نے آنکھیں اور بانہیں دونوں پھیلا کر بتایا ۔۔
وہ کیوں ؟؟
وہ زرا سا چونک کر پوچھنے لگا ۔۔۔
کیونکہ شفق نے بریانی بنائی تھی !
تم تو کہہ رہی تھی شفق بلکل بھی اچھا کھانا نہیں بناتی ؟؟ دائم نے اسے چھیڑا
ہم مزاق بھی تو کر سکتے ہیں یار ! آپ بھی نا سمجھتے نہیں ہیں
وہ ہاتھ جھلا کر بولی ۔۔
کیا پتا شفق ہرٹ ہوگئی ہو؟
وہ اسے تپانے کی خاطر بولا ۔۔
شفق ہرٹ نہیں ہوتی !
وہ مان سے بولی ۔۔
کیوں شفق انسان نہیں ہے !
وہ اسے مزید تپانے کی خاطر بولا ۔۔۔
نہیں ! شفق اینجل ہے !
جتا کر کہا گیا ۔۔
دائم ہلکا سا ہنس دیا ۔۔
پاپا ؟ میری انرجی بہت لو ہے ؟؟ میں تھوڑا سا ٹام اینڈ جری دیکھ لوں؟
وہ پینسل کاپی پر رکھ کر ناک بھوں چڑھا کر پوچھنے لگی ۔۔۔
بہانے مت بنائو ایزی ، آٹھ بج چکے ہیں تمہیں صبح اسکول بھی جانا ہے ہوم ورک کرو اور سو جائو بیٹا ، مووی پھر کسی دن !
وہ مصروف انداز میں بولا ۔۔۔
پاپا بس اتنیییی سی !
وہ انگوٹھے اور انگلی کے درمیان دائرہ بنا کر بولتی استفسار کرنے لگی ۔۔۔
دائم نے رک کر اسے دیکھا تو ایزی ناک سکوڑنے لگی ۔۔۔
ٹھیک ہے
اسے چار و نہ چار ماننا ہی پڑا ۔۔۔
وہ تیزی سے نیچے اتری نتیجا اسکا پیر دائم کے ڈاکمنٹس پر پڑا اور پھسل کر گر پڑی ۔۔۔
دائم تیزی سے اسکی جانب لپکا ۔۔۔
بجائے چوٹ کے احساس کے وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔۔
پاپا آپ ڈر گئے !
دائم نے نفی میں سر جھٹک کر برہمی کا اظہار کیا ۔۔۔
اور انولپ سے بکھری تصویریں سمیٹنے لگا ۔۔۔
یہ تو آئسکریم والے انکل ہیں ؟ یہ آپ کے دوست ہیں نا ! ایک تصویر پر نظر پڑتے ہی وہ چونکی ۔۔۔
یہ وہی انکل تھا جو اسے پارک میں آئسکریم دے گیا تھا ۔۔۔
نہیں تو !
دائم نے تیزی سے ہاتھوں کو حرکت دی ۔۔۔
پر انہوں نے کہا تھا آپ کے دوست ہیں !
اسکی بات پر دائم کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔۔۔
وہ ان مجرموں کے کرمنل ریکارڈ چیک کرنے کے ساتھ ساتھ انکے متعلق انفارمیشن اکٹھی کر رہا تھا ۔۔۔
ایزی کی بات سن کر کچھ لمحے شاک سے بول ہی نہیں پایا ۔۔
آپ نے کہا دیکھا اس انکل کو ؟؟؟
اسے اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی ۔۔۔
اُس دن ہم پارک گئے تھا نا؟ یہ انکل وہیں ملے تھے !
وہ معصومیت بھرے انداز میں بولی ۔۔۔
پھر ؟؟؟ وہ بے تابی سے پوچھنے لگا ۔۔۔
پھر انکل نے کہا کہ آپ ان کے دوست ہیں اسلئے میں آپ کو نہ بتائو انکا سرپرائز خراب ہوجائے گا !
دائم کا وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔۔
سرپرائز ؟؟؟؟ وہ اسے کیا سرپرائز دینے والے تھے ؟؟؟
دیکھو لڑکی ، میں آخری بار سمجھا رہا ہوں تم دوبارہ کسی اجنبی سے نہ بات کروگی نہ ہی کوئی چیز لے کر کھائو گی ! اسکے لہجے میں یک دم غصہ عود آیا ۔۔۔
وہ تو بس آئسکریم ۔۔۔
بھاڑ میں گئی آئسکریم !!!
وہ دھاڑا۔۔۔ احساس نہیں ہوا کب آواز بلند ہوگئی ۔۔
ایزی آنکھیں سرخ پڑنے لگی ۔۔۔
اسکا غصہ جھاگ بن کر بیٹھ گیا
دائم نے اسے سینے سے سمو لیا ۔۔۔اسے فورا اپنے رویے کا احساس ہوا تھا۔۔۔.
ایسے انکل اچھے نہیں ہوتے بیٹا ، وہ بچوں کے ہاتھ منہ باندھ کر انہیں سمندر میں پھینک آتے ہیں !
وہ نرمی سے سمجھانے لگا ۔۔۔ اس بار اسے ڈرانے میں کامیاب بھی رہا ۔۔
لیکن وہ آپ کے دوست تھے پاپا؟؟؟
ایزی نے احتجاج کیا ۔۔
تم نے کبھی اسے میرے ساتھ دیکھا ؟؟؟ نہیں نا !
پھر تم نے کیسے بھروسہ کرلیا !
وہ برہم ہونے لگا ۔۔۔
پر انکل ایسا کیوں کریں گے ؟؟؟
اسکی آنکھیں حیرت سے پھیلیں ۔۔
کیونکہ ان کو بچے پسند نہیں ہوتے ، اب تم بتائو تمہیں گرنا ہے سمندر میں ؟؟
اسکی بات پر ایزی کا سر زوروں سے دائیں بائیں ہلنے لگا ۔ ۔
آئندہ ایسی حرکت مت کرنا ! ورنہ میں تم سے ناراض ہوجائوں گا
اس نے ایک آخری تاکید کی۔۔۔
اسکے جاتے ہی وہ منصور کو کال ملانے لگا ۔۔۔جو اس نے علیزے کی حفاظت کے لئے تعینات کر رکھا تھا ۔۔۔
تمہیں ایک شخص کی تصویر بھیجی ہے ؟؟؟ دیکھ کر بتائو اسے تم نے کبھی میرے گھر کے آس پاس دیکھا ہے ؟؟؟
وہ پریشانی سے لائونج میں چکر کاٹنے لگا ۔۔۔
منصور نے اسکی بات کی تردید کردی ۔۔۔
اسے کچھ سکون ملا ....اگلے ہی پل اسکا سکون فنا ہوتا دکھائی دیا ۔۔جب منصور نے اسے بتایا کہ آج صبح کوئی اجنبی راہگیر شفق سے بات کرنے کی کوشش کررہا تھا ۔۔۔ اس نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا تھا سن کر ۔۔۔
تم سی سی ٹی وی فوٹیج سے تصویر نکال کر دو اس شخص کی ۔۔ میں دیکھتا ہوں کیا مسلہ ہے اسے !
وہ سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ فون کاٹ کر لائونج میں چکر کاٹنے لگا ۔۔۔
اگلے لمحے وہ اسٹڈی پہنچا اور ای میل کی گئی تصاویر دیکھنے لگا ۔۔۔
اس نے سرسری نگاہ ڈال کر تصویر ٹی وی ٹرالی کے نیچے رکھ دی ۔۔۔جس پر ایزی کی باآسانی نظر پڑ سکے ۔۔۔
اور اٹھ کر اپنی جگہ پر آگیا ۔۔۔ پندرہ منٹ گزرنے کے بعد اس نے ایزی پر نظر ڈالی تو وہ اونگھ رہی تھی ۔۔۔
ایزی؟؟؟ چلو بیٹا ٹی وی آف کرو اور سو جائو ۔۔ صبح اسکول بھی جانا ہے !
وہ کہہ کر بظاہر تو مصروف تھا مگر اسکا سارا دھیان اسی طرف تھا ۔۔
یہ تو وہی صبح والے انکل ہے نا؟؟
وہ ٹی وی آف کرنے کے بعد تصویر لئے اسکے سامنے آ کھڑی ہوئی ۔۔
مجھے کیا پتا تم بتائو؟؟؟
اس نے بے نیازی سے کندھے اچکائے ۔۔
جب ہم شفق کے گھر جارہے تھے یہ انکل *** اسٹریٹ پوچھ رہے تھے ۔۔ !!!
شفق نے کیا کہا ؟؟ وہ بغور سننے لگا ۔۔۔
شفق نے کہا اُسے نہیں معلوم !
ایزی نے باقاعدہ کندھے اچکا کر کہا ۔۔
اسکے بعد ؟؟؟
وہ مزید جاننا چاہتا تھا آخر اس شخص کا پارک والے شخص سے کوئی تعلق تھا یا نہیں ۔۔۔
پھر انکل نے کہا میں بہت پیاری ہوں !
دائم نے ضبط سے مٹھیاں بھینچیں ۔۔۔
پھر ؟؟؟ اس نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا ۔۔
شفق نے ۔۔۔ جلدی سے مجھے گاڑی میں بٹھایا پھر ہم چلے گئے !
اگلا انکشاف گویا اسکے جلتے سینے پر پھوار سی برسا گیا ۔۔۔اسے شفق اس وقت کوئی فرشتہ معلوم ہوئی تھی ۔۔ اسکے دل میں قدر اور احترام اور بڑھ گیا ۔۔۔
وہ اسے کبھی غیر ضروری کال یا میسیج نہیں کیا کرتا تھا ۔۔۔مگر آج اپنی عادت کے برخلاف وہ اسے کال ملانے لگا ۔۔۔
دائم ؟؟ تم اس وقت ؟ وہ باقاعدہ حیران ہوئی تھی ۔۔۔
میں نے تمہارا شکریہ ادا کرنے کے لئے کال کی تھی شفق ! اس نے اپنائیت اور محبت سے کہا ۔۔
ہففف شکر ہے ،ایک تو تمہاری کال اوپر سے اس وقت میں تو پریشان ہوگئی تھی۔۔۔ اور شکریہ کا دورہ کہاں سے پڑ گیا تمہیں ، کہیں کچھ غلط تو نہیں کھا لیا تم نے !
دائم نے بے ساختہ فون کان سے ہٹا کر دیکھا
کیا تھی لڑکی ۔۔۔ ؟
شفق کی بات اسے تنز کی طرح لگی تھی ۔۔
وہ شرمندہ سا ہونے لگا ۔۔
پھر بھی تمہارا شکریہ ، تم نے ایزی کو سنبھالا !
اس بات سے بے خبر کہ دائم کن لمحوں کا سامنے کرنے بعد اسے کال کرنے پر مجبور ہوا تھا ۔۔۔
شفق نے اسے شرارت سے ڈپٹ کر فون بند کردیا ۔۔۔
دائم نے سکون کی سانس لی اور ڈاکومنٹس سمیٹ کر ایک طرف کیئے ۔۔۔ نو بجے انہیں قاسم کو لینے جانا تھا ۔۔
ایزی کے کمرے کی لاِئٹس آف کیں ۔۔۔اور باہر نکل آیا ۔۔۔
وہ سو رہی تھی ۔۔
دروازہ لاک کرکے باہر نکلا تو سامنے والے مکان کی کھڑکی سے منصور کی صورت نظر آئی ۔۔
اس نے ہاتھ ماتھے پر لے جا کر دائم کو سلیوٹ جھاڑا اس نے جوابا سر خم دیا اور آگے بڑھ گیا ۔۔
_______________________________________
وہ کیفے سے نکلی تو اسے لگا کوئی اسکا پیچھا کررہا ہو جیسے ۔۔۔ ایک دو بار ایسا محسوس ہوا پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی ۔۔۔ رات کے تقریبا دس بج رہے تھے ۔۔ کیفے میں بھاگ دوڑ کے بعد اسکی ٹانگیں شل ہوچکی تھی ۔۔ گاڑی ریپرنگ کے لئے چھوڑ آئی تھی ۔۔۔ باقی جو پیسے بچے تھے وہ اس نے کچھ امی کی دوائوں اور کچھ بینک میں جما کروادیئے تھے ۔۔۔ یہ چھوٹا سا کیفے وہ دائم کی توسط کھول پائی تھی۔۔ اس نے رقم دائم سے قرض کے طور پر لی تھی ۔۔ بے شک دائم نے اتنے سالوں میں کبھی ذکر نہیں کیا تھا اور اسے بھی زکر کرنے سے سختی سے منع کر رکھا تھا مگر اسکی خودداری اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی ۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ رقم جمع کر رہی تھی اسے یقین تھا کہ وہ ایک دن دائم کا قرض لوٹا دے گی ۔۔۔
اپنے خرچے اس نے بہت کم کر لئے تھے ۔۔ سال میں شاید ہی کسی موقع پر اپنے لئے کپڑے خریدے ہوں ۔۔۔ وہی پرانے کپڑے اس نے پورے سال چلائے تھے جن میں کچھ خستہ حال مگر پہننے کے لائق تھے ۔۔۔ ویسے بھی نئے کپڑے پہن کر اس نے کہاں جانا تھا ۔۔۔ وہ دن رات بہت محنت کرتی تھی ۔۔۔ اس لئے بہت سوچ سمجھ کر خرچ کرتی تھی
بیگ تقریبا صوفے پر پھینک کر اس نے کچن سے پانی کا گلاس حلق میں انڈیلا اور امی کے کمرے میں جھانکا ۔۔۔
وہ سو رہی تھی ۔۔شفق دوپہر کا کھانا بنا کر جاتی تھی ۔۔۔اور رات کا آکر بناتی تھی کبھی کبھار وہ باہر سے ہی کھانا کے آتی تھی ۔۔۔ اور کبھی کبھی امی دوپہر کا بچا کھانا گرم کرکے کھا لیا کرتی تھی انہیں وقت پر دوا بھی کھانی ہوتی تھی ۔۔۔وہ شوگر اور ہائی بلیڈ پریشر کی مریضہ تھیں ۔۔۔ اور آج تو اسکے پاس پیسے ہی نہیں بچے تھے
اس نے فریج کھنگالا ۔۔۔ بریڈ اور جیم کے علاوہ کچھ نہیں تھا ۔۔۔اس وقت بھوک مٹانے کو اسے یہ بھی غنمیت لگے ۔۔۔ اپنے لئے کافی کا کپ بنا کر وہ کمرے میں آگئی ۔۔۔ شرٹ کے اوپر پہنا ٹاپ اتار کر ایک طرف رکھا اور آرٹ گیلری کا جائزہ لینے لگی ۔۔۔ جہاں اسکی دائم ، علیزے کی تصویریں چسپاں تھیں ۔۔۔ وہ ان پر انگلیاں پھیرتی مسکراتی چلی گئی ۔۔۔ تبھی اسے غیر معمولی سا احساس ہوا ۔۔۔
وہ چونک کر پلٹی ۔۔۔
اسے لگا کوئی واشروم سے نکل کر بالکونی کی جانب گیا ۔۔۔ وہ تیزی سے آگے بڑھی ۔۔۔واشروم کا جائزہ لیا تو چِیزیں جوں کی توں تھی ۔۔۔اور بالکونی کا دروازہ کھلا تھا ۔۔۔۔
تیز ہوا سے پردے لہرا رہے تھے ۔۔وہ خوفزدہ سی ہوکر آگے بڑھی اور جلدی سے بالکونی کا دروازہ بند کردیا ۔۔
شاید اس نے ہی کھلا چھوڑ دیا تھا ۔۔ وہ سر جھٹک کر کافی کا گھونٹ گھونٹ حلق میں انڈیلنے لگی ۔۔۔ خالی کپ ٹیبل پر واپس رکھ کر وہ کبڈ سے کپڑوں کا جوڑا نکالتی واشروم میں گھس گئی ۔۔۔ بالکونی کی بیرونی دیوار سے لگے وجود نے رینگتے ہوئے نیچے اترنا شروع کیا ۔۔۔
____________________________________
نایا قاسم کو ہینڈ اوور کرنے کے بعد گھر پہنچی تو بابا ہمیشہ کی طرح سوئی جاگی کیفیت میں تھے ۔۔۔
کمفرٹر آدھا ان کے وجود پر تھا آدھا زمین پر بکھرا ہوا تھا ۔۔۔ دوائوں کی شیشی بھی جوں کی توں پڑی تھی ۔۔۔ کھانا پڑا پڑا ٹھنڈا ہوچکا تھا ۔۔۔
وہ دبے قدموں چلتے ہوئے ان کے قریب آ بیٹھی ۔۔۔ اس کی آنکھیں نہ چاہتے ہوئے بھی سرخ پر گئی ۔۔۔وہ خود کو جتنا بھی مضبوط ظاہر کرتی یہاں آکر بری طرح سے بکھر جاتی تھی ۔۔۔ اسکا باپ دو سال سے اسی کیفیت میں تھا ۔۔۔ ایک مشن کے دوران وہ ہندوستان میں گرفتار کر لئے گئے ۔۔۔ فرار ہونے کی کوششوں میں ناکام رہے ۔۔ اور پھر سے پکڑے گئے اس دوران ان پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ وہ اپنا توازن ہی کھو بیٹھے ۔۔۔ بارہ سال انہوں نے ہندوستان کی جیلوں میں قید اور تشدد کاٹی ۔۔۔ یہاں اسکی ماں اور نایا نے کی نظریں انتظار میں دروازے پر ٹکیں تھی کہ وہ کب آئیں گے ۔۔ مگر انہوں نے نہ آنا تھا۔۔۔ سال و سال وہ نہیں آئے !
اس نے بہت بار کوشش کی مگر جنرل نے نوید صاحب سے متعلق کوئی انفارمیشن شیئر نہیں کی ۔۔۔ اور بھلا وہ کیوں حساس انفارمیشن نایا کے ساتھ شیئر کرتے ۔۔۔ وطن کے ایسے کئی گمنام رکھوالے جو گئے اور کبھی لوٹ کر نہ آئے ۔۔۔ نایا نے اس دن کے بعد سے تہیہ کرلیا تھا کہ وہ ان کو ایک نہ ایک دن ضرور ڈھونڈ نکالے گی ۔۔چاہے کچھ بھی ہو ۔۔ پاس آئوٹ ہونے کے بعد اس نے فورسز جوائن کرلیں ۔۔۔اس دوران انہیں خبر ملی کہ ہندوستان نے گرفتار ایجنٹ (جو نہ معلوم کر سکے کہ اُنکا تعلق کس ایجنسی سے ہے) روس کو بیچ دیا ہے ۔۔۔ان پر یہ خبر قیامت بن کر ٹوٹی تھی ۔۔۔ اسکی ماں جو رو رو کر دن رات دعائیں کرتی تھی ۔۔۔ اس نے صدمے سے موت کو گلے لگا لیا ۔۔۔ اور نایا اکیلی رہ گئی ۔۔۔ وہ ان دنوں ٹریننگ کے مراحل سے گزر رہی تھی ۔۔ وہ بری طرح سے ٹوٹی تھی ستم تو یہ تھا اسے کسی اپنے کا کندھا بھی میسر نہ تھا ۔۔۔ جیسے تیسے رشتے داروں نے دنیاداری کی خاطر اسکی ماں کو زیر زمین دفن کیا ۔۔۔اس نے اپنا گھر چھوڑ دیا اور مستقل ہاسٹل میں شفٹ ہوگئی ۔۔ پھر تو جیسے اس پر پیچھے مڑ کر دیکھنا حرام ہوگیا تھا ۔۔۔ اس نے خود کو مضبوط کرلیا تھا ۔۔۔اتنا کہ کبھی دل بھرا جاتا تو وہ اپنے پرانے گھر جا کر ماں باپ کی چیزوں کر گلے لگا کر خوب رونا پیٹتی اور چوکھٹ عبور کرتے وقت اسکے چہرے پر دکھ کا شائبہ تک نہ ہوتا ۔۔۔ پانچ سال اسی طرح گزر گئے ۔۔ اس نے کم وقت میں نمایاں جگہ حاصل کرلی تھی ۔۔۔ وہ اپنے باپ کی طرح بہادر اور قابل تھی ۔۔۔ یہ انہی دنوں کی بات تھی ۔۔۔اسکا آئی ایس آئی کے ساتھ دوسرا مشن تھا ۔۔۔ وہ روس مشن کے متعلقہ کام سے ہی گئے تھے ۔۔۔ اور نایا جیل میں طبعی امداد کے عملے کی حیثیت سے سرگرمیاں انجام دے رہے تھی جب اسکی نظر دیواروں کو ناخنوں سے کھرچتے بوڑھے ضحیف شخص پر پڑی ۔۔۔ بکھرے اجڑے بالوں اور گندے کپڑوں میں ملبوس شخص وہ اسکا باپ تھا ۔۔۔ وہ جو آخری مشن پر بھرپور وجیہہ خوبصورت انسان اسکی نظروں نے دیکھا تھا وہ کہیں نہیں تھا ۔۔ ۔۔ وہ اس وقت دسویں جماعت میں تھی ۔۔۔ اسکے باپ نے پندرہ سال قید کاٹی تھی ۔۔۔ جب ہندوستان نے ناکامی کے بعد قیدی روس کو بیچے تو اسکا باپ کی زہنی حالت اتنی خراب نہ تھی ۔۔۔ لیکن روس میں نئے نئے ٹارچر کی تکنیکوں سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے ۔۔۔ پندرہ سال مسلسل ٹارچر سہنا کوئی عام بات نہیں تھی ۔۔۔ نایا کی تو دنیا ہی اجڑ چکی تھی باپ کو اس حال میں دیکھ کر ۔۔۔
وہ مشن کے دوران ہی حواس کھو بیٹھی تھی ۔۔۔ کئی دن ہاسپٹل میں گزارے مگر اس نے ہار نہیں مانی وہ مشن ختم کرکے لوٹی تو اس نے جنرل بخشی کو ساری رام کہانی سنائی ۔۔۔ انہوں نے اسے منع کردیا تھا ۔۔۔ اور پھر وہ اس فیلڈ میں نئی تھی ۔۔۔ انکے فیصلے پر سوال اٹھانے کی جسارت نہیں کر سکتی تھی ۔۔ مگر اندر ہی اندر وہ رشین آرمی اور ان کے پلینز دریافت کرنے لگی۔۔ دو سال لگے تھے ۔۔اور وہ دو سال اس نے قیامت کا سا انتظار کیا تھا ۔۔۔ اس نے ساری انفارمیشن جنرل بخشی کے سامنے دھری ۔۔۔
وہ تو ہکا بکا رہ گئے ۔۔۔اسکی حرکت پر ۔۔۔برہم بھی ہوئے ڈپٹا بھی ، دھمکی بھی دی ۔۔۔آفس سے جانے کو بھی کہا ۔۔۔ مگر وہ منتوں پر اتر آئی اور آخر کار رودی ۔۔۔
جنرل بخشی اموشنل ہونے والے انسان ہرگز نہ تھے ۔۔۔انہیں بھی احساس تھا اسکے باپ کی جدائی کا
وہ بھلا کب اپنے کسی جوان سے غافل ہوئے تھے ۔۔ اسکی لگن اور امیدوں کو دیکھتے ہوئے انہوں نے حامی بھری ۔۔۔ اور اسے اکیلی کو ہی اس مشن پر جانے کی اجازت دی تھی ۔۔۔اسکے اندر غصہ اور غبار بھرا پڑا تھا ۔۔۔ دل چاہ رہا تھا ۔۔۔روس کو صفا ہستی سے مٹا دے ۔۔۔ اسی جنون کے چلتے اس نے کئی بے گناہ قیدی جو سالوں مختلف ممالک سے اکٹھے کیئے گئے تھے ۔۔۔جنکی حالت اسکے باپ سے مختلف نہ تھی ۔۔۔اس نے ان سب کو آزاد کردیا ۔۔۔ آخرکار وہ اپنے باپ کو چھڑا لائی ۔۔۔ اس کے اس فعل پر جنرل بخشی بہت ناراض ہوئے ۔۔۔اس پر تفتیش بھی کی گئی ۔۔۔ مگر پتا چلنے پر (کہ وہ لوگ بے گناہ تھے ) اسکی اس حرکت کو نظر انداز کر دیا گیا ۔۔ نوید صاحب کی حالت درگوں تھی ۔۔۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا انکا علاج ممکن نہیں ۔۔۔ وہ کن کن چوٹوں کا علاج کرتے ، ظاہری اندرونی ، بیرونی ،دماغی ، دلی ۔۔۔
وہ ناامید تھے کہ زیادہ دن نہ جیئے گا ۔۔۔ نایا اسے گھر لے آئی ۔۔۔وہ سوتے تو سوتے ہی رہتے ، اٹھتے تو کئی کئی دن نیند تک نہ آتی ، چیزیں بھول جاتے ، کبھی کبھی تو نایا کو پہچاننے سے بھی انکار کردیتے ,اسکے لئے اتنا کافی تھا کہ اسکا باپ اسکے ساتھ تھا ۔۔۔اور آج ۔۔۔
اس بات کو دو سال ہوچکے تھے ۔۔۔ یہ معجزہ تھا وہ دو سال جی گئے اسکی دعا تھی کہ وہ ہزاروں سال اور جیتے ۔۔۔
بابا !!!! اس نے آنسو سے تر چہرہ پونچھا ۔۔۔مگر آواز کی سسکیاں نہ دبا سکی ۔۔۔
ہمممم ؟؟؟ انہوں نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا ۔۔
کوئی مسلہ ہوگیا کیا؟؟؟ اسکے آنسوئوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وہ سوالیہ گویا ہوئے ۔۔۔
کبھی کبھی تو نایا کا دل کرتا انہیں جھنجھنوڑ ڈالے ۔۔۔ چیخ چیخ کر باور کروائے کہ وہ انکی بیٹی ہے ، جسکے لئے انکی آنکھوں میں زرا سی بھی انسیت یا اپنائیت نہیں تھی ۔۔۔ انہیں واقعی یاد نہیں کہ وہ بیٹی اور بیوی کو پیچھے چھوڑ گئے تھے ۔۔۔ نایا انکا لمس پانے کو ترس گئی تھی ۔۔۔ اسکا دل چاہتا وہ محبت سے اسکی پیشانی پر بوسہ دیں ، اسکی دن بھر کی رواداد سنیں ، اس سے باتیں کریں ، اسکی کامیابیوں کو سراہیں ۔۔۔ مگر یہ سب ممکن ہی نہ رہا ۔۔۔
آپ کیوں میرا دل دکھاتے ہیں ؟؟؟ مان لیا کریں بات کم از کم آپکی بھلائی کی بات تو کرتی ہوں میں !
اس نے دوائوں کی شیشی دیکھی ۔۔۔کبھی کبھی تو وہ بہت تلخ ہوجاتی ان کے ساتھ ۔۔۔ انہوں نے پھر دوائی نہیں کھائی تھی ۔۔۔
کریم (کیئر ٹیکر)کئی دنوں سے گائوں گیا ہوا تھا ۔۔ اب اسے غصہ آنے لگا تھا ۔۔۔ وہ انہیں وہیں چھوڑ کر کریم کو کال کرنے لگی ۔۔۔
مجھے بھوک لگی ہے ، لیکن یہ باسی کھانا میرے بس کی بات نہیں ، تم مجھے اچھا اور صاف کھانا دو !
وہ زچ ہونے لگے۔۔۔
نایا نے مڑ کر دیکھا ۔۔۔ وہ ہاتھ جھلا کر کہتے اٹھ بیٹھے ۔۔۔ اس نے فون کان سے ہٹا کر کھانے کا برتن ناک کے قریب کیا تو کھانا تازہ تھا ۔۔۔ اسے بابا کی باتوں پر زیادہ حیرانی نہیں ہوئی تھی ۔۔۔وہ آج بھی خود کو کال کوٹھری کا قیدی اور اسے جیلر تصور کررہے تھے ۔۔ انکی کنڈیشن اکثر ایسی ہوجاتی جب وہ دوائی میں ناغہ کرتے ۔۔۔
نہیں ۔۔۔بابا ۔۔۔رکیں ۔۔۔ اسکے نہ نہ کرتے ہی وہ کھانا اٹھا کر سنگ میں بہا آئے ۔۔۔
بہت ہی برا کھانا تھا ! پتا نہیں سب لوگ کیسے کھا لیتے ہیں
وہ برہمی کا اظہار کرتے سلب پر پلیٹ پٹخ کر آگے بڑھ گئے ۔۔۔ نایا نفی میں سر جھٹکتی انکا منہ دیکھ کر رہ گئی ۔۔۔ کریم کو کال کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے اس نے ڈاکٹر علی کو کال کرنے کا سوچا ۔۔۔
ویسے بھی وہ کل فری تھی ۔۔۔بابا کو کیلنک لے جائے گی انکی کنڈیشن بہتر ہونے کے بجائے ڈائون ہوتی جارہی تھی ۔۔۔ وہ سوچتی ہوئی فریج میں جھانکنے لگی
____________________________________
نوال کے رشتے کے حصول کے لئے آنے والے شاہین صاحب کے دوست کی فیملی کو نوال بہت پسند آئی تھی ۔۔۔ وہ پہلی فرست میں انہیں اپنے گھر آنے کی دعوت دے گئے تھے ۔۔۔ نوال کے فائنلز قریب تھے ۔۔ وہ شادی کے خیالوں کو زہن سے جھٹک کر ایگزام کی تیاری کرنا چاہتی تھی ۔۔۔ مگر اسکا دھیان بھٹک بھٹک کر فاتح کی جانب چلا جاتا ۔۔
اس یک طرفہ محبت کی آگ میں وہ اکیلی جل رہی تھی ۔۔۔ فاتح کو تو شاید اسکا خیال بھی گراں گزرتا ہوگا ۔۔۔کتنا سنگدل تھا وہ ۔۔۔
کیا سوچ رہی ہو لڑکی ؟؟؟
وہ اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھی ازلی انداز میں پیر جھلاتی خیالوں میں غرق تھی کہ یوسف کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔
یوسف بھائی آپ؟؟؟ اتنے دن بعد کیوں آرہے ہیں؟
اس نے فورا سے کندھے پر دھرا دوپٹہ سینے پر پھیلایا ۔۔
اور اسکے لئے جگہ چھوڑ کر دور سرکی۔۔۔
میں تو آفس کے کاموں میں مصروف تھا خیر تم میری چھوڑو ۔۔تم ہمیشہ مجھے الجھی الجھی اور پریشان کیوں دکھائی دیتی ہو ؟؟؟ کیا مسلہ ہے
انتہائی اپنائیت سے پوچھا گیا ۔۔ نوال کی آنکھیں چھلکنے کو بے تاب تھیں ۔۔۔
ارے ۔۔۔؟؟؟ بتائو تو سہی ؟؟؟
یوسف کو اپنی بھولی بھالی معصوم سی کزن پر بے جا پیار آیا ۔۔۔ اس نے بازو کا حصار بنا کر اسے اپنے ساتھ لگایا ۔۔
مجھے شادی نہیں کرنی یوسف بھائی !!
آخر کو وہ رو پڑی ۔۔
بس اتنی سی بات؟؟؟
یوسف کو حیرانی اور تشویش ساتھ ساتھ ہوئی ۔۔۔
آپ کے لئے یہ اتنی سی بات ہے ؟؟؟
اسکے آنسوئوں میں روانی آگئی ۔۔ یوسف بوکھلا گیا ۔۔۔
اچھا رونا تو بند کرو یار ، ایک تو تم روتی بہت ہو ، تھکتی نہیں ہو رو رو کر !
نوال نے ہتھیلی کی پشت سے ناک رگڑی ۔۔۔
ویسے ٹھیک ہی ہو رہا ہے ، جلدی سے تمہیں اور تاشفین کو نپٹا دیں گھر والے ، پھر ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں ! یوسف نے اسے چھیڑا ۔۔۔
نوال کی رنگت مزید سرخ ہوئی ۔۔
بڑی جلدی ہے ہم سے جان چھڑانے کی ، ایک بات بتا دوں ، اگر بہنوں کے معاملے میں زیادتی کریں گے تو لڑاکا بیوی ملے گی ! دیکھنا !
تاشا میدان میں اتری ۔۔۔
تمہارے منہ میں خاک،
یوسف بد مزہ ہوکر بولا ۔۔ اور تاشا کے ہاتھ سے چائے کا کپ تھام لیا ۔۔
کیا باتیں ہورہی تھیں ؟ زرا میں بھی تو جانوں ؟
تاشا نے دریافت کیا ۔۔
کچھ نہیں نوال کہہ رہی تھی کہ تاشا کو تو رخصت نہیں کیا پہلے میرے پیچھے پڑے ہیں سب !
یوسف نے چنگاڑی چھوڑی ۔۔۔
جبکے نوال نے برہمی سے یوسف کو دیکھا ۔۔ جو انہیں لڑوانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے ۔۔۔
کیوں بی بی ؟؟؟ رشتہ تمہارے لئے آیا ہے ، میں بلاوجہ ہی گونگھٹ اوڑھ لوں !
تاشا نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔۔
یوسف بھائی جھوٹ بول رہے ہیں !
نوال نے چارگی سے کہا ۔۔
یوسف کپ لبوں سے لگاتا محفوظ ہوا تھا۔۔۔
سدھر جائیں آپ یوسف بھائی ،
تاشا نے اسے گھورا ۔۔
میں تو بس چیک کر رہا تھا تم لوگوں کی بیچ کتنا اتفاق ہے !
وہ مزید شرارت پر آمادہ تھا ۔۔
اچھااااا !
اسکا اچھا کافی تنزیہ تھا ۔۔۔
اتفاق تو ایسا ہے جیسا چین اور پاکستان کے درمیان بھی نہیں دیکھا ہوگا آپ نے!
تاشا کی مثال پر وہ ہلکا سا ہنسا ۔۔۔
تم یہاں ہو یوسف ، تمہیں بھائی اندر بلا رہے ہیں !
نصیبہ پھپھو نے صحن میں کھڑے ہوکر اسے آواز دی ۔۔۔ تو وہ سر ہلاتا اٹھ گیا ۔۔
کیا سوچ رہی ہو ؟؟؟
تاشا نے اسے بے توجہی سے کپ کر گرد انگلی گھماتے دیکھ کر پوچھا ۔۔۔
فلحال تو کچھ بھی نہیں سوچنا چاہتی ,ایگزام پر فوکس کرنا چاہتی ہوں !
اسکے لہجے میں عاجزی و انکساری در آئی ۔۔
سب بہتر ہوگا !
تاشا نے اپنائیت اور تسلی بھرے انداز میں اسکا ہاتھ پر دبائو بڑھایا ۔۔۔ نوال جوابا مسکرا کر خالی کپ لئے ٹری ہاِئوس کی سیڑھیاں اتر گئی ۔۔۔
اے لڑکی ؟ بات سنو ؟؟؟ یہ خالی کپ مجھے پکڑا دو ، اور یہ کافی فاتح کے کمرے میں دے آئو ،میری ہنڈیا چولہے پر ہے ! وہ عجلت میں اسکے ہاتھ میں کپ دے واپس مڑ گئی ۔۔۔ نوال شش و پنج میں مبتلا تھی جائے یا نہ جائے ۔۔ پھر سر جھٹک کر چل پڑی ۔۔ کھا تو نہیں جائے گا نا ؟
وہ بہت سی ہمت جٹا کر آگے بڑھی ۔۔۔ اور دروازے پر دستک دی ۔۔
کم اِن !
کی آواز پر اسکی دھڑکنیں درہم برہم ہونے لگیں ۔۔۔
اس نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا ۔۔ اسکے کلون کی مہک نوال کے وجود سے ٹکرائی ۔۔۔
وہ میں ۔۔۔کافی لائی تھی ۔۔
فاتح فون پر کسی سے محو گفتگو تھا ۔۔۔ اسکی آواز پر ہاتھ اٹھا کر اسے ٹوکا ۔۔۔ وہ مضطرب سی کافی کا کپ ہاتھ میں لئے کھڑی تھی ۔۔۔ مگر وہ کھڑی کیوں تھی؟؟
اس نے جلدی سے کپ رکھ کر بھاگ جانا چاہا ۔۔۔
رکو !!! مگر فاتح کی آواز نے اسکے قدموں میں زنجیر ڈالی ۔۔۔
ن۔نہیں ۔۔مجھے ایک کام یاد آگیا ہے !
اس کھسکنے میں ہی عافیت جانی
لیکن فاتح نے اسکی کلائی جکڑ لی ۔۔۔ نوال کا دل اچھل کر حلق میں آگیا ۔۔۔
وہ گھبرا کر اپنا بازو چھڑانے لگی ۔۔۔ اس پل کو کوسنے لگی جب اس نے یہاں آنے کا فیصلہ کیا ۔۔
وہ پہلے تو ایسا کبھی نہیں کرتا تھا ۔۔۔ پہلے تو اس پر نگاہ ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا ۔۔۔ اور اب!
ٹھیک ہے ، رات کو ملتے ہیں پھر !
وہ الوداعی کلمات کہتا فون جیب میں ڈال کر اسکی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔ سادہ سرخ کرتی اور پاجامے میں دوپٹہ سینے پر دوپٹہ پھیلائے وہ سیدھا اسکے دل میں اتر رہی تھی۔۔۔
فاتح نے بغور اس کا جائزہ لیا
آج کتنے ہی دنوں بعد اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ !!
اس نے زرا سا جھٹکا دیا تو وہ ٹوٹی ہوئی ڈال کی طرح اسکے سینے سے آ لگی ۔۔۔ اسکی اتنی سی قربت پا کر نوال کے حواس کھونے لگے تھے ۔۔۔
بہت باتیں آرہی تھی اس دن تمہیں ! جواب دو اب ؟ تمہیں بتاتا ہوں میں کس لائق ہوں اور کیا کیا کر سکتا ہوں
فاتح کے نقوش تنے ۔۔۔ کلائی کے گرد گرفت تنگ کردی ۔۔۔
م۔ میرا ہاتھ ۔۔۔!!! اسکی آواز بھرا گئی ۔۔
اب کیا تمام عمر یہ شخص اسکے مزاق میں کہے گئے جملوں کی سزا دے گا اسے ؟
کیا ہوا نوال بی بی؟؟؟ کوئی جواب کیوں نہیں تمہارے پاس !!
وہ کلس کر پوچھنے لگا ۔۔۔
پ ۔۔لیززز ، میرا ہاتھ چھوڑ دو فاتح..
اسکی آواز لڑکھڑائی ۔۔ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر رخساروں پر بہنے لگے ۔۔۔
ایک تو یہ جو تم آنسو بہانے لگ جاتی ہو نا بات بات پر
قسم سے دل کرتا ہے کہ ۔۔۔ دانت پیستے ہوئے بمشکل خود کو کچھ انتہائی کہنے سے روکا اور ... اسکی سرخ آنکھوں پر رحم کھا کر بے دردی سے دور دھکیلا دیا ۔۔۔
وہ ایک رنج بھری نگاہ ڈال کر کمرے سے بھاگتی ہوئی نکل گئی ۔۔۔
نوال سعید ۔۔۔ یووووو ! وہ غصے سے بل کھا کر رہ گیا
وہ کیوں اسکے آنسوئوں کے سامنے کمزور پڑ گیا تھا ۔۔۔
آج سے پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا
تمہارا بہت برا حال کروں گا میں نوال ..
اسکا مردانہ وقار اور انا بری طرح سے مجروع ہوئے تھے ۔۔۔ اور فاتح جیسے انا پرست انسان کو یہ بات قطعی قابل قبول نہیں تھی ۔۔۔
___________________________________
آج چوتھا ہفتہ تھا ۔۔ وہ مسلسل ھانی کی قید میں تھی ۔۔۔لیث کی کچھ خبر نہیں تھیں ملکی حالات دن بدن بدتر ہوتے جارہے تھے ۔۔۔ خون خرابا ، دنگے فساد ہر طرف قیامت کا سا سماں تھا ۔۔۔ اس نے بے دلی سے پردے گرادیئے ۔۔۔
یہ ھانی کا محل تھا ۔۔ ہزاروں کی تعداد میں نوکر چاکر صبح کے وقت سفائیاں کرتے دکھائی دیتے ۔۔ وہ کئی بار بھاگنے کا ترتیب دیتی پھر انجام سوچ کر اسکی روح کانپ اٹھتی تھی ۔۔۔ یہاں ان گنت تعداد میں لڑکیاں لائیں جاتی تھیں ۔۔ بقول ھانی کے وہ سب' اسکے بستر کی زینت تھیں '
جب وہ ان سے نپٹ لیتا تو انہیں آگے بیچ دیتا ۔۔۔
اگر کوئی بھاگنے کی کوشش کرتی بھی تو اسکا درد ناک انجام ہوتا ۔۔۔ جو سوچ کر اسکی روح فنا ہونے لگتی ۔۔
اسکے ساتھ نرمی شاید اسی لئے بھی برتی جارہی تھی کہ وہ سفیر کی بیٹی تھی ۔۔۔
یا پھر ھانی کو اس سے کوئی مطلب تھا ۔۔
کاش وہ اس دن آگ میں میں جھلس کر مر گئی ہوتی ، یا ہاسپٹل کے بستر پر دم توڑ دیتی ۔۔
اس نے تلخی سے سوچا!
باپ کی ازیت ناک موت ، بھائی کی گمشدگی ، اور پھر یہ قید اسکے اعصاب اتنا بوجھ نہیں سہہ سکتے تھے ۔۔۔ اور پھر اس نے یہ حالات دیکھے ہی کہاں تھے ، وہ تو باپ کی لاڈلی اور بھائی کی چہیتی تھی ۔۔۔ اسکے آنسوئوں میں روانی آ گئی ۔۔۔ آخری امید رامی سے تھی۔۔۔ وہ بھی واپس جا چکا تھا ۔۔۔شاید !
اس نے آہستگی سے تکیہ اٹھا کر دیکھا
گن جوں کی توں پڑی تھی ۔۔۔جو اس نے کئی دن پہلے کھانا دینے والے نقاب پوشوں سے چرائی تھی ۔۔۔ اسے تو معلوم بھی نہیں تھا یہ چلتی کیسے تھی؟ اس میں گولیاں ہیں بھی کہ نہیں؟
تکیہ برابر کرنے کے بعد وہ دوبارہ کھڑکی میں آ کھڑی ہوئی ۔۔ صفائی کا عملہ جا چکا تھا ۔۔۔ آج معمول سے کم رش تھا لائونج میں بھی کوئی نہیں تھا
یوں معلوم ہو رہا تھا وہ اس محل میں اکیلی رہ گئی ۔۔
اس نے موقع جان کر سیاہ دوپٹہ چہرے گرد لپیٹ کر ناک تک کھینچ لیا ۔۔۔ اور گن اٹھا لی ۔۔۔
کمرے کا دروازہ کھلا تھا ۔۔ یا کھلا ہی رہتا تھا ۔۔۔
اس نے نوٹس نہ لیا ۔۔ راہداریوں میں لگی ریلنگ سے وہ نیچے کا منظر با آسانی دیکھ سکتی تھی ۔۔۔ محتاط قدم اٹھاتی راہداریاں عبور کرنے کے بعد گرائونڈ فلور پر آ گئی ۔۔ ماربل کا بنا وسیع و کشادہ فرش یخ ٹھنڈا تھا ۔۔۔اسے احساس ہوا وہ ننگے پیر ہے ۔۔۔ قدموں کی چاپ سن کر وہ پلر کی اوٹ میں ہوگئی ۔۔۔ دائیں جانب کمرے سے دبی دبی سرگوشیوں کی آوازیں آ رہی تھی ۔۔ اس نے اطراف میں نظر ڈال کر دروازے سے پشت ٹکالی ۔۔۔ بہت غور کرنے بعد اسے معلوم پڑا۔۔ اندر کسی معاذ نامی شخص کے بارے میں بات چل رہی تھی۔۔۔ جو اسکے لئے بلکل اجنبی تھا ۔۔۔
اس نے آگے کی جانب کی پیش قدمی کرنی چاہی مگر گفتگو کا محور سن کر اسکے ہوش اڑ گئے ۔۔
لیث ؟؟؟؟
وہ لیث کی بات کر رہے تھے !!
اس نے حواس باختہ ہوکر دروازے کو تھاما ۔۔
جو کھلتا چلا گیا ۔۔ وہ بھول چکی تھی دروازہ نیم وا تھا ۔۔ شزانہ ساکت رہ گئی ۔۔ تین چار لوگوں کا مجموعہ ٹیبل پر کوئی نقشہ پھیلائے آپس میں محو گفتگو تھا ۔۔
جو اب اسکی جانب متوجہ تھے ۔۔
سینے میں نازک دل پھڑپھڑایا ۔۔ گن اسکے ہاتھ سے پھسل کر زمین پر گئی ۔۔۔
پکڑو اسے !
نہ جانے کس کی آواز تھی وہ ہوش میں آکر سر پٹ دوڑی ۔۔۔ مگر ان نقاب پوش پہرے داروں نے اسے جالیا ۔۔
اسے دبوچ کر ھانی کے سامنے پیش کیا گیا ۔۔
اسکی سماعتوں میں عورتوں الخراش چیخیں اور انکا 'امداد امداد' (مدد ) چلانا گونجنے لگا۔۔
اسکے ساتھ بھی یہی سلوک ہونے والا تھا ۔۔۔!
ھانی متحیر سا ہوکر آگے بڑھا ۔۔
گہری کالی آنکھوں میں خوف کی لکیریں نمایاں تھیں۔۔۔ لانبی سایہ فگن لرازاں پلکیں اسکے دل میں عجیب سا ارتعاش پیدا کر گئیں ۔۔ ھانی نے بے تابی سے آگے بڑھ کر نقاب اسکے لبوں سے نیچے سرکا ۔۔۔
وہ پہلے سے زیادہ حیران ہوا ۔۔
سفیر کی بیٹی؟
ھانی اپنے مخصوص مطمئن اور ٹھنڈے لہجے میں گویا ہوا ۔۔
شزانہ خوفزدہ سی ہوکر مزاحمت کرنے لگی ۔۔
نقاب پوش اسکی نازک کلائیوں پر انگلیاں دبوچے ہوئے تھے ۔۔۔
کیا سنا تم نے ؟؟؟
وہ یک دم سنجیدہ ہوکر آگے بڑھا ۔۔
اس نے لب جیسے مہر بند کر لئے تھے ۔۔۔ جب سے اسکی قید میں تھی اس نے زبانی کلامی تک نہ کیا تھا۔۔
ایسے نہیں بتائو گی تم ؟؟؟ اسے میرے کمرے میں چھوڑ آئو ، میں خود نپٹ لوں گا !
وہ دانت پیس کر حکم کرنے لگا ۔۔۔ ھانی کا انداز جتاتا ہوا تھا ۔۔۔
شزانہ کو لگا کہ بس اب تو وہ گئی ۔۔۔
آنکھیں خوف سے پھیلتی گئیں ۔۔ مگر وہاں پرواہ کسے تھے ۔۔۔
اسے کمرے میں پھینک کر دروازہ بند کردیا گیا ۔۔۔ شزانہ نے جینز کی جیبوں میں ہاتھ مارا تو ان ہیلر اسے کہیں نہیں ملا۔۔ ہموار سانسیں لیتی مقفل کھڑکیوں پر ہاتھ مارنے لگی ۔۔۔
بیکار کوششیں مت کرو خاتون ! کیا کیا سنا تم نے ؟؟؟ اگر بتادو تو ہی میں تمہیں تمہاری مطلوبہ چیز فراہم کر سکتا ہوں !
تبھی ھانی کمرے میں چلا آیا ۔۔۔ اور اپنی پیچھے دروازہ بند کردیا ۔۔اسکا انداز سفاک اور حتمی تھا۔۔ اس نے مٹھی میں چھپا انہیلر اسکے سامنے کیا ۔۔۔
وہ تڑپ کر سیدھی ہوئی ۔۔۔
وہ قدم قدم چلتا نزدیک تر ہوگیا ۔۔
اسکی بکھری بکھری سانسیں اور درگوروں حالت اسے سکون پہنچا رہی تھی ۔۔۔
وہ ازیت پسندی اور کمینگی سے مسکرایا ۔۔۔
اس نے مٹھی میں چھپا انہیلر اسکے سامنے کیا ۔۔۔ شزانہ بس ہوش کھونے کے قریب تھی ۔۔۔
بتائو ؟؟؟ ورنہ !
وہ معنی خیزی سے بولا ۔۔۔ دوپٹے سے بے نیاز ہوشربا کپکپاتا وجود اسکی توجہ اپنی جانب کھینچ رہا تھا ۔۔۔
ھانی نے اسکے کندھوں پر اپنے ہاتھ جمائے تو وہ تڑپ اٹھی ۔۔۔ فرار کی ساری راہیں مسدود ہوچکیں تھی۔۔۔
ل ۔۔۔ ییثث ۔۔۔
لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر اسکے لبوں سے ادا ہونے لگی ۔۔۔
اور ؟؟؟؟ اس نے بے قرار نگاہیں اسکے چہرے پر ٹکائے ابرو اچکایا ۔۔۔ ایک دو پل وہ کچھ نہ بولی تو ھانی نے بے خودی کے عالم میں اسکے چہرے پر جھولتی لٹھ کو چھوا ۔۔۔
شزانہ کی سانسیں مدھم ہونے لگیں ۔۔۔ غنودگی طاری ہونے لگی ۔۔۔ اسی اثنا میں دروازے پر دستک نے اسے زندگی بخش دی ۔۔۔ ھانی انہیلر انتہائی سفاکی سے اسکے سینے پر مارتا دروازے کی جانب پیش قدمی کرنے لگا ۔۔۔
شزانہ لمحہ ضایع کیئے بغیر جھکی اور کپکپاتے ہاتھوں سے انہیلر وا کرکے لبوں میں دبایا ۔۔۔
وہ یہاں نہیں رہے گی اب ، بھاگ جائے گی ۔۔۔ بس !
حتمی فیصلہ تھا ۔۔۔