شفق کیفے کے معمولات میں مصروف تھی ۔۔
تبھی اسکے فون پر میسیج بپ بجی۔۔۔ آرڈر ٹیبل پر صرف کرنے کے بعد ایپرن کی جیب میں ہاتھ ڈال کر فون نکلا تو کوئی وڈیو پیغام تھا ۔۔۔ وہ نظر انداز کردیتی اگر اسے اسی لمحے ایک میسیج نہ ملا ہوتا ۔۔۔
'ایک بار ضرور دیکھنا '
اس نے حیران سی ہوکر وڈیوں پلے کی ۔۔۔
مگر جو اس نے دیکھا اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا؟؟
اسکی آنکھیں خوفناک حد تک پھیل گئیں ۔۔۔ یہ اسکے کمرے کا واشروم تھا ۔۔ اور وہ شاور لینے کے ارادے سے واشروم آئی ۔۔۔ اور...
شفق کو لگا کہ کسی نے اسکے اوپر کھولتا پانی ڈال دیا تھا ۔۔۔
کون تھا ؟ کس نے کی ایسی گھٹیا حرکت اسکے ساتھ ؟؟؟
اعصاب جواب دینے لگے تو نڈھال سی ہوکر کرسی پر ڈھے گئی ۔۔۔ یقین کرنا مشکل ہوگیا تھا ۔۔۔ اسکا دل تیز رفتار سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔ پورا جسم پسینے میں نہا گیا ۔۔۔ وجود کپکپاہٹ کی زد میں تھا ۔۔۔ دماغ سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں کھو چکا تھا ۔۔۔ اسکے یقین کرنا مشکل ہورہا تھا ! آخر کیوں ؟ کون ؟
اسکے ساتھ ایسی حرکت کر رہا ہے ؟
________________________________
عمارا اگلے دن ہاسپٹل پہنچی تو ڈاکٹر علی ابھی تک نہیں آئے تھے ۔۔۔ اس نے روٹین کے معمولاتے نبھائے اور راہداری میں چکر کاٹنے لگی ۔۔۔ اسے طویل انتظار نہیں کرنا پڑا ۔۔۔ مقابل ڈاکٹر علی چلے آئے ہمیشہ کی طرح سوبر اور نفیس ۔۔۔ اسے دیکھ کر حیران بھی ہوئے ۔۔
آپ یہاں ???
جی آپ سے بات کرنی تھی اگر آپ مصروف نہیں ہیں تو کچھ وقرت مل سکتا ہے آپ کا؟؟؟
اسکی سانس ہلکی سی پھولی ہوئی تھی ۔۔
وہ اس وقت قدرے گھبرائی ہوئی لگی انہیں ۔۔۔
سب ٹھیک ہے نا ڈاکٹر عمارا؟؟؟
علی کو پوچھنا پڑا ۔۔
آ ہاں ۔۔ سب ٹھیک ہے !
عمارا نے کچھ توقف کے بعد سر ہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔
نہ جانے علی سن کر کیسا رد عمل دے گا ! ہوسکتا ہے اسے نوکری سے فارغ کردے ؟ اونر کو شکایت لگا دے ! یا سیدھا پولیس کے حوالے کردے ۔۔۔
یہ سوچ سوچ کر پریشانی کے مارے اسکا سکھ چین رخصت ہوگیا تھا ۔۔۔.
ڈاکٹر علی ؟؟؟ آفیسر نایا آپکا کب سے ویٹ کر رہی ہیں ! کیا کہوں ان سے ؟؟؟ ان دونوں کی گفتگو جاری تھی کہ ڈاکٹر علی کے اسسٹنٹ نے انہیں پیغام دیا ۔۔
آفیسر نایا ؟؟؟ ان کی اپائمنٹ تھی کیا آج ؟؟؟
وہ سن کر حیران ہونے لگے ۔۔
نہیں ! لیکن وہ اپنے والد کے کیس کے حوالے سے بات کرنا چاہتی ہیں !
اچھا ٹھیک ہے ، میں آتا ہوں ،
وہ کہہ کر اسکی جانب متوجہ ہوئے ۔۔۔
آپ کیفے ٹیریا میں تھوڑا انتظار کریں میں ایک میٹنگ نپٹا کر آتا ہوں !
اسکی تائید پر عمارا نے سر ہلایا ۔۔
چلو اسے کچھ دیر اور سوچنے کا موقع تو مل گیا ۔۔
اسلام و علیکم ! کیسی ہیں آپ ؟؟؟
ڈاکٹر علی نے اپنی نشست سنبھالتے ہوئے کہا ۔۔۔
وعلیکم السلام !
نایا جواباً سنجیدگی سے گویا ہوئی ۔۔
کیسے آنا ہوا ؟ آپ نے اطلاع نہیی دی ؟ کوئی پریشانی کی بات ہے کیا !
انہوں نے فورا پوچھا ۔۔۔
ہاں ، ہے تو سہی میں بابا کے متعلق آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں ، وہ کچھ توقف کے بعد بولی ۔۔
کہیے میں سن رہا ہوں ؟
وہ پوری طرح سے متوجہ ہوئے ۔۔
ان کی حالت میں کوئی سدھار نہیں ، بلکے وہ پہلے سے بھی زیادہ کمزور نظر آرہے ہیں ، دماغی حالت میں بھی کوئی سدھار نہیں ! اگر آپ سے کچھ نہیں ہوتا تو مجھے صاف صاف کیوں نہیں بتا دیتے !
اسکے انداز میں ہلکی سی تلخی در آئی. ۔۔
دیکھیں ۔۔۔میں آپ کے جذبات سمجھ سکتا ہوں ، جب آپ انہیں پہلی بار یہاں لائیں تھی اس وقت انکے حالات اور اب کے حالات میں واضع رزلٹ آپ کے سامنے ہے ، وہ آپ کو پہچاننے لگے ہیں ، روٹین کے مطابق دوائیں خود سے لے رہے ہیں ، انہیں کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں !
ایسا ہی ہے نا آفیسر؟؟
ڈاکٹر علی کے انداز پر اسے ہلکی سی شرمندگی ہوئی ۔۔
وہ کچھ زیادہ ہی بولی گئی ۔۔۔
آپ کے والد حیات ہیں ، یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں ، اب دیکھیں انکا دل ، گردے تقریبا بیکار ہوچکے ہیں ، اگر ہم انکے دماغ کا علاج کرتے ہیں وہ ان کا جسم دوائوں کی پاور سہار نہیں سکتے ، قوت مدافعت کی بھی کمی ہے خدا نخواستہ اپنی جان سے ہاتھ سے دھو بیٹھیں ! پھر بھی آپ ہمیں ہی زمہ دار ٹھہرائیں گی!!
علی نے رسان سے سمجھایا ۔۔ اسکی ایک ایک بات سچ تھی ۔۔۔ نایا نے ضبط سے زبان دانتوں تلے دبالی ۔۔۔
خیر ۔۔ آپ امید رکھیں انشااللہ سب بہتر ہوگا ، آپ کیئر ٹیکر کے ہمراہ انہیں ہاسپٹل بھجوادیں کسی دن ، میں انکا چیک اپ کرونگا ،، اور دوائیں بھی چینج کرکے دیکھتے ہیں ،
علی خوش اصلوبی سے گویا ہوا ۔۔۔
اسی اثنا میں نایا کا فون بجنے لگا ۔۔۔ وہ فون کان سے لگاتی کھڑی ہوئی ۔۔۔
اتنی جلدی جا رہی ہیں ، چائے یا کافی تو ۔۔۔
نہیں نہیں. شکریہ ، میرے آفس سے فون ہے ضروری ہو سکتا ہے۔۔
مسکرا کر کہتی بیگ لے کر باہر نکل گئی ۔۔۔
ہیلو ؟؟؟ کون؟
وہ فون پر متوجہ ہوئی ۔۔۔
جنرل آپ ؟
اگلے ہی پل اسکے لہجے میں احترام در آیا ۔۔
شیور شیور !!
وہ مسکرا کر بولی ۔۔ اور اگنیشن میں چابی گھما کر مین روڈ پر ڈالی ۔۔۔ جنرل بخشی نے اسے اپنی رہائش گاہ پر طلب کیا تھا ۔۔۔
علی نے ملازم سے کافی کا کہا اور عمارا کے مقابل کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا ۔۔۔
تو بتائیے عمارا؟؟؟ آپ کو ہمارا خیال کیسے آیا !
اسکے اس شوخ جملے پر عمارا بری طرح سے چونکی ۔۔۔
اتنے سنجیدہ اور صوبر شخص سے ان جملوں کی توقعات نہیں رکھتی تھی وہ ۔۔۔
میں کچھ بات بتانا چاہ رہی تھی آپ کو ۔۔۔
اس نے تمہید باندھی ۔۔۔
جی جی ؟؟؟ علی منتظر سا اسکی صورت تکنے لگا ۔۔۔ کیسے بتائوں ؟؟ مجھ سے ایک جرم سرزد ہوگیا ہے !!
عمارا بے چارگی سے ہتھیلیاں مسلنے لگی ۔۔۔
کیا مطلب کیسا جرم ؟؟؟علی چونک کر سیدھا ہوا ۔۔
عمارا نے تھوک نگل کر خشک گلا تر کیا ۔۔۔
علی کی سنجیدہ صورت اسکی ہمت پر ضربیں لگا رہی تھی ۔۔۔
بتائیں بھی کیوں صبر کا امتحان لے رہی ہیں ؟؟؟
وہ بے چینی سے پوچھنے لگا ۔۔۔
مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے
کیا ہوا؟؟؟ علی بے تابی سے پوچھنے لگا ۔۔۔
اس نے ایک ایک کر کے ساری رواداد اسکے گوش گزار کردی ۔۔۔
اس نے کہا کہ وہ دہشتگرد ہے اور آپ نے یقین کرلیا ؟؟؟
علی نے اسکی بات سن کر بمشکل تحمل کا مظاہرہ کیا ۔۔۔
ہاں تو اور کیا کرتی میں !
وہ از حد پریشانی سے بولی۔۔ اسکی حالت قابل رحم تھی ۔۔۔ علی نے اسکی حماقت پر سر جھٹکتے ہوئے پانی کا گلاس اسکی جانب بڑھایا ۔۔۔
پلیز کچھ تو بولیں ؟؟؟ وہ منتظر تھی ۔۔۔
آپ پانیں پیئیں اور ریلیکس ہوجائیں پہلے !
علی کا دل کیا اپنا سر دیوار میں دے مارے ۔۔۔ عمارا سے اس قدر احمقانہ رویہ کی امید نہیں تھی ۔۔ عمارا نے غٹاغٹ پانی کا گلاس چڑھایا لیا ۔۔۔
اب کیا ہوگا ؟؟؟
اسکی سوئی ابھی بھی وہیں اٹکی ہوئی تھی ۔۔۔
آپ کو پھانسی کی سزا کی ہوگی اور کیا !
کیا ؟؟؟ وہ چیخی ۔۔
علی بمشکل مسکراہٹ لبوں پر روکی ۔۔
آپ اتنی احمق ہو سکتی ہیں مجھے اندازہ نہیں تھا ڈاکٹر عمارا ، کسی نے پیمنٹ یا کوٹ کچہری کے چکر مول لینے سے بچنے کے لئے آپ کو ڈرایا اور آپ ڈر گئیں ، حد کرتی ہیں آپ بھی !
علی نے افسوس سے سر جھٹکا ۔۔۔ عمارا اسکا منہ دیکھ کر رہ گئی۔۔
اسکا دل مطمئن کیوں نہیں تھا پھر ؟؟؟؟
فکر مت کریں ، کسی نے واقعی آپ کے ساتھ مزاق کیا ہے
بے وقوف بنایا آپ کو اور آپ ہیں کہ خود کس ہلکان کر رہی ہیں !
علی نے رسانیت سے سمجھاتے ہوئے اسکے ہاتھ پر ہاتھ جما کر تسلی دی ۔۔۔ عمارا نے فورا اپنا ہاتھ واپس کھینچا ۔۔۔
یہ ڈاکٹر علی آج کل اسکے ساتھ کچھ زیادہ ہی بے تکلف ہو رہے تھے ؟؟؟ یا اسے ایسا لگا ۔۔۔
اسی لمحے ویٹر جو چائے دینے آیا تھا نہ جانے کیا ہوا ۔۔۔گرم گرم چائے علی کے ہاتھوں پر چھلک گئی ۔۔
یوووو !!!
وہ ویٹر کو غصیلی نظروں سے گھورنے لگا ۔۔۔
اسے حیرت کی انتہا نہ رہی جب ویٹر بھی اسے غضبناک نظروں سے گھورتا معذرت کیئے بغیر واپس مڑ گیا ۔۔۔ وہ کئی دیر تک اسکی پشت کو گھورتی رہی ۔۔۔ علی غصے سے نہ جانے کیا بڑبڑا رہا تھا ۔۔۔ مگر عمارا کو اپنی پریشانی سے فرست نہیں تھی ۔۔۔
__________________________________________
شزانہ گھٹنوں میں سر دیئے نیم غنودگی میں تھی ۔۔۔ جب اسے کسی کا لمس اپنے کندھے پر محسوس ہوا ۔۔۔
وہ یک دم گھبرا کر سیدھی ہوئی ۔۔۔ اب تو وہ ہر آہٹ پر ڈر جاتی ۔۔۔ ہر چاپ پر اسے ھانی کے قدموں کا گمان ہوتا ۔۔۔ وہ انتہائی ظالم انسان تھا ۔۔ بلکے اسے انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین تھی ۔۔۔
وہ غیر شناسا نگاہوں سے عورت کا چہرہ دیکھنے لگی ۔۔۔
جو کھانا دینے آئی تھی شاید ۔۔
یہ کچھ پیسے ہیں ، اور یہ عبایا ! بھاگ جائو یہاں سے !
وہ خوفزدہ سی ہوکر دروازے کو دیکھتی عجلت میں بولی ۔۔
شزانہ گھبرا کر سیدھی ہوئی
کھانے کی تھال کے نیچے چھپا عبایا اور اس کی تہہ میں رکھے پیسوں کو دیکھنے لگی ۔۔۔
سنو دھیان سے ، اگر پکڑی جائو تو کچھ بھی کرلینا خود کو ، اپنی شہہ رگ کاٹ لینا ، زہر کھا لینا ، کہیں سے کود کر جان دیے دینا ،مگر ھانی کے ہاتھ نہ لگنا ،میں نے خود اسے تنظیموں سے بات کرتے سنا ہے وہ لوگ تمہیں شام منتقل کرنے والے ہیں
اس عورت کے انداز بیان پر شزانہ کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے ۔۔۔ اسکے کانوں میں پھر سے عورتوں کی وہی غضبناک چیخیں گونجنے لگی ۔۔۔
ن۔۔۔ننہیں میں پکڑی گئی تو !
وہ خوف میں مبتلا ہونے لگی۔۔
مگر وہ عورت سنی ان سنی کرکے جا چکی تھی
زیادہ نہیں گزری تھی کہ اسے قدموں کی چاپوں کی آوازیں سنائی دینے لگی ۔۔
اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے کھانے کے تھال سمیت عبایا بیڈ کے نیچے سرکا دیا ۔۔۔
نقاب پوش اسکے لئے کھانا لائے تھے ۔۔ کیا واقعی انکے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ کوئی اندر آیا تھا ۔۔۔
اور وہ عورت ! کون تھی ؟ اور اسکی مدد کیوں کرنا چاہ رہی تھی ! اس نے گھبرا کر سوچا ۔۔۔
پہرےدار کھانا رکھ کر کڑی نگاہ اس پر ڈالتے ہی باہر نکل گیا ....اس نے لمحہ ضایع کیئے بغیر اٹھ کر دروازہ چیک کیا ۔۔ جو کہ کھلا ہی تھا ۔۔۔ صبح کا وقت تھا صفائی کا عملا صفائی کر رہا تھا ۔۔ اچھی بات یہ تھی کہ تمام (عملے کی)عورتیں عبائے میں تھی ۔۔ اس نے عبایا پہنا ۔۔ پیسے جینز کی جیب میں ڈالے اور چھوٹا سا نقشہ ھانی کے محل کا جو اس عورت نے اسے دیا تھا ۔۔ وہ رول کرنے کے بعد اس نے عبائے کی کشادہ آستینوں میں چھپا لیا ۔۔۔. وہ انہیلر اٹھانا بھول گئی تھی ۔۔ جس پر کم از کم اسکی زندگی کا انحصار تھا ۔۔۔ راہداریوں میں کوئی بھی نہیں تھا ۔۔۔حتی کے پہرے دار بھی نہیں ۔۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں اتری اور راہداریوں میں بنے کمروں کا جائزہ لینے لگی ۔۔۔ ایک کمرے کی کھڑکی کے پار کودی تو حیران رہ گئی ۔۔ وہ پھر سے وہیں آگئی تھی ۔۔ یہ اس محل کا کونسا حصہ تھا ۔۔۔!!!
اس نے دروازے کی اوٹ میں ہوکر نقشہ نظروں کے سامنے پھیلایا ۔۔ وہ ابھی کچھ کلیئر نہیں کر پائی تھی کہ کوئی اندر داخل ہوا اور فورا سے دروازہ بند کردیا ۔۔۔ ایک پل کو تو اسکی جان نکل گئی تھی مگر اسی عورت کو نقاب ہٹاتے دیکھ کر اسکے چہرہ پر اطمینان اترا ۔۔.
انہیں کچھ ہی دیر میں سب علم ہوجائے گا ! تم میرے ساتھ چلو نیچے چلو ، صفائی کا عملہ بس جانے والا ہی ہوگا ، تمہیں انکے ساتھ جانا ہوگا ، ھانی کے لوگ ان ساری عورتوں کو کچی سڑک پر اتار دیں گے ، یہ عورتیں دیہات سے آتی ہیں ، تم انکے ہاں قیام کرنا اور پھر اپنی منزل کو نکل جانا !
اور تم ؟؟؟؟ شزانہ کی پلکیں بھیگنے لگیں ۔۔۔
ھانی تمہارا سودا کرنے والا ہے ، میں اسے کل رات ہی کسی سے بات کرتے سنا ہے ، وہ تمہیں انکے ہاتھوں میں سونپ کر ، تمہارا بھائی حاصل کرنا چاہتا ہے !
اس انکشاف پر تو گویا اسکے رہے سہے اوسان بھی فنا ہونے لگی ۔۔۔ کس قدر سفاک لوگ تھے ۔۔!!!
بہن کے بدلے بھائی ۔۔۔ ھانی کو لیث کیوں چاہیئے تھا ۔۔ !! اور وہ لوگ اب اسکے ساتھ کیا سلوک کرنے والے تھے ۔۔۔!!! اسکا دم گھٹنے لگا ۔۔
کیا ہوا تمہیں ؟؟؟
اس عورت کی پریشانی میں ڈوبی آواز ابھری ۔۔
م۔۔یرا ۔۔۔ س۔۔۔ا۔نس
شزانہ بد حواس سی ہوکر زمین پر گر گئی ۔۔۔
____________________________________
وہ گھر کس وقت .... اور کیسے پہنچی ...اسے کچھ خبر نہیں ہوئی ۔۔ اسے تو اتنا خیال بھی نہ تھا ان نمبر پر کال کرکے چیک کرتی آخر کس نے اتنی نازیبا حرکت کی اور کیوں ۔۔۔ اسکا سر بخار کی حدت سے تپ رہا تھا ۔۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔۔ کیا کرے ؟ کہاں جائے ۔۔۔وہ نڈھال سی بستر پر گر گئی ۔۔۔ اسی لمحے اسکا فون بجا ۔۔۔ اس نے بند ہوتی آنکھوں سے فون اٹھا کر کان سے لگایا ۔۔ دوسری طرف سے نہ جانے کیا کہا گیا وہ فورن سے اٹھ بیٹھی ۔۔۔
ک کون ہے ؟؟؟؟ کیا چاہیئے تمہیں ؟؟ دیکھو تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ، کہو تو تمہارے پیر پڑ جائوں گی ! تمہیں خدا کا واسطہ ہے میری وڈیو ڈلیٹ کردو ! پلیززز پلیزززز !!! وہ سسک سسک کر کہتی زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔ ت م ۔۔۔ جو بولو گے میں کرنے کو تیار ، تم۔۔ تمہیں پیسے چاہیئے ؟؟؟ میں تمہیں من مانگی قیمت دینے کو تیار ہوں !! پلیز میری وڈیو ڈلیٹ کردو !!
وہ اس وقت حواس میں نہیں لگ رہی اسکے جو منہ میں آرہا تھا وہ بس بولے چلے جارہی تھی ۔۔۔ کسی بھی طرح اسکی وڈیو ڈلیٹ کردیں بس وہ لوگ...جس بھی مقصد کے تحت بنائی تھی ۔۔۔ مگر وہ نہیں جانتی تھی اسکا پالا کن سفاک دل بے رحموں سے پڑا تھا ۔۔۔ دوسری طرف سے نہ جانے کیا کہا تھا ۔۔۔ وہ ساکت رہ گئی ۔۔ فون چھوٹ کر اسکے ہاتھ سے زمین پر گر گیا ۔۔۔ اسکے اعصاب مزید بوجھ نہیں سہہ پائے وہ بے ہوش کر گر پڑی ۔۔۔
____________________________________
وہ عورت اسے بمشکل ہوش دلاتی ۔۔۔ صفائی کے عملے کی عورتوں کے ساتھ روانہ کر چکی تھی ۔۔۔ اصل امتحان تو اب شروع ہوا تھا ۔۔۔محل میں اسکی عدم موجودگی کہرام برپا کر چکی تھی... لوگ اسے ہر جگہ تلاش کرتے پھر رہے تھے ۔۔۔ حتی کہ کچھ دوری پر اسے نقاب پوشوں کی ٹولی صاف دکھائی دے رہی ۔۔۔وہ یقینا اسی کی فراق میں چکر کاٹ رہے تھے ۔۔۔ اسکے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑنے لگے
سمجھ سے باہر تھا کیا کرے ۔۔۔
گاڑی ۔۔روکو !! گاڑی روکو!! مجھے سانس نہیں آرہا !!! مجھے سانس نہیں آرہا ، گاڑی روکو خدا کے لئے !
وہ بھرپور انداز میں زوروں سے ٹرک کے در و دیوار پر ضربیں لگانے لگی ۔۔۔
منہ بند کرکے بیٹھو !
اسلحے سے لیس نقاب پوش پہرے داروں نے ٹہلتے ہوئے غضبناک نظروں سے اسے گھورا ۔۔۔
یہ تو دمے کی مریضہ ہے !
کسی کی دبی دبی سرگوشی اسکے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔
وہ بری طرح ہانپنے لگی تو ایک بوڑھی عورت کو اس پر رحم آہی گیا آخر ۔۔۔
خدا کے قہر سے ڈرو ،روک دو گھڑی بھر.. بچی کو مارو گے کیا ، وہ ناراضگی کا برملا اظہار کرتے ہوئے بولیں ۔۔
تو پہرے داروں نے کھا جانے والی نظروں سے بوڑھی خاتون کی جسارت پر اسے گھورا اور ٹرک کے پٹ کھول کر اسکی کہنی دبوچی اور انتہائی بے دردی سے اسے نیچے پھینک دیا ۔۔۔
اسے کھلی فضا میں سانس لینے دو !
اسے گھوری سے نواز کر پہرے دار نے ڈرائیور کو اشارہ دیا ۔۔۔ اور گاڑی آگے بڑھ گئی ۔۔۔ اس ہتک رویے پر شزانہ کا پیر بری طرح سے مڑ گیا تھا ۔۔۔ جو خطرناک بیماری اسے وراثت میں ملی تھی ۔۔۔آج اس نے اُسی بیماری کا فائدہ اٹھا کر اپنا حساب چکتا کرلیا تھا ۔۔ ایک تلخ سی مسکراہٹ اسکے لبوں پر رینگی ۔۔۔ وہ اٹھی اور مخالف سمت میں جانے لگی ۔۔۔ ابھی وہ اسی سڑک پر تھی کہ اسے فضا میں گولیوں کی تڑاتڑاہٹ کی آواز سنائی دی ۔۔۔
اسکے قدم وہیں منجمند ہوگئے !
ہائے ، وہ بوڑھی عورت!
جس نے اسکی سفارش کی تھی نہ جانے اسکے ساتھ کیا سلوک ہورہا تھا ۔۔۔ اسکا دل خون کے آنسو رونے لگا ۔۔۔ اب مڑ کر دیکھنا اسکے لئے ممکن نہیں تھا ۔۔۔
وہ دیکھو وہ رہی ، پکڑو اسے ! اس نے اسی رستے واپس جانے کے بجائے جھاڑیوں کی جانب دوڑلگائی ۔۔
اس عورت نے اپنی باتوں میں ایک چھوٹے سے گائوں کا زکر کیا تھا ۔۔ جانے یہ راستہ اسے منزل تک پہنچائے گا بھی کہ نہیں ! جب وہ انکی نظروں سے اوجھل ہوگئی تو نقاب پوش مایوسی سے واپس مڑ گئے ۔۔۔
اسے گائوں تو نظر آگیا ! مگر بڑی بڑی جیپیں ، اسلحے سے لیس منہ لپیٹے سپائی لاپرواہی سے منڈلا رہے تھے ۔۔۔
ھانی زیر زمین غرق ہوجائو اپنی فوج کے ساتھ ، برباد ہوجائو تم ! اللہ کا عزاب نازل ہو تم پر...
آگے کنواں تھا پیچھے کھائی ۔۔۔ وہ وہیں ڈھیر ہوگئی ۔۔۔ زندگی کے اس مقام پر بھی کبھی اسکے منہ سے بد فعلی نہ نکلی تھی ۔۔۔ مگر ھانی اسی قابل تھا ۔۔۔
____________________________________
مطلولبہ ایڈریس پر پہنچ کر اس نے اسکینرز میں اپنی آئی ڈی سوائپ کی گلاس ڈور خود بخود اسکے لئے کھلتا چلا گیا ۔۔۔ جدید طرز کا چھوٹا سا نفیس اپارٹمنٹ تھا ۔۔۔
زرا سی دھول بھی چیزوں ڈھونڈنے سے نہیں مل رہی تھی ۔۔اپارٹمنٹ کی ہر چیز ان کے صفائی پسند ہونے کا منہ بولتا ثبوت تھی ...جنرل بخشی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی ۔۔۔
خوش آمدید آفیسر
ان کی آواز پر وہ چونک کر سیدھی ہوئی ۔۔۔
تھینک یو سر ! وہ مئودبانہ گویا ہوئی ۔۔۔
چائے یا کافی ؟؟؟؟
ٹرائوزر اور ٹی شرٹ میں ملبوس ہمیشہ کی طرح فریش سے جنرل اس عمر میں بھی خاصے ہینڈسم تھے ۔۔۔
کافی !
ان کے پوچھنے پر وہ جھجک کر بولی ۔۔۔
میں کافی نہیں پیتا ، تم بھی چائے پر حامی بھرو اور جنرل کو زحمت مت دو آفیسر!
گھمبیر آواز پر چونک کر مڑی تو دمخبود رہ گئی ۔۔۔
وہی سبز آنکھیں ،وہی قد و قامت مگر اس بار اسکا چہرہ عیاں تھا ۔۔۔ وہ اچھا خاصا پرکشش مرد تھا ۔۔۔
نایا کے لئے یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ یہ وہی شخص ہے !!! جو یہاں بڑے انہماک سے کام میں مشغول تھا
اس نے پلکیں میچ کر زوروں سے سر جھٹکا ۔۔۔
آفیسر ؟؟؟؟ شوگر کتنی؟؟؟
ہوں !!! ہاں ؟؟؟ سوری؟؟؟ہالف ٹی اسپون !
وہ ہونکوں کی طرح جنرل بخشی کا منہ تکنے لگی ۔۔۔ جو شاید دوسری بار اسے پکار رہے تھے ۔۔۔
دائم سے ملو ! ہماری ایجنسی کے قابل ترین جاسوسوں میں سے ایک ہے ! غالبا تم دونوں کی روبرو یہ پہلی ملاقات ہے
جنرل نے اسکی نظروں کا نوٹس لیتے ہوئے نظر لاپرواہی سے اپنے کام میں مشغول دائم پر ڈالتے ہوئے کہا۔۔
قابل ترین جاسوس ؟؟؟؟
نایا کے حلق میں کانٹے چھبنے لگے ۔۔۔
وہی جاسوس جسے اس نے اسمگلر سمجھ کر گولیوں کی بوچھاڑ کری تھی ۔۔۔!!!
شٹ ۔۔کیا سوچتا ہوگا میرے بارے میں ! کتنی گوار ہو میں اس نے خود کو کوسا !
تھینک یو سر !
اس نے چائے کا کپ تھام لیا
وہ سر خم دیتے ہوئے دوبارہ کچن کی جانب بڑھے ۔۔۔واپس آئے تو ان کے ہاتھ ٹرے میں سجے لوازمات کے ساتھ دو کپ بھی تھے ۔۔۔ دائم بھی کام چھوڑ ان کے قریب چلا آیا ۔۔۔ افففف ، اس شخص کی خوشبو !
وہ سخت کوفت کا شکار ہونے لگی ۔۔۔ زرا سمٹ کر بیٹھ گئی ۔۔۔ جنرل براجمان ہوئے تو دائم اس سے فاصلہ رکھ کر بیٹھ گیا ۔۔۔ چند پل کے لئے ان کے بیچ گہری خاموشی چھا گئی ۔۔۔
ظاہر سی بات تھی وہ یہاں چائے پارٹی تو نہیں کرنے آئے تھے !
کیا سوچ رہے ہیں جنرل آپ ؟؟؟
دائم کی آواز پر نایا بھی متوجہ ہوئی ۔۔۔ جو چائے کی چسکی لیتا ہوا پوچھنے لگا ۔۔۔
سوچ رہا ہو ....اگر لڑائی کے میدان میں ...میں ہزار شیروں کی فوج تشکیل دوں ! اور انکی قیادت کے لئے ایک 'کتے ' کو بھیج دوں تو سارے شیر 'کتے' کی طرح مر جائیں گے لیکن ... اگر انہی ہزار کتوں پر ایک شیر سپہ سالار ہوگا تو سارے کتے شیر کی طرح لڑیں گے !!!
انہوں نے بہت گہری بات کہی تھی ۔۔۔
خوب کہا آپ نے ! دائم نے اکتفا کیا ۔۔۔
آئو میرے ساتھ تمہیں بتاتا ہوں...
جنرل اٹھے اور کپ تھامے ٹیبل کے قریب جا کھڑے ہوئے ۔۔۔ ہاتھ بڑھا کر ڈیجیٹل اسکرین روشن کی تو ان کے چہرے چمک اٹھے ۔۔
یہ ھانی ہے ، پورا نام ھانی السلام ہے ، جو داعش میں پیدا ہوا تھا ! ماں باپ حملوں میں مارے گئے تو اس نے افغانستان کا رخ کیا ،اور عسکری جوانوں کے بھیس میں پناہ لے لی ، جو کے افغان صدر کی نااہلی کا منہ ثبوت ہے
اسکے پانچ سال بعد جب امریکہ نے معادے توڑے اور افغانستان کے عسکری جوانوں کو حراست میں لے لیا گیا۔۔۔
جن کو چھڑانے کے لئے افغانی فوجی جنرل مہتی کو بھیجا گیا ۔۔۔ مہتی انتہائی بے وقوف لیڈر نکلا!
اسکے پاس عہدہ تھا ،طاقت تھی ،فوج بھی تھی !
لیکن عقل و فہم ریت کے زرے برابر تھی
اس نے امریکہ سے جنگ مول لے لی ۔۔۔ ھانی جو کہ اس وقت معمولی سپاہی تھا لیکن بہت شاطر تھا ۔۔۔ اس نے جب دیکھا کہ وہ لوگ ہار رہے ہیں ، امریکہ کے ہاتھوں ماریں جائیں گے تو اس نے جنرل مہتی کو سب سے پہلے ماردیا !جنرل کی لاش لے جا کر انکے سامنے پھینکی اور نئے معائدے پر امریکہ کو اکسایا !
یہ تو شاطر ہونے کے ساتھ غدار بھی نکلا
نایا بولی۔۔۔
بلا شبہ ، اسے علم ہوگیا تھا کہ کمانڈر نے احمقانہ فیصلہ لیا ہے ، صرف طاقت ہی سب کچھ نہیں ہوتی دماغ بھی ضروری ہوتا ہے ، اگر جنرل بیٹھ کر بات چیت کر لیتا ، تو ان کے جوان نہ مارے جاتے ، لیکن جنرل کو اپنی طاقت اور فوج پر غرور تھا ۔۔۔ ھانی نے اسکے بعد نہ صرف عسکری جوانوں کو رہا کروایا ۔۔۔بلکے انہیں ورغلایا کہ وہ ھانی کے جنرل بننے کے حق میں حامی بھریں ۔۔ !!
اور تب سے اس نے نہ جانے کتنے فوجیوں کو انتہا پسندی پر ورغلایا ، نہ صرف انہیں فوج سے استیفع دینے کو کہا بلکے انکے ساتھ اپنی ایک نئی فوج بنالی ، پھر چاہے اتاترک ایئرپورٹ پر حملہ ہو ، داعش کے حملے ہو ، شام کی مسجدوں پر حملے ہوں ، فلسطین ہو یا کراچی پر دھماکے کی وارداتیں ہوں ہر جگہ یہ لوگ ملوث پائے جاتے ہیں ! ھانی کی اپنی فوج ہے ، اس نے عسکری قیادت سے بہت پہلے استفع دے دیا تھا ۔۔۔
طالب*ن کو اب اپنی سرزمین بہت جدوجہد کے بعد ملی ہے اسلئے وہ اب اپنی زمین کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں ...ھانی کو یہی خطرہ لاحق ہے وہ اب زیادہ دیر افغانستان نہیں رہے گا شام چلا جائے گا۔۔ ہم وہیں اسے گرفتار کریں گے۔۔ ایک اور بہت اہم بات
وہ سانس لینے کو رکے
چونکہ یہ ڈیجٹل زمانہ ہے ..اور ھانی کا سارا سسٹم بائیومیٹرک پر منحصر ہے۔۔ اس نے پچھلے سال ہی اسرائیل سے دو بلیک-ہیٹ-ہیکر خریدے ہیں ...ہمارے پاس جن کی تعداد بہت کم ہے ..اسلئے تمہیں ایک ایسا شخص درکار ہے جس کی انگلیاں گولی کی اسپیڈ سے بھی تیز چلتی ہوں
ہماری ملک میں ایک سے ایک ہیکر موجود ہیں ..فکر نہ کریں ہمیں ایسے لوگ ڈھونڈنے بخوبی آتے ہیں
جواب دائم کی طرف سے آیا
تو پھر ٹھیک ہے ۔۔ تیسرے پڑائو پر مشن تم دونوں کو ہینڈ اوور کردیا جائے گا ! مجھے تم دونوں کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ ہے...
جنرل نے بال پوائنٹ پھینک کر اعتماد سے کہا
بحر حال !! اب تم دونوں ایک پیج پر متحد ہو تو ہیکر تلاش جاری رکھو...جب تک ہمیں گرین سگنل نہیں مل جاتا مشن کی جانب سے آفیسر تم یوم عاشورہ کے دن کا سکیورٹی پلین ترتیب دو گی ، جس پر تم دونوں کو کام کرنا ہے ! بقیا اداروں کو میں انفارم کرچکا ہوں وہ اپنا کام سنبھالیں گے ،، خاص کر اس دن ہمیں تمہاری خدمات بھی چاہیئے ہوں گی ! از دیٹ کلیئر ؟؟؟
جنرل نے حتمی نظر ان دونوں پر ڈالی ۔۔
یس سر ،
دونوں بیک وقت بولے
تم لوگوں کی رہائش کا بندوبست ہوچکا ہے ! دائم تمہیں وہاں لے جائے گا ! وہ کہہ کر جانے لگے ۔۔۔
نایا نے الوداعی نگاہ جنرل پر ڈالی ۔۔ اور میز پر بکھری فائلوں کی جانب متوجہ ہوئی ۔۔۔ زرا سی گردن موڑ کر دیکھا تو دائم اسکی موجودگی فراموش کیئے صفحات میں غرق تھا ۔۔۔ نایا سر جھٹک کر سکیورٹی پلین پر کام کرنے لگی ۔۔
____________________________________
چلو درباس ، کمانڈر نے دونوں ریوالور لوڈ کرنے کے بعد کوٹ کی جیبوں میں ڈالی اور درباس کی طرف متوجہ ہوا جو بوٹوں کے لیس باندھ رہا تھا ۔۔۔
حاکم تم یہی رہو گے ، کان کھلے اور آنکھیں ہمہ وقت سرحدوں پر ہونی چاہیئے ، کوئی بعید نہیں کب دشمنوں سے سامنا کرنا پڑے !
کمانڈر میں بھی ساتھ چلتا ہوں!
حاکم نے ایک تیز نظر درباس پر ڈالتے ہوئے کہا ۔۔
کمانڈر کا اسکے ساتھ برتائو سوتیلوں جیسا ہوگیا تھا درباس کے آنے بعد ۔۔ نہ وہ اس سے اپنے منصوبوں میں شامل کرتے الٹا اب اسے لگنے لگا تھا کہ اس سے باتیں بھی چھپائی جا رہی ہیں ۔۔۔یہ بات اسکے اندر درباس کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا رہی تھی ۔۔۔
مجھے اپنی بات دہرانے کی عادت نہیں ہے حاکم ،
کمانڈر کی دھاڑ پر درباس نے سرد نگاہ اٹھا کر باری باری دونوں کو دیکھا ۔۔۔ اور باہر نکل گیا ۔۔۔
کمانڈر مجھے یہ درباس ٹھیک آدمی نہیں لگتا ، مجھے اپنے ساتھ آنے دیں ! میں آپ کی حفاظت کروں گا !
حاکم نے ایک آخری کوشش کرنی چاہی ۔۔۔.
کمانڈر نے ایک سخت نگاہ اس پر ڈال دور دھکیلا اور
باہر نکل گیا ۔۔۔ حاکم نے غصے میں پانی سے بھرا کشکول اٹھا کر سامنے کی دیوار میں دے مارا ۔۔۔ انتہائی نفرت سے زمین پر تھوکتے وقت اس کے تصور میں درباس کا چہرہ تھا ۔۔۔
__________________________________
کمرے میں ہر طرف خاموشی کا راج تھا ۔۔ گھڑی کی ٹک ٹک کے علاوہ کاغذ کے پنوں کی تڑاتڑاہٹ سنائی دے رہی تھی ۔۔ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی موجودگی بھلائے دل جموعی سے کام میں مگن تھے ۔۔۔ دائم کے سیل فون بجنے پر وہ دونوں متوجہ ہوئے !
دائم نے فون پر گفتگو جاری رکھتے ہوئے ٹیبل بجا کر اسے اٹھنے کا شارہ دیا ۔۔ وہ نہ سمجھی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔ ہمیں جانا ہوگا ، آفیسر ۔۔۔۔
اس نے انگوٹھے سے پیشانی مسلتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی
نایا ۔۔۔۔ نایا نے اسکی مشکل آسان کردی ۔۔
ہاں۔۔۔آفیسر نایا ! ہمیں جانا ہوگا قاسم کے ساتھی آرہے ہیں ! دائم نے ہاتھوں کو تیزی سے حرکت دی ۔۔
نایا نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے پنوں کو ترتیب دے کر ٹیبل پر ہی چھوڑ دیا ۔۔۔
سکیورٹی پلین وہ ترتیب دے چکی تھی اب بس جنرل بخشی کی طرف سے اپروول کا انتظار تھا ۔۔۔ اسلئے اس نے تمام نسخے انکے ٹیبل پر ہی چھوڑ دیئے ۔۔۔
وہ دونوں باری باری عمارت سے نکلتے چلے گئے ۔۔