بدیں ثبوت کہ
ہر زبان کا مرکز اس کی جائے پیدائش ہے
قطعہ
آزاد رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
مرکز میں آپڑی ہے مگر فلسفانہ بحث
مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے
جس طرح مرکز دائرہ کا وہ وسطی نقطہ ہے کہ اس سے محیط تک جس قدر خط کھینچیں وہ سب آپس میں برابر ہوں۔ اسی طرح زبان کا مرکز بھی وہ مقام ہے جہاں کسی زبان کے ایجاد یا پیدا ہونے کا مہر جہانتاب طلوع ہوا ہو۔ اور اس سورج کی کرنیں وہاں سے چاروں طرف پھیلی تو ہوں مگر قرب مرکز اور بعد مرکز میں وہی فرق ہو جو ہر ایک چیز کے قرب مخرج اور بعد مسافت میں ہوا کرتا ہے۔
پس اس سے ثابت ہوا کہ ان کرنوں کی روشنی مقامات قریبہ میں بعیدہ کی نسبت زیادہ اثر کرے گی۔ یعنی جو اثر مرکز کے قریب ہوگا وہ بعید میں نہیں ہو سکتا۔ بلکہ جس قدر فاصلہ ہوتا جائے گا اسی قدر اس کا زور گھٹتا اور مغایرت بڑھتی جائے گی۔ شعلہ کی لپٹ یا تیزی جو اس کے پاس محسوس ہوتی ہے وہ زیادہ فاصلہ پر نہیں ہوتی۔ جوں جوں فاصلہ زیادہ ہوتا جا ئے گا اس کی تیزی کم ہوتی جائے گی۔ یہاں تک کہ بہت دور جا کر اس کا محسوس ہونا بھی قریب قریب معدوم یا نا معلوم ہو جائے گا اور ہر شخص تمیز کرنے سے مقصّر رہے گا۔ یعنی جس طرح وہ روشنی اپنی ہر ایک حد کو مرکز نہیں بنا سکتی اسی طرح زبان بھی اپنی اصلی جگہ اور نکاس چھوڑ کر دوسرے مقام کو اپنا مرکز یا مخرج نہیں ق ائم کر سکتی۔ ہر ایک ملک کی زبان اپنے ملک اور ہر ایک شہر کی بولی اپنے شہر سے ایک مخصوص خصوصیت رکھتی ہے۔ مرکز ہمیشہ اپنی خاص جگہ اس طرح قائم رہتا ہے جس طرح آفتاب اپنے خاص مقام پر قائم ہے اور دیگر سیّارے اس کے گرد گردش کر رہے ہیں اسی طرح زبان کا مرکز بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹ سکتا۔
ہر ایک درخت اپنی جڑ سے شاخوں، ٹہنیوں، پتّوں، پھولوں، پھلوں کو قوّت پہنچاتا ہے، نہ کہ شاخیں ، ٹہنیاں، پتّے، پھول، پھل وغیرہ اس کی مدد کو آتے یا تقویت بخشتے ہیں۔ اس موقع پر مرکز کو منبع یا سر چشمہ خیال کرنا چاہئیے اور اس کے خطوط یا شعاعوں کو سوتیں۔ جو چاروں طرف پھیلتی اور ہر قسم کی مٹّی، جڑی بوٹی اور مختلف معدنیات کا اثر اپنے میں لیتی اور ابتدائی حالت میں فرق ڈالتی چلی جاتی ہیں۔
کوئی سی زبان کیوں نہ ہو اس کے جاننے اور استعمال کرنے والے دو قسم پر منقسم ہیں۔ ایک وہ جن کا اصلی وطن جن کا مسقط الراس، جن کے باپ دادا اور ننھیال کا وطن وہی سر زمین اور خطہ ہو جس جگہ سے وہ زبان نکلی ہے، یہ لوگ اہل زبان کہلاتے ہیں اور اول قسم میں شمار ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جنھوں نے اس زبان کو مستند کتابوں سے، اساتذہ کے کلام سے، صحبت سے ، اہل زبان کے مختلف مضامین اور اخباروں سے حاصل کیا ہو۔ بلکہ قریب قریب خاص محاورات و اصطلاحات کے علاوہ ویسی ہی زبان لکھنے اور بولنے لگے ہوں۔ لیکن اس پر بھی ان سے غلطی کا ہوجانا ممکن اور واجب التسلیم ہے۔ مگر اہل زبان سے ناممکن اور خلاف قیاس۔ یہ دوسری قسم کے لوگ زبان داں یا مقلّد زبان کہلاتے اور دوسرے درجہ میں گنے جاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ جس جگہ کوئی چیز پیدا ہوتی ہے اس میں وہاں کی آب و ہوا، وہاں کی سر زمین، وہاں کے لاحقہ و عارضہ تغیّرات، طیور و وحوش پیداوار، اشجار و اثمار، جمادات و نباتات وغیرہ کا اثر شامل حال ہوتا ہے۔ اسی طرح زبان بھی ان تعلّقات و عوارضات سے باہر نہیں ہو سکتی۔ یعنی ہر ایک زبان کے بولنے والوں میں ساخت گلو، ساخت دہن، طبیعی جذبات و خواص، اندرونی و بیرونی ملکات و اصناف تاثیرات، حسب موقع حرکات و سکنات، بلکہ سب سے زیادہ لب و لہجہ کا بہت بڑا دخل ہوا کرتا ہے اور یہی باتیں ہیں جن سے غیر ملک یا غیر شہر کا رہنے والا خواہ کیسا ہی کسی زبان کا عالم متبحر و ماہر کامل کیوں نہ ہوجائے، ٹھوکر کھائے بغیر نہیں رہتا، اور اول پہچان اپنی اجنبیت ظاہر کردیتا ہے۔ جیسا کہ صاحب قاموس اور اس کی بیوی خاتون عرب کا معاملہ زبان زد خلائق ہے۔ تذکیر و تانیث میں وہ لڑکنیاں کھاتا ہے، لب و لہجہ میں وہ پھسلتا ہے، خاص خاص اشاروں اور کنایوں میں وہ گرتا ہے، کسی امر کا سماں باندھنے میں وہ کنّی کھاتا ہے، از روئے الفاظ مقامی اثر پیدا کر کے دکھانے میں وہ قاصر رہتا ہے، خوشی کا چربہ وہ نہیں اتار سکتا، ماتم کا پ ر درد سین وہ نہیں دکھا سکتا، بہادرانہ حرکات و دلیری، سپاہیانہ کرتب اور ہتھکھنڈے وہ ظاہر نہیں کر سکتا، رزم و بزم کا ہیرو وہ نہیں بنا سکتا، عادلانہ عدالت اور ظالمانہ ضلالت کا نقشہ وہ نہیں کھینچ سکتا، غرض اسی قسم کی اور سینکڑوں باتیں ہیں کہ وہ ہر جگہ کے اہل زبان کا حصّہ اور انہیں کا ورثہ ہیں۔
جن لوگوں میں کسی زبان کا تبحّر یا اس کا صحیح مذاق نہیں ہوتا اور اس امر کا دعوی کر بیٹھنے کی لاج دامن گیر ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ ایسی تدبیریں سوچا کرتے ہیں جن سے اہل زبان ہونے کی قید، زباندانی کی پخ، ٹکسالی اور غیر ٹکسالی محاورات کی جانچ ایک سرے سے اٹھ ہی جائے اور ہم مصلح زبان ہونے کا دعوی کرسکیں۔ اہل زبان کے اعتراضات سے بچیں، اور جو کچھ ہم اہل قلم اٹھا کر آزادانہ اناپ شناپ لکھ دیں یہ سب کھپتا اور داخل زبان ہوتا چلا جائے، مگر یہ نہیں جانتے کہ جب تک مرکز زبان کا چکّر نہ کاٹیں، گلی گلی کی خاک نہ چھانیں، کوچہ کوچہ کی ٹھوکریں نہ کھائیں، وہاں کی شریف زادیوں کی گودیوں میں نہ پلیں، ان کی آب و گل، ان کی گھٹّی، انکے خمیریں وہاں کی طبیعی خصوصتیں، فطرتی ا منگیں نہ پیدا ہوں، ان کی ماؤں نے، ان کے بزرگوں نے، رنج کا، ، خوشی کا، خوف کا، دلیری کا، ہنسی کا، گریہ و زاری کا، مصیبت و آفت کا، روز مرّہ الفاظ اور ان کے برتاؤ کا، اخلاق اور معاشرت وغیرہ کا سبق نہ پڑ ھایا ہو، وہ مرکز زباں کے طفل مکتب کی برابری بھی نہیں کرسکتے۔ بلکہ ان پر یہ مثل صادق آتی ہے، کہ سکھائے پوت دربار نہیں جاتے۔
کیسے ہی بڑے بڑے مصنّف، کیسے ہی اعلی درجہ کے مضمون نگار، کیسے ہی عالم بے بدل، کیسے ہی فاضل بے مثل کیوں نہ ہوں، لیکن اس کوچہ سے نا بلد ہی رہیں گے، یعنی جب تک عاشقانہ ٹھوکریں نہ کھائیں گے، معشوقوں کی ناز برداریاں نہ اٹھائیں گے، ہر فرقہ کے لوگوں کے فقروں میں نہ آئیں گے، ان کی لنترانیاں نہ سنیں گے، انہیں کب یہ درجہ میسّر ہوگا کہ وہ آسانی سے اہل زبان ہونے کا دم مارنے لگیں۔
زبان کی خوبی محاورات و اصطلاحات کی خوش اسلوبی، فصیحانہ بول چال، بلیغانہ خاص خاص ضرب الامثال، صنائع بدایع کی واقفیت اور ہر قسم کی صحبت پر موقوف ہے، اگر یہ نہیں تو کـچھ بھی نہیں، جو لوگ اس بات کے درپے ہیں کہ اردو زبان کی یہ مخصوص خوبیاں جاتی رہیں، وہ صرف مخرب زبان ہی نہیں بلکہ زبان کے مزے روز مرّہ کے لطف، مذاق سخن تک سے نا واقف او ر کسی ایسے کوردہ کے رہنے والے ہیں جہاں زبان کو زبان ہی نہیں جانتے، اسے صرف ایک عضو معطّل خواہ گوشت کی بوٹی یا آلہ اصوات سمجھتے ہیں، کجا کہ اس کے نکات اور اسکی باریکیوں سے لذّت آشنا ہونا۔
اس ضروری تمہید کے بعد اب ہمیں یہ دکھانا منظور ہے کہ دہلی کو کس وجہ سے اردو زبان کا خاص مرکز، خاص ملجا و ماوا، خاص ٹکسال گھر، خاص ماخذ و مخرج، خاص کھیت کہنا چاہئیے، تاکہ کھیت کے لکھے پڑھے بھی اسے بخوبی سمجھ لیں، اور دل سے مان لیں، کہ جب تک اردو کا لفظ اس زبان کے ساتھ وابستہ ہے، دہلی شاہجہاں آباد ا س کی جان کے ساتھ ہمرشتہ ہے۔ ورنہ وہ اردو نہیں ایک ست بیجھڑی زبان ہے۔ علم ادب، علم مجلس، انشا پردازی، آداب شاہی، جملہ تصنیف و تالیف، تمام علوم و فنون میں کرسی نشینی کا رتبہ اگر ہے تو خاص اسی اردو کو حاصل ہے، باقی اللہ اللہ خیر سلّا۔
دہلی سے زیادہ کہیں کی زبان شیریں، سلیس، سہل المخارج، عام فہم، دلاویز، دلنشیں، مؤثر، بے تکلّف، خارج از آورد، لفّاظی سے نفور، بھرتی کے ثقیل و کرخت یا غیر مانوس الفاظ سے خارج، اور مرغوب الطبع نہیں ہے، سلاست اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے، اور بلاغت میں یہ ایک عجیب دلربا ابلا پری ہے، اس کی بلند پروازی آسمان سے ٹکّر کھاتی ہے، اور اس کی وسعت فضائے عالم سے بڑھ جاتی ہے۔ سر سیّد کی دھواں دھار اسپیچیں جو سامعین کا دل ہلا ہلا دیتی اور کبوتر کی طرح لٹا لٹا دیتی ہیں کہاں کی زبان میں تھیں، اسی دہلی کا تصدّق تھا، خواجہ حالی مد ظلہ العالی کی نظمیں جو سنگدلوں کو موم بنا کر بن چھری تڑپاتی ا ور پھڑکاتی ہیں کس زبان کی رسیلی لاڈلیاں ہیں، خیر یہ تو ایک آ مد سخن بات تھی اس جملۂ معترضہ سے آگے سنیے۔
دیکھنا یہ ہے کہ دہلی کو اردو زبان کا مرکز کیوں کہتے ہیں اور دیگر امصار و دیار پر اس کا اطلاق کیوں روا نہیں رکھتے، یہ بات بالاتفاق مانی ہوئی اور تسلیم شدہ ہے کہ اردو زبان کا اگر مصدر ہے تو دہلی ہے، مبدء و مخرج ہے تو دہلی ہے، مرکز و ماخذ ہے تو دہلی ہے، یہ پیدا کہاں ہوئی؟ دہلی میں، اس نے جنم کہاں لیا؟ دہلی میں، اس کا نعل کہاں گڑا؟ دہلی میں، اس کا خروج یعنی نکاس اور رواج کہاں سے ہوا؟ دہلی سے، اس کی بنیاد کہاں پڑی؟ دہلی میں، اس کا شاہجہانی اردو نام کہاں رکھّا گیا؟ دہلی میں، اس نے عروج کہاں پایا؟ دہلی میں، اس کا سرپرست اور بانی کون ہوا؟ شاہجہاں پادشاہ دہلی و ہندوستاں، البتّہ صاحب قران ثانی سے پیشتر اس زبان کی نیو رکھنے والے بزرگ تیرھویں صدی عیسوی میں جناب خواجہ ابو الحسن امیر خسرو دہلوی ہیں، جنھوں نے دہلی کے سات بادشاہوں کی سلطنتیں دیکھیں، ان کے مصاحب رہے، معزّز عہدوں کی خدمت بجا لائے، علاءالدین خلجی کو اپنا ایسا دل دادہ بنایا کہ اسے آپ کے بغیر ایک لمحہ چین نہ آیا۔
نظم اردو کے متعلق گو ولی محمد گجراتی کو اس کا مخترع اور موجد بیان کرتے ہیں، مگر اس نے بھی جو کچھ فیض پایا دہلی میں رہ کر پایا اور اسی جگہ اپنے کلام کو ٹکسال بنا کر خیراد چڑھایا اور اپنے پیر شیخ سعداللہ عرف گلشن شاہ دہلوی کی ہدایت سے دیوان اردو مرتب کیا، اگر فارسی آمیز ہندی زبان کے بنیاد ڈالنے والے حضرت امیر خسرو ہیں تو اس میں تراش و خراش پیدا کرنے، با قاعدہ بنانے، ترتیب دینے، مروّج فرمانے، شاہجہانی اردو نام رکھنے والے شاہجہاں بادشاہ ہند ہیں اور یہ دونوں خاص الخاص دہلی سے تعلق رکھنے والے ہیں۔
اس بات کو کون نہیں جانتا کہ جہاں سے کوئی زبان نکلتی اور جہاں کا بادشاہ اس کا سرپرست ہوتا ہے وہیں کی زبان ٹکسالی اور درباری کہلاتی ہے۔ گو مرور زمانہ کے باعث بعض پرانے الفاظ و محاورات متروک الاستعمال اور جدید مانوس الاستعمال ہونے چلے جائیں، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان باتوں سے اس کا اصلی مسکن اور مرکز بھی بدل جائے یا اس کی آن و ادا اور انداز دلفریب میں فرق آجائے، دہلی کا روڑا اگر کسی کارخانے کا بیٹھنے والا یا محنت و مزدوری کرنے والا، خواہ ٹوکری ڈھونے والا بھی ہوگا تو ممکن نہیں کہ وہ بے محاورہ بات زبان سے نکال جائے، ابھی کا ذکر ہے کہ ایک بڑھیا ماما جاڑے کے مارے سو سو کرتی ہوئی بازار سودا لینے جا رہی تھی، کسی دکاندار نے پوچھا کہ بڑی بی اس طرح کیوں سکڑتی ہوئی جا رہی ہو، اس نے جواب دیا کہ بھائی! برف کٹ رہی ہے، بھلا اس محاورے کو کوئی اور تو بول جائے، حالانکہ اس بڑھیا نے کوئی برفانی پہاڑ نہیں دیکھا، برف پڑتی ہوئی اس کی نظر سے نہیں گزری، مگر پھر بھی وہ ٹکسالی محاورہ زبان سے نکالا کہ جس سے سردی کی صورت بن گئی۔ کٹنے کے لفظ نے اور بھی جان ڈال دی، جس کا لطف اہل زبان ہی خوب لے سکتے ہیں۔
وہاں کی گلیوں میں آؤ، بازاروں میں پھرو، کارخانوں میں گشت لگاؤ، جامع مسجد کی سیڑھیوں کی ہوا کھاؤ، اور دیکھو کہ بازاری آدمیوں کے منہ سے بھی کیسے پھول جھڑتے ہیں، ان کی گالیوں اور مذاق کو بھی ندرت سے خالی نہیں پاؤگے، جہلا اور بازاریوں کی زبان سے کبوتر کو قبوتر سنوگے، پتّھر کو پھتّر گوش زد فرماؤگے، فصیل کو صفیل استماع کروگے، بلکہ کی بجائے بلکن کی آواز تمھارے کانوں میں پڑے گی، علی ھذا کدھی بجائے کبھی، تعینات بجائے متعین، مگھم بجائے مبہم، جریبانہ بجائے جرمانہ اصغا کروگے، مگر اس کے لوچ، اس کے لہجہ اور تذکیر و تانیث نیز فصیحانہ انداز کے لحاظ سے جان لوگے کہ وہ برمحل اور درست پتا دے رہا ہے۔ گو غلط العام سے گزر کر غلط العوام کالانعام اور تحریری استعمال سے باہر سہی لیکن بول چال میں کوئی عیب نہیں پاؤگے۔
ہاں اہل زبان کو یہ بات ضرور ملحوظ رکھنی پڑتی ہے، کہ جن الفاظ نے عہد حال میں رواج پایا ہے، ان پر بنائے سخن موقوف رکھتے ہیں، گو قدما کسی اور طرح استعمال کر گئے ہوں مگر انھیں موجودہ طبقہ کے روز مرّہ کی طرف رجوع کرنی محاورے کی صحت کے لئے ایک لازمی امر ہے، یعنی اس حالت میں بھی اہل زبان کو استعمال الفاظ و ایراد محاورات میں اپنے ہی شہر کے محاورے پر اعتماد کرنا چاہئیے، نہ کہ زبان اطراف کی طرف رجحان کیا اور قدما کے متروک الاستعمال الفاظ پر دھیان رکھا جائے۔
اسی طرح مقلّد کو بھی اہل زبان کے محاورے کی تلاش لازم ہے تاکہ اس کا سخن قابل اعتبار ہو۔ مقلّد سے غیر ملک کا آدمی ہماری مراد نہیں ہے، دہلی کے علاوہ ہند کے کسی شہر اور قصبے کا رہنے والا زبانداں کیوں نہ ہو، جس حالت میں اہل دہلی کی زبان اصل اردو و مبدء فصاحت قرار دی گئی اور یہ شہر زبان کا ٹکسال گھر ٹھیرا تو ہند کے اطراف و جوانب کے باشندے گو وہ لکھنؤ، اکبرآباد، بنارس، کانپور، میرٹھ، یا لاہور وغیرہ کے رہنے والے ہی کیوں نہ ہوں، دائرۂ تقلید و احاطۂ تتبّع سے خارج نہیں ہوسکتے، اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ دہلی شاہجہاں آباد کے سوا دوسرا کوئی سا شہر ٹکسال اور مرکز اردو قرار نہیں پا سکتا، کیونکہ اردو لکھنا اور ہے اور اس کا صحیح لہجہ ادا کرنا اور۔
جس طرح ساکنان دہلی، اہل مشرق و اہل پنجاب کے موافق ہائے مخلوط یا ہائے ہوّز ایک خاص لہجہ سے ادا نہیں کرسکتے، اور اہل پنجاب حرف قاف کے تلفّظ سے معذور پائے جاتے ہیں، اسی طرح دہلی کے سوا دوسری جگہ کے رہنے والے یہاں کے لب و لہجہ میں ان کی برابری نہیں کر سکتے، لفظ ہواں صاحبان مشرق، لفظ بھرا باشندگان پنجاب جس خوبی سے ادا کریں گے، دہلی والے اگر سر پٹک کر مر جائیں گے تو بھی ان کے حلق سے ادا نہ ہوگا۔
اس میں شبہ نہیں کہ اہل دہلی صرف ایک ہی لفظ سے بتغیّر لہجہ مختلف معانی پیدا کرسکتے ہیں، فقط ایک ہاں کے لفظ یا اور کے استعمال کو دیکھئے کس کس موقع پر لہجہ بدلنے سے کیا کیا معنی دیتا ہے، علی ھذا القیاس بھلا، بہت اچھّا وغیرہ وغیرہ۔
اس موقع پر ہمیں چند ایسے شعروں کا لکھ کر دکھا دینا بھی مناسب ہے جو صرف لہجہ سے اپنی خوبی ظاہر کرتے اور ادائے مقاصد کا زور دار کام لیتے ہیں۔ اشعار ذیل با وجودیکہ خاص محاورات و اصطلاحات سے پہلو بچائے ہوئے ہیں، مگر ان میں اگر حرکات و سکنات اور لہجہ سے کام نہ لیا جائے تو سر تا سر بس لطف اور بے نمک بات ہوجائے، یہاں تک کہ کچھ بھی مزا نہ آئے، گو عشقیہ مضمون ہیں، مگر ایشیائی شاعری جب اسی پر موقوف ہے تو کیا کیا جائے، یہ اشعار ان لوگوں کے ہیں جنھیں زبان پر پورا پورا قابو اور اس کی حرکات و سکنات پر بدرجۂ اتم عبور حاصل ہے۔ اشعار__
میں نے ہی؟ بزم غیر میں کی شب کو مے کشی
میری ہی؟ آنکھوں میں تو نشہ ہے شراب کا
مسی مل کو تم نہ غرفہ سے نکالا منہ کرو
اور نہیں گر مانتے تو جاؤ؟ کالا منہ کرو
تم تو بیٹھے ہی بیٹھے آفت ہو!
اٹھ کھڑے ہو تو کیا قیامت ہو!
غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسہ کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کہ یوں
سر بوقت ذبح اپنا اس کے زیر پائے ہے
یہ نصیب اللہ اکبر! لوٹنے کی جائے ہے
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر
نہ تم! کہ چور بنے عمر جاوداں کے لئے
گل پھینکے ہیں عالم کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی
اب تو راضی ہو! کہ ہم جینے سے بیٹھے ہیں خفا
اب تو خوش ہو! کہ تمھارا کی کہا کرتے ہیں
کیوں دل زار محبت کا نتیجہ دیکھا؟
درد فرقت کا کوئی پوچھنے والا دیکھا؟
کیا کہیں! خاک کہیں! عشوہ گروں نے مارا
جان کر سیدھا سا بیچارا مسلماں ہم کو
جی بھی اٹھّو کہ یار آتا ہے
دم یہ خاصا دیا مسیحا نے
ہمدموں کا پوچھنا ہر دم مرا دم کھا گیا
رہو گے دل میں آنکھوں سے نہاں ہو
بھلا؟ بچ کر رہو! جاتے کہاں ہو
ہنس ہنس کے کرو تنگ نہ مجھ خاک نشیں کو
دیکھو! میں ہلا دوں گا ابھی چرخ بریں کو
پیو بھی! پلاؤ بھی! اس کا مزا ہے
یہ مینا رکھا ہے یہ ساغر دھرا ہے
مزا ہے یہی بات میں بات نکلے
ادا میں ادا جب نہ ہو پھر تو کیا ہے
کریں بت کدہ سے عبث قصد کعبہ
یہاں بھی خدا ہے وہاں بھی خدا ہے
رخصت کے وقت ہائے اس انداز کے نثار
انگڑائی لے کے اس نے کہا دیکھنا مجھے
ادھر میں ہوں ادھر محشر میں تو ہو
جو ہونی ہو خدا کے رو برو ہو
میخانہ میں کیا لطف ہے کیا مانگ ہے ساقی
آواز چلی آتی ہے لا اور پلا اور
میں بھی تو آزمائش مہر وفا کروں
میرا تو امتحان کئی بار ہوچکا
کبھی کی ہو چکی جاں تک بھی نذر جانستاں طالب
دھرا ہے خاک یہاں لینے جو کچھ اب موت آئی ہے
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزّت سادات بھی گئی
اس کی سیدھی سیدھی باتیں دل میں چبھتی ہیں بہت
ایسا ویسا تم نہ سمجھو اس کو بیدل دور ہے
منہ سے تو پھوٹ بیدل کیا تو نے جی میں ٹھانی
تیرا اداس رہنا آفت کی ہے نشانی
وہ قہقہے کہاں ہے وہ ولولے کدھر ہیں
روتا ہوں یاد کر کے گزری ہوئی جوانی
اب سانس کے لینے کی بھی طاقت نہیں باقی
بیدل کا برا حال ہے اللہ بچا لے
بھلا میں ان کے چکمہ میں کہیں آنے کے قابل ہوں
اگر اغیار بے ڈھب ہیں تو یاروں میں بھی بیدل ہوں
تھا جو اب آپ کی شکایت کا
ورنہ شکوہ ہمارا کام نہیں
سچ پوچئیے تو ملنا ممکن نہیں جہاں میں
دانا بھی آدمی سا نادان بھی بشر سا
خوشی جینے کی کیا مرنے کا غم کیا؟
ہماری زندگی کیا اور ہم کیا؟
کیا کہیں باغ جہاں میں کیا سے کیا کیا ہوگیا
خار صحرا گل ہوا اور پھول کانٹا ہوگیا؟
دیکھنا باد بہاری کی ذرا اٹھکھیلیاں
آج بلبل کا چمن میں گل سے کانٹا (جھگڑا) ہوگیا
میکدہ دور ہے کتنی اے شیخ
لو آؤ ابھی پی کے چلے آتے ہیں
کیسی شفا کہاں کی شفا یہ بھی چند روز
قسمت میں تھا کہ ناز مسیحا اٹھائیے؟
عاشق کی دلداری دلبر کیا ہی خدا را کرتے ہو
ان نیچی نیـچی نظروں سے تم کام ہمارا کرتے ہو
کہاں تک راز عشق افشا نہ کرتا
مثل ہے یہ کہ مرتا کیا نہ کرتا
اگر مینا کی گردن ختم نہ ہوتی
تو کیا ساقی کو میں سیدھا نہ کرتا
اس عاشق غریب کو گر وہ ستائیں گے
پہنچیں گے کس فلاح کو کیا فیض پائیں گے
ارادہ گد گدی کا اور نہ قصد بوسہ یاں دل میں
بھلا تم بیٹھے بیٹھے بے تکلف کیوں سنبھل بیٹھے
زاہد تجھے قسم ہے خدا کی ادھر تو آ
کیا نور سا جھلکتا ہے شیشہ کے جام میں
بت ہی بن کر آن بیٹھیں گے بلا تو لو ہمیں
کاٹ لینا تم زباں گر لب ہلائیں سامنے
ہم کو آرام ہو چکا ناصح
آپ کی بات اور طبیب کی بات
یاں تلک آکے پھر الٹا تمھیں جانا کیا تھا
کیا زمین ماپنے آئے تھے یہ آنا کیا تھا
یہ کبھی ہونی نہیں میں تمھیں سونے دوں آج
لاکھ اب آپ لیا کیجئے انگڑائیاں
ڈبا دیا مجھے اس چشم تر کو کیا کوسوں
جلا دیا مجھے سوز جگر کو کیا کوسوں
لو ہم ہی اس جہان سے روپوش ہو چلے
تہ کر رکھو اب آپ اس اپنے حجاب کو
قدم کو ہاتھ لگاتا ہوں اٹھ کہیں گھر چل
خدا کے واسطے اتنے تو پاؤں مت پھیلا
نہ روکو مجھ کو یہ کہہ کر کہ ہا! سنو تو سہی
وصال میں ہے ستم یہ ادا سنو تو سہی
چلو بس حضرت عیسی تم اپنا کام کرو
مریض عشق کو ہوگی شفا؟ سنو تو سہی
چھوٹ جائیں غم کے ہاتھوں سے جو نکلے دم کہیں
خاک ایسی زندگی پر تم کہیں اور ہم کہیں
دل کھول کے مل چکئیے جو میر سے ملنا ہے
آنکھیں بھی دکھاتے ہو پھر منہ بھی چھپاتے ہو
کچھ بات راز کی ہے ذرا کان لائیے
ہے جی میں آج خوب عدو کو بنائیے
کیا دیکھتا ہے ہاتھ مرا چھوڑ دے طبیب
یاں جان ہی بدن میں نہیں نبض کیا چلے
نہ کر برباد عمر بے بہا کی ایک ساعت بھی
کہ یہ جنس گراں مایہ کہیں جا کر بھی آتی ہے۔