درود و سلام
مدح نگار: سید عارف معین بلے
یہ احکم الحاکمین کا حُکم ہے کہ
ان پر درود بھیجو
صلوٰۃ بھیجو
سلام بھیجو
اے مومنو،
صبح و شام بھیجو
بصد ادب احترام بھیجو
مُدام بھیجو
درود کیا ہے؟
مِرے خدا کاہے یہ وظیفہ
جو، اَب ہماری زبان پر ہے
زمین پر ہی نہیں ہے یہ رحمتوں کی بارش
یہی عمل آسمان پر ہے
اِسی کی رحمت جہان پر ہے
درود کیا ہے ؟
سلام ِ رحمت
درود کیا ہے ؟
خدا کی ُسنّت
درود کیا ہے ؟
نبی کی مِدحت
درود نبیوں کی ہے طریقت
وفا شعاروں کی یہ شریعت
ملائکہ کا یہ شغل ِ احسن
درود ، نذرانہ ء عقیدت
درود کَفّارہ معصیت کا
درود سامان ِ خیر و برکت
درود سرچشمہ ء بصیرت
درود ، عرفاں ، درود حکمت
درود قرآں ، درود سُنّت
درود کیا ہے ؟
حصار بھی ہے ، پناہ بھی ہے
نجات کی ایک راہ بھی ہے
درودہے دافع ِ بلا بھی
درودہے رافع ِ وبا بھی
درود بخشش کا ہے وسیلہ
درود پَر ، طائر ِ دُعا کا
درود بے شک فلک رسا ہے
خدا کے محبوب کی ثنا ہے
محبتوں کا ہے قرض ہم پر
اے مومنو ، ہے یہ فرض ہم پر
درود اِک فرض ہی نہیں ہے
یہ حق ہے ، اورحق ۔۔
نبی ء برحق کا، سید المرسلین کا ہے
سلوک یہ سالکین کا ہے
یہ راستہ عارفین کا ہے
طریق روح الامین کا ہے
عمل یہ سب مرسلین کا ہے
نصاب، دنیا و دین کا ہے
شعار یہ عالمین کا ہے
یہ ورد ہے ۔۔۔۔ ورد ِ خاص ہے
جو کہ ارحم الراحمین کا ہے
یہی تو آتا ہے کام سب کو
یہی تو آئےگا کام سب کے
اے مومنو
بس یہ راہ چُن لو
سُنا ہے پہلے بھی ، پھریہ سُن لو
جو کام آئے ، عمل یہی ہے
ہر ایک مشکل کا حل یہی ہے
درود کیا ہے ؟
درود اِک نعت ہے جو میرے خُدا نے لکھی ہے
اور ، اس کی کتاب میں ہے
نصاب میں ہے
یہ نعت شان ِ پیمبر ِ ِانقلاب میں ہے
قسم قلم کی
کہ یہ رسالت مآب کی عظمت و فضیلت کے باب میں ہے
کرن میں سورج، شجر ہے اِک بیج میں ،سمندر حباب میں ہے
پڑھو تو معلوم ہو کہ ، امُّی ، مدینۃ العلم ، اُم الکتاب ۔۔اُم الکتاب میں ہے
بس اِتنی سی بات ہی نہیں ہے
درود اِک نعت ہی نہیں ہے
درود اسرار ِ معرفت کا ہے اِک خزینہ
تجلیوں سے اسی کی بن پایا طُور سینا
یہی سمندربھی ، ناخدا بھی ، یہی سفینہ
زمیں سے عرش ِ بریں تلک ہے درود زینہ
درود کُنجی ء باب ِ جنّت، کلید ِ قُفل ِ در ِ مدینہ
یہ نذر بھی ہے ، نیاز بھی ہے
دُعا بھی ہے ، یہ نماز بھی ہے
کرم بھی، احسان بھی ،عطا بھی
درود اللہ کی دَیا بھی
درود رحمت بھی ہے، جزا بھی
درود نعمت بھی ہے ، عطا بھی
یہ استغاثہ بھی ، استدعا بھی
درود تسلیم بھی، رضا بھی
درود سرچشمہ ء ہُدیٰ بھی
مکاشفہ بھی ، مراقبہ بھی
یہ تزکیہ بھی ، مجاہدہ بھی
بنام ِ خیر الانام ہر اُمتی کا ہے اِک مراسلہ بھی
یہ ہے خدا سے مکالمہ بھی
یہ باب ِ رحمت پہ ایک دستک
یہ اہل ِ دل کی پُکار بھی ہے
یہ سحر ، آسیب کا ، نظر کا
ہر اِک بلا کا اُتار بھی ہے
درود کیا ہے؟
درود برکات کی ہے بارش
فضیلتوں کا حساب کیسا ؟
یہ توشہ ء آخرت ہے ، سوچو
تو صرف اجر و ثواب کیسا ؟
گھٹن میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا
درود ظلمت میں روشنی ہے
یہ روشنی آنحضور کی ہے
درود برسات نور کی ہے
درود سے بخت جاگتا ہے
بے آسروں کا یہ آسرا ہے
کسی کاجادو چلے بھی کیسا ؟
درود اِک موسوی عصا ہے
نجوم کی سب نحوستوں کا
درود سے خاتمہ ہوا ہے
درود پڑھ کر ہی مہر اپنا
ابوالبشر نے ادا کیا ہے
درودجو بھی نبی پہ بھیجے
خدا بھی خود اس پہ بھیجتا ہے
یہی ہے سچ اے وفا شعارو
خدا کے پیارو
درود سے عاقبت سنوارو
برس رہی ہے فلک سے شبنم۔
لو، چہرہ ء زندگی سنوارو
نبی ء رحمت کی رحمتوں کو ،چلو پُکارو
عقیدتوں کے پیام بھیجو
بنام ِ خیر الانام بھیجو
درود بھیجو ، سلام بھیجو
درود اِتنا ، ہیں جتنے آکاش پر ستارے
سمندروں میں ہیں جتنی موجیں، ہیں جتنے دھارے
درود اِتنا ۔ زمین پر جتنے ہیں نظارے
درود اِتنا ۔گرے ہیں دھرتی پہ آج تک جتنے آب پارے
درود اِتنا ۔۔ہیں جتنے آباد لوگ دریاءوں کے کنارے
کُتب میں جتنے بھی ہیں زبر، پیش ، الفاظ، جزم ، شوشے
درود اتنا کہ اہل ِ علم و ادب نے برتی ہیں جتنی تشبیہں استعارے
درود اتنا ، دعائیں جتنی ہیں ، جتنے بھی خواب ہیں ہمارے
نبی ء رحمت کی رحمتوں پر ہے جتنا بھی انحصار ، اِ تنا درود بھیجو
محبتوں کا یہ رشتہ ہو استوار ، اتنا درود بھیجو
سکون مل جائے آئے دل کو قرار اتنا درود بھیجو
ہیں جتنے قدرت کے بھی مظاہر ، ہیں جتنے بھی شاہکار ، اتنا درود بھیجو
کتاب ِ ہستی پہ ثبت جتنے بھی ہیں نقوش و نگار اتنا درود بھیجو
ہیں جتنے اشجاراور ان پر ہے جتنا بھی برگ و بار اتنا درود بھیجو
چمن میں بکھرے ہیں جتنے رنگ ِ بہار اتنا درود بھیجو
ہیں پھول جتنے قطار اندر قطار اتنا درود بھیجو
وہ جتنے بھی انبیاء کے ہیں تاج دار اتنا درود بھیجو
مِرے نبی کے ہیں جتنے بھی پیروکار اتنا درود بھیجو
نبی کی اُمت نے بھیجے ہیں جتنی بھی دعاءوں کے ساتھ اشکوں کے تار اتنا درود بھیجو
برس پڑے ٹوٹ کر ابھی رحمت ِ کردگار اتنا درود بھیجو
تمام نبیوں نے ، سب فرشتوں نے عاشقان ِ رسول نے
جتنی بار بھیجے ہیں جو درودوں کے ہار اتنا درود بھیجو
جہاں بھی ہوجائے ختم گنتی شمار اتنا درود بھیجو
تمھارے بس میں ہے جتنا بھی اختیار اتنا درود بھیجو
خدا کو اپنے نبی سے ہے جتنا پیار اتنا درود بھیجو
درود و سلام
مدح نگار: سید عارف معین بلے