پنجندڈاٹ کام پر اسامہ رضا کا کالم ’’محبت کی حقیقت‘‘ پڑھا۔انہوں نے نفسیاتی سائنس کے حوالے سے محبت کے جذبے کو ایک بیماری قرار دیا ہے۔جدیدتحقیق کے مطابق اس بیماری کی مختلف اقسام ہیں۔ یہ کالم اس لنک پر پڑھا جا سکتا ہے۔
میں جدید سائنسی علوم کامعترف ہوں اور ان کی پیشرفت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔عمومی طور پر ان علوم کے تحت بڑے اہم انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔ان انکشافات کو پھر مختلف افراد کی عملی زندگیوں پر منطبق کرکے بھی دیکھا جاتا ہے۔جہاں بہت سارے انکشافات درست ثابت ہوتے ہیں وہیں بہت سارے غلط بھی نکلتے ہیں۔سائنسی علوم سے وابستہ اسکالرزکی یہ خوبی ہے کہ اپنی کسی تحقیق کو غلط ہوتا دیکھ کر وہ مشتعل نہیں ہوتے،اپنی بات پر اڑ نہیں جاتے بلکہ اپنی تحقیق پر نظر ثانی کرتے ہیں۔نئے عملی حقائق کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا موقف تبدیل بھی کر لیتے ہیں۔اس مثبت رویے نے سائنس کو اور سائنسی ترقی کو جامد نہیں ہونے دیا۔پھر انسانی نفسیات کی سائنس تو بہت وسعت مانگتی ہے کیونکہ(بقول یارِ عزیز اکبر حمیدی) دنیامیں انسانوں کی اتنی ہی قسمیں ہیں جتنے کہ انسان ہیں۔
محبت کی بعض اقسام میں دیوانگی کی وہ صورتیں ہو سکتی ہیںجو ابھی تک ماہرین نفسیات نے بیان کی ہیں۔لیکن اس کے باوجود محبت ایسا زبردست جذبہ ہے جو انسان کو زبردست قوت اورخوشگوار احساسات سے بھر دیتا ہے۔ہاں جب محبت میں دھوکہ ہو تب اس کا ردِ عمل شدید صدمے کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔لیکن صرف محبت ہی کیوں؟۔۔۔زندگی کے کسی بھی شعبے میں جب کسی کے ساتھ ظلم،زیادتی، بدمعاشی، دھوکہ ،فراڈ وغیرہ ہوتا ہے تب بھی وہ اسی طرح ردِ عمل ظاہر کرتا ہے جیسا محبت میں دھوکے پر ظاہر کرتا ہے۔یہ محبت کے جذبے کا قصور نہیں ہے بلکہ انسانی مزاج کا عمومی حصہ ہے۔
ماہرین نفسیات کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن میں ذاتی طور پر بہت سارے ماہرینِ نفسیات کو جانتا ہوں جو اتنی ساری جانکاری ہونے کے باوجود خود ایک ناکام و نامراد زندگی گزارچکے ہیں ،گزار رہے ہیں۔محبت نہ سہی اچھی شادی شدہ زندگی بھی انہیں نصیب نہ ہو سکی۔مقصد طعنہ زنی نہیں بلکہ یہ نشان دہی کرنا ہے کہ ایسی باتیں بتانے والے خود بھی تو اچھے عملی انسان بن کر دکھائیں۔اپنا علاج کرلیں۔
جدید سائنس نے یہ بھی بتا رکھا ہے کہ مختلف جذبات اور احساسات مختلف کیمیائی مادوں کی کمی بیشی کا کھیل ہے۔غصہ،صدمہ،حسد،غم،خوشی،اور اسی طرح کی دیگر ساری کیفیات مختلف کیمیائی مادوں کی کمی یا زیادتی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ان میں توازن پیدا کرکے ان کیفیات کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔یوں سارے جذبے ہی انسان کے اندرکیمیائی مقدار کا اظہار ہیں۔اس صورت میں محض محبت کے جذبے کو مطعون کرنا شاید مناسب نہیں لگتا۔
یہاں میں اپنا حالیہ برسوں کامحبت کاذاتی تجربہ بھی بیان کردوں تاکہ میرے موقف کو سمجھنے میں مزید آسانی ہو جائے۔نوٹ کر لیں2023 میںمیری عمر 71سال ہو چکی ہے۔
میری اہلیہ 2019 ء میں فوت ہوئیں۔فروری 2020 میں مجھے بائیں گردے میں ٹیومر تشخیص ہوا اور وہ گردہ نکال دیا گیا تاکہ کینسر باقی جسم تک نہ پہنچے۔لیکن چند ماہ کے بعد جگر میں بھی کینسرظاہر ہو گیا۔تب کینسر کا باقاعدہ علاج شروع ہوا۔ابھی اس علاج کو چند ماہ ہوئے تھے کہ برین ٹیومر بھی سامنے آگیا۔گویا موت نے مجھ پر یکے بعددیگر تین بار حملہ کیا۔اسی دوران کرونا بھی پھیلا ہوا تھا اور مجھے متعدد دیگر امراض بھی لا حق ہوتے رہے جن کی وجہ سے بار بارایمبولینس بلانا پڑتی۔اتنی بیماریوں سے گزارنے کے بعد جنوری 2022 میں، اللہ تعالیٰ نے کینسر جیسی ہولناک بیماری سے نجات عطا کردی۔رفتہ رفتہ دیگر امراض سے بھی نجات ملتی گئیں۔میں صحت یاب تو ہو گیا لیکن کمزوری شدید تھی۔دوتین سال کے بچے کی طرح لڑکھڑاتے ہوئے چلتا تھا۔اسی حالت میں مجھے سوشل میڈیا کے ذریعے تین طوفانی محبتوں سے گزرنا پڑا۔اس کاقدرے تفصیلی ذکر میرے آرٹیکل’’تین طوفانی محبتیں‘‘میں موجود ہے۔یہ پنجند پر اس لنک پربھی موجود ہے۔
ان محبتوں کا مجھ پر بڑا گہرا اور مثبت اثر ہوا۔میں اکہتر سال کا بندہ،’’کینسر سروائیور‘‘ ان تین محبتوں سے گزرتے ہوئے اتنا سرشار ہوا ،اور مجھ میں اتنی طاقت بھر گئی کہ اب میں بالکل ’’فٹ فاٹ‘‘ہوں۔اسی لئے میں نے لکھا ہے کہ محبت انسان میں قوت اورخوشی بھر دیتی ہے۔ان محبتوں سے مجھے کچھ بھی نہ ملا ہو تب بھی یہ کیا کم ہے کہ ان محبتوں نے صحت یابی کے بعدمجھے تنومند بھی کر دیا اور میری تنہا زندگی میں کتنے ہی رنگ بھی بھر دیئے۔
میری ان تین محبتوں میں سے ایک کو خاندانی مسائل پیش آ گئے اور میں خود اس کے لئے اس سے زیادہ محتاط ہو گیا۔کوئی بدمزگی نہیں ہوئی۔تیسری نے بڑا فراڈ کیا تھا۔میں اس سے ڈسٹرب تو ہوا لیکن میں نے اپنے ہوش و حواس کو قائم رکھا اورایک کتاب لکھ دی’’سوشل میڈیا کی محبتیں‘‘۔۔دوسری ابھی تک چل رہی ہے اور عزت و آبرو کے ساتھ چل رہی ہے۔بعد کے حالات نے مجھ پر کوئی برا اثر نہیں ڈالا جبکہ پہلے حالات میں تین محبتوں نے میرے لئے ٹانک کا کام کیا۔یہ کوئی شوخی بگھارنے والی بات نہیں ہے،واقعتا محبت کے ان تجربوں نے میری زندگی پر،میری صحت پر بہت اچھے اثرات مرتب کئے ۔اب ماہرین نفسیات محبت کے اس پہلو کا بھی جائزہ لیں کہ اس کے اتنے اچھے اثرات کیسے رونما ہوئے۔اور اگر اسے بھی بیماری ہی شمار کرنا ہے تو پھر اس کا بھی کوئی نام تجویز کریں۔میں ماہرین نفسیات کے کسی بھی تشخیصی تجربے سے گزرنے کے لئے تیار ہوں۔جو آئے،آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیدیاں کے غازی جیسور کے باغی
مشرقی بنگال کےآتش بجانوں کو سلام لاہورمیں رائل آرٹلری بازار کی قربت میں گنجِ شہیداں ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈکی زیرِنگرانی اس...