یہ گنہگار اُن لوگوں میں سے نہیں جو قائداعظم کو سیکولر قرار دینے پر مصر ہیں یا انہیں مولوی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ قائداعظم کو اپنے پسندیدہ خانوں میں فٹ کرنا اُن کی تو ہین ہے۔رہا پاکستان کا اسلامی تشخص تو اس کے بغیر چارہ ہی نہیں۔ بھارت سے الگ ہونے کا مطلب ہی یہ تھا کہ ہماری شناخت اسلام ہے۔ پاکستان اس لیے بنا تھا کہ یہاں اسلامی اخوت و مساوات اور اسلامی احکام کے مطابق عوام سے انصاف کیا جائے۔ ہمارے فاضل دوست جب اسلام کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو ہم ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ ہماری گزارش صرف یہ ہے کہ ہم اس جدوجہد میں حقائق کو مسخ نہ کریں۔ قائداعظم کے ساتھی بھی ہمارے لیے قابلِ احترام ہیں۔ شہید ملت لیاقت علی خان کے بارے میں یہ تاثر دینا کہ وہ قادیانی وزیر خارجہ کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے‘ افسوس ناک ہے!
ہمارے فاضل دوست نے اپنے اٹھارہ مئی 2013ء کے کالم (جمہوریت کے اجارہ دار) میں تین دعوے کیے۔ اوّل: قائداعظم کی ہدایت پر لاہور میں علامہ اسد کی سربراہی میں ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن قائم ہوا تھا۔ دوم: قائداعظم نے اسد کو ستمبر 1947ء میں ریڈیو پر تقاریر کرنے کی ہدایت کی۔ سوم: جب اسد کے محکمے نے اپنا تمام کام مکمل کیا تو وہ یہ سفارشات لے کر وزیراعظم لیاقت علی خان کے پاس گئے۔ انہوں نے یہ سب کچھ اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کے حوالے کیا جس نے انہیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ 27 دسمبر 2013ء کے ایک انگریزی اور انہی کے اردو معاصر میں ہمارے فاضل دوست کے حوالے سے جو خبر چھاپی گئی اس میں دو دعوے کیے گئے۔ اوّل: پاکستان کے قیام کے بعد قائداعظم نے اپنے پہلے ایگزیکٹو اقدام کے طور پر ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن قائم کرنے کے لیے احکامات دیے تھے۔ دوم: قائداعظم کی رحلت کے بعد اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ ظفر اللہ خان نے علامہ کا تبادلہ کرا دیا اور انہیں امور خارجہ سے وابستہ ملازمت دے دی‘‘۔
ہماری گزارش صرف یہ ہے کہ ان دعوئوں کے حق میں وہ کوئی حوالہ عنایت کردیں۔ کوئی ثبوت دے دیں۔ ہم نے اپنے کالموں میں جو 20 مئی‘ 23 مئی‘ 30 دسمبر اور 31 دسمبر کو شائع ہوئے علامہ اسد کی خودنوشت ’’ہوم کمنگ آف دی ہارٹ‘‘ کے حوالے مع صفحات نمبر دے کر تفصیل سے بتایا کہ یہ سارے دعوے حقیقت کے خلاف ہیں۔ ہمارے فاضل دوست نے اب تک الحمد للہ ہمارے کسی حوالے کو غلط نہیں قرار دیا! وہ کہتے ہیں کہ ’’تحقیق کے عالمی اصولوں کے مطابق یادداشتیں دوسرے درجے کا ماخذ تصور کی جاتی ہیں‘‘۔ لیکن انہوں نے پہلے درجے کا بھی کوئی حوالہ کوئی ثبوت نہیں دیا سوائے اس کے کہ ’’مرکزی حکومت کی منظوری قائداعظم کی منظوری تھی‘‘۔
اگر نواب آف ممدوٹ نے‘ جو قائداعظم کے سپاہی تھے‘ یہ کام سرانجام دیے تو تسلیم کرنے میں کیا برائی ہے؟ علامہ اسد کی خود نوشت کے مطابق یہ کام نواب آف ممدوٹ نے کیے تھے۔ ہمارے دوست نے خود ان کی خودنوشت کا اقتباس پیش کیا ہے جو یہ ہے۔ ’’جوں ہی میں ان کے دفتر میں داخل ہوا ممدوٹ صاحب رسمی تعلقات کی پروا کیے بغیر کہنے لگے میرے خیال میں اب نظریاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدام کرنا چاہیے۔ آپ نے ان کے بارے میں تقریراً اور تحریراً بہت کچھ کیا۔ آپ کیا تجویز کرتے ہیں۔ کیا ہمیں وزیراعظم سے رجوع کرنا چاہیے‘‘۔ لیکن اس کے بعد جو کچھ علامہ اسد نے لکھا‘ اسے ہمارے دوست نے نہیں نقل کیا۔ علامہ اسد آگے لکھتے ہیں۔ ’’کئی روز سے مجھے ایسے سوال کا انتظار تھا چنانچہ میں نے پہلے ہی سے اس کا جواب سوچ رکھا تھا… ’’ابھی مرکزی حکومت نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا اس لیے نواب صاحب! آپ ہی اس ضمن میں پہل کیجیے۔ میری رائے میں آپ ہی کو پنجاب میں ایک ایسا خصوصی ادارہ قائم کرنا چاہیے جو ان نظریاتی مسائل کو زیر بحث لا سکے جن کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے۔ خدا نے چاہا تو آئندہ مرکزی حکومت بھی اس اہم فریضے کی جانب متوجہ ہو گی۔ اس وقت وہ اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے میں مصروف ہے۔ ان حالات میں شاید وزیراعظم یا قائداعظم ادھر زیادہ توجہ نہ دے سکیں۔ نواب صاحب فوری قوت فیصلہ کی صلاحیت کے مالک تھے چنانچہ انہوں نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے پوچھا ’’آپ کے اس مجوزہ ادارے کا نام کیا ہونا چاہیے؟‘‘ میں نے جواباً عرض کیا اس کا نام ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن ہونا چاہیے۔ ممدوٹ صاحب نے بلاتوقف کہا ’’بالکل درست ایسا ہی ہوگا۔ آپ اس ادارے کے قیام کا منصوبہ اور اخراجات کا تخمینہ تیار کیجیے۔ آپ کو سرکاری طور پر اس ادارے کا ناظم مقرر کیا جاتا ہے اور آپ کی ماہوار تنخواہ شعبۂ اطلاعات کے ناظم جتنی ہوگی۔ مجھے امید ہے آپ اسے قبول کر لیں گے‘‘۔ مجھے امید نہیں تھی کہ اتنی جلدی فیصلہ ہو جائے گا لیکن نواب ممدوٹ کے فیصلوں کا یہی انداز تھا (ہوم کمنگ آف دی ہارٹ۔ محمد اسد مطبوعہ 2009ء‘ صفحہ 111-112)
یہ محمد اسد کا اپنا بیان ہے۔ اس سے صریحاً واضح ہو رہا ہے کہ اس منصوبے میں وزیراعظم یا قائداعظم یا مرکزی حکومت کا کوئی دخل نہیں تھا اور ڈیپارٹمنٹ کا نام بھی محمد اسد نے خود تجویز کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا محمد اسد نے جھوٹ لکھا ہے؟
خدارا غور کیجیے کہ کیا قائداعظم اس بات کے محتاج ہیں کہ جو کچھ انہوں نے نہیں کیا‘ ان کے نام لگا دیا جائے؟ ایسا کرنے سے ان کی عظمت میں اضافہ نہیں ہوگا۔ کیا قیام پاکستان سے بڑا کارنامہ بھی کوئی ہو سکتا ہے؟ آج ہم جو کچھ ہیں‘ پاکستان کی بدولت ہیں۔ اپنے فاضل دوست کے بارے میں‘ میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن جہاں تک اس گنہگار لکھاری کا تعلق ہے‘ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے دیا اور بچوں کو جس مقام پر پہنچایا‘ سب پاکستان کی بدولت ہے۔ یہ صدقۂ جاریہ قائداعظم کا کارنامہ ہے۔ اس کے بعد وہ ہمارے کسی خود ساختہ حوالے کے ہرگز محتاج نہیں!
ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن سے علامہ اسد کے وزارتِ خارجہ میں تبادلے کو ظفر اللہ خان کی کارروائی قرار دینا لیاقت علی خان کے ساتھ سخت ناانصافی ہے۔ علامہ اسد خود لکھتے ہیں کہ وزیراعظم نے انہیں جنوری 1948ء میں یعنی قائداعظم کی رحلت سے آٹھ ماہ قبل کراچی بلایا اور کہا… ’’آپ پاکستان کے ان معدودے چند لوگوں میں سے ہیں جو مشرق وسطیٰ کے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ آپ کو عربی اور فارسی پر کامل دسترس حاصل ہے۔ ہمیں وزارتِ خارجہ میں آپ جیسے شخص کی ضرورت ہے‘‘۔ کیا اب بھی کوئی شک باقی ہے کہ وزارت خارجہ میں علامہ اسد کا تبادلہ لیاقت علی خان نے خود کیا تھا؟ ہمارے فاضل دوست کہتے ہیں کہ ’’قائداعظم کی رحلت کے بعد اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ نے علامہ کا تبادلہ کرا دیا اور انہیں امور خارجہ سے وابستہ ملازمت دے دی‘‘۔ غلط کیا ہے اور صحیح کیا ہے‘ اس کا فیصلہ قارئین خود کر لیں۔ ہم اپنے آخرِ دسمبر کے مضامین میں تفصیل سے بتا چکے ہیں کہ لیاقت علی خان نے وزارت خارجہ میں محمد اسد سے کیا کام لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب میں پاکستان کا سفارت خانہ کھلوا کر علامہ اسد نے ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا تھا! ہمارے دوست کا یہ کہنا کہ ’’اسد سفارشات لے کر وزیراعظم لیاقت علی خان کے پاس گئے۔ انہوں نے یہ سب کچھ اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ کے حوالے کیا جس نے انہیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا‘‘ شہیدِ ملت لیاقت علی خان پر ایک بہتان ہے جس کا بہتان لگانے والے کوئی ثبوت بھی نہیں پیش کر رہے!! لیاقت علی خان پر یہ تہمت لگانے سے پہلے اتنا تو سوچنا چاہیے کہ یہی لیاقت علی خان تھے جو قراردادِ مقاصد کی پشت پر تھے۔ دیانت ان کی قابلِ رشک تھی۔ شہید ہوتے وقت ان کے ہونٹوں پر پاکستان کا نام تھا۔
ہمارے فاضل دوست جب رونا روتے ہیں کہ علامہ اسد کی رخصتی کے بعد اسلامک ری کنسٹرکشن کے اغراض و مقاصد کو پسِ پشت ڈال دیا گیا تو اس رونے میں ہم اُن کے ساتھ شریک ہیں۔ آرکائیو میں آگ لگائی گئی‘ سازش ہوئی۔ سب درست ہے۔ ہم تو فقط قائداعظم اور محمد اسد کے حوالے سے جو کچھ وہ دعویٰ کرتے ہیں‘ اس کے ثبوت کے لیے التماس کرتے ہیں۔ جب وہ شکوہ کرتے ہیں کہ علامہ اسد کا نام کسی نصابی کتاب میں نہیں اور انہیں تحریک پاکستان کے رہنمائوں میں شامل نہیں کیا گیا‘ تم ہم اپنے دوست کا بھرپور اور پرزور ساتھ دیتے ہیں۔ اس نویسندہ نے اپنے 19 اکتوبر 2010ء کے کالم میں لکھا تھا…
’’پاکستان کے اس پہلے شہری کو ہم فراموش کر چکے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ لاہور کی کسی شاہراہ اور اسلام آباد کے کسی خیابان کو محمد اسد کے نام کردیا جائے؟ اگر آپ اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں تو آج ہی وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے نام الگ الگ خطوں میں یہ مطالبہ کریں۔ کیا عجب فوڈ سٹریٹ میں دلچسپی لینے والے حکمران ہمارے قارئین کا یہ مطالبہ مان لیں! اگرچہ ان سے چمٹی ہوئی ’’عالم فاضل‘‘ بیوروکریسی ضرور پوچھے گی کہ محمد اسد؟ کون محمد اسد؟‘‘
رہا ہمارے فاضل دوست کا ہمیں کج بحث قرار دینا اور طنز سے محمد اسد کی زندگی کا ’’ماہر‘‘ کہنا تو ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں اس بات سے کہ ایسا کوئی تیر اپنے دوست پر یا کسی بھی مسلمان بھائی پر چلائیں۔ وہ عمر میں چھوٹے سہی‘ علم اور نیکوکاری میں اس گنہگار سے کہیں برتر ہیں۔ یہ نویسندہ ماہر نہیں‘ علامہ اسد کی تحریروں کا فقط ایک ادنیٰ طالب علم ہے اور خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ علامہ اسد کو دیکھنے اور ملنے کا موقع ملا۔
یہ اس بحث کا ہماری طرف سے آخری مضمون ہے۔
اس قضیے میں اگر ہمارے کسی لفظ سے دوستِ عزیز کی دل آزاری ہوئی ہو تو ہم بصدقِ دل معذرت خواہ ہیں۔ ہمارا حال تو بقول سعدی یہ ہے کہ ؎
کفیتَ اذیً یا مَنْ تَعُدُّ مَحَاسِنی
علا نیتی ھذا و لَمْ تَدرِ ما بَطَن
http://columns.izharulhaq.net/2014_01_01_archive.html
“