من کی بات اور سترہ منٹ کی تقریر میں مودی نے نہ چین کا ذکر کیا نہ مسلمانوں کا . درگا پوجا ، چھٹ ، دیوالی کا تذکرہ ہوا ، غریبوں کی جھولی بھرنے کے وعدے ہوئے مگر چین اور مسلمانوں سے فاصلہ رکھا گیا . مودی کی یہی اسٹریٹجی اکثریتی فرقہ کا دل جیت لیتی ہے . مگر مودی عرب ممالک کی سیر پر بھی جاتے ہیں . وہاں مندر کی تعمیر پر بھی زور دیتے ہیں . عرب ممالک کے سربراہان کے آگے خندہ پیشانی سے جھکتے بھی ہیں . مودی کے بھکت ایسے واقعات کو مودی کی سیاست سے وابستہ کر کے دیکھتے ہیں . اور انھیں اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ مودی نے عرب جا کر بھی ہندوتو کا پرچم لہرا دیا . مودی نے سب سے پہلے ٹوپی پہننے سے انکار کیا اور یہی وہ عمل تھا جس سے وہ اکثریتی طبقہ میں ہیرو قرار دیے گئے . کورونا سے اگر ہندوستان کی اکثریت پریشان ہے تو دلت ، مزدور کلاس اور مسلمان بھی . بہار میں انتخاب نزدیک ہے . اور فارمولہ وہی ہے ، اینٹی مسلم سیاست . بہار کے مزدور اور غریب عوام ناراض ہیں . ممکن ہے ، اس صورت میں بھی اینٹی مسلم گیم کام کر جائے . مجھے وہ واقعات یاد آ رہے ہیں جو ٢٠١٣ سے قبل رونما ہوئے . چھ سات برس پہلے کا ہندوستان کیسا تھا ، اور کیا تبدیلیاں آ رہی تھیں . کیا اڈوانی اگر وزیر اعظم بن گئے ہوتے تو ہندوستان آج کے ہندوستان سے مختلف ہوتا ؟ کیا اڈوانی اس راز کو سمجھ گئے تھے کہ بغیر مسلمانوں کو ساتھ لئے اس ملک میں حکومت نہیں ہو سکتی ؟
اڈوانی کا پاکستان قائدِ اعظم جناح کے مزار پر جانا اور قائد اعظم کی حمایت میں بیان دینا ہندوستانی مسلمانوں کی حمایت کی ایک کڑی تھی مگر بھاجپا میں بیٹھے اڈوانی کے مخالفین اس تیر کا منشا جان گئے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندستانی مسلمان قائد اعظم سے محبت کرتے ہیں، بلکہ ایک بڑا سچ یہ ہے کہ ہندستانی مسلمان کبھی جناح سے محبت کا رشتہ وابستہ ہی نہیں کرسکے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی جناح کو تقسیم کا ذمہ دار مانتی ہوئی انہیں آج تک معاف نہیں کر پائی۔ اس نسل کے لوگ جنہوں نے تقسیم کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے، اب آہستہ آہستہ رخصت ہو چکے ہیں یا عمر کے اس پڑاﺅ پر ہےں جہاں تقسیم صرف ایک ڈراﺅنا خواب بن کر رہ گئی ہے۔ ہندستان میں مسلمانوں کی نئی نسل نہ تقسیم کو سمجھنا چاہتی ہے اور نہ ہی اس کے دل میں قائد اعظم کے لیے کوئی جگہ ہے۔ اس کے باوجود نفسیاتی طور پر ایسا لگتا ہے جیسے اگر اس وقت جناح والی بات پر بھاجپا کا غصہ سامنے نہیں آتا، تو مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ چھٹک کر بھاجپا کے پلڑے میں بھی جا سکتا تھا۔ لیکن بھاجپا کے ہوشیار سیاستداں اڈوانی کے بیان کی حقیقت جانتے تھے۔ اڈوانی کے لیے اس بیان کی حقیقت اس تیز کی طرح تھی جو نشانے پر نہیں پہنچ سکا۔اور اس کے بعد سیاست میں اپنا بھرم قائم رکھنے کی کوئی بھی حکمت عملی اپنا کام نہیں کرسکی اور وہ حاشیے پر ڈھکیل دیئے گئے۔ اس وقت سے مسلسل وہ حاشیے پر ہی ہیں۔ جناح کا اونٹ کبھی کبھی بھاجپا میں حرکت کرتا بھی ہے تو اڈوانی اس سے اپنا پلڑا جھاڑتے ہوئے مجبور نظر آتے ہیں۔
اڈوانی کا جناح والا بیان ایسے وقت آیا تھا، جب بھاجپا کم و بیش ایک ڈوبتی ناﺅ بن چکی تھی۔ یہ بیان اس وقت ایک نئی بھاجپا کی بنیاد بھی بن سکتا تھا ، جس کا ایک معنی یہ لیا جانا چاہئے کہ بھاجپا اپنے نئے تیور میں دیگر مذاہب، ان کے ماننے والوں، ان کے لیڈران کے لیے اپنا رخ نرم کرسکتی ہے۔ اور یہ وقت کی ایک بڑی تبدیلی کا ایک مثبت اشارہ بھی ہوتا۔ کیونکہ وقت وقت پر نظریہ اور اصولوں میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔بادشاہ بابر جب اپنے لوگوں کے ساتھ پہلی بار ہندستان آیا تو اس نے اپنے سپاہیوں کو یہی کہا کہ یہ ہندو محبت کی زبان جانتے ہیں۔ ان سے گھل مل جاﺅ تو یہاں رہنے اورحکومت کرنے میں آسانی ہوگی۔
رتھ یاتراﺅں سے گزرنے کے بعد اڈوانی حکومت کے اس منتر کو جان گئے تھے اور پاکستان سے لوٹنے کے بعد جناح کے بہانے انہوں نے محبت کی سیاست کو ہوا دینے کا کام کیا تھا۔ لیکن پارٹی میں اٹل بہاری باجپئی کے حمایتی یہ بخوبی جانتے تھے کہ اگر اڈوانی کی یہ سیاست عملی کا م کرجاتی ہے تو پارٹی میں باجپئی سے بڑی اہمیت اڈوانی کی ہوجائے گی۔ مخالفت کا بازار شروع ہوا۔ اور اس وقت سے دیکھے تو اڈوانی کی الجھن یہ تھی کہ وہ ہیٹ اینڈ لو فار مولے میں ہی الجھے رہے۔ جبکہ راج ناتھ نے مودی کے ساتھ مل کر ہندو تو کے پرانے فارمولے کو سامنے لا کر ظاہر کردیا کہ حکومت میں رہتا ہے تو صرف اور صرف اکثریت کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔
سن دو ہزار تیرہ تک کئی پارٹیاں بے نقاب ہوچکی تھیں ۔ عام مسلمانوں کی مشکل یہ تھی کہ سیاست کے بدلتے منظرنامے میں وہ کس کا ساتھ دیں اور کس کے ساتھ نہ جائیں۔ کیونکہ آزادی کے بعد کی بدلتی فضا میں تمام پارٹیوں کو نہ صرف آزما چکے تھے بلکہ اس حقیقت کو بھی جان گئے تھے کہ یہ پارٹیاں صرف اور صرف ان کا سیاسی استعمال کرتی رہی ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب تقسیم کی وکالت کرتے ہوئے شیخ عبداللہ نے کہا تھا کہ جو قوم مسلمانوں کے ہاتھ سے ایک گلاس پانی نہیں پیتی وہ مسلمانوں کو انکا حق کیسے دے گی۔ مودی کی زبان میں کہا جائے تو جو شخص مسلمانوں کے ہاتھ سے ایک ٹوپی قبول نہیں کرتا، وہ مسلمانوں کے ساتھ آنے والے وقت میں کیا سلوک کرے گا، اسے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد سے اب تک ، یعنی چھ برسوں میں جو کچھ ہوا ،وہ سب کے سامنے ہے . مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنا . امیت شاہ کا غیر مسلموں کو تحفظ دینے والا بیان . سی اے اے . شاہین باغ کا احتجاج ، موب لنچنگ ، اور ان واقعات و حادثات کی روشنی میں دیکھئے تو مسلمان کسی اجنبی سیارے یا مریخ کا باشندہ ٹھہرا ، جس کا نام لینا بھی گناہ .حکومت کے پاس سیاسی فتح کے لئے ایک ہی کنجی ہے –مسلمان .
اردو زبان میں اسم کی تعریف
۱۔ اسم اسم وہ لفظ ہے جو کسی کا نام ہو۔ اس کی دو قسمین ہین ۱۔ خاص ۲۔ عام...