میرے کل دو دوست جو میرے بلاگز کے شوقین بھی ہیں نیں اپنی فیس بک پوسٹز پر لکھا ، کے وہ اپنی زندگیوں سے بہت ناخوش ہیں اور سوچ رہے ہیں کے کسی طرح یہ دنیا کے دروازے اب ان کے لیے بند ہو جائیں ۔ مجھے مشہور امریکی شاعر اور لکھاری سیلویا پلاتھ یاد آ گئ ، جس نے بھی اپنے ایک خط میں والدہ کو خودکشی سے ایک ہفتہ پہلے یہ لکھا ؛
“I am incapable of being myself and loving myself. Now the babies are crying, I must take them out to tea”
سیلویا کے پاس پیسہ بھی تھا اور شہرت بھی ، لیکن اندر کا موسم اچھا نہیں تھا ۔ اس کی عمر صرف تیس سال کی تھی جب اس نے خودکشی کی ، اور اس سے پہلے دو دفعہ وہ خودکشی میں ناکام ہوئ ۔ ایک دفعہ والدہ کی نیند آور گولیاں کھا لیں اور دوسری دفعہ کار نہر میں ڈرائیو کرنے کی کوشش ناکام رہی ۔ ۲۰۰۹ میں سیلویا کے بیٹے نے یہاں امریکہ میں تقریباً پچاس سال کی عمر میں خودکشی کی ۔ اس کی بیٹی ابھی زندہ ہے اور یکسر تنہائ کی زندگی گزار رہی ہے ۔ وہ صرف تب متحرک ہوئ تھی جب اس کے والدین کی زندگی پر فلم بنانے کی کوشش ہوئ جو اس نے رُکوا دی ۔
کیا اس کا genetics سے تعلق ہے یا حالات و واقعات سے ؟ ایک امریکی حیاتیات میں نوبل انعام یافتہ جیمس واٹسن آجکل یہاں امریکہ میں شدید تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے ۔ ۹۰ سالہ جیمس جس نے ڈی این اے پر ۲۵ سال کی عمر میں ایک اور سائنسدان کے ساتھ ۵۰ کی دہائ میں نوبل انعام جیتا سے تمام اعزازات واپس لیے جا رہے ہیں ۔ جیمس نے اپنے حالیہ بیان میں یہ کہا کے سیاہ فام نسل کے لوگ گوروں سے زہانت میں کم ہوتے ہیں ، گویا زہانت کا تعلق بھی geneticsکے زریعے نسل سے جوڑنے کی کوشش کی گئ ۔ اس پر جیمز کی امریکہ میں بہت حجامت بن رہی ہے ۔ جیمز نیویارک میں رہتا ہے اور اس کا تقریباً سوشل بائیکاٹ کر دیا گیا ہے ۔ اس سے پہلے بھی جیمز نے کچھ سال پہلے یہ کہ کر تہلکہ مچایا تھا کے اگر gay genes والے بچوں کو abort کر دیا جائے تو بہتر ہو گا ۔
میرا ان تمام طبقات فکر سے شدید اختلاف ہے ۔ نہ ہی میں جیمز کے نظریہ ، قدرت کو ملوث کرنے والے سے متفق ہوں ، اور نہ ہی دوسروں کے تقلید واے ۔ جیمز کے تو سائنسدان کولیگ بھی یہ کہتے ہیں کے جیمز اس تھیوری کے ٹھوس سائینسی ثبوت نہیں پیش کر سکا ۔ صرف nature over nurture کہنے سے بات نہیں بنتی ۔ میں گو کے سیلویا کی تخلیقی خصوصیات سے تو انتہا کا متاثر ہوں ، لیکن میں اس کے عمل کو بھی درست نہیں گردانتا ۔ ہمارا دراصل بیانیہ ہی اس دنیا میں زندگی کے بارے میں درست نہیں ہے ۔ میں کہتا ہوں روح کا جسم میں آنا جشن ہے وہ کہتے ہیں سزا ہے ۔ میں کہتا ہوں روح ڈرائیور ہے جسم تو صرف ایک وہیکل ہے ، وہیکل کی ساخت مختلف ہو سکتی ہے ، رنگ ، نسل اور قبیلہ کے اعتبار سے لیکن اس کا روح پر کوئ اثر نہیں ہو سکتا ۔ روح ایک روشنی ہے جو بلکل ایک ہی طرح کی ہے صرف strength کا فرق آ سکتا ہے ۔ وہ بھی روح والوں پر منحصر ہے کے وہ اسے کتنا روشن رکھنا چاہتے ہیں اور اس سے کتنا مستفید اور زندگی کا اس دنیا میں مقصد حاصل کر سکتے ہیں ۔
ہم اصل میں کیا کر رہے ہیں ، کے نہ ادھر کے ہیں اور نہ اُدھر کے بیچ میں اٹکے ہوئے معجزہ کے انتظار میں ۔ اگر روح کی طرف آئیں بھی تو اس کی انتہا کا سوچتے ہیں hermit بن کر یا پھر پورے کا پورا دنیاداری میں جمپ کر جاتے ہیں اور ہمہ تن تقلیدی ۔ یہ سارا معاملہ اصل میں درمیانہ روی کا ہے جو ہمارے پیغمبر حضرت محمد ص نے سکھلائ ۔ ہم نے ان سے کچھ نہیں سیکھا ، سوائے درود بھیجنے کے ۔ ان کی ناموس کی خاطر لوگوں کی گردنیں کاٹ دیں ، ان کی اسوہ حُسنہ پر عمل نہیں کیا ۔ مدینہ کی ریاست بنانے کے وعدے کر کے ووٹ تو لے لیے لیکن اس کے یکسر اُلٹ قتل و غارت اور لُوٹ مار کے منصوبوں کو فروغ دیا ۔ انجام یہی ہونا تھا۔
انسان خودکشی پر کیوں مجبور ہوتا ہے ؟ ایک تو جب اس کا دنیاداری کا ٹارگٹ پورا نہیں ہوتا ، دوسرا ، جب ایک انتہا کے سیلویا جیسے تخلیقی کو پھلنے پُھولنے کی space نہیں دی جاتی ۔ روح ایک اپنی منفرد سپیس چاہتی ہے جو دوسری روحوں کے ساتھ مل تو سکتی ہیں لیکن اپنی روشنی کا نقصان نہیں برداشت کر سکتی ۔ روحوں کا تعلق اصل میں مقدر اور کائنات کے ساتھ ہے نہ کے جسموں کا ۔ ہم یہ سارا کھیل ہی اُلٹا کھیل رہے ہیں ۔ کبھی بھی نہیں جیت سکیں گے ۔ خودکشی اس کھیل کو ایک اور dimension میں تو لے کے جا سکتی ہے لیکن اس کھیل سے باہر نہیں نکال سکتی ۔ اسے بہر صورت قدرت کے مطابق کھیلنا ہے اور کھیلتے رہنا ہے زندگی موت اس رقص کا حصہ ہے ۔ یہ صوفی کی دھمال کی طرح مست ملنگ کا انوکھا ناچ ہے جو ۲۴/۷ جاری ہے پوری ایک طرح پوری کائنات کا cosmic dance۔ بہت خوش رہیں ۔ خودکشی کی کبھی بھی ضرورت نہیں پڑتی اگر آپ یہ رقص میں شامل ہیں ۔ اس رقص کے باہر ساری الجھنیں ہیں ، conflicts ہیں اور ان گنت confusions ۔ جتنی جلدی ہو سکے نکلیں اس سے ۔ اللہ تعالی آپ کا حامی و ناصر ہو ۔
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...