دیکھنے میں اچھی لگ رہی ہے۔ پڑھی لکھی اور باشعور بھی۔ ہاتھ میں سبز اور سرخ پرچم، یعنی اسلام اور انقلاب کے رنگ۔ وہ رنگ لباس میں۔ بال سنوار کر بندھے ہوئے۔ ایستادہ گردن تباہی پر یقین کا اظہار کرتی ہوئی۔ ہاتھ میں جھنڈے کی چھڑی جو جھنڈے کے سائز سے مناسبت نہیں رکھتی۔ ایک ہاتھ نے اِسی ڈنڈے کو قلم کی طرح تھام رکھا ہے، دوسرا ہاتھ بک بک کے سر چھیڑنے کے لیے تیار۔ سامنے چینل والے خیمہ زن۔
پیچھے تاریخ کے پہیے سے شعلے نکلتے ہوئے۔ اِس کی ضرورت بھی کیا ہے۔ تاریخ صرف آلودگی پھیلانے کے کام ہی آتی ہے اِس کی نظر میں۔ پیچھے بس کو طیارہ لکھا ہوا ہے جو آگ کی لپٹوں سے دور کھڑا ہے اور ڈرائیور نیچے کھڑا آگ کی تصویر لے رہا ہے۔
آپ کی ذہنیت کو بیک وقت تین چیزیں چاہئیں: انقلاب اور تبدیلی جس کی راہ میں خود رکاوٹ ہے۔ دوسرے اسلام، جو اگر لاگو ہو گیا تو ذہنیت کی ضرورت ہی نہ رہے گی، کیونکہ اُس میں تو سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے اور آپ بھی طے ہو جائیں گے۔ مذہب اِس کے ننگے ٹخنوں پر اسی جھنڈے کی سوٹیاں مارے گا، اِس کے ننگے سر پر دوپٹے کا پلو ڈالے گا، عینک اُتار لی جائے گی، جوبن کو چھپانے کا حکم ہو گا۔ جسم کا اندازہ نہیں ہونا چاہیے، صرف انداز کی اجازت ہو گی۔
آپ کی ذہنیت کبھی یہی ٹائر نہیں جلائے گی۔ شاید یہ بچوں کو سڑک پر آئس کریم کے رَیپر پھینکنے سے منع کرتی ہو، لیکن صرف وہاں پر جہاں لوگ دیکھ رہے ہوں۔ اسے سہیلیوں کے ساتھ سیر سپاٹے کا بھی شوق ہو گا۔ ان سب کو بھی محبتیں ہوتی ہوں گی، ایک اچھی زندگی اور اچھے معاشرے کے خواب بھی دیکھتی ہوں گی۔ اپنے قائدین جیسے خواب۔
پس منظر میں گاڑھا کاربن لہلہا کر آسمان پر جائے گا، بادل تخلیق کرے گا، اور کالک برسائے گا۔ تب ہمیں اپنا آپ اجلا لگے گا۔
بس مجھے اپنی ذہنیت کے پاؤں سب سے عجیب لگے۔ یہ مستحکم نہیں۔ یہ عجیب بے ڈول اور بد وضع سے ہیں۔ شاید یہ الٹے سفر کے لیے زیادہ موزوں ہوں۔
یاسر جواد