مائی رجی کی بیٹی نوراں کی شادی میں 11 دن باقی تھے کہ اس کے گھر چوری ہوگئی چور جہیز کا سامان لے گئے۔
یہ واقعہ جس نے بھی سنا توبہ توبہ کرنے لگا۔
میں جب تفتیش کے لئیے وہاں پہنچا تو کئی بزرگوں نے کہا۔ جناب جب مائی رجی جیسی غریب اور شریف عورت کے گھر چوری ہو جائے تو پھر سمجھئیے کہ قیامت آنے والی ہے۔
مائی رجی کے ساتھ سب کو ھمدردی تھی۔اس کی بیٹی تب سات آٹھ برس کی تھی۔عزیز و اقارب سب محنت کش اور بیچارے نادار تھے۔ انہوں نے مائی رجی کو دوسری شادی کرنے پر بہت زور دیا لیکن مائی رجی جو اس وقت جوان تھی اس نے انکار کر دیا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصہ بعد عزیزو اقارب سب منہ موڑتے چلے گئے۔مائی رجی محنت مزدوری کرنے لگی۔یوں اس نے اپنی جوانی گزار دی اور پال پوس کر اپنی بیٹی کو جوان کر دیا۔مائی رجی بہت محنتی ایماندار اور عبادت گزار خاتون تھی اس کے چہرے پر ایک تقدس تھا۔ شام پور قصبہ کی ایک گلی کے نکر پر مائی رجی کا ایک کچاکوٹھاتھا۔
کچی لیپی پوتی چار دیواری کے اندر چھوٹا سا صحن تھا جس کے سامنے دو کوٹھڑیاں تھیں۔اور ایک طرف ایک چھوٹا سا باورچی خانہ تھا۔ اس گھر کے بعد کھلا میدان تھا جہاں لوگ کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے۔اس کے بعد کھیتوں کا طویل سلسلہ شروع ھو جاتا تھا۔چار دیواری چھوٹی تھی کوئی بھی دیوار پھلانگ کہ اندر آ سکتا تھا۔
نوراں کے جہیز کا سامان چھ جوڑوں پر مشتمل تھا۔آدھے تولے کی سونے کی نتھ چار ماشے سونے کی انگوٹھی تھی اور سونے کی چھ چوڑیاں جو ایک تولے کی تھیں۔یہ سامان ایک پرانے جستی ٹرنک میں تھا جسے مائی رجی نے ایک تالا بھی لگا رکھا تھا۔جہیز کا دوسرا سامان لحاف اور چادریں پیتل اور تانبے کے برتن وغیرہ لکڑی کی ایک بوسیدہ پیٹی میں رکھے تھے یہ سامان محفوظ تھا۔چور اصلی اور قیمتی سامان جو ایک ٹرنک میں بند تھا اٹھا کر لے گئے تھے۔
اس بھلے اور سستے زمانے میں بھی یہ جہیز خاصا قیمتی تھا پھر مائیبرجی نے یہ چیزیں برسوں کی محنت کی کمائی سے بنائی تھیں۔نا جانے کتنے گھروں کے برتن ہانڈی مانجھ کر کپڑے دھو کر صفائی کر کے یہ سب کچھ تیار کیا تھا۔
شادی میں صرف گیارہ دن باقی تھے اس کے باوجود مائی رجی صبر و رضا کی تصویر دکھائی دے رہی تھی۔لوگ توبہ توبہ کر رھے تھے اور صحن مردوں اور عورتوں سے بھرا ھوا تھا۔جب میں ابتدائی پوچھ گچھ کر کے موقع ملاحظہ کر چکا تو میں نے مائی رجی سے پوچھا۔
تیرا کوئی دشمن تو نہیں؟
کسی پر شکو شبہ ھو تو بتا دیں؟
مائی رجی نے آہستہ سے جواب دیا تھا میرا کوئی دشمن نہیں۔میں کس کا نام لوں۔خدا جانتا ھے مجھے کسی پر شبہ نہیں۔
مائیبرجی نے بتایا وہ عشا کی نماز کے بعد لیٹ جاتی ھے۔دن بھر کی تھکی ماندی ھوتی ھے اس لئیے اسے جلد ہی گہری نیند آجاتی ھے۔پچھلی رقت بھی ماں بیٹی دونوں صحن میں چارپائیاں ڈال کر حسب معمول عشا کی نماز کے بعد باتیں کرتی کرتی سو گئیں۔فجر کے وقت مائی رجی حسب معمول بیدار ھوئی وضو کیا نماز پڑھی اور پھر اہنی چارپائی اٹھا کر کوٹھڑی میں لے گئی یہ اس کا روز کا معمول تھا۔اس کے بعد اس نے نوراں کو جگایا اور کہا کہ میں گوجروں کی بھینس کا دودھ دوہنے جا رہی ھوں شمنا گوجر کے یہاں۔وہ روزانہ علی الصبح کئی بھینسوں کا دودھ دوہنے جایا کرتی تھی جس کا معاوضہ چند ٹکوں اور آدھ سیر تین پاؤ دودھ کی شکل میں مل جاتاتھا ۔مائی رجی نوراں کو جگا کر چلی گئی اور جب سات آٹھ بجے واپس آئی تو دروازہ اسی طرح بند تھا جسطرح وہ بند کر کے گئی تھی۔نوراں ابھی سو رھی تھی۔جب سے نوراں کی شادی کا دن مقرر ھوا تھا مائی رجی نے اسے دیر تک سونے پر ڈانٹنا پھٹکارنا بند ہی کر دیا تھا۔
باورچی خانے میں دودھ رکھنے کے بعد اس نے نوراں کو جگایا۔نوراں اٹھیباور پھر اپنی چارپائی اور بستر اٹھا کر کوٹھڑی میں چلی گئی۔تب تک مائی رجی چولہا جلا کر دودھ گرم کرنے کے لئیے رکھ چکی تھی۔یہی وہ لمحے تھے جب مائی رجی کو نوراں کی رونے اور چیخنے کیبآواز سنائی دی۔نوراں کی بات مائیبرجیبکی سمجھ میں نہیں آر ھی تھی وہ بھاگی بھاگی کوٹھڑی میں گئی۔
تب اسے نوراں کی بات سمجھ میں آگئ۔جستی ٹرنک غائب ھو چکا تھا۔
اس دن میرا کسی دوسرے کام میں جی نہ لگا میں مسلسل اس واردات کے بارے میں سوچتا رہا۔علاقے کے عادی مجرم اور چور تھانے طلب کئیے وہ سب کانوں کو ہاتھ لگا رھے تھے۔سب کہہ رھے تھے کہ مائی رجی کے گھر وہی چوری کر سکتا ھے جس نے دنیا کے ساتھ آخرت بھی گنوانی ھو۔ایسی نیک عورت کے گھر چوری کرنے والا کبھی بخشا نہیں جا سکتا ان کے لب ولہجے اور تاثرات سے صاف عیاں تھا کہ انہوں نے مائی رجی کے گھر چوری نہیں کی۔میں نے مخبروں کو بھی چوکس کر دیا اور اپنے عملے کو بھی یہ ہدایت دی کہ مائی رجی کی چوری کے بارے میں کوئی بات معلوم ھو تو مجھے خبر کی جائے۔
رات کو بھی مجھے بے چینی رھی۔یہ کوئی ایسی واردات نہیں تھی کہ جس کا سراغ مل جانے سے کسی پولیس افسر کو ترقی ملتی ھو۔لیکن میرے دل پر بوجھ تھا۔نیک سیرت مائی رجی کی شکل آنکھوں کے سامنے آتی تو دل کانپ اٹھتا۔واقعی مجھے بھی حیرت ھوئی کہ دنیا میں ایسے بھی رزیل لوگ بستے ھیں جو مائی رجی جیسی عورت کے گھر چوری کر سکتے ھیں۔بہت غور و فکر کے بعد میں کچھ نہ کچھ نتائج پر پہنچ گیا۔ایک یہ کہ مائی رجی کے گھر چوری کرنے والا کوئی عام چور نہیں۔وہ گھر کا بھیدی ھے۔اسے معلوم تھا مائی رجی کی بیٹی کی شادی ھونے والی ھے۔وہ یہ بھی جانتا تھا کہ جہیز کاقیمتی سامان لکڑی کی پیٹی میں نہیں جستی ٹرنک میں رکھا ھوا ھے۔اسے یہ بھی علم تھا کہ یہ ٹرنک کس کوٹھڑی میں کہاں رکھا جاتا ھے۔
وہ مائی رجی اور نوراں کے معمولات سے بھی آگاہ تھا۔
رات کو عشا کے بعد کسی وقت دیوار پھلانگ کر چپکے سے اندر داخل ھوا۔اور اسی راستے سے ٹرنک اٹھا کر بھاگ نکلا۔
چور بھیدی ھونے کی وجہ سے اسی علاقے اور اسی گاؤں کا ھونا چاہئیے تھا۔اس گاؤں میں مائی رجی کا سبھی احترام کرتے تھے۔چوروں کی بھی کچھ اخلاقیات ھوتی ھیں۔اور یہ چور عادی چور نہیں تھا۔سوچتے سوچتے یک لخت مجھے یہ خیال آیا شاید وہ شخص نوراں کی شادی رکوانا چاہتا ھو۔نوراں کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا تھا۔سادہ لیکن حسین ترین چہرہ۔یقیناً چور گاؤں کا کوئی نوجوان تھا۔جو یقیناً احمق تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ نوراں کا جہیز چرا کر یہ شادی روکی جا سکتی ھے۔اور وہ اس کی شادی کو اس لئیے رکوانا چاہتا تھا کہ اسے خود نوراں میں دلچسپی تھی۔بہت غورو فکر کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ جس نہج پر میں پہنچ چکا ھوں وہ بلکل درست ھے۔
میں نے صبح اپنی خاص مخبر گلابو کو بلانے کا فیصلہ کر لیا۔وہ معلومات اکھٹی کر سکتی تھی کہ نوراں میں گاؤں کا کون سا جوان زیادہ دلچسپی لیتا تھا۔
دوسرے دن تھانے جا کر میں نے گلابو کو بلایا۔اسے ساری بات سمجھائی اور مشن پہ بھیج دیا۔
تیسرے دن اس سے پہلے گلابو آتی مجھے ڈاک سے ایک خط ملا۔اس خط نے مجھے چونکا دیا۔ٹیڑھے ترچھے حروف میں لکھا ایک خط تھا جس کی عبارت یوں تھی۔
جناب تھانیدار صاحب۔السلام و علیکم و رحمتہ اللہ۔
میں وہ بدقسمت گناہ گار ھوں جس نے مائی رجی کے گھر چوری کی چوری کے بعد مجھے ایک پل کے لئیے بھی قرار نہ آیا۔جی چاہتا ھے زمین پھٹ جائے اور مجھے اپنے اندر سمیٹ لے چوری کا سامان محفوظ ھے۔گاؤں کے شمالی حصے میں راجھباہ کے کنارے شیشم کے تین درخت ایک ساتھ کھڑے ھیں ان کے نیچے وہ ٹرنک دفن ھے اس میں سے کوئی بھی چیز نہیں چھیڑی گئی۔
میں قسم کھاتا ھوں چوری کے بعد مجھ میں اتنی ہمت بھی نہ رھی کہ میں ٹرنک کا تالا ھی کھول سکوں۔آپ وہ جستی ٹرنک برآمد کر کے مائی رجی کو پہنچا دیں۔
یہ میرا بہت بڑا گناہ ھے ممکن ھے خدا مجھے معاف کر دے۔
خط لکھنے والے نے اپنا نام لکھا تھا نہ پتا۔ظاہر ھے اسے ایسا کرنا بھی نہیں چاہئیے تھا میں نے وہ خط دوبارہ پڑھا۔
پھر دو سپاہی ساتھ لئیے اور اس مقام کی طرف چل دیا جس کی اس خط میں نشان دہی کی گئی تھی۔ شمالی حصے کی طرف بہنے والے راجھباہ کے کنارے واقعی ایک شیشم کے تین درخت قریب قریب سر جوڑے کھڑے تھے ان کے نیچے کی زمین بھر بھری تھی وہاں کھدائی کی تو چند منٹوں میں جستی ٹرنک برآمد ھو گیا جس کا تالا سلامت تھا۔برآمدگی کے کاغزات مکمل کر کے میں نمبردار جال الدین کو ساتھ لے کے مائی رجی کے گھر پہنچا۔
اپنا جستی ٹرنک دیکھ کر اس نے غیر معمولی جزبات کا اظہار نہیں کیا۔بس چند منٹوں کے لئیے اس کے چہرے پر طمانیت اور مسرت کی ایک لہر آئی اور پھرچوہ بولی یا اللہ تیرا شکر ھے۔
ایک بار پھر صحن مردوں عورتوں اور بچوں سے بھر گیا۔سب کے سامنے ٹرنک کاتالا مائی رجی نے کھولا ۔۔۔۔۔۔۔
سب کے سامنے ٹرنک کا تالا مائی رجی نے کھولا۔اندر ہر چیز موجود تھی۔ مائی رجی بے ساختہ سجدے میں گر گئی۔وہ بار بار کہہ رھی تھی میریا سوہنیا ربا تو میریاں عزتاں رکھ لئیاں۔۔۔۔۔۔
(میرے سوہنے رب تو نے میری عزت رکھ لی)۔
اس کے چہرے کا تقدس بڑھ گیا تھا۔نوراں کے چہرے پر آنسوں بھری مسکراہٹ دکھائی دینے لگی تھی۔سب کوگ ایک ھی سوال پوچھ رھے تھے چور کون ھے چور کون ھے۔میں نے ایک ھی جواب دیا ابھی چور کا سراغ نہیں ملا۔وہ بھی جلد مل جائے گا۔مخبر گلابو نے مجھے اطلاع دی کہ نوراں بہت نیک لڑکی ھے اس کی کسی مرد سے شناسائی کیا بات چیت بھی نہیں۔مائی رجیباسے اپنے ساتھ کام پر نہیں لے کر جاتی۔جب سے نوراں نے ہوش سنبھالا اسے اپنے گھر سے باہر نکلنے کا کم ھی موقع ملا ھے۔اگر کبھی کبھار کسی ضرعرت کے تحت باہر جانا بھی پڑ جائے تو مائی رجی ھی اس کے ساتھ جاتی ھے۔البتہ کچھ گھرانوں کے افراد کا مائی رجی کے گھر آنا جانا ھے جس میں جلال الدین نمبردار کا بیٹا کمال اور پٹواری نور محمد کا بیٹا سرور بھی شامل ھیں۔لیکن یہ حقیقت ھے کہ ان کا بھی نوراں سے کسی قسم کا تعلق ھی نہیں۔
گلابو کے جانے کے بعد میں نے اپنے طور پہ تفتیش کرنے کا ارادہ کیا۔گاؤں کے پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب ھی ڈاکخانے کےانچارج تھے۔سکول میں انہوں نے ڈاکخانہ بنا رکھا تھا۔میں نے ان سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ہیڈ ماسٹر شبن حسین بڑے تپاک سے ملے۔میں کوئی تمہید اٹھائے بغیر لفافہ نکالا جس پہ میرا ایڈریس لکھا ھوا تھا اور ان کے سامنے رکھتے ھوئے پوچھا۔اس کے بارے میں آپ کچھ جانتے ھیں ماسٹر شبن حسین نے میری طرف قدرے حیرت سے دیکھا۔تھانے دار صاحب میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔آپ بتا سکتے ھیں کل یا پرسوں کس کس نے آپ سے لفافے خریدے اور کون کون لفافے ڈالنے آیا۔مشکل کام بتایا ھے آپ نے ماسٹر صاحب بولے۔ویسے کل میں نے چھ لففے بیچے تھے آج پانچ۔میں حساب کتاب ٹھیک رکھنے کے لئیے روز لکھ لیتا ھوں کتنے لفافے بکے۔ٹکٹ تو یہاں بہت کم خریدے اور استعمال میں لائے جاتے ھیں۔
اچھا آپ یہ بتائے کل کون کون لفافہ خریدنے آیا تھا۔
گاؤں کے سارے لوگ آپ کے جانے پہچانے ھیں کچھ تو یاد ھوگا۔ماسٹر جی سوچتے ھوئے بولے ہاں ایک تو مولو کسان تھا اس نے اپنی بیٹی کو خط بھیجا تھا۔خط بھی اس نے مجھ ہی سے لکھویا تھا۔پھر وہ حسو تیلی تھا۔اس نے اپنے پیر صاحب کے نام خط لکھوایا تھا۔اور پھر دو لفافے نمبدار کے بیٹے کمال نے بھی خریدے تھے۔
اچانک رک کر ماسٹر جی نے پوچھا جناب آخر بات کیا ھےکچھ مجھے بھی معلوم ھو۔کوئی ایسی بات نہیں اب آپ یہ بتائیے لفافے پر لکھی ھوئی ہینڈ رائٹنگ کو آپ پہچانتے ھیں؟ماسٹر جی اس لفافے کو غور سے دیکھتے رھے اور کچھ دیر بعد بولے۔ہاں مجھے یاد آیا جب میں نے لال بکس سے لفافے نکالے اور میں مہریں لگانے لگا تھا تو میں نے اس خط کو غور سے دیکھا تھا اور دل میں سوچا تھا کہ وہ کون احمق ھے جو اس گاؤں میں رہتے ھوئے آپ کو ملنے کی بجائے آپ کو خط لکھ رہا ھے۔
پھر سوچا ھو سکتا ھے کوئی کسی کی مخبری ی شکایت کر رہا ھو۔خیر مجھے حیرت ضرور ھوئی تھی میرا فرض اسے آپ تک پہنچانا تھا۔اس لئیے نورو ڈاکئیے کو دے دیا تھا۔
ماسٹر جی بات لمبی کر رھے تھے اس لئیے میں نے ٹوک کر پوچھا اس گاؤں میں آپ بیس پچیس سال سے رہ رھے ھیں اور پڑھا رھے ھیں۔سب پڑھے لکھے آپ کے شاگرد ھیں میں نے پوچھا تھا کہ آپ اس ہینڈ رائیٹنگ کو بھی پہچانتے ھیں۔
ماسٹر جی پھر لفافے کو غور سے دیکھنے لگے۔اور مجھ سےمخاطب ھوئے جناب یہ تو یوں لگتا ھے جیسے کسی نے الٹے ہاتھ سے لکھا ھو میرے دل میں بھی لفافے کا پتہ اور خط پڑھ کر یہی خیال آیا تھا۔
ویسے لکھنے والا الٹے ہاتھ سے لکھنے کا عادی نہیں ھے۔جو لوگ الٹے ہاتھ سے لکھنے کے عادی ھوتے ھیں ان کی تحریر صاف ھوتی ھے۔ایسا لگتا ھے جان بوجھ کر کسی نے ایسا لکھا ھے جب کہ وہ سیدھے ہاتھ سے لکھنے کا عادی ھے۔تو گویا آپ یہ شناخت نہیں کر سکتے کہ یہ کس کی ہینڈ رائیٹنگ ھے؟ ہاں جی ایسی ھی بات ھے۔
ماسٹر جی نے لمبا سانس کھینچ کر کہا ویسے جناب معلوم تو ھو کہ معاملہ کیا ھے میں نے ان سے اجازت لی اور کچھ بتائے بغیر ھی وہاں سے اٹھ آیا۔
اسی شام میں نے نمبر دار جلال الدین کے بیٹے سے ملاقات کی۔میں نے پتا کرا لیا تھا کہ وہ اپنے کھیتوں میں کام کر رہا ھے۔میں وہاں پہنچا تو وہ مزارعوں کو کام سے فارغ کر رہا تھا۔مجھے دیکھ کر وہ تپاک سےملا اور پوچھنے لگا آپ آج ادھر کیسے نکلے جناب۔
ویسے ھی گھومتا ھوا افھر آگیا۔تمہیں دیکھا تو سوچا ذرا ملاقات کر لوں۔
تھانے دار صاحب گھر چلئیے یہاں آپ کی خطر مدارت کیا ھوگی؟وہ ہنس کر بولا۔
میں نے ڈرامائی انداز میں میں لفافہ اپنی جیب سے نکالا اور اسے دکھاتے ھوئے بولا کیا یہ لفافہ پہچانتے ھو؟
چند لمحوں کے لئیے اس کا رنگ اڑ گیا پھر وہ مصنوعی انداز میں ہنس دیا۔میں اس لفافے کے بارے میں کیا بتا سکتا ھوں؟جو کچھ تم جانتے ھو میں نے کہا۔
کل تم نے ماسٹر جی سے دو لفافے خریدے تھے میں ٹھیک کہہ رہا ھوں نا؟وہ دونوں لفافے۔۔۔۔۔وہ تو گھر پر ھیں کہیں بھیجے نہیں گئے۔ٹھیک ھے پھر چلتے ھیں میں نے ہنس کر کہا۔تم میری خاطر مدارت بھی کر لینا اور میں لفافے بھی دیکھ لوں گا۔وہ سر جھکائے چل پڑا اس کے چہرے پر گہری سوچ دکھائی دے رہی تھی۔وہ پریشان یا خوفزدی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔جب ہم کھیتوں کی حدود سے نکل کر گاؤں کے قریب پہنچے تو خاصا اندھیرا ھو چکا تھا۔وہ اچانک رکا اور میری طرف دیکھا اور پھر آہستہ سے کہا۔سردار باز نہیں آیا میں نے اسے بہت سمجھایا تھا یہ دونوں لفافے میں اس کے لئیے خریدے تھے۔
یہ کہہ کر وہ تیزی سے چلنے لگا۔اس نے مجھے مڑ کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی۔میں نے بھی اسے روکنا مناسب نہ سمجھا اس کی اب ضرورت بھی کہاں تھی۔اس نے سب کچھ بتا دیا تھا سردار پٹواری کا بیٹا اور اس کا دوست ھوگا۔ نمبر دار اور پٹواری دیہاتی معاشرے میں بڑا اہم قام رکھتے ھیں۔لوگ ان سے خوفزدہ رہتے ھیں۔اس کا اندازہ تو مجھے پہلے بھی تھا۔لیکن اس گاؤں میں اس حوالے سے ایک مختصر تجربہ بھی ھوا۔
میں نمبردار جلال الدین کے گھر پہنچا کمال بھی وہاں موجود تھا۔اس نے علیک سلیک کی اور اٹھ کر چلا گیا۔وہ جان چکا تھا کہ میں اس کے باپ سے ملنے آیا ھوں۔نمبردار نے بڑی عزت سے بٹھایا اور میں نے قدرے آہستگی سے کہا۔آپ کے پاس میں اس لئیے آیا ھوں کہ مائی رجیبکے گھر چوری کرنے والے کا پتہ چل گیا ھے۔تو پھر اسے گرفتار کیا جائے تھانے دار صاحب۔میں چاہتا ھوں اس کے خلاف عدالتی کاروائی سے پہلے اس کا منہ کالا کر کے گدھے پر الٹا بٹھا کر پورے گاؤں میں اسے ذلیل کیا جائے۔
وہ رکا اور اشتیاق سے پوچھا کون ھے وہ چور کیا اسی گاؤں کا ھے۔
اسی گاؤں کا ھے آپ کے دوست پٹواری کا بیٹا سردار۔میری طرف دیکھا اور پھر آہستہ سے کہا کیا کہا آپ نے تھانیدار صاحب؟
پٹواری کا پتر سردار نہیں جی آپ کو دھوکہ ھوا ھے ۔
مجھے دھوکہ نہیں ھوا ھے۔اس نے مائی رجی کے گھر چوری کی تھی۔
نمبردار جلال الدین کے چہرے پر تزبزب کی پرچھائیاں لہرا رھی تھیں۔چند لمحے تو وہ خاموش رہا پھر کہنے لگا تھانیدار صاحب یہ معاملہ گول کر جائیں۔
اس کی آواز پھنسی پھنسی تھی۔کھنکار کر میرے قریب ھو کر میرا ہاتھ تھام کر کہنے لگا دیکھیں۔مائی رجی کی کوئی چیز گم نہیں ھوئی۔اس کی ہر چیز جیسے تھی ویسے مل چکی ھے۔پٹوای عزت دار آدمی ھے بدنامی ھوگی۔سردار کو میں بلوا لیتا ھوں۔آپ خود اس کو دو چار جوتے مار کر سزا دے کر چھوڑ دیں۔میں بھی اسے سمجھا دوں گا۔ان شاء آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گا۔
جلال الدین نمبردار کے اسطرح گرگٹ کی طرح یکدم رنگ بدلنے پر مجھے خاصی حیرت ھوئی۔
نمبردار صاحب ابھی تو آپ چور کا منہ کالا کر کے اسے پورے گاؤں میں ذلیل کرنا چاہتے تھے۔اب ہٹواری کے بیٹے کا نام سن لیا ھے تو سارے معاملے کو ھی گول کرنے کا کہہ رھے ھیں۔میں سرکاری ملازم ھوں علاقے کی سب سے نیک عورت کے گھر چوری ھوئی۔ٹھیک ھے مال مل گیا لیکن چور کو تھوڑی بہت تو سزا ملنی چاہئیے۔میں تو اپنی کاروائی پوری کروں گا۔
نمبردار جلال الدین نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی لالچ بھی دیا لیکن مجھے بھی اب ضد ھو گئی تھی۔میرا فرض یہی تھا کہ ایک بار سردر کو گرفتار کروں۔اس کے بعد وہ اس کی ضمانت کرائیں اور عدالت میں مقدمے کی پیروی کریں۔میرا کام ضروری کاروائی کر کے اسے عدالت کے سپرد کرنا تھا۔میں تھانے پہنچا۔حوالدار کو دو سپاہئیوں کے ساتھ روانہ کیا کہنوہ پٹواری کے گھر جائے اور اس کے بیٹے سردار کو تھانے لے آئے۔نصف گھنٹے بعد حوالدار اور سپاہی آئے تو ہٹواری کا بیٹا سردار ان کے ساتھ نہیں تھا۔جناب وہ گھر نہیں ملا۔پٹواری صاحب بھی ہمارے ساتھ آرھے ھیں وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ھیں۔میرا ماتھا ٹھنکا لیکن میں نے اپنا شک ظاہر نہ ھونے دیا۔پٹواری نور محمد ہانپ رہا تھا۔میں جانتا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ھے۔میں نے کمرے سے تمام سپاہی نکال دئیے۔پٹواری نور محمد نے بیٹھتے ھی کہا تھانیدار صاحب میری عزت آپ کے ہاتھ میں ھے خدا کے لئیے مجھے بے عزت ھونے سے بچا لیں۔سردار خان کہاں ھے میں نے پوچھا۔نمبردار نے آپ کو اطلاع دے دی اور آپ نے اپنا بیٹا غائب کر دیا یہی بات ھے نا؟
پٹواری نے میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے آہ و زاری شروع کر دی۔آپ بھی سرکاری ملازم ھیں میں بھیبسرکار کا خادم ھوں جوانوں سے غلطی ھو ھی جایا کرتی ھے۔پھر آپ جانتے ھیں سامان مل چکا ھے۔
پٹواری صاحب آپ میرے سوال کا جواب دیں کہ آپ نے اپنے بیٹے سردار کو کہاں چھپایاھے۔اگر آپ نے نہ بتایا تو میں آپ کو بھی اعانت جرم میں یہاں بٹھائے رکھوں گا اور پرچہ بھی کاٹ سکتا ھوں۔
پٹواری نور محمد اٹھ کر کھڑا ھو گیا۔اس نے دونوں ہاتھ باندھتے ھوئے تھانیدار صاحب سے کہا میرے ان بندھے ھوئے ہاتھوں کی لاج رکھ لیں سردار بچہ ھے اور اس کا جرم بھی تو معمولی سا ھی تو ھے۔میں پھٹ پڑا۔
اس کا جرم معمولی نہیں ھے اس نے ایک نیک اور بزگ خاتون کی بیٹی کی شادی رکوانے کی کوشش کی ھے سنا ھے آپ نے؟
اس کا جرم یہ نہیں کہ اس نے چوری کی۔اس چوری سے بڑا جرم اس کا ارادہ تھا۔اس کی نیت تھی جو خراب تھی۔اس کا اس شریف گھرانے میں آنا جانا تھا۔اس نے نوراں جیسی نیک لڑکی کو میلی آنکھ سے دیکھا میں اسے گرفتار کروں گا۔
پٹواری نور محمد کے بندھے ھوئے ہاتھ کھل گئے اور اس کے چہرے پر لجاجت اور مسکینی کی جگہ خیانت دکھائی دینے لگی۔اگر آپ کا فیصلہ یہی ھے تو سوچ لیجئیے نوراں کی بدنامی ھوگی۔اس کے لہجے میں دھمکی چھپی ھوئی تھی۔وہ کیسے؟میں نے بڑے زہریلے انداز میں پوچھا؟
یہ جاننا آپ کا کام نہیں۔جس دن آپ نے سردار کو گرفتار کیا اسی دن سے نوراں کی گرفتاری ھونے لگے گی۔پھر ممکن ھے چند دنوں کے بعد ھونے والی نوراں کی شادی بھی کھنڈت میں پڑ جائے۔انسان کتنا خود غرض اور بے شرم ھوتا ھے۔اسے اپنے مفاد کے لئیے کسی کی آبرو کا خیال تک نہیں آتا۔
پٹواری میرے ھوتے ھوئے نوراں کی بدنامی نہیں ھو سکتی۔اس کے خلاف اگر کسی نے بھی گھٹیا لفظ زبان سے نکالا تو میں اس کی زبان کھینچ لوں گا۔مجھے آپ۔۔۔۔۔۔آپ کی کیا اپنی کوئی بہن یا بیٹی نہیں؟آپ کو ایسی بات زبان سے نکالتے ھوئے خدا کا خوف نہیں آیا؟پٹواری نور محمد کانپنے لگا۔اس نے پھر ہاتھ جوڑ دئیے اور رحم کی درخواستیں کرنے لگا۔سردار کو کتنی جلدی حاضر کر سکتے ھو؟میں نے پوچھا۔
میں نے اسے ساتھ والے گاؤں بھجوا دیا ھے گھنٹے بھر میں آسکتا ھے۔ٹھیک ھے پٹواری صاحب آپ دو گھنٹے تک سردار کو یہاں لے آئیں۔پٹواری نور محمد سر جھکائے وہاں سے چلا گیا۔اس کے جاتے ھی میں نے مائی رجی کے گھر کا رخ کیا دروازے پر دستک دی۔کون ھے بھائی؟میں نے اپنا نام بتایا تو دروازہ کھل گیا۔کوٹھڑی کے اندر لالٹین جل رھی تھی مائی رجی کر چہرے پر تقدس تھا۔آہستہ سے بولی خیر سے آئے ھو؟تھانیدار پتر۔میرا جواب سنے بغیر نوراں کو مخاطب کر کے کہنے لگی دھئیے دیکھ گھر کون آیا ھے دودھ لے آ۔میں نے جھکی جھکی نگاہوں والی نوراں کو دیکھا اس کا چہرہ بتاتا تھا کہ اس کا تن ہی اجلا نہیں بلکہ من بھی پاک اور اجلا ھے۔تو کیا ایسی جوان لڑکی کی بدنامی کے لئیے لوگوں کی زبانیں کھلیں گی۔اس کی رسوائی ھوگی میں کانپ گیا۔
نہیں اماں دودھ رہنے دیں آپ کو ایک بات بتانے آیا ھوں آپ کے چور کا پتہ چل گیا ھے۔
اچھا کون ھے وہ جس نے مجھ نمانی کو پریشان کیا تھا؟
سردار میں نے آہستہ سے کہا پٹواری نور محمد کا بیٹا۔
توبہ توبہ مائی رجی کی زبان سے بے اختیار نکلا۔وہ تو ایسا نہیں تھا۔۔۔اچھا۔۔۔۔ وہ چپ ھوگئی۔
میں اس کا نورانی چہرہ دیکھ رہا تھا جس پر کرب دکھائی دے رہا تھا۔وہ آہستہ سے بولی اسے پکڑ لیا ھے تو چھوڑ دے بیٹا میں نے اسے معاف کیا۔اچھا اماں یہی پوچھنے آیا تھا اب میں چلتا ھوں۔اللہ تجھے ترقی دے ہر بلا سے محفوظ رکھے مائی رجی نے مجھے دعا دی۔میں جانتا ھوں ایسے ھی نیک لوگوں کی دعاؤں کے طفیل میں محفوظ اور پر سکون زندگی بسر کی ھے۔سردار سر جھکائے کھڑا تھا اس کے چہرے پر ندامتوں کےسوا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔اس کی آواز لرز رھی تھی۔اور آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی تھی۔نمبردار جلال الدین اس کا بیٹا اور پٹواری وہاں موجود تھے۔میں بہک گیا تھا یقین کریں کبھی میرے دل میں نوراں کے بارے میں برا خیال نہیں آیا۔کبھی میں نے اسے میلی نگاہ سے نہیں دیکھا۔میں اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔اپنے ماں باپ کو بتانے کی ہمت نہ تھی۔جنب نوراں کی شادی کے دن طے ھو گئے تو میں پریشان ھوگیا۔کمال میرا یار ھے۔میں نے اسے پہلی بار بتایا کہ میں نوراں سے شادی کرنا چاہتا ھوں اور میں اس کی شادی رکوا کر ھی رھوں گا۔میں نوراں کو بدنام نہیں کر سکتا تھا۔میں نے سوچا جہیز چوری ھو جائے تو شادی رک جائے گی۔بس جناب میری حماقت تھی۔میرا دل مجھے ایک پل چین نہیں لینے دے رہا تھا۔میں نے کمال کو بتایا تو اس نے بڑی لعن طعن کی۔اسی نے مجھے لفافے خرید کر دئیے۔میں چاہتا تھا کہ چوری کا مال مائی رجی کو مل جائے اور کسی کو میری کمینی اور ذلیل حرکت کا پتہ نہ چلے۔اسی لئیے میں نے الٹے ہاتھ سے خط لکھا وہ رکا پھر بولا۔تھانے دار صاحب میں ہر سزا کے لئیے تیار ھوں۔کچھ لوگوں نے مجھے دھمکی دی ھے کہ میں نے اگر تمہیں گرفتار کر کے عدالت کے حوالے کیا تو وہ نوراں کو بدنام کر کے تمہاری گرفتاری کا بدلہ لیں گے۔پٹواری نور محمد کی نگاہ شرم سے جھک گئی۔اس کے بیٹے سردار کا چہرہ سرخ ھو گیا یوں لگا جیسے سارے جسم کا خون جمع ھو کر چہرے پر چلنے لگا ھو وہ طیش میں آکر بولا۔میں اسے قتل کر دوں گا اس کی زبان کھینچ لوں گا جو۔۔۔جو۔۔۔میں نے اس کے کندھےطپر نرمی سے ہاتھ رکھا۔مائی رجی نے تمہیں معاف کر دیا ھے۔اس لئیے اب میں تمہارے خلاف کوئی کاروائی نہیں کروں گا۔سردار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
مائی رجی کی بیٹی نوراں کی شادی کے دن سارا گاؤں اس کے گھر موجود تھا۔پورے گاؤں نے مائی رجی کی بیٹی نوراں کو پر خکوص دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔کہاروں کی بجائے سردار اور کمال ڈولی اٹھا کر نوراں کے سسرال تک اسے پہنچانے کے لئیے گئے۔
گاؤں کی زندگی کا یہ عجیب ترین منظر تھا۔
ختم شد۔
پنشنری فوائد کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال کا حالیہ فیصلہ میرے سامنے ہے جس میں پنشنری فوائد کے بارے...