یروشلم کی مہان سے ملاقات ۔
کل ہم جب مرژر کاؤنٹی کے پارک اور جھیل پر کھانے پینے کا سامان لے کر عید کی شام منانے پہنچے، تو وہاں کھانے والی میزوں اور کرسیوں پر ایک بہت بڑی دعوت شیراز منعقد تھی ۔
ایک بہت معمر خاتون آگے بڑھیں ہم سب کو خوش آمدید کہا ۔ ہم لوگ کوئ بیس کے قریب تھے ۔ سب کو کھانے کی دعوت دی ۔ ہمیں اپنی کھانے پینے کی چیزیں نکالنے سے روکا ۔ کل ہی صبح جب ہم عید کی نماز سے فارغ ہوئے اور منتظمین نے کہا کہ کہ آپ ناشتہ کر کہ جائیں ۔ تو ۵۰۰ کہ قریب نمازیوں کے لیے ۵۰ سے بھی کم لوگوں کا ناشتہ تھا وہ بھی ڈنکن کے فری ڈونٹ جو لڑکے وہاں کام کر رہے تھے لے آئے ۔ اسی طرح ملک ریاض اور دوسرے لوگ فٹ پاتھوں پر چٹایاں بچھا کر غریبوں میں کھانا تقسیم کرتے ہیں ۔ بحیثیت انسان ہماری کوئ عزت و قدر نہیں رہی ۔ بس جانوروں کی طرح دو وقت کی لنگر کی روٹی ڈال دی جاتی ہے ۔ ہمارے امراء نے زلیل و خوار کر دیا ، استحصال بھی کیا اور زلیل بھی ۔
آپ کو یہ سن کے حیرانگی ہو گی کہ یہ امریکہ میں مقیم کچھ فلسطینی فیملیز اکٹھی ہوئ تھیں ، اور معمر خاتون رمضان اور عید کے لیے یروشلم سے آئیں تھیں ۔ اس کی بھتیجی ، بھانجیاں اور بچے سب اکٹھے ہوئے تھے عید پر ۔ مرد الگ بیٹھے تھے ۔ کھانے میں کوئ ایسی چیز نہیں جو نہ ہو اور وافر ۔ ہم نے اس میں سموسہ اور جلیبیوں کا اضافہ کر دیا ۔ دس قسم کا میٹھا ۔ ایک عدد سالم روسٹ بکرا۔ اور کھانا کوئ سو لوگوں سے بھی زیادہ ۔
قہوہ کے کپ پر میں نے اُس عورت سے کچھ گفتگو چھیڑی ۔ ہم یروشلم جا تو نہیں سکتے لیکن اس مقدس شہر کو کسی وہاں کے باسی سے مل کر محسوس تو کر سکتے ہیں ۔ وہ عورت جب مسجد اقصی کی بات کرتی تھی ایسے لگتا تھا کہ میں بھی اُدھر ہوں ۔ اُس نے معراج شریف والی قرآنی آیت سنائ اور بتایا کہ اس کا گھر یروشلم کہ ساتھ جُڑی ہوئ مسلمانوں کی آبادی میں ہے ۔ میں نے خاتون کو بتایا کہ ہم پاکستان میں عید اور جمعہ پر مسجدوں میں باقاعدگی سے فلسطین کی آزادی کے لیے خصوصا دعا مانگتے ہیں ۔ اُس نے کہا آپ کا بہت شکریہ ، مجھے علم ہے ۔ ہمیں ہمارے لیڈر مروا گئے ۔ بلکلہ دونوں طرف کے لیڈر امن نہیں چاہتے ۔ ان کی دوکانداریاں بند ہو جائیں گی ۔ آپ کسی قوم اور نسل کو زور اور ظلم سے ختم نہیں کر سکتے ۔ ہمارا بھی رازق وہی ہے جو اُن ظالموں کا ۔ کیسے وہ ہمیں بھول سکتا ہے ، کیسے وہ انہے جتوا سکتا ہے ۔ کوئ سزا تو ہو سکتی ہے لیکن اس کی رحمتوں کی کمی نہیں ۔
کیا جزبہ ہے فلسطینیوں کا ۔ کیا حوصلہ اور ہمت ہے ۔ اس کی پردے میں ملبوس جوان بیٹیاں ہماری پلیٹیں اور چیزیں اُٹھا رہیں تھیں ۔ وہ یہاں امریکہ میں حسین حقانی کی طرح کوئ دوکانیں نہیں چمکائ بیٹھے ۔ عزت اور حلال کی کمائ اور اپنے وطن سے بدستور عقیدت ۔ جب میں واپسی پر پارکنگ میں آ رہا تھا تو ایک سیاہ فام عورت نے کہا کہ آج آپ کا کوئ تہوار ہے میں نام بھول گئ ہوں ۔ میں نے کہا عید تو اس نے فورا عید مبارک کہ کر ہاتھ ملایا اور کہا تمہارا aura بہت زبردست ہے ۔ تم کوئ روحانی شخص ہو ۔ میں نے کہا کوشش کرتا ہوں روح کو پروان چڑھانے کی ۔ امریکی عوام میں بہت محبت ، پیار اور انسانیت کا جزبہ میں نے پایا ۔ یہاں رہنا جنت سے کم نہیں ۔
پاکستان میں نوجوان نسل حوصلہ ہار گئ ہے ۔ بڑوں میں بھی اس معمر خاتون جیسے بڑوں کی کمی ہے ۔ نفسا نفسی کا دور دورا ہے ۔ عہدوں کی دوڑ ہے ۔ چمک کا شوق ہے ۔ انسانیت ختم ہو چکی ہے ۔ آج میرے فلیکس سے صبح بلی نے کچھ دودھ پی لیا ، میں نے سوچا چلو بلی کا جھوٹھا شاید میری بلی والی سوچ کر دے ۔ انسان تو اب کاٹنے کو پڑ رہے ہیں ۔
ہم سب کو اس کے لیے جنگ لڑنی ہوگی ۔ مثال پیدا کرنی ہو گی ۔ قربانیاں دینی ہوں گی ۔ رب پر یقین مستحکم کرنا ہو گا ۔ اشرافیہ کی غلامی سے نجات حاصل کرنی ہو گی ۔ علامہ اقبال کے ضرب کلیم میں مرد من کی تشریح پر ختم کرنا چاہوں گا ۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گفتار میں ، کردار میں، اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایہءجبریلِ امیں بندہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان
بہت خوش رہیں ۔ اپنا بہت خیال رکھیں اور اپنی زندگیوں میں انقلاب لانے کی کوشش کریں ۔ اللہ نگہبان ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔