پروفیسر عارف فرید ایوبی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے : پروفیسر عراق رضا زیدی
شعبۂ فارسی، لکھنؤ یونیورسٹی میں مرحوم پروفیسر عارف فرید ایوبی پر یادگاری خطبہ کا انعقاد
مرحوم پروفیسرعارف فرید ایوبی سابق صدرشعبۂ فارسی ، لکھنؤ یونیورسٹی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے ، ان کی ذات اپنے اندر ایک انجمن تھی ،وہ متنوع صلاحیتوں کی حامل اور بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے ، انھوں نے ایک طویل عرصہ تک فارسی زبان و ادب کی بیش بہا خدمات انجام دیں ، وہ نہ صرف ایک بڑے ادیب اور نقاد تھے بلکہ ایک عظیم اور اچھے انسان بھی تھے یہی وجہ ہے کہ ان سے نظریاتی اختلاف رکھنے والے ادیب بھی ان سے محبت کرتے اور ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ، ان کے رحلت فرمانے سے جو خسارہ ہوا ہے اس کی تلافی کی صورت دور دور تک نظر نہیں آتی ہے، ان خیالات کا اظہار مشہور فارسی محقق وناقد پروفیسر عراق رضا زیدی ، سابق صدر شعبۂ فارسی ، جامعہ ملیہ یونیورسٹی نے مرحوم پروفیسر عارف فرید ایوبی پر شعبہ ٔ فارسی ، لکھنؤ یونیورسٹی میں منعقد یادگاری خطبہ میں کیا ، اس موقع پر پروفیسر عراق رضا زیدی نے مرحوم سے اپنے دیرینہ تعلقات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم کے ساتھ ان کی رفاقت دہائیوں پر محیط ہے ، جب بھی وہ لکھنؤ آتے تو مرحوم سے طویل ملاقات ہوتی اور مختلف موضوعات پر علمی گفتگو بھی ہوتی جس میں نظریاتی اختلاف کا ہونا ایک فطری امر ہے لیکن کبھی کبھی مرحوم اپنی چہرہ پر ناگواری کا اثرات نمایاں نہ ہونے دیتے بلکہ ادب اختلاف کی پوری رعایت کرتے ہوئے دوستانہ انداز میں اپنی گفتگو مدلل انداز میں پیش کرتے اور گفتگو کے دوسرے پہلو کو بھی نہایت متانت اور سنجیدگی کے ساتھ سماعت فرماتے ،جس سے ان کی کشادہ قلبی اور وسعت ظرفی کا پتہ چلتا ، پروفیسر زیدی نے مزید کہا کہ وہ علم وحلم کا حسین پیکر تھے ان کی خوبیوں کو بیان کرنے کے لئے ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں ، ان سے وابستہ یادوں کا ایک کہکشاں ان کے ذہن ودماغ میں موجود ہے جس کا محو ہونا کسی حال میں ممکن نہیں ہے اور آج جب وہ تعزیت کے لئے لکھنؤ آئے تو اپنے دوست کو اپنے درمیان نہ پاکر جس کرب ورنج کو وہ محسوس کررہے ہیں زبان ا س کو بیان کرنے سے قاصر ہے ۔ اس موقع پر پروفیسر عمر کمال الدین ، پروفیسر شعبۂ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم پروفیسر عارف ایوبی نہایت خوش اخلاق ، خوش پوشاک اور خوش مزاج تھے ،وہ نہایت نفیس الطبع اور مرنجاں مرنج شخصیت تھے، ان کے جانے سے فارسی ادب میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا محال ہے ، وہ فارسی ادب کے ایک قد آور ناقد ، محقق ، تخلیق کار اور اس عہد کے عظیم دانشور تھے ۔ڈاکٹر سید غلام نبی صدر شعبۂ فارسی ، لکھنؤ یونیورسٹی نے اپنے دلی صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتنی ذی علم شخصیت کا ہمارے درمیاں سے گذر جانا واقعی فارسی زبان وادب کا ایک نا قابل تلافی نقصان ہے ، وہ ایک دلپذیر شخصیت کے مالک تھے وہ جہاں بھی رہتے میر محفل بن کر رہتے ، سیمیناروں میں ان کی شرکت سیمینار کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تھی ان کا منفرد انداز مقالۂ نگاری سامعین کو ہمہ تن گوش ہونے پر مجبور کردیتا تھا ۔ ڈاکٹر شبیب انور علوی ،اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبۂ فارسی ، لکھنؤ یونیورسٹی نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہپروفیسرعارف ایوبی جیسی عبقری شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے وہ کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے ، ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ اتنے بڑے منصب پر فائز ہونے کے باوجود نہایت متواضع اور منکسر المزاج تھے ، ان سے واقف ہر شخص اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ وہ ہر چھوٹے بڑے سے نہایت ادب اور تو اضع سے ملتے تھے ان کی گفتار ورفتار سے ان کی شرافت ہویدا ہوتی تھی ۔ ا س موقع پر ڈ اکٹر محمد خبیب استاد شعبۂ فارسی ، لکھنؤ یونیورسٹی ،ڈاکٹر محمد عارف حسنین استاد شعبۂ فارسی ، لکھنؤ یونیورسٹی ،ڈاکٹر محمد ناظر حسین ، ڈاکٹر عرشی بانو، ڈاکٹر ثنا اظہر، ڈاکٹر عاطفہ جمال، ڈاکٹر علی عباس ، ڈاکٹر صالح ظفر، محمد ارشد ، محمد صفی ابن صفی ، مرزا حیدر ، محمد محب ندوی، صحافی محمد شمیم ندوی، ڈاکٹر محمد ریحان،عالم انصاری اوردیگر طلبہ وطالبات شعبہ شریک رہے ۔
لبنان کی پردہ چھوڑنے والی پہلی مسلم خاتون عنبرہ سلام خالدی
وفات: 4 مئی 1986ء عنبرہ خالدی لبنان کی ایک حقوق نسواں کی علمبردار، مترجمہ ، مصنفہ اور شاعرہ تھیں جنھوں...