(Last Updated On: )
پچھلے چالیں دن سے فضل خان ایک ہی خواب دیکھ رہا تھا ۔ کوئی خواب میں اسے کہتا تھا کہ سفر نہیں کرو گے۔ وہ حالت بیداری میں خود سے پوچھتا۔ کہاں کا سفر … کروں… اور کس لیے کروں … مجھے یہ خواب مسلسل کیوں آر ہے ہیں۔ ہر روز ایک ہی خواب … ایک ہی بات… کس سے اس خواب کی تعبیر پوچھوں… کسے حال دل سناؤں… دنیا میں کیادھرا ہے اور پھر خود سے ہی ہمکلام ہوتا … فضل خان… اب بڑھاپے میں صرف خواب ہی دیکھنے کو رہ گئے ہیں … کیسا زمانہ تھا … جب اس گھر میں ہر طرف چہل پہل تھی۔ زندگی یہاں ہر لمحہ جوان اور شاداں تھی … بیوی… بچے … عزیز و اقارب… دوست احباب… محفلیں … رونقیںڈنر … ہر طرف بہار اور نکھار ہی نکھار… اور اب بڑھاپا… تنہائی … اور خواب … بس یہی کچھ رہا ہے… فضل خان … جوانی کو یاد کرو… جب تمھارے ابا شہر کے امیر و کبیر شخص تھے … تمھارے گھرانے کا شہرہ تھا شہر بھر میں … لوگ تمھارے طرز زندگی اور طرز رہائش پر رشک کرتے تھے … اور تم فضل خان … ہر بات سے بے نیاز شوق پہلوانی میں مصروف رہتے اور آخر ایک دن جب ابا نے کہا … فضل خان… اب گھر کی فکر کرو… زندگی پہلوانی میں تو نہیں گزاری جا سکتی … اور پھر انھوں نے میری شادی کر دی تھی۔ مجھے وہ وقت اچھی طرح سے یاد ہے جب یہ گھر خوشیوں کا گہوارہ بنا ہوا تھا ۔ اماں ابا کے چہرے خوشی سے تمتا ئے ہوئے تھے اور فضل خان تم نے اپنی دلہن کا گھونگھٹ اٹھا کر کہا تھا: ماشاء اللہ۔ فلک کے ستاروں کا تمام حسن تمھارے درخشاں،چہرے کے سامنے مانند ہے… تمھیں یاد ہے فضل خان … دلہن مسرت سے کانپ گئی تھی اور آہستہ سے کہنے لگی تھی۔ میں آپ کے قدموں کی خاک ہوں … میں کیا میرا حسن کیا … یہ سب آپ کا حسن ظن ہے تو تم نے افضل خان ہنستے ہوئے کہا تھا جان من ۔ حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اللہ قسم ۔ آپ کا حسن بے مثال اور لائق تعریف ہے … فضل خان تمھاری شریک حیات حسن کے ساعت ساتھ اعلیٰ کردار کی حامل بھی تھی۔ نیک اور پاکیزہ سیرت کی حامل… گل بہار اور یوں تمھاری زندگی بہاریں لوٹنے میں گزرنے لگی ۔ تمھیں یاد ہو گا فضل خان… اب بڑھاپے میں اکثر و بیشتر یہ زندگی کی فلم کیوں چلتی رہتی ہے … دنیا بھرکی بھولی بسری باتیں … کیوں یاد آتی ہیں … کیا تنہائی کی فضل یادوں کی برات اگاتی ہے … یا یادیں تنہائی کو کاٹنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں… فضل خان… اب آنکھوں کے سامنے گزری ہوئی تصویریں کیسے آجاتی ہیں… ہر گزرا لمحہ یادکا روپ کیسے دھار لیتا ہے … اور اس گھر میں اب فضل خان… تمھارے سوا اور کوئی نہیں … اب تم دروازوں ، کمروں، کھڑکیوں … پردوں…چارپائیوں … برتنوں … لباسوں… میزوں … کرسیوں… اور … اور ہر موجود چیز کو دیکھتے ہو تو یادوں کا گھنا جنگل تمھیں بے کل کر دیتا ہے… اور پھر یہ خواب… جو مسلسل آر ہے ہیں … یاد دلا رہے ہیں کہ سفرکرو… سفر کرو… اس کا مطلب ہے کہ دنیا سے سفر کرو… سفر کرو… فضل خان نے میر پر ہاتھ رکھا اور کہا فضل خان … کل رات کی بات یاد ہے… عشاء کی نماز کے بعد جب تم سونے کی تیاریاں کر رہے تھے تو تم نے دیکھا تھا کہ دیوار کی سفیدی کتنی چمکدار ہو گئی تھی ۔ تم دیر تک آنکھیں مل مل کر دیکھتے رہے اوربالآخر تھک ہار کر سو گئے … اور پھر وہی خواب اور سفر کی تاکید… فضل خان نے آنکھ کھولی اور حسرت سے درودیوار کو دیکھنے لگے اور ایک بار پھر خود کلامی کرنے لگے… گل بہار… دیکھ اب مجھے ان درودیوار سے بھی دور کیا جا رہا ہے۔ میں یہ گھر کیسے چھوڑدوں… اس کے درودیوار نے تمھاری خوشی اورمسرت کو اپنے اندر جذب کیا ہے۔ تمھاری اداؤں کو دیکھا ہے … گل بہار … یقین کرو… اب بھی جب میں باہر سے گھر آتا ہوں تو دروازہ کھول کر اس جگہ ضرور تکتا ہوں جہاں تم بیٹھا کرتی تھی… اور تمھارا ہنستاہوا چہرہ یاد آجاتا ہے… مجھے کیا خبر تھی کہ تم بھی مجھ سے جدا ہو جاؤ گی… عامر … ناصر … رخسانہ … شاہنہ اور صنم سب اپنے اپنے گھروں کے ہو کر رہ گئے ہیں … انکے گھر تو اتنی دور ہیں کہ میں شاید اڑ کر بھی وہاں تک نہ پہنچ پاؤں… دو امریکہ میں … ایک جاپان میں… شاہنہ عرب میں اور صنم افریقہ میں … تم ہی بتلاؤ گل بہار… میری آنکھوں کا نور دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے اور میری آنکھیں انھیں دیکھنے کے ترس گئی ہیں… گل بہار… چاہو تو ان سے ملنے چلا جاؤں… مگر کتنے دن وہ مجھے رکھیں گے… اپنا گھر اپنا ہوتا ہے… کاش گل بہار تم مجھے چھو ڑ کر نہ جاتیں… مگر اس میں تمھارا کیا قصور… گل بہار… بہار اپنے پیچھے خزاں چھوڑ جاتی ہے… اور یہ خزاں رسیدہ بوڑھا… اپنی گل بہار کو صرف یاد ہی کر سکتا ہے … جس کے ساتھ زندگی کے
پچاس برس گزارے ہوں … تو ملک عدم ہو جائے تو … تو… فضل خان… ہمت کرو … اگر اب بھی خواب میں کہا جائے کہ سفر کرو تو … ہمت کرکے پوچھ لینا کہ کہاں کا … کہاں کا… فضل خان بندے سے رضا کا پوچھا جائے ہے …؟
گل بہار … فضل خان نے دیوار کی جانب منہ کرکے کہا … کل کی بات ہے … میں گلی سے گزر کر گھر آ رہا تھا … کچھ عورتیں گلی میں جمع تھیں… رکنے کا راستہ نہیں تھا… میں نے آہستہ سے کہا ۔ بہنو۔ بیٹیو ۔ ذرا راستہ د ے دیں… سب نے سہم کر مجھے راستہ دے دیا … چلتے چلتے میرے کاموں نے ایک آواز سنی، ہائے بے چارہ فضل حان … اتنا امیر و کبیر شخص اور اتنا شریف ان لوگوں کے دم سے ہی محلے آباد ہیں… تمام محلے کی عورتیں کو بہنیں اور بیٹیاں سمجھتے ہیں … ذرا آج کی نسل کو دیکھو… جہاں عورت نظر آئی… سیٹیاں بجانے لگتے ہیں…
گل بہار عجب زمانہ آ گیا ہے … لوگوں نے اپنی لغت میں سے خاندانی شرافت کا نام ہی کاٹ دیا ہے نفسا نفسی کے اس دور میں شرافت نہ جانے کس کنج میں منہ چھپائے رو رہی ہے او ر شیطانیت برسرعام قہقہے لگا رہی ہے … زندگی چوہا دوڑ ہو گئی ہے … کھا پیو اور مر جاؤ…
گل بہار… تمھیں وہ دن یاد ہے کہ جس دن ہماری شادی ہوئی تھی۔ ہمارے محلے کی بوڑھی ٹھاکرائن کس طرح ہم دونوں پر واری ہو رہی تھی۔ کیسے بے درد انداز سے نوٹ لٹا رہی تھی … ایسا لگتا تھا جیسے اس کے اپنے بچوں کی شادی ہو … آج تو اگر کسی کے پڑوس میں ڈھولک بج رہی ہو۔ تو پڑوسی نہایت ہی حقارت سے کہتے ہیں، کم ذات اب تو راتوں کو سونے بھی نہیں دیتے۔
گل بہار … تمھیں وہ دن یاد ہے جب ہمارا عامر پیدا ہو ا تھا تو ہمارے محلے کی عیسائی خاتون ڈی سوزا کس طرح ساری رات تمھاری پائنتی کھڑی رہی تھی … اور مجھے صبح ہی صبح کہنے لگی تھی … گجل خان … بچہ آذان مانٹا ہے … آذان…
گل بہار… میں آج کی رات سونا نہیں چاہتا ہوں … میں خوابوں کا رسیا نہیں ہوں… اب اس بڑھاپے میں مجھے کہاں پر جاتا ہے … نہیں… جب تک سانس ہے … بس ان ہی درودیوار میں رہوں گا… اس گھر کی ہر چیز مجھے پیاری ہے … یہ گھر میرے آباء کا ہے … یہاں میری ماں اور ابا رہتے تھے۔ یہاںگل بہار تھی ۔ زندگی تھی ۔ عامر۔ ناصر۔ رضا ۔ شاہینہ اور صنم کے قہقہے تھے … اس گھر کے درودیوار ہماری آوازوں سے آشا ہیں ۔ یہاں کی ہر چیز ہمارے لمس سے آگاہ ہے … یہ گھر… زندگی کی علامت ہے … اگر یہ نہ رہا تو زندگی کس کام کی…
فضل خان … ناامیدی کی بات مت کرو… بہت ہو چکی دنیا داری… ہر حال میں خوش رہو فضل خان نے خود ہی خود کو سنبھالا دیا… یہ بات نہیں ہے ۔ میں اور ناامیدی … غلط بات… میں تو بس یونہی کبھی کبھی بے حال ہو جاتا ہوں… یہ یادیں… ہی تو میری تنہائی کا مداوا ہیں… فضل خان کیا بڑھاپے میں سٹھیا گئے ہو۔… مرد ہو… مرد رہو… اور مرد بنو…
بڑھاپے میں ہی تو پتہ چلتا ہے کہ انسان کیا ہے … کس لیے آیا تھا اور کیا کر چلا ہے … میں فضل خان … ولد اعجاز خان ابھی اتنا گیا گزرا نہیں ہوں کہ اس عمر میں بھی سودوزیاں کا حساب نہ لگاؤں… چلو فضل حان… ذرا دیر آرام کر لو… کل صبح کس نے دیکھی…
فضل خان … آج بھی کیا خواب دیکھو گے … اور اگر سفر کا حکم دیا گیا تو…
دوسری صبح پورے محلے میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ فضل خان نے اپنا مکان مسجد بنانے کے لیے دے دیا ہے اور خود پاک پٹن کے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں … شام ڈھلے فضل خان کو ایک چھوٹے سے تھیلے میں چند کپڑے لے ہو جاتے ہوئے سب دیکھ رہے تھے… فضل خان بڑے باوقار انداز میں آہستہ آہستہ چلتے جا رہے تھے۔ میر عبداللہ پیش امام نے آگے بڑھ کر کہا… فضل خان… کیا دوبارہ ملاقات ہوگی…
بھائی اگر اللہ نے چاہا …
آپ واپس آئیں گے؟…
جس نے بلایا ہے اگر وہ اجازت دیں گے تو ضرور آئیں گے… اچھا … خوش رہیے…
۔۔۔۔۔
بس رکتے ہی فضل خان سب سے پہلے بس سے اترے… دو قدم چلے… فضل خان یہی منزل ہے … مگر یہ لوگ کی اتنی طویل عمر اور لمبی قطار کیوں لگی ہوئی ہے … لاؤ… کسی سے پوچھ لیتے ہیں…
بھائی یہ کیسی قطار ہے …
یہ بابا کے عاشقوں کی قطار ہے… بہشتی دراوزے سے گزرنا ہے تو قطار میں کھڑے ہو جاؤ … شاید قسمت یاوری کر جائے۔
اگر اس قطار میں نہ لگیں تو…
آپ بہشتی دروازے سے گزرنا نہیں چاہتے…
مگر کیوں…؟
اگر آپ اس بہشتی دروازے سے گزرجائیں گے تو دوزخ کی آگ حرام ہو جائے گی …
اچھا … چلو قطار میں لگ جاتے ہیں
فضل خان بہشتی دروازے سے تو گزریو…
آج رات کس وقت کھلے گا اور کل …
بس کھلے گا… یہی کافی ہے… فضل خان … دیکھیں بلانے والا کیا چاہتا ہے…
فضل خان… قطار بہت آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے ۔ کیو ں… لوگ زیادہ ہیں …
قطار آہستہ آہستہ آگے بڑھتی رہے گی فضل خان … اور تم بہشتی دروازے سے گزر جاؤ گے۔
بھائی ذرا سنو… بہشتی دروازہ اور کتنی دور ہے …
بس بابا جی اب زیادہ دور نہیں ہے ۔
اچھا … فضل خان… چلو بہشتی دروازے سے گزرو… اور پھراپنے میزبان کی تلاش کرو۔
میں کہاں تلاش کروں… یہیں اور کہاں … یہیں تو تمھیں بلایا گیا ہے …
یہ کیا بابا کی نگری ہے … اچھا… فضل خان… اچھا بڑھتے ہو…
فضل خان وہ رہا بہشتی دروازہ… ایک طرف سے داخل ہونا ہے اور دوسری طرف سے باہر نکل جانا ہے … اچھا … فضل خان چلے چلو … چلو… چلو… چلے چلو…
فضل خان بہشتی دروازہ آ گیا ہے … اندر داخل ہو جاؤ… بھئی اتنا زور نہ لگائیں بوڑھے آدمیوں کا خیال کریں … فضل خان… لوگ یہاں بھی طاقت آزمائی سے باز نہیںآتے… یہاں تو صرف بہشتی دروازہ ہے … بہشت میں کیا کریں گے… فضل خان… دیکھو انسان ہر لمحہ اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے … یہ طاقت کا استعمال… کہیں مجھے گرا نہ دے… فضل خان ذرا حوصلہ رکھنا… فضل خان کے کان مختلف آوازوں کو سن رہے تھے… فضل خان
یہ تو اک نئی دنیا ہے … تم ایک کونے میں دبک جاؤ… فضل خان آ گئے ہو…
جی … آ گیا ہوں… سفر کرتا ہوا ۔ دنیا سے سفر کرتا ہوا…
بس تمھیں یہاں آنا ہی تھا ۔
فضل خان یہیں رہنا ہے … اور سب دل کا حال کہنا ہے۔
کہا ہے جی … کہنا ہے …
آئیے بغل گیر ہو جائیے … آئیے…
فضل خان نے بغل گیر ہوتے ہوئے خود سے کہا اس قدر صاف آئینہ… جو چاہو دیکھ لو…
فضل خان … دیکھ لو… اک نئی حیرت انگیز دنیا … جہاں حال و قال ختم ہو جاتا ہے۔
_______________