(Last Updated On: )
جی ۔تو آج میں آپ کو ان عجوبہ روزگار افراد سے ملواؤں گا کہ جن کے کارناموں کی دنیا میں دھوم ہے ۔ اگر ہم غور کریں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو گا کہ ہمارے چاروں طرف اتنے اہم اور ناقابل تسخیر افراد موجود ہیں کہ جن کی کاوشوں کی وجہ سے ہم غیر ملکی زرمبادلہ بچا سکتے ہیں اور ملک کو خود کفالت کی طرف گامزن کر سکتے ہیں۔
ذرا دیرکے لیے چشم تصور واکیجیے ۔ یہ ہرے بھرے جنگل ، یہ سبز کھیت ، یہ گنگناتی ندیاں ، یہ مصفا اور حیات بخش جھرنے ، یہ دل فریب وادیاں۔ یہ سربفلک بلند و بالا پہاڑ ۔ یہ پھلوں سے لدے پھندے درخت۔ معطر اور جان فزا شامیں۔ فرحت انگیز صبحیں۔یہ سب کچھ مناظر قدرت ہیں اور بھی کچھ ’ ’ مناظر قدرت‘‘ میں آتا ہے ۔ اس پر جب ہم نے غور کیا تو عجب مسرت ، فرحت ، ترنگ اور امنگ سے واسطہ ہوا ۔آئیے ۔ آپ سے ملاقات کراتے ہیں۔
جناب یہ مسٹر ٹی کے دھرم پلٹ ۔ ان کاواحد اور ممتاز کارنامہ یہ ہے کہ برسوں کی تحقیق و جستجو کے بعد ہزاروں روپیہ برباد کرنے کے بعد انھوں نے ایک ایسا فارمولا ایجاد کیا ہے کہ جس کی بنا پر ہم امریکن منڈیوں کے خاتمے میں کام یابی حاصل کر چکے ہیں ۔ ہاں تو مسٹر ٹی کے دھرم پلٹ ۔ آپ کی فتوحات آپ خود بیان کریں۔
شکریہ۔ جناب ساتھی صاحب۔ میں سب سے پہلے آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھ گوشہ گیر اور فقیر کو اپنی محفل میں بلایا ۔ بات دراصل یہ ہے کہ کپاس ہمارے ملک کی اہم فصل ہے ۔ ہر سال لاکھوں کروڑوں امریکن سنڈیوں کی وجہ سے جاگیردار کو بہت نقصان برداشت کرنا پڑتا تھا ۔ میں نے خدمت خلق کے حوالے سے، قومی و ملکی ضروریات کے پیش نظر یہ تہیہ کیا ، مجھے اس سلسلے میں کام کرنا چاہیے۔ سو میں نے اپنی جیب سے لاکھوں روپے صرف کیے تب جا کر ایک ’’ فارمولا‘‘ ہاتھ لگا اور آج اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے جاگیر دار بھائیوں کی جیبیں’’ بھاری‘‘ ہیں اور اگر انھوں نے اسی طرح ہماری سرپرستی فرمائی تو مزید کامیابیاں متوقع ہیں۔
’’ مسٹر ٹی کے دھرم پلٹ۔ سناہے کہ امریکن سنڈیاں تو ختم ہو جاتی ہیں مگر اس کے بعد وہ زمین بنجر ہو جاتی ہے۔ ’’ جناب آپ نے بہت اچھا کیا۔ یہ سوال بہت اہم ہے ۔ بات دراصل یہ ہے کہ وہ لوگ جو امریکن سنڈیوں کو ختم نہیں کر سکے وہ یہ ’’ پروپیگنڈہ‘‘ کر رہے ہیں ۔ ہم فصلوں پر دوائی کا اسپرے کرتے ہیں کوئی ایٹم بم تو نہیں گراتے کہ اس کے بعد ’’ زمین‘‘ بنجر ہو جائے ۔ بات اتنی سی ہے کہ نکمے اور کام چور افراد ’’ اسپرے‘‘ کا بے تحاشہ استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ’’ زمین‘‘ کی پیداواری صلاحیت میں فرق آجاتا ہے۔ منچلوں نے اس کو ’’ بنجر‘‘ کا نام دیا ہے ۔ آپ میرے فارم پر چلیں میں آپ کو بتاؤں گا کہ کس طرح اسپرے ہونے کے بعد زمین پھر قابل کاشت رہتی ہے۔‘‘
مسٹر ٹی کے دھرم پلٹ۔ بات یہ ہے کہ امریکن سنڈیاں آتی کہاں سے ہیں ۔ کچھ عرصے سے یہ نام سننے میں آ رہا ہے حالاں کہ ہم کپاس کی کاشت برسہا برس سے کر رہے ہیں۔
یہ بات بالکل غلط ہے کہ امریکن سنڈیوں کا نام ابھی سننے میں آیا ہے۔ یہ کیڑا ، جسے امریکن سنڈی کا نام دیا گیا ہے ، بہت ہی پرانا کیڑا ہے ۔ بات صرف اتنی ہے کہ ’’ محدود‘‘ علم والے یہ نعرہ لگارہے ہیں ۔ ویسے سچی بات یہ کہ امریکن سنڈیوں کی پیدائش کے لیے گرم مرطوب آب و ہوابہت معاون ثابت ہوتی ہے۔ دیکھیے ۔ میری کاوش کو دنیا بھر میں سراہا گیا ہے۔ بہت سے ملکوں نے اپنے یہاں استعمال کے لیے مجھ سے اجازت طلب کی ہے ۔ مگر میں نے ملکی مفاد کو اولیت دی ہے ۔ ’’ آپ سے آخری سوال یہ ہے کہ کپاس کی فصل کو ناس کرنے میں امریکن سنڈی کا کتنا دخل ہے بہت سے دوسرے کیڑے بھی فصل کا ستیاناس مارتے ہیں مگر اسی موذی کیڑے میں بلا کی برداشت پائی جاتی ہے اور اس کا رنگ بھی سفید ہے ۔ یہ پورے کے تمام حصوں پر یکساں حملہ کرتا ہے ۔ یہ جانیے گا کہ یہ ایک طرح کا کینسر ہے اچھی فصل حاصل کرنے کے لیے ہمیں امریکن سنڈیوں کا مکمل خاتمہ کرنا ہو گا۔ ورنہ یہ نامراد کیڑا ہماری معیشت کا ستیاناس کر دے گا ۔ ہاں تو سامعین ؍ حاضرین آپ کی کے دھرم پلٹ سے کوئی سوال کرنا چاہیں گے۔‘‘
’’ جی۔ میں ایگری کلچر کی طالبہ ہوں ۔ آج تک ’’ کلچر‘‘ کی تعریف میری سمجھ میں نہیں آئی۔ یہ ایگری کلچر کیا ہے ۔ بی بی عام سا سوال ہے ۔ زراعت۔ زمین پر مالی فوائد والی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں ۔ یہ ایک انڈسٹری ہے ۔ نوٹوں کی مشین ہے لہذا ہمارے یہاں اس کی بہت ’’افادیت‘‘ ہے ۔ ’’ پجاروکلچر‘‘ کو دیکھیے۔ آپ کو ’’ کلچر‘‘ سمجھ میں آجائے گا۔‘‘
ہاں تو صاحبو۔ اب ایک اور صاحب سے آپ کی ملاقات کرواتے ہیں ۔ اقتصادی معاملات کے ماہر ہیں۔ بہت سے ممالک ان کے اقتصادی نظریا ت کی بنا پر اپنی ’’ معیشت‘‘ اور اقتصادی حالت کو ’’ مضبوط‘‘ کر چکے ہیں تو تشریف لاتے ہیں کیو۔ کے ۔ رنجیت۔
’’ آداب۔ آپ کا پروگرام ’’ شو ٹائم‘‘ واحد پروگرام ہے ، جسے خواص بڑے شوق سے دیکھتے ہیں اوہ مائی ڈیئر ٹی کے دھرم پلٹ صاحب ۔ آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی ۔ شیک ہینڈ۔‘‘
’’ رنجیت صاحب ! واقعی ہمارا پروگرام ’’ شو ٹائم‘‘ مقبول اور منفرد پروگرام ہے جس میں ہم کھل کر اپنے ملکی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں ویسے یہ پروگرام ’’ ڈائریکٹ آن ایئر‘‘ ہوتا ہے۔ ٹائم کم ہے اور مقابلہ سخت ۔ آپ ٹی کے دھرم پلٹ کے کارناموں سے آگاہ ہیں ۔ بتلایے ان کی کوشش اور جدوجہد سے ملکی معیشت کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے۔‘‘
’’ دیکھیے مسٹر ساتھی۔ آپ مجھ جیسے ’’ چھوٹے‘‘ آدمی سے ’’ بڑی‘‘ بات کہلوانا چاہتے ہیں ۔سچی اور کھری بات یہ ہے کہ ان کی کام یاب او ر عجوبہ روزگار ’’ دریافت‘‘ کی بدولت زرمبادلہ کی صورت میں ہمیں ایک محتاط اندازے کے مطابق’’ دس ملین‘‘ کی بچت ہوتی ہے ۔ یہ ایک قابل فخر کارنامہ ہے ۔ جس کو سراہا جانا چاہیے۔یہ شخص درد مند دل رکھتا ہے ۔ اس کا واحد مقصد ’’ امریکن سنڈیوں ‘‘ کو نیست و نابود کرنا ہے ۔ جس کی وجہ سے کپاس کی فصل اچھی ہوتی ہے اور کاشت کار ’’سونے‘‘ سے اپنی جھولیاں بھرتے ہیں۔ خالص سونے سے ۔ سونا۔‘‘
’ کیو کے رنجیت صاحب! اس طرح ہماری قومی ’’معیشت ‘‘ بہت جلد مستحکم ہو جائے گی پھر ہمیں کوئی ’’ ڈکٹیشن‘‘ نہیں دے سکتا۔
سنیے صاحب۔ہماری قوم نے آج تک کسی بھی طرح کی ڈکٹیشن نہیں لی۔ ہماری معیشت الحمدولِللّٰہ مضبوط اور توانا بنیادوں پر استوار ہے۔ ٹی کے دھرم پلٹ جیسے لوگ قیمتی قومی اثاثہ ہیں ۔ ان کی کاوشوں کی ایک دنیا معترف ہے ۔ میں یہاں اپنا ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔
آج سے دس سال پہلے مسٹر ٹی کے دھرم پلٹ جب ٹیکساس میں ٹیکسی ڈرائیور تھے۔ تو میں نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ ٹیکسی چلانے کے ساتھ ساتھ ’’ ملک و قوم‘‘ کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کام کریں۔ ان دنوں مسٹر سنڈاس سنڈیوں پر کام کر رہے تھے ۔ میری سفارش پر مسٹر ٹی کے دھرم پلٹ۔ ان کے شاگرد بنے۔ دن کو ٹیکسی چلاتے اور رات کو مسٹر سنڈاس کی تجربہ گاہ میں تجربات کرتے ۔ آج میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ اس نابغہ روزگار شخص نے اپنی اہلیت اور قابلیت کی وجہ سے ہمارا سر ’’ فخر‘‘ سے بلند کر دیا ہے ۔ بلا شبہ یہ ایک عظیم محب وطن ہیں ۔ ہمیں ان کی ’’ توقیر کرنا ہو گی۔
حاضرین محترم۔ اب آپ کی خدمت میں دو تین بڑے زمین داروں کو پیش کیا جاتا ہے جنھوں نے ’’ کپاس‘‘ کی فصل کاشت کرنے کو اپنا شعار بنایا ہوا ہے ۔ تو تشریف لاتے ہیں جاگیردار اللہ دتہ ، وڈیرہ کرم داد۔ خا ن گلاب خان آفریدی ۔ اور اے کے مینگل۔
حاضرین کرام ۔ شو ٹائم میں ان زمین داروں کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں ۔ یہ تمام افراد ہزاروں ایکڑ زمین کے بلا شرکت غیرے مالک ہیں ۔تو آئیے ان کے خیالات جانتے ہیں
جاگیر اللہ دتہ ۔ جناب امریکن سنڈیوں کی وجہ سے ہماری فصل خراب ہو جاتی تھی ۔ جب میں نے اس مصیبت کا ذکر اپنے ایک دوست سے کیا تو اس نے کہا ’’ بھولے بادشاہ‘‘ سنڈاس جی ایس ۱۰ استعمال کرو۔ بس جی سنڈاس کے استعمال سے میری فصل بہت ہوتی ہے۔
ہاں تو وڈیرہ کرم داد۔ خان گلاب خان آفریدی اور اے کے مینگل صاحب آپ کی کیا رائے ہیں ۔ ’’ تم سب کی پسند سنڈاس۔ واقعی لاجواب ۔‘‘
( چاروں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دیے مسکراتے ہیں۔ پس منظر میں سنڈاس کا ڈبہ لشکارے مار رہا ہے)۔
صاحبو! ۔ شو ٹائم کا وقت پورا ہوا جاتا ہے۔
ٹھہرو جی ۔ ایک لمبے تڑنگے آدمی نے آگے بڑھ کر کہا :سنڈاس کا طریقہ استعمال جاننا بہت ضروری ہے ۔ یہ میری اسپرے مشین ہے ۔ اس میں سنڈاس جی ایس ۱۰ بھری ہوئی ہے۔ اسپرے مشین کے پھوارے کے ساتھ سرخ بٹن ہے ۔ جب یہ بٹن جلتا ہے تو سمجھ لیجیے امریکن سنڈیاں موجود ہیں ۔ اب آپ اسپرے کریں ۔ یہ کتہے ہی اس نے اسپرے مشین کا رخ ٹی کے دھرم پلٹ ، کیو کے رنجیت، جاگیر دار اللہ دتہ ، وڈیرہ کرم داد، خان گلاب خان آفریدی اور اے کے مینگل کی طرف کرکے اسپرے کرنا شروع کر دیا ۔
عین اسی لمحے بہت سے آوازیں آئیں ۔ یہ بنیاد پرست کہاں سے آ گیا ہے ۔ روکو۔ روکو، پکڑو۔ اسپرے مشین کے کنارے پر سرخ بٹن جل رہا تھا ۔
______________