لوگ کہتے ہیںکہ میرا بنگلہ کروڑوں روپے کا ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ صحیح کہتے ہیں میری خوش قسمتی یہ ہے کہ میں سابق سرکاری افسر ہوں اور آج کل گوشۂ تنہائی میں آرام رے رہ رہا ہوں ۔ میری برسوں کی محنت اور مشقت کی بدولت آج میری اولاد دنیا کے بہت سے ملکوں میں آرام سے رہ رہی ہے۔ میں اپنے وسیع و عریض بنگلے میں اکثرو بیشتر اپنے اچانک دورے کرتا ہوں اور اپنے معاملات کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔ اس دیکھ بھال میں اکثر بہت سے ملازمین اور بنگلے میں میں مختلف کاموں کے سلسلے میں روزانہ آنے والوں سے کبھی کبھار مکالمہ بھی ہو جاتا ہے ۔ یہ مکالمہ اکثر مہنگائی کے بارے میں ہوتا ہے ۔ ملازمین اور نوکروں کی اکثریت اس بارے میں زیادہ ہی شاکی رہتی ہے۔ میں اکثر ان کو سمجھاتا ہوں کہ بھائیو! دیکھو ہم نے اسلام آباد کو کہاں تک پھیلا دیا ہے اور آپ پھر بھی زمین کے لیے مارے مارے پھرتے ہو۔ ہم نے آپ کی تنخواہ بھی ہزاروں روپے کر دی ہے مگر … میرے ملازمین اور نوکروں کاخیال ہے کہ میں آن پر بے جا ظلم کرتا ہوں ۔ حالاںکہ میری عادت ہے کہ میں ان کا بہت خیا ل رکھتا ہوں ۔ریفریجریٹ میں اکثر دو تین ماہ پرانی اشیاء مثلاً مٹھائی ، کیک، آئس کریم سب انھیں ہی ذوق و شوق سے کھلاتا ہوں مگر پھربھی یہ لوگ مجھ سے شاکی رہتے ہیں۔
مجھ جیسا آدمی کہ جس نے ساری دنیا دیکھ بھال رکھی ہو ۔ ہمیشہ سے ہی روشن خیال رہا ہے۔ زندگی میں بس تین چار شوق کیے۔ اچھا کمایا ۔ اچھا کھایا اور شکار… واہ بھئی واہ ۔ شکار کا یاد آتے ہی تھانہ بولا خان اور وہاں کا پٹواری نند لال یاد آ گیا ۔ کیا باغ و بہار آدمی تھا ۔ میرے شکار کے سارے معاملات اس کے سپرد ہوتے تھے اور وہ باکمال ہر کام کو ایک اہل اور مستعد اہل کار کی طرح سے بجا لاتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی ساری ملازمت تھانہ بولا خان میں ہی پوری کی۔ ویسے مجھے بہت سے آدمیوں کا بھی پتہ ہے کہ جن کی ساری عمر تھانوں میں ہی گزری مگر میں نے انھیں ملازمت کے بعد اکثر قلاش ہی دیکھا۔ میاں یہ جو نوکری ہے ۔ یہ طاقت ہے ، دبدبہ ہے، عزت ہے ، وقار ہے اس میں نشیب و فراز آتے ہی ہیں مگر حوصلہ مند ، عاقل ان مسائل پر بھی قابو پالیتے ہیں ۔ یہی عاقل دانا اور بنا لوگ آنے والی نسلوں کے لیے عمدہ حالات اور وافر مسائل چھوڑ جاتے ہیں ۔ میں نے اور میری بیگم صاحبہ نے ہمیشہ کفایت شعاری اور پلاننگ سے کام لیا اور اپنی جائز کمائی کو مضبوط اور منضبط طریقے سے بیرون ملک کی بینکوں میں پس انداز کیا جس کے دو فائدے ہوئے ۔ ایک تو زر میں اضافہ ہوا ۔ دوسرا وہاں بچوں کوا پنے اپنے اکاؤنٹ ہونے کی وجہ سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔
ہاں مجھے یاد آیا کہ جب میں گورنر کا لا باغ کی معائنہ ٹیم کا سربراہ تھا تو میری عادت تھی کہ میں لوگوں کو کبھی سچ نہیں بتلاتا تھا۔ جانا کراچی ہوتا تو بتلاتا لاہور کا ، یا گلگت کا ۔ تاکہ رازداری رہے۔ اس وجہ سے مجھے بہت سے فائدے ہوتے تھے اچانک معائنہ کرنے سے بہت سی باتیں معلوم ہو جاتی تھیں ۔ آپ یقین کریں کہ اتنے اہم اور طاقت ور عہدے پر بھی میںنے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا اور مجھے اس امر کا بھی اعتراف ہے کہ ماتحتوں نے بھی مجھ سے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر تعاون کیا ۔ اس بنگلے میں سارا سامان اور تعمیراتی کام اسی سنہری دور میں ہوا ۔ آپ سے کیا پردہ۔ فاٹا والوں کی دوستی باٹا والوں کی طرح پائیدار ہے۔ یہ کلیہ جس نے سمجھ لیا اس کا بیڑہ پار ہے۔ ویسے بھی اعلیٰ سرکاری افسروں کو یہی طریقہ سکھایا گیا ہے کہ چوہدری خان سردار، وڈیرے جس معاشرے میں موجود ہوں گے وہاں کبھی انقلاب نہیں آئے گا۔ بس ترانے الاپتے اور لکھتے رہو۔ معاوضہ اچھا اداکیا جائے گا ۔ میں خود آج کل رشوت کے خلاف جہاد کررہا ہوں اور اپنی این جی اوز کے ذریعہ سے اس قبیح رسم کی بیغ کنی کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ کل رات کی بات ہے کہ جب میں نے اپنے ملازم بخشو سے کہا کہ کیا بات ہے ۔ آج دودھ کا ذائقہ بدلا ہوا ہے ۔ اس نے کہا صاحب۔ اسلام آباد کے نلکوں کا پانی بھی اب بھاری نہیں رہا اور میری معلومات کے مطابق اب گوالوں نے چینی گائیں پالی ہیں جن کے گاڑھے دودھ میں اب راول ڈیم کا ہلکا سا پانی ملایا جاتا ہے۔
اچانک آج صبح میں نے اپنے مچھلی گھر کا معائنہ کرنے کا پروگرام بنایا اور میں دوپہر ٹھیک بارہ بجے اپنے مچھلی گھر والے حصے میں پہنچ گیا۔ وہاں جا کر مجھے محسوس ہوا کہ مچھلیوں کی تعداد خاصی کم ہے ۔ خاص طور پر رنگا رنگ مچھلیوں کی جو کہ میں نے بڑی دقت سے دنیا کے مختلف ممالک سے قیمتاً حاصل کی تھیں ۔ اچانک میرے ذہن میں یہ خیال کوندا کہ کہیں مچھلی گھر کے نوکروں نے یہ قیمتی مچھلیاں کسی اور کو فروخت تو نہیں کر دیں۔ میں اس شش و پنچ میں مبتلایہ حساب لگا رہا تھا کہ … اچانک میں نے مچھلی گھر میں دیکھا کہ ایک مچھلی مجھے بڑے مہذب طریقے سے آداب کر رہی ہے ۔ میں نے حالتِ خوف میں سر کو جھٹکا دیااور ایک بار پھر مچھلی کی طرف دیکھا۔ اب کے وہ ہنس بھی رہی تھی اور آداب بھی کر رہی تھی ۔ مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنی طرف بلایا ۔ میں نے اس کی جانب بڑھتے ہوئے احتیاط شوکیس کے اوپر کا ڈھکنا ذرا سا ہٹا دیا۔ آواز ائی۔
’’ بہرام خان آداب۔‘‘
’’ یہ آواز کہاں سے آئی میں نے خود سے سوال کیا۔‘‘
’’ میں پانی کی مچھلی آپ سے مخاطب ہوں بہرام خان۔‘‘
’’ ارے کیا اب مچھلیاں بھی بات کرنے لگ گئی ہیں۔‘‘
’’ ہاں نا صرف بات کر رہی ہیں بلکہ آداب بھی کر رہی ہیں ہے نا عجیب بات۔‘‘
’’ حیرت انگیز ۔ کیا قیامت قریب آ گئی ہے۔‘‘
’’ ہاں ایسا ہی سمجھ لو… ویسے بہرام خان اپنے دو ر ملازمت میں تم نے بھی کم قیامت نہیں ڈھائی۔‘‘
وہ کیسے ؟ میں نے حیرت سے کہا ۔
تم نے طاقت کے نشے میں بہت سے لوگوں کو اپنے نازیبا انداز سے تقریباً نیم مردہ کر دیا ۔
نہیں میں نے تو قانون کی حکمرانی کو پیش نظر رکھا۔
ہاں تم یہی کہہ سکتے ہو ۔ حالات کچھ اور کہہ رہے ہیں تم نے اس شہر میں گیسٹ ہاؤس بنوا کر بہت ہی گند پھیلایا ہے ۔ فحاشی کو فیشن تم نے بنایا ہے؟
یہ مجھ پر سراسر الزام ہے ۔ میں نے کہا
اچھا۔ اور اینٹی کرپشن بنا کر تم نے کرپشن کو کیسے بڑھاوا دیا۔ تم نے تمام قانونی حدیں خود ہی توڑی ہیں۔
مگر اے میری پیاری مچھلی! تم یہ ساری باتیں کیوں اور کیسے کر رہی ہو؟
مسٹر بہرام خان ! میں تمھارے حالات برسوں سے جانتی ہوں۔
وہ کیسے؟ میں نے حیرت سے کہا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ انسان نادانی کو اور مچھلی پانی کو بے حد پسند کرتی ہے۔
اے میری پراسرار مچھلی ۔ میں حیران ہوں کہ تم کہاں سے یہاں آئی ہو۔
بہرام خان میں تو ہمیشہ سے یہاں موجود ہوں۔ اس قوت گویائی صرف آج کے لیے ملی ہے؟
اچھا تم مجھ پر غفلت کا الزام لگا رہی ہو۔
میں معمولی سی مچھلی اگر پانی پر کھڑی بھی ہو جاؤں تو آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ اس لیے میں اس شہر میں سے ہر طرف تمھارے چاہنے والے موجود ہیں۔
تم سے پہلے بھی بہت سے مچھلیوں نے مجھ پربارھا یلغار کی ہے مگر وہ سب ناکام اور نامراد ہیں۔
بہرام خان ۔ گندی مچھلیاں صرف جل کو گندہ کرتی ہیں میں گندی مچھلی نہیں ہوں اس لیے جل میں صا ف ستھری رہتی ہوں مگر تم نے اپنی طاقت کے بل پر اتنا ظلم و ستم کیا ہے کہ لاکھوں انسانوں کو معاشی طور پر پس ماندہ کر دیا ہے؟ اور آج حالات یہ کہہ رہے ہیں کہ راول ڈیم کا پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔ چلو بھر پانی میں بھینسوں کا گوبر صاف نظر آتا ہے۔
میرا خیال ہے پیاری مچھلی کہ اس بستی میں صرف میں ہی نشانہ ہدف تنقید نہیں ہوں اور بہت سے بھی ہیں۔
یقینا بہرام خان ۔ یقینا۔ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ۔ مگر مجھے جو قوت گویائی عطا ہوئی ہے وہ صرف آپ سے ہم کلام ہونے کے لیے ہے۔
میں نہیں جانتا کہ ایسا کیوں کر ہوا ہے ۔ مجھے ابھی تک حیرانگی ہے کہ مچھلی بولتی ہے۔
ہاں بہرام خان۔ مچھلی جب بولتی ہے تو سمندر ٹٹولتی ہے ۔ سمندر ظلم و ستم کا۔ روا اور ناروا کا تمھیں بتلانا پڑے گا کہ جب طاقت تمھارے ہمراہ تھی ۔ تمھارے کروفر سے مخلوق خد ا خوفزدہ تھی ۔ اس وقت تم نے دولت سمیٹنے ۔ برائی کو پھیلانے اور جذبات کے برمانے کے رنگ اور ڈھنگ کیوں روا رکھے۔ کیا تمھیں اندازہ نہیں تھا کہ اٹک پر آ کر تو دریا بھی اٹک جاتا ہے؟
اے مچھلی ! تم بڑی باتونی ہو۔ تم نے مجھے سمندر سمجھ رکھا ہے اور آہستہ آہستہ ٹٹول رہی ہو۔
میں نے صرف بہرام خان وہی کیا ہے کہ جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھتا ۔
میں نہیں مانتا… تم جھوٹ بول رہی ہو … تمھاری باتیں عجیب اور خوفناک ہیں۔
بہرام خان غریب اور مسکین مچھلیاں جھوٹ نہیں بولتیں۔ یہ قانون تو تمھارے اس شہر کا ہے کہ جہاں سچ بولنا منع ہے۔ یہاں تمدن ، کلچر، قانون، اور مناسبات زندگی کو بدلنے کے لیے بڑے بڑے ماہر موجود ہیں ۔ جو آپ کو بچنا اور پھنسنا بیک وقت سکھاتے ہیں ہاں اور ہاں ہی اس شہر کا سکہ رائج الوقت ہے۔ یہاں گردنوں کی رعونت ’’ ناں‘‘ کو برداشت نہیں کر سکتی ۔ اور اس لفظ ’’ ناں‘‘ سے شاید تم بھی نا آشنا رہے ہو۔ تمھیں ’’ سر نہ کہنا اور سر بچانا آتا ہے ۔ اور سر پر الزام بھی نہیںلیتے؟
میری مچھلیو یہاں ’’ سر‘‘ رکھنا بھی الزام ہے ہاں البتہ سرود کو اجازت ہے کہ گاہے بگاہے زندگی میں ترنگ لاتا رہے ۔ فضاجب سرمستی کا عالم دیکھتی ہے تو جھومتی ہے اور ترانے گاتی ہے اور رقص ؟ مچھلی نے مچلتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔
ہاں… رقص زنجیر میں بے آبرو ہوتا ہے ۔ ظلم کی کل میراث ہی یہی ہے۔
…… ہاں ساری مستی اور سرمستی رقص و سرور کی مرہون منت ہے ۔ طاقت کے ایوانوں میں ہمیشہ زندگی کے اس خوش خیال مرقعے کو ہی پسند کیا جاتا ہے۔ گھنگھرو او ر رقص ہی روشن خیالی ہے اور بہرام خان تم زندگی کی ساٹھ بہاریں دیکھ کر بھی آج ویسے کے ویسے ہو ۔ رقص طاوس اول میں … اب بادفنا کی چہرہ پستی سے بچنا چاہتا ہوں ۔جب دل رنگ ورامش سے بھر جاتا ہے تو تنہائی آدبوچتی ہے ۔ اور انسان بولایا بولایا سا پھرنے لگتا ہے۔
بھولے بہرام خان ! طاقت چٹان کی طرح سے ہے جس سے ٹیک لگا کر سر بلند اپنی قوت کو قائم رکھتے ہیں مگر تادیر… بادفنا ہمیشہ کروفر سے چلتی آتی ہے۔
میری پیاری مچھلی۔ زندگی کی تفسیر کرنی ہمارے بس میں نہیں ہے ۔ ہمیں تو بس خوابوں کی دنیا ہی تسخیر کرتی رہے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ باد فنا ہی تسخیر نہیں ہوتی۔
بہرام خان! تم نے زندگی کو مسرت اور خوشی عطا نہیں کی۔ ہر نعمت کو اپنے لیے روا رکھا ۔ ہر چیز کو صرف اپنے مفاد کے دائرے میں رکھا… مگر… تم بھول گئے کہ … زندگی… ہر ایک کے لیے مسرت کی داعی ہوتی ہے ۔ جہاں زندگی میں یہ رمزنہ پائی جائے تو وہاں زندگی جبر کے سائے میں پلتی ہے ۔ ہچکیاں لیتی ہے … ظلم سے بے حال ہوتی ہے تو … قانون فطرت مجھ سے بے مایہ قلمی اور معمولی چیز کو قوت گویائی دے کر یہ اعلان برملا ہوتا ہے کہ بس بہت ہو چکی ظلم کی شام… بہرام خان… دیکھو… زمین بھی تھرا رہی ہے، ہوا بھی لہرا رہی ہے… شاید … تم جان گئے ہو کہ وقت رخصت اگر آنکھوں میں آنسو ہوں تو محبت کی نشانی ورنہ تمھاری کہانی یہ تاریخ دھرائے گی ۔ تم لمحوں میں اس تھرتھراتی زمین کے سپرد ہو جاؤ گے… اور تمھارے چاہنے والے یہاں سے کوسوں دور سرود کی محفلوں میں زندہ ہوں گے اور اس لمحے جب تم زمین میں سما رہے ہو گے تو اٹک اٹک کریہ نہ کہنا۔
بول میری مچھلی کتنا پانی؟
______________
دریچہ ادب پاکستان کی سلور جوبلی تقریب
لاہور کے قدافی سٹیڈیم میں، 4 مئی ، 2024 ، کو دریچہ ادب پاکستان کی سپیشل سلور جوبلی کے موقع...