امی جی آپ کو کبھی بھی میرے پہ یقین نہیں رہا۔
تب جب میں چھوٹی تھی۔بچپن کے اوائل میں تھی۔تب جب میں کہتی تھی۔امی جی میں نے رضا کو نہیں مارا آپ تب میرا یقین نہیں کرتی تھیں۔
اور اب جب میں کہہ رہی ہوں ۔کہ امی جی میں نے کچھ نہیں کیا۔میں نے فون لیا مگر اس کا کوئی غلط استعمال نہیں کیا۔تو آپ کو تب بھی یقین نہیں آتا۔قالین پہ بیٹھی تھی وہ۔امی اس کے سامنے بیٹھیں تسبیح کر رہی تھیں۔ان کی ٹانگیں نیچے لٹک رہی تھیں ۔اور فرح کے ہاتھ ان کے گھوٹنے پہ تھے۔
فرح تم جانتی ہو۔تم نے خود عتراف کیا ہے۔کہ کوئی لڑکا تمہیں بلیک میل کر رہا ہے۔لڑکی کوئی بھی خامخواہ کسی کو بلیک میل نہیں کرتا۔تم نے سُنا نہیں بوڑھے بزرگ کیا کہتے ہی۔کہ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔آنکھوں میں سرد مہری لئے خشک لہجے میں اُنہوں نے کہا تو فرح ہونٹ کاٹنے لگی۔
امی جی آپ کو تو میرے پہ یقین شروع سے ہی نہیں تھا۔تو اب میں کیسے دلا دوں ۔جب کہ میرے خلاف گواہی بھی میں خود دے رہی ہوں۔آنسو اس کی آنکھوں میں جمع ہو رہے تھے۔امی جی نے دیکھ کے آنکھیں پھیر لی۔
امی جی میری آپ سے ایک درخواست ہے۔کہ براہِ مہر بانی پھوپھو کو اس سب میں مت گھسیٹیں۔وہ کچھ نہیں جانتیں۔میں نے اُن کو کچھ نہیں بتایا تھا اس سب کے بارے میں۔
اور یقین جانیں وہ لڑکا ایک نو عمر لڑکا تھا ۔جو محض شرارت میں مجھے تنگ کرتا تھا۔میں نے کالج میں محض فون اس لئے لیا تھا۔تاکہ آپ سے آ سانی سے بات کر سکوں۔کوئی بھی اپنا فون کسی انجان لڑکی سے شئیر نہیں کرتا۔ میں ایک انجان جگہ ،انجان شہر میں تھی ۔پلیز اس بات کو سمجھیں۔اور پھوپھو کو اس سب سے الگ رکھیں۔دو زانو ہوتے وہ اُنہیں سمجھا رہی تھی۔
لیکن جب تم فون پہ بات کرتی تھی۔تب تو تم کہتی تھی۔کہ فون تمہاری دوست کا ہے۔آنکھیں سکیڑے وہ اسے اس کا جھوٹ یاد دلا رہی تھیں۔
جی ۔۔۔ایک وہی تو جھوٹ ہے جس پہ مجھے اب ساری زندگی پچھتانا ہے۔اسی ایک جھوٹ کی وجہ سے میرے بھرم کہاں کہاں ٹوٹے کیاْبتاؤں۔ندامت سے کہتے شہر لاہور میں رہنے والا وہ بر دبار سا ،با رعب سا شخص اس کی سوچ میں چلا آیا تھا۔
امی جی بس آپ اس بات کو ذہن سے نکال دیں۔کہ اس سب میں پھوپھو کہیں شامل ہیں۔ابرار کے یک دم ذہن میں بنتے خاکے نے اسے اُلجھا دیا تھا۔وہ سر جھٹک گئی۔
اس عورت کی حمایت مت کرو،وہی ہے جس نے تمہیں تباہ کیا ہے۔اندر کا حسد انگڑائی لے رہا تھا۔
امی جی مت بھولیں وہی عورت ہے ۔جس نے آپ کے بے پروائی سے پھینکنے پہ مجھے سنبھالا ۔جس نے مجھے زمانے کی اونچ نیچ سمجھائی۔جس کی تربیت کی بدولت میں آج حق و سچ میں فرق کر پا رہی ہوں۔آپ کو جو بھی ان سے شکائتیں ہیں ۔وہ سب آپ اپنے تک رکھیں۔آنکھیں رگڑتے اس نے وہاں سے اُٹھنے کی تھی۔وہ پھوپھو کے خلاف ایک لفظ نہیں سُن سکتی ۔
امی جی نے نا گواری سے اُسے دیکھا تھا۔بد تمیزی مت کرو فرح خان ماں ہوں تمہاری۔انہیں یاد آ ہی گیا تھا ۔کہ وہ اس کی ماں ہیں۔
اوہ اچھا ہے ۔آپ کو بھی احساس ہوا ۔کہ میں آپ کی بیٹی ہوں۔لیکن امی جی میری ماں تو وہ پالنے والی بھی ہے۔اور اگر آپ کو بُرا لگا ہے تو معذرت چاہتی ہوں۔میں ان کے خلاف دوبارہ سُنوں گی تو تب بھی ایسے ہی بولوں گی۔اور اب مجھے اجازت دیں۔آج وہ اور پھوپھا آ رہے ہیں ۔مجھے تیاری کے لئے جانا ہے۔اس نے امی جی کے دل سے ہر ممکن دو دن میں قدورت ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔صدی کا سب سے مشکل کام تھا یہ۔
::::::::
نکاہت سے چلتے وہ اپنی پیکنگ با وجود تیز کوشش کے تیز نہیں کر پا رہی تھی۔بابا کی موت نے اس کے ذہن اور عصاب پہ گہرہ اثر ڈالا تھا۔اور اسی اثر کی وجہ سے اس کے کندھوں کے پٹھے درد کر رہے تھے۔بابر اسے لینے آیا تھا۔وہ اس گھر جا رہی تھی۔جہاں اس نے بچپن سے لے کے لڑکپن تک گُزار تھا۔ایسی جگہ جہاں سے اس کا باپ ابدی نیند کے سفر پہ نکلا تھا۔اس بات نے جہاں اسے غمگین کر دیا تھا۔وہیں بے چین و بے قرار بھی کر چھوڑا تھا۔وہ بابا کے آخری وقت پہ ان کے ساتھ نہیں تھی۔اب وہاں جا کہ ان کو محسوس کرنا چاہتی تھی۔
اوف ہو ایک تو یہ فائل پتہ نہیں کہاں گم گئی ہے۔کیا مصیبت ہے یار۔۔۔مجال ہے جو میری زندگی میں کوئی چیز صحیح ہو۔وہ سخت جھنجلایا ہوا لگ رہا تھا۔ما ہ نور اس وقت اپنی سیاہ رنگ اونی چادر تیہہ لگاتی اپنے بیگ میں رکھ رہی تھی۔جس میں تقریباً دو ماہ تک گھر سے باہر کا سامان آسانی سے رکھا جا سکتا تھا۔ماہ نور نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ آج کل وہ اس کی طرف ویسے بھی اپنے آپ میں غمگین پھرتی تھی۔جب سے ہسپتال سے لوٹی تھی۔ ڈھنگ سے کھاتی نہ پیتی اور اگر کوئی مخاطب کر لیتا تو محض مختصر جواب دے کے چُپ کا قُفل باندھ لیتی۔
میں پا گلوں کی طرح دیواروں سے نہیں پوچھ رہا۔تم نے میری نیلی کور کی فائل کہیں دیکھی ہے تو جواب دو۔وہ پندہ منٹ سے مسلسل بولتا خود ہی کھپ رہا تھا۔کمرے کی چیزوں کی تلاشی لیتے اس نے آخر تنگ آ کر پوچھ ہی لیا۔
ماہ نور نے سر اُٹھا کر اسے دیکھااور پھر سر نفی میں ہلا دیا۔بولی کچھ نہیں۔۔۔
منہ میں کیا کچھ ڈال رکھا ہے جو بول نہیں سکتی۔اس کے اس طرح محض سر ہلانے پہ ذریت کو تپ چڑھی تھی۔چڑھ کر قدرِ بلند آ واز میں جِھڑکا تو ماہ نور نے چونک کے اسے دیکھا تھا۔وہ سخت لہجے میں ہر وقت رہتا تھا۔ایک سختی سی اس کے چہرے سے ہر وقت ظاہر ہوتی تھی۔لیکن وہ چیختا کبھی بھی نہیں تھا۔نہ ہی ایسے محض فائل گم ہونے جیسی باتوں پہ جھنجھلاتا تھا۔ایسا صرف تب ہوتا تھا۔جب اس کے مزاج کے خلاف کچھ ہو تا۔اب کیا ایسا ہوا تھا جو ایسے چِڑھ رہا تھا۔ماہ نور نے چلتے ہاتھوں کو روک کر اسے دیکھا۔
ہلکے آسمانی رنگ ہائی نیک شرٹ میں سرمئی جین پہنے بکھرے بالوں کے ساتھ اس کا مزاج بھی بکھرا بکھرا تھا۔
میں نہیں جانتی کہ آپ کی فائل کہاں ہے۔پیکنگ کر لوں پھر ڈھونڈ دیتی ہوں۔
نہیں پہلے ڈھونڈ کے دو پھر یہ پیکنگ بھی کر لینا۔نا گواری سے ہاتھ اُٹھا کے اس نے کپڑوں کی طرف اشارہ کر کے منع کیا تھا۔
اور بات سُنو دادی کا خیال رکھنا ہو تا ہے۔تم تو وہاں چلے جاؤ گی تو وہ کیا کریں گی۔کچھ سوچا ہے ان کے بارے میں۔صوفے پہ بیٹھتے اسے ایک دم سے نہ جانے کیا ہوا۔کہ ناگواری سے کہا۔ماہ نور کمرے سے نکل رہی تھی رُک گئی۔
ظفر کی بیوی دن میں اور اس کی بہن رات میں رک جایا کریں گی۔اس کی بہن آج کل ظفر کے ہاں آئی ہوئی ہے۔
ظفر کی بہن یا بیوی دادی کی سگھی نہیں ہیں۔اور سامان تو تم ایسے باندھ رہی ہو۔جیسے سال کے ٹرپ پہ جا رہی ہو۔بات سُنو ۔۔۔دادی تمہاری ذمہ داری ہے۔آنکھوں میں سر دمہری لئے اس نے ماہ نور کو گھورتے کہا تھا۔ماہ نور آدھا چہرہ موڑے کھڑی تھی۔سر پہ لپٹا ڈھیلا سا سرخ سکارف اس کے دائیں گال کو ڈھک رہا تھا۔
ٹھیک ہے !اور کچھ؟
نہیں ۔۔۔اس قدر جواب میں سنجیدگی اور بے مروتی نے اسے منہ بگاڑنے پہ مجبور کر دیا تھا۔اور پھر اس کے جانے تک بلکہ رات تک بگڑا ہی رہا۔دادی جان نے عزیز پوتے کے بگڑے تاثرارت دیکھے ضرور تھے۔مگر پھر وہ بھی اپنے کام میں مصرورف رہیں۔
ذریت نتاشا کو اس کے ڈیڈ نے چین بھیج دیا ہے۔اب کیا سوچا ہے۔اکمل دو دن پہلے دوبئی سے لوٹا تھا۔وہ آج کل نئے بز نس میں مصروف تھا۔
کافی شاپ جو کہ اس کا ہمیشہ سے مسکن تھا۔وہیں وہ دونوں بھاپ اُڑاتی کافی سے لطف اُٹھاتے آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
سیاہ نیلی جین میں ،سیاہ جیکٹ کے نیچے سے جھانکتی سفید شرٹ پہنے وہ میز کی سطح کو دیکھتا کسی سوچ میں مگن دکھتا تھا۔
ذریت ۔۔۔اکمل نے دھیرے سے کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔وہ اس کی بات نہیں سُن رہا تھا۔
ہم م م۔۔۔چونک نے اس نے ابرو اُٹھا کر اسے دیکھا تھا۔وہ وہاں موجود ہی نہیں تھا۔اکمل نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا ۔
یار میں کچھ پوچھ رہا ہوں۔اور تم ہو کہ پتہ نہیں کہاں گُم ہو۔
سوری یار کچھ سوچ رہا تھا۔دو بارہ پوچھو۔ڈھیلا سا وہ کرسی کی پُشت سے پُشت ٹکائے بائیں ٹانگ سیدھی کئے بیٹھا تھا۔سیدھا ہو بیٹھا۔اور کوہنی کھڑی کرتا چہرہ اوپر ٹکا لیا۔اب پوچھو۔۔۔
اکمل خفیف سا ہو کر سر جھٹک گیا۔
میں پوچھ رہا تھا بھابھی واپس کب آئیں گی۔سر جُھکا کر کپ اُٹھاتے اس نے جانبھوج کے بات کا رُخ بدل دیا ۔
ذریت نے فوراً چہرہ ہتھیلی سے اُٹھا کے بازو سیدھا کر لیا۔
میں نہیں جانتا۔
تو یار تم نے پوچھا نہیں کب تک واپس آئیں گی؟اکمل نے ہونٹ سے مچلتی مسکراہٹ بمشکل روکی۔
نہیں ۔مختصر جواب۔
یار پوچھ لو۔
کیوں ؟
لو ۔۔۔جس طرح تم منہ لٹکا کے بیٹھے ہو۔مجھے لگ ہا ہے ۔تم اُنہیں کافی یاد فرما رہے ہو۔اس لئے بجائے انتظار کے آرام سے فون اُٹھا کے پوچھ لو۔اختتام پہ ایک دل جلاتی مسکراہٹ بھی دیکھائی۔اور ساتھ ہی کافی کا گھونٹ لیا۔
ذریت اسے ہی دیکھ رہا تھا۔میں نے فون نہیں کرنا۔جب آنا ہو گا آ جائے گی۔ویسے بھی وہ اپنے بابا کی وفات کے بعد پہلی بار گھر گئی ہے۔پتہ نہیں کب واپس آتی ہے۔میزپہ وہیں پاس ہی اس کی کار کی چابی پڑی تھی۔وہ اُٹھا کے میز کی سطح کھرچنے لگا۔اکمل نے چابی پکڑ لی۔وہ اس کی ذہنی حالت سے واقف ہو رہا تھا۔وہ نتاشا کی وجہ سے ڈبل مائنڈ ہو رہا تھا۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔کہ وہ ماہ نور پہ یقین کرے یا نہ۔
ابھی تو اس نے نتاشا کو بھی کچھ نہیں کہا تھا۔لاکھ منصوبہ بندی کے باوجود ذریت کچھ ایسا نہیں کر پاتا تھا جس سے نتاشا کو تکلیف پہنچ سکے۔اس نے سوچا تھا ۔نتاشا کی تمام تصویریں اسفند کو دے گا۔تو وہ نتاشا سے بدلا ضرور لے گا۔کہ وہ اسے دھوکہ دے رہی تھی۔مگر اسفند نے اس دھوکہ کے بعد منہ موڑ لیا ایسا کچھ نہیں سوچا۔اُنہوں نے اسے ورغلانے کی بھی کوشش کی تھی۔اکمل نے اسے بہت پمپ کیا۔مگر اس کی ایک جگہ ہی تان اڑی رہی کہ وہ کسی سے بدلہ نہیں لے گا۔نتاشا کا اپنا فیصلہ تھا۔اور وہ زبردستی کو پسند نہیں کرتا۔اس کے بعد ذریت نے سوچا کہ وہ نتاشا کو اپنے پیچھے اتنا تھکائے گا کہ وہ بھاگتی بھاگتی ہی ختم جائے گی۔مگر اس سے پہلے ہی اس کے ڈیڈ کو ساری حقیقت کا پتہ چل گیا۔اور نتاشا چین چلی گئی۔اس اُمید پہ کہ ذریت اسے وہاں سے شادی کر کے لے آئے گا۔ذریت نے بھی اسے یہی کہا تھا۔اور کہا تھا۔کہ آنے سے پہلے وہ ماہ نور کو چھوڑ دے گا۔اور اب وہ سوچ رہا تھا۔کہ وہ نتاشا کے پاس نہیں جائے گا۔بلکہ وہ اسے وہیں رہنے دے گا۔آگے کیا ہوگا اس کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔
نتاشا کا بتاؤ۔اس کا کیا بنا۔؟
شکر ہے تمہیں وہ بھی یاد آئی۔مسکرا کر اس نے چھیڑا تو وہ اسے گھورنے لگا۔بکو مت اور بات کو سیدھی طرح کرو۔
یار میں سیدھا ہی کر رہا تھا ۔خیر!
بات یہ ہے۔کہ محترمہ کا ایک جلادی قسم کا کزن ہے۔اور کچھ عجیب سی شخصیت کا حامل ہے۔اس کے چچا کا بڑا بیٹا اسی کی عمر کا ہے۔خیر اب دیکھتے ہیں ۔کہ وہاں کیا بنتا ہے۔اور ایک بات شائد ہمیں اپنا ریکارڈ خراب نہ کرنا پڑے۔سنجیدگی سے اس نے کہا تھا۔ذریت گہرہ سانس لے کر سر ہلاتا کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔سردی میں دن بدن شدت آتی جا رہی تھی۔اور دھند میں جکڑے ماحول میں چمکتے چاند کی روشنی بہت خوبصورت اور بھلی معلوم ہو رہی تھی۔
اور اسی چاند کی چاندنی کو دیکھتی وہ اپنے باغیچے کی ٹھنڈی ،نرم اور نم گھاس پہ چل رہی تھی۔اس کی آنکھوں میں ہلکی نمی اوردرد تھا۔آنکھوں کے نمکین پانیوں میں چاند کی منعکس ہوتی روشنی اپنا رنگ چھوڑ رہی تھی۔جو روشنی کی لہر اس کی آنکھوں میں بہتے دریا میں ڈبکی لگاتی نکلتی تو یو لگتا جیسے لہر کا رنگ بدل کر اپنا آپ کھو چکا ہو۔
ہلکے نارنجی اور سبز پجامہ قمیض سیاہ سویٹر پہنے، ایک شانے پہ سوٹ کے دونوں رنگوں سے امتزاج کھاتی شال لٹکائے وہ چل رہی تھی۔اور جب چلتی تو اس کی شال کا ایک سِرا زمین پہ بیچھی گھاس کو چھوتا ۔۔۔
بابا مجھے لگتا ہے ۔میں آپ کے بعد بلکل اکیلی ہو گئی ہوں۔میرے پاس ابرار بھائی اور بابر بھائی تو ہیں۔لیکن بابا وہ تو بھائی ہیں۔باپ تو آپ ہی تھے ناں۔چاند اس کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا تھا۔اور وہ چاند کی طرف چہرہ اُٹھائے اپنے بابا سے مخاطب تھی۔یوں جیسے وہ وہیں بیٹھے اُسے سُن رہے ہوں۔
بابا میں نے زندگی میں اتنی تھکاوٹ محسوس نہیں کی جتنی شادی کے بعد آپ سے دور ہو جانے کے بعد محسوس کی۔بابا آپ نے جس کو میرے لئے منتخب کیا۔وہ بھی میرا نہیں۔میں کس کے پاس جاؤں کس کو کہوں کہ مجھے دُعا کی ضرورت ہے۔
میری زندگی میں بہت تنہائی ہے ۔بابا !
میں نے بیماری کے عرصے میں آپ کے جانے کے بعد صرف یہی سوچا ہے۔اور پتہ ہے۔آپ مجھے بہت یاد آتے ہیں۔
اس نے رک کر باغیچے کے اختتام پہ رک کر چاند ارد گِرد دیکھا۔اور پھر بائیں جانب پڑے سَنگی بینچ پہ بیٹھ گئی۔ٹانگیں دونوں اوپر اُٹھا کر اس نے کندھے پہ جھولتی چادر ٹانگوں پہ ڈال لی۔وہ بیس منٹ سے کھڑی تھی۔اور اب جب بیٹھی تو ٹانگوں کو سکون سا ملا۔
اس نے سرپیچھے ٹکا کر نظرچاند پہ جما دی۔بابا کے بعد زندگی میں عجیب سی ویرانی اور خاموشی سی آگئی تھی۔
بابا اپنی گُڑیا کے لئے دعا کریں۔
ماہا۔۔۔کافی۔۔۔بابر اس کے قریب کھڑاتھا ۔ہاتھ میں دو کپ بھاپ اُڑاتی کافی کے تھے۔ایک کپ اس نے ماہ نور کی طرف بڑھایا تو اس نے خفیف سا ہو کر کپ پکڑ لیا۔
بھائی مجھے بتا دیتے کافی پینی تھی تو۔ماہ نور نے ٹا نگیں اب بھی نیچے نہیں کی تھیں۔ویسے ہی ذرا کھسک کر بھائی کے لئے جگہ بنا دی۔بابر بیٹھ گیا۔
کیوں تمہیں اچھا نہیں لگاْ کہ تمہارا بھائی تمہارے لئے کافی بنا کر لاتا۔اس کے ساتھ بیٹھتے بابر نے سنجیدگی سے کہا۔تو وہ سر نفی میں ہلاتی سر اس کے کندھے پہ ٹکا گئی۔
بھائی مجھے بابا بہت یاد آتے ہیں۔اسکے لہجے میں غم تھا۔دکھ کی آنچ تھی۔بابر نے آنکھیں بند کر کے کھولیں۔
ماہا میری گُڑیا۔۔۔بابا کا بس اتنا ہی وقت تھا۔اب ہمیں صبر کرناہی ہو گا۔اللہ پاک کی یہی مرضی تھی۔اپنے آپ کو سنبھالو۔بابر نے بہت سنجیدگی سے ہاتھ میں پکڑے مگ کو دیکھتے اسے بڑے بھائی کا فرض ادا کرتے ہوئے سمجھانا چاہا ۔کپ کے ہالے سے بھاپ نکلتی عجیب سے چہرے بنا رہی تھی۔اس نے نظر پھیر لی۔
بھائی آپ پہلے اتنے سنجیدہ نہیں تھے۔اب جب سے میں آئی ہوں۔آپ نے اور ابرار بھائی نے ایک بار بھی ہنس کے نہیں دیکھا۔مجھے آپ دونوں کو دیکھ کے رونا آتا ہے۔اب کی بار بات کے اختتام پہ اس نے بات کے تاثرات دیکھنے کو چہرہ بھی اُٹھا کر بھائی کو دیکھا۔اور پھر سیدھی ہو کر کافی کا گھونٹ لینے لگی۔
اچھا۔۔۔پہلے تم تو کہتی تھی۔کہ میں بولتا بہت ہوں۔وہ مسکرایا نہیں تھا۔ماہ نور اسے دیکھ کے رہ گئی۔
بھائی آپ چُپ مت رہو۔میں تو ایسے ہی بکواس کرتی تھی۔پلیز آپ اور بھائی ہنسا کرو۔اور آئیں اب آپ اور میں اندر بھائی کے پاس چلیں۔وہ اکیلے ہوں گے۔اس کے بھائی بالکل تنہا تھے اس بات نے اسے بہت دُکھ دیا تھا۔وہ فوراً سیدھی ہوتی
اُٹھ کھڑی ہوئی۔بابر سر ہلا کر کھڑا ہو گیا۔
ماہا ایک بات پوچھوں؟کھڑے ہوتے اس نے اسے جاتے پیچھے سے آواز دے کر روک لیا تھا۔ماہ نور روک گئی۔
پوچھیں۔
تم ذریت بھائی کے ساتھ ٹھیک ہو؟
کوئی مسلہ تو نہیں؟
اگر کوئی بھی ہو مجھے بتانا۔وہ ساکت کھڑی تھی۔اسے اپنے کچھ دیر پہلے کے کہے الفاظ یاد آئے ۔اس نے سر اثبات میں ہلایا اور تیزی سے واپس مُڑ گئی۔
:::::::::::
ذریت تم کب آ رہے ہو۔
یہ انکل کا بیٹا بہت جنگلی ہے۔فون پہ وہ مدھم آواز میں بول رہی تھی۔اور ساتھ ہی ساتھ مُڑ مُڑ کر راہداری میں جاتے کمرے کے بند دروازے کو بھی دیکھ لیتی۔ذریت اس وقت اپنے آفس کی کرسی پہ بیٹھا پیپر ویٹ گھوما رہا تھا۔دھیمہ سا مسکرا دیا۔
جب تم کہو۔۔۔
تو ابھی آ جاؤ۔۔۔وہ لمبے لمبے سانس لیتی مُڑ کر دروازے کو دیکھتی بول پڑی۔ذریت نے نیچے کا ہونٹ دبا کر مسکراہٹ روکی۔اب آئی تھی اوٹنی پہاڑ کے نیچے۔۔۔
سوری بے بی ابھی ممکن نہیں ہے۔آفس میں بیٹھا ہوں۔اور ایک عزیز ترین دوست کے گھر بھی جانا ہے۔آذر کی والدہ سے ملنے وہ جا رہا تھا آج۔
نتاشا نے منہ بگاڑا۔
ذریت وہ مجھ سے اتنے کام کرواتا ہے۔انکل اسے کچھ نہیں کہتے ڈیڈ بھی میری بات نہیں سُنتے اور تو اور ان لوگوں نے مجھ سے میرا فون تک چھین لیا ہے۔یہ لوگ بہت جانور ہیں ۔گھر سے بھی نہیں نکلنے دیتے۔اس کی آواز میں ہلکی نمی کی آمیزیش تھی۔ذریت نے کرسی سے پُشت ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔اور کُرسی جھولنے لگا۔اسے نتاشا کا یہ حال سکون دے رہا تھا۔
نتاشا ابھی تمہیں کچھ روز انتظار کرنا ہے۔میری بیوی کے والد کی وفات ہو ئے کچھ روز ہوئے ہیں۔اور ابھی گھر سے نکلنا میرے لئے ممکن نہیں ہے۔مسکراہٹ کو ہونٹوں تک آنے سے روکتے اس نے کہا تو نتاشا چونک گئی۔
کیا اب تم نے کہا کہ۔۔۔نتاشا کو یقین نہیں تھا۔وہ اُلجھی ہوئی لگی۔
میں صرف اتنا کہہ رہاہوں کہ وہیں رہو۔اور میرا انتظا ر کرو،میں جلد تمہیں اُدھر سے نکال لوں گا۔ویسے ایک بات تو بتاؤ۔تمہارا کزن تم پہ اتنی نظر کیوں رکھتا ہے۔اور باقی سارے خاندان کا رویہ۔
نتاشا تم۔۔۔الفاظ ابھی اس کے منہ میں ہی تھے۔جب اس نے فون کی دوسری جانب نتاشا کا چیخنا شور مچانا سُنا تھا۔
تم کس سے بات کر رہی تھی۔اس کے کزن کی آواز میں نا گواری تھی۔جبکہ غصہ الفاظ سے واضح تھی۔
میں جس سے بھی بات کروں تمہیں اس سے کیا۔اور تم میری جان چھوڑ دو۔وہ بھی غصے سے دھاڑی تھی۔اس نے ان دونوں کی آوازیں سُن کر فون واپس رکھ دیا۔معملہ کیا تھااس کا کزن اتنا شور کیوں مچا رہا تھا۔بات سمجھ سے باہر تھی۔مگر خیر سمجھنے میں اسے کوئی دلچسپی تھی بھی نہیں۔ مسکرا کر اس نے رسیور رکھا۔اور پھر میز پہ دھرا اپنا موبائل اُٹھا کر ماہ نور کے گھر کا نمبر ملانے لگا۔اس کا مقصد اسے اُمید کی ڈور تھمانا تھا۔جس میں وہ کامیاب ہواتھا۔
::::::::::
اسلامُ علیکم ذریت بھائی!
وہ تینوں لنچ پہ ساتھ بیٹھے تھے۔ماہ نور نے آفس سے دونوں بھائیوں کو لنچ پہ گھر بلا لیا تھا۔وہ اکیلے گھر رہنے سے گھبرائی لگتی تھی۔
چائے بنانے کی غرض سے ماہ نور باورچی خانے کی جانب بڑھی ہی تھی۔جب فون بجا تھا۔بابر فون کے قریب تھا۔سو اسی نے اُٹھایا۔اور ذریت کی فون پہ موجودگی نے اسے کافی خوشی دی تھی۔اسے لگا تھا۔ماہ نور ذریت کے ساتھ ٹھیک نہیں ہے۔اس ایک کال نے سارے خدشے مٹا دینے کی کافی حد تک کوشش کی تھی۔بابر نے دیکھا تھا ۔کہ ماہ نور شادی کے بعد کافی بدلی ہے۔مگر اس کی وجہ خوشی نہیں محسوس ہوتی تھی۔اس نے رات بھی ماہ نور سے اس کی پریشانی جاننے کی ہی کوشش کی تھی۔اور ڈھکے چُھوپے انداز میں اس کے گھر کے حالات اور ذریت کے روئے کو جاننے کی کوشش کی تھی۔مگر ماہ نور نے کوئی جواب نہیں دیا۔وہ اُلجھا ضرور تھا۔مگر ابھی ذریت کی کال اور پھر ماہ نور کو فون پہ آنے کو بولنے کا جب اس نے کہا تو اسے اپنے خیالات وہم لگے۔
ابرار صوفے پہ سامنے ہی بیٹھا تھا۔اور اخبار پڑھ رہا تھا۔اس نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا تھا۔
ماہ نور ذریت بھائی کی کال ہے۔آکے بات سُن لو۔شائد کوئی اہم بات کرنی ہے۔وہ چائے کا پانی چولہے پہ چڑھائے کام میں مصروف تھی۔جب پُشت پہ پڑتی بابر کی آواز پہ مُڑی۔
اُنہوں نے میرے سے کیا بات کرنی ہے؟ذریت کی فون کال سُن کر اسے قدرِ حیرت ہوئی تھی۔اور یہ ایک فطری بات ہی تھی۔کیونکہ اس کے اور ذریت کے رشتے میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔کہ وہ ایک دوسرے سے بات کر کے اپنی اپنی کہتے سُنتے۔وہ تو دادی کا کوئی کام پوچھنے یا حال چال بھی پوچھنا چاہتا تو کبھی بھی اسے فون نہیں کرتا تھا۔
اب یہ میں کیسے بتا سکتا ہوں۔شوہر تمہارا ہے۔اور سوال تم ایسے مجھ سے پوچھ رہی ہو۔شانے اُچکا کر جانے سے پہلے بابر نے جواب دیا۔اور واپس مُڑ گیا۔
ماہ نور اس وقت گھر کے عام سے سرخ رنگ کھدر کے سوٹ میں ملبوس تھی۔آج دھوپ نکلنے کی وجہ سے اس نے سویٹر پہننے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔تبھی دوپٹے کو دائیں شانے پہ سنبھالتی باہر نکل آئی۔اور صوفے پہ بیٹھ کر رسیور اُٹھا لیا۔بھائی دونوں اپنے کاموں میں مصروف تھے۔
خیر کون جانے کے با بر تب بھی اس کی باتیں سُننا چاہ رہا ہو۔
اسلامُ علیکم !
ماہ نور۔۔۔کیسی ہو؟
وہ اصل میں۔۔میں تمہیں تنگ نہیں کرنا چا ہتا تھا۔لیکن وہ۔۔۔فون پہ اٹک اٹک کر اس کے جملے یا تو اس تک پہنچ رہے تھے۔یا پھر وہ بول ہی ایسے رہا تھا۔ماہ نور سمجھ نہ سکی۔
جی ۔۔۔جی میں سُن رہی ہوں۔اسے لگا ۔وہ جو کہہ رہا ہے۔اسے لگا وہ سمجھے گا وہ سُن نہیں رہی۔
ماہ نور آج شام میں تم میرے ساتھ باہر چل رہی ہو۔سو ریڈی رہنا۔
کہاں جانا ہے؟وہ پو چھ رہی تھی۔
آذر کی امی سے ملنا ہے۔اُمید ہے ۔کہ تم وقت پہ تیار رہو گی۔اسی طرح کی چند اور باتوں کے بعد اس نے فون واپس رکھا تو دل میں کوئی ایسی تبدیلی رونماں ہوئی معلوم نہیں ہوئی تھی۔اسے لگا تھا۔کہ وہ اسے کہے گا۔کہ جلد واپس آنے کی کوشش کرنا۔یا یہ کہ میں تمہارے بغیر اس جگہ بہت اکیلا محسوس کر رہاہوں۔مگر اُمیدیں تو وہاں باندھی جاتی ہیں جہاں کوئی عہد و پیماں ہوئے ہوں۔جہاں ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی گئی ہوں۔جبکہ ان کی زندگی میں ایسا کچھ تھا ہی نہیں۔ان کا رشتہ اس سب سے بالکل الگ تھا۔وہ بس دونوں ایک ہی کشتی کے مسافر الگ الگ منزل کی خواہاں معلوم ہوتے تھےکیا کہے رہے تھے ذریت بھائی؟بابر کو خاصی دلچسپی تھی۔تبھی پوچھ بیٹھا۔ابرا ر نے اب کی بار چھوٹے بھائی کو ہلکا سا گھورا تھا۔مگر وہ دیکھ کہاں رہا تھا۔
کہہ رہے تھے۔کہ شام میں آئیں گے۔شائد کسی جاننے والے کو ملنے جانا ہے ہمیں۔
اچھا۔۔۔بابر نے سر ہلا کے سامنے کی ٹیبل سے لیپ ٹوپ اُٹھا لیا تھا۔اب ان کا واپس آفس جانے کا کوئی ایرادہ نہیں تھا۔سو وہ وہیں آفس کا کام بیٹھ کے کرنے لگا۔اور ماہ نور ان دونوں کو دیکھ کر واپس کیچن کی جانب چلی گئی۔کہ چولہا وہ بند کر آئی تھی۔اور اب چائے کا کام دوبارہ سے کرنے والی تھی۔
:::::::::::
ٹھنڈے ٹھار دن کے وسط میں سورج آنکلا تھا۔اور ایک پرُ حدت سی روشنی ایک عجیب سی راحت و فرحت بخش رہی تھی۔
ڈائینگ حال میں اس وقت بہت سے مہمان جمع تھے۔ان سب کو پھوپھو کی شادی کے بعد کے پہلے کھانے پہ بلایا گیا تھا۔لمبی ساری میز کی گِرد پڑی کُرسیوں پہ تقریباً شہر میں موجود تمام رشتے دار ہی بیٹھے تھے۔ان کے بیشتر مہمان اگرچہ سوات میں تھے۔مگر پھر بھی پشاور میں ان کے بہت سے عزیز موجود تھے۔اور وہی اس دعوت میں اپنے رنگ بکھیرے ہوئے تھے۔جن میں فرح کی دور پرے کی جہاں جاننے والی تھیں وہیں چچی کی دو بہنیں بھی مدعو تھیں۔جو بڑ چڑھ کر ہر کام میں حصہ ڈال رہی تھیں۔فرح نے ان کے روئے کو دیکھ کر کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔اسے اس بات سے کوئی سرو کار نہیں تھا۔کہ کون آ رہا تھا۔اور کو ن جا رہا تھا۔ اور کس کا کس سے کیا تعلق اور رشتہ ہے۔امی جی کے روئے نے اسے بہت تکلیف پہنچائی تھی۔
فری تم نے کیا سوچا ہے ؟آگے کیا کرو گی؟سر جھُکائے وہ چاول پلیٹ میں ڈالے ان کا ساتھ کھیلنے میں مصروف تھی۔جب پھوپھو کی نند نے اسے مخاطب کیا۔فرح نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔
آگے کا کیا منصوبہ ہو گا۔بس جتنا پڑھنا تھا۔پڑھ لیا۔اس سے پہلے کے وہ منہ کھولتی امی جی نے تیزی سے کہا۔وہ منہ بنا کر واپس سر جھٹک کر کھانے پہ جُھک گئی۔
ویسے فرح نے کبھی ہمیں بتایا نہیں لاہور میں کیا کرتی رہی ہو۔آج موقع بھی ہے اور وقت بھی ۔آج ہمیں وہاں کے قصے سُنانا۔چچی اس کے سامنے کی کُرسی پہ بیٹھیں اپنے بیٹے کو کھانا کھلانے میں مصروف تھیں۔اُنہوں نے لہجے کو سنسنی خیز بناتے ہوئے ۔بظاہر دلچسپی دیکھاتے ہوئے کہا۔تو بہت سی آنکھیں مسکراتی اُسے دیکھنے لگیں۔
وہاں کیا ہونا۔میں ہوسٹل میں رہتی تھی۔اور پڑھائی کرنے گئی تھی۔وقعات کیا سُناتی۔چچی کو ایک نظر دیکھ کر اس نے بظاہر مسکراتے حقیقتاً جتاتے ہوئے کہا۔تو چچی مسکرا دی تھیں۔
ارے فری ڈئیر تم تو آپی کی بات کا بُرا منا گئی۔ان کا مطلب تم شائد غلط لے گئی۔ان کا مطلب تھا۔کہ کبھی کبھی ہوسٹل سے بندہ باہر بھی نکلتا بھی ہی ہے۔۔۔چچی کی چھوٹی بہن سدرہ بھی اُنہی کی پرتو تھی۔فرح نے بے پروائی سے شانے اُچکا دئے۔
میں ویسے کبھی بھی ہوسٹل سے نہیں نکلی تھی۔خیر۔۔۔
فری تم نے وہ پوڈنگ نہیں کھلائی۔۔۔جاؤ وہ تو لاؤ۔پھوپھو کی آواز نے اس کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی تھی۔فرح نے پھوپھو کو دیکھا۔اور پھر سر ہلاتی کرسی سے اُٹھ گئی۔
وہ میں نے اور فرح آپی نے مل کے بنائی تھی۔بلکہ سارا کام ہی میرا تھا۔فرح آپی کو تو کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا۔شائستہ نے شائستہ لہجے میں بات کو ایک نیا رُخ دیا۔تو پھوپھو نے اسے جاتے دیکھا تھا۔اسے جیسے کوئی فرق ہی نہیں پڑاتھا ۔
پانی ایک جگ مل سکتا ہے۔کاشف کی آواز پہ وہ مُڑی تھی۔وہ ڈرائینگ روم سے آ یا تھا۔مرد حضرات ادھر کھانا کھا رہے تھے۔
فرح نے کوئی جواب نہیں دیا ۔بس خاموشی سے اس کا رکھا جگ اُٹھا کرپانی بھرا اور اس کی جانب بڑھایا تھا۔نظر اس کی دوسری جانب تھی۔
گولڈن اور میرون رنگ کلیوں والے لمبے سے فرک میں گولڈن دوپٹے سے دونوں شانوں کو ڈھکے بالوں کو فرینچ چوٹی میں مُقید کئے کسی بھی طرح کے میک اَپ سے پاک چہرہ لئے کمال کی معصوم لگ رہی تھی۔کاشف نے بجائے پانی کا جگ پکڑنے کے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔فرح کو بجلی کا تیز جھٹکا بھی لگتا تو بھی شائد وہ ایسے نہ بُدکتی جیسے اس کا ہاتھ پکڑنے پہ بُدکی۔اور اس کا نجام یہ نکلا کہ ہاتھ سے جگ چھوٹ کر اس کے خود کے ہی پاؤں پہ آ لگا۔کانچ کے کئی ٹکڑے اس کے پاؤں پہ لگتے زخمی کر گئے۔اور وہ باوجود کوشش کے زمین پہ خود کو گِرنے سے بچا نہیں پائی تھی۔
جگ کے گِرنے کی آواز نہ ہونے کے برابر تھی۔اسی لئے کسی کا اندر کی جانب دھیان نہیں گیا۔اور وہ ساکت نظروں سے اپنے زخمی پاؤں کو دیکھتی تکلیف سے دوچار تھی۔دوسری طرف کاشف بھی حیرت سے اسے اور اس کا زخمی پاؤں کو دیکھتا دوزانوں ہو بیٹھا۔
یہ آپ نے کیا کِیا؟اپنے آپ کو ہی زخمی کر لیا۔پتہ بھی ہے۔آپ کا تکلیف میں ہونا کسی کو بہت تکلیف دے سکتا ہے۔افسوس سے سر ہلاتے اس نے اس کے پاؤں کے قریب پڑے سارے کانچ چُننے شروع کر دئے۔فرح کی آنکھ سے ایک آنسو بہت خاموشی سے نکلا تھا
دور ہٹو۔۔۔ضبط کرنے کے باوجود اس کے لہجے کی پھنکار میں کافی شدت تھی۔کانچ چنتے کاشف کے ہاتھ تھم گئے۔اس کی آنکھوں میں کیا ہے۔کونسے رنگ ہیں فرح نے دیکھنے کی کوشش نہیں کی ۔اور باوجود پاؤں میں اُٹھتی ٹیسوں کے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
آپ کی ہمت کیسے۔۔۔کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی۔غصے سے اس کی آواز کامپ رہی تھی۔اسے لگ رہا تھا۔جیسے اس کے ہاتھ میں آگ جل اُٹھی ہو۔وہ اپنے ہاتھ کو اپنے دوپٹے سے صاف کر رہی تھی۔اور اس بات کا اسے خودبھی اندازہ نہیں تھا۔
میں ۔۔۔۔میں معذرت چاہتا ہوں۔پلیز تم ادھر بیٹھ جاؤ۔تمہارے پاؤں سے خون بیہہ رہا ہے۔اس کی آنکھوں سے آنسو اب متوتر نکل رہے تھے۔کاشف نے پریشانی سے سمجھاتے ہوئے کرسی اس کے لئے کھینچ دی۔
چُپ ۔۔۔بس نکل جاؤ ادھر سے۔فرح کا بس نہیں چل رہا تھا۔اس بندے کا سر پھاڑ دے۔اس کی ہمت ہوئی تو ہوئی کیسے۔
فرح ریلیکس۔۔۔میں۔اس نے فرح کے بہتے آنسو صاف کرنے کو ہاتھ بڑھایا تھا۔فرح نے غصے سے اس کا ہاتھ جھٹک دینا چاہا تھا۔ جب اس کی سانس اور آنکھیں دونوں کے دونوں ساکت ہو ئے تھے۔
سدرہ منہ پہ ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔
سدرہ۔۔۔کیا ہوا؟۔تبھی چچی ہاتھ میں برتن اُٹھائے وہاں آئی تھیں۔اور ان کے پیچھے ہی پھوپھو تھیں۔اور وہاں ان تینوں کی آنکھوں میں کیا تھا۔فرح خان کو دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔سدرہ منہ پہ ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔چچی کی آنکھیں اور ہونٹ مسکرا رہے تھے۔جبکہ پھوپھو کی آنکھوں میں بھی بے یقینی سی بے یقینی تھی۔فرح کی آنکھیں جھُکی ہوئی تھیں۔اور گھڑوں پانی پڑا تھا۔کاشف نے اسے سہما ہوا دیکھ کر پیچھے دیکھا تو ان تینوں کو دیکھ کر وہاں سے نکل گیا ۔جبکہ فرح بے قصور ہو کر بھی قصوروار بن رہی تھی۔
فرح یہ سب کیا تھا؟سب سے پہلی آواز چچی کی تھی۔فرح نے ان کی آنکھوں میں بھسم کر دینے والی آگ دیکھی ۔
چچ۔۔۔چچی وہ۔۔۔میں۔اسے سمجھ نہیں آئی وہ کیا کہے۔
او ہو۔۔۔آپی آپ بھی عجیب سوال کر رہی ہیں۔کبھی چور نے چوری کے بعدمانا ہے۔آپ کو تو چاہے۔ایسی لڑکی کو اپنے گھر ہی نہ رکھو۔جس کا کوئی کردار ہی نہ ہو۔توبہ توبہ۔۔۔آپ کے گھر میں یہ سب ہو تا ہے۔مجھے نہیں پتہ تھا۔سدرہ کے ہونٹ طنز سے مسکرا رہے تھے۔اور اس کے جملے تھے کہ زہرجو فرح کو اندر سے کھا رہے تھے۔اس نے سر جھوکا دیا۔اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔
پھوپھو نے اس کے جُھکے سر کو دیکھا۔اس کے بہتے آنسو دیکھتے تو تیزی سے اس کی جانب بڑھی تھیں۔ماضی کی آگ ان کی جانب بڑھ رہی تھی۔
بس بھئی نصیب ہی خراب ہیں۔پہلے پھوپھی اب یہ۔میں کیا کر سکتی ہوں۔چچی کہاں چپ رہنے والی تھیں۔ابھی تو اُنہیں موقع ملا تھا۔کیسے جانے دیتیں۔
بھابھی یہ آپ کیسی باتیں لے کے بیٹھ گئیں ہیں۔پھوپھو نے نظر چوراتے ہوئے کہا۔تو چچی کا قہقہہ جاندار ی سے نکلا۔
ارے ذہرہ تم بھی کیسی بات کر رہی ہو۔تمہاری چہیتی دن ڈھلے کیا کر رہی ہے۔بجائے اس سے پوچھنے کے تم ہم سے الجھ رہی ہو۔ارے بی بی اپنا کیا مت بھُگتنااب تم۔
بس بھابھی بہت ہوا۔تماشا مت لگائیں۔فرح نے کچھ نہیں کیا۔اور جاؤ سدرہ کام کرو جا کے اپنا۔پھوپھو کی برداشت جواب دے گئی تو وہ ضبط کرتی بولی تھیں۔
اللہ ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔آپی آپ کی اور بھائی جی کی شرافت ہے جو ایسے لوگوں میں رہ رہے ہو۔ایسی ڈھٹائی۔سدرہ کو تو آگ ہی لگ گئی تھی۔فرح اور تیزی سے رونے لگی۔
پھوپھو میرے سے قسم لے لیں میں نے کچھ نہیں کیا۔
مجھے پتہ ہے۔ان سب کو تو ویسے ہی عادت ہے۔آؤ میرے ساتھ۔اس کا ہاتھ پکڑتے اُنہوں نے حوصلہ دیا اور پھر پکڑتیں باہر لے گئیں۔چچی اور سدرہ ایک دوسرے کو دیکھ کے مسکرائی تھیں۔
اب آئے گا اصل مزہ۔
::::::::::
سیاہ اور گولڈن شلوار قمیض پہن کر اس نے اپنے عکس کو شیشے میں دیکھا۔تو باوجود کسی خواہش کے اس کے ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ آ کے معدم ہوئی تھی۔کسی خیال کے تحت مُڑ کر اس نے بیڈ پہ پڑے فون کو اُٹھا یا اور ذریت حسن کا نمبر نکال کر کال کی۔
دو سری ہی بیل پہ کال اُٹھا لی گئی۔
ہیلو۔۔۔؟کاغذ پہ پین گھسیٹتے اس نے مصروف سے انداز میں پوچھاتھا۔ماہ نور نے اس کی آواز سُننے کے بعد سوچا تھا کہ اس نے بات کیا کرنی تھی۔اس نے اپنے نیچلے ہونٹ کو دانت سے کاٹا۔
وہ۔۔۔میں نے پوچھنا تھا کہ آپ کو آنے میں کتنا وقت لگے لگا۔کچھ سوچ کر اس نے بات گھڑ دی۔ذریت سیدھا ہو ا۔پین میز پہ کھلا چھوڑ دیا۔پہلا اتفاق تھا۔کہ وہ خود کال کر رہی تھی۔اس نے بھی تو صبح پہلی بار کال کی تھی۔
آ۔۔۔تم۔۔۔ابھی تیار ہو؟اس نے سامنے دیوار پہ لگی گھڑی کو دیکھا۔شام ہونے کو تھی۔وہ دھیمے سے مسکرا کر سر جھٹک گیا۔وہ شائد ا س کا انتظار کر رہی تھی۔
ہاں۔۔۔وہ ۔۔۔نہیں میرا ۔۔۔مطلب ہے کہ ہو جاؤں؟
اچھا تو ابھی ہونا ہے؟
ہاں ابھی ہو جاتی ہوں۔اگر آپ ابھی آئیں۔۔۔الٹے سیدھے لفظ منہ سے دھکے سے ہی نکلے جا رہے تھے۔شیشے میں اپنے ہلکے پھولکے نفیس سے لباس میں پھولے بالوں کے ساتھ وہ اچھی لگ رہی تھی۔ہونٹوں پہ پہلی بار ذریت سے بات کرتے ہوئے مسکراہٹ آئی تھی۔حلانکہ بات ایسی کوئی تھی بھی نہیں۔ذریت نے سر ہلا دیا۔جیسے وہ دیکھ ہی رہی ہو۔
میں بیس منٹ میں آ رہا ہوں۔
ٹھیک ہے۔میں انتظار۔۔۔نہیں وہ ۔۔۔
اچھا آ جائیں۔۔۔ایک نام کے ساتھ منسوب ہونا۔پہلی بار اسے خوشی دے رہا تھا۔اور اب اسی خوشی میں وہ بوکھلا رہی تھی۔
ٹھیک ۔۔۔تم تیار رہو میں آتا ہوں۔اس نے فون واپس رکھا اور واپس پین اُٹھا کر کام کرنے لگا۔ماہ نور نے فون واپس ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھا۔اور برش اُٹھا کر بال برش کرنے لگی۔سیاہ قمیض کے گلے پہ گولڈن تِلے کی کڑھائی بلب کی روشنی میں خوب چمک رہی تھی۔اور اس چمک سے کہیں زیادہ ماہ نور کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔
ماہ نور نے سر جھٹک کر پُشت پہ پھیلے بال سیدھے کئے۔اور پھر ان کو بل دے کر اوپر کی جانب سمیٹ لیا۔
ماہ نور ۔۔۔ابرار تھا۔
جی بھائی آ جائیں۔دروازے پہ ابرار بھائی کی آواز سُن کر اس نے مُڑ کر صوفے سے دوپٹہ اُٹھا کر سلیقے سے شانوں کو ڈھامپا۔اور بیڈ پہ بیٹھ کر قریب پڑے سینڈل پہننے لگی۔
تم جا رہی ہو؟اسے تیار دیکھ کر دھیمے سے مسکرا کر اس نے پوچھا تو ماہ نور نے سر ہلا دیا۔
اچھا۔۔۔وہ سامنے صوفے پہ بیٹھ گیا۔اور غور سے اسے دیکھا۔
ماہا۔۔۔مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے۔پُر سوچ انداز میں اسے دیکھتے بھائی نے کہنا شروع کیا ۔تو وہ جو جوتا پہن رہی تھی۔سیدھی ہوئی۔
جی بھائی کہیں۔۔۔اسے ان کے چہرے پہ سنجیدگی دیکھ کے غم سا ہوا تھا۔اُنہیں مسکرائے کافی دن ہو چکے تھے۔
ماہ نور بابا کے جانے کے بعد میں تم دونوں کا بڑا ہوں۔تمہاری اور بابر کی ساری ذمہ دار ی میرے کندھوں پہ ہے۔میں چاہتا ہوں ۔کہ تم دونوں ہمیشہ خوش رہو۔۔۔تم دونوں کو جب میں خاموش اور غمگین الگ الگ دیکھتا ہوں مجھے بہت دُکھ ہوتا ہے۔تم اور بابر کوشش کرو نارمل زندگی کی طرف آنے کی۔اگر بابا زندہ ہوتے تو تم دونوں کو ایسے دیکھ کے اُنہیں بہت دُکھ ہوتا۔
بھائی آپ بھی تو بدل گئے ہیں۔ان کو دیکھتے اس نے نرمی سے کہا تو ابرار سر جھٹک گیا۔
مجھے چھوڑو۔ابھی بات تم دونوں کی ہو ری ہے۔اور تم اب خوش رہا کرو۔اللہ پاک کا فیصلہ تھا۔ہم کچھ نہیں کر سکتے۔اس لئے اب نارمل ہو کر رہو۔اللہ ہمیں صبر عطا فرمائیں۔آمین ۔۔۔وہ اسے بالکل بابا کی طرح سمجھا رہا تھا۔
ما نور اُٹھ کر ان کے برابر جا بیٹھی۔اور ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔
بھائی آپ شادی کر لیں۔میں نے اور بابا نے آپ کے لئے یہ بہت پہلے سوچا تھا۔آپ کو اور اس گھر کو بہت ضرورت ہے۔نرمی سے ان کا ہاتھ سہلاتے وہ کہہ رہی تھی۔ابرار مسکرا دیا۔اور پھر بہن کو دیکھا۔
اچھا۔۔۔اور بابر ۔۔۔بابر کا کیا؟
آپ کے بعد ان کی بھی باری آ جائے گی۔پر پہلے آپ۔اشتیاق دیکھاتے وہ بھائی کو دیکھ رہی تھی۔
ابھی نہیں گُڑ یا۔کچھ دیر رُک گاؤ۔پھر کسی وقت۔۔۔فرح کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا۔اس نے سر جھٹک دیا۔اس طرح کے فیصلے یک طرفہ تھوڑی نا ں ہوتے ہیں۔
پھر کب؟
کیا آپ کسی لڑکی کو پسند کرتے ہیں؟اگر ہاں تو پلیز آپ مجھے بتائیں۔اس نے ان کی آنکھوں میں جانے پہچانے رنگ دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔ابرار ہنس دیا۔
ہاں کرتا ہوں ۔۔۔بہت ساری لڑکیاں مجھے اچھی لگتی ہیں۔پر بات یہ ہے۔کہ ان کو تمہارا بھائی شائد پسند نہ آئے۔
بھائی۔۔۔یہ کیا بات ہوئی۔آپ کو لگ رہا ہے۔میں مزاق کر رہی ہوں۔
نہیں مجھے ایسا بلکل نہیں لگ رہا۔اور اب باقی باتیں بعد میں۔تم تیار ہو ۔ذریت آنے والا ہوگا۔اُٹھ کر جانے سے پہلے اس نے بہن کا سر تھپتھپایا اور کمرے سے نکل گیا۔ماہ نور نے ایک شکوے سے بھری نظر ان پہ ڈالی اور اُٹھ گئی۔
::::::::::::
رات کا فسوں پھیل رہا تھا۔سڑک پہ اندھیرے میں چمکتی روشنیوں کو دیکھتے اس کی نظر ساتھ بیٹھے وجود پہ پڑی تو ذرا اُلجھ کر واپس لوٹی۔
سیاہ سوٹ میں سیاہ ہی بڑے سے دوپٹے سے سکارف باندھے گولڈ کی چوڑیاں اور دو انگوٹھیاں پہنے کسی بھی قسم کے پاک چہرہ لئے وہ خاموش بیٹھی تھی۔ذریت نے دوسری بار اسے اتنے بار غور سے دیکھا تھا۔پہلے بار ولیمے کے سوٹ میں اور دوسری بار اب سیاہ میں۔
اور اس نے اس لمحے سوچا تھا۔کہ ماہ نور کو پہنا ہر رنگ اچھا لگتا ہے۔
خاموشی میں بیٹھے دونوں نفوس پہلی بار ایسے باہر نکلے تھے۔مگرایک دوسرے سے بہت انجان دکھتے تھے۔
کیا تم بور ہو رہی ہو۔؟کافی دیر خاموشی کے بعد جب ماہ نور نے مُڑ کے اس کی جانب نہیں دیکھا۔اس کی طرف متوجہ نہ ہوئی تو اسے مجبورً پوچھنا پڑا۔جس میں اسے کامیابی بھی ہوئی۔وہ شیشے سے سر ٹکائے باہر دیکھ رہی تھی۔سیدھی ہوبیٹھی۔
نہیں میں بس ٹھیک ہوں۔کچھ سوچ رہی تھی۔۔۔اس کی طرف ایک اچٹتی نظر ڈال کر اس نے نگاہ جُھوکاتے ہوئے کہا۔تو اس نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
پھر ایک لمبی خاموشی۔۔۔۔
ماہ نور نے اب کی اسے دیکھا تھا۔وہ ڈارک براؤن کوٹ سوٹ میں ملبوس سنجیدہ دکھتا نظر سامنے سڑک پہ ٹکائے ہوئے تھا۔اس کے بال ہمیشہ کی طرح جیل سے جکڑے ہوئے تھے۔ماہ نور نے اس کے بالوں کو جیل کے بغیر بہت کم دیکھا تھا۔
کیا ہوا؟وہ اسے ذرا حیران حیران سی تھوڑی شرماتے شرماتے دیکھ رہی تھی۔جب یک دم وہ مُڑا۔اور ماہ نور فوراً سیدھی ہوئی۔
نہیں کچھ نہیں۔اسے اپنے اس طرح اسے دیکھنے پہ شرمندگی ہوئی تھی۔ذریت نے اسے شرمندہ ہوتے نوٹس کیا تو ذرا سا مسکرا دیا۔لیکن کہا کچھ نہیں۔
بیس منٹ میں ان دونوں نے ایک دوسرے سے ایک دو باتوں کے سوا کوئی بات نہیں کی۔اور جب کار ایک خوبصورت مگر چھوٹے سے گھر کے سامنے جا کر رکی تب اس نے اترنے کو بولا تھا۔اور پھرخود بھی گاڑی باہر ہی پارک کرتا اتر گیا۔
گھر کا چھوٹا سا گیٹ پارک کرتے ہی سامنے بڑے سے ایل ای ڈی بلب کی روشنی میں دائیں جانب کا چھوٹا سا لان واضح دیکھائی دے رہا تھا۔اور وہیں لان کے اندر سے گُزرتے سامنے ہی اندر کی جانب جانے کا رستہ بنا ہوا تھا۔پتھر وں کی چھوٹی سی روش۔
لاؤنج کے کھولے دروازے میں ایک عمر رسیدہ خاتون کھڑیں ان دونوں کو دیکھ کر کھل کھلا اُٹھیں تھیں۔ماہ نور نے دور سے ہی ان کے چہرے پہ چمکتی روشنی دیکھ لی تھی۔ماہ نور ان سے شادی پہ مل چکی تھی۔
گھر کے اندر جاتے ہی ذریت کے قدموں کو ٹائر لگ چکے تھے جیسے۔وہ لمبے لمبے ڈ گ بھرتا خاتون تک گیا۔اور دھم سا مسکراتا جُھک گیا۔اُنہوں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر پیار دیا اور پھر ماتھے پہ ہلکے سے بوسہ لیا تھا۔ماہ نور بھی تب تک وہاں پہنچ چکی تھی۔
السلامُ علیکم ماہ نور نے ان کے گلے لگ کر مسکرا کر سلام کیا تو وہ نہال ہوتیں اس کے اس کا ماتھے پہ بوسہ لے گئی تھیں۔ماہ نور مسکرا دی۔اس کے مسکرانے پہ اُنہوں نے اس کے چہرے کا ہالہ بنا کر ایک پل کو اسے دیکھا ۔
دُلہن تم تو بالکل کسی حور سی ہو۔
ذریت تم بہت خوش قسمت ہو۔بلکل پری ہے۔اس کے چہرے پہ بے ساختہ ہی سرخی اُمڈ آئی تھی۔آذر کی امی ہنس دیں۔اور اس کا چہرے چھوڑ دیا۔
تم شرماتی ہوئی بہت معصوم لگتی ہو۔
ذریت کے منہ سے جو جملہ نکلا تھا ۔اس کا شور آنٹی تک تو نہیں گیا۔پر ماہ نور ضرور جاتے جاتے رک گئی اس نے سُنا ۔اور اسے لگا س کے اندر سے شور سا ایک دم سے بلند ہوا ہو۔
ذریت نے پہلی بار اس کی تعریف کی تھی۔اور وہ کہہ کر خود وہاں رکا نہیں تھا۔بس کہا اور چلا گیا۔اور ماہ نور منہ کھولے ذرا حیران سی وہاں کھڑی رہ گئی۔
:::؛؛:::::؛:
گواہوں کی موجودگی میں ۔۔۔جب سوال کرنے والا ادھیڑ ادھیڑ کر سوال کرے اور عام تاثر یہ ہو ۔کہ گواہی کے لئے منتخب شخص جھوٹ نہیں بولتا۔تو ملزم کو مجرم بنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ؑ عدالت سجی گواہی سُنی اور فیصلہ کر دیا گیا۔
باورچی خانے سے پھوپھو اسے پھپھک پھپھک کر روتی کو اپنے کمر ے میں لائی تھیں۔اس کا دم گُھٹ رہا تھا۔اور اس سب سے الگ انجانے میں وہ امسلسل اپنے ہاتھ کو دوپٹے سے رگڑنے میں مصروف تھی۔چچی جان اور سدرہ اب کیا کریں گیں۔وہ دونوں اس سے انجان تھیں۔لیکن پھوپھو ایک بات کو جانتی تھیں۔کہ اب کی بار اگلی پیچھلی راکھ میں چُھپی سب چنگاریاں ایک ساتھ بھامبڑ کی شکل اختیا ر کر لیں گی۔
فری مجھے بتاؤکیا ہوا ہے؟اصل صورتحال کیا بنی وہ نہیں جانتی تھیں۔بس آنکھوں دیکھے چند مناظر کے سوا اُنہوں نے دیکھا ہی کیا تھا۔
آنکھوں دیکھی بات سچی ہو لازم نہیں۔
پھوپھو میں نہیں جانتی کہ آپ۔۔۔آپ نے کیا دیکھا۔پر۔۔۔
پلیز آپ مجھ پہ شک مت کریں۔میں نے کچھ نہیں کیا۔اس کی آنکھوں کے سامنے پھوپھو کی بے یقین نگاہیں اب بھی گھوم رہی تھیں۔اس نے بے چین ہوتے ہوئے ان کے ہاتھوں کو تھامتے کہا۔تو وہ اس کو اپنے کندھے سے لگا کر سہلانے لگیں۔
فرح مجھے بتاؤ کیا بات ہوئی۔؟میں جانتی ہوں تم نے کچھ نہیں کیا۔لیکن تم مجھے بتاؤ۔تاکہ میں کچھ کر سکوں۔تاریخ اپنے آپ کو دوہرائے یہ میں ہونے نہیں دوں گی۔اس کے سر کو سہلاتے اس کے بالوں پہ نرمی سے بوسہ لتے شفقت سے اُنہوں نے کہا۔بلکہ یقین دلایا تو فرح خان نے سب سچ سچ بتا دیا۔اور پھوپھو کو یاد آنے لگا۔کہ کس طرح شادی پہ بھی وہ پریشان رہی تھی۔کس طرح منہ لٹکائے وہ ساری شادی میں گھومتہ بلکہ چُھپتی رہی ۔
پھوپھو جی میں نہیں جانتی یہ سب کب اور کیسے ہوا۔لیکن میرا یقین کریں میرا کوئی قصور نہیں ہے اس سب میں۔روتے بِلکتے اس نے ایک بار پھر سے اپنی صفائی دی تو پھوپھو اسے دیکھنے لگیں۔
اچھا تم چُپ کرجاؤ۔کچھ نہیں ہوگا۔اتنی بڑ ی بات نہیں ہے۔اس کو حوصلہ دلانے کو اُنہوں نے کہا۔تو فرح اُنہیں دیکھنے لگی۔اسے پھوپھو کی آنکھوں میں ماضی کے سائے لہراتے صاف نظر آ رہے تھے۔ان کے چہرے پہ درد کی لہریں وہ واضح دکھ سکتی تھی۔
تب وہ انیس بس کی تھیں۔۔۔
ہاں شائد۔۔۔
نہیں بلکہ وہ سچ میں اُنیس برس کی تھیں۔اسے یاد تھا۔وہ کیسے بھول سکتی تھی۔تب ۴۱ سال کی تھی۔
اس شام کا واقعہ ہے۔جب شبِ بارات کے آنے پہ وہ ان سے ضد کر کے اپنے لئے حلیم بنوا رہی تھی۔انیس سال کی عمر میں بھی وہ ایک سمجھدار اور واضعدار لڑکی معلوم ہوتی تھیں۔سہج سہج کر قدم رکھتیں۔نرمی اور حلاوت کو لہجے میں سموئے بولتیں۔اس کی ذہرہ پھوپھو۔
پھوپھو آپ نے میرے کپڑے دیکھے؟
پونی کو جھولاتی فرح کے دونوں گال سرخیاں جھلکا رہے تھے۔
بلوری آنکھوں نے مُڑ کر اس جھلاتی پونی والی لڑکی کو دیکھا۔اور مُسکرا دیں۔اس لڑکی کو دیکھتے ان کی آنکھوں کی چمک دوچند ہو جایا کرتی تھی۔جیسے ابھی ہوئی۔
نہیں لیکن تم دیکھاؤ گی تو میں ضرور دیکھوں گی۔
چمچ کو دائیروں میں گھوماتے اس کی طرف آدھے چہرے کو موڑے اُنہوں نے کہا۔تو فرح سمجھداری سے سر ہلاتی ان کے برابر جا کھڑی ہوئی۔اور اُچھل کر بائیں جانب شیلف پہ بیٹھ گئی۔یوں لگتا تھا۔جیسے وہ ایسا ہر روز کرتی ہو۔
پھوپھو کل ہم مُنا کے گھر چلیں؟مُنا فرح کی اکلوتی دوست تھی۔
ہم م م۔۔۔سوچ کے بتاؤں گی۔وہ کبھی بھی کسی بھی بات پہ فوراً سے پیشتر فیصلہ نہیں کیا کرتی تھیں۔
آپ جانتی ہیں۔مُنا نے کل کلاس میں سب بچوں کو چوکلیٹس دیں۔سارے بچے خوش تھے۔مجھے بھی اس کی چوکلیٹ اچھی لگی۔وہ مزے کی تھی۔
اس کے بابا لندن سے آتے ہوئے لائے تھے۔وہ بولتی اچھی لگ رہی تھی۔اور پھوپھو اسے سُنتی۔۔۔
وہ ایسے ہی بغیر بریک کے بولا کرتی تھی۔
پھوپھو جی۔۔۔
ہم م۔۔۔
جب آپ لاہور جائیں گیں۔مجھے اپنے ساتھ لے کے جائیں گی ناں؟وہ جانتی تھی۔کہ اُنہیں لاہور سے گریجؤیشن کرنے کا کس قدر شوق تھا۔
پتہ نہیں۔۔۔
لیکن آپ نے کہا تھا۔کہ آپ مجھے ہر جگہ اپنے ساتھ رکھیں گیں۔ان کے پتہ نہیں کہنے پہ اسے غصہ آیا تھا۔وہ ان کے ساتھ جانا چاہتی تھی۔
میں نے وعدہ کب کیا؟میں نے تو بس یہ کہا تھا۔کہ دیکھیں گے ۔کہ تمہیں ساتھ لے کے جانا ہے یا نہیں۔اس کے چہرے پہ موجود بگڑے تاثرات سے لطف اُٹھاتے اُنہوں نے کہا۔تو وہ منہ بگاڑ کر نیچے کودگئی۔اور برنر بند کر دیا۔
ارے پاگل یہ کیا کیا؟
آئیں میرے ساتھ میرافرک دیکھیں۔وہ کل ہی سکول میں پہننے کے لئے نیا سوٹ لائی تھی۔اور اب بضد تھی۔کہ وہ دیکھ کے بتائیں۔کہ ٹھیک ہے؟آیا کہ اس پہ جچتا بھی کہ نہیں؟
بات سُنیں۔۔۔
راہداری سے گُزرتے وہ کمرے کی جانب جا رہی تھیں۔ذہرہ فرح کی کسی بات پہ ہنس رہی تھیں۔جب پُشت سے پڑتی آواز پہ اُنہوں نے مُڑ کر دیکھا۔اور پھر اگلے ہی لمحے سامنے کھڑے نوجوان کو دیکھ کر نظر نیچے کر کے سر پہ دوپٹہ ڈالا۔
کیامجھے ایک کپ چائے مل سکتی ہے؟تئیس برس کا چھوٹی بھابھی کا بھائی ان کے گھر ایک ہفتے سے رہ رہا تھا۔وہ ادھر کس لئے آیا تھا۔ذہرہ نے جاننے کی کوشش نہیں کی تھی۔
کیوں آپ کی بہن کو نہیں آتی؟فرح نے ناک چڑھا کر آنکھیں گھوما کر قدرِ ناگواری سے کہا۔تو وہ گڑبڑا گئے۔
آتی ہے۔لیکن وہ ابھی پتہ نہیں کہاہیں۔اور میرے سر میں شدید درد ہے۔کہنے کے ساتھ اُنہوں نے ماتھے کو بھی مسل ڈالا۔
اچھا میں بنا کے بھجوا دیتی ہوں۔فرح جاؤ تم کمرے میں۔میں بس دو منٹ میں آتی ہوں۔مہمان کا خیال کر کے اُنہوں نے کہا۔تو فرح منہ بسور کر چل دی تھی۔البتہ جانے سے پہلے اس نوجوان کو ضرور دیکھاتھا۔جو اسے کبھی اچھا نہیں لگا تھا۔
شکریہ۔۔۔
چائے کے ساتھ اگر ایک سر درد کی دوا بھی بھجوا دیں تو بہتر ہے۔وہ واپس مُڑ رہی تھیں۔جب آواز پہ پھر روکیں۔اب کی بار جواب میں اُنہوں نے محض سر ہلانے پہ ہی اکتاف کیا ۔اور کیچن کی جانب آگئیں۔
چائے بنا کر ملازمہ کو پکڑانے کی غرض سے اُنہوں ے ارد گِرد نظر دوڑائی تو دور نزدیک اسے نہ پا کر وہ باہر نکلی تھیں۔
ملازمہ بڑی بھابھی کے کمرے میں بیٹھی ان کی ٹانگوں کی مساج میں مصروف تھی۔جب سے رضا گیا تھا۔تب سے بھابھی بیگم نے بالکل چُپ سادھ لی تھی۔ہر وقت کمرے میں رہتیں۔
خود ہی دے آتی ہوں۔ملازمہ گھر میں ایک ہی تھی۔اسے مصروف دیکھ کراُ نہوں نے دروازے سے ہی چائے اور دوائی پکڑانے کا سوچا اور واپس باورچی خانے سے چائے کا کپ اُٹھا کر ٹرے میں رکھتے اُوپر آ گئیں۔
ہلکی دستک پہ دروازہ خود بخوس کھولتا چلا گیا۔کمرہ نیم تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔اور بھابھی کا بھائی اوندھے منہ لیٹا شائد سو چکا تھا۔
وہ اندر جانے سے جھجکتی معلوم ہوتیں تھیں۔کہ اُنہوں نے راہداری سے پاؤں نہیں اُٹھائے۔
آجائیں۔دروازہ بجنے کے بعد مسلسل خاموشی کو پا کر اس نے یوں ہی لیٹے لیٹے کہا تو ذہرہ نے گلا کھنکارہ تھا۔
بولی کچھ نہیں۔
اس کے کھنکارنے پہ اس نے سر گھوما کر ان کی جانب دیکھا اور پھر مسکرا کر سیدھا ہوتا بیٹھ گیا۔
آپ کی چائے۔۔۔
شکریہ پلیز ادھر رکھ دیں۔اس نے اسے وہیں کھڑے دیکھ کے سامنے کی میز کی جانب رکھنے کو اشارہ کرتے کہا۔تو وہ ذرا دیر کو ٹھٹکیں اور پھر با رعب چال چلتیں آگے بڑھ گئیں۔
کیا آپ یہ مجھے پکڑا دیں گیں۔۔۔پلیٹ میں رکھی دوائی کی طرف اس کا اشارہ تھا۔ذہر نے گہرہ سانس لے کر پلیٹ اس کی جانب بڑھا دی۔
بہت معذرت چاہتا ہوں ۔آپ کو میری وجہ سے زحمت اُٹھانی پڑی۔مسکرا کر پلیٹ سے اُٹھا کردوا میں میں رکھتے اس نے کہا ۔تو اُنہوں نے جواب میں کوئی تاثر ظاہر نہیں کیا اور واپس مُڑی ہی تھیں۔جب پشت کی آواز پہ رُکیں۔
کیا آپ کو میرا یہاں رُکناپسند نہیں؟عجیب سے سوال پہ اُنہوں نے مُڑ کر اسے دیکھا تھا۔
جی نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔آپ کی بہن کا گھر ہے۔میں آپ کون ہوتی ہوں آپ کو۔۔۔۔
اچھا ۔۔۔۔
بڑی باتیں آگئی ہیں تمہیں بھی۔ذہرہ میں تو تمہیں معصوم ہی سمجھتی تھی۔چھوٹی بھابھی کی آواز پہ وہ جو دوروازے کی جانب پُشت کئے کھڑی تھیں۔ایڑیوں پہ گھومیں۔
کیا مطلب؟وہ اُن کا مطلب سمجھ نہیں سکی تھیں۔
مطلب تو اب تم اپنے بھائی سے پوچھنا۔بہت سر چڑھ گئی ہو۔تبھی نہ تہذیب رہی نہ عقل۔ان کے بھر پور طنز پہ بلبلا اُٹھی تھیں۔
بھابھی بیگم آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں۔؟
تم اتن معصوم نہیں ہو۔اپنے آپ کو بچہ سمجھنا چھوڑ دو۔تمہیں نہیں معلوم کے غیر مرد کے کمرے میں منہ اُٹھا کر نہیں چل پڑتے۔بھابھی کی بات پہ ان کا منہ کھول گیا تھا۔
لیکن بھائی صاحب نے خود۔۔۔
آپی میں نے ان سے چائے منگوائی تھی۔اس سے پہلے کہ وہ بات پوری کرتیں۔بھابھی کا بھائی خود ہی کہنے لگا۔بھابھی دانت کچکچا کر رہ گئیں۔
تم چپ کرو۔میں نہیں کیا جانتی اس کو۔ایک نمبر کی ڈرامے باز اور مکار لڑکی ہے۔اور اگر تمہیں چائے پینی تھی تو مجھے کہہ دیا ہوتا۔بھابھی کی آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے تھے۔
ذہرہ منہ پہ ہاتھ رکھ کر اپنی سسکیاں روکتیں کمرے سے نکل گئیں۔
اس واقعہ نے ان کی زندگی پہ بہت گہرہ اثر ڈالال تھا۔اس واقعہ کے ٹھیک تین ماہ بعد بھابھی کی امی نے اپنے بیٹے کے لئے اس کا رشتہ مانگا تو گھر میں ایک بار پھر سے شور اور تماشا ہواور پھر انکار پہ اس معملے کا نبٹا دیا گیا۔
بھابھی نے اسی رات بھرے لاؤنج میں ان کی خوب بھائیوں کے سامنے عزت اُچھالی۔مگر بھلا ہو ۔بڑے خان کا جن کی وجہ سے وہ بچ گئیں۔اُنہیں اپنی بیٹی جیسی بہن پہ یقین تھا۔
بھابھی بات بڑھنے کی نہیں ہے۔پر آپ جا کر خود بھی تو کچھ پوچھئے۔چچی بولتی راہداری میں آ رہی تھیں۔ان کے ساتھ گھر کے سب موجود تھے۔اور فرح کے رونے میں روانی آ چکی تھی۔خان اپنی عزت کے معملے میں کتنے حساس ہوتے ہیں ۔یہ بات وہ بہت اچھے سے جانتی تھی۔وہ پھوپھو کے کندھے ست چمٹ کر رونے لگی۔
پھوپھو کا دل بڑی شدت سے دھڑک رہا تھا۔شادی کے تیسرے روز وہ آئیں تھیں۔گھر مہمانوں سے بھرا پڑا تھا۔ایسے میں بھابھی جانبھوج کے بات کو ہوا دے رہی تھیں۔اُنہوں نے کندھے سے لگی فرح کی پشت سہلائی۔
فرح۔امی جی کی آواز میں غصہ تھا۔شدید غصہ فرح مزید سُکڑ گئی۔
فرح ۔۔۔باہر آؤ۔وہ غصے سے بھری دروازے کی روہداری میں کھڑی تھیں۔فرح نے سر ہلا دیا۔
امی ۔۔۔امی جی میں نے کچھ نہیں کیا۔میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔
فرح میں جو کہہ رہی ہوں بس وہ کرو۔پھوپھو کے کندھے سے الگ کرتے وہ چیخی تھیں۔فرح مکینکی انداز میں کھڑی ہوگئی۔
راہداری میں سب مہمان ہونک بنے کھڑے تھے۔جن میں سدرہ سب سے نمایاں تھی۔اس نے جانبھوج کے بات کو ہو ادی تھی۔اور جا کر چھوٹی دادی کے سامنے واقع کو افسانہ بنا کر سُنایا تو وہ امی جی کو ڈانٹنے لگی تھیں۔اور اب اسی کا انجام نکل رہا تھا۔کہ شور کی آواز سُن کر گھر کے مرد بھی جمع ہو چکے تھے۔
کاشف ان میں موجود نہیں تھا۔شائستہ البتہ وہیں تھی۔اور بھائی کو بچانے کے لئے بڑھ چڑھ کر اسکے کرادار کے خلاف گواہیاں دے رہی تھی۔
خان لالہ میرا بھائی ایسا بالکل نہیں ہے۔بلکہ آپ کی ہی صاحبزادی نہیں جینے دے رہی تھی اسے۔ساری شادی میں میرے بھائی کا جینا حرام کر چھوڑا۔کہہ رہی تھی۔میرے ساتھ تصویر لو اپنی سہیلی کو بھیجنی ہے۔لاؤنج کے وسط میں کھڑی وہ کیا کہہ رہی ہے۔فرح نے ڈبڈبائی آنکھوں سے سُنا تھا۔
شائستہ جھوٹ مت بولو۔میری فرح ایسی نہیں ہے۔
اور خان لالہ بات تو اتنی بڑی ہے بھی نہیں جتنا چھوٹے بھا کی سالی بڑھا رہی ہے۔آج چپ ہونے کا مطلب تھا۔کہ فرح کی اگلی ساری زندگی کو سوالیہ نشان بنا دینا۔وہ ہر گز برداشت نہیں کر سکتی تھیں کہ ان کی لاڈلی پہ کوئی انگلی اُٹھائے۔
تم نے جو پرورش کی ہے۔تم تو یہی کہو گی۔کہ بات تم تک نہ آئے۔۔۔۔اور تمہارا بھی سب کو خوب معلوم ہے۔تمہارے بھی۔۔۔
بس بہت ہوا۔چلو لڑکی تم اپنے گھر چلو۔چھوٹی دادی مسلسل شائستہ کو بولتا دیکھ کر غصے سے کہہ گئی تھیں۔سدرہ نے سر جھٹکا۔تو شائستہ نے بھی جانے کی۔
دادی بی۔ان کو سمجھائیں خامخواہ ہم پہ الزام نہ لگائیں۔جو دیکھا وہی آپ کو بتایا۔ہم تو آپ کے گھر کی عزت کی خاطر کہہ رہے ہیں۔آج آپ کو احساس ہو گا تو۔کل کو ایسی کوئی بات نہیں ہوگی۔جس سے آپ کو شرمندہ ہونا پڑے۔سدرہ کی زُبان فراٹے بھر رہی تھی۔پھوپھو نے گھر کے تمام نفوس پہ نظر ڈالی۔ان کے شوہر بھی وہیں تھے۔اور صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش میں لگتے تھے۔مریم نے ان کے بازو کو پکڑ رکھا تھا۔وہ چہرے سے پریشان لگ رہی تھی۔
خان لالہ اپنی بیٹی کا چہرہ مسلسل دیکھ رہے تھے۔ساتھ ہی چھوٹے خان بیٹھے تھے۔اور خاموش تھے۔ہمیشہ کی طرح۔
بابا میں نے کچھ نہیں کیا۔یہ سب۔۔۔
چپ کر جاؤ فرح۔تم اب کچھ مت بولو۔امی جی صوفے پہ بیٹھی تھیں۔بڑے خان کے بائیں جانب ۔ان کے کہنے پہ اُنہوں نے بہت غصے سے اپنی بیوی کو دیکھا تھا۔
امی جی میں نے کچھ نہیں۔
فرح بی بی تم کہو۔کہ جھوٹ ہے اس مردودنے تمہارا ہاتھ نہیں پکڑا۔تمہارے آنسو صاف نہیں کئے۔
ارے میں کہتی ہوں۔کس گندے خاندان میں مجھے بیاہ دیا ابا جی نے۔چچی کی دہائی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔
بس کرو ۔۔۔بات کا کچھ پتہ چلے۔بلکہ تم جاؤ کمرے میں۔چھوٹے خان کو اپنی بیوی کی عادتوں کا خوب علم تھا۔خامخواہ اُنہیں اتنے مہمانوں کے سامنے ڈرامہ لگانے کا موقع درکار تھا۔
کیوں میں کیوں جاؤں۔اس کو کیوں نہیں بھیجتے۔شوہر کی جانب سے اس ذلت پہ وہ بلبلا اُٹھی تھیں۔سب مہمان اس خاندانی ڈرامے کو دیکھ رہے تھے۔اور بہت کچھ سمجھ بھی رہے تھے۔
فرح نے روتے ہوئے بابا کو دیکھا تو اس کا دل کٹ کر رہ گیا۔بابا کا سر جُھکا ہو اتھا۔اسے لگا اس کی ساری دنیا بھی اگر اس سر کا غرور واپس لوٹانے میں لگا دی جائے تو بھی کم ہے۔باپ کی عزت بیٹی کے دم سے ہوتی ہے۔بیٹی کوئی بھی غلط قدم اُٹھائے۔اس سے باپ چاہے وزیرِ عظم ہی کیوں نہ ہو اپنی عزت کی اُچھلتی پگڑی کو بچا نہیں سکتا۔نہ تھام کر واپس سر پہ پہن سکتا ہے۔
فرح خاموشی سے واپس مرے قدموں کے ساتھ مڑی اور بھاگ کر اپنے کمرے میں گُھس کر دروازہ بند کر لیا۔وہ مر کر بھی ا ن کا سامنا نہیں کر سکتی تھی۔اس کا دل چاہ رہا تھا۔خودکشی کر لے۔سارے خاندان نے اس کے بابا کی عزت پہ داغ دیکھا تھا۔اس کے بابا کا نام تھا مکام تھا۔وہ مر رہی تھی۔
اس نے بیڈ پہ گِر کر منہ پہ تکیہ رکھ لیا۔
:::::::::::
چائے ۔۔۔
کھلے آسمان کے تلے وہ کھڑی تھی۔جب پُشت پہ پڑتی آواز پہ وہ مُڑی ۔آپی مومنہ تھیں۔بھاپ اُڑاتے کپ کو اس نے تھام لیا۔
کیا ہوا۔اندر تم بور ہو رہی تھی۔؟
کھانے کے بعد وہ وہاں سے اُٹھ آئی تھی۔اکمل اپنی منگیتر اور بہن کے ساتھ آیا ہوا تھا۔اور ان کے آتے ہی ذریت کو جیسے حوش نہیں رہا تھا۔اسے اُمید تھی۔کہ وہ آج اس کی تعریف کرے گا۔اگرچہ اس نے میک اُپ کے نام پہ لپسٹک تک نہیں لگائی تھی۔مگر پھر بھی وہ اتنا تو جانتی تھی۔کہ اللہ نے اسے سادگی میں بھی بہت حُسن دیا تھا۔مگر ذریت کے روئے نے اسے کافی حیران اور تکلیف سے دوچار کیا تھا۔اسی لئے وہ اُن سب کو ان کے یاد گار ماضی کے ساتھ چھوڑ کر خود یہاں چلی آئے تھی۔کہ آیا کہ اسے اس کی یاد آتی بھی ہے یا نہیں۔
وہ تو نہیں آیا مگر مومنہ آپی ضرور آگئی تھیں۔وہ مریم آپی جیسی تھیں۔
نہیں میں بور نہیں ہو رہی تھی۔لیکن حبس ضرور تھا۔جس نے مجھے وہاں بیٹھنے نہیں دیا۔ورنہ وہاں سب اتنی مزے کی باتیں کر رہے تھے۔کہ بوریت کا سوال ہی نہیں بنتا۔جواب میں مسکرا کر چائے کا گھونٹ لتے اس نے تفصیل سے بتایا تو وہ بھی مسکرا دیں۔
ہاں۔۔۔ان تینوں کا بچپن بہت اچھا تھا۔میں اور مریم بھی بہت مزے کرتے تھے۔ہمارے گھر ایک دوسرے کے قریب تھے۔اس لئے آتے جاتے رہتے تھے۔
ہم۔۔۔دادی جان آپ کو اور آنٹی کو بہت یاد کرتی ہیں۔شفٹنگ کے بعد آپ نے چکر ہی نہیں لگایا۔میں آئی ہوں۔اب آپ بھی آنا۔وہ سادگی سے گویا ہوئی تو آپی مسکرا دیں۔
ہاں ضرور۔
تم بتاؤ۔ذریت تمہارا خیال تو رکھتا ہے ناں۔ویسے یہ سوال مجھے پوچھنا تو نہیں چاہیے۔کہ میں جانتی ہوں وہ ہمیشہ سے ہی کئیرنگ ہے۔لیکن تم بتاؤ۔
ماہ نور نے گہرہ سانس لے کر تلخی چُھپائی۔
ابھی تک تو سب معمول پہ ہے۔بے ساختہ ہی اس نے وہ کہہ دیا جو وہ کہنا نہیں چاہتی تھی۔آپی مومنہ نے اُلجھ کے اسے دیکھا۔
کیاہوا؟ماہ نور کوئی۔۔۔
آپی آپ نے تو میری بیوی کو رکھ ہی لیا ہے۔واپس کر دیں اب۔اس سے پہلے کے آپی کچھ کہتیں۔ذریت کی بات پہ مُڑ کر اسے دیکھا۔اور ہنس دیں۔ذریت نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچ لیا۔ماہ نور کے ہاتھ میں پکڑے کپ سے گرم چائے چھلک کر اس کے انگوٹھے کو جلا گئی۔وہ کراہ کر رہ گئی۔
لو ماہ نور تمہارا میاں تو مجھ پہ الزام لگانے لگا۔
رکھو میاں مجنو اپنی بیوی میں جا رہی ہوں۔مسکرا کراسے چھیڑ چھاڑ سے اُنہوں نے پہلو بچا یا اور اندر کی جانب بڑھ گئیں۔ماہ نور نے بہت غصے سے اسے دیکھا۔جو اس کا کپ پکڑ کر اب چائے پی رہا تھا۔اور خاموش تھا۔
اس کے ہاتھ پہ جلن بڑھ گئی۔
آپ نے میرا ہاتھ جلا دیا۔
اوہ سوری۔مجھے اندازہ نہیں ہوا۔چونک کر اس نے ہاتھ بڑھا کر روشنی میں دیکھا۔جلد تھوڑی سرخ تھی۔
آپ کو ویسے بھی پروا نہیں ہوتی۔برا منہ بنا کر اس نے ناگواری سے کہا۔تو ذریت کو عجیب سا لگا۔
ک۔۔۔کیا مطلب؟
نہیں کچھ نہیں۔ماتھے پہ بل لئے وہ واپس مُڑ گئی۔
تم کچھ کہہ رہی تھی۔کہو بھی۔میں سُن رہا ہوں۔
ہاں تو سُنیں ان ہواؤں کو۔ان فضاؤں کو۔وہ اپنی جگہ پہ کھڑا تھا۔اس نے جاتے ہوئے مُڑے بغیر رک کر کہا ۔تو ذریت دھیمے سے مسکرا دیا۔
لگتا بیگم صاحبہ غصہ کر گئیں۔
::::::::::::
رات کا وقت تھا۔سب اس کے کمرے میں موجود اسے دیکھ رہے تھے۔جو بابا کے سامنے ان کے گھوٹنے پکڑے بیٹھی تھی۔
بابا میں نے کچھ نہیں کیا۔امی جی ، آپ میرے لئے بہت اہم ہیں ۔آپ کی عزت میرے لئے اپنی جان سے زیادہ اہم ہے۔میرا یقین کریں۔اسے اپنے باپ کا جھکا سر رولا رہا تھا۔بابا نے اس کے ہاتھ جھٹک دئے۔
قصور تمہارا نہیں ہے فرح۔تمہاری ماں نے جب کسی کی بیٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے نہیں سوچا۔تو آج میں کیسے اس تکلیف سے اس رسوائی سے بچ جاتا۔جو کل تمہاری ماں نے بویا۔اب تمہیں وہ کاٹنا پڑے گا۔ان کے لہجے میں فیصلے کے بعد کا سخت تاثر تھا۔امی جی پہلو بدل گئیں۔
خان لالہ اپنی اولاد کے ساتھ کون ظلم کرتا ہے۔آپ جانتے ہیں قصور اس کا نہیں پھر بھی آپ یہ سب بول رہے۔پھوپھو وہ واحد انسان تھیں جو اس نکاح کے خلاف تھیں۔
لڑکی چپ رہو۔یہی فیصلہ مناسب ہے۔کاشف سے نکاح کر کے اسے کے ساتھ بھیج دو۔چچی دادی کی بات سُن کے فرح کا دل کامپ اُٹھا تھا۔وہ ایک ناگوار اور تکلیف دے شخصیت کا حامل انسان تھا۔دھوکے باز ۔لڑکیوں کو ورغلانے والا۔اور عین موقع پہ چھوڑ کر بھاگ جانے والا۔اس سے شادی کر کے وہ اپنے ماں باپ کو کبھی سُکھ نہیں دے سکتی تھی۔
بابا جان۔۔۔وہ اچھا نہیں ہے۔
پلیز امی جی۔میری بات کو سمجھیں۔اس کا دل چاہ رہا تھا۔روئے دنیا کو تہس نہس کر دے۔
ہاں تم تو جیسے بہت اچھی ہو۔چچی کا وار بھر پور تھا۔
جاؤ فرح اپنے کمرے میں ۔وہ لوگ آتے ہی ہوں گے۔بابا کے لہجہ مضبوط تھا۔پھوپھو نے بڑھ کر اسے کندھوں سے تھام لیا۔
اس نے بہت شکوہ کرتی نگاہوں سے اُنہیں دیکھا تو وہ نگاہ پھیر گئیں۔
جس وقت وہ کمرے میں آئی پھوپھو کے ساتھ پھوپھا جی بھی تھے۔
ذہرہ یہ سب کیا چل رہا ہے۔مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی۔آپ کی فیملی بچی کی بات کو سمجھ ہی نہیں رہی۔انہیں بھی اس فیصلے پہ احتجاج تھا۔اسی لئے اس کے باتھ روم میں جاتے ہی پھوپھو کے سامنے کہہ دیا۔پھوپھو نے نظر چورائی۔
میں نہیں جانتی کیا کروں۔
آپ کر بھی کیا سکتی ہیں۔
کر تو سکتی ہوں ۔اگر آپ میری مدد کریں۔ان کا لہجہ ذومعنی تھا۔وہ اُلجھے۔
کیا مطلب؟
میں اسے پالا ہے۔اس کی پر ورش کی ہے۔میں اسے اس طرح آگ میں کودنے نہیں دے سکتی۔پلیز میری مدد کریں۔ان کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی تھی۔وہ بس خاموشی سے اُنہیں دیکھتے رہے۔
کیا چاہتی ہیں آپ؟
ہم اسے لے جاتے ہیں۔لاہور میں اسے ہوسٹل میں بھیج دیں گے۔خان لالہ کو جب احساس ہو گا ۔تو صورتِ حال بھی بدل جائے گی۔میں اسے ساری زندگی کے لئے اس جزباتی فیصلے کی نظر نہیں کر سکتی۔ان کا لہجے بتاتا تھا ۔کہ وہ اس فیصلے پہ ڈٹ چکی ہیں۔
آپ جانتی ہیں اس کا انجام کیا ہوگا۔آپ کا خاندان آپ سے ناراض ہو سکتا ہے۔ادھر آنا جانا آپ کا بند ہو سکتا ہے۔وہ دور اندیش اور سمجھدار انسان تھے۔
قیسر پلیز آپ بات کو سمجھیں۔میں نہیں چاہتی وہ اس انسان کے ساتھ رہے ۔جو مشکل وقت میں دُم دبا کر بھاگ گیا۔ اگر کچھ تھا بھی تو اسے چاہے تھا۔کہ سامنے آتا۔
اس کا تو یہ بھی نہیں پتہ۔ کہ آیاکہ گھر پہ وہ ہے بھی کہ کہیں چھپ گیا۔کمرے کی گھمبیر خاموشی میں ان دونوں کی مدھم سر گوشیاں نمایاں تھیں۔
سوچ لیں۔۔۔
آپ بس ساتھ چلنے کا وعدہ کریں۔
چلیں پھر بلائیں آپ اُنہیں ۔میں مریم کو گا ڑی میں بیٹھا تا ہوں۔وہ عہد کر چکے تھے۔اُنہیں ان کا ساتھ دینا تھا۔ان کی شریکِ حیات کو ان کے ساتھ کی ضرورت تھی۔وہ انکار نہیں کر سکتے تھے۔
فرح جس وقت باہر آئی پھوپھو اس کا بیگ پیک کر چکی تھیں۔اسے دیکھ کر وہ اس کی جانب بڑھیں اور اس کا چہرہ تھام کر اسے دیکھا۔
فری میں تمہیں لے کر جا رہی ہوں۔تم کاشف سے شادی نہیں کرو گی۔یہ میرا فیصلہ ہے۔اس کی آنکھوں میں دیکھتے اُنہوں نے کہا تو اس کی آنکھیں ساکت ہو گئیں۔اور پھر سر مکینکی انداز میں نفی میں ہلا۔
نہیں۔۔۔نہیں پھوپھو۔میں ایسا نہیں کروں گی۔میں بھاگوں گی نہیں۔
بھاگ نہیں رہی۔تم میرے ساتھ جا رہی ہو۔میں فون کر کے لالہ کو بتا دوں گی۔
نہیں پھوپھو ۔میں ان کا مان اور نہیں توڑ سکتی۔
اُنہیں تم پہ مان اب ہے بھی نہیں۔تم نہیں جانتی جب ایک بار اعتبار ٹوٹ جائے تو دوبارہ نہیں جُڑتا۔ضد مت کرو ۔اور چادر اُٹھاؤ۔وہ اس کی منت کر رہی تھیں۔
نہیں میں نہیں جاؤں گی۔بعد میں جو میرے کرادار پہ کیچڑ اُچھلے گا ۔وہ میں برداشت نہیں کر پاؤں گی۔
فرح خا ن یہاں کوئی کسی کو زیادہ دیر تک یاد نہیں رکھتا۔اور میں تمہیں کہہ رہی ہوں ۔کہ میں تمہاری پالنے والی تمہیں لے کر اہنے ساتھ جا رہی ہے تو کوئی مجھے نہیں روک سکتا۔اُنہوں نے الماری کھول کر اس پہ چادر بھی دے دی تھی۔
پھوپھو آپ مجھے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتیں۔میں وہاں لوگوں کی باتوں کا مقابلہ نہیں کر پاؤں گی۔پلیز۔۔۔.
میں تمہیں کراچی نہیں لے کر جا رہی ۔تم لاہور میں رہوگی۔ہو سٹل میں۔میں جانتی ہوں کہ تمہارا میرے ساتھ جانا تمہارے لئے صحیح نہیں ہے۔لیکن تم اگر لاہور میں رہو گی تو تم محفوظ رہو گی۔میرے پہ بھروسہ رکھو۔اُنہوں نے اسے یقین دلایا اور اس نے کر لیا۔
:::::::::::::::
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...