کیا تم ابھی دادی سے ملو گی۔گاڑی کا دروازہ بند کرتے اس نے پوچھا ۔تو وہ جو پہلو میں بیٹھی تھی۔اسے دیکھنے لگی۔ذریت کچھ بدل بدل سا گیا تھا۔
میں اُن سے کل مل لوں گی۔
کیوں؟
بھائی میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔نظر جھوکاتے اس نے ہاتھ کی ہتھیلی مسلتے ہوئے کہا۔تو وہ سر ہلا کر انگیشن میں چابی لگا نے لگا۔
کیا وہ نہیں جانتے کہ اس وقت تم اپنے شوہر کے سا تھ ہو۔اور تمہیں واپسی پہ دیر ہو سکتی ہے۔گاڑی کا رُخ موڑتے اس نے سارا دھیان سڑک کی جانب رکھتے ہوئے پوچھا تھا۔ماہ نور نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔
آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ماتھے پہ ناگواری کے بل تھے۔
کچھ نہیں! سیدھی سی بات کر رہا ہوں۔
مجھے سیدھی باتیں سمجھ نہیں آتیں۔
اچھا۔۔۔بڑی عجیب ہو پھر تو۔مسکرا کر اس نے ایک ابرو اُٹھا کر کہا تووہ منہ بنا کر شیشے سے باہر دیکھنے لگی۔
آپ کا اور میرا ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے۔کہ آپ مجھ سے فری ہوتے پھیریں۔بغیر سوچے سمجھے اس نے ایک ایسی بات کہی تھی۔جسے کوئی بھی عقل مند سُنتا تو اس کا وہی حال ہوتا۔ جو اس کا اس وقت ہوا تھا۔
ہاہاہاہاہا۔کیا ۔۔۔کیا کہہ رہی ہو۔گاڑی چلاتے ایک دم سے ذریت کو ہنسی آئی تھی۔تم جانتی بھی ہو ۔تم کیا کہہ رہی ہو۔اسے لگا وہ مذاق کر رہی ہے۔
یہ کوئی مذاق کی بات نہیں ہے۔۔۔
اچھا پھر کیسی بات ہے۔آج کی تاریخ کا سب سے اچھا جوک ہے یہ۔
ہاہاہاہا بہت مزا آیا۔۔۔اسے اس کا ہنسنا ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔ذریت مسکرا ہٹ روک کر سامنے کے شیشے سے باہر دیکھتا رہا۔
غالباً اس قسم کی یہ اُن کی پہلی گفتگو گی تھی۔اگرچہ کم وقت میں کی گوئی مختصر سی گفتگو ۔مگر ذریت کو اسے تنگ کرنے میں مزہ آیا تھا۔شائد نتاشا کے چلے جانے سے اس پہ جو زنگ سا چڑھنے لگا تھا۔وہ اب آہستہ آہستہ اُتر رہا تھا۔
تمہارے پاس میرا فون نمبر تو ہے ناں۔۔۔وہ پوچھ رہا تھا ۔یا بتا رہا تھا۔یاپھر کچھ جتا رہا تھا۔بلکہ بہت کچھ جتا رہا تھا۔ماہ نور نے نا سمجھی سے دیکھا۔
کیا۔۔۔؟
فون۔۔۔فون نمبر ہے؟ڈیش بورڈ پہ پڑے فون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔اور سر اثبات میں ہلا دیا۔جی! ہے۔۔۔
کوئی بھی مسلہ ہو۔یا پھر کچھ چاہئے ہو۔تو مجھے کال کر دینا۔۔۔گاڑی کا رُخ گھر کی جانب موڑتے اس نے کہا۔تو ماہ نور نے ذرا گلا کھنکارا۔
ایک بات پوچھوں؟
پوچھو۔۔۔
کیا آپ سے مریم آپی نے کچھ کہا ہے۔لیکن میں نے اُنہیں کچھ نہیں کہا۔
کیا وہ غصہ ہوئیں۔پر وہ کیوں ہوں گیں۔ایک سوال دوسرا جواب۔۔۔
کیا تم ہمیشہ سے ایسے بولتی ہو۔
کیا مطلب؟
کچھ نہیں۔۔۔مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا۔اور ہاں۔دادی تم سے ملنا چاہ رہی تھیں۔اس لئے میں نے پوچھا تھا۔بغیر کسی لگی پلٹی کے اس نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔تو ماہ نور نے اسے ایسے دیکھا۔جیسے کہہ رہی ہو۔ہاں جانتی ہوں۔تم کہاں اتنے سگھے میرے۔وہ خاموش ہی رہی۔اسے ویسے بھی ذریت سے کوئی اُمید نہیں تھی۔شادی سے پہلے کا امپریشن وہ اتنا بُرا بنا چکا تھا۔کہ وہ اس سے اُمیدیں کم ہی لگا تی تھی۔مریم آپی اسے کال پہ اکثر سمجھاتی رہتی تھیں۔مگر وہ بس سُن کر خاموش ہی رہتی۔اُس کا خیال تھا۔کہ اگر اُن کا بھائی اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا۔تو اسے بھی کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ناک کا مسلہ تو ہمیشہ سے ہی تھا۔
اس کے گھر کے سامنے آ کر اُس نے گاڑی روکی ۔تو وہ خاموشی سے سیٹ بیلٹ ہٹاتی،دروازہ کھولتی باہر آ گئی۔اس نے کچھ کہانہ ماہ نور نے۔
::::::::::::
لاہور آنے کے بعد پھوپھو نے گھر بابا کو فون کر کے سب بتا دیا۔
اُنہوں نے یہ کہا۔کہ وہ فرح کو اپنے ساتھ لے آئی ہیں۔اور جب تک وہ چاہیں گیں۔فرح ان کے پاس ہی رہے گی۔اور اگر فرح کا دل چاہا تو وہ اسے لاہور بھیجوا دیں گی۔مختصر کال میں اپنے بھائی کو اُنہوں نے وہ سب سمجھا دیا تھا۔جو حقیقت رکھتا تھا۔اور جس وقت اُنہوں نے کال بند کی۔فرح ہوسٹل کا گیٹ پار کر چکی تھی۔صبح ہی صبح اسے ہوسٹل کے سٹنگ میں دیکھ کر وارڈن تھوڑی حیران ہوئی ۔لیکن پھر پھو پھو کو ساتھ دیکھ کر اس کے لئے کمرہ کھولوا دیا۔
تم پریشان مت ہونا۔میں تمہیں کال کرتی رہوں گی۔اور ہاں جب تک معملہ حل نہیں ہو جاتا تم یہیں رہنا۔اُن کا انداز سمجھانے والا تھا۔وہ خاموشی سے کپڑوں والا بیگ تھامے کھڑی فرش کو دیکھتی رہی۔
کچھ کہو گی نہیں۔اسے مسلسل خاموش دیکھ کر اُنہوں نے پوچھا۔تو اس نے سوال کرتی نظروں سے اُنہیں دیکھا تھا۔
مجھے ادھر کب تک رہنا پڑے گا۔اس کی آواز میں ہلکی کپکپی تھی۔پھوپھو نے غور سے اسے دیکھا۔جب تک کاشف اپنی غلطی نہ مان لے۔
کیا یہ ضروری ہے؟
ہاں۔۔۔میرے لئے تمہارا کردار بہت اہم ہے۔
اس نے خاموشی سے اُنہیں دیکھا۔اور پھر سر جُھکاتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
سُنو۔۔۔وہ ابھی راہداری پار بھی نہیں کر پائی تھی۔جب اُن کی آواز پہ رکی ۔اور اترے چہرے کے ساتھ مُڑ کر اُنہیں دیکھا۔
جی؟
یہ موبائل رکھ لو۔ایک ہاتھ میں پکڑے سیاہ چمکتی سکرین والے موبائل کو اس کی جانب بڑھاتے اُنہوں نے کہا۔تو اس نے سر نفی میں ہلا دیا۔
سارا فساد ہی اس موبائل کا ہے۔
فساد اس کا نہیں اُن شیطانی ذہنوں کا ہے۔جو ہمارے ارد گِرد موجود ہیں۔اور اب خاموشی سے اسے اپنے پا س رکھو۔میں فون کروں گی۔ان کی تاکید یا حُکم جو بھی تھا۔پہ اس نے سر ہلا کر موبائل تھام لیا تھا۔
زندگی میں شائد اس نے اتنا بڑا قدم اُٹھانے کا کبھی سوچا ہوتا۔جو اس بار اس نے اُٹھا لیا تھا۔۔۔وہ سمجھ رہی تھی۔اس نے یہ فیصلہ محض پھوپھو کے دباؤ کی وجہ سے نہیں کیا تھا۔وہ اس لمحے خود غرض ہو گئی تھی۔اسے ایسے انسان کے ساتھ بالکل نہیں بندھنا تھا۔جس کا کردار غیر یقینی سا تھا۔اور جس کی وجہ سے وہ بھرے خاندان کے سامنے روسوا ہوئی۔
والدین جب بے اعتباری کی دیوار کو اپنے اور اپنے بچو ں کے درمیان حائل کر لیتے ہیں تب ایسے ہی ہو تا ہے۔
ایک طرف ماہ نور تھی۔جس کے بابا کے ا عتبار نے اسے ڈھارس دئے رکھی۔تو وہ ذریت جیسے سخت دل انسان کے ساتھ چل پڑی۔جبکہ۔۔۔
جبکہ دوسری طرف فرح خان تھی۔جس کے ایک رشتے نے بھی اسے ا عتبار نہیں دیا۔اس کو گھر سے بے گھر ہونا پڑا۔
اس نے ہوسٹل میں آنے کے بعد پھوپھو سے اجازت لے کر ایک پرأویٹ سکول میں نوکری شروع کر دی۔سکول دس منٹ کی پیدل مسافت پہ ہی واقع تھا۔اور ہوسٹال کی وارڈن کی جاننے والی کا تھا۔یہ اس کی زندگی کا ایک نیا باب تھا۔اور اس نئے باب میں ابھی ماہ نور اور ابرار ابتسام کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
:::::::::::
یہ آذر کی والدہ سے ملنے کے ٹھیک دو دن بعد کی بات ہے۔
صبح کا روشن دن اپنا آغاز کیا چاہتا تھا۔وہ ابھی وہیں اپنے بھائیوں کے پاس تھی۔اور ابھی کچھ دن مزید رُکنے کا سوچے بیٹھی تھی۔جب وہ آ گیا۔
ماہ نور نے چائے پینے کے بعد کپ خاموشی سے دھویا۔اور اپنے کمرے میں آ گئی۔بابر بھائی اور ابرار بھائی دونوں آفس جا چکے تھے۔
کمرے میں گندگی نام کو نہ تھی۔ہر ایک چیز ایک ترتیب کے ساتھ سنوری ہوئی تھی۔وہ دروازے میں کھڑی کچھ دیر کچھ سوچتی رہی اور پھر واپس وہیں مُڑ کر ابرار کے کمرے میں آ گئی۔
بیڈکور بے شکن تھا۔بلینکٹ ویسے کا ویسا تیہہ لگا پڑا تھا۔ مطلب وہ سوئے نہ تھے ۔جوتوں کے سٹینڈ پہ موجود ترتیب سے جوتے دھرے تھے۔اور کمرے کی ہر چیز ایک ترتیب لئے ہوئے تھی۔ایک سوائے اس میز کے جس پہ بہت سے کاغذات بکھرے اپنی حالت پہ رو رہے تھے۔
وہ آگے بڑھ کر انہیں اکٹھا کر نے لگی۔
کاغذات کو ایک ترتیب سے رکھ کر اس نے اُنہیں ایک فائل میں سیٹ کیا۔اور پھر وہیں میز کی دراز کھول کر اندر فائل رکھنے لگی۔ابھی فائل رکھ کر وہ دراز بند کرنے ہی والی تھی۔جب سامنے پڑی چمکتی سکرین کو دیکھ کر ہاتھ وہیں تھم گیا۔
وہ موبائل فرح کا تھا۔
لیکن یہ ابرار بھائی کے پاس کیا کر رہا ہے۔اس نے موبائل باہر نکال لیا۔اور سائڈ کے بٹن سے آن کیا۔موبائل کی سکرین پہ کمپنی کا لوگو گھومنے لگا۔اور فون وائبریٹ ہوا۔
چمکتی صاف سکرین کو دیکھ کر اس نے چند لمحے ہونٹ کا ٹتے ہوئے سوچنے میں لگائے اور پھر موبائل کو آگے پیچھے انگلی پھیر کر کچھ دیکھنے لگی۔تبھی بہت مدھم سی دروازے کی دستک پہ اس نے چونک کر سر اُٹھا کر سامنے دیکھا۔ایش گرے پنٹ کوٹ میں بائیں ہاتھ کو پنٹ کی جیب میں ڈالے۔دائیں ہاتھ کو دروازے پہ رکھے۔وہ سنجیدہ سا کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ماہ نورکو اسے وہاں دیکھ کر حیرت ہوئی ۔جس کا بر ملا اظہار کرنے میں اس نے آر محسوس نہیں کی تھی۔
آپ یہاں۔۔۔؟
ہاں۔۔۔وہ ۔
کیا تم بزی ہو؟ذرا سا اُلجھ کر ا س نے پہلے سوال کا جواب دئے بغیر اگلا سوال کیا۔تو وہ اسے ایک نظر دیکھ کر آگے بڑ ھی اور موبائل آف کر کے اس کی جگہ پہ رکھ دیا۔
خیر گھر میں انسان کیا کر سکتا۔عجیب جواب۔
آپ کھڑے کیوں ہیں۔آئیں باہر لاؤنج میں چلتے ہیں۔کیا آپ چائے پئیں گے؟اسے اس کا اس طرح سے آ جانا عجیب سا لگ رہا تھا۔
کیوں کیا آپ مجھ سے خوفزدہ ہیں؟لاؤنج کی جانب اُترتی سیڑھیوں سے اترتے اس نے مسکرائے بغیر پوچھا۔تو ساتھ چلتی ماہ نور خاموشی سے اسے دیکھا۔
مجال ہے۔جو یہ بند ہ سیدھے سے کسی بات کا جواب دے دے۔اس نے محض سوچا۔
جی نہیں میں کیوں آپ سے ڈروں گی۔آپ ادھر آئیں ہیں ۔تو یقیناًکام سے ہی آئے ہوں گے۔
کام ۔۔۔کام تو ہے۔خیر۔تم چائے کا پوچھ رہی تھی۔لاؤنج میں بیٹھتے اس نے موبائل کو کوٹ کی جیب سے نکلاتے ابرو اُٹھا کر پوچھا۔تو وہ حیرت چھُپاتی کیچن میں آ گئی۔
کیا ۔۔۔یہ کسی کے گھر جانے کا کوئی وقت ہے۔پین میں پتی ڈالتے کا انداز اُلجھن لئے ہوئے تھا۔
سر جھٹک کر اس نے چائے بنائی اور ساتھ میں کچھ اور چیزیں رکھ کر ٹرالی گھسیٹتی باہر آ گئی۔
وہ متوتر فون پہ مصروف تھا۔ماہ نور نے ایک نظر اسے دیکھا۔اور چائے کا کپ میز پہ رکھا۔ایسے کے رکھتے کپ کی آواز سُنائی دے۔
ذریت البتہ تب بھی متوجہ نہیں ہوا تھا۔
شوخے ناں ہوں تو۔منہ بنایا۔
کچھ لمحے خاموشی سے سرکے۔مگر وہ صاحب بہادر فون پہ متواتر مصروف تھے۔اور ان کے ٹائپ کرنے کی آواز اس وقت ماہ نور کے عصا ب پہ بار ڈال رہی تھی۔
کیا یہ ٹک ٹک آپ دس منٹ بعد نہیں کر سکتے۔بہت غیر ایرادی طور پہ اس نے اس کے ہاتھ سے موبائل پکڑا۔اور سامنے میز پہ رکھ دیا۔ذریت تو دیکھ کر رہ گیا۔مگر وہاں پروا کسے تھی۔
میں ایک اہم بات کر رہا تھا ۔
کس سے؟ابرو اُٹھا کر پوچھا۔
ہاآں۔اسے لگا۔اسے سُننے میں غلطی ہوئی ہے۔
میں نے پوچھا کس سے بات کر رہے ہیں۔اور آپ کو معلوم تو ہوگا ہی۔کہ آدابِ مہمانی کیا ہوتے ہیں۔دوپٹے کو نماز کی طرح لئے۔وہ مکمل عتماد سے ،سنجیدگی لئے ہو اُستانی جی لگ رہی تھی۔ذریت نے خاموشی سے چائے کا کپ اُٹھا لیا۔
میں اپنے سیکٹری سے بات کر رہا تھا۔اس نے اس کا نداز دیکھ کر ذرا گلا کھنکار کر کہا۔تو وہ کچھ اور سیدھی ہوئی۔
لڑکی ہے یا آدمی؟اگلا سوال اسے ذرا دلچسپ لگا۔ہاتھ میں پکڑا کپ سامنے کی میز پہ رکھااور ذرا گھوٹنوں پہ جُھکا۔
کیوں؟کوئی پرا بلم ہے کیا؟
سوال کا جواب سیدھے سے دیا کریں۔جوپوچھا وہ بتائیں۔پورا بیویوں والا انداز تھا۔
تم نے کچھ روز قبل خود ہی تو کہا تھا۔کہ تمہیں سیدھی باتیں سمجھ نہیں آتیں۔
میرا وہ مطلب نہیں تھا۔وہ جھنجھلا گئی۔وہ جانبھوج کر بات کو طول دے رہا تھا۔
اچھا۔۔۔پھر کیا مطلب تھا۔؟
خیر ہم ایک بے کار بات کو لے کر اُلجھ رہے ہیں۔آپ کس لئے آئیں ہیں۔؟کام کا سلسلہ بتائیں۔وہ ضرورت سے زیادہ یا تو سمارٹ بن رہی تھی۔یا پھر اوور کنفیڈنٹ۔ذریت نے نچلا ہونٹ دانت کے نیچے دبا کر ذرا گلا کھنکارا اور پھر اس کا جھولی میں دھر اہاتھ پکڑا لیا۔وہ اس کے لئے تیار نہیں تھی۔گڑبڑا گئی۔
کیا تم میرے ساتھ گھر چلو گی؟
ک۔۔۔کس۔کس لئے؟گلا شک ہوا۔سار ا عتماد ہوا ہوا تھا۔ذریت کو ہنسی آئی۔مگر بظاہر سنجیدہ تھا۔
کیا تم ساری زندگی یہیں رہو گی۔اس کے لہجے سے بالکل بھی چُلبلا پن نہیں جھلک رہا تھا۔ماہ نور کادل ڈگمگایا۔
کیا تم ڈر رہی ہو؟اس کی جُھکی نگاہ دیکھ کر اندر جھانکنے کی کوشش کرتے اس نے پوچھا۔تو ماہ نور کی پیشانی عرق آلود ہو گئی۔اور ماتھے پہ ناگواری کے بل بھی پڑے۔
ڈر۔۔۔ڈر کس بات کا۔اور کام نہیں بتایا آپ نے۔وہ اب پھر سے بظاہر اپنا عتماد بہال کر چکی تھی۔
بتایا تو ! لینے آیا ہوں۔تیاری پکڑو۔
کس لئے۔
کس لئے کا کیا مطلب؟
مطلب یہ کہ جلدی احساس ہو گیا۔آپ کو میں بھی ہوں۔وہ چاہتی نہیں تھی۔مگر جو منہ سے نکلا وہ دل میں ضرور تھا۔مگر زبان سے غلط وقت پہ ادا ہو ا۔جس کا ندازہ اسے جلد ہی ہو گیا۔
مجھے دادی نے بھیجا ہے۔مریم آپی کے سسرال سے کچھ لوگ ملنے آ رہے ہیں۔اس کا ہا تھ چھوڑ کر مو بائل کو واپس اُٹھا تے مکمل سرد مہری سے کہا۔تو ماہ نور اپنا سامنہ لے کر رہ گئی۔
لانت ہو ماہ نور۔ذریت کے چہرے سے صاف لگ رہا تھا۔کہ اسے ماہ نور کی بات پسند نہیں آئی۔
لیکن۔میں نے ابھی بتایا نہیں بھائی کو کہ۔۔۔
میں جب بول رہا ہوں ۔تو تمہیں سمجھ جانا چاہئے۔اس کی بات کاٹ کر اس نے ذرا سختی سے کہا۔تو ماہ نور خا موشی سے اسے دیکھنے لگی۔
آپ بات نہیں سمجھ رہے۔گھر پہ کوئی بھی نہیں ہے۔آپ کے ساتھ میں چلی گئی تو۔۔۔
بات کو تم نہیں سمجھ رہی۔مسز ! میں روز روز آپ کے پیچھے بھاگا نہیں پھر سکتا۔ایک بار ہی بتا دو ۔آنا ہے یا نہیں۔دادی ہر روز مجھ سے پوچھتی ہیں۔میرا کام آسان ہو۔اس کے لہجے میں خشکی نمایاں تھی۔ماہ نور منہ بناتی اُٹھ گئی۔
اپنی بار کتنا بُرا لگتا ہے۔سوچ کراس نے اسے ایک آخری بار دیکھا۔اور اُٹھ کر اپنے کمرے کی جانب آ گئی۔اس کا ایرادہ بابر بھائی کو فو ن کے گھر بلانے کا تھا۔
:::::::::::
ہوسٹل کی زندگی میں انسان کو بہت سے تجربات ہوتے ہیں۔انسان ایک طرح کی ذاتی تعمیرات سے گُزرتا ہے۔انسان کو انسان کی خبر ہو جاتی ہے۔
فرح تمہیں وارڈن اپنے کمرے میں بلا رہی ہیں۔وہ سکول جانے کے لئے تیار۔ہوسٹل کے ڈائنگ میں ابھی آ کر بیٹھی ہی تھی۔جب رِدا نے آ کر اسے بتایا۔رِدا اس کے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں اپنی تین سہلیوں کے ساتھ رہ رہی تھی۔اور کافی اچھی تھی۔اپنی باقی سہلیوں کی نسبت۔فرح نے سُن کر سر ہلا یا۔اور ابھی جو بیٹھی تھی۔واپس اُٹھ کر وارڈن کے دفتر کی جانب آ گئی۔
وارڈن کے کمرے کے باہر رک کر اس نے باہر کھڑی وارڈن کی ذاتی ملازمہ کو دیکھا۔جو اسے اندر جانے سے روک رہی تھی۔
ابھی آپ اندر نہیں جا سکتیں۔اس نے روکا۔فرح نے ذرا حیرت سے اسے دیکھا۔
میڈم نے مجھے بلایا ہے۔اس نے دانت کچکچا کر کہا۔تو وہ دھیمے سے مسکرا دی۔تپا دینے والی مسکراہٹ ۔
میڈم ابھی مصروف ہیں۔دس منٹ بعد آ جانا۔۔۔
میں کہہ رہی ہوں۔میڈم نے بلایا ہے۔اور آپ۔۔۔
دیکھو۔۔ابھی میڈم کسی کے ساتھ مصروف ہیں۔اور اُنہوں نے ہی جانے سے منع کیا ہے۔فرح کو سکول سے پہلے ہی دیر ہو رہی تھی۔اور اس چکر میں وہ ناشتہ بھی نہیں کر پائی تھی۔اور اب ایک نیا ڈرامہ۔۔۔وہ گہرا سانس لے کر ویٹنگ روم میں آ گئی۔
ویٹنگ روم میں ہلکا ہیٹر چل رہا تھا۔اور ماحول کافی اچھا تھا۔اس نے گہرہ سانس لے کر دونوں ہاتھوں کو جرسی کی جیبوں میں ڈالا اور کرسی پہ بیٹھ کر خالی کمرے کو دیکھنے لگی۔
روم کی دیواروں پہ مختلف اقسام کی خوبصورت پینٹنگز لگائی تھیں۔چہرے۔۔۔روتے ،بگڑتے،مدد مانگتے۔
یہ میڈم سائقو ہے کیا؟منہ بنا کر سوچا۔اور سر جھٹک دیا۔عجیب و غریب تصویریں دیکھ کر کوئی بھی یہ سوچ سکتا تھا۔روتے بلکتے چہرے۔۔۔
ویسے میڈم کی دوست بھی کچھ عجیب سی ہے۔اور پتہ نہیں کونسی میٹنگز میں مصروف رہتی ہے۔جو سکول آنے کا بھی وقت نہیں ہوتا۔وہ اس وقت اپنے سکول کی ڈائریکٹر کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
اے۔۔۔
جاؤ میڈم بلا رہی ہیں۔وہی ملازمہ مسکراتی اب کھڑی کہہ رہی تھی۔فرح نے ایک نا گوار نظر اس پہ ڈالی اور اُٹھ گئی۔
ابھی کہہ رہی تھی۔کہ بعد میں آ نا۔اللہ پوچھے۔۔میرا وقت بر باد کر دیا۔
پہلے کیوں نہیں بتایا۔کہ میڈم نے کہہ کر بلایا تھا۔دروازے سے گُزرتے دل جلاتی مسکراہٹ کے ساتھ اسے کہتے سُنا تو وہ اسے گھور کر گُز گئی۔
وہ جا نبھوج کے ایسی حرکتیں کرتی تھی۔پتہ نہیں کیا تکلیف تھی اس میڈم کی چمچی کے ساتھ۔جانبھوج کے ہر لڑکی کی جاسوس کرتی۔اور خامخواہ ناک میں دم کئے رکھتی۔یہ سب پہلے نہیں تھا۔پچھلی وارڈن بہت اچھی تھی۔ملازمہ تب بھی یہی تھی۔لیکن تب اسے میڈم سیٹ رکھتی تھیں۔اب جب سے وارڈن بدلی تھی۔تب سے ہوسٹل کا ماحول بہت عجیب سا ہو گیا تھا۔ایک خشک اور سہمی سے فضا ہو گئی تھی۔پہلے تو اس نے محسوس نہیں کیا۔لیکن یہاں رہنے کے کچھ عرصے بعد جب اس نے جوب شروع کی۔تب سے اس نے ماحول میں بہت تبدیلی محسوس کی تھی۔
کمرے میں داخل ہونے سے پہلے اس نے دروازے پہ دھیمے سے دستک دی اور اجازت ملنے پہ اندر داخل ہو گئی۔
کمرے میں ایک چھوٹا ہیٹر چلتا ماحول کو پُر حدت کئے ہوئے تھے۔
کمرے میں ایش گرے رنگ قالین پہ کمرے کے وسط میں ایک درمیانے درجے کی شیشے کی میز تھی۔جس کے دوسری طرف میڈم کرسی پہ بیٹھی جھول رہی تھی۔اور مسکراتی اپنی کنپٹی پہ شہادت کی انگلی رکھے اسے دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔
اس نے میڈم کو دیکھ کر ان کے سامنے کی جانب صوفہ سیٹ میں درمیانے درجے کے صوفے پہ بیٹھے ان پچپن سالہ مر د کو دیکھا۔اور پھر واپس سوالیہ نظروں سے میڈم کو دیکھا۔
میم آپ نے بلایا؟
جی۔۔۔مجھے آپ کو کسی سے ملوانا ہے۔آئیں بیٹھیں۔
وہ خاموشی سے ان صاحب کے بائیں جانب کے سنگل صوفے پہ پُر تکلف انداز میں بیٹھ گئی۔
مسٹر ضیا۔۔۔یہ میرے ہاسٹل کی بہت قابل لڑکی ہیں۔ان کا تعلق خان فیملی سے ہے۔یہ پہلے دو سال یہیں رہی ہیں۔میڈم اس کا تعارف دے رہی تھیں۔اور وہ نا سمجھی سے اُنہیں اور کبھی اُن صاحب کو ۔جو اس کی جانب مسکراتے دیکھ رہے تھے۔دیکھ رہی تھی۔اور معملہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔
مس فرح ۔۔۔وہ متوجہ ہی تھی۔
مسٹر ضیا۔۔۔جس سکول میں آپ پڑھاتی ہیں۔اس کے مالک ہیں۔میری دوست ان کے سکول کو ہی چلا رہی ہیں۔اس نے سمجھ کر سر ہلا دیا۔
اور ملک کی جانی مانی کمپنی کے مالک بھی ہیں۔اس کے علاوہ ادھر شہر میں ان کے بہت سے پلازاز بھی ہیں۔وہ اس سب کے مطلب سے نا واقف بس خاموشی سے اُنہیں دیکھتی رہی۔اور سر ہلاتی رہی۔اب بھلا وہ کیا کہتی۔
آپ سے ایک کام ہے۔آخر وہ مطلب کی بات پہ آئیں۔
آپ گورنمنٹ کالج فار ومن کی طالبِ علم رہ چکی ہیں ناں؟مسکرا کر پوچھا۔فرح نے نا سمجھی سے اُنہیں دیکھ کر سر اثبات میں ہلایا۔جی ۔۔۔
مس فر ح۔۔۔اب کی بار وہ صاحب بولے تھے۔فرح نے براہِ راست اُنہیں دیکھا۔
آپ کو میرے لئے کا م کر نا ہے۔مسکرا کر کہا گیا۔
کام۔۔۔کس قسم کا کام؟
آپ کو گورنمنٹ کالج میں دوبارہ ایڈمیشن لینا ہو گا۔وہ درخواست نہیں کر رہے تھے۔بلکہ حُکم دے رہے تھے۔اس کے ابرو تنے۔
کس لئے؟لہجہ خُشک ہوا۔
آپ اگر آرام سے میری بات سُنیں تو میں اپنی بات کہوں گا۔آپ جیسی خوبصورت لڑکی پہ غصہ جچتا نہیں ہے۔مسٹر ضیا شکل سے جتنے معزز نظر آ رہے تھے۔بات کرتے اندازہ ہو رہا تھا۔کہ کتنے پانی میں ہیں۔وہ ذرا گھبرائی۔
بات اصل میں یہ ہے۔مس۔۔۔کہ آپ کو کچھ پیکٹس اندر کالج میں لے جا کر کچھ لڑکیوں میں تقسیم کرنے ہیں۔مسکرا کر کہی گئی بات نے فرح خان کے دماغ کو زور کا جھٹکا دیا تھا۔کہ وہ کچھ بول بھی نہ پائی ۔بس نا سمجھی سے میڈم کو اور کبھی ان صاحب کو دیکھتی۔
آپ کو گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔آپ کا کام مشکل نہیں ہے۔بس عصاب کو کنٹرول میں رکھیں۔اور اعتماد سے اندر جا کر لڑکیوں میں بانٹ دیا کریں۔ایڈمیشن لینے سے آپ کا کام آسان ہو جائے گا۔ان صاحب کے دماغ پہ یقیناًاثر ہو چکا تھا۔کم از کم اسے تو یہی لگا۔وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔کام کی نوئیت وہ سمجھ گئی تھی۔اور مذید ادھر بیٹھنا اس کی توہین تھی۔
کام اتنا آسان ہے۔تو آپ اپنی بیٹی سے کیوں نہیں کہہ دیتے۔ابرو اُٹھا کر کمال ضبط سے اس نے کہاتھا۔ضیا صاحب تحمل سے مسکراتے رہے۔وہ رعب سے چلتی باہر آ گئی۔البتہ اندر کیا حالت تھی۔یہ اس کے اور اللہ کے سوا اور کون جان سکتا تھا۔
اس روز وہ سکول نہیں گئی۔بس کمرے میں آ گئی۔۔۔اور خاموشی سے بیڈ پہ لیٹ کر بلنکٹ لے لیا۔وہ خاصی گھبرا گئی تھی۔یہ با ت اتنی معمولی نہیں تھی۔سوچتے سوچتے وہ سو گئی۔اور پھر تقریباً رات آٹھ بجے کھانے سے چند منٹ پہلے اس کی آ نکھ کھولی تھی۔
پیٹ میں چوہے ناچ رہے تھے۔وہ منہ دھو کر کمرے سے باہر ڈائنگ حال میں آ گئی۔جہاں بہت سی لڑکیاں باتوں میں مصروف تھیں۔
::::::::::::::::
تمام برتن اکٹھے کر کے اس نے سنک میں رکھے۔اور ملازمہ کو دھونے کا کہہ کر خود بام اُٹھاتی دادی جان کے کمرے میں آ گئی۔ذریت گھر پہ موجود نہیں تھا۔وہ شام سے ہی غائب تھا۔اور اس کے نہ ہونے سے ماہ نور کافی پُر سکون تھی۔
بچے تم نے زحمت کی۔۔۔اس کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔تسبیح کرتے۔وہ محبت سے مسکرا کر کہتی ماہ نور کو بہت بھلی لگی تھیں۔وہ مسکرا کر آ گے بڑھی۔اور ان کے گھوٹنے کی مساج کرنے لگی۔
سردی میں گھٹنے کا درد دادی جان بہت جان لیوا ہوتا ہے۔اور آج ابھی بیڈ پہ بیٹھتے آپ کہہ رہی تھیں ناں کہ سردی میں اکثر ایسا ہو جاتا ہے۔تو میں سمجھ گئی۔کہ آپ کو جوڑوں کا مسئلہ ہے۔نرمی سے اور بہت پیار سے ان کے گھوٹنے کی مساج کرتے اس نے بہت بر دباری سے کہا۔تو دادی جان اسے دیکھتی رہ گئیں۔وہ کتنی سمجھدار اور سنجیدہ طبیعت کی مالک تھی۔
ماہ نور۔۔۔کچھ سوچ کر اُنہوں نے اسے پکارا تو وہ مساج کرتے اُنہیں دیکھنے لگی۔
جی؟
بیٹا تم ذریت کے ساتھ خوش تو ہو؟
وہ ان کے اس طرح پوچھے گئے سوال پہ ذرا چور ہوئی تھی۔
جی۔۔۔لیکن آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟اسے لگا وہ شائد جان گئی ہیں۔وہ اپنے آپ میں شرمندہ ہوئی۔
مجھے لگتا ہے۔جیسے تم ذریت سے کسی بات پہ ناراض ہو۔اس کے چلتے ہاتھ کو روک کر اُنہوں نے بہت نرمی سے پوچھا۔تو ما ہ نور گہرا سانس لیا۔
نہیں دادی جان ایسا کچھ نہیں ہے۔نظر جُھکا کر قالین کو دیکھتے اس نے کہا۔تو دادی جان نے بغور اسے دیکھا۔
دیکھو بیٹا۔اگر تمہیں اس سے یا مجھ سے کوئی بھی شکائت ہو ۔تو دل میں رکھنے کی بجائے کہہ کر دل صاف کر لینا۔مجھے اپنی بھی دادی سمجھو۔میں صرف اس نالائق کی دادی نہیں ہوں۔آخر میں مسکرائی تھیں وہ۔
آپ میرے شوہر کو نالائق بول رہی ہیں؟منہ بنا کر مصنوعی ناراضی دیکھا کر اس نے کہا۔تو وہ ہنس دیں۔
ہاں کہہ رہی ہوں۔آ لینے دو۔اس کے سامنے کہوں گی۔اور کان بھی پکڑوں گی۔
کان کس لئے؟
وہ اس لئے۔کہ وہ تمہیں کہیں گھومانے کیوں نہیں لے کر گیا؟
لیکن دادی جان اس کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔
ارے کیوں ضرورت نہیں ہے۔ابھی تو تم دونوں کے دن ہیں ۔گھومنے پھرنے،انجوائے کرنے کے۔اس کی مسکراہٹ نے انہیں بھی تازہ دم کر دیا تھا۔
ماہ نور مسکرا کر واپس مساج کر نے لگی۔
رہنے دیں۔ابھی نہیں پھر کسی اور دن۔ویسے بھی ۔آپ تو جانتی ہیں۔بابا کی ڈیتھ کے بعد ہر چیز بہت مشکل تھی میرے لئے۔آپ نے جیسے مجھے سنبھالا یہ میرے لئے آپ کا احسان ہے۔
یہ کہہ کر تم یہ جتا رہی ہو۔کہ میں تمہاری دادی نہیں ہوں۔۔۔اس کا اُداس ہونا ۔اُنہیں بالکل گوارہ نہ تھا۔وہ جو اُداس ہوئی تھی۔پھر سے مسکرا دی۔اور بڑھ کر ان کے گال پہ بوسہ لیا۔
آپ میری دادی ہیں۔صرف میری۔۔۔اس کے الفاظ ،شیریں لہجہ۔سب اندر آتے ذریت نے سُنا۔تو منہ بنایا۔دادی جان سے محبت کا دعویٰ تو ایک صرف کرنے کا حق تو اسے تھا۔اب ایک اور آ گئی تھی۔وہ بیڈ کی دوسری جانب سے ہوتا۔ان کے قریب بیٹھ گیا۔ماہ نور سیدھے ہوتے بام کا ڈھکن لگایا۔اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔
تم کہاں تھے۔سردی دیکھو کتنی ہو رہی ہے۔ان کے چہرے پہ نرمی اور فکر تھی۔وہ کوئی جواب دئے بغیر ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔
براؤن شرٹ میں بلیک جنز کے ساتھ بلیک ہی جیکٹ میں معمول سے ہٹ کر اچھا دکھ رہا تھا۔
آپ تو جانتی ہیں۔آپ کے پوتے کے کندھوں پہ کتنی ذمہ داری ہے۔پھر بھی ایسے سوال۔۔۔
ہاں۔۔۔مُلک کا نیا وزیرِ عظم میرا پوتا ہی تو بنا ہے۔دادی جان نے بھی خوب رکھ کر نشانہ لگایا تھا۔
خیر دادی جان اس مُلک کا سر مایہ ہم سر مایہ داروں ہی کی وجہ سے چل رہا ہے۔وزیرِ عظم نہ بھی ہوں ۔تو بھی اپنے حصے کا کام تو کر رہے ہیں ناں۔۔۔
جی جی۔۔۔جب آپ کے محلوں میں صفائی و ستھرائی ہو گی۔بیٹا اس دن میں مانوں گی۔تم جیسوں نے کتنا اپنا فرض نبھایا۔ہمارے مُلک کا ایک مسئلہ گندگی بھی ہے۔وہ تسبیح رکھ چکی تھیں۔اور اب اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے بہت نرمی سے کہہ رہی تھیں۔وہ جو آنکھیں بند کئے لیٹا تھا۔مسکرا دیا۔
لگتا ہے۔آج کل آپ خبریں سُن رہی ہیں۔
نہیں۔۔۔ماہ نور اخبار سُناتی رہتی ہے۔
اچھا۔۔۔
ذریت مجھے ایک بات تو بتاؤ۔
دادی جان آپ مجھ سے پوچھ کر تو پہلے کوئی سوال نہیں کرتی تھیں۔خیریت۔۔۔آنکھیں کھول کر اُنہیں دیکھا۔
نالایق۔۔۔بات سُنو چُپ کر کے۔
جی جی۔۔۔
تم اپنی بیوی کو کہیں گھومانے کیوں نہیں لے جاتے۔
ابھی تو وہ اپنے میکے سے آئی ہے۔منہ بنایا۔
بکو مت۔۔۔۔میکے جانے سے کیا اؤٹنگ ہو گئی۔جاؤ اسے لے کے جاؤ۔
لیکن ابھی تو آپ کہہ رہی تھیں۔کہ باہر سر دی ہو رہی ہے۔ہر بات کاجواب اس کے پا س تیار تھا۔
ذریت حسن باتیں مت گھڑو۔اور اُٹھو۔آج سارا دن اس نے بہت کام کیا ہے۔جاؤ گھوما کر لاؤ۔اور ہاں اس کو شاپنگ بھی کر وا دینا۔دادی جان کا ہر انداز نرالہ تھا۔
یہ آپ کی بہو نے تو نہیں کہا۔اسے جیسے اُمید ہوئی۔
اگر وہ کہتی ۔تو میرے بجائے تمہیں خود کہتی۔بیکار میں باتیں مت گھڑو۔اور چلو اب اُٹھو۔۔۔کہنے کے ساتھ اسے کندھے سے اُٹھا بھی رہی تھیں۔وہ سیدھا ہو گیا۔
واحد ساس دیکھی ہے۔جو بیٹے کو خود کہہ رہی ہے۔کہ جاؤ بہو کو شاپنگ کر وا کر لاؤ۔چکر کیا ہے؟
کہیں وہ آپ کو ڈراتی تو نہیں۔۔۔کوئی دھمکی۔ایسا کوئی چکر۔؟
بکو مت۔۔۔اُنہیں ہنسی آ ئی تھی۔ڈرامے اس نسل کو تباہ کر رہے ہیں۔
:::::::::
سُنو۔۔۔تیار ہو جاؤ۔کیچن میں آ کر میز سے کٹی گاجر کا ٹکڑا اُٹھا کر منہ میں رکھتے۔برنر پہ پین رکھتی ماہ نور سے کہا۔تو اس نے رُخ موڑے بغیر وجہ معلوم کی۔
کیوں؟
ہم گھومنے جا رہے ہیں۔
کہاں؟وہ حیرت سے سیدھی ہوئی۔ذریت نے اب کی بار کھیرا اُٹھا کر منہ میں رکھا۔اور شانے اُچکا دئے۔
جہاں سیل لگی۔
جی؟
کچھ نہیں۔۔۔چائے باہر سے ہی پی لینا۔میں باہر ہوں۔دو منٹ میں آؤ۔وہ اکثر ایسی بات کرتا تھا۔جس کی سمجھ اسے کم ہی آتی تھی۔جیسے ابھی سیل والی بات پہ نہیں آئی۔وہ اسے جاتا دیکھ کر خود بھی بر نر بند کر کے باہر آ گئی۔
دادی جان نے کہا ہو گا۔کچھ دیر پہلے ان کے آڈرز وہ سُن چکی تھی۔تبھی سوچ کر سر ہلاتی چادر لینے چلی گئی۔
::::::::::::::::
اس نے ابھی روٹی کا پہلا نوالہ منہ میں ڈال کر نیچے بھی نہ کیا تھا۔جب ایک بار پھر سے میڈم کے دفتر میں شنوائی ہوئی۔وہی میڈم کی نک چڑی ملازمہ نے بہت لہکتے ہوئے پیغام دیا۔تو بہت سی لڑکیوں نے کھانے سے ہاتھ روک کراس کی جانب دیکھا تھا۔ان سب کی نگاہوں میں کوئی تاثر تھا۔جو اس کی سمجھ سے بالا تر تھا۔وہ خاموشی سے کرسی گھسیٹتی اُٹھ گئی۔البتہ اندر سے ایک طوفان تھا۔جو ٹھاٹھے مار رہا تھا۔
میڈم کو آج کل تم سے بہت خاص اُنسیت ہو رہی ہے۔ساتھ بیٹھی زری نے کہا۔تو و ہ بمشکل تمام مسکرائی تھی۔البتہ مسکراہٹ میں بہت مصنوعی پن تھا۔
کمرے میں داخل ہونے سے پہلے اس نے رُک کر اور سوچتے ہوئے جھجک کر دستک دی اور قدرِ توقف کے بعد قدم اندر رکھے۔
میڈم آج اپنے کمرے کی جانب نہیں گئی تھیں۔اس وقت وہ لڑکیوں کے ساتھ ہی ٹیبل پہ کھانا کھاتی تھیں۔اور پھر چہل قدمی کے لئے باہر جاتیں۔
جی میڈم؟
اگر چہ بلانے کی وجہ معلوم تھی۔تبھی لہجے کی بے زاری کو اس نے چھوپانے کی ہر گز کوشش نہیں کی تھی۔
آؤ۔۔۔آؤ رک کیوں گئی۔وہ بڑی انہماک سے اخبار کی ورق گردانی میں مشغول تھیں ۔اس کے آنے پہ اخبار تیہہ کرتے رک کر اور بڑی لگاوٹ والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ان کی بات ماننا اس کی مجبوری تھا۔
وہ خاموشی سے آگے بڑھی اور صوفے پہ پُر تکلف انداز میں بیٹھ گئی۔
صبح جو تم سے بات ہوئی۔تم نے اس کے بارے میں کیا سوچا؟ان کی نظریں اس کے چہرے کے ایک ایک تاثر کو بڑی باریکی سے پڑھ رہی تھیں۔اس نے ایک سرد اور بھر پور نگاہ سے اُنہیں دیکھا۔اور چہرہ اس درجے جُھکا لیا۔کہ وہ اس کے تاثرات نہ دیکھ سکیں۔
کیا میں نے کہاتھا ۔کہ میں سوچوں گی؟بہت سرد انداز تھا۔
مگر پھر بھی ہم نے وقت دیا۔وہ بے اختیا ر کہنے لگیں۔
ٹھیک ہے ۔میں نے سوچاہے میڈم !اورمیری طرف سے انکار۔۔۔ آپ کو یہ مجھ سے کیوں اُمید ہوئی۔کہ میں اس گھٹیا کام میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں؟حا لا نکہ میں نے سوچا ہے کہ میں آپ کی شکائت کروں گی۔اس کے لہجے میں محسوس کیا جانے والا ایک سخت تاثر تھا۔
مجھے یقین ہے کہ تم جتنی شکل سے ذمہ دار اور سمجھ دار ہو ۔اتنی عملی طور پہ بھی ہو گی۔اور کوئی ایسا کام نہیں کرو گی۔جس سے تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو نقصان پہنچے۔
میڈم مسکرا دیں۔
اور ویسے بھی۔۔۔
ایک کمزور اور بے معنی سی لڑکی۔۔۔کیا خیال ہے ہمیں کوئی نقصان پیہنچا سکتی ہے۔جس کی اپنی جڑیں کمزورہوں۔ان کے چہرے پہ بے فکری کی مسکراہٹ تھی۔فرح نے ایک نظر اُنہیں دیکھا۔اور ہونٹ کاٹتی نظر واپس جُھکا گئی۔اسے لگا تھا اگر اس نے انکار کر دیا ہے۔تو اس سے دوبارہ نہیں پوچھا جائے گا۔
بات صرف اتنی ہے۔کہ ہم جس سے کام لیتے ہیں اس کے اندر تک کو جھانک لیتے ہیں۔ہمارے ساتھ کام کرنے والی ایک ایک لڑکی کی سانس کی مہک تک ہماری رسائی ہے۔اور تم جیسی بے گھر لڑکیاں ویسے بھی ضیا صاحب کو بہت پسند ہیں۔تمہارے بارے میں تھوڑی سی جانچ پڑتال نے ہمیں ہمارے مطلب کی چیز سمجھا دی اور بس۔وہ مسکرائیں اور فرح کو پہلی بار احساس ہوا کہ وہ اکیلی ہے۔پھوپھو اسے پندہ روز قبل ادھر چھوڑ کر گئی تھیں۔اور اس کے بعد ان کا فون پہ اس کے ساتھ مسلسل رابطہ تھا۔اور اب جو معملہ درپیش تھا۔اس کے بعد اس کا دل چاہ رہا تھا۔کہ گھر واپس لوٹ جائے۔۔۔
لیکن ۔۔۔۔
لیکن کس منہ کے ساتھ۔
میڈم آپ مجھے کسی بھی وجہ سے بلیک میل نہیں کریں گی۔یہ میں بخوبی جانتی ہوں۔میرے گھر والے بھی زندہ ہیں۔یہ بھی آپ کو معلوم ہوگا۔اور یہ پتہ ہو گا ۔کہ میں ایک با شعور باہمت لڑکی ہوں۔۔۔
آپ کی یہی بات مسٹر ضیا کہتے ہیں اُنہیں اپیل کرتی ہے۔ بھئی اب ہم تو نہیں جانتے ان پہ آپ کی کس بات کا اثر ہوا ہے۔بہرحال ہمیں اس سے کیا۔ان کی مسکراہٹ بڑی ربوٹک سی تھی۔فرح نے گہرہ سانس لیا۔اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔
میڈم۔۔۔میرا اس سب سے کوئی تعلق نہیں۔میں ایک عام سی ڈری رہنے والی معمولی سی لڑکی ہوں۔مجھے مجبور مت کریں کہ میں پولیس میں آپ کی کمپلین کر دوں۔میں یہاں مذید کچھ روز رہ لوں چلی جاؤں گی۔براہِ مہربانی مجھے تنگ نہ کیا جائے۔
کیا وہ کسی فلم کا یا نا ول کا کردار تھی۔جو وہ اس قسم کی بات کہہ رہی تھی۔یا پھر گھر والوں کی بے عتباری کے بعد اسے لگ رہا تھا ۔کہ زندگی کا مقصد محض دوسروں کی نظروں میں اچھے نمبر لے کر پاس رہنا ہی ہے۔جو اس قدر خطر ناک لوگوں کے پردہ فاش ہوجانے پہ بھی کوئی خاص تاثرنہیں دے رہی تھی۔یا۔۔
یا پھر دینا نہیں چاہتی تھی۔
معصومیت کا دعویٰ بھی اور بتائے دینے کی دھمکی بھی۔ابرو اُٹھا کر دل جلاتی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
میں دھمکی نہیں دے رہی۔بتا رہی ہوں۔اور اگر آپ مجھے مزید تنگ کریں گیں۔تو عین ممکن ہے ۔کہ میں ادھر سے چلی جاؤں۔اللہ حافظ۔۔۔کہہ کر بلکہ جتا کر وہ وہاں رُکی تھوڑا تھی۔اسے لگا اس کا کام ختم ہو چکا۔
اور ہاں جانے سے پہلے آخری بات۔۔۔میرے بارے میں آپ کے ہاتھ ایسا کچھ نہیں آئے گا۔جس سے آپ مجھے بلیک میل کریں۔کمال جرت سے مُڑ کر اس نے جتاتے ہوئے کہا۔اور پھر دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔
میڈم نے مسکرا کر کریڈل پہ دھرا رسیور اُٹھایا اور کوئی نمبر پُھرتی سے دبا کر رسیور کان سے لگایا۔
السلامُ علیکم ۔۔۔
جی جی آپ ہی کا کام کر نے بیٹھی تھی۔
بس اتھری گھوڑی کی طرح کود رہی ہے ابھی تو۔لہجے میں بلا کی نرمی مگر الفاظ میں بلا کی چکنائیت اور مسکراہٹ کی آمیزیش تھی۔
سر کام جاری ہے۔اُمید ہے ۔کہ آپ کو شکائت نہیں ہو گی۔یک طرفہ گفتگو تھی۔سمجھ سے با لا تر۔
جی جی آپ بھروسہ رکھیئے آپ کو شکائت کا موقع نہیں ملے گا۔رسیور رکھنے سے پہلے چند اختتامیہ کلامات ادا کئے گئے اور فون رکھ دیا گیا۔اُنہوں نے گہرا سا نس لے کر بظاہر پر سکون مگر تنے ہوئے عصاب کو پُر سکون کرنے کی خاطر پُشت کرسی سے ٹکا کر سر بھی ٹکا لیا۔ان کی نظر چھت کی جانب جبکہ سوچ کہیں دور چھت کے پار اُفق سے اُبھرتے بادلوں کی پٹی کی مانند دوڑ رہے تھے۔
اس نے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کیا۔اور پھر تیزی سے فون اُٹھا کر پھوپھو کے گھر کا نمبر ملایا۔جسے ملازم نے اُٹھا یا تھا۔
بابا میری بات میڈم ذہرہ سے کروانا۔اس کی آواز میں بہت تیزی تھی۔یوں جیسے بات کرنے کی بہت جلدی ہو۔
بی بی تو میم باہر گئی ہیں سر کے ساتھ۔بابا اس کی آواز پہچانتے تھے۔وہ اکثر جب بھی بات کرنے کو فون کرتی ۔گھر کا ملازم ہی رسیور اُٹھا تاتھا۔اُنہوں نے شائد ابھی اپنا ذاتی فون نہیں لیا تھا۔کہ پیچھلا وہ اسے دے چکی تھیں۔
کب تک آئیں گیں ؟اسے سخت اُلجھن ہوئی۔
یہ تو جی مجھے نہیں پتہ۔عاجزی سے جواب ملا۔
اچھا۔چلیں جب آئیں میری کال کا بتا دیجئے گا۔اور پھر اس نے فون رکھ دیا۔کیا زندگی بن گئی تھی۔اس نے خالی خالی نظروں سے وائٹ واشڈ روم کو دیکھا۔جس کی جنوبی سمت کھڑکی کے دونوں پٹ بند تھے۔اور جس کیسامنے بھاری پردے پڑے قالین کو چھو رہے تھے۔اس نے فون سائڈ ٹیبل پہ رکھا۔اور چت لیٹ گئی۔فکر اور خوف اس وقت اس کے ساتھ تھا۔
::::::::::::
گھر واپس آنے کے بعد وہ بیڈ پہ لیٹی ایسی سوئی ۔کہ پھر ذریت کے کمرے میں آنے کا بھی علم نہ ہو سکا۔اس نے کمرے میں داخل ہو کر ہلکی روشنی میں بڑے سے لحاف میں دُبکے اس کے وجود کو دیکھا۔اور گہرا سانس لیتا ایک فائل لئے صوفے پہ بیٹھ گیا۔
سائڈ لمپ کی روشنی میں اس نے لمپ کے قریب پڑے سگریٹ پیک کو اُٹھایا اور پھر فائل سے نظر ہٹائے بغیر ایک سگریٹ نکال کر منہ میں رکھا اور لائٹر سے شعلہ دہکایا۔
ایک کش لے کراس نے ایک نظر پھر سے ماہ نور کو سوئے دیکھا۔اور پھر کچھ سوچ کر فائل وہی صوفے پہ پھینک کر کمرے سے نکل کر ٹیرس پہ آ گیا۔
ٹیرس کی چھت سے لگے بلب کی سفید روشنی میں اس کا سیاہ عکس بائیں جانب دیوار پہ پڑ رہا تھا۔اس نے موبائل فون جینز کی جیب سے نکالا اور چمکتی سکرین پہ انگلی پھیر کر ایک نمبر ڈائل کیا۔
ہم۔۔۔سلام کا جوا ب اس نے ہوں میں دیا تھا۔
اکمل اس وقت گہری نیند میں تھا جب اس کی کال آئی۔اب وہ دونوں بات کر رہے تھے۔جب گرم کمرے میں ٹیرس کے دروازے سے ہلکی ہوا کی ٹھنڈک نے کمرے میں لیٹی ماہ نور کو حوش کی دنیامیں لا پٹخا۔اس کا چہرہ لحاف سے باہر تھا۔تبھی ٹھنڈی ہوا میں پھیلے ذریت کے پر فیوم نے اسے جگا دیا تھا۔
اس نے مُندی مُندی آنکھوں سے باہر سے اندر آتی روشنی میں کمرے کے ماحول پہ ایک اچٹتی نگاہ ڈالی اور کسلمندی سے کروٹ بدلی۔
مجھے اس سے کوئی سرو کار نہیں ۔میری طرف سے وہ بھاڑ میں جائے۔اس کی آواز میں محسوس کی جانے والی سخت تھی۔ماہ نور نے دونوں آنکھیں وا کر کے اور ذرا سر اُٹھا کر آواز کی جانب دیکھا۔
میرا اس سے کوئی مطلب نہیں ہے۔تم جانتے ہو۔وہ اس کی قاتلہ ہے۔اور میرے لئے وہ ہمیشہ وہی تھی،ہے اور رہے گی۔اس کی آواز اب کی بار کچھ اور واضح اور کچھ اور سخت تھی۔ماہ نور اُٹھ کے بیٹھ گئی۔وہ کچھ اُلجھی اُلجھی نظر آتی تھی۔
اکمل میں نے اس سے کمیٹمنٹ اس لئے نہیں کی تھی۔کہ میں نے اس سے شادی کرنی تھی۔
تم جانتے ہو۔میرا مقصد کیا تھا۔اس کے لہجے میں غصہ تھا۔ماہ نور کو لگا اسے سُننے میں غلطی ہوئی ہے۔
میں تم سے مزید اس سب کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔میں سو رہا ہوں۔اس نے جھنجھلا کر فون بند کیا۔اور کمرے میں آ گیا۔اس نے مُڑنے سے پہلے ماہ نور کو سوتے دیکھا تھا۔
یہ پتہ نہیں کیا کھا کے سوتی ہے۔بڑ بڑا کر ا س نے اسے دیکھا تھا۔اس بات سے بالکل انجان کے وہ سُن بھی سکتی ہے۔ماہ نور کو بُرا تو کیا لگنا تھا۔اسے تو اس کے باہر بولے گئے الفاظ پہ حیرت تھی۔اگرچہ اسے زیادہ باتوں کی گہرائی میں جانا پسند نہیں تھا۔مگر اب یہاں معملہ کچھ اور تھا۔اور وہ اس لڑکی کے بارے میں سوچنے پہ مجبور تھی۔جس کے بارے میں وہ بات کر رہا تھا۔
کیا تم سو رہی ہو؟
خاموشی۔۔۔
کیا میں سمجھوں کے تم جاگ رہی ہو؟
خاموشی۔۔۔
اچھا تم تو سچ میں سو رہی ہو۔ماہ نور نے آنکھیں بند رکھیں تھیں۔اس کے وجود میں ذرا جمبش نہ ہوئی۔ذریت نے سائڈ لمپ آن کرتے اسے دیکھا۔اور پھر سر فائل پہ جُھکا لیا۔
تمہارے بھائی کی کال آئی تھی۔سوری بتانا بھول گیا تھا۔اس کی آواز ایک بار پھر سے فضامیں گونجی۔اور ساتھ ہی ماہ نور کا دل سُکڑ کے پھیلا۔
کا۔۔۔کیا کہہ رہے تھے وہ۔بہت غیر ایرادی طور پہ اس نے جھٹکے سے منہ سے بلینکٹ اُتا ر کر پوچھا تھا۔ذریت بہم سا مسکرایا۔مگر ظاہر نہیں کیا۔
بتائیں بھی۔۔۔اس کی خاموشی پہ وہ جھنجھلا گئی تھی۔بھائی کی بات پہ تو اس کا دل چاہا تھا۔کہ اُڑ کے ان کے پاس چلی جائے۔اگرچہ وہ کچھ دیر پہلے وہاں سے ہی آئی تھی۔مگر کیا تھا۔کہ دل اور کہیں لگنے کو ہی نہ آتا تھا۔
آپ تو سو نہیں رہی تھیں؟
اتنے شور میں تو مُردے اُٹھ بیٹھیں۔میں تو پھر ۔۔۔اس کی بات پہ اس نے بڑے پُرسکون انداز میں کہا۔تو ذریت نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا۔
خیر بھائی کیا کہہ رہے تھے۔؟وہ اب بھی وہیں تھی۔
پوچھ رہے تھے۔کہ تم کیسی ہو۔
بس؟
ہاں بس
مطلب اُنہوں نے اور کچھ نہیں کہا؟اسے یقین نہیں آیا۔
اور بھی کچھ کہنا تھا کیا؟
نہیں میرا مطلب ہے۔اُنہوں نے میرے آنے کا نہیں پوچھا۔اس کا دل تو تھا ابھی کہ مزید وہاں رُکتی مگر اب کیا کیا جاسکتا تھا۔
نہیں !ویسے بھی آپ کل ابھی وہاں سے آئی ہیں۔
تو؟
تو کچھ نہیں۔پھر چلے جانا۔فائل کا اگلا ورق پلٹتے اس نے اس کے بگڑ کر تو کہنے پہ بہم سا مسکرا کر کہا ۔تو جواب میں وہ خاموش ہی رہی تھی۔
تقریباً دس منٹ تک جب وہ کچھ نہ بولی ۔تو اسے لگا وہ سو گئی ہے۔
کیا تم میرے لئے چائے بنا سکتی ہو؟
ماہ نور بھائی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔چونک گئی۔
شرفاء اس وقت سو تے ہیں نہ کہ کسی کو چائے کا بول کے تنگ کریں۔جواب بڑا تڑخ کے دیا گیا تھا۔وہ ہونٹ دبا کے مسکرایا۔
میں کیا بندے کھاتا ہوں۔جو آپ میرا شمار شریفوں میں نہیں کرتیں۔کبھی آپ کبھی تم
مجھے کیا پتہ میں کونسا آپ کے ساتھ ہوتی ہوں۔کروٹ بدل کر ا س نے بھی جواب دینا عین ضروری سمجھا تھا۔نیند تو اُڑ چکی تھی۔اب تو بس بہانے تھے۔
جو دل کے بہت پاس ہوں۔ان کے لئے ضروری نہیں ہوتا کے ساتھ بھی ہوں۔بظاہر سر فائلوں سے اُلجھاتے اس نے ایک بے ضرر جملہ کہا تھا۔مگر وہ ماہ نور کو حیران کر گیا تھا۔اس نے بند آنکھیں پوری وا کردیں۔اور بالکل خاموش ہو گئی۔وہ اس وقت یہ سمجھنے سے قاصر تھی۔کہ آیاکہ جملہ اسی کی طرف اُچھالا گیا ہے۔یا پھر محض اس کی ذہنیت تھی۔
ذریت نے جواب میں خاموشی پا کر اسے مُڑ کر دیکھا تھا۔وہ خاموش تھی۔
تو کیا میں انکار سمجھوں؟
خاموشی۔۔۔
جواب تو دے دیں۔۔۔شائد بات کا تاثر ختم کرنے کا معمولی سا طریقہ کار تھا۔ویسے اس کی ضرورت کیا تھی؟
ٹھیک ہے بھئی مرضی آپ کی۔گہرا سانس لے کر اس نے بہت ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔اور پھر جُھک کر ہاتھ میں پکڑے پین سے دستخط کرنے لگا۔البتہ بڑی بے چینی سے ماہ نور کے پہلو بدلنے کو اس نے بڑی شدت سے محسوس کیا تھا۔
:::::::::::
دروازہ لاک کرنے سے پہلے اس نے جرسی کے اگلے بٹن بند کئے اور وہیں جرسی کی جیب سے چابی نکال کر بیڈ پہ پڑے بیگ کو کندھے پہ ڈالتی باہر آ گئی۔دروازہ لاک کر کے اس نے سکول کے لئے نکلنا تھا۔
صبح میں آج کافی دھند نظر آ رہی تھی۔ہر چیز سفیدی میں لپٹی سرد و منجمد۔اس نے گیٹ سے نکلتے ایک نظر مُڑ کر ہوسٹل کی بلڈنگ کو دیکھا۔اور ابھی قدم آگے بڑھائے ہی تھے۔جب وہیں گیٹ کے قریب بنے کمرے سے گارڈ باہر آیا تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک خاکی لفافہ تھا۔
لفظ میڈم پہ اس نے ابرو اُٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
یہ آپ کے لئے صبح کوئی موٹروالا دے کے گیا ہے۔میں نے دفتر میں دیا تھا۔پر میڈم نے کہا ۔کہ آپ کا شائد ضروری لفافہ اس لئے جب آپ سکول جانے لگو ۔تو آپ کو پکڑا دوں۔قد میں لمبا اور وزن میں خاصے بھاری گارڈ نے بڑی دل جمعی سے بتاتے ہوئے لفافہ اسے تھمایہ تو اس نے ناسمجھی سے پکڑ کر لفافہ کھول لیا۔
مجھے کون ۔۔۔کیا بھیج سکتا ہے۔بڑبڑاتے اس نے لفافے میں ہاتھ ڈالا،اور قدم وہیں گیٹ کے قریب اندر لان کیجانب بڑھا دئے۔
سنگی بنچ پہ بیٹھتے اس نے سخت سفید سطح کو دیکھا۔اور پلٹ دیا۔
کاغذ کی سطح کو پلٹتے ہی اس کے سامنے ایک بڑے سارے پوسڑکی شکل کی ایک تصویر تھی۔اور بالکل بھی ایسی نہیں تھی۔کہ اسے اس کے سوا کوئی اور دیکھتا۔بعض اوقات انسان ایسے زور دار اور غیر یقینی جھٹکے سے دوچار ہوتا ہے۔کہ وقتی طور پہ اس کی تمام حسیات مفلوج ہو جاتی ہیں۔اور اس کے لئے ہر ایک چیز اپنا مقصد کھو دیتی ہے۔وہ بس بے معنی و لا تعلقی کی سطح پہ آ ٹھہرتا ہے۔اس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔عزت جانے کا خوف اس قدر سخت تھا۔کہ اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کرے۔اور وہ اس ایک لمحے میں بے حس ہو گئی۔
اس کا جسم ساکن ہوا۔اور اوپر گویا برفباری ہونے لگی۔
سردی میں ایک دم سے شدت آ گئی۔اور اس کے وجود میں چونٹیوں کی سی سنسناہٹ ہونے لگی۔
اس نے بہت خالی نظروں سے اس پوسٹر کو دیکھا۔اور پھر اسے بغیر کسی خاص قسم کا تاثر دئے اپنے بیگ میں ڈال لیا۔وہ نہیں سمجھ رہی تھی۔کہ وہ اس لمحے کیا کر رہی ہے۔
اس نے ایک نظر ہوسٹل کی پُر شکن عمارت کو دیکھا۔اور بہت خاموشی سے قدم باہر گیٹ کی جانب بڑھا دئے۔اس کے چہرے پہ سوائے بے حسی کے اور کائی تاثر نہ تھا۔
:::::::::::::::
درود و سلام
درود و سلام مدح نگار: سید عارف معین بلے یہ احکم الحاکمین کا حُکم ہے کہ ان پر درود بھیجو...